Tumgik
#خیبر پختونخوا
urduchronicle · 8 months
Text
ہسپتالوں کے مالی بحران پر گورنر خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ کو خط
خیبرپختونخوا کی ہسپتالوں میں مالی بحران شدت اختیار کرگیا ہے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے مراکز صحت میں ایمرجنسی ادویات اور ضروری سامان ختم ہو گیا۔ گورنر خیبرپختونخوا نے فنڈز کی فراہمی کیلئے نگرا ں وزیر اعلیٰ کو خط لکھ دیا۔ خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتال میں ادویات اور طبی سامان کی قلت پیدا ہوگئی ہے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر مراکز صحت میں ایمرجنسی ادویات ناپید ہوگئی ہیں۔ گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 days
Text
علی امین گنڈاپور نےعمران خان سےکیادرخواست کی؟حنیف عباسی کابڑادعویٰ
پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما حنیف عباسی نےدعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے نعیم پنجوتھہ کے ذریعے عمران خان سےدرخواست کی تھی کہ جلسے سے ان کی جان چھڑائیں۔  رہنما ن لیگ حنیف عباسی کا کہنا تھاکہ تحریک انصاف دنیا بھرمیں ایکسپوز ہوچکی ہے جب جب ملک ترقی کرنے لگتا ہے پی ٹی آئی سازشوں پر اتر آتی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ انہوں نے 10 لاکھ لوگوں کو لانے کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ جلسہ…
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
کوئی تو سبق سیکھے
Tumblr media
عمران خان کی سیاست کا اصل ہدف اب بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ پہلے لڑائی اگر کھل کر لڑی جا رہی تھی اوراسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر براہ راست حملے کیے جا رہے تھے جس کا نکتہ عروج 9؍مئی تھا تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باوجود اپنی بڑی کامیابی کے بعد اب تحریک انصاف اور عمران خان نے اس لڑائی کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے۔ اب براہ راست لڑائی کی بجائے ایک سرد جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کا اختتام نجانے کیا ہو گا۔ 9؍مئی کے حوالے سے خیبر پختونخوا میں ریاست کی طرف سے سنگین الزامات کے شکار علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ خ��بر پختون خوا بنوا کر اسٹیبلشمنٹ کو پہلا واضح پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کی لڑائی جاری ہے۔ اس کے بعد اب محمود خان اچکزئی کی قومی اسمبلی میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دھواں دھار تقریر کے بعد اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر کے طاقت ور حلقوں کو دوسراپیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رہنمائوں کی تقریریں اور میڈیا ٹاک سنیں تو اُن کا اشاروں کنایوں میں اصل نشانہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ انتخابات سے پہلے تو اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے ٹوٹے ہوے رابطوں کو بحال کرنا تھا جس کا عمران خان بار بار اظہار کرتے رہے اور یہاں تک کہ الیکشن سے ایک دو ہفتہ قبل تک یہ شکایت کی کہ اُن سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی رابطہ نہیں کیا جا رہا۔ الیکشن میں تحریک انصاف کی بڑی کامیابی کے بعد عمران خان کی حکمت عملی کا اب کیا مقصد ہے؟ کیا اب وہ واقعی قانون کی حکمرانی اور اسٹیبلشمنٹ کو آئندہ کے لیے سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں یا اُن کی اب بھی کوشش یہی ہے کہ مقتدر حلقوں سے اُن کے رابطہ اور تعلقات بحال ہوں تاکہ اُن کے لیے موجودہ مشکلات سے نکلنے اور اقتدار میں آنے کا رستہ ہموار ہو سکے۔ عمران خان کی جدوجہد اگر واقعی قانون کی حکمرانی کے لیے ہے اور وہ واقعی اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اُن کو کھل کر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ 
Tumblr media
اُن کو اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت اور رابطوں کی بحالی کی خواہش کی بجائے اپنے ماضی کی غلطیوں، جہاں اُنہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کی، کو تسلیم کر تے ہوئے تجاویز دینی چاہئیں کہ پاکستان کی سیاست کو کیسے اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے دور رکھا جا سکتا ہے ابھی تک تو ہم دائروں کا سفر ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کبھی کوئی ایک سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنتی ہے تو کبھی کوئی دوسری۔ جب کسی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بن جاتے ہیں لیکن جیسے ہی موقع ملتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے سائے تلے سیاست اور اقتدار کے حصول کے لیے اپنے تمام اصول اور بیانیے بھول جاتے ہیں۔ میاں نوازشریف اور ن لیگ کے ’ ووٹ کو عزت دو ‘ کے نعرے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب تک عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کا واحد مقصد اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی دوبارہ حاصل کرنا تھا۔ 
کوئی شک نہیں کہ انتخابات میں مبینہ طور پر بڑی دھاندلی ہوئی جس کا اصل نشانہ تحریک انصاف تھی۔ اس سلسلے کو روکنے کے لیے سیاستدانوں کو ہی کردار ادا کرنا ہو گا جس کے لیے بار بار اپنے سیاسی مفادات اور حصول اقتدار کے لیے اُنہیں اپنے آپ کو استعمال ہونے سے روکنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت بنانے والی ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تو توقع نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کرنے کے اصول پر اس وقت بات کریں۔ لیکن کیا عمران خان اس اصول پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کا بھی یقین نہیں۔ بے شک عمران خان کے پاس ایک موقع ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینے کے خیال کو ترک کر دیں اور اپنی سیاسی لڑائی کو پرامن طری��ے سے عوام کی حمایت سے آئین و قانون کی حدود میں رکھیں۔ کوئی تو ہو جو سبق سیکھے!
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ  
1 note · View note
risingpakistan · 7 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
apnabannu · 9 months
Text
خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم پر حملے: بعض امیدواروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کے ساتھ تھریٹ الرٹ کیوں جاری ہوئے؟
http://dlvr.it/T0zdTC
0 notes
globalknock · 11 months
Text
نگراں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان انتقال کر گئے
پشاور: خیبر پختونخوا کے نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان انتقال کر گئے، جس کے بعد نگراں کابینہ بھی تحلیل ہو گئی۔ اعظم خان کو گزشتہ شب اسپتال لایا گیا تھا، جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ترجمان آر ایم آئی اسپتال کے مطابق اعظم خان کل رات دل کی تکلیف پر اسپتال لائے گئے۔ ان کی طبیعت رات ہی سے تشویش ناک تھی اور وہ عارضہ قلب میں بھی مبتلا تھے۔ رات بھر اعظم خان اسپتال میں زیر علاج رہے جہاں انہیں انتہائی نگہداشت وارڈ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
نواز شریف کی مقدمات سے بریت مشروط ہے
Tumblr media
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جونہی انتخابی شیڈول جاری کیا، نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے لازماً عام انتخابات کروائے گی اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لائیں، کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ نو مئی کے قانون شکن واقعات کے بعد درپیش صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف پر ان واقعات کی وجہ سے اب تک آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان اس لیے نظر آ رہا ہے کہ نگران حکومت اپنے محدود مینڈیٹ کے تحت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی انتخابی عمل میں شرکت کی بات ہے تو ان کے خلاف قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور قانون اس معاملے میں اپنا راستہ خود بتائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے آئینی ماہرین نے سائفر کیس میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل اختیارات کے تحت عدالت سے استثنیٰ مانگنے کی استدعا کی ہے۔ آئینی ماہرین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 کے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کے اخراج کی استدعا کر دی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے۔ اس کے برعکس میری رائے میں آئین کا آرٹیکل 248 اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز رہے۔ وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد اس نوعیت کے مقدمات عام شہری کی حیثیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جس کیس میں وہ سزا یافتہ ہیں، اس میں ان کے جیل جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں ان کی شرکت مقدمات میں بریت سے مشروط ہے۔ تاہم ان کی جماعت کے لیے انتخابات میں شریک ہونے میں کوئی رکاوٹ حاصل نہیں ہے۔ 
Tumblr media
قانونی ماہرین کا اتفاقِ رائے یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر گرفتاری فوراً ہو گی، تاہم توقع ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کو ایک ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے گی۔ پاکستان کا معاشی سفر بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے، سٹاک ایکسچینج نے چھ سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ اس پیش رفت میں پاکستان کے لیے بہت اچھے مواقع ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے پالیسی ساز اور عوام کی غالب تعداد، جو نوجوانوں پر مشتمل ہے، کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔  نوجوان ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جذباتی اور قومی وژن سے عاری ہی ہوں۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی کہ جمہوریت میں پارٹیاں اور لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں۔ ملک و قوم کو مضبوط معیشت کے لیے معاشی ترقی اور سیاسی نظام میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے سیاست دان میدان میں ہیں اور ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے وہ ماضی کے تنازعات پر نظرِثانی کریں۔ سوچیں کہ پاکستان کیسے دوسرے ممالک کی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔
ایشیا تو آگے بڑھ رہا ہے، اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے لیے سیاسی سطح پر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو 17 اکتوبر کو الیکشن کی ابتدائی تیاریوں کے حوالے سے طلب کر لیا ہے اور اگلے مرحلے پر پنجاب، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ حکام سے یہ بریفنگ لیں گے۔ میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے اور الیکشن کا شیڈول 30 نومبر کے بعد فوری طور پر جاری کر دیا جائے گا۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ امریکہ نے جس طرح سے کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور اپنے فوجی اثاثے اس کے حوالے کرنے کے لیے آمادہ ہے، اس سے شہ پا کر اس تنازع کا دائرہ کار سرحدوں سے باہر پھیلا کر دوسرے ملکوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے عالمی معیشت پر تو خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ہی اور اگر جنگ کے شعلے پاکستانی سرحدوں تک پہنچے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا تو پاکستان میں الیکشن موخر ہو سکتے ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں نگران حکومت کو تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔ 
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
umeednews · 1 year
Text
پاکستان سے متعلق دلچسپ حقائق جو بہت کم لوگ جانتے ہیں
کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں؟ شاید نہیں! ایسے کئی حقائق ہیں جن سے آپ واقف نہیں ہوں گے۔ یہاں درج ذیل ہم اپنے پیارے پاکستان کے بارے میں چند دلچسپ حقائق سے آپ کو آگاہ کریں گے۔ 1) پاکستان کا قومی مشروب گنے کا رس ہے۔ 2) چھانگا مانگا کا جنگل انسان کا بنایا ہوا دنیا کا سب سے بڑا جنگل تھا۔ 3) صوبہ خیبر پختونخوا میں آنسو کے قطرے کی طرح دِکھنے والی ایک جھیل واقع ہے جسے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingkarachi · 1 year
Text
میئر کراچی کا انتخابی معرکہ
Tumblr media
پاکستان کی بڑھتی بس پلتی مایوس اور مبتلائے عتاب و عذاب نئی نسل پر ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ کی یہ حقیقت تو اب مکمل بے نقاب ہے کہ : آئین پاکستان کا اطلاق فقط جیسے تیسے الیکشن سے تبدیلی و تشکیل حکومت تک محدود رہا ہے۔ جمہوریت کا یہ لبادہ بھی مملکت کو جمہوری ہونا تو کیا منواتا اس سے متصادم ادھوری سی قوم اور دنیا بھر میں ہم مارشل لائوں کی بے آئین سرزمین، مسلسل عدم استحکام میں مبتلا جھگڑالو اور غیر منظم ریاست اور قوم سمجھے گئے۔ اپنی تاریخ کے سیاسی ریکارڈ حقائق و ابلاغ میں بھی اور دنیا کی نظر میں بھی۔ کج بحثی اور جھوٹے جواز کی آڑ لینا الگ اور یکسر منفی رویہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہی سچ ہے پہاڑ جیسی اٹل حقیقت آئینی و سیاسی جھگڑے میں پاکستان کا فقط 24 سال میں ہی دولخت ہو جانا اور ملکی موجود گمبھیر صورتحال ہے جس کے بڑے فیصد کی تشکیل گزرے تیرہ ماہ میں ایسے ہی سیاسی فساد اور آئین سے بدترین سلوک سے ہوئی۔ پاکستان کا قیام تو بلاشبہ، متعصب ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں رہتے، بدلے زمانے کی حقیقتوں کے ساتھ اکابرین مسلمانان ہند کا جدید دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا کارنامہ تھا ہی سرسید، اقبال و قائد کی دور بینی علمی و عملی جدوجہد اور رہنمائی اور تاریخ پاکستان کے سنہری ابواب ہیں۔ 
قائداعظم کو اگر حاصل منزل کے بعد نومولود مملکت کو سنبھالنے اور ارادوں اور تصورات کے مطابق بنانے کی مہلت نہ ملی تو اس کا راستہ تو وہ تین الفاظ اتحاد، ایمان، تنظیم کے کمال روڈ میپ کے ساتھ پھر بھی دکھا گئے۔ اگلی تاریخ (ایٹ لارج) اس سے مختلف سمت میں چلنے کی ہے۔ یہ ہے موجود بدترین ملکی سیاسی و آئینی و انتظامی بحران، جس میں ایک بہت مہلک قومی ابلاغی بحران کے جنم کا اضافہ ہوا ہے، کا پس منظر ایسا نہیں کہ قائد کی رخصتی کے بعد قوم مکمل ہی گمراہی میں چلی گئی، جب کبھی اتحاد، ایمان و تنظیم کا دامن پکڑا، بگڑتی قوم کے نصیب جاگ گئے، پاکستان سنبھلا اور نیک نامی اور بہت کچھ پایا، لیکن آئین سے روگردانی، بار بار اسے توڑنے پھوڑنے اور اپنی سیاست کے لئے اس سے کھلواڑ کو سیاست دانوں، جرنیلوں اور ججوں نے اپنے اپنے دائروں سے باہر نکل کر وہ کھلواڑ کیا کہ ملک بھی آدھا گیا اور اگلے عشروں کے سفر میں آج وینٹی لیٹر پر نہیں بھی تو آئی سی یو میں تو ہے اور تیرہ مہینے سے ہے۔
Tumblr media
پاکستانی بیش بہا پوٹینشل ایسے ٹیسٹ ہوا کہ اتحاد، ایمان اور تنظیم مطلوب سے بہت کم مدتی مقدار میں ہوتے بھی ایٹمی طاقت بن گیا، پانچ گنا دشمن کے حملے کا کامیاب دفاع کیا، طویل العمر آمرانہ ادوار میں بڑی جمہوری و پارلیمانی قوتوں اور تحریکوں کی تشکیل و تنظیم ہوتی رہی۔ اور بہت کچھ۔ لیکن اس سے مکمل جڑی تلخ حقیقت ملک و آئین شکنی سے لے کر بنے بنائے چلتے چلاتے پاکستان پر قابض مافیہ راج (OLIGARCHY) کے مسلسل حملوں سے ہوئے بار بار ڈیزاسٹر ہیں۔ شاخسانہ پوری قوم کو خوف و ہراس اور سب اداروں کو تقسیم و مسلسل دبائو میں مبتلا رکھنے والا سیاسی و آئینی اور انتظامی و ابلاغی بحران جاری ہے۔ ماہرین آئین وسیاسیات حتمی رائے دے رہے ہیں کہ حکومتی سیاسی کھلواڑ سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کو روکنے، عدلیہ کو دھونس دھاندلی سے نیم جامد کرنے اور دونوں صوبوں پر مکمل حکومت نواز فسطائیت اخیتار کی قطعی غیر آئینی نگراں حکومتوں کے تسلط سے ملکی آئین ٹوٹ چکا۔ چلیں! اتنی معتبر اور پیشہ ورانہ آرا سے بھی اختلاف کر کے ہم اختتام آئین کی بار بار علانیہ بلکہ چیخ پکار سے آئی ماہرین کی اس رائے سے جزوی اختلاف کرکے اتنا مان لیتے ہیں کہ آئین وزیر دفاع کی رائے (کے مطابق بھی نہیں) ملک وینٹی لیٹر پر بھی نہیں، بلکہ آئی سی یو میں ہے۔ اتنا تو ماننا ہی پڑے گا، وہ بھی فقط اس لئے کہ گردو نواح سے ظہور پذیر ہوتے مواقع حوصلہ دلاتے ہیں کہ بیمار بحال ہو سکتا ہے۔
15 جون 2023ء کو آئی سی یو میں سسکتے آئین کا ایک حساس ٹیسٹ ہونے والا ہے۔ اس کا نتیجہ آنے والے سالوں میں واضح طور پر ملکی قومی صحت کے بہتر ہونے یا بگڑنے کا تعین کرے گا۔ تین روز بعد کراچی کے میئر کے انتخاب کا سیاسی معرکہ ہونے والا ہے۔ ’’معرکہ‘‘ اس لئے کہ یہ کوئی معمول کا انتخاب نہیں، آئین کی بنتے ہی بڑی خلاف ورزی، جو اب تک ہو رہی ہے یہ ہوتی رہی اور جاری ہے کہ آئین میں جمہوریت کی تین بنیادی جہتوں (قومی، صوبائی اور مقامی منتخب حکومتوں کا قیام) میں سے عوام الناس کے حقوق و مفادات کی عکاس ’’مقامی حکومتوں کے نظام‘‘ کو سول منتخب حکومت نے غصب کر کے آئینی لازمے کے مطابق معمول بننے ہی نہیں دیا ۔ مارشل لائوں میں ہی سول سپورٹ لینے کے لئے اس پر عملدرآمد کر کے مارشل لا رجیمز کو ہضم کرنے میں بڑے فیصد کی مدد لی گئی۔ ایوبی دور تو اس کا مخصوص ماڈل (بی ڈی سسٹم) قائم کر کے ہی فرد واحد کی حکومت کو ’’جمہوری‘‘ بنا دیا گیا، جو خاصا ہضم ہو گیا تھا۔ آئین سے منحرف ہوتے بلدیاتی اداروں کے قیام کو روکے رکھنے کا سب سے متاثرہ شہر، شہر عظیم کراچی اور دیہی سندھ ہے۔ کراچی کی تیز تر ترقی ہو کر بھی اسی کھلواڑ سے ریورس رہی اور دیہات پسماندہ ہی رہے۔ 
موجود سندھ حکومت کے تو بس میں نہیں کہ وہ کوڑا اٹھانے، پانی کی تقسیم، نالوں کی صفائی، ٹرانسپورٹ ہر ہر عوامی سروس اپنے ہی اختیار میں رکھے اور رکھ کر بھی کچھ نہ کرے۔ کراچی کی واضح حالت زار کے سینکڑوں ثبوت ریکارڈ پر ہیں۔ اب بھی جو بلدیاتی انتخاب جماعت اسلامی کی جدوجہد اور عدالتی فیصلوں سے ممکن ہوا اس میں بڑا کھلواڑ مچا کر اکثریتی جماعت اسلامی کے واضح منتخب ہوتے میئر کا راستہ روک کر، میئر کی جگہ اپنے مسلط کئے سابق ایڈمنسٹریٹر کو ہر حالت میں میئر بنانے کے لئے ہر غیر جمہوری اور غیر آئینی و غیر قانونی حربہ استعمال ہو رہا ہے، جیسے چار مرتبہ انتخاب کا التوا۔ الیکٹرول کالج میں چمک کے استعمال (ہارس ٹریڈنگ) سے لے کر سیاسی مخالف کونسلروں کے اغوا اور غائب ہونے کی خبروں، ثبوتوں اور الزامات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔ خصوصاً تحریک انصاف سے جماعت اسلامی کے میئرشپ کے انتخاب پر اتحاد کے بعد تو کوئی راہ نہیں بچی کہ پی پی کا میئر منتخب ہو لیکن صوبائی وزراء کے دعوئوں کے مطابق 100 فیصد ان کا میئر بننے والا ہے۔ پی پی اپنے جمہوری ہونے کی دعویدار تو بہت ہے لیکن اس کا ہی نہیں اصل میں تو زخمی آئین کا ٹیسٹ ہونے کو ہے۔ 15 جون کا یہ انتخابی معرکہ پاکستان میں شدت سے ملک میں مطلوب آئینی عمل کی بحالی کا نکتہ آغاز بھی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر آئی سی یو میں پڑے مریض کی حکومتی مرضی سے بنی کوئی ٹیلر میڈ رپورٹ آگئی تو کراچی ہی نہیں پورے ملک پر اللّٰہ رحم فرمائے۔ وماعلینا الالبلاغ ۔
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
الیکشن کے بعد خیبر پختونخوا کا سیاسی نقشہ
   کامل دس سالوں تک دائیں بازو کی ملک گیر جماعت پی ٹی آئی کے تصرف میں رہنے کے باعث خیبرپختونخوا کی سیاسی حرکیات بدل گئیں اور پشتون قوم پرستی کا وہ مرکز گریز بیانیہ کافی حد تک معدوم ہو چکا،جس کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی چار و ناچار جگالی کرنا پڑتی تھی لیکن بدقسمتی سے رواں الیکشن میں پھر حالات کا جبر اُسی پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے والا ہے جس نے مغربی سرحدات سے منسلک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 26 days
Text
کیاپی ٹی آئی سے اپنے مخالفین کو نکالنے والا گنڈاپور خود بھی فارغ ہو جائے گا؟
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات بڑھنے کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کی حکومت پرمبینہ کرپشن کے الزامات اور سینیئر وزیر کے استعفے کے بعد صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی رہنماؤں میں فاصلے ہر گزرت دن کے ساتھ بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، جس کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین کی جانب سےاراکین صوبائی و قومی اسمبلی سے اعتماد کے اظہار کے لیے اقرار نامے حاصل…
0 notes
shiningpakistan · 7 months
Text
پی ٹی آئی ووٹرز کا انتقام
Tumblr media
الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر، سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلے کے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔ گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـ بدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ 
دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی ا��لاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔
Tumblr media
تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیں کر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانے پر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بنا سکتی ہے۔ 
اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی، حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہو گا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 10 months
Text
پولیس اور عدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین اداروں میں شامل
Tumblr media
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ہفتے کو جاری کردہ اپنی قومی کرپشن کا تناظری سروے 2023 سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ پاکستان کے تین کرپٹ ترین ادروں میں سے ایک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے، اس کے بعد ٹھیکے دینے اور کٹریکٹ کرنے کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب چوتھے اور پانچویں کرپٹ ترین شعبے ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب چھٹے، ساتویں اور آٹھویں کرپٹ ترین ادارے ہیں۔ پبلک سروس ڈیلیوری کی ٹرمز کے مطابق عدلیہ میں رشوت کا اوسط خرچ سب سے زیادہ 25 ہزار 846 روپے ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں او��ط رشوت سب سے زیادہ تھی اور یہ ایک لاکھ 62 ہزار روپے تک تھی۔ پنجاب میں اوسط شہری نے زیادہ سے زیادہ رشوت 21 ہزار 186 روپے ادا کی اور یہ بھی پولیس کو دی جبکہ بلوچستان میں صحت کی سہولتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اوسط رشوت دی گئی جو کہ 1 لاکھ 60 ہزار روپے تھی۔  این سی پی ایس 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانیوں کو یقین ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے ادارے سیاسی شکار کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
Tumblr media
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 60 فیصد پاکستانی قومی سطح پر محسوس کرتے ہیں کہ نیب، ایف آئی اے، اے سی ای اور محتسب جیسے احتسابی ادارے ختم کر دینے چاہئیں کیونکہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی سطح پر 75 فیصد شہری سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس بہت طاقت اور اثر ورسوخ ہے جس سے کرپشن ہوتی ہے۔ 36 فیصد شہری اکثریت کا خیال ہے کہ انسداد بدعنوانی کے اداروں کا کردار ’ غیر موثر ‘ رہا ہے۔ قومی سطح پر کرپشن کے بڑے مقدمات میں 40 فیصد میرٹ کی قلت ہے۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42 فیصد، خیبر پختونخوا میں 43 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ میرٹ پر کام نہیں ہوتے۔ پنجاب میں 47 فیصد سمجھتے ہیں کہ بیوروکریسی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی بڑی وجہ ہے۔ کرپشن کو کچلنے کے اقدامات کے طور پر 55 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہےکہ قومی سطح پر حکومت کو فوری طور پر سرکاری افسران کے اثاثوں کا اظہار اپنی ویب سائٹس پر انکشاف یقینی بنانا چاہیے اور 45 فیصد کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں کو کرپشن کے مقدمات 30 دن اندر بھگتانے چاہئیں۔
قومی سطح پر 47 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ کرپشن پاکستان کی ترقی کا راستہ روکنے کی بڑی وجہ ہے۔ 62 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ کرپشن اور غیر اخلاقی افعال ماحولیاتی تباہی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو بڑھانے کی وجہ ہیں، 67 فیصد محسوس کرتے ہیں کہ صوبائی اور مقامی حکومتیں ماحولیاتی پالیسیاں بناتے ہوئے ان کے خیالات کو اہمیت نہیں دیتیں۔ قومی سطح پر 76 فیصد پاکستانیوں نے کبھی رائٹ ٹو انفارمشین کے تحت کوئی درخواست نہیں دی۔ ٹی آئی پی کے مطابق گزشتہ 23 برس میں 8 مرتبہ کرپشن پرسیپشن سروے کیا گیا ہے جو کہ 2002، 2006 ،2009 ،2010 ،2011 2021 ، 2022 اور 2023 میں ہوا تھا۔ این سی پی ایس 2023 کا پرسیپشن لیول پاکستانیوں کے تاثر پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس تنظیم نے یہ سروے اپنی پارٹنر آرگنائزیشنز کے تعاون سے چوروں صوبوں میں 13 اکتوبر 2023 سے 31 اکتوبر 2023 تک 1600 شہریوں سے کیا تھا اور ان میں سے ہر صوبے میں سے 400 افراد سے ردعمل حاصل کیا
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
الیکشن کمیشن کا خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات بارے اجلاس
http://dlvr.it/St6PLx
0 notes
ikarachitimes · 2 years
Text
ملک کے مختلف شہروں میں رات کو آنے والے 6.8 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں 9 افراد جاں بحق اور 44 زخمی ہوگئے۔ زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد، لاہور، پشاور، جہلم، شیخوپورہ، سوات، نوشہرہ، ملتان، سمیت دیگر شہروں میں بھی محسوس کیے گئے تھے https://t.co/2IcWqrwYaU
ملک کے مختلف شہروں میں رات کو آنے والے 6.8 شدت کے زلزلے کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں 9 افراد جاں بحق اور 44 زخمی ہوگئے۔ زلزلے کے جھٹکے اسلام آباد، لاہور، پشاور، جہلم، شیخوپورہ، سوات، نوشہرہ، ملتان، سمیت دیگر شہروں میں بھی محسوس کیے گئے تھے https://t.co/2IcWqrwYaU
— Karachi_Times (@Karachi_Times) Mar 22, 2023
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
1 note · View note
emergingpakistan · 2 years
Text
توشہ خانے میں نقب لگانے والے حکمراں
Tumblr media
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو۔ جس دن وہ (مال) دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔‘‘( سورۃ التوبہ۔ آیت 35-34۔ مضامین قرآن حکیم، مرتّبہ: زاہد ملک) ٭... خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے سوال کیا جارہا ہے کہ جو چادریں بانٹی گئی تھیں۔ اس میں تو آپ کا کُرتا نہیں بن سکتا تھا۔ یہ اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ وہ جواب دے رہے ہیں کہ جو چادر ان کے بیٹے کے حصّے میں آئی تھی۔ وہ استعمال کی گئی۔ تاریخ اسلام گواہی دے رہی ہے کہ اس وقت کے خلیفہ سے بھی آمدنی سے زیادہ کے اثاثے پر سوال کیا جاسکتا تھا۔ اور وہ جواب دینے کے پابند بھی تھے۔ ٭... حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مملکت کا کام ختم ہو رہا ہے۔ تو وہ سرکاری چراغ بجھا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مال سے جلنے والا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ ٭... کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس کا نام بھی منتخب نمائندوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ طے کیا۔ مگر اب 75 ویں سال میں مناظر کیا ابھر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 
قائد اعظم جب بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کی جدو جہد کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس مملکت ِخداداد میں ایسے حکمراں آئیں گے۔ جو ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو لالچ بھری نظروں سے دیکھیں گے ان کے ہتھیانے کے لئے خود ہی قوانین بنائیں گے اور ہر ایک ان قومی امانتوں میں خیانت کرے گا۔ چاہے وہ پانچ سال کے لئے حکمران ہو۔ چاہے منتخب ہو کر آیا ہو۔ چاہے اس نے بزور اسلحہ ملک پر قبضہ کیا ہو چاہے وہ نگراں وزیر اعلیٰ ہو۔ 90 دن کے لئے آیا ہو۔ واہگہ سے گوادر تک کے مفلس عوام چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، صدور اور وزرائے اعظم کی بیگمات، بیٹے، بیٹیاں توشہ خانے کو مال غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ کسی جنگ کسی فتح کے بغیر۔ ہر محاذ پر پسپا ہو رہے ہیں۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں قافلے آرہے ہیں۔ بہار سے، یوپی سے، دہلی سے، مشرقی پنجاب سے۔ سکھوں کے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں۔ 
Tumblr media
ہندو بلوائی نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں غلامی سے آزادی کی طرف پیدل سفر کرتے، بسوں میں، ریل گاڑیوں میں، کافروں کی یلغار میں مارے جارہے ہیں لیکن پاکستان ان کی آرزو ہے۔ وہ نہتے گھر بار چھوڑ کر آرہے ہیں۔ یہاں رہنے والے پاکستانی ان کے لئے اپنے گھر پیش کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ اتنی قربانیوں سے حاصل کئے گئے ملک میں ایسے لالچی۔ اخلاق باختہ حکمراں آئیں گے۔ اس ملک سے پانچ گنا زیادہ آبادی۔ زیادہ اسلحہ رکھنے والے ملک بھارت نے پاکستان کو اپنا ٹوٹنا خیال کیا ہے۔ اپنے جسم سے حصّہ الگ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کشمیر پر قابض ہو گیا ہے۔ 1948 میں ہمارے جانباز کشمیر کے حصول کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اب اس ملک کے حکمراں گھڑیوں، گاڑیوں، ہاروں، بیڈ شیٹوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ پھر 1965 ء کی تاریک راتیں یاد آرہی ہیں۔ جب ہمارے نوجوان مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اپنے خون سے کر رہے ہیں۔ وہ جس مملکت کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہیں۔ 
جن کے بچے یتیم ہورہے ہیں۔ جن کی رفیقہ ہائے حیات جوانی میں بیوہ ہو رہی ہیں۔ اس ملک کا توشہ خانہ ان حکمرانوں کیلئے مفتوحہ خزانہ بنا ہوا ہے۔ ایک لمحہ بھی ان میں سے کسی کو خیال نہیں آتا کہ یہ تحائف قوم کی امانت ہیں۔ جو دوسری قوموں نے پاکستانی قوم کو دیے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے تحائف کو چند روپوں کے عوض گھر لے جاتے ہوئے انہیں یہ شہدا یاد نہیں آئے۔ یہ روپے بھی خبر نہیں انہوں نے اپنی جیب سے دیے ہیں۔ کیا یہ بھی سرکاری فنڈ سے تو نہیں دیے تھے۔ 1971 ء کا عظیم المیہ ذہن پر حاوی ہو رہا ہے۔ اپنے گھروں سے ایک ہزار میل دور ہمارے بریگیڈیئر، کرنل، میجر، کپتان عام سپاہی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس ملک کی ایک ایک انچ سر زمین کیلئے اپنے جسم کو ڈھال بنارہے ہیں۔971 کے ان خونیں مناظر نے 1971 سے اب تک آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے تحفوں کی طرف بڑھتے ہاتھوں پر لرزہ طاری نہیں کیا۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جہاں جمہوریت اور حقیقی آزادی کیلئے جدو جہد 1947 سے ہی جاری ہے۔ 1971 کے بعد آدھے پاکستان میں بلوچستان کے نوجوانوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔
سندھو دریانے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو سندھ میں کتنی سفاکی برداشت کرتے دیکھا ہے۔ خیبر پختونخوا جو پہلے سرحد تھا۔ وہاں کتنے نوجوانوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مظالم برداشت کئے ہیں۔ پنجاب کے میدانوں چوراہوں میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ لاٹھی چارج آنسو گیس پھر بھی عشاق کے قافلے بڑھ رہے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی وادیوں میں لائن آف کنٹرول پر خون بہہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان والے اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سرگرم ہیں۔ یہ اسی دیس کا توشہ خانہ ہے۔ جہاں دہشت گردوں نے 80 ہزار سے زیادہ ہم وطنوں سے بم دھماکوں، فائرنگ، خودکش بم حملوں سے زندگی چھینی ہے۔ سیاسی کارکنوں کی طویل جدو جہد، بے خوف سرگرمیاں ہی اس مملکت کو سلامت رکھے ہوئے ہیں۔ اس تگ و دو کے نتیجے میں ہی توشہ خانے سے گرانقدر تحائف کوڑیوں کے عوض حاصل کرنیوالے حکمراں بنے ہیں۔ سلام ہے اس جج کو، آفریں ہے ان اعلیٰ عدالتوں پر، جنہوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ امانت میں خیانت کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروا دیے ہیں۔ اب قوم منتظر ہے کہ 1947 سے 2002 کے خائنوں کے اعداد و شُمار بھی سامنے آئیں۔ ایسا ممکن نہ ہو تو 1985 سے 2002 تک کے نام تو ریکارڈ پر آئیں۔ واہگہ سے گوادر تک کے مجبور پاکستانیوں کی درخواست یہ بھی ہے کہ ملک پر ہزاروں ارب روپے کے جو قرضے ہیں۔ اس کی فہرست بھی مرتب کی جائے کہ یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے۔ کن کی جیبوں میں گئے۔ اگر کوئی انفرااسٹرکچر بنا ہے تو اس کی لاگت کیا تھی۔ باقی قرضہ کہاں گیا۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes