Tumgik
#زریں
amiasfitaccw · 8 months
Text
Tumblr media
کبھی یہ نامیاتی مواد صرف پاخانے کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن اب باقاعدہ طور پر ایک زریں اثاثے کی صورت اختیار کر گیا ھے ۔۔۔ جتنا بڑا اور گول ھو گا اتنی ہی مارکیٹ بھی زیادہ ہوگی
6 notes · View notes
secretsoftheocean · 3 months
Video
youtube
10بہترین اقول زریں
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
میں کس کو ووٹ دوں؟
Tumblr media
آج الیکشن کا دن ہے اور میں الجھن میں ہوں کہ کس کو ووٹ دوں۔ میری پہلی پہلی پریشانی یہ ہے کہ میرے حلقے میں سارے امیدوار ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ سنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران نے آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت باقاعدہ چھانٹی کے بعد یہ طے کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ مجھے تو آج تک معلوم ہی نہیں تھا کہ ایسی نیک ہستیاں اتنی بڑی تعداد میں میرے حلقے میں رہتی ہیں۔ میں اب سر پکڑ کر بیٹھا ہوں کہ اتنے ڈھیر سارے اللہ والوں میں سے کس کو ووٹ دوں اور کس کو نہ دوں۔ کافی سوچنے کے بعد فیصلہ کیا کہ سب کو ووٹ دینا چاہیے لیکن معلوم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ ایک ماہر قانون سے رابطہ کیا کہ کوئی قانونی گنجائش نکالو تا کہ سب بزرگوں کو ووٹ دے سکوں تو اس نے کہا کہ جو تم چاہتے ہو یہ تو نہیں ہو سکتا البتہ اس نے مفت قانونی مشورہ دیا ہے کہ میں پولنگ سٹیشن جانے کی بجائے کسی اچھے طبیب کے پاس چلا جاؤں۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ میں ووٹ ڈالنے جاؤں یا طبیب کے پاس جاؤں۔
دوسری پریشانی یہ بنی کہ ابھی ابھی ایک سیانے نے بتایا ہے کہ ووٹوں سے بننے والا وزیراعظم یہاں کامیاب ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے حکمت اسی میں ہے کہ صرف نگران وزیراعظم کو منتخب کیا جائے۔ اس نے سمجھایا کہ منتخب وزیراعظم پانی کا بلبلہ ہوتا ہے۔ اس بے چارے کی حکومت مدت ہی پوری نہیں کر پاتی اور بعد میں وہ سیدھا جیل جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ صرف اس کو ووٹ دوں گا جو نگران وزیراعظم بننا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ ووٹ سے نگران وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ ووٹوں سے صرف منتخب وزیراعظم بنتے ہیں۔ اب سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے ان برگزیدہ لوگوں میں سے کسی کو ووٹ دے کر مصیبت میں ڈالنا چاہیے؟ ابھی اسی شش و پنج ہی میں تھا کہ ایک سیانے نے بتایا کہ ووٹ ڈالنے والا آدمی اہم نہیں ہوتا ووٹ گننے والا اہم ہوتا ہے۔ میں نے اس افواہ پر کان تو بالکل نہیں دھرے لیکن سچی بات ہے کہ اپنی اس ناقدری پر دل کچھ پھیکا سا ہو گیا ہے۔ اسی پریشانی میں سوچا کہ نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب کی تقریر سنتا ہوں اور جو مشورہ یہ دیں گے، اس پر عمل کروں گا۔ 
Tumblr media
بلاول صاحب فرمانے لگے کہ پرانے سیاست دانوں کو ہرگز ووٹ نہ دینا اور میاں صاحب نے حکم دیا کہ باریاں لینے والوں کو تو بالکل بھی ووٹ نہ دینا۔ میں نے ان دونوں کی بات پلے باندھ لی اور ان دونوں کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ میری الجھن مزید بڑھ گئی کہ اب کیا کروں۔ ایک خیال آیا کہ اب لگے ہاتھوں عمران خان صاحب کا خطاب بھی سن لوں اور پھر فیصلہ کر لوں کہ ووٹ کسے دینا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی سماعتوں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ یہ عزیمت کا سفر ہے اور اب مزید ان کے بس کی بات نہیں۔ پھر سوچا میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دے دیتا ہوں لیکن معلوم ہوا کہ ان کا تو مخاطب ووٹر ہی صرف ایک مکتب فکر ہے، ان کے امیدواران کی اکثریت بھی اسی پس منظر سے ہے۔ انہیں ایک عامی کے ووٹ کی جب ضرورت ہی نہیں تو مجھے اس تکلف سے انہیں بد مزہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر میں نے مختلف جماعتوں کے منشور دیکھے، یہ اقوالِ زریں کا خوب صورت مجموعہ تھے۔ میں اتنا متاثر ہوا کہ میں نے ایک بار پھر سب جماعتوں کو ووٹ دینے کا سوچا مگر یاد آ یا کہ اس کی تو اجازت ہی نہیں۔
روایتی سیاست سے بے زاری تھی مگر تبدیلی کے سونامی نے جو تارا مسیحائی کی تو سارے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ اب وہ عالم بھی نہیں ہے کہ کوئی نعروں اور جذبات سے بے وقوف بنا لے کیونکہ اب سبھی کا نامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ سبھی اقتدار میں رہ چکے اور سبھی کم و بیش ایک جیسے نکلے، بلکہ جنہیں تبدیلی کا دعویٰ تھا ان کے دستِ ہنر نے اس معاشرے کو دوسروں سے زیادہ گھاؤ دیے۔ بھٹو صاحب زندہ ہیں لیکن اتفاق دیکھیے کہ ان سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ جہاں جہاں شعور کی سطح بڑھتی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کا وجود سمٹتا جا رہا ہے۔ ووٹ کو عزت کیسے دینی ہے یہ اب کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ جو دوسروں کے نامہ سیاہ کی تیرگی تھی وہ اپنی زلف میں آئی تو ضد ہے کہ اسے حسن کہا جائے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو حسبِ ضرورت اسلام دشمن قرار دے کر دونوں کی قربت میں رہنے والے مولانا ویسے ہی اقتدار کے کوہ کن ہیں، حکومت کسی کی بھی ہوئی کابینہ میں ان کا حصہ بقدر جثہ یقینی ہے۔ تبدیلی ویسے ہی ایک بھیانک خواب نکلی۔ سونامی، اسم با مسمی ثابت ہوا۔
اب پھر ووٹ کس کو دیا جائے اور کیوں دیا جائے؟ اگر آپ میری رہنمائی کر دیں تو ابھی جا کر جلدی سے ووٹ ڈال کر اپنا قومی فریضہ ادا کر آؤں۔ لیکن اگر آپ میری رہنمائی نہ بھی فرمائی تو آپ کی عین نوازش ہو گی کیونکہ خوش قسمتی سے یہ سب وہ لوگ ہیں جو آرٹیکل 62 کے تحت مستند قسم کے نیک پاک ہیں، اللہ والے ہیں، پارسا، سمجھدار ، ایماندار اور امین ہیں۔ فاسق نہیں ہیں، اچھے کردار کے حامل ہیں، اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہیں، اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہیں اور کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ ان میں سے جو بھی جیت جائے، فتح حق کی ہو گی۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
pakistantime · 5 months
Text
کیا تحریک انصاف کو اس کے وکیلوں نے مروایا؟
Tumblr media
تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی ؟ بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔ یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔
سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔  ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا فائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔ 
Tumblr media
یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹرا پارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔
انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟ کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبا مرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔
الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟ پارٹی کا آئین بدلا جائے تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟
اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
آصف محمود 
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
0 notes
urduhindipoetry · 6 months
Video
Golden Words | आखिरी वचन |اقوالِ زریں #motivationalquotes #quotes #urdu...
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
کیا اقوام متحدہ اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے؟
Tumblr media
لیگ آف نیشنز کی طرح کیا اقوام متحدہ بھی اپنی طبعی عمر مکمل کر چکی ہے اور کیا اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا ایک نئے عالمی نظام کے قیام پر غوروفکر شروع کر دے؟ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی خرابی اس کی تعمیر میں مضمر ہے۔ بظاہر یہ اقوام عالم کا مشترکہ فورم ہے، جہاں تمام ریاستیں برابر ہیں لیکن عملاً یہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین کا بندوبست ہے جہاں جارج آرویل کے ’اینیمل فارم‘ کی طرح کچھ اقوام کچھ زیادہ برابر ہیں۔ یہی خرابی لیگ آف نیشنز میں بھی تھی۔ بظاہر وہ بھی بین الاقوامی ادارہ تھا لیکن سامنے کی حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی پہلی عالمی جنگ کے فاتحین کا قائم کردہ بندوبست تھا۔ اسی وجہ سے سے لیگ آف نیشنز بھی ناکام ہوئی اور یہی وہ خرابی ہے جس نے اقوام متحدہ کو بھی لاچار اور بے بس کر دیا ہے۔ ان دونوں اداروں کے زیرانتظام جو بین الاقوامی قانون بنا وہ بھی اپنی اصل حالت میں بین الاقوامی نہیں ہے، اس پر بنیادی طور پر مغربی اقوام کی فکر کار فرما رہی ہے۔ ان ہی مغربی اقوام کے باہمی معاہدے درجہ بدرجہ بین الاقوامی قانون کہلائے اور اس قانون کی صورت گری میں دو تہائی سے زیادہ دنیا کا سرے سے کوئی کردار ہی نہ تھا۔
اقوام متحدہ کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارہ انصاف اور برابری کے اصول پر نہیں کھڑا بلکہ یہ کنگ الفریڈ کے قدیم انگلستان کی طرح جاگیردارانہ خطوط پر استوار ہے۔ اقوام متحدہ نے دنیا کو پانچ بڑے جاگیرداروں میں تقسیم کر رکھا ہے اور انہیں ویٹو پاور دے رکھی ہے۔ جنرل اسمبلی میں اقوال زریں کی حد تک ساری اقوام برابر ہیں لیکن سلامتی کونسل میں جہاں عملی اقدامات لینے ہوتے ہیں وہاں سب برابر نہیں ہیں۔ وہاں پانچ عالمی جاگیردار ضرورت سے زیادہ برابر ہیں اور باقی کی دنیا ان کے مزارعین پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کا امن اور انصاف ک�� تصور یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ایک عادلانہ نظام قائم ہو بلکہ اس کا امن اور انصاف کا تصور یہ ہے کہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کوئی خفا نہ ہو۔ یہ پانچ قوتیں باہم ٹکرا نہ جائیں، اس کا نام عالمی امن اور سلامتی ہے۔ باقی کی دنیا چاہے خون میں نہا جائے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ چنانچہ کسی بھی ملک کے خلاف اس وقت تک طاقت استعمال نہیں کی جا سکتی جب تک یہ پانچوں ملک متفق نہ ہو جائیں۔ ان میں سے کوئی ایک ملک بھی ویٹو کر دے تو پھر چاہے ساری دنیا ایک طرف ہو، پھر چاہے فلسطین میں نسل کشی ہوتی رہے اور چاہے جنرل اسمبلی بار بار قراردادیں لاتی رہے، سلامتی کونسل طاقت استعمال نہیں کر سکتی۔
Tumblr media
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ قانون کی عمل داری سے محروم قدیم جاگیردار معاشروں کی طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کسی بھی کمزور اور محکوم ملک کے لیے اقوام متحدہ اور اس کا قانون سہارا نہیں بن سکتا۔ ریاستوں کے لیے امان اب اسی میں ہے کہ وہ ان پانچ عالمی جاگیرداروں میں سے کسی ایک کی سرپرستی میں آ جائیں۔ ویٹو پاور کا حامل ملک پشت پر کھڑا ہو تو اقوام متحدہ اور عالمی قانون آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ مسلم دنیا کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے۔ چونکہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں مسلمان دنیا شکست خوردہ تھی، اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کو ویٹو سے محروم رکھنا محض اتفاق ہے یا اس میں کچھ اہتمام بھی شامل ہے ؟ اپنی بنیادی ساخت کی اس کمزوری کو، اقوام متحدہ اپنے طرز عمل سے دور کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عراق جیسے ملک سے معاملہ ہو تو اقوام متحدہ کی دو قراردادووں کی پامالی پر اسے روند دیا جاتا ہے اور اسرائیل جیسے ملک سے واسطہ پڑ جائے تو جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی ڈھیروں قراردادوں کی پامالی کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا اور اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بے بسی کی تصویر بن جاتا ہے۔
اسی طرح خود اقوامِ مغرب کا طرز عمل بھی یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کو صرف وہاں خاطر میں لاتے ہیں جہاں ان کے مفاد کا تقاضا ہو۔ جہاں ان کا مفاد کسی اور چیز کا تقاضا کرے، یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے ضابطوں کو پامال کر دیتے ہیں بلکہ یہ متبادل راستے بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ سلامتی کونسل کی مسلمہ بین الاقوامی قوت کے ہوتے ہوئے نیٹو کے ذریعے کارروائیاں کرنا اور اقوام متحدہ سے بالاتر ایف اے ٹی ایف کا عالمی مالیاتی نظام وضع کرنا اسی متبادل کی علامات ہیں۔ لیگ آف نیشنز سے اقوام متحدہ تک، ان دونوں اداروں کی عدم فعالیت، یک رخی اور تضادات کا حاصل یہ ہے کہ اب دنیا کو ایک نئے ادارے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو عالمی جنگ کے فاتحین کا کلب نہ ہو بلکہ اقوام عالم کا حقیقی نمائندہ ادارہ ہو، جہاں کچھ اقوام کے ہاتھ میں ویٹو کی اندھی طاقت نہ ہو بلکہ تمام اقوام کو یکساں عزت اور توقیر حاصل ہو اور جس کا ’انٹر نیشنل لا‘ کسی خاص تہذیبی فکری بالادستی کا مظہر نہ ہو بلک اس کی بنیاد دنیا بھر کی اجتماعی دانش پر رکھی گئی ہو۔ یہ کوہ کنی بہت مشکل سہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو تیشہ اٹھانا ہی پڑے گا۔
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
minhajbooks · 1 year
Text
Tumblr media
🔰 احسان
اس کتاب میں ’’احسان‘‘ سے متعلق بنیادی تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ احسان و تصوف، اعتقاد و عمل میں رسوخ پیدا کرنے کا وہ طریق ہے جو دور صحابہ سے تا حال ایک زریں روایت کی صورت میں موجود رہا ہے۔ اس کتاب میں قرآن و حدیث کی روشنی میں احسان کی فضیلت، ایمان، اسلام اور احسان کے باہمی تعلق، سیرت صحابہ میں طریق احسان، حسن نیت اور حسن عمل کیلئے احسان کی اہمیت، روحانی تربیت کی اہمیت اور اس کے حصول کا طریق کار، صوفیائے کرام کے کردار کے نمایاں خصائص، حقیقت نفس، اصلاح نفس اور سلاسل طریقت کی تفصیل سمیت احسان سے متعلق اہم امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دور حاضر میں طریق احسان کو اہم رکن اور اجتماعی زندگی میں کس طرح اور عمل کر سکتے ہیں۔ اس امر کو بھی تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب سب قارائین کیلئے علمی اور عملی افادہ کا باعث ہوگی۔
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری زبان : اردو صفحات : 136 قیمت : 140 روپے
🌐 پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں https://www.minhajbooks.com/urdu/book/223/Islamic-Teachings-Series-4-Spiritual-and-Moral-Excellence-Ihsan
💬 خریداری کیلئے رابطہ کریں https://wa.me/9203097417163
0 notes
nooriblogger · 1 year
Text
حضرت امام حسن کے اقوال
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت ۱۵ رمضان المبارک 3ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ آپ کا نام حسن کنیت ابو محمد اور لقب سبط رسول ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ امام حسن سے بڑھ کر کوئی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہ تھا۔ آپ کو ۵ ربیع الاول ۴۹ حجری کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ اقوالِ زریں اپنے بھائی اور دوست کی مدد کرنا میرے نزدیک ایک ماہ کے اعتکاف سے بہتر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 2 years
Text
'آپ'نے بی جے پی نہیں کانگریس میں نقب لگائ - Latest News | Breaking News
‘آپ’نے بی جے پی نہیں کانگریس میں نقب لگائ – Latest News | Breaking News
تحریر:اسما زریں صالحاتی گجرات سے کانگریس کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی کو سخت ٹکر دینے والی کانگریس مقابلہ میں کہیں نظر نہیں آئ۔۔ ایگزٹ پولز اور اب حتمی نتائج میں، پارٹی کے ووٹ شیئر میں اس قدر کمی آئی ہے کہ ہماچل کی بہتر کارکردگی کا مرہم بھی اسے راحت نہیں دے سکتا۔سوال یہ ہے کہ بی جے پی کو ریکارڈ جیت دلانے اور کانگریس کے ووٹ شیئر میں ریکارڈ کمی میں AAP کا کیا کردار تھا؟…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sufism786-blog · 2 years
Photo
Tumblr media
""" Jo Waswason Me Gira Wo Bhatak Ta Raha, Jo Yaqeen Ki Raah Per Chala Wohi Manzil Ko Paya """" #nafs #shaitan Khula Dushman #neaki #parezgari #taqwa #momin ki pehchan *اَلسَّلاَمْ عَلَيْــــــــــــــــــــكُمْ وَ رَحْمَةُ اللہِ وَبَرَكَاتُهُ* Share your views in comments. TAG someone 💞 ___________________ Turn on your post notification 👉@khudi.ki.pehchan 👈 ___________________ Follow ☑️ @khudi.ki.pehchan Like 👌 #nazeeri Share 👍 Spred #sufism #khudi #khudikipahchan #haqkipehchan #kamilpeer #urdu #urduquotes #urduadab #bazm_e_urdu #urdupoetry #quotes #urdushayari #quoteoftheday #bestquotes #instaurdu #arabic #urdulovers #اقوال #زریں #اردو #اردو_ادب #شاعری # 🌹🏵️🌸💮🌼🙏 (at INSAN KAMIL) https://www.instagram.com/p/Cio2vIHDGby/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
urdu-poetry-lover · 2 years
Text
فصل گل ایسی کہ ارزاں ہو گۓ کاغذ کے پھول
اب کوئی گل پیرہن زریں قبا ملتا نہیں
آشنا چہروں سے رنگ آشنایئ اڑ گیا
ہم زباں اب خشک پتوں کے سوا ملتا نہیں
ایک سناٹا ہے شبنم سے شعاع نور تک
اب کوئی آنچل پس موج صبا ملتا نہیں
حاکموں نے شہر کے اندر فصیلیں کھینچ دیں
دن میں بھی اب کوئی دروازہ کھلا ملتا نہیں
اتنے بے پروا ارادے اتنے بے توفیق غم
ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرف دعا ملتا نہیں
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
تحریک انصاف کا مستقبل؟
Tumblr media
تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔ اس پر عروج آیا تو ایسے آیا کہ کوئی زوال کبھی آنا ہی نہیں اور ان پر زوال برسا ہے تو ایسے برسا ہے جیسے عروج کبھی تھا ہی نہیں۔ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بن سکتی تھی مگر افسوس اسے درویش کا تصرف بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک مقبول قومی سیاسی جماعت جس کے ساتھ بہت سارے نوجوانوں کا رومان لپٹا ہے ، غیر ضروری مہم جوئی کی وجہ سے برف کی صورت دھوپ میں رکھی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی یہ کشتہِ مرجان اپنی ترکیب میں ہے کیا چیز؟ یہ ایک سیاسی جماعت ہے، کوئی قافلہ انقلاب ہے، عشاق کا ’لوّرز کلب‘ ہے ، کوئی شعوری تحریک ہے، ایک سماجی کلٹ ہے، سیاسی فرقہ ہے، کوئی نادیدہ اور پراسرار سی قوت ہے، کسی کی پراکسی ہے ، صرف اقوال زریں کا ایک مجموعہ ہے یا محض ایک جنون ہے جو گاہے فاشزم کی دہلیز پر دستک دے آتا ہے؟ میر نے کہا تھا: زمین و آسماں زیر و زبر ہے نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا
کہاں وہ وقت کہ دوست ایک نازو ادا سے کہتے تھے آنے والا دس سال کے لیے آیا ہے، زاد راہ اس کے ساتھ ہے اور کہاں یہ وقت کہ چار سالوں میں ہی وقت قیامت کی چال چل گیا اور عشاق بیٹھے سوچ رہے ہیں، یہ رخِ یار سچ میں لعلِ احمر تھا یا پانیوں پر کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ کیا سے کیا ہو گیا دیکھتے دیکھتے۔ اندوہ عشق میں تحریک انصاف نے جتنے غمزے عشوے دکھائے تھے، 9 مئی کی وحشتوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔ یہ سیاست نہ تھی یہ وحشت تھی ۔ یہ احتجاج نہ تھا یہ جنون کی آتش تھی۔ اس کی چنگاریوں سے اب اس کا اپنا دامن سلگ رہا ہے۔ ہر وہ فرد جرم جو اس نے دوسروں پر عائد کی تھی، آج اس کے اپنے دامنِ سیماب سے لپٹی پڑی ہے۔ باز گشت کی طرح ایک ایک الزام پلٹ کر آرہا ہے۔ ہر دعویٰ خزاں کے پتے کی طرح پامال ہوا۔ تبدیلی کیا کھلی، امید کے سارے پیرہن ہی چاک ہو گئے۔ کہاں وہ دن کہ تبدیلی صبح روشن کی طرح دہکتی تھی، کہاں یہ شام کہ اب وہ اجڑے خیموں کی راکھ ہوئی پڑی ہے۔ کہاں وہ التفاتِ ناز کہ روز کوئی وکٹ گرا کرتی تھی اور تحریک انصاف کے پرچم کی خلعت فاخرہ نئے مہمانوں کے گلے میں ڈالی جاتی اور کہاں یہ آشوبِ غم کہ ساتھی ایک ایک کر کے خیمہ گاہ سے نکلتے جا رہے ہیں۔ سوچتا ہوں، کیا یہی وہ دن ہیں جو اللہ اپنے بندوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے؟
Tumblr media
یہ تبدیلی تھی یا دائروں کا سفر۔ اس کے آخر پر کوئی منزل نہیں۔ ان مسافتوں کا حاصل صرف دھول ہے۔ دھواں ہے۔ رائیگانی ہے۔ عمر جہاں سے چلے تھے ہیں آ کھڑے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس سے بھی چار قدم پیچھے، کھائی کے کنارے۔ عمران کی سیاست کا پہلا دور حسرتوں کا دیوان تھا۔ سرگودھا میں، میری فیملی نے کالج بنایا تو افتتاح کے لیے ہم نے عمران خان کو بلایا۔ ہم اسلام آباد سے سر گودھا کی حدود میں داخل ہوئے تو سڑک کے کنارے پورے چار لوگوں نے گاڑی روکی اورعمران کوپھولوں کا ہار پہنایا۔ میں نے پوچھا یہ کون تھے۔ جواب ملا یہ سرگودھا پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ یہ وہ دور تھا جب عمران غزل سنا کر بھی اکیلے ہی کھڑے ہوتے تھے۔ خود ہی مکرر مکرر کا مطالبہ کرتے اور اپنے مطلع اور مقطع پر خود ہی واہ واہ کرتے رہتے۔ قریب تھا کہ کسی ادھورے شعر کی طرح ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا لیکن پھر وقت کا موسم بدلا اور جاڑے گلزار ہو گئے۔ دروغ بر گردنِ راوی، روایت یہ ہے کہ سال کے ’بارہ موسموں‘ نے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔ دسمبر گرم ہو گیا، جون میں برفیں پڑنے لگیں۔ ایک پیج پر ایسی قوس قزح اتری، مدعی، آرزو اور مدعا، سب عشق ہو گئے۔
سونامی جیسی تندی سے عمران سیاست کے دوسرے دور میں داخل ہوئے، یہ دور اسی نسبت عشقی کا دیوان تھا۔ وہ ایسے آئے جیسے ’چڑھی تیوری، چمن میں میر آیا۔‘ بے خودی، ��ے ادائی، بے نیازی، سارے نوشتے اس دیوان کا حصہ تھے۔ تحریک انصاف جھوم کے اٹھی اور ایک سونامی بن گئی۔ ڈی چوک سے لے کر کوچہِ اقتدار تک ایک بزمِ اطفال سی سج گئی۔ نہ کوئی غم نہ پریشانی، نہ ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہ درد مندی اور معاملہ فہمی۔ انتہائی اہم قانون سازی کے مراحل بھی درپیش ہوئے تو کسی نے حزب اختلاف سے بات کرنا گوارا نہ کیا۔ لیکن پھر بھی جنگل کے بھید کی طرح ’قانون سازیاں‘ ہوتی رہیں اور حزب اختلاف تعاون فرماتی رہی۔ گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوئی۔ پوسٹ ٹروتھ کا ایک تاج محل تعمیر کیا گیا اور اس پر ’نیا پاکستان‘ لکھ دیا گیا۔ سارے نقوش کہن مٹا ہی دیے۔ اس عشق کی وارفتگی حیرت کدہ سے کم نہ تھی۔ آثار جلالی و جمالی یوں باہم ہوئے، آنکھیں خیرہ ہونے لگیں ۔’یا قربان‘ کا یہ سونامی تھما تو معلوم ہوا شہر مہرباں کی فصیل ساتھ بہا لے گیا۔ 
عدم اعتماد کی کامیابی اور اقتدار سے الگ کر دیے جانے کے بعد عمران کی سیاست کا تیسرا دور شروع ہوا۔ عمران یہ بات نہ سمجھ سکے کہ اقتدار سے الگ ہونے سے کسی کی سیاست ختم نہیں ہو جاتی اگر اس میں سیاسی بصیرت موجود ہو۔ بصیرت کے باب میں مگر تحریک انصاف کا ہاتھ تنگ تھا۔ یکے بعد دیگرے بحران اس کے ��امن سے لپٹتے چلے گئے۔ آج عالم یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے ہی سونامی میں ڈوب رہی ہے۔ جیسے کوئی درویش اپنے ہی عشق میں صرف ہو جائے یا برف کا باٹ جیسے کوئی دھوپ میں رکھ آئے۔ عجیب سا ایک طنطنہ تھا۔ خمار تھا۔ جذب و مستی کا عالم تھا۔ دس دس سال حکومتی بندوبست کے رجز پڑھے جاتے تھے۔ اور آج سب بدل چکا۔ جہاں چراغاں تھا وہاں دھول ہے۔ غرور عشق اب نڈھال پڑا ہے۔ نشاط کی جگہ حزن نے لے لی ہے۔ طنطنے کی جگہ اب شکوہ ہے۔ منڈیریں خالی ہیں پرندے اڑ رہے ہیں۔
بے بصیرتی کی وحشت سے پھوٹتی حسرتیں ہجوم کرتی ہیں اور دائروں کے سفر سے دل بوجھل ہوتا ہے تو افغان شاعر امیر جان صبوری یاد آتے ہیں:
شہر خالی، جادہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی جام خالی، سفرہ خالی، ساغرو پیمانہ خالی
کوچ کردہ، دستہ دستہ، آشنایاں،عندلیباں باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی
تحریک انصاف کا باغ بھی سونا ہو رہا ہے، رستے کوچے سب خالی ہو رہے ہیں۔باغچہ خالی ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھی کوچ کرتے جا رہے ہیں ۔ بلبلیں اڑتی جا رہی ہیں۔دوست دوستوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ موسیقاروں نے ساز رکھ دیے ہیں۔ طبیب بیمار کو دیکھنے سے ڈرتا ہے، مسافر رستوں سے خوف زدہ ہیں۔ سر بکھیرنے والے تار بکھر گئے۔ آشنا نا آشنا ہوتے جا رہے ہیں۔ ویرانے کے پتھروں کی ریت سر میں آ رکی ہے۔ دریا سست چشمے خشک اور سونامی نڈھال ہو چکا ۔ عشق کی آگ نے اپنے ہی وجود جلا ڈالے۔ مہر جاناں کے استقبال میں اب کون پھول برسائے گا؟
 آصف محمود  
 بشکریہ روزنامہ ٩٢ نیوز 
0 notes
omega-news · 2 years
Text
آصف زرداری کی والدہ سپردخاک
آصف زرداری کی والدہ سپردخاک
سابق صدر آصف زرداری کی والدہ اور بلاول بھٹو کی دادی زریں آرا بخاری کو نواب شاہ میں سپرد خاک کر دیا گیا. نماز جنازہ میں سیاسی رہنماوں سمیت دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی .بلاول بھٹو نے اپنی دادی کو لحد میں اتار انہیں.بلو جا کبا کے آبائی قبرستان میں حاکم علی زرداری کے پہلو میں دفن کیا گیا . آصٍف زرداری کی والدہ کینسر کی مریضہ تھیں اور چند روز سے نجی اسپتال میں داخل تھیں . واضح رہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduhindipoetry · 7 months
Video
Golden Words in Urdu | اقوال زریں | Agwal-e-Zarrin #viral #islamivideo ...
0 notes
shujaktk · 3 years
Photo
Tumblr media
جس گھر میں بڑوں سے مشورہ نہیں لیا جاتا وہاں بعد میں وکیلوں سے مشورے لئے جاتے ہیں.. بہترین ڈیزائن بنانے کے لئے موبائل ایپلیکیشن اُردو ڈیزائنر ایپ استعمال کریں پلے سٹور سے مفت ڈاؤنلوڈ کریں اور 5 سٹار ریٹنگ دے دیں شکریہ #أقوال #زریں #پوسٹ #quotes #quotesaboutlife #proverbsforliving #urduquotes #urduquote #urdu_designer #urdudesigber https://www.instagram.com/p/CVT4yxssypW/?utm_medium=tumblr
0 notes
Photo
Tumblr media
‎حصولِ صدّقِ قلب کیسے حاصل ہو ؟
‎ذکر قلب دین اسلام میں داخلے کا نام ہے ۔ اسلام میں جو ذکر قلب کے دینی اصلاح ہے وہ “حصول صدق قلب ” کہلاتی ہے ۔اقرا بالسان و تصدیق بالقلب۔۔ یعنی زبان اقرار کرے اور دل اس کی تصدیق کرےاور صدق دل کے لئے بے شمار احادیث ہیں کہ جس نے بھی صدق دل سے دو رکعت نماز پڑھ لی اس کی بخشش ہو جائے گی ۔ ہر آدمی یہی کہتا ہے کہ میں تو سچے دل سے پڑھ رہا ہوں لیکن سچے دل میں شیطان تو نہیں بیٹھا ہوتا ہے ، جس میں شہوت بھی ہے ، تکبر اور بغض و عناد بھی ہے ۔ غیر اللہ اور شیطان نے دل پر قبضہ جما رکھا ہے اور پھر بھی تیرا گمان ہے تو سچا ہے ۔ سچا دل وہ ہے جس کے دل سے ہر غیر اللہ کا عنصر نکل جائےاور وہاں اللہ کا نام ، اللہ کا نور، نور توحید جا گزیں ہو جائےاور پھر وہ دل کبھی بھی شیطان کے قبضے میں نہ آ سکے ۔ جب دل میں سے غیر اللہ نکل جاتا ہے اور چراغ اسم ذات اللہ روشن ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے شیطان دور بھاگ جاتا ہے تو اُس دل کو قلب سلیم کہتے ہیں اور اسی کے لئے اللہ نے قرآن میں کہا کہ یوم محشر میں کامیابی اُن کو ہو گی جو قلب سلیم لائے ۔ 
 https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/husool-sidqe-qalb-kaisay-hasil-ho/
9 notes · View notes