Tumgik
#غیرقانونی تارکین وطن
urduchronicle · 10 months
Text
افغان باشندوں کی ملک بدری کے خلاف درخواست، کیس لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھجوا دیا گیا
سپریم کورٹ میں غیر قانونی افغانیوں کی وطن واپسی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔سپریم کورٹ نے معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے کمیٹی کو بھجوا دیا۔کیس کی مزید سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزاروں نے آرٹیکل 224 کے تحت نگران حکومت کے اختیارات پر سوال اٹھایا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 3 months
Text
 بائیڈن کا امریکیوں سے شادی پر شہریت دینے کااعلان
امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی شہریوں سے شادیاں کرنے والے لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کا اعلان کردیا ہے۔ بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے لیکن میں ببانگ دُہل یہ باتیں کہہ رہا ہوں کہ بارڈر امیگریشن پر سیاست کرنے میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ میری دلچسپی اسے حل کرنے میں ہے۔ امریکی حکام کے مطابق بائیڈن کے نئے پروگرام سے ایسے غیر قانونی تارکین وطن فائدہ حاصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 10 months
Text
اونے پونے افغان ہمارے کس کام کے
Tumblr media
دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔ سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔ جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔ 
بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔ بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔ ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
Tumblr media
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں ک�� رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلا دستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد بڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔ جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔ چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
nowpakistan · 5 years
Photo
Tumblr media
جرمنی سےغیر قانونی مقیم 45 پاکستانی ملک بدر
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
ٹرمپ رہے نا رہے، کام تو ہو چکا
تازہ ترین امریکا میں لمحہ با لمحہ بدلتے حالات پر لمحہ با لمحہ لکھا کہا سنا جا رہا ہے۔ یہ غوغا جن بنیادی سوالات کے گرد گھوم رہا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امریکا تو ایسا نہ تھا۔ یہ یکایک کیا ہو گیا ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے ساتھ ہی ٹرمپیانہ سیاست اور سوچ کا کریا کرم ہو جائے گا یا یہ امریکا میں نئے سیاسی رجحان کی ابتدا ہے ؟ امریکا تو ایسا نہ تھا! یہ استفہامیہ ان کا ہے جنھیں امریکی تاریخ سے واجبی واقفیت ہے۔ جی ہاں امریکا ایسا ہی تھا۔ اولین یورپی آبادکاروں نے اصل امریکیوں یعنی ’’ نام نہاد ریڈ انڈینز‘‘ سے نہ صرف اس سرزمین کو چھینا بلکہ ان کی نسل کشی کے ذریعے یہ دعویٰ ہی مٹا دیا کہ امریکا دراصل اس کے اصل باشندوں کا ہے یا آبادکاروں کا۔ یورپی آبادکاروں نے نئے امریکا کی تعمیر اپنے ہاتھوں سے نہیں کی بلکہ ابتدا میں یورپ کے کمزور معاشی طبقات سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی محنت کا بقدرِ طاقت استحصال کیا اور جب یہ تارکین ِ وطن اپنے حقوق کے بارے میں سیانے ہونے لگے اور ان میں بھی سفید رنگت کی بنا پر برابری کی اکڑ آنے لگی تو پھر افریقہ سے ’’ نیم انسان ’’ سیاہ فام افریقی غلاموں کو درآمد کیا گیا۔ ان سے زمینیں جتوائی گئیں ، قصبات تعمیر کروائے گئے ، حویلیاں اٹھوائی گئیں۔
ان غلاموں کو افراط کی نئی سرزمین میں اتنی ہی خوراک دی گئی جتنی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہو ، اتنی ہی چھت دی گئی جس کے تلے ان کا بدن نہ بھیگے اور وہ بیمار نہ پڑ جائیں، اتنے ہی کپڑے دیے گئے جنھیں دھو کر وہ دوبارہ پہن سکیں تاکہ ان کے پسینے کی بو سے مالک کے گلابی نتھنے محفوظ رہیں۔ اور اتنے ہی بنیادی حقوق دیے گئے جتنے گھر کے برتنوں، فرنیچر اور کھیت میں جوتے گئے گھوڑوں کو دیے جاتے ہیں۔ رائے اور ووٹ کے حق کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اور یہ جو اٹھارہ سو ساٹھ کے چار برس امریکا کی غلام پسند جنوبی ریاستوں اور آزادی پسند شمالی ریاستوں کے درمیان خانہ جنگی ہوئی اور اس کے نتیجے میں غلامی کے خاتمے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ بھی فریبِ نظر تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ گرم جنوبی ریاستوں کی معیشت زرعی تھی لہٰذا ان کے کھیتوں کے لیے غیر ہنرمند یا نیم ہنرمند سیاہ فام غلام کافی تھے۔ سرد شمالی ریاستیں زراعت کے مقابلے میں صنعت کاری کے لیے زیادہ سازگار تھیں۔ چنانچہ انھیں ہنرمند افرادی قوت درکار تھی جو سادہ سے ہل کے بجائے مشین چلا سکے۔ جس میں تکنیکی فرائض کی بجاآوری کا بنیادی شعور اور اہلیت بھی ہو۔
اس ماحول میں جدت کاری و صنعت کاری کو آگے بڑھانے اور سرمائے سے سرمایہ پیدا کرنے کے لیے روشن خیالی و تخلیقی اظہار کی آزادی کی ضرورت محسوس ہوئی اور حقوق کے شعور نے ٹریڈ یونین ازم کی صورت اختیار کی۔ اس نئے ماحول میں پوشیدہ اور قوانین کے جال میں لپٹی غلامی تو موجود تھی مگر ننگی فرسودہ غلامی قبول نہیں تھی۔ جنوب نے اس سوچ کو اپنے زرعی معاشی مفادات پر کاری حملہ سمجھا اور شمال نے جنوب کی کہنہ سوچ کو نئے صنعتی امریکا کی پیدائش کی راہ میں رکاوٹ سمجھا اور آپس میں بھڑ گئے۔ آپ یہ دیکھیے کہ شمال کی جیت اور غلامی کو غیرقانونی قرار دینے کے کاغذی اعلان کے باوجود خانہ جنگی کے بعد اگلے پچپن برس تک خواتین کو امریکی جمہوریت میں ووٹ کا حق نہیں ملا۔ اور سیاہ فاموں کو اگلے ایک سو برس تک ووٹ کا حق نہیں ملا۔ جنوبی ریاستوں کی شکست کے باوجود ان کے خانہ جنگی برپا کرنے والے نسل پرست جرنیلوں اور سیاستدانوں کے مجسمے آج بھی جنوبی ریاستوں میں دکھائی دیں گے۔ گزشتہ ہفتے کیپیٹل ہل کی غلام گردشوں میں ہلڑ کی بے شمار تصویروں میں ایک تصویر وہ بھی ہے جس میں ایک سفید فام نے جنوبی ریاستوں کی باغی کنفیڈریشن کا ڈیڑھ سو برس پرانا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے۔ یعنی زندہ ہے نظریہ زندہ ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے کی شکست کے باوجود زندہ ہے۔
خانہ جنگی میں ہار جیت کے فیصلے کے باوجود نسل پرستی امریکی ریاستی نظام کی نسوں سے نہ نکل پائی۔ خانہ جنگی میں حصہ لینے والے بزرگوں کی اگلی پیڑھی نے کوکلس کلان ( کے کے کے ) کی شکل میں نسل پرستانہ نظریے کا پرچم تھام لیا۔ بھرے مجمع میں سیاہ فاموں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسی دینے یا جلانے کی روایت برقرار رہی۔ ابھی پینسٹھ برس پہلے تک متعدد جنوبی ریاستوں میں کالوں اور گوروں کے بار اور پبلک ٹرانسپورٹ میں نشستیں الگ الگ تھیں۔ ووٹ کا مساوی حق ملنے کے باوجود ہر ریاست چونکہ اپنے انتخابی قوانین بنانے میں آزاد ہے لہٰذا کالوں کو پولنگ سے دور رکھنے کے لیے ہر حربہ قانون کے پردے میں استعمال کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے۔ کوکلس کلان پر بظاہر پابندی عائد ہے۔ مگر اس کے نظریے سے جڑے لوگوں نے نئی تنظیمیں اور زیرِ زمین گروہ بنا لیے۔ ان گروہوں میں اکثریت سابق فوجیوں اور ریٹائرڈ پولیس والوں کی ملے گی۔
چونکہ کوئی بھی امریکی شہری اسلحہ خرید سکتا ہے۔ لہٰذا وقت پڑنے پر ان نسل پرستوں کو مسلح ملیشیا بننے میں کتنی دیر لگ سکتی ہے۔ انیس سو پچانوے کی اوکلاہوما بومبنگ اور اسکولوں پر نسل پرستوں کے مسلح حملوں میں سالانہ سیکڑوں ہلاکتوں کے باوجود امریکی ریاست ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کے آئینی حق سے محروم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ نسل پرستی اقتصادی بحران کے زمانے یا بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے دوران اور زیادہ شدت سے ابھر آتی ہے۔جب دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کے علاوہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا سے بھی تارکینِ وطن بہتر مستقبل کی تلاش میں نسبتاً زیادہ تعداد میں امریکا آنے لگے تو نسل پرستوں نے سفید فاموں کو یہ بتا کر خوف زدہ کرنا شروع کیا کہ چند ہی برسوں میں وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائیں گے اور امریکا کی سفید فام تہذیب غلیظ اور وحشی ممالک سے آنے والوں کے کالے اور گندمی رنگ میں رنگ جائے گی۔
اگرچہ امریکی ریاستوں میں ستر فیصد پولیس اور اسی فیصد قومی مسلح افواج سفید فاموں پر مشتمل ہے۔ ریاستی اسمبلیوں اور وفاقی قانون ساز اداروں میں اسی فیصد نمایندے سفید فام ہیں۔ اس کے باوجود معاشی ناآسودگی کی شکار نیم خواندہ سفید فام اکثریت نے چند برس میں اقلیت بن جانے کے خوف کو آمنا و صدقنا کہا۔ٹرمپ نے بس اتنا کیا کہ اس خوف کو سیاسی قوت اور زبان دے دی۔ جیسا کہ ہٹلر نے جرمنوں کو قائل کر لیا تھا کہ یہودی اقلیت تمہیں کھا جائے گی لہٰذا تم انھیں کھا جاؤ۔ ہٹلر کے جانے کے باوجود نیو نازی تحریک زندہ رہی اور پھر سے یورپ میں تیزی سے پر پھیلا رہی ہے۔ جیسا کہ مودی نے ہندوؤں کو قائل کر لیا کہ مسلمان اگلے پچاس برس میں بھارت پر کثیر اولادی اور ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کے نتیجے میں تم پر چھا جائیں گے۔ بقول کسے ٹرمپ نے امریکا کو نسل پرست نہیں بنایا۔ بلکہ نسل پرستوں کو امریکی سیاست کے مرکزی دائرے کا پھر سے ایک اہم کھلاڑی بنا دیا۔ جب اس نے ��ہا کہ ’’ امریکا کو دوبارہ عظیم تر بنائیں گے ’’ تو مراد یہی تھی کہ امریکا میں چند دہائیوں کے لیے بظاہر دبا دی گئی نسل پرستی کے تن میں پھر سے جان ڈالی جائے گی۔ نتیجہ ہم سب نے دیکھ لیا کہ انتخابات میں تقریباً پندرہ کروڑ ووٹ پڑے مگر ٹرمپ جو بائیڈن سے صرف پچپن لاکھ ووٹوں کے فرق سے ہارا۔
اس وقت سب سے مضحکہ خیز حالت ریپبلیکن پارٹی کی ہے۔ وہ بظاہر امریکی آئین و قوانین کی بالادستی کے مطالبے پر ہاں میں ہاں ملانے پر بھی مجبور ہیں مگر ٹرمپ کے مواخذے کی اپنے ووٹروں کے خوف سے کھل کے حمایت بھی نہیں کر پا رہی۔ امریکا اس وقت عین درمیان سے منقسم ہے۔ جیسے اٹھارہ سو ساٹھ میں ہوا تھا۔ موجودہ خانہ جنگی شاید بندوقوں سے تو نہ لڑی جائے مگر دو ہزار چوبیس کا صد��رتی انتخاب گھمسان کا ہو گا۔ ٹرمپ رہے نہ رہے مگر اس کے نظریے نے آدھے امریکی ووٹ تو کھینچ لیے ہیں۔ اسی ووٹ پکڑ نسخے کو اگلا ریپبلیکن صدارتی امیدوار ذرا زیادہ نفاست کے ساتھ استعمال کرے گا۔ ٹرمپئیت کو نسل پرستانہ امریکی سیاست کی نئی لہر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ صدر نہیں رہا تو کیا ہوا۔ رہبرِ تحریک تو رہے گا۔ تیزی سے بدلتی دنیا میں نئے امریکا کی نئی جگہ کیا بنے گی ؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ امریکا اب کافی عرصے تک خود میں الجھا رہے گا۔عوامی جہموریہ چین کے لیے یہ اکیسویں صدی کی سب سے اہم خبر ہے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
omega-news · 2 years
Text
سعودی سیکورٹی فورسز کی کارروائی ،15416 غیر قانونی تارکین وطن گرفتار
سعودی سیکورٹی فورسز کی کارروائی ،15416 غیر قانونی تارکین وطن گرفتار
سعودی سیکیورٹی فورسز نے 16 جون سے 22 جون کے درمیان کارروائی کرتے ہوئے 15 ہزار 416 غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتارکرلیا. غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کام کرنے والی مشترکہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ 9572 افراد اقامہ قوانین کی خلاف ورزی کررہے تھے۔ مشترکہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ 3747 افراد سرحد عبور کرکے ملک میں داخل ہوئے جبکہ 2097 لیبر قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث تھے۔مذکورہ عرصے کے دوران 331 افراد کو گرفتار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-news · 3 years
Text
سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش، مرنے والوں کی تعداد دوگنا
مختلف سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق گزشتہ برس کے دوران صرف سپین میں داخلے کی کوشش کے دوران چار ہزار 400 افراد سمندر میں لاپتہ ہوئے جن میں کم از کم 205 بچے شامل تھے۔ پناہ گزینوں کی صورتحال پر نظر رکھنے والے مانیٹرنگ گروپ واکنگ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2021 میں سپین پہنچنے کے لیے سمندر میں کھو جانے والے افراد کی تعداد گزشتہ برس کی نسبت دو گنا رہی۔ واکنگ بارڈرز نے پناہ گزینوں کے لاپتہ ہونے کی وجہ خطرناک سمندری راستوں اور کمزور کشتیوں کو قرار دیا ہے۔ اسپین کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2021 کے دوران تین ہزار 900 غیرقانونی تارکین وطن سمندری اور زمینی راستوں سے ملک میں داخل ہوئے۔ حکام کے مطابق اتنی ہی تعداد میں غیرقانونی پناہ گزین اس سے پچھلے برس بھی سپین میں داخل ہوئے تھے۔
واکنگ بارڈرز کے مطابق زیادہ تر پناہ گزین بحرالکاہل میں سپین کے جزیرے کینرے والے روٹ سے داخلے کی کوشش میں ہلاک یا لاپتہ ہوئے۔ افریقی ساحل سے اس جزیرے کی جانب رخ کرنے والے پناہ گزینوں کی زیادہ تر کشتیوں کو حادثات پیش آتے رہے۔ افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان بحیرہ روم کے راستے سے سپین میں داخلے کی کوشش کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کم ہے۔ واکنگ بارڈرز کی بانی ہیلینا مالینو نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے نے اعداد و شمار پناہ گزینوں کے لیے قائم ہاٹ لائن اور مشکلات میں گھری کشتیوں کے رابطوں اور اور لاپتہ پناہ گزینوں کے اہلخانہ سے اکھٹے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گروپ نے ہر کشتی کی منزل یا قسمت کا پتا لگانے کی کوشش کی اور ان تحقیقات میں یہ اخذ کیا گیا کہ جو پناہ گزین ایک ماہ تک سمندر میں لاپتہ رہے ان کو مردہ تصور کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے پناہ گزین کے مطابق سپین کے کینرے جزیرے کی قریب حادثے کے شکار ہونے والی صرف ایک کشتی میں 955 افراد مارے گئے تھے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ سمندر میں مرنے والے پناہ گزینوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ سپین کی حکومت اپنے ساحلوں کی جانب آنے کی کشش میں مرنے والے پناہ گزینوں کا ریکارڈ مرتب نہیں کرتی اور وزارت داخلہ نے اس حوالے سے تازہ اعداد وشمار پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
فرانس کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے 31 افراد ہلاک - اردو نیوز پیڈیا
فرانس کے قریب تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے سے 31 افراد ہلاک – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پیرس: بحری راستے انگلش چینل کے ذریعے فرانس سے برطانیہ جانے والے غیرقانونی تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے سے کم ازکم 31 افراد ڈوب کر ہلاک ہوگئے ہیں جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ 2014 کے بعد یہ تارکینِ وطن کے ڈوبنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے جو فرانسیسی بندرگاہ کیلے کے قریب رونما ہوا ہے۔ تارکین فرانس سے برطانیہ جارہے تھے کہ ڈنگی بوٹ الٹ کر ڈوب گئی اوردرجنوں تارکینِ وطن لقمہ اجل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
ترکی میں غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن کی واپس کیلئے ترکش ادارے کا مفت پروگرام
ترکی میں غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن کی واپس کیلئے ترکش ادارے کا مفت پروگرام
Tumblr media Tumblr media
ترکش ادارہ برائے مہاجرین نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن جو اپنے ملک واپس جانا چاہتے ہیں اِنہیں صرف ستمبر 2021ء کے دوران پاکستان واپس بھیجنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اپنے وطن واپس جانے کے خواہش مند حضرات پاکستانی قونصلیٹ سے رابطہ کریں۔ 
ایسے پاکستانی جن کے پاس تمام شناختی دستاویزات ہیں وہ اپنا نام پاکستانی قونصلیٹ میں 20 ستمبر 2001ء تک درج کروا دیں۔ 
پاکستان قونصلیٹ استنبول کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پہلی ترجیح ان پاکستانیوں کو دی جائی گی جن کے پاس اصل پاسپورٹ اور شناختی کارڈ موجود ہیں۔ 
دوسری ترجیح ان حضرات کو دی جائے گی جن کے پاس صرف پاکستانی قومی شناختی کارڈز اور نادرا ب فارم موجود ہوں گے۔ 
اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے خواہشمند افراد سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے والدین کے قومی شناختی کارڈز کی کاپیاں اور اپنی تین تصاویر قونصلیٹ لے کر آئیں۔
setTimeout(function() !function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '836181349842357'); fbq('track', 'PageView'); , 6000); /*setTimeout(function() (function (d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "//connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, 'script', 'facebook-jssdk')); , 4000);*/ Source link
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
برطانوی فوج کے تربیت یافتہ سیکڑوں افغان کمانڈوز کی پاکستان موجودگی کا انکشاف
بی بی سی نے برطانوی تربیت یافتہ افغان اسپیشل فورسز کے تقریباً 200 ارکان کی پاکستان موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ بی بی سی نے پاکستان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کی بے دخلی مہم کے دوران ان فوجیوں کی بے دخلی کے خدشار رپورٹ کیے ہیں اور کہا ہے کہ برطانوی فوج کے ایک جنرل نے افغان فوجیوں کی موجودی حالت کو ان سے دھوکہ اور برطانیہ کے لیے بدنامی قرار دیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق افغانستان میں 12 سال تک برطانوی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asraghauri · 4 years
Text
امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کا داخلہ شروع
امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کا داخلہ شروع
میکسیکو: لاطینی امریکا سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن ٹیکساس سے متصل سرحدی گزرگاہ پر جمع ہیں واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) بائیڈن انتظامیہ کی امیگریشن سے متعلق بڑی اصلاحات کے بعد پہلی بار 25 تارکین وطن امریکا میں داخل ہوگئے، جب کہ ہزاروں اب بھی میکسیکو میں منتظر ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے امیگریشن پر پابندی سے متعلق اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی کوششیں شروع کی ہیں،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 4 years
Text
گزشتہ برس کتنے ہزار افراد یورپ نہ پہنچ سکے
Tumblr media
گزشتہ برس کتنے ہزار افراد یورپ نہ پہنچ سکے میڈرڈ (گلوبل کرنٹ نیوز) بہتر مستقبل اور خوشحال زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے یورپ کا رخ کرنے والے 2200 سے زیادہ تارکین وطن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 2019 میں یہ تعداد صرف 893 تھی، اس طرح تارکین وطن کی ہلاکتوں میں ڈیڑھ سو فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسپین پہنچنے کی کوشش کے دوران گزشتہ برس میں 2200 سے زیادہ تارکین وطن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ 2019 میں یہ تعداد صرف 893 تھی، اس طرح تارکین وطن کی ہلاکتوں میں ڈیڑھ سو فیصد سے بھی زائد اضافہ ہوا ہے، ان میں سے 85 فیصد یعنی 1851 تارکین وطن بحیرہ اوقیانوس کا خطرناک سمندری راستہ اختیار کرکے کینری جزائر پہنچنے کی کوشش میں سمندر کی نذر ہوئے، تارکین وطن کے لئے کام کرنے والی تنظیم Caminando Fronteras کا کہنا ہے کہ اموات بڑھنے کی بڑی وجہ ریسکیو کارروائیوں میں کمی ہے، اس کے علاوہ بحیرہ روم میں سختی کی وجہ سے بحیرہ الکاہل کا خطرناک راستہ اختیار کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ترجمان ہیلنا  میلنو کا کہنا تھا کہ افریقہ سے اسپین محض 20 کلومیٹر دور ہے، لیکن سختی کی وجہ سے تارکین وطن لمبا اور خطرناک  سمندری سفر طے کرکے کینری جزائر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق 2019 میں 26 ہزار تارکین غیرقانونی طریقے سے اسپین پہنچے تھے، جو کرونا کے باوجود 2020 میں بڑھ کر 39 ہزار 500 سے تجاوز کرگئے۔ Read the full article
0 notes
swstarone · 4 years
Text
امارات: غیرقانونی تارکین وطن کو مزید مہلت - World
امارات: غیرقانونی تارکین وطن کو مزید مہلت – World
Tumblr media Tumblr media
متحدہ عرب امارات میں غیرقانونی تارکین کو دی گئی مہلت میں 90 روز کی توسیع کردی گئی، غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو واپسی کے لیے مزید 3 ماہ کی ��ہلت دیدی گئی۔
اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں پر کسی قسم کا جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔
اماراتی نیوز ایجنسی ’وام‘ کے مطابق اماراتی فیڈرل اتھارٹی برائے شہریت و شناخت کا کہنا ہے کہ اقامہ اور رہائشی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب غیرملکیوں کے لیے دی…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
پناہ گزینوں کو ترکی میں نہ روکنے کا اعلان : تارکین وطن کی یورپ میں داخل ہونے کی کوششیں
ترکی اور یونان کی سرحدی علاقوں میں پھنسے ہزاروں تارکین وطن اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں پیش آئی ہیں۔ کیونکہ، انقرہ حکومت نے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو ترکی میں مزید نہ روکنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یونان سے متصل ترک صوبے ادرنہ میں پولیس اور تارکین وطن کے درمیان جھڑپوں کے حوالے سے بتایا کہ پولیس تارکین وطن کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔ اس کے جواب میں تارکین وطن نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
ترک یونان سرحد پر یہ تازہ جھڑپیں انقرہ حکومت کے حالیہ اعلان کے بعد سامنے آرہی ہیں، جس میں یورپ کا رخ کرنے والے ہزاروں تارکین وطن کو ترکی میں مزید نہیں روکنے کا کہا گیا تھا۔ خیال رہے شمالی شام میں شامی فوج کے ہاتھوں تینتیس ترک فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تناظر میں شام، روس اور ترکی کے مابين شديد کشيدگی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب ایتھنز حکومت نے کہا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور یورپی یونین کی حدود میں تارکین وطن کے غیر قانونی داخلے کو روکنے کے لیے پرعزم ہے۔ یونانی وزیر دفاع نیکوس پاناگیوٹوپولوس نے یونانی نیوز چینل سکائی کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز گزشتہ شب سے تارکین وطن کو غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے سے روک رہی ہیں۔ 
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ اس حوالے سے متعدد تارکین وطن کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونانی حکام نے ترکی کے ساحلوں کے قریب اپنے جزیروں پر بھی سخت سکیورٹی انتظامات کر رکھے ہیں۔ دریں اثناء ترکی کی جانب سے بڑی تعداد میں تارکین وطن کو سرحدی علاقوں میں جانے کی اجازت دینے کےبعد خدشہ ہے کہ سن 2015 کی طرح ایک مرتبہ پھر پناہ گزین ایک بڑی تعداد میں یورپی ممالک کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ ان تاریکن وطن میں پاکستان، افغانستان، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ممالک شامل ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو 
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
پاکستانیوں کو سعودی عرب سے نکالنے کی خبریں بے بنیاد ہیں
پاکستان قونصلیٹ جدہ نے مکہ ریجن میں پاکستانیوں کو گرفتار کر کے شمیسی جیل بھیجنے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انھیں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں جدہ کے قونصل خانے کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’پاکستان قونصلیٹ جدہ سوشل میڈیا کے کچھ حصوں میں جاری اس مہم کی سختی سے تردید کرتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سعودی حکام مکہ مکرمہ گورنریٹ کے علاقے سے پاکستانیوں کو قید اور جلاوطن کر رہے ہیں۔‘ اس حوالے سے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’قونصلیٹ کو متعلقہ سعودی حکام سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا ہے کہ سعودی حکام تمام قومیتوں کے غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کر کے انھیں ملک بدر کرتے ہیں۔ یہ مشق سال بھر میں مختلف اوقات میں جاری رہتی ہے۔‘
تاہم قونصلیٹ نے واضح کیا ہے کہ ’حالیہ مہم کا آغاز ایسے افراد کے خلاف کیا گیا ہے جو اقامے پر لکھے گئے پیشے کی جگہ دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں (اور یوں قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں)۔ اس سلسلے میں گزشتہ تین روز میں 400 کے قریب پاکستانیوں کو شمیسی ڈیپورٹیشن مرکز لایا گیا ہے۔‘ بیان کے مطابق پکڑ دھکڑ کی مشق معمول کی کارروائی کا حصہ ہے جس میں کبھی شدت اور کبھی نرمی کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ مکہ ریجن میں پاکستانیوں کو گرفتار کر کے انہیں شمیسی جیل بھیجا جا رہا ہے۔ جدہ کے قونصل خانے کے مطابق واٹس ایپ، فیس بک اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع میں چلائی جانے والی ان ’افواہوں سے پاک، سعودی تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
قونصل خانے نے کہا ہے کہ پکڑ دھکڑ کی حالیہ مہم کسی خاص ملک کے شہریوں کے خلاف نہیں نہ ہی اس کا ہدف پاکستانی شہری ہیں۔ ’یہ کہنا کہ یہ مہم صرف پاکستانیوں کے لیے مخصوص ہے، بالکل غلط ہے۔‘ قونصل خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی خبروں کی تشہیر نے پاکستانی کمیونٹی میں غیر ضروری اضطراب اور بے یقینی پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ حصے اسے گمراہ کن سیاسی زاویے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔‘ ’یہ پاک سعودی برادرانہ تعلقات کے مفاد میں ہے کہ اس طرح کے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ہر قیمت پر گریز کیا جائے۔‘ 
قونصل خانے نے مکہ ریجن میں مقیم پاکستانیوں کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ’سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی سے ہماری درخواست ہے کہ وہ پرسکون رہیں اور اس من گھڑت سوشل میڈیا مہم پر توجہ نہ دیں۔ پاکستان قونصلیٹ اس معاملے میں سعودی حکام سے مستقل رابطے میں ہے اور پاکستانی کمیونٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی قواعد و ضوابط کے تحت ہر ممکن اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔‘ یاد رہے کہ سعودی پبلک پراسیکیورٹر نے اس سے قبل آگاہ کیا تھا کہ بے بنیاد خبریں اور افواہ پھیلانا سائبر کرائم میں شامل ہے۔ ایسی خبریں شیئر کرنے پر 30 لاکھ ریال جرمانہ اور 5 سال قید ہو سکتی ہے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
روہنگیا مسلمانوں کی آمد میں اضافے کے پیچھے انسانی سمگلنگ کا ہاتھ ہے، انڈونیشیا
انڈونیشیا کو شبہ ہے کہ اس کی سرزمین پر روہنگیا مسلمانوں کی آمد میں حالیہ اضافے کے پیچھے انسانی اسمگلنگ کا ہاتھ ہے، انڈونیشیا کے صدر نے جمعہ کو کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انڈونیشیا میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے مطابق، نومبر سے اب تک 1,200 سے زیادہ روہنگیا لوگ، جو میانمار کی ایک مظلوم اقلیت ہے، انڈونیشیا کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes