Tumgik
#محمود آباد
urduchronicle · 10 months
Text
قانون غریب کے سامنے زیادہ تگڑا کیوں ہو جاتا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصل مسجد کی پارکنگ میں قلفی کی ریڑھی لگانے والے فرمان اللہ کی سیشن کورٹ کے فیصلے تک ضمانت منظور کرلی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعت کی، قلفی بیچنے والے فرمان اللہ اپنے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سی ڈی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے اتنا بڑا کارنامہ کیا، کیوں نہ آپ کو اس کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 20 days
Text
8ستمبر کو اسلام آباد میں جلسہ،اپوزیشن اتحاد نے بڑے فیصلے کر لئے
8ستمبر کے اسلام آباد کے جلسے کے حوالے سے پاکستان تحریک تحفظ آئین اور تحریک انصاف نے بڑے فیصلے کر لئے۔ پاکستان تحریک تحفظ آئین پاکستان کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا جلاس میں محمود خان اچکزائی، عمر ایوب، اسد قیصر ، ساجد ترین ایم ڈبلیو ایم کے احمداقبال رضوی. ناصر عباس شیرازی سنی اتحاد کونسل کے رہنما حامد رضا نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ  بلوچستان میں جو…
0 notes
amlak-navan · 6 months
Text
روستای عزت آباد | آدرس | سوغات| امکانات |جاذبه های دیدنی | بهترین زمان سفر
روستای عزت آباد در حاشیه دهستان هرازپی واقع شده و جزو بخش سرخرود در استان مازندران قرار دارد.
این روستا به عنوان یکی از محل‌های زیبا و تاریخی شمالی شهرستان محمود آباد شناخته می‌شود.
فاصله این روستا تا شهرک خانه دریا حدود ۷.۵ کیلومتر، تا شهر سرخرود حدود ۹.۶ کیلومتر، مرکز شهر محمودآباد ۹.۴ کیلومتر و تا روستای علمده شرقی حدود ۱.۱ کیلومتر است. مشخصات و امکانات روستای عزت آباد:
جمعیت روستا براساس آمار سرشماری در سال ۱۳۸۵، تا ۳۴۸ نفر بوده که در ۹۰ خانوار زندگی می‌کرده‌اند، شامل ۱۷۹ مرد و ۱۶۹ زن.
روستای عزت آباد دارای زمین ورزشی و سالن ورزشی نیست، اما مسجدی که مرکز فعالیت‌های مذهبی و اجتماعی است، وجود دارد.
انرژی الکتریکی از شبکه سراسری برق تأمین می‌شود و از موتور برق دیزلی استفاده نمی‌شود.
استفاده از انرژی‌های نو مانند انرژی خورشیدی و بادی صورت نگرفته است.
این روستا از گاز لوله‌کشی و آب لوله‌کشی برای تأم��ن نیازهای انرژی و آب استفاده می‌کند.
روستای عزت آباد دارای حمام عمومی نیست، اما وجود بقالی و نانوایی به تأمین نیازهای اساسی ساکنان کمک می‌کند و به تدریج به مراکز مهم در زندگی روزمره مردم تبدیل می‌شود. نزدیک ترین جاذبه های دیدنی اطراف روستای عزت آباد پارک جنگلی ساحل دنج دریاچه صارم دریاچه علمده تالاب شیرا
Tumblr media
0 notes
efshagarrasusblog · 6 months
Text
انتشار ۵ مرکز سرکوب اطلاعاتی نظام پلید آخوندی قسمت ۱۳۱
‼️#راسویاب افشاء میکند : انتشار ۵ مرکز سرکوب اطلاعاتی نظام پلید آخوندی قسمت ۱۳۱ ۶۵۶- گروه توپخانه پانزده خرداد محمود آباد اصفهان۶۵۷- سپاه ناحیه کازرون۶۵۸- درب ورودی سپاه ناحیه بسیج کازرون۶۵۹- پادگان چمران کازرون۶۶۰- یگان امنیتی امام حسن سپاه تهران لطفا همه مراکز و اماکن سرکوب نظام پلید آخوندی را به راسویاب معرفی کنید . سه شنبه ۱۴ فروردین ۱۴۰۳ efshagar_rasu rasuyab 🔴 این #انقلابیستتاپیروزی🆔…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
سائفر کیس ہماری سیاسی، سفارتی اور قانونی تاریخ کا تلخ باب
Tumblr media
گزشتہ روز آنے والے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور یہ سزا ایسے موقع پر سنائی گئی جب ایک ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے اندر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ملزمان، جو اب سزا یافتہ مجرم ہیں، ٹرائل سے متعلق اپنے حقوق سے انکار پر احتجاج کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دو مواقع پر اسی کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور ہر بار کیس کو چلانے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا تھا۔ ایسا نہیں لگتا کہ تیسری مرتبہ یہ مقدمہ مختلف طریقے سے چلا ہے اور بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس فیصلے پر اپیل ہو گی تو شاید اعلیٰ عدالتیں خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق نہ کریں۔
Tumblr media
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماضی میں ہونے والی سرزنش کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بنتا ہے کہ خصوصی عدالت اس معاملے کو اتنی عجلت میں ختم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ دونوں سیاستدانوں کے خلاف سزائے موت مانگی گئی تھی، صورتحال کئی زیادہ تحمل کی متقاضی تھی۔ اس کے بجائے گزشتہ ہفتے کے آخر میں کچھ عجیب و غریب پیش رفت ہوئی۔ جج نے مدعا علیہان کے لیے ان کی رضامندی کے بغیر سرکاری وکیل مقرر کیا اور بعد میں مبینہ طور پر مدعا علیہان کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ اسی دوران دونوں ملزمان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی ٹیموں نے شکایت کی کہ انہیں بار بار کارروائی تک رسائی سے روکا گیا۔ مقدمہ نمٹانے کے لیے ��یر کے روز ایک تیز رفتار اور طویل سماعت ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ ہر چیز سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے کسی قسم کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہو۔
کبھی عمران خان نے ایک بڑے جلسے میں خطاب کے دوران پوڈیم سے کاغذ لہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ایک سازش کا پردہ فاش کیا ہے، اس دن سے لے کر ریاستی راز افشا کرنے میں انہیں مجرم ٹھہرائے جانے تک سائفر کا معاملہ ہماری سفارتی، قانونی اور سیاسی تاریخ کے ایک تلخ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس تنازع کے فوری نتائج کے طور پر ہم نے دیکھا کہ امریکا کے ساتھ پہلے سے ہی خستہ حال تعلقات بغیر کسی وجہ کے مزید بگڑ گئے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں سازش کے بیانیے سے زیادہ فائدہ مند تو معاشی معاملات سنبھالنے میں ان کے مخالفین کی ناکامی ثابت ہوئی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف جو بھی مقدمہ ہو، اسے جلد بازی میں نمٹا کر ناقابل تلافی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اس ڈرامے میں تمام کرداروں کی طرف سے دکھائی جانے والے کم نظری پر حیرانی ہی ہوتی ہے۔
یہ اداریہ 31 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
سائفر کیس کا فیصلہ : انگنت دائروں کا سفر؟
Tumblr media
سائفر کیس کا فیصلہ سنا تو دل کو ٹٹولا، وہاں نہ خوشی کے جذبات تھے نہ افسوس کے۔ یہ وہی منیر نیازی والا معاملہ تھا کہ وہ بےحسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا کچھ غور کیا تو یاد آیا کہ کپتان کے حالات حاضرہ کی شرح بھی منیر نیازی نے ہی بیان کر دی ہے کہ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی (کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے / کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا)
عمران خان کا معاملہ بھی صرف شہر کے لوگ نہیں، ان کے اپنے شوق نے بھی انہیں یہ دن دکھانے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔ سیاسی قیادت کا قانونی نزاکتوں کے ہاتھوں تحلیل ہو جانا اچھی بات نہیں۔ سیاسی قیادت عوام کے ہاتھوں ہی تحلیل ہونی چاہیے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، پاناما میں سے اقامہ نکلا تو جناب عارف علوی نے ضرورت سے کافی زیادہ منہ کھول کر عمران خان سے لڈو کھائے۔ معلوم نہیں آج کون لڈو کھا رہا ہو گا اور یہ بھی خبر نہیں یہ آخری لڈو ہو گا یا پیر مغاں کے انگوروں کے رس سے لڈو بنتے اور بٹتے رہیں گے۔ دائروں کا ایک سفر ہے، جسم شل ہو جاتا ہے مگر گھر نہیں آتا۔ گھوم پھر کر وہی مقام آ جاتا ہے جہاں سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہوتا ہے۔ ہم اسے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں: لو جی اک بار پھر گرنا پڑ گیا۔ یہاں فیصلے ہوتے ہیں تو گماں گزرتا ہے سو سال یاد رکھے جائیں گے۔ دوسری برسات برستی ہے تو نئی حقیقتوں کے ہاتھوں فیصلے اور منصف دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں تو قدرت نے ویسے ہی اتنی لچک رکھی ہے کہ چاہے تو ہاتھی کو گزرنے دے اور چاہے تو مچھر پکڑ لے۔ سیاسی قیادت کو بھی مگر یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ڈی چوک کے اطراف میں سازگار موسم حسب ضرورت ضرور اتر سکتے ہیں لیکن ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔
Tumblr media
ریاست کسی وجہ سے صرف نظر کر سکتی ہے لیکن دائمی ہیجان کی کیفیت میں نہیں رہ سکتی۔ عمران خان نے سیاست کو کلٹ بنایا اور سمجھا وہ اس فصیل میں محفوظ ہیں۔ یہ خوش فہمی جاڑے کی پہلی بارش کے ساتھ بہہ گئی۔ کلٹ اور ریاست زیادہ دیر ساتھ نہیں چل سکتے۔ نظام نے ابھی بھی عمران خان کو نہیں اگلا۔ سزا اس سے بھی سخت ہو سکتی تھی۔ مقدمے کی کارروائی میں ایسا بہت کچھ موجود ہے کہ اپیل کے مراحل میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ گویا زبان حال بتا رہی ہے کہ گنجائش موجود ہے۔ اس گنجائش کا حصول مگر کلٹ سے ممکن نہیں، اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ سیاسی عصبیت قانون کے کٹہرے میں ختم نہی ہوتی۔ تارا مسیح کا پھندا بھی بھٹو کی عصبیت ختم نہیں کر سکا۔ نواز شریف بھی وقت کا موسم بدلا تو میدان میں موجود ہیں۔ عمران خان کی سیاست بھی ختم نہیں ہوئی۔ وقت کا موسم بدل سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عمران خان کو ایک سیاست دان بن کر دکھانا ہو گا۔ بدلتے موسموں میں ان کے لیے قبیلے کے خان جیسا کوئی امتیازی مرتبہ دستیاب نہیں ہے۔ جیسے دوسرے ہیں، ویسے وہ بھی ہیں۔ زمینی حقائق کے ہمراہ امکانات کا جہاں اب بھی آباد ہے مگر صاحب کو زمین پر آنا ہو گا۔
عمران خان اپنی افتاد طبع کے اسیر ہیں۔ امور سیاست ہی کو نہیں، امور خارجہ تک کو انہوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔ ابھی تو وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی زد میں آئے ہیں، بطور وزیر اعظم جو فرد جرم انہوں نے ایران میں کھڑے ہو کر پاکستان پر عائد کی تھی، وہ کسی انتہائی سنگین روب کار کی شکل بھی اختیار کر سکتی تھی۔ شکر کریں، بچ گئے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے شاید ہی کسی مقدمے کو سنجیدگی سے لیا ہو۔ فارن فنڈنگ کیس سے لے کر اب تک، ہر مقدمے کو کھیل سمجھا گیا۔ ان سب کا خیال شاید یہ تھا کہ خان تو پھر خان ہے۔ قانون کی کیا مجال خان کی طرف دیکھے۔ خان خفا ہو گا تو جون میں برف پڑنے لگے گی، خان خوش ہو گا تو جاڑے میں بہار آ جائے گی۔ اب وقت نے انہیں بتا دیا ہے کہ قانون خود ایک خان ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور مقبولیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، قانون جب دستک دے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ملزم اور قانون کے بیچ صرف وکیل ہوتا ہے۔ اسے پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہیے۔ 
سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وکیلوں کو فیس دی جاتی ہے پارٹی ٹکٹ نہیں دیے جاتے۔ مزید سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وکیل پیپلز پارٹی سے نہیں لیے جاتے، اپنی پارٹی سے لیے جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ کپتان نے ہدایت کی تھی ’سائفر سے کھیلنا ہے۔‘ سوچتا ہوں، کیا سے کیا ہو گئے کھیل ہی کھیل میں۔ لیجیے منیر نیازی پھر یاد آ گئے: ہُن جے ملے تے روک کے پچھاں ویکھیا ای اپنا حال! (اب جب ملے تو روک کے پوچھوں دیکھا ہے اپنا حال؟) 
آصف محمود 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
kanpururdunews · 1 year
Text
Tumblr media
میوات کی تینوں متاثرہ مساجد مرمت کے بعد آباد
مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر چھوٹے تاجروں کو 28 کھو کے تقسیم کئے گئے
0 notes
globalknock · 1 year
Text
سائفر کیس؛ چیئرمین پی ٹی آئی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 ستمبر تک توسیع
اسلام آباد: آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 26 ستمبر تک توسیع کردی۔ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے اٹک جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی۔ قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی عمران  کی لیگل ٹیم کے 9 وکلا کو اٹک جیل جانے کی اجازت دی گئی تھی جب کہ سائفر کیس کی تحقیقات کرنےو الی ایف آئی اے کی ٹیم بھی اٹک جیل پہنچی۔ سماعت کے موقع پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
میڈیا کی ڈولی بھی لٹک رہی ہے
Tumblr media
بٹگرام میں لٹکتی ڈولی سے تو بچوں کو بحفاظت ن��ال لیا گیا ہے لیکن کیا میڈیا کے سینیئر اور جونیئر تجزیہ کاروں کو کچھ خبر ہے کہ میڈیا کی اپنی ڈولی بھی لٹک رہی ہے؟ ہے کوئی صاحب خان جیسا رضاکار جو اس ڈولی کو سیدھا کرے؟ بٹگرام میں بچے صبح سے ڈولی میں پھنسے ہوئے تھے۔ شام اترنے لگی تو سورج کے ساتھ دل بھی ڈوبتا محسوس ہوا۔ پریشانی کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو وجود میں سیسہ اتر گیا۔ نیوز کاسٹر چیخ چیخ کر بتا رہی تھیں کہ ’ناظرین، دیکھیے یہ ہم ہیں اور ہم نے سب سے پہلے قوم کو خبر دی تھی کہ یہاں بچے پھنس چکے ہیں۔‘ ایک ہی سانس میں، چیختے چلاتے کوئی نصف درجن بار ’سب سے پہلے‘ کا یہ پہاڑا ختم ہوا تو نیا سلسلہ شروع ہو گیا: ’ناظرین، یہ ایکسکلوزیو مناظر صرف ہم آپ تک پہنچا رہے ہیں!‘ ( اور مناظر وہ تھے جو چار گھنٹے پہلے سوشل میڈیا پر دیکھے جا چکے تھے اور وہ ان میڈیا والوں نے نہیں بلکہ مقامی لوگوں نے اپنے موبائل فون سے بنائے تھے)۔ اس کے بعد سینیئر تجزیہ کاروں کی مدد سے قوم کی رہنمائی کا فریضہ شروع ہو گیا۔ (یاد رہے کہ پاکستان میں فی الحال جونئیر تجزیہ کاروں کی پیدائش پر پابندی ہے)۔
سوال ہوا، ’بتائیے گا وہاں کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے؟‘ اور اس سوال کا جواب وہ صاحب دے رہے تھے جو مبلغ ایک گھنٹہ پہلے اسلام آباد میں ٹریل فائیو پر واک کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بٹگرام کی تازہ ترین صورت حال کے نام پر وہ سارا رواں تبصرہ فرما دیا جو سوشل میڈیا پر دستیاب تھا۔ خبر پڑھنے اور سوال کرنے کا انداز بیاں اور لہجہ ایسا تھا جیسے شوق اور سرمستی میں آدمی یوں جوش میں آ جائے کہ سرشاری میں خود پر قابو نہ پا سکے۔ یہ گویا ایک دہری اذیت تھی، وحشت کے عام میں ٹی وی بند کرنا پڑا۔ ہمارے میڈیا کو کون بتائے گا کہ سوگواری کے عالم میں خبر پہنچانے کا اسلوب جدا ہوتا ہے۔ آپ کسی میلے ٹھیلے کی خبر پڑھ رہے ہیں تو شوخی اور چیخ پکار شاید گوارا کر لی جائے لیکن سوگوار لمحے متانت مانگتے ہیں، سنجیدگی، ٹھہراؤ اور وقار۔ جہاں سنجیدگی اور گداز اختیار کرنا چاہیے یہ وہاں بھی اٹکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں پرسہ دینا ہو وہاں یہ ’می رقصم‘ ہو جاتے ہیں۔ کوئی تو ہو جو انہیں سمجھائے کہ ہر وقت اور ہر مقام ڈگڈگی بجانے کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ میڈیا کو سوچنا ہو گا کہ کیا سوگواری کے لمحات کے صحافتی آداب نہیں ہوتے؟ ایک پہر کے لیے ہی سہی؟
Tumblr media
’آزادیِ صحافت‘ کے کچھ مناظر، جو میرے مشاہدے میں ہیں، درد کی صورت وجود میں گڑے ہیں۔ کوئٹہ میں بلاسٹ ہوا، ہمارے وکیل دوست ٹکڑوں کی صورت بکھر گئے، چینل پر خبر چل رہی تھی اور ہم لہو رو رہے تھے، مگر اگلے ہی لمحے شوخی بھری کمرشل بریک چل پڑی: ہم سا حسین ہونا چاہتے ہو؟ لودھراں میں ایک معصوم بچے کا ریپ کے بعد قتل ہوا۔ لاشہ گھر میں رکھا تھا اور لائیو کوریج ہو رہی تھی۔ نیوز کاسٹر نے رپورٹر سے کہا، ’کیا آپ ہماری مقتول کی والدہ سے بات کروا سکتے ہیں؟‘ رپورٹر نے مائیک غم کی ماری ماں کے سامنے کر دیا۔ بیٹے کے لاشے کے پاس بیٹھی ماں سے نیوز اینکر نے سوال پوچھا، ’آپ اس وقت کیا محسوس کر رہی ہیں؟‘ سیلاب کا ایک منظر ہے۔ اگست کے دن ہیں۔ ایک بوڑھا سیلاب کے پانی میں سے چلتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑی سی ٹوکری ہے۔ ٹوکری میں دو سہمے ہوئے معصوم سے بچے اور ایک مرغی ہے۔ مائک اس کے منہ میں گھسیڑ پر ایک اینکر نے سوال پوچھا، ’کیا آپ ہمیں قومی ترانہ سنا سکتے ہیں؟‘
دکھوں کا مارا وہ بوڑھا بے بسی اور حیرت سے اینکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ سکندر نامی ایک شخص نے بلیو ایریا میں اپنے ہی اہل خانہ کو یرغمال بنایا تو چینلوں پر اس کی لائیو کوریج شروع ہو گئی۔ اس کوریج کے دوران ایک وقت آیا سکندر صاحب رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جا گھسے۔ نیوز کاسٹر نے شدت جذبات سے اعلان فرمایا: ’ناظرین یہ لائیو مناظر صرف آپ ہماری سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔‘ سکندر صاحب رفع حاجت کر کے واپس آ گئے مگر نیوز کاسٹر نے کتنی ہی دیر قوم کی رہنمائی جاری رکھی کہ ’ناظرین، یہ ہے وہ خصوصی منظر جو آپ صرف اور صرف ہماری سکرین پر دیکھ رہے ہیں۔‘ یہ اپنے مشاہدے میں سے چ��د صحافتی نگینے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ آپ اپنے مشاہدات کو بھی اس میں شامل کر لیں تو یہ حسیات میں پیوست کانٹوں کی پوری ایک مالا بن سکتی ہے۔ میڈیا کی ڈولی لٹک رہی ہے۔ اسے ریسکیو کرنے کون آئے گا؟
آصف محمود  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
اور پھر راجہ ریاض نے پوشٹر پاڑ دیا ! وسعت اللہ خان
Tumblr media
کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔ کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے زہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کبھی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی 48 گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔
اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انھوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم ۔ اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔  راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔ کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔ مگر ایک منٹ! یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔
Tumblr media
یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔ جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں جنھیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔
ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف حکم امتناع میں 20 نومبر تک توسیع
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سائفر کیس کے حکم امتناع میں بیس نومبر تک کی توسیع کردی۔ اٹارنی جنرل سائفر کیس کے جیل ٹرائل سے متعلق کابینہ کی منظوری کے دستاویزات آج بھی پیش نہ کر سکے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے ہمیں بھی اس طرح مطمئن کریں جس طرح سنگل بینچ کو کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ڈویژن بینچ نے چیئرمین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 1 month
Text
امید ہے حکومت 22اگست کے جلسے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی،عمرایوب
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرعمرایوب کاکہنا ہے کہ 22اگست کو اسلام آباد میں تاریخی جلسہ ہوگا امید ہے حکومت رکاوٹ نہیں ڈالے گی ۔ 22اگست جلسے کی تیاری، گرینڈ اپوزیشن قیادت کا اہم ترین اجلاس محمود خان اچکزئی کی صدارت میں ہوا۔اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر،سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ،شبلی فراز اور صاحبزادہ حامد رضا نے شرکت کی ۔ اجلاس میں 22اگست کے اسلام آباد…
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
16 سال سے قابض اسلام آباد پولیس کو سی ڈی اے فلیٹس خالی کرنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے فلیٹس پر اسلام آباد پولیس کا قبضہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے 16 سال تک فلیٹس پر قابض پولیس حکام کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق سی ڈی اے کے فلیٹس پر قبضے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے فیصلہ سنادیا جس میں جسٹس محسن اختر اور جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل تھے۔ ہائی کورٹ نے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فلیٹس خالی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cmujoiya · 2 years
Photo
Tumblr media
ملتان سیاسی و سماجی شخصیات امیراللہ شیخ ،چوہدری احمد جوئیہ، چوہدری محمدعثمان جوئیہ (القائم انڈسٹریز ملتان )، ملک مبشر ساجد(HBR TEXTILES)کی جانب سے نو منتخب ممبر سنڈیکیٹ زکریایونیورسٹی ملتان پروفیسر ڈاکٹر عثمان سلیم کے اعزاز میں سروسزکلب ملتان (MGM)میں پر تکلف ڈنر کا اہتمام ، کاروباری، سیاسی، تعلیمی و سماجی شعبہ سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات کی خصوصی شرکت، 1۔ وولکا فوڈز انڈسٹریز و گبز بسکٹ کے چیئرمین چوہدری ذوالفقار انجم، 2۔ سینیٹر رانا محمود الحسن (سابق MNa ) ، 3۔ ڈین فیکلٹی آف فوڈ سائنسز زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر شیخ، 4 ۔ وفاقی محتسب ملتان ریجن محمود جاوید بھٹی (سابق کمشنر فیصل آباد ) 5۔ چیئرمین اسلامیات ڈیپارٹمنٹ زکریا یونیورسٹی پروفیسر عبدالقدوس صہیب، 6۔ SP لیگل سائوتھ پنجاب حاکم نول، 7۔ ایکسیئن پاک PWD انجینئر شاہد خان احمدانی، 8۔ سابق MS نشتر ہسپتال ملتان و انچارج ڈرگ کورٹ ڈاکٹر نبیل سلیم، 9 ۔ سینئر صحافی ملک محمد اکمل وینس، 10۔ معروف عالم دین مفتی عبدالقوی، 11۔ رہنما تحریک انصاف میڈم قربان فاطمہ ، 12۔ سابق MPA رانا طاہر شبیر، 13۔ امیدوار صوبائی اسمبلی رانا اقبال سراج ، 14۔ چیئرمین اکاونٹنگ و فنانس ڈیپارٹمنٹ زکریا یونیورسٹی پروفیسر آصف یاسین، 15۔ بزنس مین خواجہ ذیشان (شالیمار گلاس ) 16۔ اینکر پرسن روہی ٹی وی 17۔دانیال زرارخان 18۔ابوبکر عمر بھُٹہ جنید انور و دیگر نمایاں ہی (at MGM Loddges Multan Cantt) https://www.instagram.com/p/Co8WybcNhaF/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
emergingpakistan · 11 months
Text
’لگتا ہے نواز شریف نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘
Tumblr media
اسے شطرنج کا کھیل کہیں یا میوزیکل چیئر، طویل عرصے سے ملک کے سیاسی اسٹیج پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں شطرنج کے پیادے اور کرسی پر قبضہ کرنے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ایک منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ یہ یقینی طور پر اختلاف کرنے والے اس سیاست دان کی وطن واپسی نہیں تھی جنہیں عدالت نے اس وعدے پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی کہ وہ اپنی سزا پوری کرنے کے لیے ملک واپس آئیں گے۔ اب وہ چار سال بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں واپس آئے ہیں اور یہ امر پاکستانی سیاست میں آنے والے بدلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مفرور قرار دیے گئے نواز شریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ انتخابات سے پہلے ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا یقینی ہے۔ جیسا کہ خیال کیا جارہا تھا لاہور میں مینار پاکستان پر ان کی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی نہیں تھی۔ اس میں ان ذاتی غموں کا ذکر تھا جن سے وہ دوران حراست گزرے تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن تب تک جب تک کہ وہ مقتدر حلقوں کے منظور نظر ہوں۔
صوبے بھر سے آنے والے عوام کے لحاظ سے یہ واقعی ایک متاثر کن جلسہ تھا، لیکن بڑے پیمانے پر جوش و خروش نظر نہ آیا۔ یہ ویسا استقبال نہیں تھا جیسا عام طور پر مقبول لیڈروں کا کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ایک ایسے ملک میں واپس آئے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں بدل گیا ہے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کے قیام کے بعد، جس میں ان کے بھائی وزیر اعظم تھے، نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ یہ عمران خان کی ہائبرڈ حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ پاکستانی سیاست میں آنے والی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کے ایک نئے انتظام میں اکٹھا کیا۔ نواز شریف نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور وزارت عظمیٰ کے لیے کوششیں کرنے سے پہلے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مزید 18 ماہ انتظار کیا۔ پاکستان سیاست میں اس بدلتی صف بندی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ عمران خان کے زوال نے ہائبرڈ حکمرانی کا ایک اور دور شروع کیا جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی واپسی ہوئی۔ 
Tumblr media
شہباز شریف جب وزیراعظم تھے تو بڑے بھائی ہی تھے جو لندن سے حکومت کرتے تھے۔ ہر اہم پالیسی فیصلے کے لیے بڑے بھائی کی منظوری درکار ہوتی تھی۔ ان کا قریبی ساتھی اور خاندان کا ایک فرد بھی ملک کے معاشی زار کے طور پر واپس آیا تھا۔ حالات جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اس کے بعد اب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت زیر عتاب ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ایسے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کی ملک کی سیاسی تاریخ میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اب عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں بغاوت سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے جو انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی حراستیں ملک کی سب سے زیاہ مقبول جماعت، جو کہ مسلم لیگ (ن) کی اصل حریف بھی ہے، کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے خاتمے کو مسلم لیگ (ن) کی آشیرباد حاصل ہے، لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ نواز شریف کی تقریر میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان کی واپسی کے فوراً بعد خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کر دی۔ ان کے طاقتور ترین مخالف کو انتخابی منظر سے ہٹانے نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور انہیں کبھی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد قبول کرنے پر خوش ہیں۔ قبل از انتخابات جوڑ توڑ مسلم لیگ (ن) کو کھلا میدان فراہم کرسکتی ہے لیکن اس طرح جمہوری عمل مزید کمزور اور غیر منتخب قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ان سازگار حالات کے باوجود نواز شریف کو اب بھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ انہیں چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ جب تک ان کی سزا برقرار ہے انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بارے میں کچھ قانونی خدشات رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے ان کی سزا کے بارے میں نظرثانی کی درخواست کا دروازہ بھی بند کر دیا ہے۔ یعنی نواز شریف کو ابھی ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔ نواز شریف کی واپسی سے یقیناً پارٹی میں اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت اور انتخابی منظر نامے سے پی ٹی آئی کے منصوبہ بند خاتمے کے باوجود بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی ماحول میں عوامی حمایت حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ 
نگران سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگست میں اقتدار چھوڑنے والی مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی خراب کارکردگی سے یہ امکان اور بھی کم ہوتا نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو نئے آئیڈیاز یا ٹھوس پروگرام سے اپنی سابقہ ​​سیاسی قوت حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے بغیر انتخابات میں جانا مشکل ہو گا۔ اپنی واپسی پر نواز شریف کی تقریر بیان بازی سے بھرپور تھی، جس میں ان کی سابقہ ​​حکومت کی کارکردگی کو سراہا گیا، جس پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو اور اپنی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی ناکام پالیسیوں سے الگ نہیں کر سکتے جو مالیاتی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سبب بنیں۔ یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی کو ملک کے تیز سیاسی اور سماجی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی پر شریف خاندان کی بڑھتی ہوئی گرفت بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس چیز کا ادراک نہیں کہ نوجوان نسل اور شہری متوسط ​​طبقہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف کی تقریر نے بھی کس قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پارٹی مشکوک انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں تو آسکتی ہے۔ لیکن اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔
زاہد حسین  یہ مضمون 25 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
عافیہ کی رہائی کی کنجی
Tumblr media
امریکا میں مقید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 20 سال بعد اپنی بہن فوزیہ صدیقی سے ملاقاتیں ہوئیں، ملاقات میں ڈاکٹر فوزیہ کے ہمراہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور انسانی حقوق کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ بھی موجود تھے۔ ملاقات کے لیے عافیہ کو ایک چھوٹے سے کمرے میں لایا گیا درمیان میں ایک شیشے کی دیوار حائل تھی اس دوران ہونے والی گفتگو ریکارڈ کی جا رہی تھی وہ کافی کمزور اور خوفزدہ نظر آ رہی تھی، چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے وہ التجا کر رہی تھی مجھے اس جہنم سے نکالو۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے عافیہ کو سماعت میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ ملاقات کے اختتام پر اسے زنجیروں سے جکڑ کر واپس لے جایا گیا۔ ملاقات کے دوران جیل کی بھاری کنجیوں کی آوازیں پس منظر موسیقی کی طرح وقفے وقفے سے بج رہی تھیں۔ عافیہ کو اس کے بچوں کی تصاویر بھی نہیں دکھانے دی گئیں جو اب 20 سال کے ہو چکے ہیں۔ اسے ماں کے انتقال کی خبر بھی نہیں دی گئی، عافیہ کا کہنا تھا کہ میں روزانہ ماں بہن اور بچوں کو یاد کرتی ہوں۔ اسٹفورڈ اسمتھ انسانی حقوق کے علم بردار وکیل ہیں جو اس سے قبل سیف اللہ پراچہ کو گوانتاناموبے جیل سے رہا کرا چکے ہیں، اس ملاقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے وہاں موجود تھے۔ 
ملاقات کے دوران انھوں نے فوزیہ صدیقی کو تلقین کی کہ اپنی بہن سے اہلخانہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باتیں کریں۔ ملاقات کے بعد ڈاکٹر فوزیہ تبصرہ کرنے سے قاصر تھیں اور گاڑی میں بیٹھ کر روتی رہیں، کلائیو اسٹفورڈ نے کہا کہ وہ آیندہ دو دنوں میں اس کیس پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے کہ عافیہ کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے انھوں نے کہا کہ’’ یہ ملاقات انتہائی افسردہ کرنے والی تھی لیکن اس جذباتی ملاقات کے لیے حاضر ہونا ایک اعزاز تھا۔ ‘‘ کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ امریکی نژاد برطانوی ہیں جو انسانی حقوق کے علم بردار اور یوکے ہیومن رائٹس این جی او تھری ڈی سی کے ڈائریکٹر ہیں جو امریکی عقوبت خانوں سے کئی بے گناہوں کو رہائی دلوا چکے ہیں۔ انھوں نے پچھلے ماہ کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں کہا تھا کہ ’’عافیہ کے ساتھ بہت ظلم و ناانصافی کی گئی ہے۔ فوزیہ میری بہن ہے میں عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا‘‘ اس موقع پر ڈاکٹر فوزیہ نے خطاب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا تھا کہ ’’پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے۔‘‘
Tumblr media
اس موقع پر سوال و جواب کے دوران ایک مندوب نے بہت معنی خیز جملہ کہا کہ ’’کلائیو اسٹفورڈ اس وقت ساری پاکستانی قوم کی نظریں آپ پر لگی ہیں اور ساری توقعات آپ سے وابستہ ہیں۔‘‘ اسٹفورڈ نے کہا تھا کہ میں بحیثیت ایک امریکی اس مقدمے پر بڑا شرمسار ہوں۔ اس ملاقات میں شامل سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ عافیہ کی رہائی حکومت پاکستان کی ایمانداری کی مرہون منت ہے اور عافیہ کی رہائی کی کنجی اسلام آباد میں ہے۔ انھوں نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عافیہ کو فی الفور ایف ایم سی کارزویلسے کسی دوسری جیل منتقل کرانے کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ عدالتیں حکمرانوں کو عافیہ کے مسئلے پر وقتاً فوقتاً مختلف ہدایات اور احکامات جاری کرتی رہی ہیں یہاں تک کہ عافیہ کی واپسی کے لیے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کرنے کی ہدایت دے چکی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عافیہ سے اہل خانہ کی ملاقات اور ہر ہفتے خیریت سے آگاہ کرنے کا پابند کیا تھا اور وزیر اعظم کو دورہ امریکا میں اس مسئلے کو اٹھانے کی ہدایت کی تھی، سینیٹ عافیہ کی سزا کی مذمت اور اسے واپس لانے کی قرارداد پاس کر چکی ہے۔
عافیہ کی قید کے اس عرصے کے دوران آٹھ حکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں کسی نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ سینیٹر طلحہ محمود نے عافیہ سے ملاقات کے بعد بیان دیا تھا کہ حکومت اس کی رہائی کے لیے مخلص نہیں ہے۔ امریکی اٹارنی ٹینا فوسٹر کا کہنا ہے کہ وکلا نے عافیہ کے حق میں موجود ثبوت و شواہد کو ضایع کیا لگتا ہے کہ حکومت نے ان کی خدمات عافیہ کو مجرم قرار دلوانے کے لیے حاصل کی تھیں۔ عافیہ کے اہل خانہ نے بھی حکومت کو وکلا کرنے سے منع کیا تھا جنھیں پانچ ملین ڈالر کی فیس ادا کی گئی ہے۔ عافیہ کے لیے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرے کیے اور انھیں ’’صدی کی خاتون‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ صدر جارج ڈبلیو بش اعتراف کر چکے ہیں کہ جیلوں میں ہونے والے مظالم امریکا کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ نیویارک کے ریٹائر جج رچرڈ برمین کا کہنا ہے کہ مقدمے میں کہیں ثابت نہیں ہوا کہ عافیہ کا کسی تنظیم سے تعلق ہے امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے کبھی عافیہ کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا۔
عدنان اشرف ایڈووکیٹ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes