Tumgik
#مقروض
googlynewstv · 3 months
Text
 مائیکل جیکسن کروڑوں ڈالرزکے مقروض نکلے
 انجہانی امریکی گلوکار مائیکل جیکسن کروڑوں ڈالرز کے مقروض نکل آئے۔ رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا کہ انتقال کے وقت مائیکل جیکسن تقریباً50کروڑ ڈالر سے زائد کے مقروض تھے۔ گلوکار نے 40کروڑ سے زائد ریکارڈزفروخت کئے۔قرض کے باعث گلوکار کوعالمی سطح پرمعدد کیسزکا بھی سامنا کرنا پڑاتھا۔ واضح رہے کہ اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ گلوکار مائیکل جیکسن نے قرض سے نجات کیلئے سونی کمپنی سے ڈیل بھی کی تھی ۔کمپنی کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 23 days
Text
مقروض کے بگڑے ھوئے حالات کی مانند
مجبـور کے ہـونٹــوں پہ سوالات کی مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ھوا ہے
سیــلاب ســے بــربــاد مکانـات کی مـانند
میں اُن میں بھٹکتے ھوئے جگنو کی طرح ھوں
اُس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند
دل روز سجاتا ہوں میں دُلہن کی طرح سے
غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند
اب یہ بھی نہیں یــاد کہ کیــا نـام تھا اُس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند
کس درجہ مقّدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصــوم سـے بچـے کـے خیـالات کی مانند
اُس شخص سے ملنا میـرا ممکن نہیـں محسن
میں پیاس کا صحرا ھوں وہ ہے برسات کی مانند
محسن نقوی
6 notes · View notes
hasnain-90 · 1 year
Text
‏جب کبھی آپ اپنی زندگی کے حادثات پر نظر دوڑائیں گے آپ پر انکشاف ہو گا کہ جس انسان کے آپ سب سے زیادہ معذرت کے مقروض ہیں وہ شخص آپ خود ہیں 🥀
6 notes · View notes
dpr-lahore-division · 23 hours
Text
پریس ریلیز
پنجاب کے لوگ عقلمند ہیں، بانی پی ٹی آئی یہاں مقبول نہیں: عظمی بخاری
کوئی شخص بانی پی ٹی آئی یا گنڈاپور کی طرح بات نہ کرے تو پی ٹی آئی میں رہ ہی نہیں سکتا: وزیراطلاعات پنجاب
لاہور 20 ستمبر:- وزیراطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ پنجاب کے لوگ عقلمند ہیں، کارکردگی پر توجہ دیتے ہیں، بانی پی ٹی آئی پنجاب میں مقبول نہیں۔ اسلام آباد کے جلسے میں صرف خیبرپختونخوا کے لوگ آئے، یہ لوگ ملک توڑنے کی بات کرتے ہیں اور اداروں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ خیبر پختوانخواہ والے6 ماہ سے صرف جلسے جلوس کھیل رہے ہیں، ان کا صوبہ ہزار ارب روپے کا مقروض ہے، جھوٹے بیانیے بنا کر یہ کب تک عوام کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔عظمٰی بخاری نے کہا کہ یہ بدتمیز اور بد تہذیب لوگ ہیں، سلمان اکرم راجہ پڑھے لکھے ضرور ہیں لیکن ان کا لہجہ بھی پی ٹی ئی کے دوسرے لوگوں جیسا ہے۔ کوئی شخص بانی پی ٹی آئی یا علی امین گنڈاپور کی طرح بات نہ کرے تو وہ پی ٹی آئی میں رہ ہی نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے، بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا گیا ہے، ایک صوبے کے وزیراعلی کو اسی صوبے کی خدمت کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے، ایک صوبے کے وزیراعلٰی کو دوسرے صوبے پر یلغار کرنے کا مینڈیٹ نہیں ملا۔
٭٭٭٭
0 notes
tunisianstories · 7 months
Text
لماذا سُمّي "مقروض" القيروان بهذا الإسم؟ 
تعود التسمية لقصّة طريفة، لتجّار حملهم الطّموح للبحث عن فكرة جديدة لحلوى تونسيّة فريدة. 
بدأ الرجال في تجربة مجموعة متنوعة من الوصفات والمكونات، حيث قاموا بتجارب مختلفة في المطابخ الصغيرة لتجربة مزيج النكهات المثالي. ولكن مع كلمحاولة، كان هناك شيء ما يعيق نجاحهم.
في إحدى المرات، عندما تمكّنوا أخيرًا من إعداد وصفة مثالية، تعرضت الحلوى المنتجة لهجوم مفاجئ من قبل جيش من الفئران. اجتمعت الفئران بسرعة حولالحلوى وبدأت في تناولها تاركة آثار قرضها.
لكن بدلاً من الاستسلام، قرّر الصانعون إعادة المحاولة. بدؤوا من جديد في إعداد وصفتهم، استخدموا تجربتهم السابقة وقدّموها بشكل أفضل وأدق. وبعدمثابرة طويلة، نجحوا في صنع حلوى لذيذة بشكل لا يصدق.
لتخليد هذا الانتصار وتذكيرهم بإصرارهم وتحديهم للصعاب، قرروا تسمية الحلوى بـ"مقروض"، تيمناً بتجربتهم الأولى التي اضطروا فيها لتقديم قرضللفئران كمحاولة فاشلة.
وعلى هذا النّحو أصبحت حلوى "مقروض" رمزاً للإصرار والثبات في وجه التحديات، وتجسيداً للقوة والإرادة في مواجهة الصعاب.
Tumblr media
0 notes
pakistanpress · 8 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
shiningpakistan · 8 months
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپ��رٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو ا�� یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور عیش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریشان ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
globalknock · 9 months
Text
’’ بے نام ‘‘ سابق چیئرمین 70 لاکھ روپے کے مقروض - ایکسپریس اردو
پی ایس ایل سے وابستہ شعیب خالد کی تقرری خلاف ضابطہ قرار دی جا چکی—فائل فوٹو   کراچی: ’’بے نام ‘‘ سابق چیئرمین پی سی بی کے تقریبا 70 لاکھ روپے کے مقروض ہیں جب کہ آڈٹ رپورٹ میں ایڈوانس کی مد میں لی گئی رقم واپس نہ ملنے کا ذکر ہے، البتہ حیران کن طور پر ان کا نام درج نہیں کیا گیا۔ آڈیٹرز جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں ایک ’’سابق چیئرمین‘‘ کا بھی تذکرہ ہے، پی سی بی نے انھیں 2018-19 کے دوران ٹریولنگ،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
تین جماعتوں کی وجہ سے پاکستان آئی ایم ایف کا مقروض ہے، سراج الحق
امیت جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ تین پارٹیوں کی وجہ سے پاکستان  آئی ایم ایف کا مقروض ہے ،انہوں نے غربت، بیروزگای اور مہنگائی کے تحفے دیئے۔ ملتان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ  ہر پارٹی کا رہنما کہتا ہے حالات خراب ہیں،ایک فقرے پر سب کا اتفاق ہے  حالات بہت خراب ہیں،پاکستان کے حالات اس لیے خراب ہیں دس کروڑ عوام غربت سے نیچے ہیں، نوجوان ڈگری لے کر گھوم رہے ہیں لیکن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 11 months
Text
🌹🌹 *𝙵𝙾𝚁𝙼𝚄𝙻𝙰 𝙵𝙾𝚁 𝙼𝙴𝚁𝙲𝚈*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
6️⃣4️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *FORMULA FOR MERCY*
*The Prophet of Islam ﷺ said, “Have mercy on the people of the earth. The one in heaven will have mercy on you”.*
(Sunan Abu Dawud, Hadith No. 4941)
*It is a simple principle that instills in men and women a passion to perform good deeds that never end.*
*Every human being needs God’s help in different stages of life, it is impossible to be successful in this world without this.*
*The easiest way to make a person deserving is to give to others what he wants God to give to himself.*
*If he wants God to help him, he should also be a helper of others.*
*If he wants God to be kind to him, he should be kind to others.*
*If he wants God to forgive him for his shortcomings, he should also overlook the shortcomings of others.*
*Dealing with someone with kindness and compassion is like saying to God: “O God, I have dealt with your servants with kindness and compassion, so deal with me with kindness and compassion.”*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *اللہ سبحان تعالی کی رحمت پانے کا نسخہ (فارمولا) :*
*عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا“۔*
(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4941)
*اس فرمان رسول ﷺ کے ذریعہ ہمیں زندگی گزارنے کا ایک آسان سا اصول سمجھایا گیا ہے جو تمام انسانوں (چاہے وہ عورت ہو یا مرد) میں ایسے اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتا ہے۔*
*ہر شخص کو زندگی کے مختلف مراحل میں اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ کی مدد کے بغیر اس دنیا میں کسی بھی انسان کا کامیاب ہونا ناممکن ہے۔*
*اپنے آپ کو (خود کو) اللہ کی مدد کا مستحق بنانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان تمام دوسرے لوگوں کے لیے بھی وہی کچھ چاہے جو وہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کو دے۔*
*اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ سبحان تعالی اس کی مدد کرے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی مخلوق (دوسرے لوگوں) کی بھی مدد کرے۔*
*اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی اس پر مہربان ہو تو اسے چاہیے کہ دوسروں لوگوں پر رحم کرے۔*
*اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اللہ سبحانہ تعالی اس کی کوتاہیوں پر اسے معاف کردے تو اسے بھی دوسروں کی کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔*
*کسی کے ساتھ نرمی اور ہمدردی سے پیش آنا ایسا ہے جیسے آپ اللہ سبحان تعالی سے کہہ رہے ہوں کہ : ’’اے اللہ میں نے تیرے بندوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا معاملہ کیا، لہٰذا تو بھی میرے ساتھ مہربانی اور شفقت کا معاملہ کر ۔"*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
🍁 *"تم زمین والوں پر رحم کرو اللَّهِ تم پر رحم فرمائے گا"-*
▪️ *اللَّهِ تعالی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات اور تمام مخلوقات میں اس کو برتری تفوق اور فضیلت سے نوازا ہے،قرآن مجید میں اللَّهِ تعالی نے بیک وقت چار چیزوں کی قسمیں کھا کر بتایا تاکہ حضرت انسان کو اپنی برتری کا احساس ہو اور ساتھ ہی اپنے مقام و منصب کا ادراک بھی ہو، "اللَّهِ تعالی نے فرمایا ، زیتون کی قسم_طور سینا کی قسم اور اس مبارک و پاکیزہ یعنی مکہ مکرمہ کی قسم ہم نے سچ مچ انسان کو سب سے بہترین سانچے میں ڈھالا ہے-" اللَّهِ تعالی نے انسان کو صرف بہترین سانچے میں ڈھال کر خوبصورت ہی نہیں بنایا بلکہ انسان کو اس کائنات کا تاجدار بنایا اور چیزوں کو اس کیلئے مسخر بنا کر اس کی خدمت میں مصروف کردیا۔*
▪️ِ *خدمت خلق وقت کی ضرورت بھی ہے اور بہت بڑی عبادت بھی ہے کسی شخص کے دکھ و درد کو بانٹنا حصول جنت کا زریعہ بھی ہے،کسی زخمی و مجبور دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللَّهِ کی خوشنودی کا زریعہ ہے کسی مقروض کیساتھ تعاون کرنا اللَّهِ کی رحمتوں برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے،کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول اللَّهِ ﷺ بھی ہے ، اس ہی طرح بھوکو کو کھانا کھلانا اور مجبوروں کے کام آنا عظیم ترین نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔*
▪️ *دوسروں کے کام آنا ہی اصل مومن کی زندگی ہے اپنے لئے تو سب جیتے ہیں کامل انسان تو وہ ہے جو اللَّهِ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کیلئے جیتا ہو ، اس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے،*
*ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے*
*آتے ہیں جو کام دوسروں کے*
▪️ *مزہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے قرآن مجید کے مطابق تخلیق انسانی کا مقصد بلاشبہ عبادت ہے لیکن عبادت سے مراد صرف روزہ،نماز،حج و زکوة نہیں ہے بلکہ عبادت کا لفظ عام ہے کہ حقوق اللَّهِ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی شامل ہے۔*
▪️ *مزہب اسلام نے خدمت خلق دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام امت کے افراد پر تقسیم کردیا ہے۔ غریب ہو امیر ہو یا وقت کا بادشاہ،ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کی انجام دہی کا زمہ دار ہے۔*
▪️ *یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللَّهِ کے نبیﷺ نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپﷺ کی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے ،سیرت طیبہﷺ کے معاملے سے پتا چلتا ہے کہ آپﷺ خدمت خلق کرتے تھے۔ مسکینوں دادرسی ، مفلوک الحال پر رحم و کرم محتاجوں، بے کسوں،کمزوروں کی مدد آپﷺ کے وہ نمایاں اوصاف تھے۔*
▪️ *حضور ﷺ نے انسانوں کو باہمی اور ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا ہے۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکید و تلقین فرمائی ہے ، مظلوموں اور حاجت مندوں کی دادرسی کی تاکید فرمائی ہے ، یتیموں ، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سرپرستی کا حکم فرمایا ہے۔*
*اس ہی بات پر علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے :*
*افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر*
*ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ*
▪️ *جو کسی انسان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو ، اللَّهِ تعالی اسکی حاجت پوری کریتا ہے اور جو کسی مسلمان کی تکلیف بے چینی اور مشکلات دور کرنے میں مدد کرتا ہے اللَّهِ اسے قیامت کے دن بے چینی اور تکلیف سے بجات دے گا۔*
🍃 *سرکار دو عالمؐ ﷺ نے فرمایا: "تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم ہر رحم فرمائے گا"-*
🍃 *"جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللَّهِ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کردیتا ہے"-*
🍃 *"رحم اور ہمدردی اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بدبخت ہو"-*
🍃 *"ساری مخلوق میں سب سے زیادہ اللَّهِ کے نزدیک وہ ہے جو اللَّهِ کی عیال یعنی مخلوق کے ساتھ زیادہ بھلائی سے پیش آتا ہے"۔*
🍃 *’’ قوم کا سردار قوم کا خادم ہو تا ہے۔"*
🍃 *’’جو شخص کسی بیوہ یا مسکین کی خبر گیری کرتا ہے اس کی حیثیت اللَّهِ کی را ہ میں جہاد کرنے والے یا اس شخص کی ہے جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو عبادت کے لیے کھڑا رہتا ہے۔"*
🍃 *’’ لوگو! سلام کا رواج ڈالو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو۔"*
🍃 *’’ ایسے شخص کی محبت میں کوئی خوبی نہیں جو تمہارے لیے بھی وہ کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے یا اس انداز میں نہ سوچے جس انداز میں وہ اپنی بہتری اور بھلائی سوچتا ہے۔"*
🍃 *’’خدا کی قسم تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو"۔*
🍃 *’’ آپس میں دشمنی سے گریز کرو کیوں کہ اس سے خوبیاں فنا ہوجاتی ہیں اور فقط عیوب زندہ رہتے ہیں۔"*
🍃 *’’جو شخص خدا اور روزِ جزا پر اعتقاد رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسیوں کی عزت کرے اور اسے ایذا نہ دے۔‘‘*
🍃 *’’ وہ شخص جس کی شراتوں سے اس کا ہمسایہ مامون نہیں وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔"*
🍃 *’’ تم میں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم معزز طریقے سے رہتا ہے۔"*
🍃 *’’بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور ناحق پکڑے جانے والے قیدی کو رہا کراؤ۔"*
🍃 *’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو اسے وہ رسوا کرے اور نہ ہی اس پر ظلم کرے اور جو اپنے بھائی کی حاجت روائی میں رہے گا اللَّهِ اس سے قیامت کے دن کی تکالیف دور کرے گا اور جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا قیامت کے دن اللَّهِ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔"*
*ہمیں چاہیے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور انکی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تاکہ اللَّهِ کی رضا حاصل ہو۔*
🍂 *اللَّهِ ہم سب کو نیک اعمال کرنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
بڑی تحریک کے کنارے پر
Tumblr media
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ "سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا رہے"۔ جب سے قلم تھاما ہے کوشش کی ہے کہ اپنا شمار ذلیل ترین انسانوں میں نہ ہونے دوں۔ سچ یہ ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو چکا ہے، سچ یہ ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آ رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ ڈیڑھ برس پہلے ڈالر 176 روپے اور پیٹرول 150 روپے کا لیٹر تھا۔ ظلم یہ ہے کہ آج ڈالر تین سو روپے سے اوپر ہے، ظلم یہ ہے کہ آج پیٹرول بھی قریباً تین سو روپے لیٹر ہے۔ ستم یہ ہے کہ آٹا 170 روپے کلو، کوکنگ آئل 700 روپے، چینی 172 روپے، بجلی کا یونٹ 65 روپے، ڈی اے پی کھاد 10 ہزار، یوریا پینتیس سو روپے، چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بائیس سے پچیس لاکھ اور حج اخراجات کم از کم 13 لاکھ روپے ہو چکے ہیں۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ ہماری زرعی زمینوں پر 15 سالوں میں دو لاکھ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں۔ ہمیں گندم، کاٹن، چینی اور دالیں باہر سے منگوانا پڑتی ہیں، کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہاں زراعت مشکل ترین بنا دی گئی ہے۔ فیکٹریاں بند پڑی ہیں، کاروبار نہ ہونے کے مترادف ہے، ہماری مقتدر قوتوں کو اس بڑی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ انہوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے جس سیاستدان کو میدان میں اتارا، اس نے نفرت انگیز باتیں کر کے اپنے اقتدار کی ہوس کو تو پورا کر لیا مگر ملک ٹوٹ گیا، 
ٹوٹنے والے ملک میں ظلم و ستم ہوا پھر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی تو بنگال کا شیخ مجیب الرحمٰن یہاں نہیں آنا چاہتا تھا ، اس نے کانفرنس میں نمائندگی کے لئے اپنا وزیر خارجہ نامزد کیا مگر یہاں خواہشیں پنپ رہی تھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن شریک ہوں پھر اس خواہش کو دوام بخشنے کیلئے مصر کے انور سادات اور فلسطین کے یاسر عرفات خصوصی طیارے میں ڈھاکہ گئے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں مصروف رہنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو طیارے میں بٹھا کر لے آئے۔ لاہور میں ہوائی اڈے پر اس شخص نے شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کیا جسے وہ Butcher of Bangal کہتا تھا۔ اس کانفرنس کے موقع پر لوگوں نے دیکھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا، شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں لگاتا رہا اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سینوں پر مونگ دلتا رہا۔ اسی نے فیکٹریوں اور اداروں کو نیشنلائز کر کے پاکستانی معیشت کا گلا گھونٹ دیا تھا، رہی سہی کسر اداروں میں یونینز بنا کر پوری کر دی گئی۔ 
Tumblr media
ضیائی آمریت میں ہماری مقتدر قوتوں نے لاہور کے ایک کاروباری شخص کا بچہ متعارف کروایا، اس بچے کی پرورش کی گئی، اسی دور میں ہر ادارے میں کرپشن متعارف کروائی گئی اور پورا نظام کرپٹ کر دیا۔ آج پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں ہر جگہ کرپشن نظر آتی ہے، جونکیں ہمارا خون چوس رہی ہیں۔ 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والا لوٹ مار کا یہ کھیل ہمارا خزانہ چاٹ گیا، کاروباری نے کاروباریوں کو کروڑوں اربوں کے قرضے دے کر معاف کر دیئے، اس نے ایک معیشت کا ماہر متعارف کروایا، اس نے ہماری معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا، اس نے ایس آر اوز کا کھیل کھیلا، کبھی فارن کرنسی اکاؤنٹ سیل کئے، ملک مقروض ہوتا چلا گیا اور حکمرانوں کی جائیدادیں اور پیسہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ 1951ء میں ڈالر 3 روپے کا تھا، 1972ء میں 5 روپے اور 1985ء میں 12 روپے کا تھا، بس اسکے بعد "ماہرین" نے ڈالر کو پر لگا دیئے۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے کلب، نوے ہزار گاڑیاں، 220 ارب کا مفت پیٹرول، واپڈا ملازمین کی ساڑھے پانچ ارب کی مفت بجلی اور اس کے علاوہ باقی مفت بروں کی مفت بجلی ہماری معیشت پر بوجھ ہے ورنہ ہمارا خزانہ کمزور نہیں تھا۔ 
سوئٹزرلینڈ ہمارے شمالی علاقہ جات سے نصف ہونے کے باوجود ساٹھ سے ستر ارب ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے، ہم کیوں نہ ایسا کر سکے؟۔ ڈیڑھ برس پہلے کہنے کو مہنگائی تھی مگر خود کشیوں کا موسم نہیں تھا۔ مقتدر قوتوں کے متعارف کروائے گئے ماہرین کے 16 مہینے ایسے لگے کہ آج میرے دیس کے آنگن میں غربت، بیروزگاری اور بھوک کا بسیرا ہے، خودکشیوں کی خبریں آ رہی ہیں، جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، 16 ماہ کی حکومت لوگوں کو احتجاج پہ لے آئی ہے۔ احتجاج تک لانے میں ظالمانہ پالیسیوں کا مرکزی کردار ہے، لوگوں کے لبوں سے روٹی چھن گئی، صحت اور تعلیم کے خواب بکھر گئے، روزگار اجڑ گیا، دھرتی پر ہونے والا ظلم لوگوں کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے کنارے پر لے آیا ہے۔ لوگ بھی کیا کریں، آمدنی سے کہیں زیادہ ٹیکس اور بل ہیں۔ ان کے پاس بھی احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بقول جہانزیب ساحر
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے
یہ صرف حرفوں کی تابکاری کا زہر کب ہے خدا کے بندو! یہ ہم غریبوں کی شاعری ہے
مظہر برلاس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
کیا آئی ایم ایف ہی حل ہے ؟
Tumblr media
پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک منظرنامہ تو داخلی ہے، جس سے شناسائی کے لیے کسی قسم کے تردد کی ضرورت نہیں۔ وہ تمام پاکستانی جن کا تعلق ملک کی اشرافیہ اور معاشی اعتبار سے ایلیٹ کلاس سے نہیں، وہ اس بدحالی کو خود بُھگت رہے ہیں اور ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ کچھ اس انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ مناسب ردعمل کے اظہار کی قوت بھی سلب ہو گئی اور ہر کوئی اُمید و بیم کی حالت میں اپنے آپ سے اُلجھ رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری معاشی حالت کا ایک پس منظر ایسا بھی ہے جس کا تعلق عالمی معیشت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ عالمی سیاسی کشمکش میں معیشت کے استعمال کے ساتھ ہے۔ عالمی سیاسی معیشت کی کشمکش کے اثرات اُن ملکوں کو زیادہ سہنے پڑتے ہیں، اپنی معیشت کے لیے جن کا انحصار خود اپنے زیادہ سے دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک اس وقت جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور چین میں بڑھتا ہوا تناؤ عالمی سطح پر مقروض ملکوں کی داد رسی کے لیے تجویز کیے گئے ممکنا حل پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔ 
کووڈ 19 کی عالمی وباء نے عالمی معیشت کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا تھا۔ دنیا نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس بلا سے چھٹکارا پایا تو یوکرین میں روسی فوجی کارروائی نے پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کو ایک اور کاری ضرب لگا دی۔ اس صورتحال سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن یوکرین کے معاملے پر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کا اشتراک عمل ناممکنات میں سے ہے، جب کہ ایک تیسری بڑی معیشت، روس خود جنگ کا ایک فریق ہے۔ لہٰذا کووڈ کے معاملے میں جو عالمی اتحاد وجود میں آگیا تھا اب اس کی کوئی توقع نہیں۔ اپریل 2020 میں جب عالمی معیشت مُنہ کے بل گر رہی تھی، جی۔ 20 تنظیم نے ’امریکا اور چین جس کا حصہ ہیں‘ فیصلہ کیا تھا کہ دنیا کے 73 غریب ملکوں کے وہ قرضے موخر کر دیے جائیں جو مختلف ملکوں نے دو طرفہ سطح پر دیے ہوئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اس انتظام کو مزید موثر بنانے کے لیے جی۔ 20 ممالک کے ساتھ ’پیرس کلب‘ کو بھی شامل کر لیا گیا جو قرض دینے والے 22 ممالک کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ 1956 میں قائم کیے جانے والے اس گروپ کا مقصد قرض میں سہولت دینے کی درخواستوں پر مشترکہ موقف اختیار کرنا تھا۔
Tumblr media
اس نئے انتظام کو ’کامن فریم ورک‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن یہ ’کامن فریم ورک‘ غریب ممالک کو کوئی فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی اس لیے ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضوں میں سہولت کے اس پروگرام پر امریکا اور چین متفق نہیں۔ امریکا نے میڈیا پر اور سفارتی سطح پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد چین کو ظالم قرض خواہ اور غریب ملکوں کو قرض کے جال میں پھانسنے والا ملک ثابت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’چین سری لنکا کے قرضوں سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔‘‘ حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اعداد و شمار ایک بالکل مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ملکوں کو دیے اپنے 13.1 ارب کے کُل قرضوں کا 63 فیصد اپنے طور پر موخر کر دیا تھا اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں آئی ایم ایف کی طرح کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فیصد ملک اپنے قرضوں کی قسط ادا کرنے کی یا تو استطاعت نہیں رکھتے یا پھر تیزی سے اس حالت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
1979-82 کے تین برسوں کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ پال والکر نے اچانک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 20 فیصد سے بھی زیادہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں مقروض ملکوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تنزانیہ کے سابق صدر جولیسن نائریری نے کہا تھا ’’ہم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کو فاقہ کشی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔‘‘ اس ایک اقدام نے اگلے 25 برس تک مقروض ملکوں کو بدترین حالات کا شکار کر دیا تھا۔ بعد میں والکر نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی تھی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ اس وقت غریب ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کا 21 فیصد چین، 11 فیصد پیرس کلب کے ممالک، 41 فیصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب کہ 23 فیصد نجی قرض خواہوں اور بانڈز مالکان کا ہے۔ امریکا کا حصہ محض 1.6 فیصد ہے لیکن امریکا کا رویہ ایسا ہے کہ ساری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ امریکا کی اس من مانی کی اصل وجہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر اس کا کنٹرول ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک خود مختار ادارے ہیں لیکن درحقیقت امریکی سیاسی مفادات کے حصول میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب ‘Confessions of an Economic Hitman` اس امریکی پالیسی پر ایک محکم شہادت ہے جس میں ’پرکنز‘ نے ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کرائی ہے۔ اس پالیسی کے تین بنیادی کردار عالمی مالیاتی ادارے، امریکا خود اور قرض حاصل کرنے والے ملک میں برسر اقتدار ٹولہ ہوتے ہیں۔ یہ تین کردار باہم مل کر کسی ملک کو اُس کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے چین کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین پریس بریفنگ میں امریکا کا نام لیے بغیر چینی ترجمان ’ماؤننگ‘ نے کہا ’’پاکستان، گھانا اور کئی دیگر ممالک جس معاشی بحران سے گ��ر رہے ہیں، یہ سب مخصوص ترقی یافتہ ملک کا کیا دھرا ہے‘‘۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان بدترین حالات میں بھی جو ملک حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آگے آئے ہیں ان میں چین،‘ ایران اور ازبکستان سرفہرست ہیں، حالانکہ ایران اور ازبکستان تو خود معاشی مسائل کا شکار ہیں۔
چین نے جہاں آئی ایم ایف کے برعکس غیر مشروط طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے وہیں ایران نے دو طرفہ تجارت کو پاکستان کی موافقت میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے بالا دست طبقات اور مقتدر اشرافیہ اس بات کے تصور سے بھی گریزاں نظر آتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے چھٹکارا پانے کے کیا آپشنز ہو سکتے ہیں، انھیں تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے۔
غلام محی الدین  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
بڑی تباہی کی چھوٹی چھوٹی داستانیں
Tumblr media
مہنگائی کا آدم خور بوتل سے باہر نکل کر عوام کو نگل رہا ہے۔ غریب خودکشیاں کر رہے ہیں، مائیں بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو انہیں زہر کھلا کر ابدی نیند سلا رہی ہیں۔ عوام آٹے کے ایک تھیلے کیلئے پاؤں تلے روندے جارہے ہیں۔ حکمرانوں کی آنیوں جانیوں پر مزید لاکھوں ڈالر لٹائے جارہے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ڈالر قومی خزانے سے منہ موڑ گیا اورہمارے حکمراں ہیں کہ ان کی شاہ خرچیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں کوئی اپنی منجی کے نیچے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں، اُلٹا عوام کی ہی منجی ٹھونکی جارہی ہے۔ اپنے لوگ روٹی کو ترس رہے ہیں اور افغانی، آٹا مافیا کے گٹھ جوڑ سے ایک ہی دن میں پاکستان سے چھ لاکھ ٹن گندم بارڈر پار لے گئے لیکن کسی نے بارڈر سیکورٹی، کسٹم حکام اور اسمگلروں کا گریبان نہیں پکڑا کہ آخر اپنے لوگوں کو بھوکا مار کر افغانیوں کا پیٹ کیو ں بھرا جارہا ہے؟  یہ افغانی ہمیں بھوک سے بھی ماررہے ہیں اور دہشت گردی سے بھی اور آنکھیں بھی ہمیں ہی دکھا رہے ہیں۔ پشاور میں ایک روٹی 30 روپے کی ہو گئی، خیبر پختونخوا حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ گندم پر سیاست کی جارہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں سیاسی سرپرستی میں نجی گودام گندم کی بوریوں سے بھرے پڑے ہیں اور لوگ آٹے کی خاطر سڑکوں پر خوار ہو رہے ہیں۔ یہی صورت حال بلوچستان کی ہے۔ بھوک گھروں کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان نفرتیں پیدا کر رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کا تمام ملبہ وفاق میں اتحادی حکومت پر ڈالا جارہا ہے۔ یقیناً وفاقی حکومت قصور وار ہو گی لیکن اٹھارہویں ترمیم کے بعد خوراک، تعلیم ، صحت کے معاملات صوبوں کے اختیار میں ہیں۔ انکے پاس وسائل بھی ہیں اور فیصلے کی قوت بھی اور وہ حالات کے مطابق اپنے عوام کو بہتر ریلیف دینے کی پوزیشن میں بھی ہیں لیکن یہاں صرف سیاست کھیلی جارہی ہے۔ 
Tumblr media
کرپشن کی ہوش ربا داستانیں ایسی ہیں کہ ہم لکھتے جائیں، آپ پڑھتے جائیں، شرماتے جائیں۔ کہاں سے شروع کریں کہاں ختم، کوئی ایک ہو تو اس کا گریبان پکڑیں اور پوچھیں کہ آخر ان کا پیٹ کنواں ہے یا سمندر؟ باپ کا مال سمجھ کر قوم کا پیسہ لوٹ کر کھا رہے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔ یہاں تو پوری کی پوری گنگا ہی میلی ہے۔ ان بدعنوانوں نے تو ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ آج گھر گھر مہنگائی کا ماتم ہے۔ لوگ اگلوں پچھلوں کو بددعائیں بھی دیتے ہیں اور آئندہ انہی کو ووٹ دینے کا پختہ ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ نونی ہوں، انصافی ہوں یا پپلیے سب کا کاں چٹا ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ آخر ہمیں اس دلدل میں کس نے اور کیوں دھکیلا، ان کے معدے اتنے طاقت ور ہیں کہ اربوں کھربوں کے منصوبے نگل گئے۔ سڑکیں کھا گئے، پل ڈکار گئے، بجلی پانی کے منصوبوں کو ایک ہی گھونٹ میں پی گئے۔  ان بد عنوانوں کو کبھی بدہضمی ہوتی ہے نہ ہی کوئی ہیضے سے مرتا ہے۔ یہ پہلے لوٹتے ہیں، ہمیں مقروض کرتے ہیں، پھر بھکاری بن کر آئی ایم ایف کے پاس مزید قرضے لینے پہنچ جاتے ہیں اور قومی اثاثے گروی رکھ کر واپس آتے ہیں۔ سعودی عرب جاتے ہیں تو اللہ ، رسول ﷺ کے نام پر ہاتھ پھیلاتے ہیں اور دعوے دار ہیں کہ ہم دنیا کی پہلی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہیں، اس کے تحفظ کے لئے مزید کچھ دے دیں۔ چین جاتے ہیں تو سی پیک کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں۔ یواے ای کے حکمرانوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے مزدوروں نے آپ کے ملک کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ماضی کی لوٹ مار ایک طرف، دیوالیہ ہوتے ملک کی موجودہ پارلیمنٹ کا حال ملاحظہ فرمائیے کہ جہاں ہماری تقدیر کے فیصلوں کے نام پر قانون سازی کی جاتی ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں پارلیمنٹ کے ایک گھوسٹ مشترکہ اجلاس کی آڑ میں قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے بابوؤں سے اردلیوں تک نے سیشن الاؤنس اور ٹی اے ڈی اے کے نام پر کروڑوں روپے ڈکار لئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔  ہوا کچھ یوں کہ مشترکہ سیشن کے اختتام پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے آئندہ ماہ تک ملتوی کر دیا اور اس کے بعد تاریخ میں لگاتار توسیع کرتے رہے۔ سیکرٹریٹ افسروں اور ملازمین نے پہلے چھ ماہ میں اس مد میں کروڑوں روپے وصول کئے۔ لیکن جب معاملات بگڑے تو اے جی پی آر نے مزید بلوں اور الاؤنسز کی ادائیگی روک کر انکوائری شروع کر دی جبکہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے سینیٹ ملازمین کو یہ کہہ کر اس سیشن کا الاؤنس دینے سے انکار کر دیا کہ جب مشترکہ اجلاس ہوا ہی نہیں تو الاؤنس کیوں دوں؟ پڑھتے جائیے شرماتے جائیے  عرفان اطہر قاضی بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
gamekai · 2 years
Text
جاپان پر قرضوں کا بے تحاشہ بوجھ، لیکن پھر بھی دیوالیہ نہیں ہوتا؟
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک، جاپان کے بارے میں بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ اس پر قرضوں کا بے تحاشہ بوجھ ہے، اس کے باوجود یہ ملک سر اٹھائے کھڑا ہے اور دیوالیہ نہیں ہوتا، لیکن ایسا کیوں ہے؟ گزشتہ سال ستمبر کے آخر تک جاپان اس حد تک مقروض ہو چکا تھا جسے سن کر حیرانی ہوتی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ قرضوں کا یہ بوجھ یہاں رکے گا نہیں بلکہ مستقبل میں بڑھتا ہی جائے گا۔ جاپان پر قرضوں کا…
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
پی ایس او کے قابل وصول واجبات 620 ارب روپے تک جا پہنچے
پی ایس او کے قابل وصول واجبات 620 ارب روپے تک جا پہنچے
مالی بحران کے نتیجے میں خود’’پی ایس او‘‘ آئل ریفائنریوں کا 41.38 ارب روپے کا مقروض ہوگیا۔ فوٹو: فائل اسلام آباد: ایل این جی نے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو صارفین سے بلوں کی وصولی نہ ہونے کی وجہ سے قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔ پاور سیکٹر ماضی میں فرنس آئل کی فراہمی پر پی ایس او کو ادائیگیوں کے حوالے سے سب سے بڑا ڈیفالٹر ہوا کرتا تھا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 10 months
Text
اونے پونے افغان ہمارے کس کام کے
Tumblr media
دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم میں چوتھائی پاکستان ڈوب گیا۔ دیہی علاقوں میں پھنس جانے والوں کے ہزاروں مویشی سیلاب میں بہہ گئے اور جو بچ گئے انھیں بھی اپنے خرچے پورے کرنے کے لیے اونے پونے بیچنا پڑا۔ سیلاب کے ماروں کے ہم زبان و ہم علاقہ و ہم عقیدہ بیوپاریوں نے مصیبت کو کاروبار میں بدل دیا۔ میں نے مظفر گڑھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دیکھا کہ جانوروں کے بیوپاری حفاظتی بندوں پر گدھ کی طرح منڈلا رہے تھے۔ جس گائے یا بیل کی قیمت عام حالات میں پچاس ہزار روپے تھی۔ اس کی بولی پندرہ سے بیس ہزار روپے لگائی گئی۔ کوئی بھی بیوپاری پانچ ہزار کی بکری اور دنبے کا ساڑھے سات سو روپے سے زائد دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ جبکہ مرغی کی قیمت پچاس سے ستر روپے لگائی جا رہی تھی اور سیلاب زدگان کو اس بلیک میلنگ سے بچنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ قصہ یوں یاد آ گیا کہ ان دنوں یہ خبریں تواتر سے آ رہی ہیں کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان میں جنم لینے والی دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کے ہمراہ افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ انھیں فی خاندان صرف پچاس ہزار روپے لے جانے کی اجازت ہے۔ وہ اپنے مویشی نہیں لے جا سکتے۔ 
بہت سوں نے پاکستان میں مقامی خاندانوں میں شادیاں کیں۔ ان کے بچے اور پھر بچوں کے بچے ہوئے۔ انھوں نے ٹھیلے لگائے، دوکانیں کھولیں، ٹرانسپورٹ کا کام کیا۔ بہت سے مقامی بیوپاری ان کے لاکھوں روپے کے مقروض ہیں۔ پاکستانی شہری نہ ہونے کے سبب جن مقامی لوگوں کی شراکت داری میں انھوں نے کاروبار کیا۔ ان میں سے بہت سوں نے اب آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ ان کے گھروں اور دوکانوں کی قیمت ساٹھ سے ستر فیصد تک گر چکی ہے۔ ان مہاجروں کو نہیں معلوم کہ سرحد پار پچاس ہزار روپے سے وہ کیا کام کریں گے۔ ان کی زیرِ تعلیم بچیاں افغانستان کے کس سکول میں پڑھیں گی؟ جن خاندانوں کی کفالت عورتیں کر رہی ہیں ان عورتوں کو افغانستان میں کون گھروں سے باہر نکلنے دے گا؟ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ان پناہ گزینوں کو تمام ذاتی سامان کے ساتھ ساتھ املاک اور کاروبار کی فروخت سے ملنے والے پیسے ہمراہ لے جانے کی اجازت دے دی جاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کے کیمپوں میں رکھ دیا جاتا اور ان کیمپوں کی ذمہ داری مشترکہ طور پر قانون نافذ کرنے والوں اور اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیناں ِ( یو این ایچ سی آر ) کے سپرد کر دی جاتی۔ اس بابت ایرانی ماڈل کا مطالعہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہ تھا۔
Tumblr media
یہ بھی ممکن تھا کہ تب تک انتظار کر لیا جاتا جب تک پاکستان سمیت عالمی برادری کابل حکومت کو سفارتی سطح پر تسلیم نہ کر لیتی۔ یا افغانستان میں انسانی حقوق کے حالات سے مطمئن نہ ہو جاتی اور اس کے بعد اقوام ِ متحدہ کے متعلقہ اداروں کے مشورے سے مہاجرین کی واپسی کی کوئی باعزت پالیسی مرتب کر کے اس پر خوش اسلوبی سے عمل کیا جاتا تاکہ بہت سے عالمی ادارے اور حکومتیں ان مہاجرین کی وطن واپسی کے بعد انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ بنیادی سہولتیں دان کر دیتیں۔ مجھے ذاتی طور پر کسی غیرقانونی تارکِ وطن سے ہمدردی نہیں۔ مگر ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ملک چھوڑ کے یورپ اور دیگر براعظموں کا رخ کر رہے ہیں۔ جہاں رفتہ رفتہ انھیں بنیادی سہولتیں اور حقوق میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کیا آپ نے حال فی الحال میں کبھی سنا کہ کسی مغربی ریاست نے چالیس برس سے ملک میں رہنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر وہاں پیدا ہونے والے بچوں اور ان کے بچوں سمیت باہر نکال دیا ہو؟ اگر مغرب بھی ایسی ہی پالیسی اپنا لے تو فوراً تنگ نظری، نسلی امتیاز، تعصب کا ٹھپہ ہم ہی لوگ لگانے میں پیش پیش ہوں گے۔
بنگلہ دیش چاہتا تو شہریت سے محروم لاکھوں اردو بولنے والے مشرقی پاکستانیوں کو بیک بینی و دو گوش ملک سے نکال سکتا تھا۔ مگر پچاس برس ہونے کو آئے یہ مشرقی پاکستانی جن کی تعداد اب چند ہزار رہ گئی ہے۔ آج بھی ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں ریڈکراس کی مدد سے جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیوں کا بوجھ بھی بٹا رہا ہے جن میں سے آدھوں کے پاس کاغذ ہی نہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلا دستاویزات مقیم افغانوں کی بے دخلی کے بعد ان افغانوں کی باری آنے والی ہے جن کے پاس اپنی مہاجرت قانوناً ثابت کرنے کی دستاویزات موجود ہیں۔ مگر ان دستاویزات کی معیاد ہر دو برس بعد بڑھانا پڑتی ہے اور حکومتِ پاکستان کا اس بار ان کی مدت میں اضافے کا کوئی موڈ نہیں۔ حالانکہ اقوامِ متحدہ کے بقول یہ لاکھوں مہاجرین پناہ گزینیت سے متعلق انیس سو اکیاون کے بین الاقوامی کنونشن کی طے شدہ تعریف پر پورے اترتے ہیں اور انھیں ایک غیر محفوط ملک میں واپس جبراً نہیں دھکیلا جا سکتا۔ مگر پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک نے اس کنونشن پر دستخط نہیں کیے۔
اسی سے ملتی جلتی پالیسی اکیاون برس قبل یوگنڈا کے فوجی آمر عیدی امین نے اپنائی تھی جب انھوں نے لگ بھگ ایک صدی سے آباد نوے ہزار ہندوستانی نژاد باشندوں ( ایشیائی ) کو نوے دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور فی خاندان محض دو سو بیس ڈالر ساتھ لے جانے کی اجازت دی۔ جن پاکستانی فیصلہ سازوں نے کالعدم ٹی ٹی پی اور کابل حکومت کے خلاف غصے کو تمام افغان پناہ گزینوں پر برابر تقسیم کر کے بندر کی بلا طویلے کے سر ڈالنے کی یہ پالیسی وضع کی ہے۔ ان فیصلہ سازوں کی اکثریت کے پاس آل اولاد سمیت دوہری شہریت ہے اور یہ دوہری شہریت بھی ان ممالک کی ہے جہاں ہر سال لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن پہنچتے ہیں اور وہ ایک مخصوص مدت میں متعلقہ قانونی ضوابط سے گذر کے بالاخر قانونی بنا دئیے جاتے ہیں۔ چالیس برس پہلے افغانوں کو اسلامی بھائی کہہ کے خوش آمدید کہا گیا اور ان کے کیمپ دکھا دکھا کے اور مظلومیت بیچ بیچ کر ڈالر اور ریال وصولے گئے۔ کس نے وصولے اور کہاں لگائے۔ خدا معلوم۔ جب گائے دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو چارے کا خرچہ بچانے کے لیے اسے چمڑہ فروشوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes