Tumgik
#منچھر جھیل
apnibaattv · 2 years
Text
منچھر جھیل میں پانی کی سطح بلند ہے، مزید دو مقامات پر شگاف پڑ گئے ہیں۔
منچھر جھیل میں پانی کی سطح بلند ہے، مزید دو مقامات پر شگاف پڑ گئے ہیں۔
منچھر جھیل پر بنائے جانے والے پشتوں کا منظر۔ – اسکرین گراب/فائل سہون: منچھر جھیل میں شگاف ہونے کے باوجود پانی کی سطح بلند ہے جس کے بعد مقامی حکام نے دو دیگر مقامات پر مزید شگاف ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی محکمہ آبپاشی کا کہنا ہے کہ بلوچستان سے پانی کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جس کے بعد جھیل کے پانی کی سطح میں 25 فٹ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بوبک میں منچھر جھیل کے آر ڈی 62 ریگولیٹر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
منچھر جھیل کا تیسرا کٹ بے اثر،پانی کا اخراج تیزی سے جاری
منچھر جھیل کا تیسرا کٹ بے اثر،پانی کا اخراج تیزی سے جاری
منچھر جھیل کو تیسرا کٹ بھی کام نہ کر سکا پانی کی سطح کم نہیں ہوئی ۔ پانی کا اخراج تیزی سے ہو رہا ہے۔ سیہون شریف میں منچھر جھیل کا سیلابی پانی بھان سعید آباد شہر تک پہنچ گیا ۔ ٹاون کمیٹی بھان سعیدآباد بھی سیلاب کی زد میں ہے ۔ سیلابی پانی سے گرڈ اسٹیشن بھان سعید آباد مکمل طور پر ڈوب گیا۔ جہاں 5 سے 8 فٹ پانی جمع ہے۔ سیلابی پانی کا ریلا یونین کونسل شیخ کو متاثر کر کے شہر کی طرف بڑھنے لگا ہے۔ شہر میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
warraichh · 2 years
Text
جو سامنے ہے وہ تو دے دو
(وسعت اللّٰه خان)
پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں ک�� باشندے اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہئے کہ انھیں وہ بتایا ہی نہیں جاتا جسے جاننا ان کا بنیادی حق ہے۔ اس نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا ہم کون ہیں۔ تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں۔ چنانچہ پچھلے ستر برس سے کوشش یہی ہے کہ پاکستانیوں کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائٹ پلان پر ہی رکھا جائے۔ اور انھیں یہی بتایا جائے کہ آسمان بس اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے دکھائی دیتا ہے۔
دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں، آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں علانیہ جوہری طاقت ہے۔ پاکستان سمیت صرف پینتیس ممالک کے ہاں گلیشئیر کی شکل میں پانی محفوظ ہے۔دس بڑے گلیشئیروں میں سے ایک ( بیافو ) پاکستان میں ہے۔دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جب کہ پاکستان کے پاس لگ بھگ سوا آٹھ سو کلومیٹر کی بحری پٹی ہے۔
دنیا کے سترہ ممالک میں دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کے بائیسویں طویل دریا ( انڈس ) ایک سو تین ویں ( ستلج ) اور ایک سو باون ویں بڑے دریا ( چناب ) سمیت کوئی ایسا صوبہ یا زیرِ انتظام علاقہ نہیں جو دریا سے محروم ہو۔ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی پچیس فیصد آبادی رہتی ہے وہاں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل ( منچھر ) سمیت پاکستان کے پاس انتالیس قدرتی اور آٹھ انسانی جھیلیں ہیں۔ سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے۔
اس کرہِ ارض کے بائیس ممالک کے باسیوں نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہوگا تو تصاویر میں دیکھا ہوگا مگر پاکستان میں نہ صرف دوسری (کے ٹو) اور نویں بلند چوٹی (نانگا پربت) ہے بلکہ یہ اکیلا ملک ہے جہاں دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین پہاڑی سلسلے ( ہمالیہ ، قراقرم ، ہندوکش ) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔یورپ صحراؤں سے خالی براعظم ہے اور دنیا کا بیسواں بڑا صحرا ( تھر تا چولستان ) پاکستان میں ہے۔ سترہ ممالک کے باشندوں نے ریل ہی نہیں دیکھی اور پاکستان کے ہاں ستائیسواں بڑا عالمی ریلوے نیٹ ورک ہے۔
اب آئیے مٹی کی زرخیزی کی جانب۔ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے۔گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں درجے پے ہے۔ چاول کی برآمد کے اعتبار سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی کی پیداوار کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے (بھارت دوسرے نمبر پر ہے )۔پیاز کی فصل کے اعتبار سے چین، بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ گرم مصالحوں کی برآمدی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ چنے کی پیداوار میں پاکستان بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ دالوں کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی عالمی رینکنگ بیسویں ہے۔ کھجوروں کی پیداواری فہرست میں پاکستان چھٹا اور آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔
دریائی و زرعی ملک ہونے کے سبب یہاں مویشی بھی باافراط ہیں۔ اس کا اندازہ یوں ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان بھارت ، امریکا اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس بڑے ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔ بکریوں کی تعداد کے اعتبار سے چین اور بھارت کے بعد پاکستان تیسرا اور مٹن برآمد کرنے والے ممالک میں بارہویں نمبر پر ہے۔ اونٹوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک ہے۔
مگر یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے جب ان نعمتوں سے سب سے کم فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ عام پاکستانی ہے۔ایک عالمی ادارے ووکس نے بائیس ممالک میں خوراک پر فی کس اخراجات کا جو عالمی جدول جاری کیا اس کے مطابق ایک عام جنوبی افریقی خاندان ہر روز اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے پر سو روپے کی آمدنی میں سے بیس روپے ، ایک بھارتی خاندان پچیس روپے ، ایک نائجیریائی خاندان ساڑھے انتالیس روپے خرچ کرتا ہے مگر پاکستان میں ایک خاندان اگر سو روپے روز کماتا ہے تو اس میں سے لگ بھگ سینتالیس روپے خوراک پر خرچ ہوجاتے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سابق ڈائریکٹر برائے پاکستان ولف گینگ ہاربنگر کے بقول پاکستان میں گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔ گندم کی پیداوار اس قدر ہے کہ ملکی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بعد بھی بیرونِ ملک برآمد ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آٹا تگنی قیمت پر مل رہا ہے۔ اس عرصے میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے صوبہ سندھ میں ناکافی غذائیت کم تو خیر کیا ہوتی اکیس سے بڑھ کے تئیس فیصد ہوگئی۔یہ انہونی بھی ہو رہی ہے کہ کئی خاندانوں کو خوراک خریدنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے ، چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔میں یہ بھی نہیں جانتا کہ الزام حکومت کی ترجیحات پر منڈھا جائے یا یہ کہہ کے جان چھڑا لی جائے کہ یہ سب تو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ راتوں رات سب کا پیٹ بھر دیں۔
مگر اے میرے منشور بازو اور مقدس گائیو ! تعلیم گئی بھاڑ میں ، صحت گئی جہنم میں ، روزگار کی بکواس رکھو اپنے پاس۔جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کررہی ہے اگر وہی پیدا کاروں میں تقسیم کرنے کا نظام نہیں تو باقی کا کیا کروں؟ اسلحہ برائے امن کی نمائشیں سرآنکھوں پے۔ خوراک برائے امن کی نمائش کب ہوگی؟؟؟
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
(جون ایلیا)
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
جو سامنے ہے وہ تو دے دو
پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں کے باشندے اپنے ہی ملک کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں یا یوں کہئے کہ انھیں وہ بتایا ہی نہیں جاتا جسے جاننا ان کا بنیادی حق ہے۔ اس نہ بتانے کے پیچھے یہ سوچ ہے کہ اگر ہر کس و ناکس جان گیا کہ پاکستان یہ کچھ ہے تو پھر یہ سوال اٹھے گا ہم کون ہیں۔ تم کون ہو اور یہ سب ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں۔ چنانچہ پچھلے ستر برس سے کوشش یہی ہے کہ پاکستانیوں کو ایک مخصوص معلوماتی ڈائٹ پلان پر ہی رکھا جائے۔ اور انھیں یہی بتایا جائے کہ آسمان بس اتنا ہی بڑا ہے جتنا کنوئیں کے اندر سے دکھائی دیتا ہے۔
دنیا میں پاکستان رقبے کے اعتبار سے چونتیسواں، آبادی کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک اور آٹھویں علانیہ جوہری طاقت ہے۔ پاکستان سمیت صرف پینتیس ممالک کے ہاں گلیشئیر کی شکل میں پانی محفوظ ہے۔ دس بڑے گلیشئیروں میں سے ایک ( بیافو ) پاکستان میں ہے۔ دنیا کے بیالیس ممالک کے پاس ساحل ہی نہیں جب کہ پاکستان کے پاس لگ بھگ سوا آٹھ سو کلومیٹر کی بحری پٹی ہے۔ دنیا کے سترہ ممالک میں دریا ہی نہیں اور پاکستان میں دنیا کے بائیسویں طویل دریا ( انڈس ) ایک سو تین ویں ( ستلج ) اور ایک سو باون ویں بڑے دریا ( چناب ) سمیت کوئی ایسا صوبہ یا زیرِ انتظام علاقہ نہیں جو دریا سے محروم ہو۔ جنوبی ایشیا جہاں دنیا کی پچیس فیصد آبادی رہتی ہے وہاں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل  منچھر سمیت پاکستان کے پاس انتالیس قدرتی اور آٹھ انسانی جھیلیں ہیں۔ سب سے بڑا مصنوعی آبپاشی کا نہری نظام پاکستان میں ہے۔
اس کرہِ ارض کے بائیس ممالک کے باسیوں نے پہاڑ اگر دیکھا بھی ہو گا تو تصاویر میں دیکھا ہو گا مگر پاکستان میں نہ صرف دوسری (کے ٹو) اور نویں بلند چوٹی (نانگا پربت) ہے بلکہ یہ اکیلا ملک ہے جہاں دس عظیم پہاڑی سلسلوں میں سے تین پہاڑی سلسلے ( ہمالیہ ، قراقرم ، ہندوکش ) ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یورپ صحراؤں سے خالی براعظم ہے اور دنیا کا بیسواں بڑا صحرا       (تھر تا چولستان ) پاکستان میں ہے۔ سترہ ممالک کے باشندوں نے ریل ہی نہیں دیکھی اور پاکستان کے ہاں ستائیسواں بڑا عالمی ریلوے نیٹ ورک ہے۔
اب آئیے مٹی کی زرخیزی کی جانب۔ پاکستان گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں اور چینی کی برآمد کے حساب سے نواں بڑا ملک ہے۔ گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں آٹھویں درجے پے ہے۔ چاول کی برآمد کے اعتبار سے تھائی لینڈ اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر اور باسمتی کی پیداوار کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے (بھارت دوسرے نمبر پر ہے )۔ پیاز کی فصل کے اعتبار سے چین، بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ گرم مصالحوں کی برآمدی فہرست میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ چنے کی پیداوار میں پاکستان بھارت کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ دالوں کی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی عالمی رینکنگ بیسویں ہے۔ کھجوروں کی پیداواری فہرست میں پاکستان چھٹا اور آم کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔
دریائی و زرعی ملک ہونے کے سبب یہاں مویشی بھی باافراط ہیں۔ اس کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ چونتیس ملین ٹن دودھ کی پیداوار ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان بھارت ، امریکا اور چین کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔ البتہ ڈیری مصنوعات بنانے والے بیس بڑے ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔ بکریوں کی تعداد کے اعتبار سے چین اور بھارت کے بعد پاکستان تیسرا اور مٹن برآمد کرنے والے ممالک میں بارہویں نمبر پر ہے۔ اونٹوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ چھٹا بڑا ملک ہے۔ مگر یہ سب بتانے کا مقصد کیا ہے جب ان نعمتوں سے سب سے کم فائدہ اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ عام پاکستانی ہے۔ ایک عالمی ادارے ووکس نے بائیس ممالک میں خوراک پر فی کس اخراجات کا جو عالمی جدول جاری کیا اس کے مطابق ایک عام جنوبی افریقی خاندان ہر روز اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری کرنے پر سو روپے کی آمدنی میں سے بیس روپے، ایک بھارتی خاندان پچیس روپے، ایک نائجیریائی خاندان ساڑھے انتالیس روپے خرچ کرتا ہے مگر پاکستان میں ایک خاندان اگر سو روپے روز کماتا ہے تو اس میں سے لگ بھگ سینتالیس روپے خوراک پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک سابق ڈائریکٹر برائے پاکستان ولف گینگ ہاربنگر کے بقول پاکستان میں گندم کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔ گندم کی پیداوار اس قدر ہے کہ ملکی ضروریات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بعد بھی بیرونِ ملک برآمد ہوتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کو پانچ برس پہلے کے مقابلے میں آٹا تگنی قیمت پر مل رہا ہے۔ اس عرصے میں ملک کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے صوبہ سندھ میں ناکافی غذائیت کم تو خیر کیا ہوتی اکیس سے بڑھ کے تئیس فیصد ہو گئی۔ یہ انہونی بھی ہو رہی ہے کہ کئی خاندانوں کو خوراک خریدنے کے لیے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے۔ 
مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ملاح کا حقہ سوکھا کیوں ہے ، چراغ تلے اندھیرا کیوں ہے۔ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ الزام حکومت کی ترجیحات پر منڈھا جائے یا یہ کہہ کے جان چھڑا لی جائے کہ یہ سب تو ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ کوئی الہ دین کا چراغ تو ہے نہیں کہ راتوں رات سب کا پیٹ بھر دیں۔ مگر اے میرے منشور بازو اور مقدس گائیو ! تعلیم گئی بھاڑ میں ، صحت گئی جہنم میں ، روزگار کی بکواس رکھو اپنے پاس۔ جو پاکستان کی زمین بفضلِ خدا پیدا کر رہی ہے اگر وہی پیدا کاروں میں تقسیم کرنے کا نظام نہیں تو باقی کا کیا کروں؟ اسلحہ برائے امن کی نمائشیں سرآنکھوں پے۔ خوراک برائے امن کی نمائش کب ہو گی ؟؟؟
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
چبا لیں خود ہی کیوں نہ اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
(جون ایلیا)
 وسعت اللہ خان  
1 note · View note
swstarone · 4 years
Text
منچھر جھیل: بارش سے منچھر اور موہانے مالامال، لیکن کیا یہ خوشیاں عارضی ہیں؟
منچھر جھیل: بارش سے منچھر اور موہانے مالامال، لیکن کیا یہ خوشیاں عارضی ہیں؟
Tumblr media
شبینہ فراز
صحافی
ایک گھنٹہ قبل
Tumblr media
،
کیرتھر پہاڑوں پر صبح کی سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی اور اُن کے دامن میں وسیع رقبے پر پھیلی منچھر جھیل کا پانی کسی آئینے کی طرح چمک رہا تھا۔ دور دور تک پھیلے ان نیلگوں پانیوں میں ایک سکون اور ٹھہراﺅ تھا لیکن پانیوں پر دھیرے دھیرے ہلکورے لیتی کشتیوں میں ہلچل تھی، چہل پہل تھی۔
یہ کشتیاں مچھیروں کے گھر تھے جہاں بہت سی سجی سنوری خواتین اور بچے ایک کشتی…
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 6 years
Photo
Tumblr media
خواہش تھی نئی گج ڈیم کی تعمیر کا معاملہ میرے ہوتے ہوئے حل ہوجاتا، چیف جسٹس چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریمارکس دیے ہیں کہ خواہش تھی کہ میرے ہوتے ہوئے معاملہ حل ہوجاتا، مگر کچھ خواہشیں، خواہشیں ہی رہ جاتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے نئی گج ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ دوران سمات ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے اجلاس میں ڈیم تعمیر کرنے کی سفارش نیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) کو کردی گئی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح تو یہ معاملہ ایکنک میں جاکر پھنس جائے گا، خواہش تھی کہ میرے ہوتے ہوئے معاملہ حل ہوجاتا، مگر بعض خواہشیں خواہشیں ہی رہ جاتی ہیں۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ سپریم کورٹ کا اصغرخان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ بعد ازاں عدالت نے پیر 14 جنوری تک سی ڈی ڈبلیو پی کے اجلاس کے منٹس عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے منگل کو وزیر توانائی عمر ایوب خان، وزیر خزانہ اسد عمر اور سیکریٹری کابینہ کو طلب کرلیا۔ نئی گج ایک ہل ٹورینٹ (پانی کا ماخذ) ہے جو بلوچستان کے خضدار ضلع سے نکلتا ہے اور کچ کے میدانی علاقوں سے گزرنے کے بعد یہ بالاخر منچھر جھیل میں داخل ہوتا ہے، نئی گج کا علاقہ 8 ماہ کے لیے خشک رہتا ہے جبکہ مون سون کے سیزن کے دوران 4 ماہ یہاں پانی رہتا ہے۔ منچھر جھیل کے اپنی حد تک پر پہنچنے اور مون سون سیزن میں میں مزید پانی حاصل کرنے کی پوزیشن نہ ہونے پر نئی گج سے بہنے والا پانی عمومی طور پر سیلاب کے تحفظ کے باندھے گئے بند کو تباہ کرتا اور زرعی زمین کو زیر آب لے آتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ زرعی زمین کے زیر آب آنے، گھروں کے تباہ ہونے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پنچانے کے بعد مون سون کا پانی سمندر میں گرتا ہے اور ایسا کرنے سے بڑی تعداد میں پانی ضائع ہوتا ہے۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے نئی گج ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا تھا اور 25 اپریل 2012 میں سندھ کے ضلع دادو میں نئی گج ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے کو اپریل 2015 تک مکمل ہونا تھا لیکن غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے یہ اب تک مکمل نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے اس ڈیم کی لاگت کا تخمینہ بھی بڑھ گیا ہے، جسے کم کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے اتفاق سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔
0 notes
mypakistan · 8 years
Text
منچھر جھیل : موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم
This photo of Manchar Lake is courtesy of TripAdvisor
دنیا کی سب سے قدیم جھیل منچھر جھیل کراچی سے قریباً 280 کلومیٹر (175میل) کے فاصلے پر ضلع دادو کے تعلقہ جوھی کھیرتھر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ جھیل کب وجود میں آئی، اس کے متعلق حتمی طور پر کوئی کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ جھیل موہن جودڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی قدیم ہے، یعنی یہ قدیم ترین پتھر کے دور سے اسی جگہ پر موجود ہے۔ منچھر جھیل دریائے سندھ سے قدرے بلندی پر واقع ہے۔ اس لیے جب دریا میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو دریا کا زائد پانی حفاظتی پشتے توڑ کر پورے علاقے میں پھیل جاتا ہے ،مگر جب دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو جھیل کا زائد پانی دریائے سندھ میں واپس ہو جاتا ہے اور منچھر جھیل اپنی اصل حالت میں واپس آجاتی ہے۔
ان حالات کے پیش نظر گذشتہ صدی کے دوران سے دریائے سندھ کے ساتھ ملانے کے لیے ایک ’’اڑی‘‘ نامی نہر بنا دی گئی تھی، جس سے دریا کا سیلابی پانی منچھر جھیل میں محفوظ ہو جاتا ہے، یہ جھیل 520 مربع کلومیٹر کے وسیع عریض علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ منچھر جھیل سے لاکھوں لوگوں کی قسمتیں وابستہ ہیں۔ ا س جھیل کو دیکھا جائے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کوئی شہر آباد ہے۔ اس شہر میں ہزاروں کشتیوں پر سوار پورے کا پورا خاندان نسل در نسل آباد ہے۔ ان خاندانوں کو ’’میر بحر‘‘ کہا جاتا ہے، ان کی صبح کہیں ہوتی ہے تو شام کہیں۔ میر بحروں کی تمام تر خوشیاں، مصائب اور تکالیف اس جھیل ہی سے وابستہ ہیں منچھر جھیل ان کے لیے ذریعہ آمدنی اور غذا کی فراہمی کا وسیلہ بھی ہے۔ جھیل میں قریباً دو سے زائد اقسام کی مچھلیاں جو صدیوں سے منچھر جھیل میں پائی جاتی ہیں بالکل ختم ہوگئیں ،اب جو مچھلیاں اس جھیل میں ہیں،ان میں سندھی حرگو، گندن، لوھر، سنگاڑا، پھندملی، موراکا اور کڑوا وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت مچھر جھیل مچھلیوں کی افزائش کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
اس جھیل سے لاکھوں من مچھلیاں ہر سال پکڑی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس جھیل میں کنول کافی مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ لوگ کنول کے بیجوں کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں، جہاں ہری بھری گھاس اچھا موسم اور قدرتی جھیل ہو ،وہاں پرندوں کا دور دراز علاقوں سے آنا ایک فطری بات ہے۔ سردیوں کے موسم میں منچھر جھیل ہر قسم کے پرندوں سے بھر جاتی ہے ۔پرندے عارضی طور پر مختلف ممالک سے ہر سال یہاں آتے ہیں، اکثر یہاں سائبریا اور اس قسم کے ٹھنڈے ممالک سے پرندے منچھر جھیل میں آتے ہیں۔ اس جھیل میں آنے والے پرندوں کی متعدد اقسام ہوتی ہیں، مثلاً ہنس لاکو جانی، راج ہنس، آڑی (آری جل مرغی) نیگری ( نیل سر) کا نیرو (چونچ بزا) ڈگوش ( چھوٹی بطخ) کنگھا ( لنگور) چنچلوں ( چکیکلو بطخ) گنگ مرغیاں اور مختلف بطخیں وغیرہ شامل ہیں ۔اس کے علاوہ منچھر جھیل میں سندھی ہنس بھی کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں یہ ہنس تین طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک بھورے رنگ کے ہنس دوسرے سفید منہ والے اور تیسرے کلغی والے ہنس، کہا جاتا ہے کہ یہ ایک نایاب نسل ہے، جو اس جھیل میں پائی جاتی ہے۔ آج کل تو ان پرندوں کو رائفل یا بندوق سے مارا جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے میر بحر یعنی زندہ اپنے ہاتھوں سے پکڑتے تھے۔
موسم سرما میں منچھر جھیل میں پانی کی سطح کافی کم رہتی ہے اور دور دور تک خشک سالی ہوتی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میر بحروں کے یہ خاندان مختلف غذائی اجناس کی کاشت کرتے ہیں۔ یہاں غذائی اجناس میں گندم، ج��ار، جو، سرسوں،کپاس اور چاول وغیرہ شامل ہیں میر بحر حضرات انہیں نہ صرف اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ قریبی منڈیوں میں فروخت کرکے اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔ منچھر جھیل کو سیاحت کا مرکز بنا جاسکتا ہے، یہاں کے عوام کا عرصہ دراز سے مطالبہ ہے کہ منچھر پر ایک ڈیم بنایا جائے تاکہ جو ھی تحصیل اور سہیونا کی لاکھوں ایکڑ زمین کاشت ہوسکے۔
شیخ نوید اسلم
 (پاکستان کی سیر گاہیں)
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اہم اجلاس
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/141444/
وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اہم اجلاس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ بھر میں زیر زمین پانی آلودہ ہوچکا ہے لہٰذا وہ ماہرین اور ڈونر ایجنسیز کے ساتھ رابطے میں ہیں کہ وہ اسکی روک تھام کے لیے کچھ کریں۔انہوں نے یہ بات ہفتے کو آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی اسکیموں کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی حکومت صوبے کے دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی اسکیمیں فراہم کررہی ہے اور اسی طرح زیر زمین پانی کے معیار اور اسے ریفریش کرنے کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک اور منصوبے پر کام کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ آلودہ پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ منچھر جھیل میں جمع ہے اور ہم ورلڈ بینک اور یورپین ڈونر اور ماہر ایجنسیز کے ساتھ منچھر جھیل کو ریفریش اور واش کرنے کے حوالے سے ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں تاکہ منچھر جھیل کے شاندار ماضی کو بحال کیا جاسکے۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے اجلاس میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی، چیئرپرسن پی اینڈ ڈی ناہید شاہ، سیکریٹری پی ایچ ای روشن شیخ، سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ، اسپیشل سیکریٹری خزانہ آصف جہانگیر، ممبر (سروسز) پی اینڈ ڈی فتاح تنیو، محکمہ پی ایچ ای کے چیف انجنیئر اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ پی ایچ ای صوبے کے دیہی علائقوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی اسکیموں کے حوالے سے اپنی خدمات کے لحاظ سے ایک نہایت اہم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ محکمہ اپنی جاری اسکیموں کو لازمی طور پر مکمل کرے تاکہ لوگ ان سے مستفید ہوسکیں اور دیگر یا رہ جانے والے دیہاتوں کے لیے مزید اسکیمیں شروع کرنے کے لیے منصوبابندی کریں ۔
سیکریٹری پی ایچ ای روشن شیخ نےوزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ آئندہ مالی سال میں 169 اسکیمیں ہیں، جس میں 96 جاری اسکیمیں شامل ہیں باقی ماندہ نئی اسکیمیں مکمل کی جائیں گی جن پر لاگت کا تخمینہ 26.7 بلین روپے ہے ۔
صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران انکا محکمہ 13.5 بلین روپے کی 100 اسکیمیں مکمل کرے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں وہ کراچی کو چند اہم اسکیمیں دیں گے جس میں سڑکیں، فلائی اوور اور اہم مقامات کی بیوٹی فکیشن کی اسکیمیں شامل ہیں۔
صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے بتایا کہ سندھ میں 9600 اسکولز چھت کے بغیر ہیں جس میں سے صرف 71 یونٹس میں 100 کے قریب انرولمنٹس ہیں۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے پالیسی فیصلہ لیتے ہوئے کہا کہ چھت کے بغیر اسکول جس میں تقریباً 40 انرولمنٹ ہونی چاہیے کو قریبی سرکاری اسکول میں منتقل کیا جائے۔ وہ اسکول جس میں طلباء کی تعداد 40 سے کم ہے اسے (چھت کے بغیر) اسکول نہیں کہا جاسکتا لہٰذہ ایسے اسکولوں کو چھت کے بغیر اسکولوں کی فہرست سے فارغ کردیا جائے۔وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ اساتذہ کی تربیتی پروگراموں پر توجہ مرکوز کرے۔
محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ محکمہ کی 349 اسکیمیں، جس میں 33.5 بلین روپے ایک نئی اسکیم بھی شامل ہے کے لیے 26.5 بلین روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور جاری کردہ فنڈز کا 90 فیصد استعمال بھی ہوچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان اسکیموں میں سے 108 اسکیمیں بشمول محکمہ بلڈنگ کی ایک اسکیم رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گی اور باقی ماندہ آئندہ مالی سال کے دوران مکمل ہوجائیں گی۔
محکمہ ایری گیشن کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ کو بتایاگیا کہ محکمہ کی 18.1 بلین روپے کی 56 اسکیمیں ہیں جوکہ رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہوجائیں گی۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وہ بجٹ کے منظوری کے فوراً بعد چند اسکیموں کا اچانک دورہ کریں گے ۔
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
منچھر جھیل میں پانی بھرنے لگا، مکینوں کو نقل مکانی کا حکم
منچھر جھیل میں پانی بھرنے لگا، مکینوں کو نقل مکانی کا حکم
منچھر جھیل اپنے پشتوں سے بہنے لگی جس سے آس پاس کے علاقوں کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ ٹویٹر ویڈیو کا اسکرین شاٹ سہون: منچھر جھیل میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی جس سے کسی بھی وقت ڈیک ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ شہری انتظامیہ نے قریبی علاقوں کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا حکم دیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر جامشورو کیپٹن (ر) فرید الدین مصطفیٰ نے کہا کہ منچھر جھیل میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
منچھر جھیل کا بند ٹوٹنے کا خدشہ
منچھر جھیل کا بند ٹوٹنے کا خدشہ
منچھر جھیل میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہوگئی.۔ بند کسی بھی وقت ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا جھیل کی صورتحال انتہائی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے ۔ اسی لیے قریبی علاقوں کے لوگوں کو نقل مکانی کا حکم دیا ہے ڈی سی جامشورو کے مطابق یونین کونسل واہڑ، جعفرآباد ،بوبک،آراضی اور چنہ کے عوام علاقہ خالی کریں۔ منچھر جھیل کا بند کسی بھی وقت ٹوٹنے کا خدشہ ہے ۔ آر ڈی 54 سے آر ڈی 58 تک منچھر جھیل کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan24 · 6 years
Text
وزیراعلی پنجاب کے پاس سمری پڑی رہتی ہے
وزیراعلی پنجاب کے پاس سمری پڑی رہتی ہے
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے نئی گج ڈیم کی تعمیر کا ٹائم شیڈول طلب کیا ہے ۔ وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ نے عدالت کو بتایا ہے کہ سندھ حکومت کو منچھر جھیل کی وجہ سے منصوبے پر تحفظات ہیں ۔
نئی گج ڈیم کی تعمیر کیلئے لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔ وفاقی وزراء خسرو بختیار اور فیصل واوڈا پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سب کو افتتاح کرنے کی جلدی ہوتی ہے،…
View On WordPress
0 notes
party-hard-or-die · 6 years
Text
اب کہاں بھنورے اور جگنو
الدین غوری
ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔
پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔
شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔
لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔
ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔
آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔
پاکستان کے اکثر و بیشتر شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔
فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی کے بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین گیسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔
The post اب کہاں بھنورے اور جگنو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2qkGC4m via Daily Khabrain
0 notes
Text
اب کہاں بھنورے اور جگنو
الدین غوری
ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔
پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔
شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔
لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔
ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔
آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔
پاکستان کے اکثر و بیشتر شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔
فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی کے بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین ��یسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔
The post اب کہاں بھنورے اور جگنو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2qkGC4m via
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
اب کہاں بھنورے اور جگنو
الدین غوری
ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔
پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔
شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔
لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔
ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔
آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔
پاکستان کے اکثر و بیشتر شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔
فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی ک�� بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین گیسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔
The post اب کہاں بھنورے اور جگنو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2qkGC4m via Urdu News
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
اب کہاں بھنورے اور جگنو
الدین غوری
ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔
پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔
شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔
لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔
ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔
آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔
پاکستان کے اکثر و بیشت�� شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔
فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی کے بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین گیسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔
The post اب کہاں بھنورے اور جگنو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2qkGC4m via Daily Khabrain
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
اب کہاں بھنورے اور جگنو
الدین غوری
ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلہ ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی اور ابتری میں جنگلات کی کٹائی یا کمی،آبی آلودگی، فضائی آلودگی،شور،موسموں کی خطرے کی حد تک تبدیلی،زمین کا کٹاؤ، کیڑے مار ادویات کا بے دریغ استعمال اور آبی حیات کی تباہی شامل ہے۔صنعتی دور کی ابتدا تک جب صاف ہوا، صاف پانی ، شہروں اوردیہات میں صاف ماحول تھا ،جنگلات مناسب حد تک موجود تھے آلودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جنگلات کی کٹائی ہوئی ،کارخانے لگے،چمنیاں دھواں اُگلنے لگیں،گاڑیوں کی تعداد بڑھی،کاربن کا اخراج سائلنسروں سے بڑھا تو مسائل میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا۔کسی بھی شہر یا ملک میں اس کے پچیس فی صدرقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں۔یہاں جنگل کے جنگل کٹائی کر کے صاف کیے جا رہے ہیں۔پاکستان میں تین تا چار فی صد علاقے میں جنگلات ہیں۔ وہ بھی زیادہ ترشمالی علاقہ جات میں ہیں۔ ایشیاء میں جنگلات بیس فی صد زمین پر ہیں جب کہ دنیا بھرمیں انتیس فی صدہیں۔ پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 90 کی دہائی میں ملک میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر پر جنگلات واقع تھے جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گئے ۔ کسی بھی ملک کے جنگلات دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ ماحول کو صاف رکھتے ہیں ،فضاءمیں آکسیجن کثیر مقدار میں خارج کرتے ہیں اور زمین کا کٹائو روکتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی کٹائی قانونی اور غیر قانونی طور پر کی جاری ہے۔ جنگلات میں مقیم باشندوں اور محکمۂ جنگلات کے درمیان معاہدے موجود ہیں لیکن جب تک یہاں کے لوگوں کو کوئی مناسب روزگار نہیں ملے گا یہ سلسلہ اسی طر ح جاری رہے گا۔
پاکستان میں فضائی آلودگی ایک بڑا پریشان کن مسئلہ ہے،اس سے نزلہ، زکام ،کھانسی ،گلے ، پھیپھڑوں اورآنکھوں کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔کارخانوں اور گاڑیوں کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ ٹو سٹروک انجن کے رکشےاور گاڑیاں پابندی کے باوجود سڑکوں پر آئل کا دھواں چھوڑ رہے ہیں۔اکثر ممالک نے گاڑیوں کے مضر ماحول دھویں سے بچنے کے لئے بائیو ایندھن کا استعمال شروع کردیا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایساکرنے کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ بائیو ایندھن کا دھواں ماحول دوست ہوتا ہے۔اگرچہ یہ پاکستان میں بھی ہے،اس کے باوجود صنعتی دھواں بھر پورفضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ کارخانوں میں دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے بھی قوانین ہیں کہ کون سا ایندھن استعمال کرنا چاہیے اور کون سا نہیں۔اورکس ایندھن کو جلانے کےلئے چمنی میں کس قسم کا چولہا استعمال ہونا چاہیے ۔ علاوہ ازیں سیمنٹ کمپنیاں فضائی آلودگی پھیلانے میں میں سب سے آگے ہیں۔ شہروں میں کوڑا اُٹھانے کی بجائے اس کو جلانا ایک عام مشاہدہ ہے۔ہر گلی کے نکڑپر اور کوڑے دانوں میں کوڑے کو جلا دیاجاتا ہے، جس میں پلاسٹک اور ربڑ بھی شامل ہوتے ہیں،اس سے شہرکی فضا میں زہریلا مواد شامل ہو تا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کی فضاء میں نائٹروجن کی مقدار 399 مائیکروگرام فی مکعب فیٹ ہے،جو بہت زیادہ ہے ۔معلق ذرات کی مقداربھی تین گنا زیادہ ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں کی مقدا رفضا میں 0081 مائیکروگرام فی اسکوائر میٹر کی خطرناک حد تک بڑھی ہوتی ہے۔ کراچی انوائرنمنٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے معیار سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس سے پاکستان میں ہر سال تقریباََ 22ہزار قیمتی جانیں جان سے جاتی ہیں۔اگر فضاء میں اسی طرح کاربن کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تو مستقبل میںبارشوں کی کمی کا سانا کرنا پڑے گا۔پودوں اور درختوں کی نشو ونما پر بھی اثرات رونما ہورہےہیں۔
شہروں کا کوڑا کرکٹ توبھی آلودگی پھیلانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ہر گلی میدان عمارت ،خاص طور پر سرکاری عمارتوں کی دیواروں کے نیچے جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر، بدبو دار گیسیں،جراثیم اور حشرات الارض پیدا کرنے کا سبب ہیں۔دنیا بھر میں کوڑاکرکٹ کو اکٹھا کرنے کی سائنسی تیکنیک استعمال کی جاتی ہیں۔ری سائیکل والے کوڑے دان الگ ہوتے ہیں اور آرگینک یا حیاتیاتی کچرہ دان الگ ۔ان کو وقت پر خالی کر کے کوڑے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔حیاتیاتی کچرے سے کھاد تیار کی جاتی ہے اور ری سائیکل والا کچرا فیکٹریوں میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔جلانے والے کوڑے سے توانائی حاصل کی جاتی ہے۔ چین میں چھوٹے چھوٹے کچرہ دان فٹ پاتھوں پر لگے ہوتےہیں، جن کی مستقل صفائی ہوتی رہتی ہے۔ کچرا گاڑی ہر گھنٹے کے بعد آتی ہے اور انہیں خالی کرد یتی ہے۔اس سےنہ بدبو ، نہ گندگی اور نہ ہی سڑاند ہوتی ہے ۔
لیکن پاکستان میںایساکوئی نظام نہیں ہے،یہاں تو جب تک کچرا پورے علاقے کو سڑا نہ دے تب تک گاڑی اسے اُٹھا نے نہیں آتی ۔آخر میں لو گ تنگ آکر اسے آگ لگا دیتے ہیں ،جس سے اور زیادہ آلودگی پھیلتی ہے ۔اس کچرے میں پلاسٹک کے وہ شاپنگ بیگز بھی شامل ہوتے ہیں جن سے انتہائی خطر ناک قسم کا دھواں خارج ہو تا ہے ۔
ماحولیاتی آلودگی خاص طور پر کاربن سے بھر پور گاڑیوں کا دھواں دماغی اور جسمانی کارکردگی میں تیس سے پچاس فی صد تک کمی کا باعث ہوتا ہے،جس سے ذہنی دباؤ اور دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شہروں کا کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے لئے سائنسیاقدامات کرنےکی شدید ضرورت ہے۔
آبی آلودگی پاکستان میں زمینوں سمندروں،فصلوں ،انسانوں اور حیوانات خاص طور پر آبی حیات کو موت کی جانب لےجا رہی ہے۔ہزاروں ٹن کچرا سیورج کی صورت میں سمندر میں جا رہا ہے۔دریاؤں،جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں سیورج کا پانی ڈالا ،جب کہ صنعتی پانی کا اخراج پینے کے ذخائر میں کیا جا رہا ہے۔منچھر جھیل میں صنعتی فضلے کاپانی اس قدر زیادہ مقدار میں چھوڑا جا رہا ہے کہ جھیل ہی تباہ ہو گئی ہے اور حیدرآباد کے شہریوں کو آلودہ پانی سپلائی ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صرف 12 فی صدلوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے۔ بیشتر دیہات میں نہروں،گڑھوں،تالابوں اور کھارے کنوؤں کا پانی میسر ہے، کہیں کہیں تو پیدل یا مویشیوں کےپیٹھ پر یہ آلودہ پانی دس، دس کلومیٹردور سے لایا جاتا ہے ۔ایک ہی جگہ سے انسان اور جانور پانی پی رہے ہوتے ہیں۔شہری لوگ اس پانی سے پیر دھونا بھی پسند نہیں کریں گے۔ اس آلودہ پانی سے ہیپا ٹائیٹس،،گیسٹرو اور دیگر بیماریاں ہو رہی ہیں ۔
پاکستان کے اکثر و بیشتر شہروں میں پینے کے پانی کی پائپ لائن سیورج کے نالوں سے گزرتی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سیورج کا پانی ان میں شامل ہوجاتا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ وہ پانی جو آج کل بہت عام ہے ،جسے منرل واٹر کا نام دیا جاتا ہے، وہ بھی جراثیم سے پاک نہیں ہوتا۔ گھر گھر میں نلکے کا پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک کر کے منرل واٹر کے نام پربیماریاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ جب بھی بازار سے سیمپل اٹھائے جاتے ہیں تو ان سے زیادہ تر ناقص اور جراثیم زدہ ہوتےہیں۔ آبی آلودگی کی تباہ کاریوں سےپچھلی دو دہائیوں میں اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔بحری جہازوں اور آبدوزوں کی عمر جو تیس سال ہوتی ہے ، وہ آلودہ پانی کی وجہ سے کم ہو کر 20 سال رہ گئی ہے۔صنعتوں سے نکلنے والے پانی میں ایسے اجزاء ہوتےہیں جو سمندر میں جاکر لوہے کو زنگ لگا کراُسے کاٹ کر برباد کر دیتے ہیں،بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے صنعتوں سے نکلنے والا اور سیورج کا پانی لیاری اور ملیر ندی کے ذریعے سیدھا سمندر میں جا رہا ہے۔کلفٹن اور ڈی ایچ اے کا پانی بھی ساحل کلفٹن میں کسی پلانٹ سے گزرے بغیر سمندر میں ڈالا جا رہاہے۔اس سے ہمارا یہ واحد سمندری ساحل انسانی فضلے سے لبریز بدبو دار اور بیماریوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ ایسے نامعلوم کیڑوں نے یہاں کی ریت میں بسیرا کر لیا ہےجو پیروں میں کاٹ کر زخم ، خارش اور جلدی بیماریاں پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے ساحل جو تیمر کے جنگلات سے بھرے تھے جن میں مچھلی اور جھینگوں کی نرسریاں تھیں، ان میں اب سیورج کا پانی اور حد نظر تک پلاسٹک کی تھیلیاں نظر آتی ہیں ۔ اسی لیاری اور ملیر ندی میں مچھلی اور جھینگوں کا شکارتک ہوتا تھا،اب یہ سیورج کے نالے بن گئےہیں۔
فطرت سے دوری کی بناء پر ہم نے قدرتی کھاد کی جگہ مصنوعی کھاد کا استعمال شروع کر دیا، جس سے زمینیں آلودہ ہو گئیں،اب ان میں قدرتی زرخیزی کے بجائے مصنوعی زرخیزی سے فصلیں پیدا کی جاتی ہیں۔فصلوں پر اندھا دھندکیڑے مار ادویات کےا سپرے کرنے سے ان میں پائے جانے والے کیچوے اور دیگر فائدے مند زرخیزی پیدا کرنے والے حشرات الارض بھی ختم ہو گئے۔پولن کو منتقل کرنے والے بھنورے اور جگنو اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔ شہد کی مکھیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں ،جس سے فصلوں کی صحت مند پولینیشن ہونا کم ہو گئی ہے۔ اندھا دھند شکار نے تیتر، جن کی موجودگی میں کسی کیڑے مار دوا کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، ختم ہو گئے۔فصلوں کی باقیات جلانے سے رہے سہے کیچوے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں۔ جنگلات ختم ہونے سے ہوا اور پانی کے ذریعے زمین کا کٹاؤ شروع ہو گیا۔ زمین کی اوپری سطح جو صدیوں سے زرخیزی اور نامیاتی اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی اب وہ کٹاؤ کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہے۔ سمندر میں پانی کی مقدار کم ہوجانے سے لاکھوں ایکرڑزمین سمندر برد ہو گئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی مسائل پاکستان کو 1365 ارب روپے سالانہ کا نقصان پہنچا رہے ہیں جو پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے پچاس سال بعد ماحولیاتی آلودگی کا احساس ہوا اور اس کے لئے پاکستان اینوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 1997 ء میں پاس ہوا۔لیکن ہواکیاماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دھوئیں سے آلودہ فضاء کے باعث پچھلے چند برسوں میں ناک، حلق، گلے، اور سینے کے امراض میں 60 فی صد تک اضافے سے فضاء میں آکسیجن کی کمی ہوئی ہے۔ درختوں کی آکسیجن خارج کرنے کی استعداد میں کمی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاکستان کا موسم تبدیل ہورہا ہے۔منفی موسمی تبدیلیوں سے خشک سالی،سیلاب،انسانی زندگیوں کا ضیاع، زمین کی تباہی اورزرعی سرگرمیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔پاکستان اگرچہ نقصان دہ گرین گیسوں کو تو فضا میں شامل نہیں کر رہا ،اس لیے کہ انڈسٹری اس قابل ہی نہیں ہے۔لیکن عالمی اثرات اور اوزون کی سطح کے نقصانات کی وجہ سے قدرتی تباہ کار یوںکا شکار ہو رہا ہے۔ اب خشک سالی یا بے وقت کی بارشیں زراعت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں ،جنگلات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے رقبے میں اضافہ کریں ۔سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی نہ چھوڑیں، کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویہ کا استعمال کم سے کم کریں۔گاڑیوں میں ایندھن کی تبدیلی کی جانب توجہ دیں۔
The post اب کہاں بھنورے اور جگنو appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2qkGC4m via India Pakistan News
0 notes