Tumgik
#ریمارکس
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
عرفی جاوید نے ہاکی کے کھلاڑی کے ریمارکس کا جواب دے دیا۔
عرفی جاوید نے ہاکی کے کھلاڑی کے ریمارکس کا جواب دے دیا۔
اورفی جاوید کا ہاکی کے شرکاء کو جواب: عرفی جاوید، کسی نہ کسی وجہ سے، ہر وقت خوشیوں میں لپٹا رہے گا۔ عرفی اپنی زندگی کو اپنے ذاتی فقروں پر بسانا پسند کرتی ہے۔ تاہم کوئی ایک بات کہہ کر یا اس کے برعکس کہہ کر چلا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے، عرفی کی ہندوستانی ہاکی کے شریک یوراج والمیکی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی اس بحث کے بعد عرفی نے ایک ویڈیو شیئر کرکے انہیں جواب دیا ہے۔ یوراج کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ صدر بائیڈن نے غیرضروری ریمارکس کس تناظر میں دیے،وزارت خارجہ
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ صدر بائیڈن نے غیرضروری ریمارکس کس تناظر میں دیے،وزارت خارجہ
اسلام آباد (نمائندہ عکس)امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستان سے متعلق ریمارکس پر وزارت خارجہ کے سینئر افسر کا ردعمل سامنے آیا ہے۔وزارت خارجہ کے سینئر افسر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ صدر بائیڈن نے غیرضروری ریمارکس کس تناظر میں دیے۔سینئر افسر وزارت خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ متعدد امریکی صدور اور امریکی حکومت نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی سکیورٹی اور کنٹرول کو ہمیشہ موثر اور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
دفتر خارجہ نے پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر کے 'غیر ذمہ دارانہ' ریمارکس کو مسترد کر دیا۔
دفتر خارجہ نے پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر کے ‘غیر ذمہ دارانہ’ ریمارکس کو مسترد کر دیا۔
وزارت خارجہ کی فائل فوٹو۔ اسلام آباد: پاکستان واضح طور پر مسترد پیر کو ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کے حالیہ ریمارکس نے پاکستان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دیا تھا۔ ایک بیان میں، دی غیر ملکی دفتر جے شنکر کے ریمارکس کو “انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے جا” قرار دیا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، بھارتی وزیر خارجہ نے، بھارت کے شہر وڈودرا میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’’پاکستان نے جس طرح دہشت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 5 days
Link
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
سپریم کورٹ نے سانحہ جڑانوالہ پر پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کردی، رپورٹ دیکھ کر شرمندگی ہو رہی ہے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے جڑانوالہ واقعے سے متعلق پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ پنجاب حکومت کی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل ہے، جڑانوالہ واقعے سے متعلق یہ رپورٹ دیکھنے کے بعد  شرمندگی ہو رہی ہے۔ دوسری جگہوں پر جا کر اسلاموفوبیا پر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور خود کیا کر رہے ہیں؟ کیا بھارت میں غیرمسلموں  پرہونےوالاظلم یہاں کرناچاہتےہیں؟بہادرپنجاب پولیس نےچرچ  کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
اگر عدلیہ آزاد ہوتی
Tumblr media
چیف جسٹس عمر بندیال کو تاریخ کیسے یاد رکھے گی یہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ہے امتحان نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ الیکشن 2023ء کے ہونے نہ ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ 2007ء میں سابق چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری کے انکار کے نتیجے میں جس تحریک نے جنم لیا وہ تاریخی جدوجہد ہونے کے باوجود اپنے اصل مقاصد یعنی اعلیٰ عدلیہ کو نظریہ ضرورت اور پی سی او کے چنگل سے مکمل طور پر آزاد نہ کر پائی البتہ ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دیگر اداروں کی طرح یہاں عہدہ کی میعاد میں توسیع نہیں ہوتی اور آپ کو پتا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں کون کب چیف جسٹس ہو گا۔ جناب افتخار چوہدری سے لیکر جسٹس بندیال تک شاید ہم وہ خواب پورے نہ کر سکے کہ عام آدمی کو بھی جلد انصاف ملے۔ ایک ایسے تقسیم شدہ معاشرہ میں جہاں لوگ بینچ کی تشکیل سے فیصلے سمجھ جائیں، جہاں ریاست کے اندر ریاست کا تصور عدلیہ کو کمزور سے کمزور کر رہا ہو وہاں بہت زیادہ توقعات بھی نہیں ہونی چاہئیں بس نئے چیف پر بھاری ذمہ داری اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کی بھی آگئی ہے۔ 
ایک کنٹرول جمہوریت میں جہاں چند سال بعد سیاست کا نیا اسکرپٹ تیار کیا جاتا ہو، جماعتیں بنانے اور توڑنے کی فیکٹریاں لگی ہوں وہاں عدلیہ کے سیاسی فیصلوں میں شک و شہبات آتے ہی ہیں۔ ریاست کے چار ستونوں میں اگر تضاد آجائے اور تصادم والی صورت حال پیدا ہو جائے تو سب کی نظر اعلیٰ عدلیہ پر ہی جاتی ہے۔ کاش 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے گورنر راج والے فیصلے کو فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نظریہ ضرورت کے تحت درست نہ قرار دیتے اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے تو شاید ہمیں 1971ء دیکھنے کو نہ ملتا۔ اس وقت غلام محمد اور جسٹس منیر کے درمیان خفیہ پیغامات نے پاکستان توڑنے کی بنیاد فراہم کر دی اور اسکے بعد سے آج تک ہم سنبھل ہی نہ پائے اور عدلیہ اتنی آزاد ہوئی جتنی جمہوریت اور صحافت۔ اس ملک میں چار مارشل لا لگے 1958ء سے 1999ء کے درمیان۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلی ہی آمریت کو آمریت اور آمر کو آمر کہہ دیتے تو شاید مارشل لا دفن ہو جاتا ہمیشہ کیلئے اور نظریہ ضرورت زندہ نہ ہوتا، کیا بدقسمتی ہے کہ جہاں ججز کیا عدلیہ ہی نظر بند ہو، ججز، چیف جسٹس اپنے گھروں سے باہر نہ آ سکیں وہاں کیسی آزاد عدلیہ اور کہاں کے انصاف پر مبنی فیصلے، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں اور گھروں کی آڈیو ویڈیو لیک ہوتی ہوں اور کوئی تحقیق تک نہ ہو کمیشن بنے تو اسے روک دیا جائے وہاں خود ججزز کیسے محفوظ ہو سکتے ہیں۔
Tumblr media
ایسے فیصلے تو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو حوصلہ دیتے ہیں۔ ایک بار سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی مرحوم نے بتایا تھا کہ 16؍ اکتوبر 1999ء کی شام جب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکومت ختم کر دی گئی ہے اور فوج نے اقتدار سنبھال لیا ہے میں نے ساتھی ججوں کو فون کرنا شروع کیا کہ کیا کرنا ہے ماسوا چند ججز کے جن کا تعلق کراچی سے تھا کسی نے یا تو فون نہیں اٹھایا یا اگر مگر کر کے اس مسئلے پر بات نہیں کی۔ جب ہم خود ہی کمزور ہو جائیں تو کسی سے کیا شکایت۔ میں کورٹ جانے کے لئے دوسرے دن باہر نکلا تو ایک جونیئر آفیسر نے جو باہر ہی کھڑا تھا مجھ سے کہا سر آپ گھر میں رہیں۔ جس ملک میں ایک وزیراعظم کو عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی دیدی جائے اور اس بینچ کے ایک جج سالوں بعد اعتراف کریں کہ انہوں نے جونیئر جج ہونے کے ناتے پھانسی کے حق میں فیصلہ دبائو میں دیا اور پھر وہی جج اس ملک کا چیف جسٹس بنے وہاں انصاف نہ ہوتا ہے اور نہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، ایک زمانہ تھا جب ججزز اپنے فیصلوں سے بولتے تھے اب ریمارکس اور ٹی وی کے ٹکرز کے ذریعہ بولتے ہیں۔
بدقسمتی سے وکیلوں اور صحافیوں، سیاستدانوں اور سی ایس پی اور بیورو کریسی کی جو نئی پود اس فرسودہ تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اسکے واضح اثرات ہمیں ان اداروں میں نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اس ملک کے نئے چیف جسٹس کیا تبدیلی لاسکتے ہیں اور یہ ہی ان کا اصل امتحان ہو گا۔ ان کے سامنے کئی چیلنجزز ہیں کاش چیف جسٹس عمر بندیال صاحب فل کورٹ اجلاس بلا کر اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے تقسیم کا تاثر ختم کرتے، کسی ایک آدھ مسئلہ پر فل کورٹ بنا ڈالتے، مفادات کے ٹکرائو پر بینچ سے الگ ہونے کی اعلیٰ روایت برقرار رکھی جاتی اور کچھ نہیں تو یا تو پنجاب اسمبلی کے معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے اور یا پھر 14 مئی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کو توہین عدالت پر سزا ہی دے ڈالتے۔ ہر چیز تاریخ پرچھوڑنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ ہم تو تاریخ بھی اپنے مطلب کی لکھتے ہیں۔ 
اب نئے چیف صاحب ایک ایسے وقت میں اپنے عہدہ کا حلف لینے جا رہے ہیں جہاں انہیں ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کی تقسیم کے تاثر کو زائل کرنا ہے، بہت سے اہم فیصلے کرنے ہیں، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا ہے، ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو اور اس کیخلاف اپیل والے مسئلے کو دیکھنا ہے اور سب سے بڑھ کر سول کورٹ سے سیشن کورٹ تک ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک اور ان عدالتوں کے درمیان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سے لے کر ملٹری کورٹ تک کے معاملات کو صرف دیکھنا ہی نہیں حل نکالنا ہے۔ عام آدمی کے لئے تاریخ پر تاریخ کے رحجان کو ختم کرنا ہے۔ شاید ان کے لئے یہ آسان نہ ہو کیونکہ خود ہماری وکلا برادری اور بار ایسوسی ایشن سیاسی طور پر مکمل تقسیم ہیں وکیلوں پر بدقسمتی سے سیاسی مفادات حاوی ہیں۔ خود میری برادری میں صحافیوں کو وزیر، مشیر اور وزیراعلیٰ بننے کا شوق بڑھتا جا رہا ہے تو دوسرں سے کیا شکایت۔ آج کا تو فلسفہ صحافت بھی یہ ہے جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ چاہے ضمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urdunewskanpur · 8 months
Text
لوک سبھا میں مسلم ایم پی کیخلاف قابل اعتراض ریمارکس
بی جے پی رکن کو اسپیکر اوم بر لا کا انتباہ۔ راج ناتھ سنگھ نے معذرت خواہی کی
Tumblr media
0 notes
kanpururdunews · 8 months
Text
Tumblr media
لوک سبھا میں مسلم ایم پی کیخلاف قابل اعتراض ریمارکس
0 notes
aspireblogging · 1 year
Text
عمران خان کی 121 مقدمات کے اخراج سمیت دیگر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
عمران خان کی 121 مقدمات کے اخراج سمیت دیگر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
لاہور (92 نیوز) – چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی مقدمات کے اخراج سمیت دیگر درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
عمران خان کی 121 مقدمات کے اخراج سمیت دیگر درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ جسٹس علی باقرنجفی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے ساتھ کچھ نیا نہیں ہو رہا، ماضی میں سیاسی رہنماؤں کی اسی طرح پیشیاں ہوئیں۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جناح ہاؤس حملہ کیس میں عمران خان کے ضمانتی مچلکے مسترد کر دیئے۔ عمران خان کے خاکروب کی جانب سے 3 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کے استدعا کی گئی۔
#عمران #خان #کی #مقدمات #کے #اخراج #سمیت #دیگر #درخواستوں #پر #فیصلہ #محفوظ
from Aspire Blogging https://ift.tt/N7sHkYv via https://ift.tt/ocK2u0q
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
مشرق وسطیٰ میں امریکی ز��ال اور چین کی نئی سافٹ پاور
Tumblr media
رواں ماہ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے دورۂ سعودی عرب کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ کیا امریکہ اپنے محدود نقطہ نظر سے ہٹ کر بھی مشرق وسطیٰ کے معاملات سے آگاہ ہے۔ اپنے دورے کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے مبینہ طور پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو بتایا کہ ریاض کی جانب سے واشنگٹن کے علاقائی مخالفین ایران اور شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے امریکہ کو ’اندھیرے میں رکھا‘ گیا۔ ان ریمارکس کو اوباما انتظامیہ میں ولیم برنز کے کردار اور ایران کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کی تشکیل کے تناظر میں انتہائی ستم ظریفی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں واشنگٹن نے عراق (2003 سے) اور افغانستان (2001-2021) میں غلطیاں کیں۔ 2009 میں ولیم برنز نے وضاحت کی تھی کہ ایران کو ایک اہم علاقائی کھلاڑی تسلیم کرتے ہوئے، ایرانی حکومت کو نہیں بلکہ اس کے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے ’ہمارا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ایرانی زیادتیوں کو کم کرتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ کے ساتھ رہنے کے لیے ایک طویل مدتی بنیاد تلاش کریں۔‘
ولیم برنز نے 14 سال قبل اس پالیسی کی وکالت کی تھی جو 2023 میں ایران کے بارے میں سعودی نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکہ کسی بیرونی رکاوٹ کے بغیر رابطے کی پالیسی کے ذریعے ایرانی طرز عمل کو تبدیل کرنے کی اپنی صلاحیت میں درحقیت ناتجربہ کار تھا۔ آج، ایران کے بارے میں سعودی نقطہ نظر سے لگتا ہے کہ ایران کے فیصلہ سازی کے عمل پر چین کا اثر و رسوخ اتنا مضبوط ہے کہ بات چیت کی پالیسی کے لیے راہیں کھول سکتا ہے۔ تاہم، سعودی نقطہ نظر صرف اس امید پر مبنی نہیں کہ روابط ایران کی جوہری، فوجی اور علاقائی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ ڈیموکریٹک اور رپبلکن انتظامیہ کی جانب سے ایران کے متعلق اپنی پالیسیوں میں بار بار تبدیلیوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یوکرین جنگ کی معاشی قیمت، مسئلہ فلسطین کے حل میں ناکامی، نام نہاد عرب سپرنگ کی حمایت اور داخلی انتشار نے علاقائی ممالک میں امریکی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔
Tumblr media
اس کے مقابلے میں مختلف ممالک کے اندر چینی سرمایہ کاری پر غور کریں، جس نے بیجنگ کے لیے سافٹ پاور سے جغرافیائی معاشیات اور جغرافیائی سیاست کی طرف منتقل ہونے کی راہ ہموار کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں چین کے عروج کو تمام علاقائی ممالک کے ساتھ بیجنگ کے اقتصادی شراکت داری کے نقطہ نظر سمجھنا ہو گا۔ یہ اقتصادی نقطہ نظر کمزور علاقائی حریفوں جیسا کہ 2001 میں طالبان اور 2003 میں صدام حسین حکومت کے خلاف فوجی طاقت دکھانے کی امریکی پالیسی سے بہت مختلف ہے۔ جیسا کہ رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے ٹوئٹر پر وضاحت کی: ’چین نے چالاکی کی بجائے معاشی طاقت دکھا کر امریکی سلطنت کو نکال باہر کیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں ہمارے ملک نے سڑکوں، بندرگاہوں، پلوں اور ہوائی اڈوں پر بمباری کرنے میں کھربوں خرچ کیے۔ چین نے اتنی ہی رقم ترقی پذیر ممالک میں ان کی تعمیر پر لگائی۔‘ مزید برآں، اوباما دور (2009-2017) کے بعد سے، مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی کے رد عمل سے واشنگٹن کے علاقائی شراکت دار الجھن کا شکار ہیں۔
نام نہاد ’عرب سپرنگ‘ کے دوران اپنے علاقائی اتحادیوں کے لیے امریکی حمایت کی کمی اور خطے میں سماجی افراتفری کے وقت تہران کے ساتھ مفاہمت کے خیال نے اس کے خلیجی اتحادیوں کی اکثریت کو خودمختاری اور تنوع پر مبنی ایک نئی خارجہ پالیسی ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔ جنگوں کے ذریعے خطے کو تبدیل کرنے میں نیو کنزرویٹو ناکامی اور خطے میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کو ترجیح دیے بغیر امریکی اثر و رسوخ کو فروغ دینے کا ڈیموکریٹک نقطہ نظر، دونوں اس کے علاقائی زوال کو تیز کرنے والے عوامل رہے ہیں۔ مزید برآں، براک اوباما کی علاقائی پالیسی جس کی بنیاد خلیجی ریاستوں کے بارے میں تنقیدی نقطہ نظر پر تھی اور ساتھ ہی جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے تحت علاقائی جنگوں نے مشرق وسطیٰ میں امریکی ساکھ کم کی۔ جنگی جنون اور امریکی اخلاقی برتری کے احساس کے علاوہ دنیا بھر، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے وقار پر وہاں کی داخلی بحثوں کے تباہ کن اثرات پر غور کرنا ہو گا۔
ایران کے بارے میں اوباما کے پالیسی جائزے کے بعد سے واشنگٹن اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے درمیان ایرانی مسائل پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا، لہٰذا خطے میں اب یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ڈیموکریٹس کی علاقائی پالیسی کا تعین ان کی اس خواہش سے ہو گا جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کے برعکس کرنے کی ہے۔ اس امریکی داخلی تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت سعودی امریکہ تعلقات کا مثبت ماحول بائیڈن انتظامیہ کے آغاز میں سرد اور مزید کشیدہ ہو گیا۔ اس تعصب پسندی نے اس علاقائی تاثر کو تقویت دی کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی، علاقائی مسائل اور خدشات کو حل کرنے کی کسی بھی حقیقی خواہش سے زیادہ داخلی انتشار کی عکاس ہے۔ وہ نقطہ نظر جس کا محور امریکہ ہو، اب اس خطے کے ممالک کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے برعکس، افغانستان اور عراق میں امریکہ کی ماضی کی غلطیوں کو دیکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو چاہیے کہ اپنے علاقائی شراکت داروں سے مشورہ لے تاکہ امریکی اثر و رسوخ کو بہتر بنایا جا سکے اور جنگوں کے بعد کھوئے ہوئے کچھ وقار کو دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔
لہٰذا ایرانیوں اور ڈیموکریٹکس کے لیے یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری لگتا ہے کہ وہ اپنی اندرونی بحثوں سے نکل کر ایک نئی علاقائی پالیسی تشکیل دیں جو خطے کی سماجی و ثقافتی تبدیلی کے عین مطابق ہو۔ یہ واشنگٹن میں سیاسی دھڑوں کے قلیل مدتی اندرونی مفادات کے بجائے سیاسی استحکام اور اقتصادی فائدہ مند نقطہ نظر کی حمایت میں ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو جغرافیائی سیاست اور سافٹ پاور دونوں کے لحاظ سے چین کا عروج جاری رہے گا۔ 
اس تحریر کے مصنف ڈاکٹر محمد السلمی بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار ایرانی سٹڈیز کے صدر ہیں۔
ڈاکٹر محمد السلمی  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
osarothomprince · 1 year
Text
ملکی صنعتیں اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے تباہ ہورہی ہیں، چیف جسٹس — News stories
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ملکی صنعتیں اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں۔ سندھ سیلز ٹیکس 2011ء کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت  کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صنعتوں پر اضافی ٹیکسز کے نفاذ کے معاملے کو… ملکی صنعتیں اضافی ٹیکسوں کی وجہ سے تباہ ہورہی ہیں، چیف جسٹس — News stories
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
فیصل واوڈا کیس میں تسلیم کیا گیا غلطی ہوئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، چیف جسٹس
فیصل واوڈا کیس میں تسلیم کیا گیا غلطی ہوئی، نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، چیف جسٹس
اسلام آ باد (کورٹ رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیخلاف کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ا س کیس میں تسلیم کیا گیا کہ غلطی ہوگئی نااہلی بنتی ہے مگر تاحیات نہیں، تاحیات نااہلی صادق اور امین کے اصول پر پورا نہ اترنے پر ہوتی ہے، اثاثے چھپانے یا غلطی کرنے پر آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی ایک مدت تک ہوتی ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کیخلاف کیس کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج کیس کے خلاف ریمارکس میں عمران خان کو 7 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج کیس کے خلاف ریمارکس میں عمران خان کو 7 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ۔ – IHC ویب سائٹ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اتوار کو اسلام آباد ہائی کورٹ (IHC) سے 20 اگست کو اسلام آباد میں ایک عوامی جلسے کے دوران ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری اور پولیس افسران کے خلاف متنازعہ ریمارکس دینے پر اپنے خلاف دائر مقدمے میں حفاظتی ضمانت حاصل کر لی۔ پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے عمران خان کی جانب سے درخواست اسلام آباد کے مارگلہ پولیس اسٹیشن کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
spitonews · 1 year
Text
انسداد دہشتگردی عدالت؛ پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانتیں منظور
 اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کی عبوری ضمانتیں منظور کرلیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر پی ٹی آئی رہنماؤں پر تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جج نے ریمارکس دیے کہ اتنے ملزمان ہو گئے ہیں کہ تاریخ میں آگے پیچھے کچھ دیکھنا پڑے گا۔ جج نے احسان نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ گیٹ پر چلنے کی پریکٹس بہتر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 3 months
Text
اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وزیراعظم کو پیر کے روز طلب کر لیا
لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نگران وزیر اعظم کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جو لوگ بھی اس کام میں ملوث ہیں انکو پھانسی ہونی چاہیے،عام طور پر ایک بار پھانسی ہوتی ہے ان کیسسز میں ملوث افراد کو دو دفعہ پھانسی ہونی چاہیے،ابھی نگران وزیراعظم کو طلب کرتا ہوں اور پھر منتخب وزیراعظم کو بھی طلب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 1 year
Text
غلام نبی آزاد نے ’غلام‘ کہنے سے ناراض، جے رام رمیش کو ہتک عزت کا بھیجا نوٹس
غلام نبی آزاد نے ’غلام‘ کہنے سے ناراض، جے رام رمیش کو ہتک عزت کا بھیجا نوٹس سری نگر،25/فروری(ایس او نیوز/ایجنسی) کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے غلام نبی آزاد پر تنقید کی تھی، اس بارے میں غلام نبی آزاد نے کانگریس لیڈر جے رام رمیش کو ان کے ہتک آمیز ریمارکس کے لیے قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔ آزاد نے کانگریس لیڈر کو ’غلام‘ کہنے پر نوٹس دیا ہے۔وہیں سابق ایم ایل سی نریش گپتا نے جے رام رمیش کے خلاف ہتک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes