Tumgik
#ٹرین سروس
jhelumupdates · 19 days
Text
دس سال سے بند پنڈدادنخان تا لالہ موسیٰ ٹرین سروس یکم جون سے بحال کرنے کا فیصلہ
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
لاہور سیالکوٹ موٹروے بہتر کریں گے، بہترین ٹرین سروس شروع کریں گے، نواز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف نے کہا ہے کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے کا معیار بہتر کریں گے،لاہور سے سیالکوٹ بہترین ٹرین سروس چلائیں گے۔ سیالکوٹ میں انتخٓابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ سب کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں،آپ نے جس محبت کا اظہار کیا اس پر کہتا ہوں آئی لو یو ٹو،سیالکوٹ کو آج بار بار کہنے کو دل کرتا ہے نوازشریف لو یو ٹو،سیالکوٹ باوفا اور بہادر لوگوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 months
Text
کیا ریلوے اور پی آئی اے جیسے اداروں کی نجکاری ضروری ہے؟
Tumblr media
نگران حکومت اور وزیر نجکاری فواد حسن فواد کچھ سرکاری اداروں خصوصاً پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کر رہے ہیں۔ فواد صاحب ایک قابل بیوروکریٹ ہیں جنہیں ہماری سیاست میں ایک جانب کی طرف سے بہت ستایا گیا جبکہ دوسری جانب نے انہیں بھلا دیا۔  پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرنے والے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے وزیر نجکاری اور نگران حکومت کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے۔ ان کا کیا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟ آئیے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لیں۔ پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کر لے۔ اس سے ایک سال قبل پی آئی اے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور اس سے بھی ایک سال قبل 35 ارب روپے کا۔ پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔ اس کے بجائے، ہم نے خسارے میں چلنے والے ادارے کو جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے جو 8 ہزار ملازمین کو نوکریاں دیتا ہے، کبھی بھی سول ایوی ایشن کے واجبات ادا نہیں کرتا اور پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی میں بھی ہچکچاتا ہے۔ پی آئی اے نے تمام حکومتوں اور بورڈز کے ماتحت اور ہر ا��ک بحالی اسکیم کے بعد خسارہ کیا ہے گزشتہ 15 سال میں حکومت نے 109 ارب روپے براہ راست پی آئی اے پر خرچ کیے اور بینکوں کے 263 ارب روپے کے قرضوں کی ضمانت دی ہے۔ ہم پی آئی اے پر جتنی رقم چاہیں لگا سکتے ہیں لیکن سیدھی سی بات یہ ہے کہ پی آئی اے کو اب ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ملازمین کی ملازمت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایئرلائن کی جلد نجکاری پاکستانی ٹیکس دہندگان کے لیے بہت بہتر ہو گا۔ نجکاری کی بات مجھے پاکستان ریلوے پر بھی غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ پچھلے سال، حکومت نے اس کے آپریشنل نقصانات کو پورا کرنے کے لیے 45 ارب روپے اور مجموعی طور پر 70 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی 25 ارب روپے دیے۔
Tumblr media
پاکستان ریلوے کو ایک سال پہلے 59 ارب روپے اور اس سے ایک سال پہلے 56 ارب روپے ملے۔ صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ٹرک کے ذریعے ایک کلوگرام کارگو کو منتقل کرنے پر آنے والے ڈیزل کے اخراجات ٹرین کی نسبت 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو کے لیے ٹرکوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہے۔ ٹرینیں مسافروں کے سفر کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ طریقہ ہیں، پھر بھی سفر کرنے والے پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ریلوے کے مقابلے میں طویل فاصلے کے بس کے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ تاہم، خدمات کو بہتر بنانے یا نقصانات کو کم کرنے کے بجائے، ریلوے کی بیوروکریسی چاہتی ہے کہ حکومت نئے ٹریکس کے لیے مزید 7 ارب ڈالر قرض لے اور ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے۔ کیا ریلوے کی وزارت سوچ بچار نہیں کررہی؟ کیا ان میں اصلاحات کا کوئی عزم نہیں؟ آخر کیوں پاکستان ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کی ایندھن کی لاگت روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے؟
کیا آپ اس نا اہلی اور ممکنہ طور پر بدعنوانی کا تصور کر سکتے ہیں جو شاید پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا حصہ ہے کیونکہ برسوں کی سرکاری سبسڈی کے باوجود، یہ ادارے اربوں کا نقصان کرتے رہتے ہیں اور بار بار بیل آؤٹ کا تقاضا کرتے ہیں۔ ریلوے کو چلانے کے ذریعے ہماری وزارت ریلوے اس شعبے کے مفادات کے لیے کام کرتی ہے نا کہ صارفین یا ٹیکس دہندگان کے لیے۔ تاہم ریلوے کو چلانے کے بجائے اس کا کردار ریگولیٹر کا ہونا چاہیے۔ ہمیں مزید آپریٹرز کے لیے پٹریوں اور ٹرینوں دونوں کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے جبکہ وزارت ریلوے کو ایک ریگولیٹر کے طور پر کام کرتے ہوئے پٹریوں اور ٹرینوں کے لیے حفاظتی معیارات مرتب کرے اور ان کو نافذ کرے اور وہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ مقرر کرے جو ٹریک مالکان ٹرینوں سے اور ٹرینیں مال برداری کے لیے اور مسافروں سے لے سکتی ہیں۔ لائسنس کی شرائط میں یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ اگر ریگولیٹنگ وزارت کو ٹریک اور ٹرینوں میں کارکردگی اور بہتر حفاظت کی ضرورت ہو تو نجی شعبے کو اپنے فنڈز سے ایسا کرنا چاہیے تاکہ کرایوں کے ذریعے معاوضہ لیا جائے۔
پھر ریلوے کی زمین پر جو کچی آبادیاں بن گئی ہیں ان کو ریگولرائز کیا جائے اور ان کی ملکیت وہاں رہنے والے غریبوں کو ہی دے دی جائے۔ بقیہ زمین کو فروخت کیا جائے تاکہ موجودہ ریلوے ملازمین کی ریٹائرمنٹ تک تنخواہوں اور مراعات کو یقینی بنایا جاسکے۔ آئیے اب پاکستان ��سٹیل ملز پر غور کریں جو آٹھ سال سے بند ہے، جس کے ملازمین کو ابھی تک تنخواہ دی جا رہی۔ پاکستان اسٹیل ملز پر نیشنل بینک اور سوئی سدرن کے 100 ارب روپے سے زائد واجب الادا ہیں۔ سوئی سدرن اور نیشنل بینک آف پاکستان کی مالی حالت کو شدید خطرے میں نہ ڈالتے ہوئے ان کے دیے گئے قرضوں کی تلافی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ اسٹیل ملز کی باقی ماندہ زمین ان کے حوالے کر دی جائے۔ (اسٹیل ملز کی زمین 20 ہزار ایکڑ تھی جس میں 5 ہزار ایکڑ مل کے لیے اور بقیہ زمین دیگر زیلی صنعتوں کے لیے۔ تقریباً 2 ہزار ایکڑ پر تجاوزات، ایک ہزار 500 ایکڑ پر مشتمل انڈسٹریل پارک اور ملازمین کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے بعد صرف 8 ہزار ایکڑ رقبہ باقی بچتا ہے)۔ 
اس کے بعد یہ زمین سوئی سدرن اور نیشنل بینک اپنے واجبات کی جزوی وصولی کے لیے فروخت کر سکتے ہیں۔ خود اسٹیل مل، جو 1960ء کی دہائی کی روسی ساختہ ہے اب بھی اسے بیچ کر یا لیز پر دے کر بحال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم موجودہ ملازمین کو ان کے ریٹائر ہونے تک تنخواہ جاری رکھی جائے۔ نگران حکومت اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے لیے معیشت کی اصلاح اور ہمارے کاروباری ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ان تینوں اداروں کی نجکاری سے بہتر کچھ نہیں۔ جہاں پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی نجکاری صرف نقصانات کو روکے گی، وہیں ریلوے کی نجکاری سے نہ صرف نقصانات میں کمی آئے گی بلکہ یہ معیشت کی مجموعی بہتری میں بھی ایک بڑا محرک ثابت ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ان سرکاری اداروں میں ڈالا جانے والا نیا پیسہ ضائع ہی ہو گا۔ ہمیں ان سرکاری اداروں کے منافع بخش بننے اور صارفین اور ٹیکس دہندگان کے لیے فائدہ مند ہونے کے لیے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں اور اچھی طرح سے ریگولیٹڈ مارکیٹوں کی ضرورت ہے۔ نجکاری کا ایجنڈا نقصانات کو روکنا اور معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ وزرا پر بے بنیاد الزامات اس عمل کو پٹری سے اتارنے کا ایک طریقہ ہے۔
مفتاح اسمٰعیل
یہ مضمون 7 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
gamekai · 1 year
Text
برطانیہ میں اہم سرکاری اداروں کے 5 لاکھ ورکرز کی ہڑتال
سرکاری اداروں کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں:فوٹو:انٹرنیٹ  لندن: برطانیہ میں 124 سرکاری اداروں کے 5 لاکھ ورکرز کی ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ہڑتال کرنے والوں میں  اساتذہ، ایمبولینس ، ٹرین اور بس سروس سمیت   بارڈر فورس کے ملازمین شامل ہیں۔ ہڑتالی ورکرز برطانوی حکومت سے  تنخواہوں میں اضافے اورمراعات کا مطالبہ کردیا۔ سرکاری اداروں کے 5 لاکھ …
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
برطانیہ میں اہم سرکاری اداروں کے 5 لاکھ ورکرز کی ہڑتال
سرکاری اداروں کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں:فوٹو:انٹرنیٹ  لندن: برطانیہ میں 124 سرکاری اداروں کے 5 لاکھ ورکرز کی ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر ہوگئے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ہڑتال کرنے والوں میں  اساتذہ، ایمبولینس ، ٹرین اور بس سروس سمیت   بارڈر فورس کے ملازمین شامل ہیں۔ ہڑتالی ورکرز برطانوی حکومت سے  تنخواہوں میں اضافے اورمراعات کا مطالبہ کردیا۔ سرکاری اداروں کے 5 لاکھ …
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nooriblogger · 1 year
Text
سفر نامہ
ابتدائیہ روانگی کا دن ٹرین کا منظر دو کریموں میں گنہ گار کی بن آئی ہے ملتان اسٹیشن رانا جہانزیب بس سروس چوک اعظم تا چک 335 مرشد دا دیدار وے باھو ، مینو لکھ کروڑا حجاں ھو روحانی وجود پہلا دن: دوسرا دن تیسرا دن سیدوں کی تعظیم ڈرگ روڈ اسٹیشن ابتدائیہ اسکول کی سردیوں کی چھٹیاں قریب آرہی تھیں۔ کراچی میں ہر سال دسمبر کی 20 تاریخ سے 31 دسمبر تک سردیوں کی چھٹی ہوتی ہے۔ حضرت صاحب سےفون پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
سیلابی ریلے کا کمال، دو ملکوں کو ملانے والا ریلوے ٹریک بہہ گیا
سیلابی ریلے کا کمال، دو ملکوں کو ملانے والا ریلوے ٹریک بہہ گیا
شدید اور مسلسل بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب میں ریلوے ٹریک کا کئی فٹ حصہ پانی میں بہہ گیا، جس کے بعد پاک ایران ٹرین سروس معطل ہوگئی۔ دالبندین کے قریب آنے والا سیلاب ٹریک کو اپنے ساتھ بہا لے گیا، جس کے باعث 2 مال بردار ٹرینیں دالبندین اسٹیشن پر کھڑی ہیں۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی شدید اور موسلادھار بارش کے بعد آنے والے سیلاب نے احمد وال، دالبندین، یک مچ اور دیگر کئی مقامات سے ریلوے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 19 days
Text
دس سال سے بند پنڈدادنخان تا لالہ موسیٰ ٹرین سروس یکم جون سے بحال کرنے کا فیصلہ
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
لاہور میں میٹرو اور سپیڈو بس سروس بحال کر دی گئی
لاہور میں میٹرو اور سپیڈو بس سروس بحال کر دی گئی
لاہور: لاہور میں 22 دن بعد میٹرو اور سپیڈو بس سروس بحال کر دی گئی۔ محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ نے مراسلہ جاری کر دیا۔ اورنج ٹرین کی بحالی سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ کرونا وائرس کی تیسری لہر میں جزوی لاک ڈاؤن کے سبب شہر لاہور میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کو 30 مارچ کو بند کیا گیا تھا۔ لاک ڈاؤن میں اورنج ٹرین، میٹرو بس، سپیڈو بس سروس مکمل طور پر بند رہی۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم لاک ڈاؤن کے سبب 22 دن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
معاشی بحران؛ طویل المدتی پالیسیوں کی ضرورت
یہ ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس یقینا مکمل رپورٹس اور ریکارڈ ہو گا (فوٹو : فائل) وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو گرین لائن ٹرین سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف سے اسی ماہ معاہدہ ہوجائے گا،مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں، ملک کو موجودہ گرداب سے نکالیں گے۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے اداروں پر بے بنیاد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 1 year
Text
معاشی بحران؛ طویل المدتی پالیسیوں کی ضرورت
یہ ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں حکومتی اداروں کے پاس یقینا مکمل رپورٹس اور ریکارڈ ہو گا (فوٹو : فائل) وزیراعظم شہباز شریف نے جمعے کو گرین لائن ٹرین سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں پوری امید ہے کہ آئی ایم ایف سے اسی ماہ معاہدہ ہوجائے گا،مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں، ملک کو موجودہ گرداب سے نکالیں گے۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے اداروں پر بے بنیاد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
”ریلوے انتظامیہ نے روہڑی ریلوے اسٹیشن سے امریکی شہرلاس اینجلس تک ٹرین سروس کا آغاز کر دیا“شیخ رشید کا حیرت انگیز ردعمل لاہور(این این آئی) اندرون ملک ٹرینوں کا شیڈول بہتر کرنے میں ناکام رہنے والی ریلوے انتظامیہ نے روہڑی ریلوے اسٹیشن سے لاس اینجلس تک ٹرین سروس کا آغاز کر دیا۔تفصیلات کے مطابق ریلوے انتظامیہ نے ٹرین کے اوپر لاس اینجلس کا مونو لگا دیا،محکمہ ریلوے کا انوکھا کارنامہ سامنے آنے پر
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
بڑی لمبی کہانی ہے پاکستان ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟
آج کل دنیا بھر میں کورونا کی خوفناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ پوری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ ایئرلائنز بند ہیں، بحری جہاز بند ہیں، ہوٹلز، مالز بند ہیں عوام اپنے گھروں یا پھر اسپتالوں میں بند ہیں۔ ہمارے ملک میں پچھلے تین ماہ سے ٹرینیں بھی بند رہیں۔ عام ٹرانسپورٹ بھی بند رہی۔ عید الفطرکے موقع پر کچھ ٹرینیں چلائی گئیں کچھ مال گاڑیاں چلتی رہیں۔ ریلوے کو اس دوران 6 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اب کچھ بہتر صورتحال ہوئی ہے۔ کورونا کا زور کچھ کم ہو گیا ہے۔ سامنے پھر بڑی عید آ رہی ہے۔ ٹرینیں مزید چل جائیں گی، مگر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس صاحب قابل احترام جسٹس گلزار احمد اور محترم جسٹس اعجازالحسن صاحب نے ریلوے انتظامیہ کے اہم ذمے داروں خاص کر سیکریٹری ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ آپ ریلوے ٹھیک طرح سے نہیں چلا رہے ہیں۔ حادثات آئے دن ہوتے رہتے ہیں، افسران کی فوج ظفر موج موجود ہے کئی اعلیٰ افسران اور انجینئرز کو فارغ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ آپ ایک ماہ میں اچھی رپورٹ لے کر آئیں گے۔ ‘‘بڑا بہتر اور اچھا فیصلہ سپریم کورٹ نے جاری کیا ہے جس کی وجہ سے مجھ سمیت ریلوے کے ملازمین اور پاکستان کے عوام خوش ہوئے ہیں۔ 
میں اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ میرا تعلق پاکستان ریلوے کی پیدائش سے قبل ہی کراچی سٹی ریلوے کالونی میں دسمبر 1945 میں ہوا تھا۔ والد صاحب 1940 میں ریلوے میں ملازم تھے گوکہ ریلوے برصغیر میں 1860-61 میں مکمل ہو گئی تھی۔ بڑی اچھی اور بہتر ریلوے سروس تھی۔ پی آئی اے وغیرہ بھی بعد میں آئی۔ 40 سال ملازمت کرتے ہوئے گزارے جس میں بحیثیت بکنگ کلرک اور پھر ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک صاحب پہلے ریلوے چیئرمین بنے اور پھر وزیر ریلوے بن گئے وہ ریلوے کو ترقی نہ دے سکے۔ چین سے انجن خریدے، پسنجر کوچز خریدیں اور ریلوے کی زمینیں فروخت کیں۔ لاہور کا کیس رام پال کلب اور میوگارڈن کا کیس چل رہا ہے۔ دیکھیں کب اس کی شنوائی ہوتی ہے اس وقت چیئرمین سے لے کر ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ اور چیف پرسنل آفیسر تک غیر سویلین ہوا کرتے تھے آخر بات کہیں اور نکل جائے گی۔ میں ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ 
پاکستان ریلوے کی عمر اگست 1947 سے ہوتی ہوئی اب 73 سال کی ہو گئی ہے اس وقت ریلوے میں ملازمت کرنا ایک بڑا فخر سمجھا جاتا تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہمارے حصے میں آنے والا یہ واحد ادارہ تھا جو ہمیں بنا بنایا ملا تھا۔ جس کے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار ملازمین موجود تھے۔ 12 ہزار سات سو کلو میٹر ٹریک موجود تھا اور تین طرح کے ٹریک تھے بارڈگیج، میٹر گیج، نیروگیج۔ باقی اب صرف بارڈگیج سسٹم ہے۔ اس وقت ریلوے اسٹیشن کی تعداد 850 تھی۔ اس کے علاوہ ریلوے کی بڑی بڑی ورکشاپس، ریلوے ہیڈ کوارٹر کی عمارت سمیت ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کی عمارتیں، ریلوے کے بنگلے، 70 ہزار سے زائد ریلوے ملازمین کے کوارٹرز، ریسٹ ہاؤوسز، ہر بڑے شہر میں اسپتال، کوئٹہ میں سردار بہادر T.B کا بڑا اسپتال، ڈسپنسریاں، سستے راشن ڈپو، اسکول، ڈسپنسریاں ہر ریلوے کالونی میں موجود تھیں۔ پھر ریلوے ٹریک، انجن، سفر کوچز مال گاڑی کے ڈبے اور پورے پاکستان ریلوے کی بے پناہ زمین جو کراچی تا لنڈی کوتل تا زاہدان تک پھیلی ہوئی تھی۔
انڈین ایکٹ 1935 کے تحت ہی پاکستان میں یہ ایکٹ جاری رہا تقسیم کے بعد A.C کے دو ڈبے کراچی تا پشاور تک جانے والی خیبر میل اور کراچی تا کوئٹہ جانے والی بولان میں برف کی سلیں ڈال کر ٹھنڈا کی جاتی تھیں بعد میں 75 یا 80 کی دہائی میں ریلوے میں A.C کے ڈبے ٹرینوں میں لگائے گئے۔ جو اب تک چل رہے ہیں۔ غرض یہ کہ ریلوے ایک فعال اور خودمختار ادارہ تھا۔ جس میں A.C، فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، انٹر کلاس اور تھرڈ کلاس کی مسافر کوچیں چلتی تھیں۔ یہ ادارہ 1975 تک بغیر خسارے کے چلتا رہا۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا انحصار گڈز ٹریفک اور آئل ٹینکر کے ذریعے تھا جہاں کراچی کی بندرگاہ سمیت دیگر سامان ان بوگیوں میں جاتا تھا۔ تقریباً 12 تا 13 ٹرینیں روزانہ اندرون ملک آتی اور جاتی تھیں بلکہ ریکارڈ آمدن ہوتی تھی۔ لیکن حکمرانوں کی عدم توجہی اور افسران کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ ادارہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑا۔ ریلوے میں خسارے کی وجہ چوری، لوٹ مار، کرپشن اور اقربا پروری میں جہاں حکومتوں کا ہاتھ تھا تو دوسری طرف انتظامیہ کے اہلکار بھی شامل رہے اور ان میں ناقص منصوبہ بندی شامل رہی۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے سب سے پہلے ڈبل ٹریک کرنا تھا موقعہ بھی تھا فنڈ بھی تھا۔
زمین بھی تھی مگر اس کے برخلاف خانیوال تا لاہور تک الیکٹرک ٹرین سسٹم کو ترجیح دی گئی یہ اچھا اقدام تھا اس کو آگے جانا تھا۔ کروڑ روپیہ خرچ ہوا 30 الیکٹرک انجن بنوائے گئے مگر یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور فیل ہو گیا اور آج ختم ہو چکا ہے۔ پھر یہ طے کیا گیا کہ چھوٹی لائنز ختم کر دی جائیں اور اسٹینڈر لائن یعنی براڈ گیج سسٹم لگایا جائے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں طے کیا گیا کہ کراچی کینٹ اسٹیشن کو ایشیا کا سب سے بڑا اسٹیشن بنایا جائے گا، جس کے 16 پلیٹ فارم ہوں گے اس مقصد کے لیے کلب گراؤنڈ کی زمین حاصل کی گئی ریلوے کا بڑا جنرل اسٹور جو اسٹیشن کے ساتھ تھا اس کو ریتی لائن PIDC کے پاس منتقل کر دیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ سرکلر ریلوے کو مکمل کیا جائے اور اس کو 1970 میں مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح کئی ایک منصوبے اور پلان بنائے گئے۔ مثلاً ریلوے کا سب سے بڑا مارشلنگ یارڈ پپری یا بن قاسم پر بنایا گیا اور کامیاب رہا پھر ریزرویشن کو جدید بنانے کے لیے A.C آفس بنایا گیا۔ کمپیوٹر خریدے گئے۔ ایک دفعہ خراب ہو گئے پھر آگ لگ گئی اور اب پھر شروع ہے۔ 
غرض یہ کہ آئے دن حادثات، ٹرینوں کا ٹکرانا، انجن فیل ہو جانا، تیل اور ڈیزل کا بحران، چین سے خریدے گئے انجنوں کا ناکارہ ہو جانا کوچز کو پلیٹ فارم پر لانے کے لیے پلیٹ فارم کو کاٹا اور پھر بنایا جانا نقصان اٹھانا پڑا، بڑی لمبی کہانی ہے ریلوے کی ، ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے احکامات ہیں کہ ریلوے کو بہتر بنایا جائے اور اس کو ٹھیک کیا جائے ایک ماہ میں اس کی رپورٹ تیار کر کے عدالت میں جمع کرائی جائے۔ ریلوے کے افسران کی فوج ظفر موج کو کم کیا جائے۔ ملازمین کی تعداد کم کی جائے اور ریلوے کو صحیح ٹریک پر لا کر مسافروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے بہت کچھ لکھ چکا ہوں حکمرانوں اور اعلیٰ افسران کو بتا چکا ہوں ٹیلی وژن پر کئی بار پروگرام کر چکا ہوں اب تھک چکا ہوں ریلوے بھی تھک چکی ہے ادارے بھی تھک چکے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بھی تھک چکی ہے اب اللہ کے سہارے پر ریل چل رہی ہے امید ہے کہ کچھ بہتری آسکے۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی ابھی تک قائم ہیں۔
منظور رضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
historicallahore · 4 years
Text
لاہور کی اورنج لائن ٹرین کے آزمائشی سفر کا آغاز
پاکستان کے صوبے پنجاب کی حکومت نے لاہور میں اورنج لائن ٹرین کو آزمائشی بنیادوں پر چلانے کا آغاز کر دیا ہے۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ شہری اس سروس سے لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد ہی استفادہ کر سکیں گے۔ اس ضمن میں اورنج لائن ٹرین کو 27 کلو میٹر پر مشتمل پورے ٹریک پر ڈیرں گجراں سے لے کر علی ٹاؤن تک آزمائشی طور پر چلایا گیا۔ ٹرین نے 27 کلومیٹر کا فاصلہ 40 منٹ میں طے کیا۔ جس میں ایک اعشاریہ سات کلو میٹر کا زیرِ زمین سفر بھی شامل تھا۔ پنجاب کے وزیر ٹرانسپورٹ جہانزیب کچھی، وزیر اطلاعات فیاض الحسن، مشیر خزانہ پنجاب سلمان شاہ سمیت چینی انجینئرز اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے ٹرین میں سفر کیا۔
لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے چیف انجینئر حبیب رندھاوا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس آزمائشی سفر کا مقصد نہ صرف ٹرین کا ٹیسٹ ہے بلکہ اس بات کا بھی تعین کرنا ہے کہ جو انفراسٹرکچر بنایا گیا ہے وہ کس حد تک مکمل اور محفوظ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب بھی کمرشل بنیادوں پر ٹرین کو 15 روز میں چلایا جا سکتا ہے۔ البتہ حفاظت اور دیگر عوامل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے عوام کے لیے شروع کرنے میں مزید ڈھائی ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرین بجلی سے چلے گی، لہذٰا ماحول پر اس کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ منصوبے پر آنے والی لاگت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر چیف انجینئر ایل ڈی اے کا کہنا تھا کہ لاگت سے زیادہ ہمیں اس منصوبے کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ لاہور کے عوام کے لیے یہ منصوبہ کتنا کارآمد ہے۔ یہ نہ صرف لاہور بلکہ پورے پاکستان کا منصوبہ ہے۔
اورنج لائن ٹرین منصوبہ ہے کیا؟ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف نے 2015 میں اورنج لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس منصوبے کے تحت لاہور کے علاقے ڈیرہ گجراں سے علی ٹاؤن تک 27 کلو میٹر ٹریک پر ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس ٹرین کے لیے لاہور کی جی ٹی روڈ، شالا مار باغ، باغبانپورہ، ریلوے اسٹیشن، لکشمی چوک، جی پی او، جین مندر، چوبرجی، ملتان روڈ، منصورہ، ٹھوکر نیاز بیگ سمیت 26 اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ ٹرین دو انجنوں اور تین بوگیون پر مشتمل ہو گی جبکہ 200 افراد بیٹھ کر اور 800 کھڑے ہو کر اس میں سفر کر سکیں گے۔ ٹرین روزانہ 16 گھنٹے چلے گی۔
شہباز شریف حکومت نے منصوبے پر لگ بھگ ایک کھرب ساٹھ ارب لاگت کا اعلان کیا تھا۔ البتہ تاریخی مقامات زد میں آنے کے معاملے پر حکم امتناعی کے باعث منصوبے تاخیر کا شکار بھی ہوا۔ جس کے بعد ناقدین اس خدشے کا اظہار کرتے رہے کہ اس منصوبے کی لاگت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلٰی شہباز شریف بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان حکم امتناعی نہ دیتی تو یہ منصوبہ 2017 میں مکمل کر لیا جاتا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس منصوبے پر تنقید کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بھی بطور اپوزیشن رہنما اس منصوبے کے سخت مخالفین میں شامل رہے ہیں۔ البتہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کا یہ موقف رہا ہے کہ چوں کہ اس منصوبے پر اربوں روپے لاگت آ چکی ہے۔ لہذٰا اسے مکمل کرنا اب مجبوری بن چکا ہے۔ شہباز شریف کی سابق حکومتِ پنجاب کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان، چین اقتصادی راہداری کا حصہ اس منصوبے پر آنے والی لاگت کا بڑا حصہ چین کا بینک آسان شرائط پر قرض کی صورت میں پنجاب حکومت کو دے گا۔
ضیاء الرحمن
بشکریہ وائس آف امریکہ
1 note · View note
breakpoints · 2 years
Text
سینئر بیوروکریٹ احد چیمہ نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا۔
سینئر بیوروکریٹ احد چیمہ نے سول سروس سے استعفیٰ دے دیا۔
سینئر بیوروکریٹ احد چیمہ۔ – ٹویٹر/ فائل چیمہ، ایک BPS-20 PAS افسر، کو نیب نے متعدد مقدمات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تاحال چیمہ کا استعفیٰ قبول نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن کے سابقہ ​​دور حکومت میں چیمہ نے میٹروبس اور اورنج لائن ٹرین منصوبوں میں اہم کردار ادا کیا۔ سینئر بیوروکریٹ احد چیمہ نے اتوار کو سول سروسز سے استعفیٰ دے دیا۔ جیو نیوز اطلاع دی چیمہ، جو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 1 year
Text
امید ہے آئی ایم ایف سے اسی ماہ معاہدہ ہوجائے گا، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امید ہے کہ آئی ایم ایف سے اسی مہینے معاہدہ ہوجائے گا۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے مرگلہ ریلوے اسٹیشن اسلام آباد پر گرین لائن ایکسپریس ٹرین سروس کی افتتاح تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آسمانی آفت آئی اور ہم تباہی کا شکار ہوگئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت مشکل حالات میں حکومت ملی، امید ہے کہ انشاءاللہ آئی ایم ایف سے اسی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes