Tumgik
#حیرت
30ahchaleh · 1 month
Text
Tumblr media
Wilson
.
ـ میخوام شما را با یک نوع " بُـهـت " اگر آشنا نیستین آشنا کنم اما اول طبق معمول مقدمه سازی 🤪 ـ
پست رضاموتوری و اون دیالوگش که گذاشتم یادتونه
ـ " تو نمیدونی وقتی آدم تنها میشه به چه چیزهایی دل میبنده " ـ
Tumblr media
و حالا فیلم
Cast Away
ـ " دور افتاده " و شخصیت
Wilson
.
⚠️ Alert Spoil ⚠️
⚠️ خطر لو رفتن فیلم ⚠️
.
.
.
.
.
Cast Away (2000)
آدم های تنها خوب میدونن این چه حسی‌ست و این مدل وابستگی چیست ، حتی تعجب هم نخواهی کرد اگه غرق این حس بشی حاضر باشی جان خودت رو به خطر بندازی تا پدیده ویلسون "این منجی‌ت" در تنهایی ، گم یا ناپدید نشه
که اگر شد ، همچون ژپتوی پیر توی دل "نهنگ وحشت" گیر می‌افتی و فقط با بازگشت پینوکیوت هست که میتونی از آن حبسگاه رها بشی
The Terrible Dogfish
ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ
Tumblr media
ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ.ـ
این مقدمه رو حالا میخوام بّست بدم به اینکه آیا بشر واقعا موجودی اجتماعی‌ست ؟
میدونیم یک سری کارها و خلق ها از سوی بشر به این واسطه پدید آمده که او در انزوا بسر برده که در غیر این صورت وقوع آنها غیر ممکن بوده
و صدالبته که یک سری کارها و خلق ها هم به خاطر وجه اجتماعی بودن بشر رخ داده که در غیر این صورت وقوع آنها نیز غیر ممکن بوده
اما نادیده گرفتن بستر انزوا به گونه ای که بشر را موجودی صرفا اجتماعی بدانیم با آنچه تجربه کردیم و میبینم در تناقض است
.
از نگاه من بشر موجودی دو وجهی‌ست هم اجتماعی هم منزوی
شاید این برداشت اشتباه اجتماعی بودن بشر ازآنجا نشات گرفته که بشر در "انزوا محض" آنهم در مدت زمان طولانی احتمال به خطر افتادن حیاتش بیشتر از بشر در اجتماع محض بدون داشتن انزوا و خلوت است و این یعنی مبنا سنجش کمیت حیات در کوتاه مدت است نه کیفیت حیات در بلند مدت !!!
در صورتی که این معیار سنجش ، درخور و شایسته بشر پیچیده نیست
پس چه بگوییم
بشر موجودی منزویست که در کنار اجتماع بودن برایش امری حیاتی‌ست
یا که بگوییم
بشر موجودی اجتماعی‌ست که در انزوا و خلوت ریست "بازنشانی ، بازآرایی" میشود مثل خواب که اگر نشود قاط میزند
و چه و چه
فرقی ندارد بشر به هر دوی این بستر ها احتیاج "مبرم" دارد
هدف من از نوشتن این متن تعریف درست با جمله بندی صحیح برای این دو وجه بودن بشر نیست این مهم با دیگران ، هدف من تلنگر آن بـُهت است که در ابتدا به آن اشاره کردم
.
از درونگرا ترین افراد تا برونگرا ترین ها ، از اجتماعی ترین افراد تا منزوی ترین آنها همه و همه در این دنیا احساس تنهایی میکنن آنهم بدجوری !
حال آیا خدایان مذهب‌ها و انواع ایدئولوژی های معبود محور ( کاری به آن کل ندارم که در پایان به آن اشاره خواهم کرد ) بلکه دقیقا منظورم خدایی است که آن مرام‌ها برای ما شرح میدهند، آیا آن خدا ها ! یک ویلسون نیستن که در این برهوت تنهایی به نجات آمده تا جاییکه بعضی به اصطلاح نجات یافتگان حاضرن برایش جان بدهند و از آن بد تر جان بگیرند ؟
.
آیا در "این وادی که گفتم" صَنم و خدا ، یگانه نیست که شاید ، شاید روزی به لطف آن مو فیروزه ای جان بگیرد
.
بنام خداوند جان و خِرد
.
.
.
: پ . ن :
در سال 2022 جناب تام هنکس در فیلم پینوکیو ساخت کمپانی دیزنی ظاهر شد گویا ایشون هم مثل من بسیار علاقه‌مند به این مفهوم هستن 😄
.
.
.
1 note · View note
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
اخروٹ کھانے کے حیرت انگیز فائدے
اخروٹ کھانے کے حیرت انگیز فائدے
اخروٹ کے فوائد: اخروٹ ایک خشک میوہ ہے جس کے استعمال سے ہمارے جسم کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اخروٹ میں پروٹین، کیلشیم، چکنائی، کاربوہائیڈریٹس، وٹامن-ای، بی 6، توانائی کے ساتھ بہت سے وٹامنز موجود ہوتے ہیں، جو کہ ہمیں کئی خطرناک بیماریوں سے بچاتے ہیں، اس لیے جو لوگ اخروٹ نہیں کھانا چاہتے، ان فوائد کو سمجھ لیں، اخروٹ کو فوراً کھانے سے روکیں۔ خود استعمال کرنا شروع کریں اور اسے اپنی چیک لسٹ میں مثبت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
animalsandbirds · 1 year
Text
youtube
0 notes
barg-e-sehra · 4 months
Text
‏حیرت ہے کہ ہم لوگ بھی ٹھکرائے ہوئے ہیں
ہم جیسے تو سینوں سے لگانے کے لیے تھے
hairat hai k hum loag bhi thukraye howe hain
hum jaise to seeno'n se laganay k liye the.
114 notes · View notes
amiasfitaccw · 3 months
Text
رکھیں باپ کا دھیان
قسط 03 - آخری
اس لیے محلے والوں کو ان سے کوئی اعتراض نہیں تھا کامی آیا تو نصرت نے اسے کھانا دیا باقی سب لوگ کھانے کھا کر جا چکے تھے اسوقت وہاں کوئی نہیں تھا میں نے کامی کو دکان پر جانے کو کہا کامی اور میں اٹھ کر اندر بیٹھک میں آکر لیٹ گیا میرے ذہن میں نصرت کا جسم گھوم رہا تھا نصرت کے جسم کا لمس میرے ذہن پر سوار تھا میرے زہن میں ساری فلم گھوم رہی تھی جس سے میرا کہنی جتنا لن تن کر پھنکارنے لگا میرا ضمیر مجھے روکنے کی کوشش کرتا کہ نصرت میری سگی بیٹی ہے پر کئی دنوں سے ذہن پر چھائی شہوت بھی سکون نہیں آنے دے رہی تھی آخر ضمیر اور شہوت کی جنگ میں شہوت جیت گئی اور میں نے نالا کھول کر پانا کہنی جتنا تنا ہوا لن باہر نکال لیا
Tumblr media Tumblr media
میں نے اپنا لن مسل کر نصرت کے جسم کا تصور آنکھوں میں لے آیا اپنی بیٹی کو اپنے سامنے لیٹا پاکر میں کانپ گیا میں نے کراہ کر تیزی سے ہاتھ چلا کر لن کو مسلنے لگا اپنی سگی بیٹی کو اپنے تصور میں میں نے ننگا کردیا میرے تصور میں میری سگی بیٹی کے تن کر کھڑے ننگے موٹے ممے اور ننگا بدن میری جان لے گیا میں کراہ کر تیز ہاتھ چلاتا ہوا نڈھال ہوگیا اپنی سگی بیٹی نصرت کو اپنے سامنے ننگا سوچ کر میں ہمت جواب دے گئی مجھے ایسا لگا کہ یہ احساس میرا ندر سے ساری گرمی کھینچ کا رہا ہے جس سے میں کانپتی ایسا تڑپنے لگا اسی لمحے میری بیٹی نصرت بھی دروازہ کھول کر اندر آگئی وہ میرے لیے چائے لائی تھی اسے لگا کہ شاید کامی بھی اندر ہوگا جیسے ہی وہ اندر آئی تو سامنے مجھے اپنا کہنی جتنا لن ننگا کرکے ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے مسلتے ہوئے کراہ کر ہانپتا دیکھ کر گھبرا کر چونک گئی
Tumblr media Tumblr media
نصرت کی ہلکی سی چیخ نکلنے لگی جو نصرت نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبا لی اپنے باپ کو یوں ننگا ہوکر مٹھ مارتا دیکھ کر نصرت کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ چونک کر پٹھی آنکھوں سے اپنے باپ کو کا موٹا کہنی جتنا لن دیکھ کر پٹھی آنکھوں سے حیرت سے کھڑی منہ پر ہتھ رکھے کونے میں چلی گئی تھی نصرت کی نظر اپنے باپ کے کہنی جتنے موٹے لن پر تھی میں اپنی بیٹی نصرت کو اپنے تصور میں ننگا دیکھ کر نڈھال ہوکر اسی لمحے کراہ گیا اور ایک لمبی منی کی دھار مار کر کرلاتا ہوا فارغ ہوگیا نصرت میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی دھار ہوا میں بلد ہوکر نیچے گرتی دیکھ کر گھبرا گئی نصرت حیرت سے آنکھیں پھاڑے میرے کہنی جیسے لن کو منی ابلتا دیکھ کر ہوش کھو چکی تھی
Tumblr media
میں کراہ کر اپنا لن اپنی بیٹی کے سامنے ننگا کیے لمبی لمبی پچکاریاں مارتا نڈھال ہوچکا تھا نصرت حیرت سے اپنے باپ کے کہنی جتنے لمبے موٹے لن کو منی ابلتا دیکھ کر بے بنی کھڑی تھی اتنا بڑا اور آنکھوں کے سامنے ننگا لن شاہد میری بیٹی نے پہلی بار دیکھا تھا جس سے وہ ہوش کھو چکی تھی میری آنکھ کھلی تو سامنے اپنی بیٹی نصرت کو منہ پر ہاتھ رکھے پٹھی آنکھوں سے اپنے لن غورتے دیکھا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی میں ہڑبڑا کر اوپر ہوا تو نصرت مجھے دیکھ کر ڈر کر ہلکی سی کر بولی اوئے ہالیوئے ابو اور جلدی سے چائے کے دو کپ وہیں رکھے
Tumblr media
اور میرے سیدھے ہونے سے پہلے مڑی اور بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئی میں ہڑبڑا کر سیدھا ہوا تو نصرت جا چکی تھی میں ایک منٹ میں ہوش میں آکر سمجھ گیا کہ سب کچھ برباد ہوچکا ہے میں اپنی بیٹی کے سامنے مٹھ لگا رہا تھا وہ کیا سوچے گی کہ اس کا باپ کہیں وہ یہ نا سوچے کہ میں اس پر مٹھ لگا رہا تھا یہ سوچ کر میرے اندر کا ضمیر مجھے کہنے طعن کرنے لگا کہ میں نے یہ کیا کر دیا اپنی ہی سگی بیٹی پر مٹھ لگا دی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو کوسنے لگا مجھے خود پر بہر غصہ آیا نصرت مجھے بہت چاہتی تھی میں اسکا باپ تھا وہ تو مجھے اپنا سہارا سمجھتی تھی میں نے اس کے ساتھ کیا کیا یہ سوچ کر میرا ندامت سے سر پھٹا جا رہا تھا میرا دل کسی کام کو نا کیا میں نے خود کو سنبھالا اور خود کو لعن طعن کرتا لیٹ کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا
//ختم شد//
Tumblr media Tumblr media
12 notes · View notes
bunnyneedsmore · 7 months
Text
Tumblr media
آج اچانک میری بیوی کے فون میں ایک ویڈیو دیکھی۔ اس میں میرا دوست میری بیوی کو مرغا بنا کر اس کی تشریف کو خوب خوب چپل سے مار رہا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ کہ وہ مسلسل یہ کہہ رہی تھی کہ۔۔
"" اور مارو ۔۔بے بی اور زیادہ مارو۔۔۔۔"
18 notes · View notes
moizkhan1967 · 20 days
Text
Tumblr media
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ دلِ بےتاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے، آ! کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہلِ زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں، کم یاب ہیں ہم
مرغانِ قفس کو پھولوں نے، اے شاد! یہ کہلا بھیجا ہے
آ جاؤ جو تم کو آنا ہوایسے میں، ابھی شاداب ہیں ہم
شاد عظیم آبادی
6 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
بانو قدسیہ نے کیا خُوب کہا تھا کہ " منیر نیازی کی شاعری حیرت کی شاعری ہے ، منیر کی شاعری پڑھنے والا اُونگھ ہی نہیں سکتا "
کوئی حَد نہیں ہے ٫ کمال کی
کوئی حَد نہیں ہے ٫ جمال کی
وہی ٫ قُرب و دُور کی منزلیں
وہی شام ٫ خواب و خیال کی
نہ مجھے ہی ٫ اُس کا پتہ کوئی
نہ اُسے خبر ٫ میرے حال کی
یہ جواب ٫ میری صَدا کا ہے
کہ صَدا ہے ٫ اُس کے سوال کی
یہ نمازِ عصر کا ٫ وقت ہے
یہ گھڑی ہے ٫ دِن کے زوال کی
وہ قیامتیں ٫ جو گزر گئیں
تھیں اَمانتیں ٫ کئی سال کی
ہے منیرؔ ٫ تیری نگاہ میں
کوئی بات ٫ گہرے مَلال کی
منیر نیازی
5 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
" تمہیں اپنی شخصیت دوسروں کے لیے بہتر اور اعلی بنا کر پیش کرنے کی ضرورت نہیں؛ جو ہمیں نہیں جانتے ان کے لیے ہم سب ایک عام انسان ہیں ؛ جو ہمیں جانتے ہیں ان کو ہم اچھے دکھتے ہیں؛ اپنے حاسدوں کی نظر میں ہم سب مغرور انسان ہیں جبکہ جو ہم سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے ہم حیرت انگیز ہیں"
"You don't need to present your personality to others by making it better and higher; to those who don't know us, we are all ordinary people; to those who know us, we look good; in the eyes of our envious, we all We are proud people, but we are amazing to those who love us."
Fyodor Dostoevsky: (The Brothers Karamazov)📚
26 notes · View notes
bellesme · 25 days
Text
‏حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا
علامہ اقبال
5 notes · View notes
hasnain-90 · 6 months
Text
‏پھر نئے سال کی سرحد پر کھڑے ہیں ہم لوگ
خاک ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی؟ 🥀
5 notes · View notes
verses-n-moon · 1 year
Text
سو تم مجھے حیرت زدہ آنکھوں سے نہ دیکھو
کچھ لوگ سنبھل جاتے ہیں سب مر نہیں جاتے!
The lines which could easily describe the feelings of those who healed from the pain.
10 notes · View notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
داماد کی خواہش
شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی. اور میں پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی. میری بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے. اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہے
زرا سی کوئی اونچ نیچ ہو اور اسکا دل ہول جاتا تھا.
اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی. تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں. میری اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی.
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے. وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا. اور میں نے جب وسیم کو دیکھا. تو وسیم مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا. باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی. اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن تھے. اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی.
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے
بچی میکے آتی. تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی. خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی.
لیکن........ آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی.
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا. پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی. لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا.
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی.
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ کرلیا.
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر بلوایا تھا. کیونکہ بو��ت دوپیر میرے میاں جوکہ بیمار رہتے ہیں. سورہے ہوتے ہیں. اور میرے دونوں بیٹے رضوان اور عمران اپنے اپنے آفسز میں ہوتے ہیں .
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی. میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی. اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا. وسیم کیا بات ہے.؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے . کیا کوئی بات ہوئی ہے.؟ میں نے اسکے بلکل قریب ہوکر رازداری سے دریافت کیا. اور اسکے جواب میں وسیم نے جو کچھ کہا. مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا. میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی. وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی ہے. کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں. ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں سکتی تھی. میرے میاں موجود تھے . اور میرے تو بچے جوان تھے. یعنی .......مجھ تک پہنچنے کیلیے میری بیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا. میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے. اور میں گم سم بیٹھی تھی. کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے. وسیم......یہ کیسے ممکن ہے.؟ میں تمہاری ساس ہوں. تمہاری بیوی کی ماں ہوں میں.......میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
Tumblr media
جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں. لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر رشتے ناطے سے آزاد ہے. اور میں نے آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے کیلیے کی ہے.
وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا. اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا. سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے.
بری بات.......وسیم یہ کیا کررہے ہو......؟
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے.
اگر آپ مجھے نہ ملیں. تو یاد رکھئے گا. کہ میرا اور شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا رہیگا.....بس.....!
اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی.
وسیم.......بات کو سمجھنے کی کوشش کرو.......میری گھگھی بندھ گئی تھی. مجھے اندازہ ہورہا تھا. کہ اگر داماد کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے.
مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی.
اور اتنا کہکر وہ اٹھا. اور بےنیازی سے چلا گیا.
اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی. ایک طرف داماد کی خواہش تھی. اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی. اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا. دوسری طرف بیٹی تھی. اگر وسیم کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا.
میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی. شوہر بیمار رہتے تھے. اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی. میرا بھی دل تھا. جو چاہتا تھا. کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے.
اور میری قسمت .....کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا.
لیکن......کس روپ میں سامنے آیا تھا..........داماد کے........؟
میں شش و پنج میں تھی. بات ایسی تھی. کہ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی. کوئی سنتا تو کیا کہتا.....؟
لہذا....یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا. اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا.
وسیم......مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے. لیکن مجھے اس بات کی ضمانت دو . کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا.........؟؟؟
جی بلکل....آپ اسکی فکر نہ کریں....جب وجہ ہی نہیں رہیگی سردمہری کی تو موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا ہی ہے نہ.....!
وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا.....اور میں گم سم تھی.
لیکن.......میری ایک شرط ہے وسیم......اس بار میں نے دل کڑا کر کہا.
جی کہیے.....اس کی آواز گونجی.
وسیم تمکو جو کرنا ہے کرلو....میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو.......لیکن صرف ایک بار......تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر.....اپنی بیٹی کی خاطر......بس....دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نہ.....اب تم بھی میری بات یہ بات مانو.........!
اور اتنا ہی کہ کر رسیور فون پر رکھ کر میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئ. آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے.......!
Tumblr media
دو دن گزر چکے تھے...... مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے.
اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے..وہ تو کرنا ہی ہے......سو داماد سے دریافت کیا جائے. کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟
وسیم کو فون لگا چکی تھی میں....تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا.
جی جناب.......کہئیے.....اس کی شوخ آواز ابھری.
وسیم میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری خواہش پوری کردی جائے......میں چاہتی ہوں تم مجھکو بتادو . کب اور کہاں.....؟
میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں کہا.
آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نہ..... آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس....ٹھیک ہے...؟.....وہ خوش خوش بولے.
لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی. اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ.....میں نے جل کر کہا.
جی نہیں......بات یہ ہے. کہ شازیہ کل گیارہ بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس جارہی ہیں. اور میں گھر پر بلکل اکیلا ہی ہونگا....!
اس نے پوری بات بتائی.
اوہ.......اچھا ٹھیک ہے. شازیہ کے نکلتے ہی مجھے کال کرکے بتادینا.....میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی.
اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا.
اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی. نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی. میں بلکل ٹھیک نظر آرہی تھی.ظاہر ہے کہ میں جو کام کرنے کیلیے جارہی تھی. وہ غلط تھا. مگر میں مجبور تھی. اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا.
اور آدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے سامنے تھی.
بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی. اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا. وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا. میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی.
وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا. جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا.
اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی. میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا. کہ وہ کیا چاہتے ہیں.؟
اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا. یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا. اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا. اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے. اب وہ میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا.
وسیم......تم کو میری بات یاد ہے نہ....میں نے ایک لمحے کیلیے اس کو روک کر کہا.
جی.....مجھے آپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے...انھوں نے فورا ہی جوابا کہا.....اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا.
Tumblr media
اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے.
انھوں نے میری قمیض اوہر کرنی شروع کی. میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد کی......اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر کر فرش پر گر چکی تھی.......اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا.
انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں میرا ازاربند کھینچا. اور میری شلوار بھی کھولدی.
اور یوں اب میں صرف ایک Bra میں رہ گئی تھی.
کالے رنگ کا نیٹ کا Braجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے....... وسیم مجھے ننگا دیکھکر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے. اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا. اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا. اور مجھے ایسا لگنے لگا. کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے گررہے ہوں.
اس کی زبان اور ہونٹ بہت ہی گرم ہورہے تھے. ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی. اور میں بستر پر بلکل چت لیٹی یہ سب کروارہی تھی.
اوووووہ.........اوووووف........اوووووووف.
میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی.
یہ جتانا چاہ رہی تھی. کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں.
وسیم کے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا. ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا تھا. وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے. اس طرح کہ جیسے وہ میرے اندر اتر چکے ہوں.
اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی. کہ میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی. دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو. جو کام کرنا ہی کرنا ہے. تو پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے.؟
میں گو مگوں کی کیفیت میں وسیم کے نیچے تھی.
اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا.
اوووف......گلے کو چومنے اور چوسنے میں مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا.
میں بے اختیار ہی سسک پڑی........ہااااااااااااہ............!
اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے. اور مجھ کو محسوس ہونے لگا. کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں.
وسیم چند ہی لمحوں میں گلے سے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا. اب وہ Bra اتار کر میرے مموں کو چوس رہا تھا. وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا. تو کبھی دوسرے والے کو چوستا
اور پہلے والے کو دباتا.........!
اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی......!
Tumblr media
جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم ہوچکا تھا. دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی. انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں. مجھ کو لگ رہا تھا. کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلے ہی میں اپنی شرم کو بالائے طاق رکھکر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی.
میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی. تین بچوں کی ماں تھی. لیکن میرے میاں نے مجھ کو بلکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا. اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی. اسطرح کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا......!
اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا. اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپنا پیٹ لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا.
میں "ہاں. اور. ناں " کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی.
اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری چؤت پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں. اور اپنے ہونٹ چؤت پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا......وہ کبھی چؤت کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا.
اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا. کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ........اور جب ٹوٹا..........کیونکہ مجھے اچانک ہی احساس ہوا کہ میری چؤت نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے. جو اس بات کی دلیل تھی. کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے. ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھکر...........!
وسیم میری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے میری چؤت پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا. میرے بدن پر لرزہ طاری تھا.
اور پھر بالاآخر..........میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا.
میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے وسیم کے سر کو پکڑا. اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی چؤت کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی....اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں سے پرکیف آہیں نکلنے لگیں. اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا. اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا.
وسیم......وسیم........اوووہ جانوں .....یہ کیا کررہے ہو تم...
میری جان میں تو ساس ہوں تمہاری.........یہ کیا کردیا تم نے مجھے.....میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے..........
اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا.
وہ دوزانو ہوکر بیٹھا. میرے بھاری چوتڑوں کو اوپر اٹھایا. اور اپنی گرفت میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری چؤت میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا.
میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا. اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپنا سر پھنسایا ہوا. اور دیوانہ وار میری چؤت کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا.
میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی.
کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی. کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں. اب مزے میں ڈوب چکی تھی. بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے. اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں . چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی. کہ اب داماد جی میری چوت میں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا.
میں یہ سوچکر ہی شرمائے جارہی تھی.
Tumblr media
میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا. گیلا بھی کیا. وہ اس قابل ہوگئی تھی. کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے.
وسیم نے میری چؤت چسائی روکی . اور میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا.
وسیم چودو نہ آپ مجھے...میں نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا.
پہلے آپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا.....اس نے خمار آلود لہجے میں کہا.
وسیم.....نہیں نہ.......میں نے تمہارے سسر کا بھی کبھی نہیں چوسا.......میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا.
تو داماد کا چوس لیں.....کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا.
اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا. کہ میں انکار نہ کرسکی. میں نے اپنے لبوں کو کھول لیا.اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا.
میں زندگی میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی تھی. لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا. میں بلکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی.
دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے. اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا. کہ پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے. .......میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی لؤڑے کو چھوتے رہیں. میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگیں. ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے.
وسیم بہت ہی خوش لگ رہا تھا . وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا. جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں. اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا. ہاں یہ ضرور تھا کہ لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بلکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا. لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی.
کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے. تو میں نے انکو روک دیا.
اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی. میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا. اور آہستہ آہستہ لؤڑا میرے حلق کے اندر تک آگیا.
میں وہیں رک گئی. اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی. اور نتیجہ ہی ہوا. کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی. وہ مزے کے مارے بہکنے لگا.
اووووووہ... ممی...ممی.....یہ کیا کررہیں ہیں آپ... ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا.
وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا.
اس کی یہ بات سنکر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا.
وسیم .....چلو چؤدو مجھے.....میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا
اور وسیم میرے اوپر لیٹا. اپنا لؤڑا میری چؤت پر رکھا. اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا.
حالانکہ میری چؤت چوسنے کی وجہ سے بلکل گیلی تھی.
لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا. مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا. وہ پھر بھی اسقدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھکو. کہ لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت لرز کر رہ گئی.
میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی.
Tumblr media
وسیم .......پلیز.....رسانی سے زرا....پلیز.....میں نے اس کو سمجھایا.
فکر نہ کریں...... چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے. آپ کو صرف مزہ ملے گا......اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی.
اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے پیچھے چلانا شروع کیا .
اور میں مزے میں ڈولنے لگی. لؤڑا اندر سے میری چؤت کو رگڑ رہا تھا. لگ رہا تھا جیسے چؤت اندر سے حرارت خارج کررہی ہے. دھواں چھوڑ رہی ہے. میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی. جو اس بات کا کھلا اظہار تھی. کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی.
میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی.وہ پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری چؤت میں دھکم دھکا چلا رہا تھا.
میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی.
وسیم.....ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو.
میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی.
جی نہیں.....آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا دل چاہتا ہے. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی.
اس نے صاف الفاظ میں کہا.
اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی.
مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری چؤت میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو.
میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں. لؤڑا میری چوت کی آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا. جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا. لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا تھا. کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی.
وسیم چؤد رہا تھا ....آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے.
میں چدوارہی تھی. اور مزے کے مارے سسک رہی تھی.
وسیم..... وسیم......اووووہ.....اووووووووہ.......
نڈھال کردیا تم نے تو مجھے......
میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی.
مجھے معلوم تھا....آپ جیسی خوبصورت اور گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری ہوجائیگی.
وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا.
تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے. مجھے میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا.
میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی.
اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی مجھے اپنی چؤت میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی. مجھ کو احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں. مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی.
اووووووووووو.........اوووووووووووووو.......!
میرا پورا جسم اکڑ گیا . میں نے وسیم کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا. میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ....اور
ساتھ ہی میری چؤت نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا.
اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ.
لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا.
میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی. اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا.
لگ رہا تھا کہ میرے ہوش و حواس جواب دے جائینگے.
وسیم پلیز بس ......بس کرو......بس کرو .......میں منمنائی.
آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ....وہ مسلسل مجھے چودے ہی جارہا تھا..
رحم کرو.......وسیم میرا دم نکل جائیگا.....اووووہ....
کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو...
اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا. اور میں بلکل ہی بے سدھ ہوگئی.
اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا. میری اس بات پر خوشی سے پاگل ہوگیا کہ کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو.
Tumblr media
اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا. اورمجھے سیدھا کرکے لٹایا. اور اپنا لوڑا میرے چہرے کے عین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا.
اور بمشکل....ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی. جو بلکل سیدھی میرے چہرے پر آئی. میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی. کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا تھا.
اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے چہرے پر اگل دی تھی. اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا. اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی ہوئی تھی.مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی. کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے.
وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا. اور مجھ سے بولا.
آپ میری ساس ہیں. میں نے آپکو چؤدا ہے. مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے. میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں. اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم کی طرف نہانے چلدیا. جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی. شام 6 بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا چکا تھا. آج تیسرا دن تھا. میں گھر کے کام نمٹا کر تیار ہورہی تھی.
میں نے وسیم کو فون لگایا. جی.....اس کی شوخ چنچل آواز آئی. آجاؤ وسیم تمہاری دعوت ہے....میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی . جی میں آرہا ہوں....وہ بھی خوشی سے بولا.
میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ......! داماد بھی بہت خوش ہیں. لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں. کیونکہ میری ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے ۔
ختم شد
Tumblr media
10 notes · View notes
safdarrizvi · 6 months
Text
اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے
رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو
اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں
بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
2 notes · View notes
sayron · 10 months
Text
Tumblr media
محصل عضلانی (۱)
چند وقتی بود که تو کفش بودم تا بالاخره بهم پا داد. با بچه ها میرفتیم جلو مدرسه شون تا اونا با دوس دختراشون برن. یه چش چرونی اساسی هم میکردیم و... منم نمیتونستم از نگار چشم بردارم. اون از همون اول متوجه من شده بود و خیلی لوندی میکرد واسم و منو دیوونه تر میکرد. اوایل تا نزدیکای خونشون باهم قدم میزدیم و حرف میزدیم. بهم گفته بود که ورزش میکنه و عصرا میره باشگاه. منم فک کردم مثل بقیه دخترا که فقط برای تناسب اندام میرن باشگاه، نگار هم در همین حده باشگاه رفتنش. ولی خب تعجب میکردم که هی میگفت دیرم شده و باید برم خونه بعدش باشگاه. آخه بچه ها با دوس دختراشون بعد از مدرسه پارکم میرفتن و وقت بیشتری میگذروندن ولی نگار همش میگفت باشگاه‌. اوایل فکر مبکردم داره واسم چس میکنه ولی بعد که بخاطر اصرار من راضی شد بعضی روزا بعد باشگاه بریم بیرون فهمیدم واقعا باشگاه براش مهمه. با وجودی موهای فر طلاییش رو از مقنعه اش میریخت بیرون و اصلا امل نبود، ولی مانتوی مدرسه اش گشاد بود و من خیال میکردم که چون خیلی چاقه و اعتماد بنفس نداره، مانتوی گشاد میپوشه و الزام و تاکیدش به باشگاه رفتن هم بخاطر اضافه وزنشه اما عوضش وقتی دستاشو میگرفتم تعجب میکردم که انقدر رگ داره دستاش و رگاش همیشه برجسته ست. کف دستشم پینه زیاد داشت و من بهش غر میزدم که دستکش دستش کنه تا دستش خراب نشه ولی نگار همیشه لبخند میزد و چیزی در این مورد نمیگفت. خلاصه اینکه نگار آدرس باشگاهش که خیلی به خونشون نزدیک نبود رو بهم داده بود و من هر روز سر ساعت ۵ جلوی باشگاه منتظرش میشدم تا بیاد و بریم یه چرخی بزنیم توی پارک یا کافه. لباس و مانتوهای باشگاه رفتنش خب هم کوتاه تر بود و هم تنگتر. منتها هنوزم گشاد بحساب میومد. نگار معمولا با همون لگی که توی باشگاه ورزش میکرد میومد از باشگاه. روز اول تا نگاهم به پاهای خوش فرم و عضلانیش افتاد ماتم برد. خیلی پاهاش قشنگ بود و اون متوجه بهت و حیرت من شد ولی یکی از او�� لبخندای ناز و شیرینش رو زد و اومد سمت من. من از علت باشگاه رفتنش و اینکه چه ورزش هایی میکنه زیاد میپرسیدم ازش ولی اون انگار تمایلی به پاسخ دادن نداشت زیاد. کلا نگار درونگرا بود و با وجود این در مورد خودش و زندگیش و روحیاتش خیلی برام میگفت ولی در مورد باشگاه و ورزش همیشه ساکت بود و منم بعد از یه مدت دیگه خیلی از باشگاه سوال نمیکردم. مامان نگار وقتی اون پنج سالش بوده فوت کرده و باباش هم راننده بیابونه. یعنی ده یازده سال تنهایی کامل. بخاطر همین که همیشه توی خونه تنهاست یکم درونگرا و منزوی شده. ما دیگه رسما رل زده بودیم و من اوقات زیادی رو با نگار بودم. اون عمدتا بعد از باشگاه له و لورده بود و خیلی خسته ولی با این وجود خیلی با متانت و مهربونی با من میومد بیرون. من متوجه خستگیش میشدم و گله میکردم که چرا یه روزایی استراحت نمیکنه ولی نگار قد بازی در میاورد سر باشگاه رفتنش و این باعث دعوا میشد. هرچند دعوامون بیشتر از یک روز ادامه پیدا نمیکرد ولی من دیگه حرفی نمیزدم. بعد از یک ماه نگار دوشنبه ها رو به خودش استراحت داد تا بقول خودش حق منو ادا کنه و دوشنبه ها برام رویایی میشد با وجود نگار. بعضی جمعه ها هم که باباش خونه نبود باهام میومد بیرون و خیلی خوش میگذشت. چیزی که توجه منو جلب میکرد در مورد نگار این بود که اون هر روز شاد و شادتر میشد. تا اینکه یه شب یکشنبه بدون مقدمه بهم گفت: بابام امروز صبح رفت یه بتر ببره مجارستان! -خب؟... یعنی چی؟ +هیچی دیگه خنگول خان امشب خونه ما خالیه، بریم خونه ی ما! منو برق گرفت!!! ما هنوز با هم یه معاشقه ی دل سیر نکردیم چطور نگار خودش چنین پیشنهادی بهم داد؟ خلاصه منم از خدا خواسته قبول کردم. زنگ زدم خونه به بهونه درس خوندن با پویا اجازه گرفتم و خلاصه رفتیم خونه نگار اینا. نگار اونشب تمام سوالات منو در مورد باشگاه رفتنش جواب داد ولی بدون حتی کلامی! میپرسید چطور؟ وقتی یکی یکی لباسها شو جل��م درآورد و عضلات ورزیده و قدرتمندش شروع به خودنمایی کرد من همه چیزو فهمیدم. نگار ۱۶۵ تایی من به قدری عضله داشت که من کمتر پسر همسن خودم رو با اون حجم از عضله دیده بودم. بازوهاش از رون های منی که لاغر بودم قطور تر بود. رونهاشم که قبلا عضلانی بودنشون رو دیده بودم و توی خیال خامم فکر میکردم مثل اغلب دخترا اونم بیشتر پا میزنه هم، منو متوجه کرد که نگار همه بدنش رو به سختی ورزش میده و کل عضلات بدنش مالامال از قدرته!
3 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں
جمیلؔ مظہری
3 notes · View notes