ایسی بہن کہاں
قسط نمبر 03
اور نبیلہ کی ساری باتیں سن کر میرا دماغ تو گھوم ہی چکا تھا. لیکن جب میری نظر نیچے اپنی شلوار پے گئی تو میرا لن تن کے فل کھڑا تھا اور میری شلوار بھی گیلی ہوئی تھی شاید میری اپنی بھی کچھ منی نکل چکی تھی. میں نے ٹائم دیکھا تو 12 بج چکے تھے اور پاکستان میں 2 ہو گئے تھے . اب اپنی بہن اور سائمہ کی طرف سے سب کچھ جان چکا تھا اور میری بے چینی ختم ہو چکی تھی لیکن ان سب باتوں کی وجہ سے میرا ری ایکشن یعنی میرے لن کا کھڑا ہونا اور منی چھوڑ نا یہ مجھے عجیب بھی اور مزے کا بھی لگا . پِھر میں اٹھ کر نہایا کپڑے تبدیل کیے اور پِھر اپنے بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچتے سوچتے پتہ نہیں کب نیند آ گئی اور سو گیا. اس دن کے بعد مجھے اور نبیلہ کو دوبارہ اس موضوع پے بات کرنے کا موقع نہ ملا جب بھی پاکستان گھر میں بات ہوتی تو نبیلہ سے بھی بس تھوڑی بہت حال حوال پوچھ کر بات ختم ہو جاتی تھی . مجھے اب نبیلہ سے اس موضوع پے بات کیے ہوئے کوئی 4 مہینے گزر چکے تھے . اور مجھے پاکستان سے واپس سعودیہ آئے ہوئے بھی تقریباً 8 مہینے گزر چکے تھے ٹائم تیزی سے گزر رہا تھا مجھے سعودیہ میں رہتے ہوئے تقریباً 8 سال ہو چکے تھے میں نے بہت زیادہ پیسہ بھی کمایا تھا اور اس کو اپنی اور گھر کی ضروریات پے خرچ بھی کیا تھا اور کافی سارا پیسہ جمع بھی کیا ہوا تھا کچھ پاکستان م��ں بینک میں رکھا دیا تھا ابا جی کے اکاؤنٹ میں جو کے بعد میں مشترکہ اکاؤنٹ بن گیا تھا . اور کچھ پیسہ سعودیہ میں ہی بینک میں جمع کیا ہوا تھا جب سے میری نبیلہ سے وہ موضوع پے باتیں ہوئی تھی میں نے پکا پکا پاکستان جانے کا پلان بنا نا شروع کر دیا تھا اور یہ بھی پلان کرنے لگا تھا پاکستان جا کر اپنا کاروبار شروع کروں گا . اور سائمہ اور نبیلہ اور باجی فضیلہ کا مسئلہ بھی گھر میں رہ کر حَل کر سکتا تھا . اور پِھر میں نے کافی سوچ و چار کے بعد فیصلہ کر لیا کے مجھے باقی 1 سال اور کچھ مہینے اور محنت کرنا ہو گی اور پِھر اپنا سارا پیسہ لے کر اِس دفعہ 2 سال پورے ہونے پے پکا پکا سعودیہ سے واپس اپنے ملک پاکستان چلا جاؤں گا.
اِس لیے میں نے اپنا باقی ٹائم زیادہ محنت شروع کر دی اور ایک دفعہ پِھر 14گھنٹے ٹیکسی چلانے کی ڈیوٹی دینے لگا اب میں آدھا وقعت دن کو اور آدھا وقعت رات کو ٹیکسی چلاتا تھا . اور اِس طرح ہی مجھے 1 سال مکمل ہو گیا . اور میرا 1 سال مزید باقی سعودیہ میں رہ گیا تھا . ایک دن میں رات کو اپنی ٹیکسی میں ہی باہر کھڑا کسی سواری کا انتظار کر رہا تھا تقریباً 10:40کا ٹائم ہو گا مجھے نبیلہ کے نمبرسے مس کال آئی . میں تھوڑا پریشان ہو گیا کے اتنی رات کو خیر ہی ہو کچھ مسئلہ تو بن گیا میں نے فوراً کال ملائی تو نبیلہ نے مجھے سلام دعا کی اور بولی بھائی معافی چاہتی ہوں اتنی رات کو آپ کو تنگ کیا ہے. دراصل وہ آج سائمہ پِھر اچانک لاہور چلی گئی ہے دو پہر کے 2 بجے اس کی امی کا فون آیا تھا تو میں اچانک سائمہ کے کمرے کے آگے سے گزر رہی تھی تو مجھے ہلکی ہلکی سائمہ کی فون پے باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی میں نے بس یہ سنا تھا کےامی آپ فکر نہ کریں میں کوئی بھی بہانہ بنا کر آ جاؤں گی . آپ اس کو کہو میرا اسٹیشن پے انتظار کرے اور جب تک میں گھر سے نکل نہیں آتی تو میرے نمبر پے کال نا کرے . اور پِھر فون بند ہو گیا میں باہر کھڑی سوچنے لگی کے یہ کنجری پِھر کسی چکر میں ہی اپنی ماں کے پاس جا رہی ہے . میں نے کمرے میں دیکھا کے سائمہ اپنے کپڑے بیگ میں رکھ رہی تھی پِھر کوئی 15 منٹ بَعْد دوبارہ سائمہ کے نمبر پے کال آئی شاید اِس دفعہ کسی اور کی کال تھی بَعْد میں پتہ چلا وہ اس کے یار عمران کی کال تھی وہ اس کا ملتان اسٹیشن پے انتظار کر رہا تھا اور اِس کو لاہور سے لینے آیا ہوا .سائمہ نے تھوڑا غصہ کرتے ہوئے اپنے یار کو فون پے کہا عمران تم سے صبر نہیں ہوتا میں نے امی کو فون کیا تھا نہ کے مجھے تم کال نہ کرنا جب تک میں گھر سے نکل نہیں آتی اور تم باز نہیں آئے بھائی اس کا یار پتہ نہیں آگے سے کیا بات کر رہا تھا . لیکن سائمہ نے اس کو کہا اچھا اچھا زیادہ بکواس نہیں کرو ٹرین میں کر لینا . اور انتظار کرو میں بس 6 بجے تک میں وہاں آ جاؤں گی اور سائمہ نے اپنا فون بند کر دیا . وہ گھر سے5 بجے نکلی تھی اور 7 بجے ٹرین کا ٹائم تھا میرے خیال میں اب بھی وہ شاید ٹرین میں ہی ہو گی آپ اس کو کال کرو اور اس کی کلاس لو اور پوچھو کے وہ رات کے ٹائم میں لاہور کے لیے اکیلی کیوں نکلی ہے . میں نے کہا نبیلہ میری بات سنو میری یہاں سے کلاس لینے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا . اُلٹا شاید وہ کوئی اور بکواس کرے اور میں غصے میں آ جاؤں اور مسئلہ زیادہ بن جائے گا .
تو اس کنجری کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا کیونکہ اس کی ماں گاؤں سے سب کچھ چھوڑ کر لاہور میں رہتی ہے یہ بھی اس کے پاس چلی جائے گی اور اس کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا لیکن ہمارے گھر پے بہت فرق پڑ ے گا . کیونکہ جب آبا جی امی کو باجی کو اس کے سسرال والوں کو اور خاندان کے لوگوں کو ساری حقیقت پتہ چلے گی تو ہمارے گھر کی بدنامی زیادہ ہو گی سب یہ ہی کہیں گے کے اتنے سال سے سائمہ اور اس کی ماں یہ سب کچھ کر رہی ہیں اور کیوں ہم نے پہلے دن ہی خاندان میں سب کو ان کی اصلیت نہیں بتائی. اِس لیے میری بہن جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے . اور وہ میری بِیوِی بھی ہے اور سب سے بڑی بات چا چے کے بیٹی ہے . مجھے اس کو اور اس کی ماں کو ان کی ہی زُبان میں جواب دینا ہو گا اور دونوں ماں بیٹی کو خاندان کے قابل اور ٹھیک کرنا ہو گا . اور یہ مت بھولو کے ثناء بیچاری بھی اِس خاندان کا حصہ ہے . اس کا بھی سوچنا ہے . سائمہ نے تو اپنی جوانی میں غلط کام کیا ہے لیکن چا چی اس کے بھائی تک تو میں کسی حد تک شایدمان ہی لیتا لیکن وہ اپنی بیٹی کی ہم عمر غیر لڑکے سے عزت لوٹا رہی ہے اور اس کو پہلے ٹھیک کرنا ہے . میری بات سن کر نبیلہ بولی بھائی لیکن سائمہ کو کسی نہ کسی دن تو اس لڑکے سے ملنے سے روکنا ہے اور چا چی کو بھی روکنا ہے . لیکن یہ کیسے ہو گا اور کب ہو گا . آپ تو وہاں بیٹھے ہیں خود ہی یہ مسئلہ ٹھیک کیسے ہو گا . اور میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکی کے آپ کہہ رہے تھے چا چی اور سائمہ کو ان کی زُبان میں ہی سمجھا نا پڑے گا . میں آپ کی بات کو سمجھی نہیں ہوں . میں نے کہا دیکھو نبیلہ یہ مسئلہ کب اور کیسے حَل ہو گا میں خود اِس کو حَل کروں گا اور ٹھیک بھی کروں گا . اور دوسری بات میں تمہیں صرف بتا رہا ہوں کے میرا یہ آخری سال ہے سعودیہ میں اور میں نے اب پکا پکا پاکستان آنے کا پروگرام بنا لیا ہے میں اِس دفعہ پکا پکا آؤں گا . اور پِھر خود گھر آ کر یہ سب مسئلے حَل کروں گا . نبیلہ میری بات سن کر خوش ہو گئی اور فوراً بولی بھائی آپ سچ کہہ رہے ہیں کے آپ اپنے گھر واپس آ رہے ہیں . میں نے کہا ہاں میری بہن میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں لیکن ابّا جی اور امی کو یا باجی کو کسی کو بھی یہ بات ابھی پتہ نہ چلے میں وقعت آنے پے خود سب کو بتا دوں گا . تو نبیلہ بولی بھائی آپ بے فکر ہو جائیں میں کسی سے بھی بات نہیں کروں گی . لیکن آپ نے مجھے بہت اچھی خوشخبری سنائی ہے میرا سائمہ کی وجہ سے بہت موڈ خراب تھا لیکن آپ نے خوشبربی سنا کر مجھے خوش کر دیا ہے . پِھر میں نے کہا نبیلہ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے اگر تم ناراض نہ ہو گی تو نبیلہ نے کہا بھائی آپ کیسی بات کرتے ہیں آپ سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتی آپ میری جان ہیں .
میں نے کہا اچھا یہ بتاؤ سائمہ نے جو باجی فضیلہ کے بارے میں با��یں بتائی تھیں کیا باجی سے اس کے متعلق کوئی بات ہوئی تھی . اگر ہوئی تھی تو باجی نے آگے سے کیا کہا تھا . نبیلہ نے کہا بھائی میں نے بہت دفعہ کوشش کی کے کسی دن اکیلے میں بیٹھ کر باجی سے سائمہ کی ساری بات کروں لیکن یقین کریں باجی کئی دفعہ گھر میں آ کر رہتی ہیں لیکن میری ہمت ہی نہیں بنتی ان سے بات کرنے کی لیکن بھائی آپ کیوں پوچھ رہے ہیں . میں نے کہا اگر سائمہ کی کہی ہوئی باتیں سچ ہیں تو پِھر سائمہ باجی کو بھی بلیک میل کر سکتی ہے اور تمہاری دشمنی میں ان کو بھی تنگ کر سکتی ہے . اور شاید سائمہ کو کچھ اور بھی باجی کے متعلق پتہ ہو اِس لیے میں چاہتا تھا تم باجی سے کھل کر بات کرو اور ان کو سائمہ والی ساری باتیں بتا دو . لیکن ایک چیز کا مجھ سے وعدہ کرنا ہو گا تم نے باجی کو ذرا سا بھی شق نہیں ہونے دینا کے یہ سب باتیں مجھے بھی پتہ ہیں . بس یہ ہی شو کروانا ہے کے یہ باتیں صرف تمہیں یا باجی کو ہی پتہ ہیں . باجی نے کہا بھائی میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں باجی کو آپ کا پتہ ہی نہیں لگنے دوں گی اور دوسرا باجی نے اگلے ہفتے آنا ہے میں اس سے تفصیل سے بات کروں گی اور سائمہ کی ساری بات ان کو بتاؤں گی اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ باجی نے سائمہ سے وہ باتیں کی تھیں یا وہ جھوٹ بول رہی تھی . میں نے کہا ٹھیک ہے . میں انتظار کروں گا . نبیلہ نے کہا جب باجی سے بات ہو جائے گی تو میں آپ کو رات کے وقعت ہی مس کال کروں گی اور پوری تفصیل بتا دوں گی . میں نے کہا ٹھیک ہے . پِھر جب میں کال کٹ کرنے لگا تو مجھے یکدم نبیلہ نے کہا بھائی آپ کو ایک بات بتانی تھی . اور یہ بول کر خاموش ہو گئی میں کچھ دیر اس کی بات کے لیے انتظار کیا لیکن وہ چُپ تھی میں نے کہا نبیلہ بتاؤ نا کیا بات بتانی تھی . تو نبیلہ بولی بھائی آپ کو وہ اس دن والی بات یاد ہے جب صبح میں آپ کو ناشتے کے لیے بلانے آئی تو سائمہ اور آپ کھڑے تھے . تو مجھے یاد آیا تو میں نے کہا نبیلہ میں نے اس واقعہ کی تم سے معافی مانگی تھی پِھر کیوں دوبارہ پوچھ رہی ہو . تو نبیلہ بولی بھائی وہ بات نہیں کر رہی اصل میں ایک مہینہ پہلے مجھے ایک دن سائمہ نے پِھر اکیلے میں تنگ کیا ا می اور ا با جی پھوپھی کے گھر گئے ہوئے تھے میں اکیلی تھی . تو مجھے تنگ کرنے لگی . کے نبیلہ یاد ہے اس دن جب میں نے تمھارے بھائی کا لن کمرے میں پکڑا ہوا تھا اور تم ناشتے کا کہنے کے لیے آئی تھی . اس دن تو تم نے اپنے بھائی کا شلوار میں فل کھڑا لن حقیقت ��یں دیکھا تھا بتاؤ نا تمہیں اپنے بھائی کا لن کیسا لگا اور مجھے تنگ کرنے لگی .
اور بار بار آپ کا نام لے کر اور آپ کے اپنے بھائی کا لن کی تعریف کر کے میری گانڈ ہاتھ سے مسل رہی تھی . بھائی میں اس کی ان حرکتوں سے بہت تنگ ہوں . میں بھی جیتی جاگتی انسان ہوں میرے بھی جذبات ہیں مجھے آپ باھیں میں اس کو کیا جواب دوں . یا آپ خود ہی اس کو سمجھا دیں وہ مجھے تنگ نہ کیا کرے . میں نے کہا نبیلہ ایک بات سچ سچ بتاؤ گی . تو نبیلہ نے کہا جی بھائی پوچھو کیا پوچھنا ہے . میں نے کہا جب تمہیں سائمہ میرا نام لے کر یا میری کسی چیز کا نام لے کر تنگ کرتی ہے تو تمھارے دِل میں کیا خیال آتا ہے . میری بات سن کر نبیلہ خاموش ہو گئی میں 2 دفعہ اس کو کہا کچھ تو بولو پِھر میں نے کہا اچھا میری بات بری لگی ہے تو معافی چاہتا ہوں اور فون بند کر دیتا ہوں . وہ بولی نہیں بھائی معافی کس بات کی مانگ رہے ہیں . بھائی خیال کیا آنا ہے عورت ہوں جوان ہوں جذبات رکھتی ہوں لیکن میں اس کو اپنے ہی بھائی کے بارے میں کیا جواب دوں . میں نے کہا دیکھو اگر تم اس سے اپنی جان چھوڑ وانہ چاہتی ہو تو جب بھی وہ تمہیں تنگ کرے تم آگے سے ہنس دیا کرو اور اس کو تنگ کرنے کے لیے کبھی کبھی بول دیا کرو کے تم اپنی ماں کو میرے بھائی کے نیچےلیٹا دو نا وہ تو ویسے بھی مر رہی ہے . اور خود بھی اپنی گانڈ میں میرے بھائی کا موٹا لن لے لیا کرو اپنے یار سے تو بڑے مزے سے اندر کرواتی ہو .نبیلہ نے کہا بھائی میں یہ کیسے بول سکتی ہوں . میں نے کہا مجھے تھوڑی بولنا ہے تمہیں تو سائمہ کو بولنا ہے جب تمہیں تنگ کرے تم اس کو یہ باتیں سنا دیا کرو پِھر دیکھو وہ خود ہی تمھاری جان چھوڑ دے گی . نبیلہ نے کہا بھائی میں کوشش کروں گی . پِھر میں نے کہا باجی سے بات کر مجھے بتا دینا میں اب فون بند کرنے لگا ہوں. پِھر میں دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا مجھے 2 ہفتے ہو گئے تھے نبیلہ سے بات کیے ہوئے جب میں گھر فون کرتا تھا تو اس سے بات ہوئى لیکن باجی کے موضوع پے کوئی بات نہیں ہوئى پِھر ایک دن میں رات کو اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا رات کے11 بج رہے تھے کے اچانک میرے موبائل پے مس کال آئی میں نے دیکھا یہ نبیلہ کا ہی نمبر تھا . میں نے سوچا پاکستان میں تو 1 بجے ہوں گے آج اتنی لیٹ کیوں مس کال کی ہے . میں نے کال ملائی تو نبیلہ نے آہستہ سی آواز میں کہا بھائی کیا حال ہے . میں نے کہا میں ٹھیک ہوں . تم کیسی ہو اتنی لیٹ کال اور اتنا آہستہ کیوں بول رہی ہو . تو وہ بولی وہ آپ کی بِیوِی کنجری آ گئی ہے اور ساتھ اپنے کمرے میں ہے ابھی اس کے کمرے کی لائٹ آف ہوئى ہے تو میں نے آپ کو کال ملائی ہے .
لیکن اگر آپ کو میری آواز نہیں آرہی تو تھوڑا انتظار کریں میں اوپر چھت پے جا کر بات کرتی ہوں . میں نے کہا اگر کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی بات نہیں ایسے ہی بات کر لو . تو وہ بولی نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے میں چھت پے ہی جا کر بات کرتی ہوں آپ ہولڈ کریں . میں نے کہا ٹھیک ہے میں انتظار کرتا ہوں. پِھر کچھ ہی دیر بعد نبیلہ بولی بھائی اب آواز آ رہی ہے میں نے کہا ہاں آ رہی ہے اب بولو کس لیے فون کیا تھا . تو نبیلہ نے کہا بھائی باجی گھر آئی ہوئی تھی اور 3 دن رہ کر کل ہی گھر گئی ہیں میری ان سے 2 دن پہلے رات کو تقریباً 3 گھنٹے تک سائمہ کے موضوع پے بات ہوئی تھی . میں نے آپ کے کہنے پے بالکل کھل کر بات کی شروع میں میرے اتنا کھل کر بات کرنے پے باجی بھی تھوڑا حیران ہوئی لیکن پِھر وہ کچھ دیر بعد نارمل ہو گئی اور پِھر وہ بھی کھل گئی اور ان کے ساتھ کھلی گھپ شپ لگی تھی اور بہت سے نئی باتیں پتہ چلیں تھیں . میں نے نبیلہ سے کہا واہ کیا بات ہے میری بہن اب تیز ہو گئی ہے .آگے سے بولی بھائی آپ نے اور سائمہ نے کر دیا ہے . اور میں اس کی بات سن کر ہنسنے لگا . پِھر میں نے کہا بتاؤ کیا بات ہوئی ہے . تو وہ بولی بھائی پہلے تو باجی کو جب چا چی اور سائمہ کا پتہ لگا تو پِھر وہ ہکا بقا رہ گئی . اور دونوں ماں بیٹی کو گالیاں دینے لگی . پِھر میں نے باجی کو جب سائمہ کی وہ باتیں بتائی جو اس نے باجی کے متعلق بولی تھیں تو باجی پہلے تو ساری باتیں سن کر خاموش ہو گئی . اور پِھر بولی نبیلہ یہ سچ ہے کے میں نے سائمہ کو یہ ساری باتیں کی تھیں لیکن میں نے تو اس کو ایک عورت بن کر اپنے بھائی کی خاطر اس کو سمجھایا تھا سائمہ بھی کوئی بچی تو نہیں تھی شادی شدہ تھی اِس لیے میں نے شادی شدہ زُبان میں ہی اور ایک عورت بن کر سمجھایا تھا . لیکن مجھے کیا پتہ تھا وہ تو اپنی ماں سے بڑی کنجری نکلے گی . ماں تو بھائی سے بھی کرواتی تھی لیکن بیٹی نے تو یار بھی بنایا اور پِھر اپنی ہی ماں کو بھی اپنے یار کے نیچے لیٹا دیا بہت بڑی کنجری ہے سائمہ اور مجھے کہتی ہے باجی تیرے بھائی کا لن بہت لمبا اور موٹا ہے وہ مجھ پے ظلم کرتا ہے میں اس سے گانڈ مروا کے تو مر ہی جاؤں گی . لیکن مجھے کیا پتہ تھا وہ تو میرے بھائی کو ترسا کر اپنے یار سے گانڈ کے اندر بھی لیتی ہے میں نے کہا اچھا تو یہ بات ہے . بھائی ایک بات اور تھی وہ میں نے اپنے طور پے باجی سے پوچھی تھی لیکن مجھے باجی پے حیرانگی بھی ہوئی اور ترس بھی آیا کہ میری باجی اوپر سے خوش دیکھا کر اندر سے کتنی ذیادتی برداشت کر رہی ہے. میں نے پوچھا کیسی ذیادتی نبیلہ مجھے کھل کر بتاؤ . تو نبیلہ نے کہا بھائی میں نے ویسے ہی باجی سے کہا کہ باجی آپ نے جو بھائی کے بارے میں اپنے جذبات سائمہ کو بتا ے تھے کیا وہ آپ کے دِل کی بات تھی یا ویسے ہی سائمہ کو سمجھا نے کے لیے بولے تھے .
تو باجی کی آنکھ سے آنسو آ گئے اور باجی پِھر کچھ دیر بَعْد بولی کہ نبیلہ سچ کہوں تو وہ میرے دِل کے جذبات تھے . کیونکہ میں بھی عورت ہوں جذبات رکھتی ہوں اِس لیے جب سائمہ نے وسیم کے بارے میں مجھے بتایا اور اس کے لن کے بارے میں بتایا تو میرا دِل بھر آیا تھا کیونکہ میرا میاں تو شروع شروع میں بہت اچھا تھا اور مجھے خوب پیار کرتا تھا . سچ بتاؤں تو شروع کے مہینوں میں تو وہ پوری پوری رات مجھے کپڑے بھی نہیں پہننے دیتا تھا پوری رات ننگا رکھتا تھا اور ہر رات 3 دفعہ میری جم کر مارتا تھا . لیکن پِھر پہلا بچہ ہوا تو وہ ہفتے میں 2 یا 3 دفعہ ہی بس کرتا تھا پِھر دوسرا بچہ ہوا تو ہفتے میں 1 دفعہ کرنے لگا اور ا ب یہ حال ہے مہینے میں ایک دفعہ کرتا ہے لیکن مہینے میں ایک دفعہ کرتا ہے لیکن میرے آگے اور پیچھے میں خود 2 بار جلدی جلدی فارغ ہو جاتا ہے اور مجھے رستے میں چھوڑ دیتا ہے . اور میں بس 3 سال سے بس ایسے ہی برداشت کر رہی ہوں اِس لیے جب سائمہ نے مجھے وسیم کی روٹین اور اس کے لن کے بارے میں بتایا تو مجھے اپنے نصیب پے دکھ ہوا اور میں نے اپنے دِل کے جذبات اس کو کہہ دیئے . لیکن نبیلہ خود بتا وسیم میرا چھوٹا بھائی ہے تم یا میں کچھ کر تو نہیں سکتی نہ. بھائی پِھر میں نے باجی کو آپ کی وہ باتھ روم والی بات بتا دی تھی میں نے کہا باجی میں نے وسیم بھائی کا لن دیکھا ہوا ہے سائمہ ٹھیک کہتی ہے بھائی کا لن کافی موٹا بھی ہے لمبا بھی ہے اور میں نے باتھ روم والا واقعہ بتا دیا . باجی نے میری بات سن کر لمبی سی آہ بھری اور بولی لیکن نبیلہ کچھ بھی ہو وسیم ہمارا بھائی ہے . ہم سن کر یا دیکھ کر بھی اپنا نصیب تو نہیں بَدَل سکتے. بھائی مجھے جو نئی بات باجی سے پتہ چلی اس کو سن کر تو میں خود بھی حیران اور ہکا بقا رہ گئی تھی. بھائی مجھے جو نئی بات باجی سے پتہ چلی اس کو سن کر تو میں خود بھی حیران اور ہکا بقا رہ گئی تھی . میں نے کہا وہ کون سی بات ہے . تو باجی نے بتایا کے میری نند یعنی ہماری خالہ کی بیٹی شازیہ وہ بہت بڑی چنال عورت نکلی ہے . کیونکہ باجی نے بتایا کے وہ اکثر اپنے سسرال میں لڑائی کر کے اپنے یعنی ہماری خالہ کے گھر آ جاتی ہے . اور کتنے کتنے دن یہاں ہی رہتی ہے . میں نے کہا نبیلہ اِس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے . تو نبیلہ نے کہا بھائی آپ پہلے پوری بات سن لیں پِھر بتائے گا . باجی نے کہا مجھے پہلے پہلے تو کچھ بھی نہیں پتہ تھا . لیکن میں اندر خانہ سوچتی رہتی تھی میرا میاں اچھا بھلا صحت مند بندہ ہے وہ یکدم ہی ہفتے والی روٹین سے مہینے والی پے کیسے چلا گیا .
مجھے اپنے سوال کا کوئی بھی جواب نہیں ملا . لیکن پِھر ایک دن مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا . میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی تھی گرمی بھی زیادہ تھی رات کے وقعت لائٹ چلی گئی تو گرمی کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی . اور میں اٹھ کر بیٹھ گئی ساتھ بیڈ پے دیکھا میرے میاں نہیں ہے . میں تھوڑا حیران ہوئی یہ آدھی رات کو کہاں گئے ہیں پِھر سوچا ہو سکتا پانی پینے یا باتھ روم میں گئے ہوں گے . میں کوئی 15 منٹ تک انتظار کرتی رہی اور لیکن میرا میاں واپس نہیں آیا . میں سوچ رہی تھی پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے ان کی کوئی طبیعت تو خراب نہیں ہے اِس لیے میں بیڈ سے شور کیے بنا اٹھی اور کمرے سے باہر آ گئی . میں صحن میں گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا پِھر باتھ روم میں گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا ایک اور بیڈروم تھا وہ کسی زمانے میں میری نند کا تھا لیکن شادی کے بعد تو خالی ہی تھا میں نے اس کو کھول کر دیکھا تو وہ بھی خالی تھا . میں خالہ کے کمرے میں دیکھنے گئی وہاں بھی کوئی نہیں تھا میں اور زیادہ حیران ہوئی میری نند جب بھی آتی تھی تو اپنی ماں کے ساتھ ہی اس کمرے میں سوتی تھی لیکن اس کی چارپائی بھی خالی تھی مجھے شدیدحیرت ہوئی کے گھر کے 2 لوگ میرا میاں اور اس کی بہن پورے گھر میں نہیں ہیں . اب آخری گھر میں بیڈروم کی بیک پے کوئی10 فٹ کی گلی بنائی ہوئی ہے اور دیوار بھی بنی ہوئی ہے اس میں اپنے کپڑے وغیرہ وہاں ہی دھوتے تھے . اور ایک کونے پے اسٹور کمرہ بھی بنایا ہوا تھا جس میں گندم وغیرہ اور گھر کی پیٹی اس میں رکھی تھی . میاں چلتی ہوئی خالی والے بیڈروم کے دروازے سے کو کھول کر پیچھے جو خالی جگہ بنائی ہوئی تھی وہاں آ گئی وہاں باہر تو کوئی بھی نہیں تھا اسٹور کا دروازہ ویسے بند تھا لیکن اس کی کنڈی باہر سے کھلی ہوئی تھی میں نے سوچا شاید خالہ کنڈی لگانا بھول گئی ہوں گی . میں چلتی ہوئی جب اسٹور کے پاس آئی تو مجھے اسٹور کی دوسر ی دیوار والی سائڈ پے لوہے کی کھڑکی لگی ہوئی تھی اس میں صرف جالی ہی لگی تھی اس اس کھڑکی سے مجھے جو آہستہ آہستہ آواز سنائی دی وہ میرے لیےحیران کن تھی کیونکہ یہ آواز تو اس وقعت ہی کسی عورت کے منہ سے نکلتی ہے جب کوئی مرد اس کو جم کا چو د رہا ہو . میں حیران تھی یہ آواز تو میری نند کی تھی لیکن وہ اندر کس مرد کے ساتھ ہے میرا دِل دھڑکنےلگا مجھے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی . میں تھوڑا کھڑکی کے پاس ہو کر ایک سائڈ پے کھڑی ہو گئی اب مجھے آوازیں بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں .
پِھر وہاں جو میں نے سنا تو میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی کیونکہ اندر اندھیرا تھا میں دیکھ تو سکتی نہیں تھی لیکن آواز صاف سن سکتی تھی . میری نند نے جب یہ کہا .) ظفر ہور دھکے زور نال مار مینو تیرا لن پورا اندر تک چای ڈا اے( . پِھر میرے میاں کی آواز میرے کان میں آئی کے )شازیہ توں ذرا صبر کر ہون لن پورا اندر سم پو سی (میرا میاں اندر اپنی سگی بہن کو چھو د رہا تھا اور اس کی بہن اس کو خود منہ سے بول کر کہہ رہی تھی اور زور لگا کر چودو میں وہاں تقریباً 10منٹ تک کھڑی رہی لیکن اندر سے بدستور مجھے اپنے میاں اور اس کی بہن کے آپس میں جسم ٹکرا نے کی آوازیں اور چدائی کی آوازیں آتی رہیں اور پِھر میں اپنا دُکھی دِل لے کر واپس اپنے کمرے میںآگئی اور میرے آنے کے کوئی آدھے گھنٹے بَعْد می��ا میاں بھی آ کر میرے ساتھ لیٹ گیا میں پتہ نہیں کس دنیا میں تھی اور پتہ نہیں چلا سو گئی صبح اٹھی تو میاں نہیں تھا وہ اپنے کام پے چلا گیا تھا جب نند کو دیکھا تو وہ عام دنوں کی طرح بہت خوش تھی اور مجھے سے بھی ویسے ہی باتیں کر رہی تھی جو عام دنوں میں کرتی تھی . لیکن میں اندر سے مر چکی تھی . پِھر جب میں نے اپنے میاں سے بات کی تو مجھے اس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اب وہ میری نند کے پُرانے کمرے میں روز رات کو چلا جاتا اور 2 یا 3 گھنٹے اپنی بہن کے ساتھ مزہ کر کے واپس آجاتا جب کبھی میرے جسم کی طلب ہوتی تو مہینے میں ایک دفعہ مجھے سے کر لیا کرتا تھا بس یوں ہی 3 سال سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو برداشت کر رہی ہوں . بھائی یہ آج نئی بات مجھے باجی نے بتائی تھی اور میں نے جب سے سنا ہے دِل رَو رہا ہے کے اصل ظلم تو میری باجی کے ساتھ ہو رہا ہے ، سائمہ بھی اپنی زندگی میں خوش ہے اور شازیہ بھی خوش ہے . باجی کی کہانی نبیلہ کے منہ سے سن کر میں بہت زیادہ پریشان اور دُکھی ہو گیا تھا . اور میں نے کہا نبیلہ میرا دِل اب بات کرنے کو نہیں کر رہا ہے . میں پِھر بات کروں گا اور کال کو کٹ کر دیا اور گہری سوچوں میں گم ہو کر سو گیا. نبیلہ سے بات ہو کر کتنے دن ہو گئے تھے لیکن میرا دِل خوش نہیں تھا کیونکہ میں باہر رہ کر بھی اتنا پیسہ کما کر بھی اپنی کسی بھی بہن کے لیے خوشی نا خرید سکا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا میری باجی کتنے سالوں سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو چھپا کر بیٹھی تھی اور ہر وقعت خوش رہتی تھی لیکن کس کو کیا پتہ تھا باہر دکھنے والی خوشی اندر سے کتنا بڑا ظلم برداشت کر رہی ہے.
پِھر یوں ہی دن گزرتے رہے میں گھر فون کر لیتا تھا اور نبیلہ سے بھی بات ہو جاتی تھی لیکن پِھر دوبارہ کبھی اِس موضوع پے بات نہ ہوئی . مجھے اب 1 سال اور 5 مہینے ہو چکے تھے . میں بس مشین کی طرح ہی پیسہ کما رہا تھا . لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا . جب میرے پاکستان جانے میں کوئی 4 مہینے باقی تھے تو مجھے ایک دن گھر سے کال آئی وہ میرے لیے بمب پھوٹنے سے زیادہ خطر ناک تھی.میری بہن نبیلہ کا فون آیا اور وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی بھائی ابّا جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے . میرے لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا زخم تھی . میرے ابّا جی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو گئے . مجھے جس دناطلاع ملی میں نے اپنا سارا ساما ن جمع کیا اپنے بینک سے سارے پیسے نکالے میری کمپنی کا مالک بہت اچھا عربی تھا میں نے تقریباً اس کے ساتھ 9 سال گزارے تھے اس نے مجھے ایک دن میں پاکستان بھیج دیا میرا سارا 9 سال کا حساب بھی مجھے دیا اور میں پاکستان واپس آ گیا . میں جنازہ سے کوئی 1 گھنٹہ پہلے ہی اپنے گھر پہنچا اور پِھر اپنے ابّا جی کو دفن کر کے گھر آ گیا گھر میں میری ماں دونوں بہن نے میرے گلے لگ کر بہت روئے اور مجھے بھی بہت رلایا. ابّا جی کو فوت ہوئے 1 ہفتہ ہو گیا تھا لیکن گھر میں سب خاموش اور دُکھی تھے . میں بھی بس اپنے کمرے میں ہی پڑا رہا بس كھانا کھانے کے لیے کمرے سے نکلتا . پِھر کوئی10 دن بعد ایک دن میری باجی میرے کمرے میں آئی اور مجھے سے ابّا جی اور سب کی بہت باتیں کی اور مجھے سمجھایا کے اب گھر کی ذمہ داری ساری تم پے ہے . میں باجی کی ساری باتیں خاموشی سے سنتا رہا اور ہاں میں بولتا رہا . پِھر باجی مزید کوئی 1 ہفتہ رہی اور پِھر اپنے سسرال چلی گئی . میں نے اپنی زندگی کو آہستہ آہستہ اپنے پُرانے موڑ پے لے کر آنے کی کوشش کرنے لگا. پِھر ابّا جی کا 40 دن بعد ختم آ گیا وہ کروا کے کچھ دن بعد میں گھر سے باہر نکلا میرا اب اگلا کام کوئی کاروبار شروع کرنا تھا . میں کوئی 15 دن تک یہاں وہاں کاروبار کے لیے معلومات لیتا رہا .
پِھر میں نے ملتان شہر میں اچھےعلاقےمیں ہی 3 دکان کو خرید لیا اور ان کو رینٹ پے لگا دیا ان کا ماہانہ رینٹ مجھے تقریباً 45000مل جاتا تھا میرے پاس پہلے ایک گھر کے لیےگاڑی تھی چھوٹی تھی میں نے اس کو بیچ کر اور پیسے ڈال کر بڑی گاڑی لے لی اور پِھر اپنے ***** آباد والے دوست کو بول کر کسی سرکاری مہکمہ میں اپنی گاڑی رینٹ پے لگا دی وہ مجھے مہینے کا 60000 تک نکال کر دے دیتی تھی . خود گھر کے لیے ایک موٹر بائیک لے لی . اور جب میرا دو جگہ پے جگاڑ فٹ ہو گیا تو میں نے اب گھر کی طرف توجہ دینے لگا مجھے اب باجی اور سائمہ اور نبیلہ اور چا چی سب کو ٹھیک کرنا تھا سب کے مسئلے حَل کرنے تھے. مجھے پاکستان آئے ہوئے تقریباً 3 مہینے سے زیادہ وقعت ہو گیا تھا . میں سعودیہ میں پورا پلان بنا کر آیا تھا کہ کس کس کا مسئلہ کب اور کس وقعت حَل کرنا ہے . سب سے پہلے میری توجہ اپنی باجی فضیلہ تھی ان کا مسئلہ حَل کرنا تھا. ایک دن صبح ناشتہ وغیرہ کر کے میں سیدھا باجی فضیلہ کے گھر چلا گیا وہاں میں خالہ سے بھی ملا وہ مجھے دیکھا کر کافی خوش ہوئی اور وہاں میں نے شازیہ باجی کو بھی دیکھا تھا . وہ بھی مجھے ملی وہ میری باجی فضیلہ کا ہی ہم عمر تھی . میری خالہ بیمار رہتی تھی . اِس لیے ان کو زیادہ نظر بھی نہیں آتا تھا . سو دن کو باہر صحن میں اور رات کو اپنے کمرے میں ہی پڑی رہتی تھی وہاں پے ان کو كھانا پینا مل جاتا تھا . پِھر باجی نے کہا وسیم اندر چل میرے کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں . میں اٹھ کر باجی کے ساتھ کمرے میں آ گیا جب باجی کے ساتھ کمرے میں آ رہا تھا تو شازیہ باجی بولی وسیم تو اپنی باجی کے پاس بیٹھ میں وہاں ہی تیرے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں. میں باجی کے کمرے میں آ گیا اور باجی کے ساتھ باتیں کرنے لگا اور باجی مجھ سے کام کا پوچھا میں نے ان کو سب بتا دیا جس کا سن کر وہ خوش ہو گئی اور پِھر یہاں وہاں کی باتیں کرنے لگے . تھوڑی دیر بَعْد شازی باجی چائے لے آئی اور جب وہ مجھے کپ چائے کا دے رہی تھی تو میں نے دیکھا انہوں نے دوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا اور ان کی قمیض کا گلا کافی زیادہ کھلا تھا اور ان کو موٹے موٹے ممے صاف نظر آ رہے تھے . باجی شازیہ نے میری نظر اپنے مموں پے دیکھ لی تھی اور ایک بہت ہی کمینی سی سمائل دی اور پِھر باہر چلی گئی لیکن جب وہ باجی کے دروازے کے پاس پہنچی میں دیکھ رہا تھا اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے اپنی گانڈ کی لکیر میں ڈال کر زور سے خارش کی اور پِھر باہر کو چلی گئی شاید انہوں نے یہ حرکت جان بوجھ کر کی تھی . اور یہ باجی فضیلہ نے بھی دیکھ لی تھی اور اس کے باہر جاتے ہی بولی چنال پوری کنجری عورت ہے . میں باجی کی بات سن کا چونک گیا اور باجی کا منہ دیکھنے لگا تو باجی نے کہا اِس کنجری سے بچ کر رہنا اِس کا ایک مرد سے گزارا نہیں ہوتا باجی کا چہرہ بتا رہا تھا ان کو شازیہ باجی پے کافی غصہ تھا .
میں نے آہستہ سے کہا باجی آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں کیا ہوا ہے . تو باجی کا اپنا چہرہ میری بات پے لال ہو گیا اور بولی وسیم تو جوان ہے شادی شدہ ہے اچھے برے کی تمیز جانتا ہے اِس لیے میں بھی شادی شدہ ہونے اور تیری بڑی بہن ہونے کے ناتے بتا رہی ہوں اِس شازیہ کنجری سے بچ کر رہنا . اِس کا ایک مرد سے گزارا نہیں ہوتا پتہ نہیں کتنے اور لوگوں کے مرد کھا ئے گی کنجری. میں نے کہا باجی آپ کہنا کیا چاہتی ہیں کھل کر صاف صاف بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو . تو باجی نے کہا وسیم میرے بھائی میرے بیٹے میں تمہیں سب بتاؤں گی اور مجھے تم سے اور بھی ضروری باتیں کرنی ہیں میں 2 دن تک گھر آؤں گی پِھر بیٹھ کر تیرے کمرے میں بات کریں گے یہاں وہ باتیں ہو نہیں سکتی . میں نے کہا ٹھیک ہے باجی جیسے آپ کی مرضی . اور میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پِھر گھر واپس آ گیا . گھر میں مجھے نبیلہ ملی اور بولی بھائی کہاں گئے تھے میں نے کہا کہیں نہیں بس خالہ کی طرف گیا تھا اور باجی سے مل کر ابھی گھر واپس آ گیا ہوں . میں نے نبیلہ سے پوچھا یہ سائمہ کب تک لاہور سے واپس آئے گی کچھ تمہیں پتہ ہے . تو وہ غصے سے بولی بھائی آپ کو بھی پتہ ہے وہ لاہور کس لیے جاتی ہے جب اس کا دِل بھر جائے گا اور آگ ٹھنڈی ہو جائے گی تو پِھر واپس آ جائے گی . ویسے ابھی تو اس کو گیا ہوئے ایک ہفتہ ہوا ہے شاید اگلے ہفتے آ جائے ویسے 15 دن بَعْد اپنی آگ ٹھنڈی کروا کر آ جاتی ہے . آپ کو نہیں بتا کر گئی . میں نے کہا مجھے تو ایک ہفتے کا بول کر گئی تھی . پِھر نبیلہ نے کہا چھوڑو بھائی اس کنجری سے جان چھوٹی ہوئی ہے . ویسے آپ کیوں اتنے پریشان ہیں کہیں آپ کو بھی تو اپنی بِیوِی کی طلب تو نہیں ہو رہی . میں نبیلہ کی بے باکی پے حیران رہ گیا کہ پہلے تو وہ بات سنتے ہوئے بھی شرما جاتی تھی اور اب کھلا بول دیتی ہے . پِھر میں نے بھی نبیلہ کو چیک کرنے کی کوشش کی اور اس کو کہا ہاں بہن ہر مرد کواپنی بِیوِی کی طلب ہوتی ہے اب ہر ایک کی قسمت سائمہ جیسی یا چا چی جیسی یا شازیہ باجی جیسی تو نہیں ہوتی نہ ایک نا ملا تو کوئی دوسرا ہی سہی .
اب شاید نبیلہ میری بات سن کر لال سرخ ہو گئی اور شرم کے مارے منہ نیچے کر لیا . میں نے کہا نبیلہ تم کیوں شرمندہ ہو رہی ہو جو کھلا کر رہے ہیں وہ بے شرم بنے ہوئے ہیں اور تم کچھ نا کر کے بھی شرمندہ ہو رہی ہو . اور اس کو پکڑ کر اپنے گلے سے لگا لیا اور سر پے پیار سے ہاتھ پھیر نے لگا . لیکن جب مجھے نبیلہ کے تنے ہوئے ممے میرے سینے پے لگے تو میرے جسم میں کر نٹ دوڑ گیا اور یہ دوسری دفعہ تھا کے میں نبیلہ کے ممے اپنے سینے پے محسوس کر رہا تھا اور نبیلہ بھی مجھ سی چپکی ہوئی تھی اس کے ممے بہت ہی نرم اور موٹے تھے . پِھر اس نے کہا بھائی کاش ایسا سکون میرے نصیب میں بھی ہوتا میں اس کی بات سن کر چونک گیا اور اس کو کہا نبیلہ کیا کہا تم نے لیکن وہ یہ بول کر بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور اپنا دروازہ بند کر لیا میں بھی یہ بات سوچتے سوچتے اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پے لیٹ گیا. خیر اس دن کے گزر جانے کے بعد میری باجی فضیلہ 3 دن بعد گھر آئی ہوئی تھی اس کے ساتھ پہلے دن تو کوئی خاص بات نہ ہوئی لیکن دوسرے دن دو پہر کا كھانا کھا کر میں اپنے بیڈروم میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا گھر کے سارے لوگ دو پہر کو سو جایا کرتے تھے میں بھی کبھی سو جاتا تھا کبھی ٹی وی دیکھتا رہتا تھا . آج بھی میں ٹی وی دیکھ رہا تھا جب فضیلہ باجی کوئی 3 بجے کے وقعت میرے کمرے میں آ گئی اور میرے کمرے کا دروازہ بند کر دیا کنڈی نہیں لگائی اور آ کر میرے ساتھ بیڈ پے ایک سائڈ پے بیٹھ گئی . میں نے ٹی وی کی آواز کو آہستہ کیا اور بولا باجی اور سنائیں کیسی ہیں خالہ وغیرہ ظفر بھائی سب ٹھیک ہیں . تو باجی نے کہا ہاں وسیم سب ٹھیک ہیں خالہ کا تمہیں پتہ ہی ہے وہ بیمار رہتی ہیں . اور ظفر کو کیا ہونا ہے ٹھیک ہی ہے ہٹا کٹا ہے . میں نے دیکھا ظفر کی بات باجی بڑی ناگواری سے کر رہی تھی. پِھر باجی نے کہا وسیم تم سناؤ کیا نئی تازی ہے .
سائمہ کی سناؤ اس نے کب واپس آ نا ہے . میں نے کہا باجی میں ٹھیک ہوں اور سائمہ مجھے تو ایک ہفتے کا بتا کر گئی تھی آج ایک ہفتے سے زیادہ دن ہو گئے ہیں لیکن واپس نہیں آئی . باجی سمجھ نہیں آتی میں جب سے پاکستان واپس آیا ہوں وہ 2 دفعہ لاہور جا کر رہتی رہی ہے . اور جب پاکستان میں نہیں ہوتا تھا تو زیادہ تر وہ اپنی ماں کے گھر میں ہوتی تھی . پِھر فضیلہ باجی میرے نزدیک ہو کر بیٹھ گئی اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی بھائی مجھے سب پتہ ہے . لیکن تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہی ہو گا . میں نے کہا جی باجی دعا ہے ایسا ہی ہو . پِھر باجی نے کہا میں نے کچھ باتیں تم سے ضروری کرنی تھی . لیکن سمجھ نہیں آتی کہاں سے شروع کروں اور کہاں سے نہ کروں, میں نے کہا باجی کیا بات ہے خیر تو ہ ہے نہ . تو فضیلہ باجی نے کہا ہاں وسیم خیر ہے . اصل میں بات یہ ہے کہ تم میرے چھوٹے بھائی بھی ہو بیٹے کی طرح بھی ہو . ابّا جی کے بعد تو ا می یا میں ہی ہوں جو تمہارا خیال کریں گے اور تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہونے دیں گے . میں نے کہا باجی آپ کیا کہنا چاہتی ہیں کھل کر بات کریں مجھے پتہ ہے آپ میرا کبھی بھی نقصان یا برا نہیں سوچیں گی. وسیم دراصل مجھے تم سے سائمہ کے متعلق بات کرنی تھی . میں نے کہا کہو باجی کیا بات ہے . تو باجی نے کہا وسیم میرے بھائی سائمہ اور اس کی ماں ٹھیک عورت نہیں ہیں . اور تیری بِیوِی نے تو جان بوجھ کر ہم سب کو اور تمہیں دھوکہ دیا ہے . پِھر میں نے پوچھا باجی کس چیز کا دھوکہ . تو باجی نے وہ ہی نبیلہ والی ساری اسٹوری جو سائمہ اور اس کی ماں کی تھی مجھے سناتی رہی اور میں اپنے چہرے کے تاثرات سے ان کو یہ شق نہیں ہونے دیا کہ مجھے کچھ پتہ ہے.
میں نے باجی کی پوری بات سن کر تھوڑا پریشانی والا چہرہ بنا لیا اور میں نے کہا باجی اِس لیے میں کہوں وہ اتنا زیادہ اپنی ماں کے پاس کیوں جاتی ہے . آج پتہ چلا کہ وہ تو مجھے ہم سب کو دھوکہ دے رہی ہے . پِھر میں نے کہا باجی مجھے اپنی سھاگ رات پے ہی شق ہو گیا تھا لیکن آج آپ کی باتیں سن کر شق یقین میں بَدَل گیا ہے . تو باجی نے کہا وسیم سھاگ رات کو تمہیں اس پے کیسے شق ہوا تھا . میں نے کہا باجی وہ کنواری نہیں تھی صبح بیڈ کی شیٹ دیکھی تو وہ صاف تھی کوئی خون کا نشان نہیں تھا . اس دن میرے دماغ میں شق بیٹھ گیا تھا لیکن آج تو یقین میں بَدَل چکا ہے. اور پِھر باجی نے کہا سائمہ بہت بڑی کنجری نکلی ہے لیکن اس کی ماں تو اس سے بڑی کنجری نکلی ہے اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا . لیکن وسیم میں تم سے اِس لیے یہ بات کر رہی ہوں کہ اب کیا پتہ ان دونوں ماں بیٹی کے اور کتنے یار ہیں اور اگر گاؤں میں یا خاندان میں کسی کو ان کا پتہ چل گیا تو بدنامی سب سے زیادہ تو ہماری ہو گی . وہ دونوں ماں بیٹی تو لاہور بیٹھی ہیں ان کو کون جا کر کوئی پوچھے گا . میں نے کہا ہاں باجی یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں . تو باجی نے کہا اِس لیے وسیم تم کچھ کرو اور اِس مسئلے کا حَل نکالو نہیں تو لوگ تو چا چے کو برا بھلا کہیں گے اور ہمارا چا چا تو عزت دار بندہ تھا . میں نے کہا باجی آپ مجھے کچھ سوچنے کا ٹائم دو میں سوچ لوں پِھر دیکھتا ہوں آگے کیا کرنا ہے .
باجی نے کہا جو بھی ہو سوچ سمجھ کر کرنا . میں نے کہا ٹھیک ہے باجی آپ بے فکر ہو جائیں . پِھر باجی خاموش ہو گئی . میں نے کہا باجی اس دن آپ کے گھر پے آپ شازیہ باجی کے بارے میں کچھ بول رہی تھی آپ نے کہا تھا میں تمہیں اپنے گھر آ کر اکیلے میں بتاؤں گی . باجی کی آنکھ سے آنسو نکل آ گئے اور میں نے باجی کا چہرہ اپنے ھاتھوں میں لے کر ان کا ماتھا چُوما اور اپنے ساتھ گلے لگا لیا اور بولا باجی رَو کیوں رہی ہیں کیا ہوا ہے. پِھر باجی نے کہا وسیم شازیہ بھی بہت بڑی کنجری عورت ہے اس نے تو میرا میاں ہی مجھے سے چھین لیا ہے . اور میں اپنے میاں كے ھوتے ہوئے بھی بس اکیلی اور تنہا ہوں . اور پِھر باجی نے مجھے ظفر بھائی اور شازیہ باجی کا وہ والا واقعہ بتا دیا جو مجھے نبیلہ نے بھی بتایا تھا . میں حیران ھوتے ہوئے باجی کو کہا باجی یہ کیسے ممکن ہے . ظفر بھائی شازیہ باجی میرا مطلب ہے اپنی سگی بہن کے ساتھ ہی کرتے ہیں . تو باجی نے کہا ہاں وسیم یہ سچ ہے اور وہ اب کھل کھلاکر کرتے ہیں شازیہ اور ظفر کو پتہ ہے کے مجھے یہ سب پتہ ہے اور دونوں بہن بھائی ہر روز شازیہ کے کمرے میں یہ کھیل کھیلتے ہیں . اِس لیے تو اپنے شوہر کے گھر نہیں رہتی اور اپنے سسرال میں لڑائی کر کے کئی کئی دن یہاں اپنے ماں کے گھر آ جاتی ہے اور دن رات اپنے بھائی سے مزہ لیتی ہے. میں نے کہا باجی یہ تو آپ پے بہت ظلم ہے اور مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے میری باجی کتنے سال سے یہ اذیت برداشت کر رہی ہے .
باجی نے کہ ہاں وسیم بس کیا بتاؤں کس طرح یہ زندگی گزار رہی ہوں اپنا دکھ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی اتنی بدنامی ہو جائے گی اور میرے دکھ کا کوئی مداوا بھی نہیں کر سکتامیں نے کہا باجی اِس بارے میں بھی آپ مجھے کچھ وقعت دو میں اپنی باجی کے دکھ اور ظلم کا مداوا ضرور کروں گا .باجی نے کہا وسیم میرے بھائی کیا کرو گے تم اپنی بہن کو کیا دے سکتے ہو سوائے تسلی کے کیا کرسکتے ہو.میں نے کہا باجی آپ فکر نہ کریں مجھے بس کچھ وقعت دیں میں شازیہ باجی کا بھی علاج کر لوں گا اور آپ کے لیے بھی کچھ نا کچھ ضرور سوچوں گا آپ میری باجی ہیں چاہے مجھے کچھ بھی آپ کے لیے کرنا پڑے میں کروں گا . بس آپ اب زیادہ دکھی نہ ہوں اور مجھے کچھ دن وقعت دیں پِھر دیکھیں آپ کا بھائی کیا کیا کرتا ہے. باجی نے کہا وسیم میرے بھائی مجھے تم پے پورا بھروسہ ہے تم میرا کبھی برا نہیں سوچو گے اور میری خوشی کے لیے کچھ بھی کرو گے . مجھے اب کوئی پریشانی نہیں ہے میرا بھائی میرے ساتھ ہے . تم جتنا مرضی وقعت لے لو جو بھی کرو میں تمہارا پورا پورا ساتھ دوں گی . پِھر باجی نے کہا وسیم نبیلہ کے بارے میں کیا سوچا ہے اس کی شادی کے لیے کیا سوچا ہے . میرے بھائی اس کی عمر بہت ہو گئی ہے . میں عورت ہوں دوسری عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہوں اس کی عمر میں اس کو کسی کی ضرورت ہے پیار کی خیال کی مرد کی اِس لیے میرے بھائی اس کی شادی کا سوچو .
میں نے کہا باجی میں کتنی دفعہ کوشش کر چکا ہوں لیکن نبیلہ شادی کی بات سنے کو تیار نہیں جب اس سے بات کرو کہتی ہے شادی کے علاوہ بات کرنی ہے تو کرو نہیں تو میں کوئی بات نہیں سنوں گی اور کہتی ہے نہ ہی مجھے کوئی پسند ہے . اور نہ ہی ظہور کے لیے مانتی ہے . میں کروں تو کیا کروں . باجی نے کہا ہاں میں جانتی ہوں ابّا جی بھی سمجھا سمجھا کر دنیا سے چلے گئے میں نے کتنی دفعہ کوشش کی لیکن وہ بات ہی نہیں سنتی . لیکن میرے بھائی میری بات کو تم سمجھو شادی کے بغیر وہ گھٹ گھٹ کر مر جائے گی . تم خود شادی شدہ ہو چاھے سائمہ سے کوئی بھی مسئلہ ہو لیکن مرد کو عورت اور عورت کو مرد کا ساتھ تو چاہیے ہوتا ہے . جسم کی ضروریات ہوتی ہیں . بھائی میں تمہیں اب بات کیسے سمجھاؤ ں. میں نے کہا باجی آپ کھل کر بولیں تو باجی نے کہا مجھے دیکھو میں تم سے بھی 5 سال بڑی ہوں اِس عمر میں بھی مجھے سے تنہائی اکیلا پن برداشت نہیں ہوتا میرے جسم کی طلب ہے . اور نبیلہ تو مجھے سے 9 سال چھوٹی ہے اس کی عمر میں تو عورت کے جذبات اور مرد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے . پتہ نہیں کیوں وہ اپنے اوپر ہی ظلم کیوں کر رہی ہے . میں نے کہا باجی میں آپ کی بات سمجھ سکتا ہوں . لیکن ہوں تو اس کا بھائی اس کے ساتھ اتنا کھل کر بات نہیں کر سکتا لیکن پِھر بھی میں اس کے ساتھ پِھر بات کروں گا. باجی کو اور مجھے باتیں کرتے کرتے کافی ٹائم ہو گیا تھا پِھر باجی کچھ دیر اور بیٹھ کر چلی گئی . اور بیڈ پے لیٹ گیا اور سوچوں میں گم ہو گیا . پِھر باجی کچھ دن اور رہ کر چلی گئی . باجی کے جانے کے کچھ دن بَعْد میں نے سائمہ کو کال کی اور پوچھا کب واپس آنا ہے تو کہنے لگی آپ آ کر لے جائیں . میں نے کہا ٹھیک ہے میں کچھ دن تک آؤں گا . اور پِھر ایک اور دن میں اپنی ا می کے پاس بیٹھا تھا تو امی نے پوچھا بیٹا سائمہ کیوں نہیں آئی . میں نے کہا ا می میں نے اس کو کال کی تھی وہ کہتی ہے آ کر لے جاؤ میں سوچ رہا ایک دن جا کر لے آؤں .
نبیلہ بھی وہاں ہی بیٹھی باتیں سن رہی تھی میری یہ بات سن کر غصے میں اٹھ کر کچن میں چلی گئی . میں بھی چند منٹوں کے بَعْد اٹھ کر کچن میں اس کے پیچھے چلا گیا اور کچن میں جا کر اس کو پوچھا نبیلہ کیوں اتنے غصے میں ہو . تو وہ بولی بھائی مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی ہے . وہ دوسری طرف منہ کر کے برتن دھو رہی تھی اس نے سفید رنگ کا تنگ پجامہ اور کالی قمیض پہنی ہوئی تھی اس کے تنگ پجامے سے اس کی گانڈ کا اُبھارایک سائڈ سے کافی عیاں ہو رہا تھا یہ دیکھ کر میرے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا مجھے سائمہ کے ساتھ بھی مزہ کیے ہوئے کوئی 20 دن ہونے والے تھے میں نے اپنے دھیان بدلنے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں میرا لن نیم حالت میں کھڑا ہوا تھا میں نے آگے براہ کر پیچھے سے نبیلہ کو پکڑ لیا اور اپنے بازو اس کے پیٹ پے رکھ کر پیار سے اس کے کان میں بولا میری پیاری سی بہن مجھ سے ناراض ہے . تو وہ بولی مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ہے . لیکن وہ اس پوزیشن میں ہی کھڑی رہی مجھے بھی منع نہیں کیا میں نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ تمھارے بھائی کی غلطی کیا ہے پِھر غلطی بتا کر سزا بھی دے دینا . تو وہ تھوڑا سے پیچھے کو ہو گئی اس کی گانڈ میرے نیم کھڑے لن پے لگی اور بولی آپ اس کو کنجری کو کیوں لینے جا رہے ہیں آپ کو گھر کا سکون اچھا نہیں لگتا اور میں نے نوٹ کیا وہ اپنی گانڈ کو ہلکا ہلکا ہل کر میرے لن پر دبا رہی تھی اور اس کی اِس حرکت سے میرے لن کے اندر اور جان آ گئی اور وہ کافی حد تک کھڑا ہو چکا تھا جو شاید نبیلہ نے بھی صاف محسوس کر لیے تھا لیکن وہ مسلسل اپنی گانڈ اس پے دبا رہی تھی . میں نے کان کو ہاتھ لگا کر معافی مانگی اور بولا معافی دے دو میری بہن غلطی ہو گئی
میں اس کو لینے نہیں جاؤں گا اس کا فون آئے گا تو کہہ دوں گا مصروف ہوں خود ہی آ جانا میری بات سن کر نبیلہ خوش ہو گئی اور میرا منہ تو ویسے ہی اس کے کان کے پاس تھے اس نے تھوڑا سا منہ کو گھوما کر آہستہ سے اپنے ہونٹ میرے ہونٹ پے لگا کر چھوٹی سی کس کی اور آخری دفعہ اپنی گانڈ کی لکیر کو میرے لن پے زور سے رگڑ تی ہوئی بولی شکریہ بھائی اور سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی.
………………جاری…………. ہے………….
2 notes
·
View notes
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 21 May-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۱؍مئی ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ پارلیمانی انتخابات کے پانچویں مرحلے میں ملک بھر میں تقریباً 60 فیصد اور مہاراشٹر میں اوسطاً 54 فیصد ر ائے دہی کا اندراج۔
٭ رائے دہی کے بعد پولنگ کیبن کو ہار ڈالنے پر شانتی گیری مہا را ج کیخلاف مقدمہ درج۔
٭ بارہویں بورڈ امتحانات کے نتائج کا آج دو پہر ایک بجے اعلان ہوگا۔
اور۔۔۔٭ قومی صاف ہو ا پر وگرام میں چھترپتی سمبھاجی نگر کو ریاست میں دو سرا اور ملک میں بارہواں مقام حاصل۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
پا رلیمنٹ کے عام انتخابات کے پانچویں مرحلے کی را ئے دہی کا عمل کل چند معمولی واقعات کو چھوڑ کر پُرامن طریقہ سے مکمل ہوگیا۔ ملک بھر میں چھ ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 49 حلقوں میں اوسطاً 60 فیصد ر ائے دہی کا اندراج کیا گیا۔ریاست کے 13 حلقوں میں کل شام چھ بجے تک 54 اعشاریہ 33 فیصد شہریوں نے حقِ ر ائے دہی ادا کیا۔شمال ممبئی لوک سبھا حلقہ میں 55 اعشاریہ 21 فیصد، شمال وسطی ممبئی میں 51 اعشاریہ 42 فیصد، جنوب ممبئی میں 47 اعشاریہ 70 فیصد، جنوبی وسطی ممبئی میں 51 اعشاریہ 88 فیصد، شمال مغربی ممبئی میں 53 اعشاریہ 67 فیصد اور شمال مشرقی ممبئی انتخابی حلقہ میں 53 اعشا ریہ 75 فیصد را ئے دہی کا اندرا ج کیا گیا۔دھولیہ انتخابی حلقہ میں 56 اعشاریہ 61 فیصد، دِنڈوری میں 62 اعشاریہ 66، ناسک میں 57 اعشاریہ 10، پال گھر میں 61 اعشاریہ 65، بھیونڈی میں 56 اعشاریہ 41، کلیان میں 47 اعشاریہ صفر آٹھ جبکہ تھانے لوک سبھا حلقہ میںشام چھ بجے تک 49 اعشاریہ81 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔
***** ***** *****
ممبئی کے تمام چھ پارلیمانی حلقوں میں رائے دہندگان میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا، بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر صبح کے اوقات میں رائے دہندگان کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔تاہم شیو سینا اُدھو بالا صاحب ٹھاکرے پارٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اس معاملے پر انتظامی مشنری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایاکہ جہاں ٹھاکرے گروپ کے امیدو اروں کو زیادہ ووٹ ملنے کی امید تھی وہاں جان بوجھ کر پولنگ میں تاخیر کی گئی۔وہ گزشتہ روز ممبئی میں ایک صحافتی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ را ئے دہندگان کو گھنٹوں تک دھوپ میں کھڑے رہ کر اپنی باری کا انتظا کرنا پڑا۔ لہٰذا اس سلسلے میں عدالت سے رجوع کرنے کی اطلاع بھی ٹھاکرے نے صحافیوں کو دی۔
***** ***** *****
ممبئی کے دھاراوی میں واقع ٹرانزٹ کیمپ اسکول کمپلیکس میں 34 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے ۔ ملک میں کسی ایک مقام پر قائم کیے گئے پولنگ اسٹیشنوں میں یہ سب سے زیادہ تعداد تھی۔ ان پولنگ اسٹیشنوں کو مختلف رنگ دئیے گئے تھے او ر پولنگ اسٹیشن کے ر نگ کے لحاظ سے را ئے دہندگان ووٹر سلپ دیئے گئے ‘جبکہ پولنگ اسٹیشن کے داخلی دروازے سے اسٹیشن کے ا ندرونی احاطے تک متعلقہ رنگ کے قالین بچھا ئےگئے۔ جس کے باعث ر ائے دہندگان کو اپنا پولنگ اسٹیشن تلاش کرنے میں سہولت ہوئی۔
***** ***** *****
تھانے انتخابی حلقے میں ایک ر ائے دہند ے کے نام سے دوسرے شخص کے ووٹ ڈالنے کا معا ملہ پیش آیا۔ مذکورہ ووٹر کی شناخت کے بعد انتخابی فیصلہ افسر کی ہدایات کے مطابق اسے بیلٹ پیپر دے کر ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔ تھانے انتخابی حلقہ کی معاون انتخابی فیصلہ افسر ارمیلا پاٹل نے یہ جانکاری دی۔
***** ***** *****
ناسک میں آزاد امیدوار شانتی گیری مہاراج کیخلاف ترمبکیشور میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد پولنگ کیبن کو ہارپہنانے کی پاداش میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جبکہ مہسرول کے رائے دہی مرکز پر ’’جئے بابا جی‘‘ تحریر والا زعفرا نی لباس پہن کر ووٹ دینے والے جنیش سورانند مہاراج کے خلاف بھی مقدمہ درج کیے جانے کی اطلاع ہمارے نمائندے نے دی ہے۔
***** ***** *****
مراٹھا ریزرویشن تحریک کے رہنما منوج جرانگے پاٹل آئندہ چار جون سے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال کر نے کے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کل چھترپتی سمبھاجی نگر میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ مر اٹھا برادری کو دیگر پسماندہ طبقات یعنی اوبی سی کوٹے سے ریزرویشن دینے اور قریبی رشتے دارو ں سے متعلق مطالبے پر عمل آوری کیلئے یہ احتجاج کیا جارہا ہے۔
***** ***** *****
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ - آئی سی ایم آر نے واضح کیا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا کووڈ 19 کی ویکسین کے اثرات سے متعلق تحقیقی مقالہ گمراہ کرنے والا ہے۔ اس تحقیق میں کونسل نے کسی بھی طرح سے حصہ لینے اور تحقیق کیلئے کوئی مالی یا تکنیکی مدد فراہم کیے جانے کی تردید بھی کی ہے۔
***** ***** *****
احمد آباد کی سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی طیران گاہ سے گجرات کے انسدادِ دہشت گردی دستے نے کل چار دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ مقامی پولس نے بتایا کہ یہ چاروں سری لنکا کے رہائشی ہیں اور انہوں نے دولت اسلامیہ تنظیم کیلئے سرگرم ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ چنئی کے راستے سری لنکا سے احمد آباد آئے ہیں اور پولس ان کے سفر سے متعلق مزید تفتیش کر رہی ہے۔
***** ***** *****
سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو آج ان کی برسی پر ہر طرف خر اجِ عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔1991 میں آج ہی کے دن تمل ناڈو کے شری پیرُمبُدُور میں سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی ایک بم دھماکے میں مو ت واقع ہوئی تھی۔
***** ***** *****
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہ ہیان گزشتہ روز ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ ان کی موت پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس جئے شنکر نے اظہارِ تاسف کیا ہے۔ بھارت نے اس واقعے پرآج ایک دِن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشو انی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
ریاستی ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کی جانب سے ر واں سال فروری ۔ مارچ میںمنعقدہ بارہو یں جماعت کے امتحانات کا نتیجہ آج ظاہر کیا جائےگا۔ آج دو پہر ایک بجے بورڈ کی ویب سائٹ پر یہ نتیجہ دیکھا جاسکے گا۔ بورڈ نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ نمبرات کی جانچ ا ور جوابی بیاض کی فوٹو کاپی کیلئے پانچ جون تک مع فیس ا ٓن لائن درخواست کی جاسکتی ہے۔
***** ***** *****
قومی انسدادِ فضائی آلودگی پر وگرا م میں چھترپتی سمبھاجی نگر شہر کو ریاست میں دوسرا اور ملک میں بارہواں مقام حاصل ہوا ہے۔ ملک بھر میں شہروں کی ہوا کو صاف رکھنے کیلئے نیشنل کلین ایئر پروگرام کے تحت مختلف سرگرمیاں عمل میں لائی گئیں۔ اس میں تھانے شہر نے پہلا مقام حاصل کیا ہے‘ جبکہ چھترپتی سمبھاجی نگر کے بعد نئی ممبئی اور نا��پور شہرکومقا م دیا گیا ہے۔
***** ***** *****
ریاست کی ایک لاکھ 31 ہزار آنگن واڑیوں میں قومی تعلیمی پا لیسی نافذ کی جائےگی۔ اعلیٰ تعلیم میں قومی تعلیمی پالیسی کا نفاذ شر وع ہوچکا ہے اور آئندہ تعلیمی سال میں پرائمری سطح پر بھی اس پالیسی کا نفاذ ہوگا۔ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق تیار کردہ نصاب پر مبنی کتب ریاست کی ایک لاکھ 31 ہزار آنگن واڑیوں کو فراہم کی جائیں گی۔
***** ***** *****
چھترپتی سمبھاجی نگر کے ڈویژنل کمشنر مدھوکر راجے آردڑ نے آئندہ موسمِ باراں کے د وران ممکنہ سماوی آفات سے نمٹنے کیلئے خاطر خواہ انتظامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ وہ کل چھترپتی سمبھاجی نگر ڈویژن میں قبل از مانسون تیاریوں کے جائزاتی اجلاس سے مخاطب تھے۔ انھوں نے قدرتی آفات یا سیلابی صورتحال سے جانی یا مالی نقصانات نہ ہونے دینے سے متعلق انتظامیہ کو مکمل خبرداری برتنےکا حکم بھی دیا۔ اس جائزاتی اجلاس میں مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع کے کلکٹر اور ضلع پریشدوں کے چیف ایگزیکٹیو آفیسرز موجود تھے۔
***** ***** *****
ناند یڑ ضلع سپرنٹنڈنٹ زرعی افسر کی جانب سے خریف ہنگام 2024 کی قبل از تیاری کیلئے زرعی محکمے کے افسر ان و ملازمین کو تربیت د ینے ضلعی سطح پر خریف ہنگام کی قبل از جائزہ اجلاس منعقد کیا گیا۔لاتور کے علاقائی جوائنٹ زرعی ڈائریکٹر صاحب رائو دیویکر نے اس اجلاس میں رہنمائی کرتے ہوئے ضلع کے 16تعلقوں میں قبل از خریف ہنگام کی گئی تیاریوں کا جائزہ لیا۔
***** ***** *****
ناندیڑ کے ڈاکٹر شنکر رائو چوہان سرکار ی طبّی کالج او ر اسپتال میں آٹھ جدید ترین سماعت کے آپریشن کی مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ کل اس مشین کا افتتاح اسپتال کے ڈین ڈاکٹر سدھیر دیشمکھ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقعے پر ڈاکٹر د یشمکھ نے مریضوں کے علاج کے ساتھ ہی یہ مشینیں طلبہ کی تعلیم میں بھی معاون ثابت ہونے کا یقین ظاہر کیا۔
***** ***** *****
لاتور شہر میونسپل کارپو ر یشن نے کل غیر قانونی اشتہاری بورڈ نصب کرنے کے معاملات میں گیارہ مقدمات درج کیے، جبکہ 17 بورڈس نکال لیے گئے۔ نائب میونسپل کمشنر ڈاکٹر پنجاب کھانسوڑے نے اس معاملے میں میٹنگ لیکر متعلقین کیخلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات دئیے۔
***** ***** *****
انڈین پریمیر لیگ ( آئی پی ایل) کرکٹ ٹورنامنٹ میں آج پلے ا ٓف کیلئے کولکاتہ نائٹ رائیڈرس اور سن رائزرس حیدرآباد کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ احمد آباد میں شام ساڑھے سات بجے میچ کا آغاز ہوگا۔ جبکہ ٹورنامنٹ کا دوسرا پلے آف میچ ‘رائل چیلنجرز بنگلورو اور راجستھان رائلز کے درمیان کل کھیلا جائے گا۔
***** ***** *****
جنوب وسطی ریلوے کے ناندیڑ ڈویژن میں مرمت و درستی کے کاموں کی وجہ سے آج دَونڈ۔ نظام آباد۔ پنڈھر پور ر یلوے گاڑیاں مدکھیڑ تا نظام آباد کے درمیان منسوخ کردی گئی ہیں‘ جبکہ ناند یڑ۔ امرتسر سچکھنڈ ایکسپریس کے روٹ میں آج او ر امرتسر۔ ناند یڑ سچکھنڈ ایکسپریس کے روٹ میں کل عارضی تبدیلی کیے جانے کی اطلا ع ناند یڑ زون دفتر نے د ی ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ پارلیمانی انتخابات کے پانچویں مرحلے میں ملک بھر میں تقریباً 60 فیصد اور مہاراشٹر میں اوسطاً 54 فیصد ر ائے دہی کا اندراج۔
٭ رائے دہی کے بعد پولنگ کیبن کو ہار ڈالنے پر شانتی گیری مہا را ج کیخلاف مقدمہ درج۔
٭ بارہویں بورڈ امتحانات کے نتائج کا آج دو پہر ایک بجے اعلان ہوگا۔
اور۔۔۔٭ قومی صاف ہو ا پر وگرام میں چھترپتی سمبھاجی نگر کو ریاست میں دو سرا اور ملک میں بارہواں مقام حاصل۔
***** ***** *****
0 notes
6 security personnel killed in kpk Baluchistan attacks
6 security personnel killed in kpk balochistan attacks
Urdu International
خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں الگ الگ حملوں میں کم از کم چھ سکیورٹی اہلکار جاں بحق
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک ) “ڈان نیوز “ کے مطابق یہ واقعات اس وقت پیش آئے جب ملک بھر میں تقریباً 128 ملین (12 کروڑ سے زائد ) افراد نے انٹرنیٹ اور سیلولر بندش کے درمیان اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ اس سے پہلے دن میں وزارت داخلہ نے کہا کہ موبائل نیٹ ورک سروسز کو بلاک کرنے کا فیصلہ سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر کیا گیا تھا۔
کے پی کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس گشت پر حملے میں 4 پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔
مقامی پولیس چیف رؤف قیصرانی کے مطابق بم دھماکوں اور فائرنگ سے کلاچی کے علاقے میں پولیس کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقے کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
ایک بیان میں کے پی کے عبوری وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ نے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں حملوں کی مذمت کی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹانک میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک شخص ہلاک ہوا، تاہم کسی اہلکار نے ہلاکتوں کی صحیح تعداد یا واقعے کی نوعیت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات پولیس کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے نہیں روکیں گے، اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ قوم اور ریاست قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
ادھر بلوچستان کے علاقے خاران میں دو لیویز اور پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر منیر احمد سومرو نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب لیویز کی ایک گاڑی پولنگ اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے بارودی سرنگ سے ٹکرا گئی۔
اہلکار نے بتایا کہ اس واقعے میں سات سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ ڈی سی سومرو نے مزید کہا کہ جن کی حالت تشویشناک ہے انہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
محسن داوڑ نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ دیا۔
دریں اثنا، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے چیئرمین اور سابق قانون ساز محسن داوڑ نے شمالی وزیر ستان کے علاقے ٹپی این اے 40 کی سیکیورٹی صورتحال سے متعلق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ایک خط لکھا تھا۔
ایکس پر داوڑ کے اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسند حلقے میں مقامی لوگوں اور پولنگ عملے کو دھمکیاں دے رہے تھے۔
ہماری تین خواتین پولنگ ایجنٹس 8 فروری کو پولنگ والے دن کی صبح حملوں سے بال بال بچ گئیں، انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ “علاقے میں طالبان نے پولنگ اسٹیشنوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
داوڑ نے مزید کہا کہ انہوں نے ضلعی ریٹرننگ آفیسر کو صورتحال کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا لیکن کہا کہ اسے “نظر انداز” کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا، “الیکشن کمیشن کو صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور مقامی لوگوں اور پولنگ عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری کارروائی کرنی چاہیے۔
دہشت گردی میں اضافہ
پاکستان نے حال ہی میں خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان کے قلعہ سیف اللہ اور پشین میں انتخابی دفاتر کے باہر یکے بعد دیگرے دھماکوں میں کم از کم 28 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ دریں اثنا، جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ چمن جاتے ہوئے اپنی گاڑی پر حملے میں بال بال بچ گئے۔
ایک دن پہلے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک غیر واضح بیان جاری کیا جس میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں “مہلک اور ٹارگٹڈ” تشدد کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
منگل کو جاری کردہ ایک بیان میں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے “سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں” پر تشویش کا اظہار کیا۔
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ سالانہ سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2023 میں 789 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تشدد سے متعلق 1,524 ہلاکتیں اور 1,463 زخمی ہوئے جو کہ چھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔
کے پی اور بلوچستان تشدد کے بنیادی مراکز تھے، جو کہ تمام ہلاکتوں کا 90 فیصد اور 84 فیصد حملوں، بشمول دہشت گردی کے واقعات اور سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کا حصہ تھے۔
الیکشن کمیشن خیبرپختونخوامیں امیدواروں کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری
ماہ رنگ کے سر پر ’بلوچی پاگ‘: کیا بلوچستان کی قوم پرست
1 note
·
View note
Miscellaneous sentences of every day use.
(1) امتحان سر پر کھڑا ہے۔ محنت کرو۔ کمریں کس لو۔
The examination is at hand, work hard ; gird up your loins.
(2) اس کی تبدیلی سے پہلے اس کے دوستوں نے اس کو الوداعی پارٹی دی۔
On the eve of his transfer, his friends gave him a farewell party.
(3) وہ سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔
He was reduced to a skeleton.
(4) تم ہزار کہو وہ سننے کا ہی نہیں۔
You may go on talking, he shall turn a deaf ear to you.
(5) ہم نے ٹانگہ ڈرائیور کو آواز دی
We hailed a tonga driver
(6) اس کو نوکری سے برطرف کیا گیا
He was sacked.
(7) ڈاکوؤں نے اسے جنگل میں آ گھیرا اور جو روپیہ پیسہ اس کے پاس تھا چھین کر لے گئے۔
The robbers got at him in the jungle and made off with what he had.
(8) اپنا الزام دوسرے کے سر پر مت تھوپو
You must not shift the blame from your own shoulders on to that of another.
(9) ادھورا کام کرنے سے کام اچھا نہیں ہوتا
Things done by halves are never done right.
(10) مجھے پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں۔
I have nowhere to lay my foot.
(11) تمہارا ستارہ بلندی پر ہے
Your star is now in the ascendant.
(12) وہ مشکل میں پڑ گیا۔
He is in a fix.
(13) اس نے مجھے بیوقوف بنا ڈالا ہے۔
He has made a fool of me.
(14) اس معاملے کو سلجھانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں۔
It is no child's play to settle this matter.
(15) ظالم چور نے معصوم بچے کو نہایت سرد مہری سے مارا
The cruel thief murdered the innocent child in cold blood
(16) باوجود سخت مخالفت کے گورنمنٹ نے یہ قانون پاس کر دیا۔
The government passed this law in the teeth of opposition.
(17) وہ بڑا چالاک معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوہری چال چل رہا ہے۔
He is very clever, it appears he is playing a double game.
(18) شہزادہ عین عالم شباب میں لقمئہ اجل بن گیا
The prince was cut off in the prime of his life.
(19) جب تک بچہ واپس نہ آیا، ماں ماہی بے آب کی طرح ترپتی رہی
The mother felt like a fish out of water till the child returned home.
(20) اُس نے میری بےعزتی کی اور میں نے بھی تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔
He insulted me and I paid him in the same coin.
(21) وہ کراچی تک ہوائی جہاز میں گیا اور پھر ولایت جانے کے لئے بحری جہاز پر سوار ہوا
He flew up to Karachi and then sailed for England.
(22) یہ جہاز جاپان جانے والا ہے۔
The ship is bound for Japan
(23) میں نے وکٹوریہ نامی جہاز پر سفر کرنے کے لئے ٹکٹ خرید لیا ہے
I have booked my passage by the Victoria.
(24) جہاز نے لنگر ڈال دیا ہے
The ship cast anchor.
(25) جہاز نے لنگر اٹھایا ہے
The ship has weighed anchor.
(26) وہ جو کچھ کہتا ہے سو کرتا ہے
He is as good as his word.
(27) اس نے شرم کے مارے سر جھکا دیا۔
He hung down his head in shame.
(28) اس کی پرہیز گاری سب دکھاوا ہے
His piety is a mere show
(29) جلتی پر تیل مت ڈالو۔
Do not add fuel to the fire.
(30) تمہاری بات کا سر پیر کچھ نہیں لگتا۔
I can make neither head nor tail of what you say
(31) اپنے بھتیجے کو سمجھاؤ۔
Admonish your nephew.
(32) مفلسی نے اسے پیس ڈالا۔
Poverty crushed him.
(33) وہ راولپنڈی سے گاڑی پر سوار ہئوا۔
He caught the train at Rawalpindi.
(34) اس گاڑی میں ہمیشہ بھیڑ ہوتی ہے۔
This train is always packed.
(35) دو ریل گاڑیوں میں ویرکا اسٹیشن کے نزدیک ٹکر ہو گئی
The two trains collided near Verka Station
(36) فرنٹیر میل گوجرانوالہ کے نزدیک پٹری سے اتر گئی۔
The Frontier Mail got derailed near Gujranwala
(37) ریلوے والے تیسرے درجے کے مسافروں کی تکلیف کی ہرگز پروا نہیں کرتے
The Railway authorities pay no heed to the grievances of the third class passengers.
(38) جب اس نے شیر کو سامنے آتا ہؤا دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے
When he saw the lion making for him, he was at his wit's end.
(39) اس نے میری بےعزتی کی۔ مگر میں اس کو پی گیا۔
He insulted me but I pocketed the insult.
(40) میرے سینے میں کینے کی آگ سلگ رہی ہے۔ موقع پاؤنگا تو بدلہ لونگا
I have been nursing a grudge against him ; should an occasion arise I would feed fat my anger.
(41) اُسے روپے کی اشد ضرورت ہے
He is in bad need of money.
(42) مجھے اس بات کا قطعاً علم نہیں۔
I know nothing about the matter.
(43) وہ اتنا ظلم دیکھ کر آگ بگولا ہو گیا۔
He flew into a rage at this tyranny.
(44) وہ اپنی بیوی کے اشارے پر چلتا ہے۔
His wife leads him by the nose.
(45) اس کے کام میں خودغرضی کا نام نہیں۔
His conduct does not smack of selfishness
(46) دونوں بھائیوں میں کوئی محبت نہ تھی۔
There was no love lost between the two brothers.
(47) مرزاغیاث سخت تنگ تھا۔ آہستہ آہستہ اس کا ستارہ چمکا۔
Mirza Ghias was badly off but gradually he rose to position.
(48) اس کا بھائی اب خوشحال ہے۔
His brother is now well off.
(49) کیا وہ پہلے سے بہتر حالت میں ہے۔ نہیں وہ پہلے سے بدتر حالت میں ہے
Is he better off now ? No, he is worse off.
(50) وہ جتنا کماتا ہے خرچ کر دیتا ہے
He lives from hand to mouth
(51) اس کے لئے اتنی تھوڑی تنخواہ میں گزارہ کرنا مشکل ہے۔
It is difficult for him to make both ends meet with such a scanty income.
(52) ان دونوں نے آپس میں سمجھوتہ کر لیا ہے۔
They have made it up with each other.
(53) اس نے اپنا مکان گروی رکھ دیا ہے۔
He has mortgaged his house
(54) زخم پر نمک مت چھڑکو۔
Do not fan the flame or add insult to injury
(55) پانسا اُلٹا پڑ گیا
Tables were turned.
(56) ان کے جھگڑے نے گہری جڑ پکڑ لی ہے۔
Their differences have taken a deep root
(57) سول نافرمانی کے سب قیدی چھوڑ دئے گئے
All the prisoners of civil disobedience were set at liberty
(58) میری اس کے ساتھ خط و کتابت نہیں ہے۔
I have no correspondence with him
(59) جو کچھ تم سے ہو سکے کر لو میں پروا نہیں کرتا۔
Do your worst, I do not care a fig for it
(60) اس سے میرا مطلب سیدھا نہیں ہوتا۔
This does not serve my purpose.
(61) اب بیٹھ کر ہاتھ ملنے سے کیا فائدہ۔
It is no use repenting now.
(62) اس آدمی پر مہربانی کرنا مار آستین پالنا ہے۔
To show kindness to this man is to keep a serpent in the sleeve.
(63) میری نرمی کا نامناسب فائدہ مت اُٹھاؤ۔
Do not take an undue advantage of my leniency
(64) اس نے شرم گھول کر پی لی ہے۔
He is completely lost to shame.
(65) نلکہ بند کر دو۔
Turn off the tap.
(66) دو پانچ پانچ روپے کے نوٹ دے دو۔
Give me two five rupee notes.
(67) اس طوفان سے کئی درخت جڑ سے اکھڑ گئے
By this storm many trees were uprooted
(68) اپنی حیثیت میں رہو۔
Live within your means.
(69) اس نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
He left no stone unturned or he tried his best
(70) میری پیٹھ موڑتے ہی وہ گولی سے مار دیا گیا۔
Hardly had I turned my back when he was shot dead.
(71) اس نے اپنے دشمن کو تلوار کے گھاٹ اتار دیا۔
He put his enemy to the sword.
(72) وہ آدمی تو معقول معلوم ہوتا ہے مگر اس کا ساتھی بالکل خبطی ہے۔
That man seems reasonable but his companion is crazy.
(73) اس محکمہ میں ہیڈکلرک ہی سب کچھ ہے۔
The Head Clerk is all in all in this Department.
(74) اس کو ہر ایک کی بات میں خواہ مخواہ ٹانگ اڑانے کی عادت ہے۔
He has the habit of poking his nose into the affairs of others.
(75) دروازہ پر کون ہے اسے اندر لے آؤ۔
Who is at the door ? Show him in.
(76) اس نے اپنے دکھ کو چیخ مار کر ظاہر کیا
He gave vent to his sorrow in a loud cry.
(77) کمان افسر کی موت کا راز فاش ہو گیا اور جلدی سارے کیمپ میں افسوس کا عالم طاری ہو گیا۔
The secret of the Commander-in-Chief's death got wind and a great sorrow prevailed over the whole camp.
(78) اس کے لئے موت کا حکم ہو چکا ہے۔
He is under sentence of death.
(79) وہ تو اب چند دن کا مہمان ہے
His days are numbered.
(80) ہم نے دو گھنٹہ میں 4 میل کا سفر کیا۔
We covered four miles in two hours.
(81) وہ میرے خون کا پیاسا ہے۔
He wants my head on the charger.
(82) اس کی کوشش پھل لائی۔
His efforts were crowned with success.
(83) وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔
They are at daggers drawn.
(84) وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا۔
He is born with a silver spoon in his mouth
(85) سنبھل کر بات کیجئے ورنہ کچومر نکال دوں گا۔
Talk sense or I will knock your brains out.
(86) مریض کی حالت بدتر ہورہی ہے خیال ہے کہ جانبر نہ ہوگا۔
The patient is sinking, it is feared he may not survive.
(87) ملکہ نے بادشاہ کے قاتلوں سے بدلہ لیا
The queen revenged herself on the murderers of her husband.
(88) اس نے تباہی اور غارتگری کا بازار گرم کیا۔
He carried fire and sword wherever he went
(89) اس کی شرارتیں اس کے سر پر لوٹ آئیں۔
His mischief recoiled upon him
(90) اس نے کئی جھگڑے کھڑے کر رکھے ہیں اور کام کی زیادتی سے اس کی صحت بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔
He has put too many irons in the fire and there is danger of his health breaking under the strain of heavy work.
(91) کمال ! میرا تولیہ نچوڑ دو۔
Kamal ! Wring out my towel.
(92) تم ایک ہی راگ الاپتے ہو۔
You go on harping on the same string.
(93) وہ تو صرف ہاں میں ہاں ملانا جانتا ہے۔
He only knows how to say ditto.
(94) تمہارے منہ سے یہ بات نہیں سجتی۔
It does not lie in your mouth to say so.
(95) پھر تو وہ بغلیں جھانکنے لگا
At this he looked bewildered.
(96) تم کسی کی چغلی مت کرو۔
Do not backbite any body.
(97) وہ زندہ دل تو نہیں۔ مگر ملنسار ضرور ہے۔
He is not jolly but he is certainly sociable.
(98) ڈاکٹر صاحب ایک دن چھوڑ کر آتے ہیں
The doctor pays a visit every other day.
(99) میں چاہتا ہوں کہ انصاف ہو اور کسی کی رو رعائیت نہ ہو
I want fair field and no favour.
(100) لوگوں نے اس کے دل و دماغ کی خوب تعریف کی۔
People praised the qualities of his head and heart.
(101) اس کی موت کی خبر آگ کی طرح تمام شہر میں پھیل گئی
The news of his death spread like wild fire in the whole city.
(102) یہ تمام واقعات اس کی نوک زبان پر ہیں۔
He has all these events at his fingers' ends.
(103) ڈھاکے کی ململ بافی کی صنعت بالکل تباہ ہو گئی۔
The industry of weaving of Muslin of Decca has gone to rack and ruin.
(104) میں نے اسے صاف صاف ہی کہہ دیا کہ میرا اس کا گزارہ ہونا مشکل ہے
I told him in so many words that it is very difficult to pull on with him.
(105) یہ افواہ گرم ہے کہ اس ہفتے کو امتحان انٹرنس کا نتیجہ نکل جاویگا۔
There is a strong rumor that Matriculation results will be out this Saturday.
(106) اس کو مستقل کرنے کا سوال کئی دنوں سے لٹکا ہوا ہے۔
The question of his confirmation is hanging fire.
(107) ہمارا آنا جانا بند ہے۔
We are not on visiting terms.
(108) یہ بات اپنے ہی تک رکھنا
Between ourselves.
(109) میلے میں چوروں سے ہوشیار رہو۔
Be on your guard against thieves in the fair.
(110) بھوت پریت میں یقین دن بنن کم ہو رہا ہے۔
Belief in witchcraft is on its last legs.
(111) کل رات یہ آدمی قریب المرگ تھا۔ مگر آج بہتر ہے۔
This man seemed to be at death's door last night, but now he is much better.
(112) اس نے جی بھر کر کھانا کھایا۔
He ate his fill.
(113) بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل۔
What is the use of splitting hair ?
(114) جب مجھے اس کی نمک حرامی کی خبر ملی تو بہت دکھ ہؤا۔
I was stung to the quick when I heard that he was playing me false.
(115) بجلی روشن کرو۔
Switch the light on.
(116) بجلی بجھا دو۔
Switch the light off.
(117) بوٹ کے تسمے کھول دو۔
Unlace the boots.
(118) کیا دھونے سے یہ داغ اُتر جائیگا۔
Will this stain be washed away ?
(119) میں زبانی جمع خرچ کو نہیں مانتا
I don't believe in lip talk.
(120) دانت مت پیسو۔
Don't gnash your teeth.
(121) سمجھایا بجھایا بہت مگر اس پر خاک اثر نہ ہؤا۔
Admonish him I did but it was all lost on him.
(122) مال روڈ پر دکان چلانے کے لئے کتنا سرمایہ چاہئے۔
What capital is required to run a shop on the Mall ?
(123) گھاس پر مت تھوکو۔
Don't spit on the grass.
(124) اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
He strained every nerve.
(125) تکلف کو بالائے طاق رکھو
Don't stand on ceremony.
0 notes