Tumgik
#پتنگ
urduchronicle · 1 year
Text
فرانس میں جشن آزادی پتنگ فیسٹیول، سفیر پاکستان نے بھی پتنگ بازی کے جوہر دکھائے
فرانس میں پاکستان کے 76 ویں یوم آزادی کے موقع پر جشن آزادی پتنگ فیسٹیول کا انعقاد کیاگیا، 2 روز تک جاری رہنے والے ایونٹ کا انعقاد سمندر کنارے کیاگیا۔ پتنگ فیسٹیول میں برطانیہ اور اسپین کے علاوہ فرانس کی کائیٹ ٹیموں نے بھی بھرپور شرکت کی،ایونٹ کی میزبانی پیرس کائیٹ کلب اور بارسلونا کائیٹ کلب نے کی۔ سفیر پاکستان فرانس عاصم افتخار نے سفارتخانہ پاکستان کے عملے سمیت پتنگ فیسٹیول میں بطور مہمان خصوصی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hasnain-90 · 2 years
Text
‏تمھارے بعد ہمیں جو بھی چاہے اپنائے
پتنگ کٹ گئی تو "ملکیت" کسی کی نہیں 🥀
9 notes · View notes
airnews-arngbad · 1 year
Text
آکاشوانی اورنگ آباد‘ علاقائی اُردو خبریں: بتاریخ: 05 جون 2023‘ وقت: صبح 09:00 تا 09:10
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھوں مہاریل کے تعمیر کردہ 9 ریلوے فلائی اوور کا افتتاح اور 11 فلائی اوورز و سب ویز کا سنگ ِ بنیاد۔
٭ معروف اداکارہ سلوچنا چل بسیں؛ آج ممبئی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات۔
٭ تھانے ضلع کے بھیونڈی میں ملک کے پہلے کاربن نیوٹرل قبائیلی گاؤں کا قیام۔
٭ مراٹھواڑہ سمیت ریاست بھرمیں آندھی کے ساتھ زوردار بارش؛ 12  افراد کی موت۔
٭ عثمان آباد ضلع میں نئے چار اسپتالوں کیلئے 145 کروڑ روپئے منظور۔
اور۔۔ ٭ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویشن نصاب کیلئے آج سے داخلہ جات کے عمل کا آغاز۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
مرکزی وزیر برائے زمینی حمل و نقل و شاہراہ نتن گڈکری اور وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں مہاریل کی جانب سے مہاراشٹر میں تعمیر کردہ 9 ریلوے فلائی اوورز کا افتتاح اور 700 کروڑ روپئے صرفے سے تعمیر ہونے والے مجوزہ 11 فلائی اوورز اور سب ویز کا سنگ ِ بنیاد کل رکھا گیا۔ اس موقع پر وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا کہ مہاراشٹر کو ریلوے پھاٹک سے پاک کرنے کی خصوصی مہم شروع کی گئی ہے اور نہایت تیز رفتاری سے یہ کام مکمل کیا جائیگا۔ اس موقع پر مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا کہ ہر سال 16 ہزار کروڑ روپئے کی لاگت سے 11 پُل مکمل کیے جائیں گے۔ کل جن منصوبوں کا افتتاح اور سنگ ِ بنیاد عمل میں آیا اُن میں مراٹھواڑہ کے ہنگولی- ناندیڑ شاہراہ پر ٹو ٹریک فلائی اوور‘ عثمان آباد ضلع میں ڈھوکی تا عثمان آباد راستے پر دوہرا فلائی اوور‘ نیز لاتور میں کورڈو واڑی تا لاتور ریلوے اسٹیشن کے درمیان واقع فلائی اوور شامل ہے۔
***** ***** *****
معروف اداکارہ سلوچنا لاٹکر کل ممبئی میں انتقال کرگئیں۔ وہ 94 برس کی تھیں۔ کولہاپور ضلع کے کھڑک لاٹ میں پیدا ہونے والی رنگو عرف سلوچنا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز عمر کے 14 ویں برس میں پرفل پکچرز کی مراٹھی فیچر فلم ”چِمُکلا سنسار“ سے کیا۔ کولہاپور کے پربھاکر اسٹوڈیو کے مالک بھالجی پینڈھارکر نے ان کا فلمی نام سلوچنا رکھا۔ سلوچنا نے دیڑھ سو سے زائد ہندی اور ڈھائی سو سے زائد مراٹھی فلموں میں مختلف کردار ادا کیے۔ مقبول ہندی فلموں ’سرسوتی چندر‘ بندنی‘ کٹی پتنگ‘ کورا کاغذ‘ مقدر کا سکندر’آشا‘ اور خون بھری مانگ میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیے۔ کیریئر کے ابتداء میں بطور ہیروئن کام کرنے کے بعد سلوچنا کے کیریئر ایکٹر کے طور پر نبھائے گئے کردار آج بھی شائقین کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اُن کی آخری رسومات آج شام ممبئی میں ادا کی جائیں گی۔ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے نے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ اُن کی آخری رسومات ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی‘ وزیرِ اعلیٰ ایکناتھ شندے‘ قائد ِ حزبِ اختلاف اجیت پوار‘ نائب وزیرِ اعلیٰ دیویندر پھڑنویس‘ وزیر برائے ثقافتی اُمور سدھیر منگنٹیوار سمیت متعدد اہم شخصیات نے سلوچنا کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
***** ***** *****
ملک کا پہلا کاربن نیوٹرل قبائیلی گاؤں تھانہ ضلع کے بھیونڈی میں قائم کیا جائیگا۔ مرکزی وزیرِ مملکت کپل پاٹل نے کل بھیونڈی میں ایک اخباری کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔ مرکزی حکومت نے گذشتہ 9 برسوں میں کیے گئے کاموں کا جائزہ بھی انھوں نے اس پریس کانفرنس میں پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بھیونڈی انتخابی حلقے میں ایک لاکھ 75 ہزار کسان‘ پردھان منتری سنمان یوجنا سے مستفید ہوچکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بھیونڈی کے 121 دیہاتوں کو مثالی گاؤں بنایا جائیگا۔
***** ***** *****
مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے ملک کی تاریخی اعلیٰ ثقافت کو زندہ کیا ہے اور حکومت کو ملک کی روشن روایات پر فخر ہے۔ وہ کل اُلہاس نگر میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کی کوششوں سے ہی کرتارپور راہداری اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر جیسے دیگر کئی پروجیکٹس ممکن ہوسکے۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ سمیت ریاست کے متعدد علاقوں میں کل تیز ہواؤں اور ژالہ باری کے ساتھ زوردار بارش ہوئی۔ اس بارش سے متعلق واقعات میں ریاست میں 12  افراد کی موت واقع ہوگئی اور مکانات‘ دُکانوں اور ہفت روزہ بازاروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ اورنگ آباد شہر سمیت ضلع کے مختلف مقامات پر درخت اُکھڑ گئے‘ مکانوں کی چھتیں اُڑ گئیں اور کئی مکانوں کی دیواریں منہدم ہوگئیں۔ گنگاپور تعلقے کے ترک آباد کھراڑی میں کھیت میں کام کررہے ایک شخص کرشنا میٹے کی بجلی گرنے سے موت واقع ہوئی‘ جبکہ ایک اور شخص کے جھلسنے کی خبر ہے۔ بارش کے باعث ویجاپور زرعی مارکیٹ کمیٹی میں فروخت کرنے کیلئے لائی گئی پیاز کو نقصان پہنچا۔ پاچوڑ اور دولت آباد کے ہفت روزہ بازاروں اور دکاندار گاہکوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ آندھی اور دھول کے باعث سڑک پر گاڑی چلانا دشوار ہوگیا تھا۔ 
جالنہ شہر سمیت ضلع بھر میں بھی آندھی کے باعث کئی مکانوں کی چھتیں اور دُکانوں کے سائن بورڈ اُڑ گئے۔ کئی ایک مقامات پر درخت اور بجلی کے کھمبے گر پڑے۔
ہنگولی ضلع میں بھی کل کئی مقامات پر تیز ہواؤں کے ساتھ بارش ہوئی۔ اونڈھا ناگناتھ‘ سیرٹ شاہ پور، بسمت‘ کلمنوری، آکھاڑا باڑا پور، کن ہیر گاؤں سمیت کئی مقامات پر بارش ہوئی۔ جبکہ جوڑا بازار میں ژالہ باری کی خبریں ہیں۔ بیڑ ضلع کے امبہ جوگائی تعلقے میں گھاٹ ناندور میں بجلی گرنے سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ چند مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ واشم ضلع کے رِسوڑ تعلقے میں بھی بجلی گرنے سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی‘ جبکہ مالیگاؤں تعلقے میں آم کے درخت سے آم اُتارنے والا ایک شخص بجلی گرنے سے ہلاک ہوا۔ امان واڑی میں بجلی گرنے سے تین شخص جھلس گئے۔
بلڈانہ کے کھام گاؤں تعلقے میں درخت گرنے سے ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔ ضلع کی قومی شاہراہ پر ملکا پور اور ناندورہ راستے پر غیر موسمی بارش اور درخت گرنے سے کچھ وقت کیلئے ٹریفک متاثر ہوا۔ نندوربار ضلع میں گرد و غبار کے باعث مخالف سمت سے آنے والی گاڑی نظر نہ آنے سے ایک بس اور ٹرک کے مابین پیش آئے حادثے میں ٹرک ڈرائیور جائے حادثے پر ہی ہلاک اور بس میں سوار آٹھ مسافر زخمی ہوگئے۔ تڑودہ تعلقے میں برگد کا درخت ایک چلتی کار پر گر��ڑا، جس کے باعث ایک شخص ہلاک اور دو افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اسی تعلقے میں تیز بارش کے باعث 35 تا 40 بکریاں بھی ہلاک ہوگئیں۔
جلگاؤں ضلع میں بارش کے باعث پیش آئے مختلف واقعات میں تین افراد کی موت واقع ہوئی۔ احمد نگر ضلع کے اکولے میں اور شولاپور ضلع کے کرماڑا تعلقے میں بجلی گرنے سے ایک ایک شخص کی موت واقع ہوئی۔ ان بارشوں کے باعث آم، کیلے اور ناریل کے باغوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ پال گھر‘ نندوربار اور ناسک سمیت کئی اضلاع میں زوردار بارش کی خبر ہمارے نامہ نگاروں نے دی ہے۔
***** ***** *****
چندر پور ضلع میں کل پیش آئے ایک سڑک حادثے میں 6  افراد ہلاک ہوگئے۔ کل دوپہر ناگپور سے ناگ بھیڑ جانے والی ایک موٹر گاڑی کے بس سے ٹکرا جانے کے باعث یہ حادثہ ہوا۔ جس میں چار افراد جائے حادثے پر ہی ہلاک ہوئے، جبکہ دیگر دو زخمی دورانِ علاج چل بسے۔
***** ***** *****
عثمان آباد ضلع میں پرانڈا‘ بھوم اور واشی تعلقے میں نئے چار اسپتالوں کیلئے 145 کروڑ روپئے منظور کیے گئے ہیں۔ وزیرِ صحت اور ضلع کے رابطہ وزیر ڈاکٹر تاناجی ساونت نے یہ اطلاع دی۔ انتظامیہ آپ کے دروازے پر مہم کے تحت ہونے والے کاموں کا جائزہ لینے کیلئے کل پرانڈا میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مجوزہ مختلف کاموں کا افتتاح دِیا جلاکر وزیرِ موصوف نے کیا۔
***** ***** *****
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویشن نصاب میں داخلوں کے عمل کا آج سے آن لائن طرز پر آغاز ہورہا ہے۔ تمام کورسیز کیلئے 15 جون تک رجسٹریشن کیا جاسکتا ہے۔ 20 جون کو خواہش مند طلباء کی فہرست اور 28 جون کو حتمی میرٹ لسٹ جاری کی جائیگی۔ چار اور چھ جولائی کو ان کورسیزمیں داخلہ دیا جائیگا۔ وائس چانسلر پرمود ییولے نے بتایا کہ تعلیمی سال میں تدریس‘ امتحانات اور نتائج کا عمل بروقت کرنے کیلئے انتظامیہ کوششوں میں مصروف ہے۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ وزیرِ اعلیٰ کے ہاتھوں مہاریل کے تعمیر کردہ 9 ریلوے فلائی اوور کا افتتاح اور 11 فلائی اوورز و سب ویز کا سنگ ِ بنیاد۔
٭ معروف اداکارہ سلوچنا چل بسیں؛ آج ممبئی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات۔
٭ تھانے ضلع کے بھیونڈی میں ملک کے پہلے کاربن نیوٹرل قبائیلی گاؤں کا قیام۔
٭ مراٹھواڑہ سمیت ریاست بھرمیں آندھی کے ساتھ زوردار بارش؛ 12  افراد کی موت۔
٭ عثمان آباد ضلع میں نئے چار اسپتالوں کیلئے 145 کروڑ روپئے منظور۔
اور۔۔ ٭ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویشن نصاب کیلئے آج سے داخلہ جات کے عمل کا آغاز۔
***** ***** *****
0 notes
762175 · 2 years
Text
غبارے بھارت کے بعد امریکا کو بھی بے چین کرنے لگے
(24 نیوز)  غباروں سے پہلے صرف بھارت پریشان ہوا کرتا تھا لیکن اب امریکا کی بھی نیندیں حرام ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔  تفصیلا�� کےمطابق پاکستانی غباروں ،کبوتروں اور دیگر جانوروں سے بھارت پریشان ہوا کرتا تھا یہاں تک کہ کوئی کٹی پتنگ بھی ہوا کے زور سے بھارت کی سرحد میں جا گرتی تو  ہٹلر مودی  کا پیرو کار بھارتی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا، بھارتی میڈیا ان پتنگوں اور غباروں پر ایسی ایسی رپورٹ بناتا …
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
بھارت میں پتنگ کی دور گلے پر پھرنے سے 3 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک
—فوٹو: اےا یف پی نئی دہلی: بھارت میں پتنگ بازی کے سالانہ میلے کے دوران پتنگ کی دور گلے پر پھرنے سے 3 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک ہو گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مغربی بھارتی ریاست گجرات میں اترائین تہوار کے موقع پر پتنگ بازی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ بورتالاو پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک 2 سالہ بچی کی گردن پر پتنگ کی ڈور پھرنے اس وقت ہلاکت ہوئی جب وہ والد کے ہمراہ اسکوٹر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
بھارت میں پتنگ کی دور گلے پر پھرنے سے 3 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک
—فوٹو: اےا یف پی نئی دہلی: بھارت میں پتنگ بازی کے سالانہ میلے کے دوران پتنگ کی دور گلے پر پھرنے سے 3 بچوں سمیت 6 افراد ہلاک ہو گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مغربی بھارتی ریاست گجرات میں اترائین تہوار کے موقع پر پتنگ بازی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ بورتالاو پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک 2 سالہ بچی کی گردن پر پتنگ کی ڈور پھرنے اس وقت ہلاکت ہوئی جب وہ والد کے ہمراہ اسکوٹر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 2 years
Text
کابل میں پتنگ بازی کا شوق ’سو سال‘ سے بھی پرانا
کابل میں پتنگ بازی کا شوق ’سو سال‘ سے بھی پرانا
افغانستان بالخصوص اس کے دارالحکومت کابل میں پتنگ بازی صرف شوق نہیں بلکہ پاکستان اور انڈیا میں بسنت کی طرح ایک رنگین ثقافت بن چکی ہے، جس کا چرچہ افغان فلموں سے لے کر ہالی وڈ میں بھی نظر آتا ہے۔ معاشی بدحالی کے باوجود کابل کے پرانے شور بازار میں 30 سے زیادہ پتنگوں کی دکانیں ہیں جن میں سے پانچ چھ ہول سیل کی ہیں، جہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ پتنگیں خریدنے آتے ہیں۔ افغانستان میں پتنگ بازی کا کوئی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 4 years
Text
کراچی پولیس نے پتنگ ڈور میں لپٹی چیل کی جان بچالی
کراچی میں لاک ڈاون کے دوران انسانوں کے بعد بےزبان پرندے بھی پتنگ ڈور کی لپیٹ میں آ گئے۔ پولیس کے اہلکاروں نے پتنگ ڈور سے لپٹ کر زمین پر گرنے والی چیل کی جان بچالی۔
Tumblr media
فیروز آباد پولیس اسٹیشن کی حدود میں ڈور لپٹنے سے چیل زمین پر آ گری تھی۔۔۔پولیس اہلکار نے فورا چلتی سڑک سے چیل کو ہاتھ میں اٹھایا اور چھری کی مدد سے چیل سے لپٹی ڈور کو کاٹا۔۔ڈور سے آزاد ہوتے ہیں چیل فضا میں اڑ گئی ۔۔راہگیروں کی جانب…
View On WordPress
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
پتنگ بازی پر پابندی کیخلاف درخواستیں! لاہور ہائیکورٹ نے بڑا حکم جاری کردیا لاہور (این این آئی) لاہورہائی کورٹ نے پتنگ بازی پر پابندی کیخلاف درخواستوں پر حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10روز میں جواب طلب کرلیا ۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے محمد علی سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل خالد ظفر ایڈووکیٹ
0 notes
ibtedaa · 4 years
Text
.
1 note · View note
weaajkal · 5 years
Photo
Tumblr media
کراچی : پتنگ بازی نے ایک نوجوان اور چھ سالہ بچے کی جان لے لی کراچی میں پتنگ بازی کے شوق نے تین روز کے دوران ایک نوجوان اور چھ سالہ بچے کی جان لے لی۔
0 notes
bazmeurdu · 3 years
Text
استاد مرحوم, ابنِ انشا کی یادگار تحریر
استاد مرحوم نے اہلِ زبان ہونے کی وجہ سے طبیعت بھی موزوں پائی تھی اور ہر طرح کا شعر کہنے پر قادر تھے۔ اردو، فارسی میں ان کے کلام کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو غیر مطبوعہ ہونے کی وجہ سے اگلی نسلوں کے کام آئے گا۔ اس علم و فضل کے باوجود انکسار کا یہ عالم تھا کہ ایک بار اسکول میگزین میں جس کے یہ نگران تھے، ایڈیٹر نے استاد مرحوم کے متعلق یہ لکھا کہ وہ سعدی کے ہم پلہ ہیں، انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ سکول میگزین کا یہ پرچہ ہمیشہ ساتھ رکھتے اور ایک ایک کو دکھاتے کہ دیکھو لوگوں کی میرے متعلق یہ رائے ہے حالانکہ من آنم کہ من دانم۔ ایڈیٹر کو بھی بلا کر سمجھایا کہ عزیزی یہ زمانہ اور طرح کا ہے۔ ایسی باتیں نہیں لکھا کرتے۔ لوگ مردہ پرست واقع ہوئے ہیں۔ حسد کے مارے جانے کیا کیا کہتے پھریں گے۔ اہل علم خصوصاً شعرا ء کے متعلق اکثر یہ سنا ہے کہ ہم عصروں اور پیشروؤں کے کمال کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں، استاد مرحوم ��یں یہ بات نہ تھی، بہت فراخ دل تھے۔ 
فرماتے، غالب اپنے زمانے کے لحاظ سے اچھا لکھتے تھے۔ میر کے بعض اشعار کی بھی تعریف کرتے۔ امیر خسرو کی ایک غزل استاد مرحوم کی زمین میں ہے۔ فرماتے، انصاف یہ ہے کہ پہلی نظر میں فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی (غزل) بہتر ہے۔ پھر بتاتے کہ امیر خسرو سے کہاں کہاں محاورے کی لغزش ہوئی ہے۔ اقبال ؒ کے متعلق کہتے تھے کہ سیالکوٹ میں ایسا شاعر اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ اس شہر کو ان کی ذات پر فخر کرنا چاہیے۔ ایک بار بتایا کہ اقبالؒ سے میری خط و کتابت بھی رہی ہے۔ دو تین خط علامہ مرحوم کو انہوں نے لکھے تھے کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجئے۔ راقم نے پوچھا نہیں کہ ان کا جواب آیا کہ نہیں۔ استاد مرحوم کو عموماً مشاعروں میں نہیں بلایا جاتا تھا کیوں کہ سب پر چھا جاتے تھے اور اچھے اچھے شاعروں کو خفیف ہونا پڑتا۔ خود بھی نہ جاتے تھے کہ مجھ فقیر کو ان ہنگاموں سے کیا مطلب۔ البتہ جوبلی کا مشاعرہ ہوا تو ہمارے اصرار پر اس میں شریک ہوئے اور ہر چند کہ مدعو نہ تھے منتظمین نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
دیوانہ کسمنڈوی، خیال گڑگانوی اور حسرت بانس بریلوی جیسے اساتذہ سٹیج پر موجود تھے، اس کے باوجود استاد مرحوم کو سب سے پہلے پڑھنے کی دعوت دی گئی۔ وہ منظر اب تک راقم کی آنکھوں میں ہے کہ استاد نہایت تمکنت سے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مائیک پر پہنچے اور ترنم سے اپنی مشہور غزل پڑھنی شروع کی ۔ ہے رشت غم اور دلِ مجبور کی گردن ہے اپنے لئے اب یہ بڑی دور کی گردن ہال میں سناٹا سا چھا گیا۔ لوگوں نے سانس روک لئے۔ استاد مرحوم نے داد کے لئے صاحب صدر کی طرف دیکھا لیکن وہ ابھی تشریف نہ لائے تھے، کرسیِٔ صدارت ابھی خالی پڑی تھی۔ دوسرا شعر اس سے بھی زور دار تھا۔ صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا اور دار پہ ہے حضرتِ منصور کی گردن دوسرا مصرع تمام نہ ہوا تھا کہ داد کا طوفان پھٹ پڑا۔ مشاعرے کی چھت اڑنا سنا ضرور تھا، دیکھنے کا اتفاق آج ہوا۔ اب تک شعراء ایک شعر میں ایک مضمون باندھتے رہے ہیں اور وہ بھی بمشکل۔ اس شعر میں استاد مرحوم نے ہر مصرع میں ایک مکمل مضمون باندھا ہے اور خوب باندھا ہے۔
لوگ سٹیج کی طرف دوڑے۔ غالباً استاد مرحوم کی پابوسی کے لئے۔ لیکن رضا کاروں نے انہیں باز رکھا۔ سٹیج پر بیٹھے استادوں نے جو یہ رنگ دیکھا تو اپنی غزلیں پھاڑ دیں اور اٹھ گئے۔ جان گئے تھے کہ اب ہمارا رنگ کیا جمے گا۔ ادھر لوگوں کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ تیسرے شعر پر ہی فرمائش ہونے لگی مقطع پڑھیے مقطع پڑھیے۔۔۔۔ چوتھے شعر پر مجمع بے قابو ہو رہا تھا کہ صدرِ جلسہ کی سواری آگئی اور منتظمین نے بہت بہت شکریہ ادا کر کے استاد مرحوم کو بغلی دروازے کے باہر چھوڑ کر اجازت چاہی۔ اب ضمناً ایک لطیفہ سن لیجئے۔ دوسری صبح روزنامہ''پتنگ‘‘نے لکھا کہ جن استادوں نے غزلیں پھاڑ دی تھیں، وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ عجب نامعقول مشاعرے میں آ گئے ہیں۔ لوگوں کی بے محابا داد کو ہوٹنگ کا نام دیا اور استاد مرحوم کے اس مصرع کو'' صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا‘‘، لا علمی ، شرارت اور ''سرقہ‘‘ قرار دیا۔ پھر اس قسم کے فقروں کا کیا جواز ہے کہ ''استاد چراغ شعر نہیں پڑھ رہے تھے روئی دھن رہے تھے۔‘‘ صحیح محاورہ روئی دھننا نہیں روئی دھنکنا ہے۔ اس دن کے بعد سے مشاعرے والے استاد مرحوم کا ایسا ادب کرنے لگے کہ اگر استاد اپنی کریم النفسی سے مجبور ہو کر پیغام بھجوا دیتے کہ میں شریک ہونے کے لئے آ رہا ہوں تو وہ خود معذرت کرنے کے لئے دوڑے آتے کہ آپ کی صحت اور مصروفیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ ہمیں (ان کے نا چیز شاگردوں کو) بھی رقعہ آ جاتا کہ معمولی مشاعرہ ہے، آپ کے لائق نہیں۔ زحمت نہ فرمائیں۔
بشکریہ دنیا نیوز
4 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
*رنگ باز لاہوری*
صرف ان کے لیے جو لاہور سے دلچسپی رکھتے ہیں.
اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا۔
شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی، یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی اور اس سے ملحق علاقہ رنگ محل،
لاہور کے مضافاتی علاقے موجودہ ساہیوال میں میلوں تک نیل کے پودے تھے اسی نسبت سے اسے آج بھی نیلی بار کہتے ہیں، لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے، ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا، اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں، یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر اکبری منڈی پہنچتی تھیں، تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں، گڈوں کے ذریعے ممبئی (پرانا نام بمبئی) اور کولکتہ (پرانا نام کلکتہ) پہنچتی تھیں، وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدتے تھے، جہازوں میں بھرتے تھے، یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہر جنوا (Genoa) (یہ شہر جنیوا نہیں ہے) پہنچ جاتا تھا، جنوا فرانسیسی شہر نیم کے قریب تھا، جنوا اطالوی شہر ہے جبکہ نیم فرانسیسی، دونوں قریب قریب واقع ہیں، نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے، ڈی نیم میں ہزاروں کھڈیاں تھیں، ان کھڈیوں پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔
یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا، سرج کپڑا بن کر جنوا پہنچتا تھا، جنوا کے انگریز اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے، کپڑا نیلا ہو جاتا تھا، وہ نیلا کپڑا بعد ازاں درزیوں کے پاس پہنچتا تھا، درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے، وہ پتلونیں بعد ازاں جنوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں، جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے جوش حسد میں اپنے کپڑے کو ڈی نیم کہنا شروع کر دیا، یہ ڈی نیم کپڑا آہستہ آہستہ ’’ڈینم‘‘ بن گیا، جینز اور ڈینم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔
جینز کے تین عناصر تھے، ڈی نیم کا کپڑا، لاہور کا نیل اور جنوا کے درزی، مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تو شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی بھی تو کم از کم یہ نیلی نہ ہوتی، جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا، آپ آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریاں نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ان ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا، گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے، یہ رنگ بعد ازاں انڈیا کی مناسبت سے انڈیگو بن گیا۔
فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ڈچ نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے جب کہ برطانوی افیون کے لئے یہاں آئے اور پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا، لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتاتھ۔ یہ ہزاروں میل کا زمینی اور سمندری فاصلہ طے کر کے جنوا پہنچتا تھا، جینز کا حصہ بنتا تھا اور پوری دنیا میں پھیل جاتا تھا لیکن پھر لاہور کے لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا، یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں، اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔
نیل لاہوری نہ رہا مگر لاہور کے شہری آج بھی رنگ باز ہیں، لاہوریوں کو یہ خطاب ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا، ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی، فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً پتنگ بنانے والے پتنگ باز اور کبوتر پالنے والوں کو کبوتر باز، اس مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ کہنے لگے، اس زمانے میں کیونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا، یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ ہے.
6 notes · View notes
alfaaz-kheyaal · 4 years
Text
بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے
گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں. منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی.....دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے. منگول نا قابل شکست ہیں.
.
منگولوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا. منگولوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا. اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی. مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے.
.
ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی. وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی. "منگول - یوروپئن ایکسز " کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی. وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی. مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے. جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا
.
اور یہ معرکہ ہوا
تاریخ تھی ستمبر 1260 اور میدان تھا عین جالوت
منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے. منگول طوفان جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا. وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا. کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا. مسلمانوں کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی ، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی
طبل جنگ بجا. بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا. طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں. اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا. منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا. منگولوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا. وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے. مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا. معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہری آبادی نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا.
منگول ناقابل شکست ہیں" یہ وہم "عین جالوت" کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا
"غلاموں" نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا
اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے سالوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے. رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے" منگول یو روپئن نیکسس" کو بھی ٹوڑ ڈالا اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا.
.
مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے
ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی. جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی ��ہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا
.
سلام سلطان رکن الدین بیبرس❤
اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین
منقول
23 notes · View notes
shazi-1 · 4 years
Text
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ہنگامہ گرم کُن جو دل ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا
مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
اس فصل میں کہ گل کا گریباں بھی ہے ہوا
دیوانہ ہو گیا سو بہت ذی شعور تھا
منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اس رند کی بھی رات گزر گئی جو عور تھا
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا
تھا وہ تو رشکِ حورِ بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
(میر تقی میرؔ)
Tumblr media
9 notes · View notes
billu916 · 4 years
Text
بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے
گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں. منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی.....دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے. منگول نا قابل شکست ہیں.
.
منگولوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو عبرتناک انجام سے دوچار کیا. منگولوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا. اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی. مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے.
.
ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی. وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی. "منگول - یوروپئن ایکسز " کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی. وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی. مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے. جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا
.
اور یہ معرکہ ہوا
تاریخ تھی ستمبر 1260 اور میدان تھا عین جالوت
منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے. منگول طوفان جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا. وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا. کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا. مسلمانوں کے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی ، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی
طبل جنگ بجا. بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا. طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں. اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا. منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا. منگولوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا. وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے. مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا. معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہری آبادی نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا.
منگول ناقابل شکست ہیں" یہ وہم "عین جالوت" کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا
"غلاموں" نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا
اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے سالوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے. رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے" منگول یو روپئن نیکسس" کو بھی ٹوڑ ڈالا اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا.
.
مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے
ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی. جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا
.
سلام سلطان رکن الدین بیبرس❤
اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے آمین
منقول
3 notes · View notes