Tumgik
#پیٹرولیم مصنوعات
googlynewstv · 9 days
Text
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آج نمایاں کمی کاامکان
آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجودوزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سےآج پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی  کاامکان ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے یکم ستمبر سے14ستمبر تک کروڈ آئل کی بین الاقوامی قیمتوں میں8سے12روپے تک کمی کے مطابق کیلکولیشن کر کے وزارت پیٹرولیم کی مشاورت سے وفاقی وزارت خزانہ کو انٹرنیشنل قیمتوں میں کمی کے تناسب سے 6 سے 10 روپے کمی کی سمری بھجوائی ہے۔ وفاقی وزارت…
0 notes
urduintl · 4 months
Text
0 notes
umeednews · 8 months
Text
پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان
اسلام آباد: حکومت نے آئندہ پندرہ روز کیلیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 8 روپے تک کمی کا اعلان کردیا۔ تفصیلات کے مطابق نگراں وفاقی حکومت نے اوگرا کی سفارش پر آئندہ 15 روز کیلیے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کردیا۔ حالیہ کمی کے بعد پیٹرول کی فی لیٹر قیمت 259.34 پیسے ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ حکومت نے ہائی اسپیڈ ڈیزل، مٹی کے تیل اور لائٹ ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی یا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
کیا گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا وقت آگیا ہے؟
Tumblr media
پاکستان کیسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے اس کی ایک اچھی مثال قدرتی گیس ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں وافر گیس بھی دریافت ہوئی جبکہ ملک کے ابتدائی سرکاری اداروں میں 1950ء میں بننے والی پاکستان پیٹرولیم بھی شامل تھی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اپنے قیام کے وقت توانائی کے بہت کم ذرائع تھے اور عملی طور پر توانائی کی پیداواری صلاحیت تک موجود نہ تھی، ایسے میں پاکستان نے مقامی گیس کی وافر مقدار کو اپنے لیے بڑی پیمانے پر ایک صنعت کی بنیاد بنایا درحقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے پرانی کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب اس کی پیرنٹ کمپنی ایسو، تیل دریافت کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے حادثاتی طور پر مری فیلڈز میں گیس دریافت کر لی۔ اس وقت مری فیلڈز ریگستان میں دور کہیں موجود تھی۔ چونکہ ایسو تیل کی کمپنی تھی اس لیے گیس کی دریافت ان کے کسی کام کی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے گیس کے ان ذخائر کو کچھ سالوں تک ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند سال بعد کسی کو خیال آیا کہ اس گیس کا استعمال کر کے کھاد بنائی جاسکتی ہے بس اس کے لیے حکومت سے مناسب قیمت کے لیے بات چیت کرنی ہو گی کیونکہ کھاد کی قیمتیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔
یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایسو فرٹیلائزر کا قیام عمل میں آیا جو کہ شاید اس وقت پاکستان کی دوسری کھاد بنانے والی کمپنی تھی۔ اس کے بعد سے اور بھی دریافتیں ہوئیں، دیگر کھاد کی کمپنیاں بھی وجود میں آئیں جن میں بالخصوص ’فوجی فرٹیلائزر‘ نمایاں ہے جو 1970ء کی دہائی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ پہلے تھرمل پاور پلانٹس بھی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے جس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پانی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ دونوں ڈیم 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء دہائی کے اواخر تک فعال ہوئے۔ اس سلسلے میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن سب سے بڑا اور پرانا پلانٹ تھا جس نے 1974ء میں کام کرنا شروع کیا، یہ مکمل طور پر قدرتی گیس پر چلتا تھا۔ یہ کندھ کوٹ میں واقع تھا جو کہ زیادہ آبادی والے تین شہروں کراچی، لاہور اور کوئٹہ سے قریب واقع تھا تاکہ یہ ان تینوں شہروں کو توانائی فراہم کر سکے۔ یہ پلانٹ اب بھی فعال ہے لیکن اس کے کمیشن ہونے کے بعد اس کے کچھ ٹربائنز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
Tumblr media
1990ء کی دہائی تک پاکستان میں دنیا کے بڑے پائپ گیس ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر میں سے ایک موجود تھا، اس وقت تک کھاد کی تیاری اور توانائی کی پیداوار کے علاوہ پاکستان کے گھریلو صارفین کو بھی بڑی مقدار میں قدرتی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ اس دوران دیگر صنعتی دعوے دار بھی پیدا ہوئے جیسے سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبے جہاں خاص طور پر پروسیسنگ میں بوائلرز کو چلانے کے لیے گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ یوں اس ملک میں گیس نے بنیادی ایندھن کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بات بظاہر حیران کُن لگے لیکن ملک میں قدرتی گیس کی وافر مقدار نے دراصل ہمیں تیل کی قیمتوں کے ان مختلف بحرانوں سے محفوظ رکھا جن کا ان دہائیوں میں عالمی معیشت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان 1970ء اور 2000ء کے اواخر میں آنے والے تیل کے بحران کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر صرف اس بات کی نشاندہی کے لیے کیا گیا ہے کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی نہ ہوتی تو ملک ان سے کہیں زیادہ متاثر ہوتا کیونکہ قدرتی گیس نے ان بحرانوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی یہ آگہی لوگوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ ملک میں گیس کی قیمتیں تبدیل ہونے والی ہیں اگرچہ ملک میں کوئی بھی اس پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف قیمتوں کے تعین میں اصلاحات پر زور دے رہا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کی حکومت تعمیل پر راضی نہیں تھی۔ اس حوالے سے دلائل پیش کیے گئے کہ اس سے خوارک کے تحفظ پر اثرات مرتب ہوں گے جو کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں یہ آگہی زور پکڑ گئی اور ایک ایسے کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پورے پاکستان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی آفتاب غلام نبی قاضی نے کی جو کہ اس وقت سینیئر سرکاری افسر اور غلام اسحٰق خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی تعیناتی نے ظاہر کیا کہ حکومتِ وقت گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اقدامات لینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کمیشن نے سب سے پہلے کھاد کی قیمتوں پر کام کیا جس کے بعد تیل، اور زرعی مصنوعات جیسے گندم اور کپاس پر بھی توجہ مرکوز کی۔
متعدد وجوہات کی بنا پر کمیشن کھاد کی قیمتوں کو ریگولیٹ نہیں کر پایا۔  مینو فیکچرز نے کہا کہ کھاد کی قیمت اس مطابق ہونی چاہیے جس پر نیا پلانٹ فعال ہو سکے۔ کمیشن نے دیکھا کہ کھاد کا براہِ راست تعلق گیس سے ہے اور غذائی اشیا کی قیمتوں پر بھی کھاد کی قیمت اثرانداز ہوتی ہے، تو گویا کھاد اہم ہے کیونکہ اس کے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کھاد کی قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ پھر ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں یہ بات سر اٹھانے لگی کہ پاکستان کے گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں اور کوئی نئی دریافت بھی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پیش گوئیاں سامنے آئیں کہ پاکستان کے گیس فیلڈز 2008ء یا 2010ء کے قریب ممکنہ طور پر کمی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ بنیادی طور پر گیس پر انحصار نہ کرنے والی صنعتوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اور زراعت و خواراک کی پیداوار پر اس کے اثرات کی وجہ سے یہ تباہی کی پیش گوئی کے مترادف تھا۔
منصوبے میں خبردار کیا کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات لینا شروع کرنا ہوں گے۔ گیس کی دریافت کی کوششیں تیز کریں، کھپت کو کم کریں اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں اصلاحات لے کر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اقدامات نہیں لیے گئے۔ قیمتوں کا یہی نظام برقرار رہا۔ ایسی کوئی قابلِ ذکر دریافت نہیں ہوئی جوکہ ذخائر کم ہونے کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر سکتی۔ کھپت کم کرنے کے بجائے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا سیکٹر متعارف کروایا جہاں گھریلو گیس کو گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے فوراً بعد خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں کیپٹیو پاور بھی سامنے آئی۔ متوقع طور پر 2010ء سے قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ 5 سال بعد 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے گیس کی درآمدات کا آغاز کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کل طلب کا تقریباً حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیمتیں مکمل طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے گیس کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا۔ رواں سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاید اگلے سال اس سے زیادہ اضافہ ہو۔ جب آپ ایک مقام پر ٹھہرے رہتے ہیں اور اصلاحات لے کر نہیں آتے تو ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خرم حسین  
یہ مضمون 21 دسمبر 2023ء کو ٖڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
پٹرول کی قیمت میں 14 روپے فی لیٹر کمی، نوٹیفکیشن جاری
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی  کردی گئی۔ نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 14 روپے کی کمی کی گئی ہے،پیٹرول کی نئی قیمت 267 روپے 21 پیسے ہوگی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل 13 روپے 50 فی لیٹر سستا کیا گیا ہے جس کے بعد ہائی اسپیڈ کی نئی قیمت 276 روپے 21…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اضافہ کیسے؟
Tumblr media
پاکستان کو اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ ملکی خزانے میں ڈالرز کی قلت ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈالر کی ا سمگلنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ڈالر خرید کر اپنے پاس جمع کئے ہوئے ہیں انہیں یہ ڈالر بینکوں میں جمع کروانے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو شہریوں سے اپیل کرنی چاہئے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جو شہری ڈالر اپنے پاس رکھنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے انہیں اور ان کے سرمائے کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ جب بھی انہیں اپنے جمع کروائے گئے ڈالرز کی ضرورت ہو گی وہ انہیں فراہم کئے جائیں گے۔ برٹش پاؤنڈز، یورو، سعودی ریال اور اماراتی درہم سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے بھی پالیسی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے یا زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری نمایاں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں اور درآمدات کے حوالے سے ادائیگیوں میں درپیش مالیاتی دباؤ سے نجات مل جائے گی۔
اس سلسلے میں بینکوں کی جانب سے شہریوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے نرم شرائط پر ترجیحی سروسز فراہم کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو فوری پالیسی بنا کر اس کا اعلان کرنا چاہئے کہ آئندہ دس دن یا ایک مہینے کے اندر اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے شہریوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کہ ان کے پاس یہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کب اور کہاں سے آئی ہے بلکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کوئی شہری کتنی مالیت کی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ مقررہ مالیت سے زیادہ غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کم از کم پانچ ہزار ڈالرز یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد مقرر کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی فوری ضرورت کیلئے اتنا فارن ایکسچینج اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے تسلسل کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے والے ایکسپورٹرز، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین یا علاج کے لئے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے اہلخانہ کو اپنی فوری ضرورت کے پیش نظر درکار غیر ملکی کرنسی مقررہ حد کے مطابق اپنے پاس رکھنے کا قانونی استحقاق حاصل ہو جائے گا اور حکومت کے پاس جمع زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی کوئی بڑا دباؤ نہیں پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے فاریکس مارکیٹ میں جاری سٹے بازی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا بھی تدارک کیا جا سکے گا۔
Tumblr media
اس طرح نہ عالمی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ میں بہتری آئے گی، شہریوں کےبھی حکومت پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ بوقت ضرورت باآسانی بینکوں سے ڈالرز یا دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کر سکیں گے۔ یہ اقدام ملک میں مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے میں بھی معاون ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی کرنسی کیش میں بیرون ملک لیجانے یا بھیجنے سے نجات مل جائے گی اور وہ بینکنگ چینل کے ذریعے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھجوا سکیں گے۔ اگر ملک کے مفاد میں وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس ایک اقدام سے ہی ملک کے بہت سے مسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو گی جس سے پاکستان کو بیرون ملک سے خام مال اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے پر کم زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں جاری مہنگائی کی بلند شرح کو نیچے لایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھی برآمدات میں اضافے کے لئے سازگار ماحول میسر آئے گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرکے عالمی منڈی سے زیادہ ��رآمدی آرڈرز حاصل کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر آئے گا اور انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مارک اپ کی شرح کو بھی سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے سنجید ہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 24 فیصد کی بلند ترین شرح سود کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں انڈسٹری نہیں چلائی جا سکتی ہے بلکہ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے سے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے جہاں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کو بھی بحال ہونے میں لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مارک اپ کی شرح کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے روڈ میپ کا اعلان کیا جائے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور پاکستان سے جاری سرمائے کے انخلا کو روک کر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارک اپ میں اضافے کو عمومی طور پر افراط زر میں کمی کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ میں اضافے کی پالیسی نے ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
globalknock · 1 year
Text
پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے کا اضافہ
اسلام آباد: نگراں حکومت نے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے سے زائد اضافہ کردیا۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق آئندہ پندرہ روز کیلیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کا اطلاق رات بارہ بجے سے 30 ستمبر تک ہوگا۔ نوٹی فکیشن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 26 روپے دو پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.34 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ حالیہ اضافے کے بعد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
ملتان: پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ’ ٹرانسپورٹرز کی من مانیاں’ سبزی مزید مہنگی کردی گئی
http://dlvr.it/St4nF9
0 notes
ikarachitimes · 1 year
Text
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر 15 روز کے لیے کمی کا اعلان کردیا، پیٹرول کی قیمت 12 روپے کمی کے بعد 270 روپے فی لیٹر ہوگئی، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے کی کمی۔ وزارت خزانہ https://t.co/I8zjg2txo3
حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پر 15 روز کے لیے کمی کا اعلان کردیا، پیٹرول کی قیمت 12 روپے کمی کے بعد 270 روپے فی لیٹر ہوگئی، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے کی کمی۔ وزارت خزانہ https://t.co/I8zjg2txo3
— Karachi_Times (@Karachi_Times) May 15, 2023
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
1 note · View note
Text
عرب ممالک نے بھی روس سے سستے تیل کی خریداری شروع کردی
روس سے تیل، ایندھن خریداری مغربی اتحاد کی پالیسیوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف، امریکا۔ فوٹو: گیٹی واشنگٹن: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی عالمی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے روس سے سستا پٹرول خریدنے کا آغاز کردیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق یوکرین جنگ سے قبل روس سے پٹرول نہ خریدنے والے ممالک صدر پوٹن کے رعایتی نرخوں پر پٹرول کی فراہمی کے اعلان کے بعد سے روس سے پیٹرولیم مصنوعات خرید رہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 24 days
Text
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
وزیراعظم شہباز شریف کا عوام کو بڑا ریلیف، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔ وزارت خزانہ کے نوٹیکفیشن کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 1.86 روپے فی لیٹر کمی،پٹرول کی قیمت 260.96 روپے سے کم ہو کر 259.10 روپے ہوگئی۔ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3.32 روپے کمی،ڈیزل کی قیمت 266.07 روپے سے کم ہو کر 262.75 روپے ہو گئی۔مٹی کے تیل کی قیمت میں 2.15 روپے فی لیٹر کمی،مٹی کے تیل کی قیمت 171.77 روپے فی…
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
#PTI "عوام خاموش رہیںگے تو حکمران ظلم کرتے رہیں گے"
لاہور: پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے پیٹرولیم مصنوعات و گیس کی قیمتوں پر ہوشربا اضافے پر عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کردی۔ تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ قیمتیں ایسے بڑھائی جارہی ہیں جیسےکوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، حکومت کو عوام کی کوئی فکرہی نہیں ان کا مقصد صرف آئی ایم ایف شرائط پوری کرنا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جس قسم کی مہنگائی کردی گئی غریب تو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
یکم اکتوبر سے فی لٹر پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کمی کا امکان
یکم اکتوبر سے پٹرول کی قیمت میں کمی کا امکان ہے، پیٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ روپے کی قدر میں بہتری کے بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں میں کمی کا امکان ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 15 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر تک کمی کی تجویز ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 12 روپے ، مٹی کے تیل کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
حکومت آئی ایم ایف کے سامنے بے بس
Tumblr media
آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم کے حکومت کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے میں بیرونی فنانسنگ اور پاور سیکٹر خسارے پر تشویش پائی جاتی ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف، حکومت کو نہایت ٹف ٹائم دے رہی ہے اور حکومت کے پاس ان شرائط کو ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں آئی ایم ایف نے بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کا 4.9 فیصد رکھنے کا ہدف دیا ہے جبکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے رواں مالی سال بجٹ خسارہ 6.5 سے 7 فیصد تک جا سکتا ہے جس کیلئے آئی ایم ایف نے 900 ارب روپے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد بنتا ہے، خسارے کو کم کرنے کیلئے شرائط حکومت کو پیش کر دی ہیں جنہیں حکومت نے کافی حد تک مان لیا ہے جس میں ایکسپورٹ شعبے کو 110 ارب روپے کی بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کا نفاذ، پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں 855 ارب روپے کی وصولی کا ہدف دیا ہے جس کیلئے حکومت کو پیٹرول اور ڈیزل پر مجموعی 50 روپے فی لیٹر PDL لگانا ہو گا۔ آئی ایم ایف نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے 500 ارب روپے کے بجٹ خسارے، کسان پیکیج اور ٹیوب ویل سبسڈی کو مان لیا ہے لیکن آئی ایم ایف جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے پر آمادہ نہیں۔ 
اس کے علاوہ گردشی قرضوں میں نظرثانی ڈیٹ مینجمنٹ پلان کے ذریعے کمی اور حکومتی اخراجات میں 600 ارب روپے کی کمی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی خسارہ 400 سے 450 ارب روپے رہے جس کیلئے حکومت نے سگریٹ، مشروبات، جائیداد کے لین دین، بیرون ملک فضائی سفر پر ودہولڈنگ ٹیکسز، امیر طبقے، امپورٹس اور بینکنگ سیکٹر کے منافع پر سیلاب ٹیکس لگانے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس پر منی بجٹ کے ذریعے عملدرآمد متوقع ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 30 جون تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک لانا، امپورٹ پر عائد پابندیوں کا خاتمہ LCs کھولنے کیلئے 4 ارب ڈالر کی فراہمی اور بجلی گیس کے نرخوں میں 50 فیصد اضافے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو اس سال کا ریونیو ہدف 7470 ارب روپے دیا ہے جس کی ایف بی آر نے یقین دہانی کرائی ہے۔ ڈالر کے انخلا کو روکنے کیلئے اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر نے بیرون ملک سفر کرنے والے افراد کیلئے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی بیرون ملک لے جانے کی حد کم کر کے 5000 ڈالر فی وزٹ اور 30000 ڈالر سالانہ مقرر کر دی ہے۔ 
Tumblr media
اس وقت پاکستان کی معیشت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سیاسی عدم استحکام، مہنگائی یعنی افراط زر 32 فیصد، بیرونی ذخائر کم ہو کر 3 ارب ڈالر کی نچلی ترین سطح تک آجانا، ملکی ایکسپورٹس میں 18 فیصد، ترسیلات زر میں 10 فیصد، روشن ڈیجیٹل اکائونٹ (RDA) میں نومبر 2020ء سے مسلسل کمی، روپے کی قدر 20 فیصد کمی سے 277 سے 280 روپے تک پہنچ جانا اور موجودہ معاشی صورتحال میں ریونیو وصولی کے ہدف کو پورا کرنا ایک ٹاسک ہے جس سے ملک میں ایک معاشی بحران پیدا ہوا ہے۔ ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے امپورٹ پر پابندیاں لگا کر سپلائی چین متاثر ہوئی ہے جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اشیاء کی قیمتیں بڑھا کر اٹھا رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم نے ایک زرعی صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن ہم نے زراعت اور صنعت کے شعبوں کو نظر انداز کر کے آج ملک کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔ ہمیں دوبارہ پاکستان کی اصل طاقت زراعت کے شعبے کو ترجیح دینا ہو گی۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ پہلے جن زرعی اجناس میں ہم نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، آج ہم انہیں امپورٹ کر رہے ہیں جس کیلئے ہمارے پاس ڈالر نہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے اور ڈالر روپے کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے روکنے سے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں 30 روپے کے فرق کی وجہ سے 1.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر ہنڈی اور حوالہ سے بھیجی گئیں جس سے ملکی ترسیلات زر میں 1.5 ارب ڈالر کی کمی ہوئی جبکہ ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کے مدنظر برآمدات کی رقوم باہر روکنے سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر ایکسپورٹ کم ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام جاری رہتا تو تقریباً 3 ارب ڈالر کی کمی کو روکا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے ہمیں ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک سے ملنے والے فنڈز نہیں روکے جاتے اور دوست ممالک کے سافٹ ڈپازٹس کو رول اوور کرنے کیلئے آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی شرط نہ لگائی جاتی۔ 
قارئین! آئی ایم ایف کے معاہدے سے مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا جس کا مقابلہ کرنا غریب آدمی کیلئے نہایت مشکل ہو گا لیکن اگر حکومت آئی ایم ایف کی مطلوبہ اصلاحات کے ذریعے اپنی معیشت کو دستاویزی شکل دے کر اور جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے پہلے مرحلے میں موجودہ 10 فیصد سے 15 فیصد تک لے آتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ غریب ��وام کی قربانیوں کے پیش نظر اگر ہم ملک میں کرپشن کے خاتمے، گڈ گورننس، شاہ خرچیوں اور پرتعیش اشیاء کی امپورٹ پر پابندی اور آمدنی کے مطابق حکومتی اخراجات میں کمی سے مستقبل میں پاکستان کو بار بار ہاتھ پھیلانے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ آج 75 سالوں کے بعد جب ہمارے علاقائی ممالک دنیا میں معاشی رینکنگ میں تیزی سے اوپر جارہے ہیں، ہم ڈیل یا ڈیفالٹ کی باتیں کررہے ہیں۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر بھی مہنگا، نوٹیفکیشن جاری
اسلام آباد : پیٹرولیم مصنوعات اور سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اب ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر مزید27روپے مہنگا کردیا گیا۔ اس حوالےسے اوگرا نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جس کے مطابق گھریلو سلنڈرپر سیلز ٹیکس17سے بڑھا کر18فیصد کردیا گیا ہے،نوٹیفکیشن کے مطابق ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی نئی قیمت کا اطلاق آج سے ہوگیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سیلزٹیکس میں اضافے کے بعد ایل پی جی فی کلو قیمت3روپے21بڑھا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnabannu · 1 year
Text
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سےمتعلق وزارت خزانہ کی اہم وضاحت
http://dlvr.it/Sls3QM
0 notes