کرسمس کا جشن: 12 ماہ 2022 کا ٹپ بہت قریب ہوسکتا ہے۔ وہیں اس 12 ماہ کی کرسمس کے آخری دن یعنی 25 دسمبر کو دنیا بھر میں ہر طرف جوش و خروش کا عالم تھا۔ یہی نہیں بالی ووڈ ستاروں نے بھی کرسمس اپنے انداز میں منایا۔ ان میں کترینہ کیف، عالیہ بھٹ اور انوشکا شرما کے ساتھ کئی ستارے شامل ہیں۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ کے پسندیدہ مشہور شخصیات نے کرسمس کا جشن کیسے منایا۔
عالیہ بھٹ کرسمس کا جشن
عالیہ بھٹ نے…
امریکہ کو20سال سے مطلوب مجرم میکسسکو میں پولیس افسر نکلا۔
تفصیلات کے مطابق مجرم انتونیو20سال سے امریکہ کو فائرنگ واقعہ میں مطلوب تھا۔اب حقیقت کھلنے پربطور پولیس افسر پکڑاگیا۔
مجرم کا 2004میں کرسمس پر ایک 25 سالہ شخص کے ساتھ جھگڑا ہوا، دونوں جھگڑتے ہوئے بار سے باہر نکلے جہاں انتونیو نے اس شخص کو چہرے پر گولی مار کر مارڈالاتھاجس کی فوٹیج ریکارڈ کرلی گئی تھی۔
اقعے کے بعد قتل کا مجرم امریکا سے فرار…
ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے پورے خاندان کا خاتمہ کر دیا
میری نسل کے لوگوں نے ٹیلی ویژن پر پہلی جنگ تب دیکھی تھی جب سنہ 1990 میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ بغداد پر بموں کی بارش شروع ہوئی تو دنیا کے پہلے عالمی نیوز چینل نے لائیو دکھایا اور غالباً ہیڈلائن اسی طرح کی تھی کہ ’بغداد کا آسمان بمباری سے جگمگا اٹھا ہے‘۔ خبریں پڑھنے والے نے ہیڈلائن کچھ اس طرح پڑھی تھی جیسے فٹ بال میچوں پر کمنٹری کرنے والے جوش میں آ کر کسی گول کا منظر بیان کرتے ہیں۔ اسی دن سے عالمی جنگیں ہمارے گھروں میں گھس آئی ہیں۔ آپ کسی بھی دن، رات کے کھانے کے وقت ٹی وی لگائیں تو دنیا میں کہیں نہ کہیں کسی شہر کا آسمان بمباری سے جگمگا رہا ہو گا اور گورے صحافیوں کو اس شہر کا درست نام لینا کبھی نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ لائیو کوریج اور میڈیا جنگ کا لازمی حصہ بن گئے جس طرح کسی زمانے فوج کے ساتھ طبل اور نقارے بجانے والے چلتے تھے، جو اپنی سپاہ کا خون گرماتے تھے۔ اسی طرح نیویارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جرنل جیسے اخبارات کے مدبر صحافی پہلے جنگ کا جواز سمجھاتے تھے پھر الیکٹرانک میڈیا میں ان کے بھائی بہن حملہ آور فوجوں کے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں میں بیٹھ کر جنگ کی کوریج کے لیے پہنچ جاتے تھے۔
ان جنگوں میں بندوق کی نالی اور ان کی آنکھ دشمن کو ایک ہی نظر سے دیکھتے تھے۔ جب ہنستی بستی آبادیاں تباہ کر دی جاتیں اور لوگ اپنے گھروں کے ملبوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اور کھانے کے برتن ڈھونڈ رہے ہوتے تو مغرب سے مغربی ضمیر کے رحم دل دستے سوکھا راشن اور بچوں کے کھلونے لے کر پہنچ جاتے۔ ان کے امدادی ٹرکوں پر بھی کیمرے والے صحافی موجود ہوتے جو راشن کے لیے اٹھے ہاتھوں اور بے کس چہروں کی تصویریں دنیا تک پہنچاتے اور داد پاتے۔ جدید جنگ تقریباً ایک مکمل سا پیکج بن گئی تھی جس میں اسلحے کا کاروبار بھی خوب پھلتا پھولتا اور جنگ زدہ لوگوں کے لیے خیموں اور کمبلوں کی مانگ بھی ہمیشہ ضرور رہتی۔ جن کو ازلی خون کی پیاس تھی انھیں بھی خوراک مل جاتی اور جن کے دل انسانیت سے بھرپور تھے ان کا دھندہ بھی چلتا رہتا۔ پہلے آسمانوں سے بمباری، پھر بستیاں روندتے ہوئے ٹینک، اس کے بعد جنگ بندی کے مطالبے اور پھر امدادی ٹرکوں کے قافلے۔ اسلحے کی فیکٹریاں بھی تین شفٹوں میں چلتیں اور انسانی ہمدری سے لبریز مغربی ضمیر کی دیہاڑیاں بھی لگتی رہتیں۔
جب اسرائیل نے غزہ پر وحشت ناک بمباری شروع کی (اور چونکہ ایڈیٹوریل گائیڈ لائن کی ضرورت ہے اس لیے بتاتے چلیں کہ یہ لڑائی سات اکتوبر کے حماس حملوس سے شروع نہیں ہوئی 70 سال پہلے شروع ہوئی تھی) تو موسمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی خیال تھا کہ امریکہ اور اس کی باقی نام نہاد برادری چند دن اسرائیل کو کھلا ہاتھ دے گی، ایک کے بدلے دس مارو، اگر کسی نے غزہ میں گھر، سکول، ہسپتال، میوزیم بنا لیا ہے تو اسے نیست و نابود کر دو۔ بچے مریں گے مارو لیکن پھر مغربی ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہو گا اور کہے گا ہم نے بہت ہزار بچوں کی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اب یہ کام بند کرو۔ لیکن مغربی ضمیر کی گنتی ابھی پوری نہیں ہوئی۔ ہم تک ننھے بچوں کی تصویریں اور کہانیاں دنیا تک پہنچانے والے 70 صحافی بھی مار دیے ہیں۔ ان میں سے کئی پورے خاندان کے ساتھ۔ لیکن مغربی ضمیر اسرائیل سے صرف یہ کہلوا سکا ہے کہ ہم نے غلط بم مار دیا۔ چند دن پہلے کرسمس منایا گیا، دنیا میں سب سے زیادہ آبادی حضرت عیسٰی کے پیروکاروں کی ہے۔
حضرت عیسیٰ بھی فلسطینی ہیں لیکن مغرب نے انھیں گورا، نیلی آنکھوں اور سنہری بالوں والا بنا لیا۔ ان کی جائے پیدائش بیت اللحم ہے، وہاں بھی اسرائیل کئی دفعہ گولے چلا چکا ہے۔ اس مرتبہ کرسمس پر وہاں حضرت عیسیٰ کے بچپن کے مجسمے کو ایک ملبے کے ڈھیر میں پڑا ہوا دکھایا گیا اور محترم پادری منتھر آئزیک نے اپنے کرسمس کے خطبے میں فرمایا: ’اور آج کے بعد ہمارا کوئی یورپی دوست ہمیں انسانی حقوق یا عالمی قانون پر لیکچر نہ دے کیونکہ ہم گورے نہیں ہیں اور تمہاری اپنی ہی منطق کے مطابق انسانی حقوق اور عالمی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتے۔‘
روس اور بھارت نے نئے عالمی نظام کے قیام پر اتفاق کر لیا، برطانوی اخبار کا دعویٰ
روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات پر مغربی ممالک میں بھارت کے خلاف شدید تشویش پائی جاتی ہے، برطانوی اخبار کا دعویٰ ہے کہ بھارت روس کے عزائم کی توثیق کر رہا ہے۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق کرسمس پر میٹنگ میں بھارتی اور روسی وزراء خارجہ میں ایک غیر معمولی ڈیل ہوئی ہے، ملاقات میں ایک نئے عالمی نظام کے قیام پر بھارت اور روس نے اتفاق کیا ہے۔
برطانوی اخبار کے مطابق بھارتی اور روسی وزرائے خارجہ نے میٹنگ کے…
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور فون نمبر:99201390
ہینڈ آؤٹ نمبر1514
وزیراعلیٰ محسن نقوی کی صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت،کیک کاٹا،بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی کو پھول پیش کئے
مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں:محسن نقوی
ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں، نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک، ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے
جب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے،ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے
مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے،ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے
لاہور24دسمبر:وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے صوبائی وزراء کے ہمراہ کرسمس کی مناسبت سے مسیحی برادری کی خوشیوں میں شرکت کیلئے کتھیڈرل چرچ میں دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔بشپ آف لاہور بشپ ندیم کامران نے وزیر اعلی محسن نقوی کو پھول پیش کئے۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کے ساتھ ملکر کرسمس کا کیک کاٹا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بشپ آف لاہوربشپ ندیم کامران نے انجیل اورحضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ سے لکھی زبور کا نمونہ پیش کیا۔وزیراعلیٰ محسن نقوی نے مسیحی برداری کو کرسمس کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری کو کرسمس کی دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں - آج کا رات اورکل کا دن ہم سب کے لئے انتہائی اہم ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف آپ کے ہی نہیں ہمارے بھی ہیں۔حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت پر اتنی ہی خوشی ہمیں ہے جتنی آپ کو۔ہم سب میں جو مشترکہ بات ہے کہ وہ ہم ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ہم بھی اسی خدا کی عبادت کرتے ہیں جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں۔ نبی پاکؐ سے لیکر قائداعظمؒ تک،اسلام کی شروعات سے لیکر پاکستان بننے تک ہمیں مسیحی بھائیوں کے حقوق اچھی طرح بتائے گئے۔انہوں نے کہا کہجب مسیحی بھائیوں کے حقو ق سلب ہوتے ہیں تو شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم نے نبی پاکؐ کے درس کو بھلا دیا ہے۔ہمار اپاکستان مسیحی بھائیوں کے بغیر نامکمل ہے۔پاکستانی جھنڈے میں سبز رنگ مسلمانوں کے جبکہ سفید رنگ اقلیتوں برادریوں کیلئے ہے۔انہوں نے کہا کہ جڑانوالہ واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔جڑانوالہ واقعہ کے نتیجہ میں متاثرہ گرجا گھروں اورگھروں کو بحال کیا ہے،متاثرین کی دادرسی کی ہے اور ہمارے جذبات متاثرین کے ساتھ ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر ممکن کوشش ہے کہ جڑانوالہ واقعہ یا ایسے کسی بھی واقعہ کے مرتکب افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیرآزاد ملک کے اتحاد کیلئے بہت کام کررہے ہیں۔بشپ ندیم کامران اورمولانا عبدالخبیر آزاد جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ مسیحی بھائیوں کو سکیورٹی فراہم کرنا ہمار افرض ہے۔ پورے پنجاب میں انتظامیہ اور پولیس فول پروف سکیورٹی دینے کیلئے سرگرم ہے۔ ضلعی سطح پر کرسمس کی تقاریب منعقد کی جارہی ہیں۔ہمیں صرف کسی سانحہ پر نہیں بلکہ پورا سال اتحاد کے ساتھ رہنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کا تحفظ کرنا ہمارا دینی اورآئینی فرض ہے۔صوبائی وزیر اوقاف اظفر علی ناصر،انسپکٹرجنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔تقریب میں صوبائی وزراء منصور قادر،عامر میر،اظفر علی ناصر،بلال افضل،مشیر وہاب ریاض،انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، کمشنر لاہورڈویژن،سی سی پی او،سیکرٹری انسانی حقوق و اقلیتی امور، سیکرٹری اوقاف،سیکرٹری اطلاعات،ڈپٹی کمشنر اورمسیحی برادری کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔
اس وقت یہ طے کرنا مشکل ہے کہ بھان متی سرکار کے لیے سب سے بڑا چیلنج کون ہے؟ خود یہ سرکار؟ بیک روم بوائز؟ عمران خان؟ عدلیہ؟ یا پھر آئی ایم ایف؟ سرکار کے اندرونی اختلافات سلٹانا نبستاً آسان ہے کیونکہ بھلے کوئی کسی کو کتنا بھی ناپسند کرے مگر اس وقت ساتھ جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ بیک روم بوائز کو بھی ہاتھ پاؤں جوڑ کے سمجھایا جا سکتا ہے کہ مانا آپ عقلِ کل ہیں۔ پھر بھی ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور ہمیں بھی اپنی سائنس لڑانے کا تھوڑا موقع دیں۔ عمران خان کو بھی یکے بعد دیگرے مقدمات کی رسی میں باندھ کے وقتی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ عدلیہ کو بھی بات چیت کی فلم دکھا کے، قانون سازی کی کرتب بازی، بال کی کھال اتارنے کے فن اور آئینی شوربہ پتلا کر کے مصروف رکھتے ہوئے تھوڑی بہت مہلت کمائی جا سکتی ہے۔ مگر آئی ایم ایف کا کیا کریں؟ ایک ایسا بین الاقوامی کلرک جو سائل کو چکر پر چکر لگوا رہا بے، بار بار کسی نہ کسی جملے پر لال دائرہ لگا کے درخواست ٹائپ پر ٹائپ کروا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک سوال پوچھ رہا ہے، کاغذ پر کاغذ طلب رہا ہے، دستخط سے دستخط ملا رہا ہے۔
کتنا ٹیکس دیتے ہو؟ آخری بار پراپرٹی ٹیکس کب دیا تھا، بجلی پانی گیس کا بل کہاں ہے جس پر تمہارا نام اور ایڈریس بھی ہو۔ آخری ٹیکس گوشوارے کب بھرے تھے، ان کی رسیدیں کہاں ہیں؟ پوری کیوں نہیں؟ دو کم کیوں ہیں؟ کیا کہا بچے نے پھاڑ دیں؟ بچوں کی پہنچ سے دور کیوں نہیں رکھتے؟ اس ہفتے تو مشکل ہے۔ اگلے ہفتے پھر چکر لگا لو۔ چلو اب کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آنا، اب میری سالانہ چھٹیاں شروع ہیں بعد میں فائل دیکھیں گے، اگلی بار آؤ تو فائلوں کے تین سیٹ بنوا کر لانا۔ پچھلی بار اوتھ کمشنر کی آدھی مہر لگی تھی۔ اس بار دستخطوں کے نیچے پورا ٹھپہ ہونا چاہیے۔ ہر کاغذ پر مجسٹریٹ درجہ ِاول کے تصدیقی سائن کروانا مت بھولنا ورنہ صاحب لوگ میٹنگ میں فائل منہ پر دے ماریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ کسی گرگ ِباران دیدہ کرمچاری کی طرح تمام شرائط یک مشت بتانے کے بجائے ایک ایک کر کے بتا اور ہنپا رہا ہے۔ بس چلے تو کمینے کا گھلا گھونٹ دیں، پر اکڑنے کے لیے پلے بھی تو کچھ ہو۔
آئی ایم ایف بھی جانتا ہے کہ پاکستان نے 70 برس میں دو درجن سے زائد قرض پروگرام خریدے مگر سوائے ایک کے کوئی فنڈنگ پروگرام پورا نہیں کیا۔ پیسے ٹریکٹر خریدنے کے نام پر لیے مگر ان پیسوں سے تائی اماں کو جیولری بنوا کے دے دی۔ گھر بنانے کے لیے لون لیا اور اس لون کو کسی ڈبل شاہ کے حوالے کر دیا۔ دوست بھی کب تک ساتھ دیں اور کتنا؟ سب جان چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مقدس کتاب پے قسمیہ ہاتھ دھر کے پیسہ تو لے لیتی ہے مگر قرض کو آمدنی شمار کرتی ہے۔ اگر کوئی گریبان پے ہاتھ ڈال دے یا گالم گلوچ پر اتر آئے تو کسی اور پارٹی سے ادھار پکڑ کے گھر کے سامنے بیٹھے قرضئی کو قسط دے کر وقتی گلو خلاصی کروا لیتی ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی یہی کیا۔ مسکین صورت بنا کے آئی ایم ایف سے پیسے لیے اور پھر سستے پٹرول سے ان پیسوں کو آگ لگا کے وقتی چراغاں کر کے رخصت ہوئی۔ موجودہ حکومت لاکھ روئے پیٹے کہ پچھلوں کی سزا ہمیں کیوں دے رہے ہو مگر آئی ایم ایف اس لیے بہرا بنا بیٹھا ہے کیونکہ وہ کسی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو جانتا ہے کہ جس کے نام پر قرضے لے لے کے مجرے پر اڑائے جاتے رہے۔
اوپر سے ہمارے وزرا بھی پیٹ کے ہلکے اور بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنے کے عادی ہیں۔ ابھی پیسے ملے نہیں کہ پیشگی شور مچا دیا کہ جیسے ہی آئی ایم ایف کی قسط آتی ہے عوام کو الیکشن سے پہلے ٹھیک ٹھاک ریلیف دے دیں گے تاکہ الیکشن میں کچھ ووٹ بڑھ سکیں۔ یہ امید دلانے والے ایک بار پھر بھول گئے کہ آئی ایم ایف کا قرضہ کسی پی ڈی ایم یا پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ ریاست کو ملتا ہے اور آئی ایم ایف حلوائی کی دوکان نہیں کہ ہر بار اس پے جا کے دادا جی کی فاتحہ دلوائی جائے۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی اردو اور پنجابی سیکھ لی ہے۔ غالباً اس کے کارندے پارلیمانی و جلسہ گاہی شعلہ بیانی کی بھی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی یا کورٹ نمبر ون کے سمن سے ماورا ہیں، لہٰذا ایسے خشک بے مروت اور سپاٹ چہرے والے ادارے سے بے وقت کا مذاق بھی نہیں بنتا۔ پٹڑی سے اترا ایک جملہ کروڑوں ڈالر میں پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ آئی ایم ایف نے اب اگلے بجٹ کا خاکہ طلب کر کے ’انتخابی بجٹ‘ دینے کی سرکاری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اوپر سے 30 جون تک پاکستان کو بیرونی قرضے کی قسط کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساڑھے چھ ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے دو اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی جو دو آخری قسطیں پاکستان کو ملنی تھیں، وہ کہیں مالیاتی تفتیش میں اٹک کے رہ گئیں اور موجودہ آئی ایم ایف پروگرام بھی 30 جون کو ختم ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیا سالانہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی کڑی نگرانی میں بنانا ہو گا بصورتِ دیگر پاکستان کے لیے اگلے فنڈنگ پروگرام کی منظوری میں موجودہ پروگرام سے بھی کہیں زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب پاکستان کو متبادل کے طور پر دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے فنڈز میں سے ہر سال خدمات بجا لانے کے عوض چند ارب ڈالر کا سہارا مل جاتا تھا تاکہ اشرافی اللّوں تللّوں کو سہارا دینے والا معاشی ڈھانچہ جیسے تیسے کھڑا رہے۔ اب نہ وہ امریکہ رہا جو آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے کہہ دیتا تھا کہ ’برخوردار پر ذرا ہاتھ ہولا رکھو۔ بچے کی جان لو گے کیا۔‘ امریکہ آئی ایم ایف کو سب سے زیادہ فنڈز (ساڑھے سولہ فیصد) دان کرتا ہے اور اس کا قرض لینے کا کوٹہ بھی سب سے ذیادہ ( پونے اٹھارہ فیصد ) ہے۔
امریکہ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ علی الترتیب جاپان، چین، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے ہیں۔ آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنرز میں انڈیا کے ووٹ دو اعشاریہ تریسٹھ جبکہ پاکستان کے ووٹ صفر اعشاریہ تینتالیس اور قرضہ لینے کا کوٹا بھی اتنا ہی ہے۔ آج تک آئی ایم ایف کے جتنے بھی ( بارہ ) مینیجنگ ڈائریکٹر نامزد ہوئے ان میں سے ایک بھی غیر یورپی نہیں۔ اسی طرح عالمی بینک میں سب بڑا شئیر ہولڈر امریکہ ہے ( سوا سترہ فیصد)۔ عالمی بینک کے پہلے صدر یوجین مائر سے لے کے موجودہ صدر سردار اجے بنگا تک چودہ میں سے تیرہ صدر امریکی شہری تھے۔ صرف ایک صدر جم یونگ کم ( دو ہزار بارہ تا انیس ) کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔ چین اور امریکہ کے روز بروز بڑھتے مناقشے میں پاکستان نے بالاخر چینی کیمپ پوری طرح سے چن لیا ہے اور یہ خبر ہم تک پہنچنے سے بہت پہلے بین الاقوامی مالیاتی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس آخر خود کو کتنا اور کب تک بچا سکتی ہے ؟
کرسمس 2022: ‘کرسمس’ کا مقابلہ واپس آنے والا ہے۔ ہر جگہ ‘کرسمس’ کی رونق دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہر مقابلے کا رنگ سینما میں اتنے ہی موثر انداز میں دیکھا جاتا ہے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میگا اسٹار چرنجیوی کے گھر کے ہر فرد نے ‘کرسمس’ منایا، جس کی فوٹیج سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ اس تصویر میں میگا گھر کے نوجوان اور سینما ستارے خفیہ تفریح میں حصہ لیتے نظر آ رہے ہیں۔
رام چرن نے تصویر شیئر…
’ملکہ کو مارنے آیا ہوں‘ برطانوی محل میں داخل ہونے والے سکھ نوجوان کو سزا سنانے کی تاریخ مقرر
لندن: برطانوی محل میں ملکہ کو قتل کے ارادے کے ساتھ تیر کمان کے ساتھ داخل ہونے والے سکھ نوجوان جسونت سنگھ نے غداری کا الزام قبول کر لیا، انھیں 31 مارچ کو سزا سنائی جائے گی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق 2021 میں کرسمس کے دن ونڈسر کاسل میں گھسنے والے مسلح نوجوان جسونت سنگھ چَیل نے اعتراف جرم کر لیا ہے، ان پر غداری کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جسے انھوں نے قبول کر لیا ہے۔
21 سالہ جسونت سنگھ نے اولڈ بیلی کی…
کرسمس اور نیو ایئر نائٹ کے لیے شراب فروشی عروج پر، ہوٹلز نے موبائل شاپس بنا لیں، فارم ہاؤسز اور ڈانسرز کی بکنگ
کرسمس اور نیو ایئر قریب آتے ہی محکمہ ایکسائز نے شراب کی فروخت پر کنٹرول سخت کردیا، ہوٹلوں نے بھی بار بند کر کے موبائل شاپ؛س قائم کرلیں، محکمہ ایکسائز اور شراب فروشوں کی اس آنکھ مچولی میں شراب کے ریٹ بھی بڑھ گئے۔
لاہور کے فائیو سٹار ہوٹلز کی بارز لائسنس یافتہ ہیں اور پرمٹ ہولڈرز کے ساتھ ساتھ غیرملکی مہمانوں کو شراب سرو کرتی ہیں لیکن ان ہوٹلز سے عام شہری بھی خریداری کرتے ہیں۔
لائسنس کی اس کھلی خلاف…