عشق_اور_حوس
شادی کے دو ماہ بعد میرے میاں تو فارن اپنی جاب پرچلے گئے ۔ اور میں ساس اور سُسرکے
ساتھ رہ گئی ۔ ہم ایک گراں، گاؤں یعنی پنڈ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اک دوجے
کو جانتا ہے ۔ بڑے شہروں میں تو ہمسائے کو بھی کوئی نہیں جانتا مگر پنڈ میں ایسا نہیں ہوتا
میرے میکے اور سسرالی سارے رشتہ دار تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رہتے ہیں کئی کی تو
دیواریں بھی ایک ہیں ۔ دائیں طرف میری پھوپھی کا گھر تھا بائیں طرف میرے دیور کا
اسی طرح دائیں طرف تین گھر چھوڑ کر ایک بند گلی تھی جس میں میری نند رہتی تھی
أس گلی میں صرف تین گھر تھے ایک میری نند کا ایک اس کے جٹیھ کا اور ان کے سامنے
میری نند کے ساس سسر رہتے تھے وہ گلی میری نند کی سسرال کی ہی سمجھ لیں ۔ تفصیل
اس لئے دی ہے کہ جو واقعہ میں آپ لوگوں سے شئیر کرنے جا رہی ہوں وہ میری نند کے
جیٹھ کے متعلق ہے جو رنڈوا تھا شاھد 28سال سے زیادہ کا تھا ۔سب أسے چاچو کہتے تھے ۔ بلا کا نظرباز تھا اور کافی بدنام تھا ۔ رنڈوا تھا بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی اس نے نہیں کی تھی اور گھرمیں اکیلا رہتا تھا ۔ لوگوں میں اسکے بارے مشہور تھا کہ وہ عورتوں کی جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور ان سے کماتا ہے مگر یقین سے کوئی ایسا نہیں کہ سکتا تھا افواہیں سمجھی جاتی تھیں ۔ میں اکثر اپنی نند کے گھر جاتی تھی کیونکہ ایک تو وہ صرف چند سال بڑی تھی اور ہماری ایک دوجے سے خوب بنتی تھی دوسرا میری ساس ار سُسر بھی خوش رہتے کہ ان کی بیٹی سے اچھی بنارکھی ہے نند کے گھر سے پہلے اس کے جیٹھ کا گھر تھا اور وہ ہمیشہ دروازہ کھول کے اپنی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ میں جب بھی نند کے ہاں جاتی اس کے گھر کے آگے سے گذرنا ہوتا اور وہ فورا أٹھ کر دروازے پر آجاتا تو حال احوال پوچھنے لگتا
کے حال نیں ، ول تے آہو ناں
میں ۔
شاھد تُسی دسو
وہ ۔ کوئی خط سط وی آوندا نیں کہ اوتھے دل لا گدا نیں
نہ بھی خط آیا ہوتا تو یہی کہتی کہ ایہ کل پرسوں آیا تے چاچو تساں کی سلام لکھیا نیں
وہ۔ ہلا ، تُو جواب دتا تے مینڈا وی لکھیناس ‘ جی چاچو کہہ کے آگے نند کے دروازے کی
طرف بڑھتی ۔ مجھے جن نظروں سے وہ دیکھتا اس میں ہوس صاف ظاھر ہوتی ۔ مرد کی نظر عورت پہچان جاتی ہے کہ وہ کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ میں آگے نند کے گھر کی جانب بڑھتی تو اس کی میلی نظروں کی حدت کولہوں اور کمر پر محسوس کرتی ۔ وہ تب تک دروازے سے جھانکتا رہتا جب تک میں نند کے گھر میں داخل نہ ہوجاتی ۔ خیر ۔ میں اس کو روزمرہ کی روٹین سمجھ کر نظر انداز کر دیتی ۔
اردو اور پشتو کی خاص کہانیاں گروپ کی شاندار کہانی شاندار محفل
میرے میاں کو جب چھ ماہ سے زیادہ ہوگئے تو دن بدن میری فطری خواہش بڑھنا شروع ہوگئی اورعورت ہی جانتی ہے کہ مرد پاس نہ ہو تو کیسا عذاب جھیلتی ہےعورت ۔ چاچو عورت کے بارے کافی کُچھ معلومات رکھتا تھا اور اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ایک دن نند کےگھر جاتے ہوئے أسے درازے پر کھڑا دیکھا تو میں نے اسے سلام بولا تو چاچو نے کہا
سیمو تھکی تھکی وی دسدی ایں خیر کوئی گل نہیں چار پنج دناں بعد تھکاوٹ وی أتر جانی
۔ اس دن مجھے پیریڈ شروع ہوئے دوسرا دن تھا اور اس کو میرا چہرہ دیکھ کے اندازہ ہو گیا ۔
جب کبھی میں ہارنی ہوتی تو نظروں میں نظریں ڈال کے کہہ دیتا کہ سیمو تے بڑی اوکھی اوکھی پئی دسنی اے تے سجن ماہی وی ُدور ۔ میں بات کو ٹال کے آگے بڑھ جاتی ۔ اسی طرح.یہ انٹرٹینمنٹ رومانٹک ناول خاص لوگ گروپ کے لیئے لکھی گئی.
چلتا رہتا ۔ وہ چونکہ اکیلا رہتا تھا خود تو گھریر کبھی کبھارہی پکاتا اور کھاتا سامنے کے گھر میں چونکہ اس کے والدین رہتےتھے تو ان کے پاس اورکبھی کبھار میری نند کے ہاں بھی
کھالیتا جس طرح عام طور پر ہوتا ہے کوئی اچھی ڈش بنائی جائے تو قریبی اور آس پاس
کے گھروں میں بھی شئیر کرتے ہیں اسی طرح ہم کوئی سپیشل ڈش وغیرہ بناتے تو چاچو
کو ضرور دیتے ۔ یعنی ہم سب گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ اچھی بنا کر رکھتے۔ اور عزیز
واقارب بھی قریب ہی رہتے مگر میرے ساس ُسسر اپنی بیٹی میری نند کی وجہ سے اس کی
سسرال کاخاص خیال رکھتے ۔ اور مجھے اپنی سُسرال کی خوشنودگی عزیز تھی ۔ ایک روز
مجھے خیال آیا کہ میں نے ٹانگوں کے بال کافی عرصہ سے صاف نہیں کئے جن کے خاوند
پاس ہوں تو باقاعدگی سے کرتی ہیں مگر پردیس گئے پیا کی پیاری سُستی کرجاتی ہے ۔
خیرمیں نے اچھی صفائی کی اور نہا دھو کر اک نواں جوڑا لا کے اپنی نند کے ہاں گئی۔ ہمارے گاؤں میں ان دنوں پردہ وغیرہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ایک ہی برادری کے تھے ہم عورتیں اگر شہر جاتیں تو بُرقعہ لے لیتی تھیں خیر حسب معمول چاچو دروازے پر آگئے اور حال احوال پوچھا اور باتوں ہی باتوں میں کہنے لگے کہ سیمو کوئی عجیب جیہی مشک پی آوندی اے
میں نے کہا پتہ نہیں مجھے تو نہیں آرہی پھر مجھے خیال آیا سیمو مرجانی ایہ تے بال صفا
پوڈر کی بات کر رہا ہے میں تو ہکا بکا رہ گئی اور اس نے بات کو بدل دیا اور میرے نئے جوڑے کی آڑ میں میری تعریف کرنے لگے میں جلدی سے آگے نند کے گھر چلی گئی ۔ مگر میں کافی نروس بھی تھی اور چاچو کی بات سے کافی شرمندہ شرمندہ بھی اور خجالت محسوس کرنے لگی ، کچھ دیر بیٹھ کے اپنے گھر کو لوٹی تو چاچو دروازے پر ہی اٹکا ہوا تھا
جیسے میرا ہی انتظار کر رہا ہو کہنے لگا نظر بد دُور اج اپنی نظر ضرور اتارنا
میں نے کہا چاچو تسُی وی جو منہ اؤندہ کہہ دیندے او اور جلدی جلدی قدم بڑھا کر گھر آگئی
شام کو میری ساس نے کہا کہ اج تے گُڑ آلے چاولاں تے دل کردا پیا ، میں نے شام کو
گُڑ کے چاول یعنی میٹھے چاول پکائے اور اپنی نند کو دینے گئی تو چاچو جو کہ میری
نند کا جیٹھ لگتا تھا بھی ان کے گھر ہی کھانا کھا رہا تھا وہ کہنے لگا سیمو گُڑا الے چاول
تے مینو وی بڑے چنگے لگدے آ میں کہیا چنگا چاچو تساں وی دے ویساں ۔ گھر آکر کھانا
کھایا اورسریوں کے دن تھے بہت چھوٹے اور لمبی راتیں میرے ساس اور سُسر کھانے سے پہلے ہی عشاء کی نماز سےفارغ ہوگئے تھے اور اپے کمرےمیں چلے گئے تھے ۔ برتن رکھتے ہوئے مجھے یاد آیا چاچو کو تو چاول بھی دینے تھے ۔ اگرچہ اتنی زیادہ دیر نہیں ہوئی تٓھی مگر پنڈ میں تو مغرب کے بعد ہی سُناٹا ہوجاتا ہے میں نےسوچا چاچو کونسا سو گیا
ہوگا اسے چاول دے ہی آؤں ۔ میں نے سردی سے بجنے کےلئے شال لی اور مٹھےچاول چاچو کو دینے گئی ۔ گھر سے نکل کر مجھے خیال آیا ایک تو چاچو چھڑا چھانڈ اور پھر بدنام بھی
اور اگر اس وقت کسی نے اس کے دروازے پر کسی نے دیکھ لیا تو سیمو تیرے پلے کجھ وی
نہیں رہنا ۔ سوچا واپس جاؤں اور کل دن میں اسے چاول دے دونگی مگر پھر خیال آیا
کہ میں نے کونسا وہاں رکنا ہے اور گلی میں تین ہی گھر ہیں وہ بھی اپنے ہی کسی نے
پوچھا تو بول دونگی چاول دینے آئی ہوں اور چاچو کو اپنی نند کے سامنے میں نے بولا تھا
کہ دے جاؤں گی چول ۔ ہم چاول نہیں کہتے چول کہتے ہیں یہی سوچ کر چاچو کے دروازے
پر پہنچ گئی
چاچو کا دروازہ ناک کرنے ہپلے سے میں نے چیک کیا ، دروزاہ کھلا ہوا تھا ۔ آگے
ڈیوڑھی میں اندھیرا گُھپ ، میں نے چاچو کو دو تین بار آستہ آہستہ چاچو کہہ کر بلایا
مگر چاچو شاید اندرکمرے میں اور وہاں تک جانے کے صحن سے گذرنا پڑتا تھا ۔ اک
کمرے میں لالٹین کی روشنی کھڑکی کی درزوں سے جھانک رہی تھی میں نے آہستہ
آہستہ دروازہ ناک کیا تو چاچو کی آواز آئی ’ دروازہ کھلا سیمو اندر لنگ آ‘ میں حیران
ہوئی کہ چاچو کو کیسے پتہ چلا کہ میں دروازے پر ہوں اتنے تک چاچو دروازے پر تھا
بولا ’’کہ میں تمہارے چاولوں کی انتظار میں تھا ‘‘ میں نے پلیٹ چاچو کے ہاتھ میں دی
اور جانے کے لئے مُڑی کہ چاچو نے کہا ٹہر سیمو میں رسوئی میں چاول رکھ کر پلیٹ
تمہیں دیتا ہوں پہلے والے برتن بھی کافی اکٹھے ہوئے پڑے ہیں ، میں بھی ساتھ چلنے لگی
تو چاچو نے کہا تم رکو میں آتا ہوں اتنے میں چاچو جلدی سے کمرے سے جلا گیا اور
تھوڑی دیر میں واپس تو برتن اس کے ہاتھ میں نہیں تھے ۔
چاچو نے کہا ہاں سنا سیمو کوئی خط سط ، میں کہیا دیر ہوگئی میں صبح ہی برتن
لے لاں گی ۔ اور دروازے کی طرف بڑھی اس سے پہلے کہ میں دروازے سے نکلتی
چاچو نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور گلے لگانے کی کوشش کی ، مجھے بڑا غصہ
آیا اور میں نے جھٹکے سے بازو چھڑایا اور بولی چاچو تینو اینی جراءات کس طرح ہوئی
مجھےچاچو کی خراب نیت کا تو اندازہ تھا مگر مجھے یقین تھا کہ چاچو ایسی بے غیرتی نہیں
کرسکتا ۔ اب میں بے یقینی اور اور صدمہ کی کیفیت میں تھی کہ میں کس مصیبت میں
پھنس گئی ۔ اور باہر کی طرف دوڑی مگر چاچو تو کنڈی لگا چکا تھا ۔
میں نے چاچو کو بولا
دیکھ مجھے جانے دے نہیں تو تمہارے باپ کو بتاؤں گی اس کا باپ سامنے والے گھر میں
رہتا تھا اور پنڈ کا نمبردار تھا ، اس نے مجھے پیچھے سے کمر سے پکڑا اور اپنے طرف کھینچ کے اپنے سینہ سے لگا لیا ، میں کو شش کرنے لگی کہ کسی طرح اپنے آپ کو چُھڑاؤں
ایک خیال آیا زور زور سے شور مچاؤں مگر اس خیال سے رک گئی کہ اس طرح بدنامی تو میری ہی ہوگی اور میں کس طرح کسی کویقین دلاسکونگی کہ اتنی رات میں چاول دینے آئی تھی وہ بھی
ایک بدنام رنڈوے کو ۔ میں چاہتی تھی کوئی ایسی چیزمیرے ہاتھ لگ جائے جو چاچو کے سر
پر مار کر اسے بیہوش کرکے بھاگ جاؤں ۔ مگر کچھ آس پاس نہ تھا میں نے چھڑالیا یا
چاچو نے مجھے آذاد کیا کہ میں دوڑی دروازے کی طرف مگر یہ اندروٹھے کا دوازہ تھا
جو پٹ سے کھل گیا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سےدہلیز کے ساتھ ٹھوکر کھا کر میں اندروٹھے
کمرے میں جا گری ( ہماری طرف ایک کمرے کے آگے بھی کمرا بنا دیتے تھے پہلے وقتوں
میں یعنی ایک کمرے میں دو کمرے جن کا مین دروازہ ایک ہی ہوتا تھا ۔ اب شاید یہ رواج
نہیں رہا ۔ اب میں اٹھنے کی کو شش کر رہی تھی کہ چاچو نے پیچھے سے دبوچ لیا میں گھوڑی کی حالت میں تھی یعنی چاروں پاؤں پر اور چاچو مجھے لپٹنے کی ٹرائی کرنے لگا ، مجھے اپنے کولہو پر اس کا اوزارمحسوس ہو رہا تھا میں نے کوشش کی اور کھڑی ہوگئی مگر چاچو میرے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کا ہتھیار میری ٹانگوں کے بیچ تھا میں نے چاچو کو بولا چاچو مجھے جانے دو ۔ دیر بہت ہوگئی ہے ۔ چاچو کچھ بولا نہیں مگر مجھے أٹھا کر پلنگ پر لٹا کر پھر مجھے دبوچ لیا ۔ چاچو کی کوشش تھی کہ کسی طرح میرا بوسہ لے مگر میں اپنے ہونٹ اس سے بچا رہی تھی گالوں پر تو اکا دکا چومیاں لے رہا تھا اور مجھے گلے سے لگا کربھینچ رہا تھا میں نے اسے گالیاں دینی شروع کردیں اور اپنے سے دور دھکیلنے لگی مگر زور ور تھا میں ایک کبوتری کی طرح پھنس چکی تھی وہ میرے مموں کو دبانے لگا اور جسم پر ہاتھ بھی پھیر لیتا ۔
اس کا نیولا سر أٹھا کر کسی سوراخ میں جانے کے لئے میری ٹانگوں کے بیچ ٹکڑیں مار
رہا تھا چاچو نےحرامزدگی کی کہ اپنی چادر دھوتی کھول کے نیچے پھینک دی اب وہ صرف
قمیض پہنے ہوئے تھا اور نیچے ننگا ۔ میں نے اچٹتی نظروں سے اسے دیکھا تو اتنا بُرا نہیں لگا ۔ اب اس نے میری شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے سختی سے منع کیا مگر اس نے ایک نہ سُنی اور میرا ازار بند کھولنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میں نے پھر باندھنے کی کوشش کی
کی اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ شلوار کے اندر ڈال دیا اورمیری ٹانگوں کے سنگم پر رکھدیا
میری منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی تو اسنے انگلی وہاں لپس پر پھیرنا اور مساج کرنا
شروع کردیا اب میں اسکے ہاتھ کو ہٹانے کی کوش کر رہی تھی اس کا دوسرا بازو میری کمر کو جکڑے ہوئے تھا اور اس کے ہونٹ برابر کوشش کررہے کہ کسی طرح میرے ہونٹوں تک رسائی حاصل کرلیں مگر میں برابر سر کو ہلا رہی تھی ۔ ادھر اس نے اب انگلی اندر ڈال کر
ہلانا شروع کی اورمیں اپنے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو کھینچنے لگی ۔مگر اسے ہٹانے کی بجائے دبا بیٹتھی دراصل اب میں شدت سے ٹرائی نہیں کر رہی تھی اور أس کا ٹچ اچھا لگنے لگا مگر میں نےأس پر ظاھر نہ ہونے دیا کہ ہارنا چاہتی ہوں ۔ اس نے یوں ہی مجھے جکڑے رکھا اور خود میری ٹانگوں میں آکر بیٹھ گیا میں نے پاؤں سے اسے دھکیلنےکی کوشش کی تو اس نے میری ٹانگوں کو قابو کرلیا
اب وہ میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھا تھا ۔ اور اس کا باز بڑےناز سے سر أٹھائے اپنے
شکار کی تلاس میں ادھر ادھر اوپر نیچے اپنی ایک آنکھ سے ڈھونڈھ رہا تھا ۔ میری شلوار کا آزار بند تو کھلا تھا مگر شلوار ابھی پہنی ہوئی تھی ۔ اب شاھد
مجھ پر لیٹ گیا اور لپٹ گیا
اس کے باز نے کُھلے ازار بند کا فائدہ أٹھایا اورسیدھا اپنےشکار سے جا ٹکرایا ۔ چاچو اسے
اوپراوپر سے رگڑنے لگا ۔ وہ مجھے خوار کرنے کی کوشش میں تھا اور میں نے بھی سوچ لیا
تھا کہ اس کو یہ باور نہیں کرنے دونگی کہ میں کمزور پڑ گئی ہوں ۔ مجھے اس کی رگڑ
اچھی لگ رہی تھی چھ ماہ سے زیاد بنا مرد کے ٹچ رہ رہی تھی اور ترس رہی تھی کسی کے مضبوط بازو۔ پیار بوسے شرگوشیوں اور زور دار جھٹکوں کے لئے ۔ چاچو نے میرے نیچے
سے اچانک شلوار کھینچ کر نیچے پھنک دی اب میں اس کے سامنے صرف قمیض میں تھی
نیچا دھڑ ننگا تھا ۔ چاچو کچھ دیر تو میری رانی کو دیکھتا رہا پھر اچانک أس پر جُھک کر
رانی کو چوم لیا ۔ أفف میری سسکاری سی نکل گئی میں نے بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اوپر
کیا اور غصہ سے دیکھا ۔ أ س نے جواب میں کچھ ایسی نظروں سے دیکھا کہ میری نظریں جھک گیئں یہ ایک قسم کا میرا سرنڈر تھا اس نے اسی جگہ کےدو چار بوسے اور لئے اور اچانک اس نے میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھ لیں اور اپنے سالار کو میری راجدھانی پر اچانک حملہ کرکے ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ اندر کردیا میری راجدھانی اس حملے کے لئے تیار نہ اس کی دیواریں تک چھل گئیں۔ میں بمشکل اپنی چیخ روک پائی ۔ اب توچاچو اپنے سالار کو کبھی دائیں کبھی بائیں دوڑاتا میں اپنی لذت بھری سسکیوں کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ۔ اور سر کو ادھر أدھرپھینک رہی تھی میری آنکھیں بند تھیں اور میں سُرور کی حدیں چُھو رہی تھی اس کا سالار کافی تجربہ کار تھا اور ہر اس کونے میں چوٹ لگاتا جہاں جہاں لگانے کی ضروت تھی آخ کار اس نے راجدھانی پر فتح کاجھنڈا گاڑ دیا اور اس خوشی میں سوغات کی بوچھاڑ کردی ۔
مجھے اس وقت جاجو بہت اچھا لگا میں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف جھکایا اور اپنے لب اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے جنہیں اس نے خوب چوسا وہ میرے ساتھ ہی لیٹ گیا اور کہنےلگا سوری ۔ میں کچھ نہ بولی اب کچھ بولنےکو شاید کچھ بچا ہی نہ تھا ۔ ہم دونو یوں ہی لیٹےرہے چاچو کچھ کہنے کی کوشش میں رہا مگر میں کسی اور ہی دنیا میں تھی چاچو میرے مموں سےکھیل رہا میں یوں لیٹی رہی کہ چاچو کے نفس نے میری ران کو ٹچ کیا وہ دوبارہ نیم ا یستادہ ہوچکا تھا میں نے اسے چھونا چاہا مگر ایک جھجھک تھی سوچا چاچو کیا سوچے گا ۔ چاچو نے میرے ہاتھ کو بڑھتے او رکتے ہوئےمحسوس کر لیاتھا اس نے میرا ہاتھ اپنےہاتھ میں لے کر دو چار بوسے دیئے اور پھر میرا ہاتھ اپنے شہزادے پر رکھ دیا میں نے شرماتے ہوئے اسے ہاتھ لگایا تو شہزاد ے نے سر اٹھالیا میں نے اس کو ہاتھ میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی ۔ وہ مست ہونے لگا اور جھومنے لگا ۔ وہ اپنی شہزادی سے ملنے کےلئے بے چین نظر آرہا تھا ۔ چاچو میرے نپل چوسنے لگا مجھے بہت مز آرہا تھا میں نے چاچو کو پیچھے دھکیلا اور خود أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ چاچو بھی سیدھا ہو کر لیٹ گیا میں اس کے اوپر بیٹھ گئی ۔ شہزادےکو اپنےہاتھ میں لے کر اس پر شہزادی کو ٹکایا اور شہزادے کا سر اس پر پھیرنے لگی پھر شہزادی کو شزادے کے اوپر آستہ آہستہ دبانے لگی اور شہزادی کے اندر پھسلتے ہوئے جانے لگا جب مجھے محسوس ہوا
کہ شہزادہ گھر پہنچ چکا ہے میں چاچو کے اوپر جُھکی اور اسے چومنے لگی اس کے گال
گردن ہونٹ اس کے بالوں بھری چھاتی کے نپل اور ساتھ ساتھ شہزادے کے اوپر شہزادی کو
ہلاتی چاچو نے میرے ہونٹ چوسنےشرو ع کردیئے اور ہاتھوں سے میرے ممے دبانا
مجھے بہت سواد آرہا تھا اب کسی قسم کاڈرنہیں رہا تھا تھوڑی دیر میں میں فارغ ہوگئی
چاچو کو اشارہ کیا اور خود نیچے لیٹ گئی مگر
شاھد نے مجھے گھوڑی بنادیا
اور ایک بار پھر اس نے زبردست انٹری دی ۔ چاچو نے خوب ارمان نکالے اور میری
چولیں تک ہلا ڈالیں آخرکار شہزادے نےشہزادی کا اندر بھرکر خراج ادا کیا ۔
میں نے شلوار پہن لی اور چاچو کو بولا اب جانے دو ۔ چاچو بولا سیمو اینا مزہ
فر کدوں میں کہیا جدوں فر صفائی کیتی اودوں ۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے شکرہے میرے ساس سُسر سوگئے تھے میں باتھ روم میں گئی
تو رانی کو ہاتھ لگا کر دیکھا بیچاری سُوج گئی تھی چاچوکا پہلا وار ہی اس کا کام کر گیا تھا
آج صبح جب اسے صفا کر رہی تھی خیال و خواب میں بھی نہ تھا کہ آج شام کواس کی مانگ
بھری جائیگی اورمن کی مراد پوری ہوگی ۔
چاچو سے پرامس کیا تھا جب بھی صفائی کی تومزہ دونگی اور لوں گی ۔ اور جب تک وہاں ریی ہفتہ میں صفائی ضرور کرتی رہی اور جب صفائی کرکے چاچوکے پاس سے گذرتی تو اس کو مشک آجاتی کہ رات کو دروزہ کُھلا رکھنا ہے....
ختم شد
10 notes
·
View notes
Women constitute the backbone of Pashtun society and social organisation. Their role is not only limited to home management, they have played a significant role in all fields throughout history. They have stood in the battlefield with men to defend the motherland and if we look into Pashto literature we find a significant contribution of women and their role in society.
Landey, Tapey and Naarey are three forms of unwritten Pashto folk literature, more than half of this fine and heart-rendering poetry is the work of women.
Landay is a traditional Afghan poetic form consisting of a single couplet. The most enchanting landey have been sung by Pashtun women in battlefields and during episodes of love, such as:
پاس په کمر ولاړه ګله!
نصیب د چا يې؟ اوبه زه در خېژومه
Oh flower on the mountain peak,
It is I who water you, God knows who would own you.
Pashtun women also used landey in the battlefield. We come across events in our national history where the singing of a single landey by a woman has proven to be more effective than weapons.
In the battle of Maiwand, when Pashtuns prepared to fight for their country, a Pashtun maiden proudly sent off her lover to the battlefield and dispatched this message to the commander of this patriotic war:
پر ایوب خان مې سلام وایه!
دا دئ جانان مې کومکي در ولېږنه
Convey my greetings to Ayub Khan,
I have sent off my lover to lend a hand.
When the young Pashtun returns triumphant from war, his lover greets him as such:
د خېره راغلې! په خېر راشې!
چې د دښمن په مخ کې خړ نه شوې مئينه
Welcome! Welcome home, thank God,
You were not humbled before the enemy.
[See photos for more landeys]
Other parts of folk literature are Naara in stories and Gharra in the national dance called Attan and Sundarey (songs) recited in weddings. Most of the Naaras and wedding songs have been authored by women. We’ll look into those in future posts. Stay tuned!
Artwork by minnamamik
Source: Prof Habibi articles
Pashtunology
25 notes
·
View notes