Tumgik
#گھنٹے
forgottengenius · 8 months
Text
کمپیوٹر نے ملازمتیں ختم کر دیں تو لوگ کیا کریں گے؟
Tumblr media
ہم مستقبل سے صرف پانچ سال دور ہیں۔ تقریباً ایک صدی قبل ماہر معیشت جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ ہم 2028 تک اپنی ایسی دنیا میں رہ رہے ہوں گے جہاں سہولتیں کثرت سے ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دنیا ٹیکنالوجی پر چلے گی۔ ہم دن میں تین گھنٹے کام کریں گے اور زیادہ تر کام محض اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے ہو گا۔ 1928 میں شائع ہونے والے اپنے ’مضمون ہمارے پوتے پوتیوں کے لیے معاشی امکانات‘ میں کینز نے پیش گوئی کی کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اپنے ساتھ ایسی صلاحیت لائے گی کہ کام کرنے کے ہفتے میں تبدیلی آئے گی۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ جس ٹیکنالوجی کی کینز نے پیشگوئی کی تھی وہ آج موجود ہے۔ لیکن کام کرنے کا ہفتہ اتنا زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ وہ مستقبل جس کا پانچ سال میں وعدہ کیا گیا تھا واقعی بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ رواں ہفتے ایلون مسک نے جدید دور میں ماہرِ معاشیات کینز کا کردار ادا کیا جب انہوں نے برطانیہ کے مصنوعی ذہانت کے سرکردہ رہنماؤں کے اجلاس کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے کہا کہ ہم نہ صرف ملازمت میں کیے جانے والے کام میں کمی کرنے جا رہے ہیں بلکہ اس سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کریں گے۔
جب وزیر اعظم نے مسک سے پوچھا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت لیبر مارکیٹ کے لیے کیا کرے گی تو انہوں نے ایک ایسی تصویر پیش کی جو خوش کن یا مایوس کن ہو سکتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت ’تاریخ میں سب سے زیادہ خلل ڈالنے والی قوت‘ ہے۔ ’ہمارے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیز ہو گی جو ذہین ترین انسان سے زیادہ سمجھدار ہو گی۔‘ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ’ایک وقت آئے گا جب کسی نوکری کی ضرورت نہیں رہے گی‘۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کام کرنے کی واحد وجہ ’ذاتی اطمینان‘ ہو گی، کیوں کہ ’مصنوعی ذہانت سب کچھ کرنے کے قابل ہو گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اس سے لوگوں کو آرام ملتا ہے یا بےآرامی۔‘ ’یہ اچھا اور برا دونوں ہے۔ مستقبل میں چیلنجوں میں سے ایک یہ ہو گا کہ اگر آپ کے پاس ایک جن ہے جو آپ کے لیے وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو آپ چاہتے ہیں تو اس صورت میں آپ اپنی زندگی میں معنی کیسے تلاش کریں گے؟‘ سونک اپنی جگہ اس صورت حال کے بارے میں یقینی طور پر بےچین لگ رہے تھے۔ 
Tumblr media
ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے سے لوگوں کو معنی ملتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مصنوعی ذہانت کام کی دنیا کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے اسے بہتر بنائے گی۔ دنیا ان دو آدمیوں کے درمیان ایک چوراہے پر کھڑی ہے اور یہ جاننا مشکل ہے کہ کس طرف جانا ہے۔ سوال کا ایک حصہ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے۔ اس کا کتنا حصہ انسانوں کے لیے قدرتی ہے اور کیا مشینیں آخر کار ہماری دنیا کے ہر حصے پر قبضہ کرنے کے قابل ہوں گی؟ لیکن ایک بہت گہرا اور زیادہ اہم سوال بالکل تکنیکی نہیں ہے یعنی ہم یہاں کس لیے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم حال ہی میں اپنے آپ سے پوچھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض نے کام کے مستقبل کے بارے میں ہر طرح کی سوچ کو جنم دیا اور یہ کہ لوگ کس طرح جینا چاہتے تھے اور کچھ نے اسے گہری اور دیرپا طریقوں سے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے مواقع کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن اس سوال کی نئی اور گہری شکل مصنوعی ذہانت کے ساتھ آ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک اس سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔ 
مصنوعی ذہانت کی موجودہ رفتار اور جس جنون کے ساتھ اس پر بات کی جا رہی ہے، اس سے یہ سوچنا آسان ہو سکتا ہے کہ روبوٹ صرف چند لمحوں کے فاصلے پر انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہماری نوکریاں (اور شاید ہماری زندگیاں) لینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا اور کم از کم بہت سی صنعتیں طویل عرصے تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ تاہم ہمیں ابھی سے اس کے بارے میں سوچنا شروع کرنا چاہیے کیوں ابھی نوبت یہاں تک نہیں پہنچی۔ ہمارے پاس تیاری کا موقع ہے کہ ہم ان ٹیکنالوجیوں کو کس طرح اپناتے ہیں۔ وہ انداز جو ہم نے پہلے کبھی نہیں اپنایا۔ مصنوعی ذہانت کے بارے میں زیادہ تر بحث خیالی باتوں اور سائنس فکشن کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اس پر ہونے والی بحثیں اکثر پالیسی مباحثوں کی بجائے زیادہ تر مستقبل کی ٹرمینیٹر فلموں کے لیے کہانیاں تجویز کرنے والے لوگوں کی طرح لگ سکتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس تجریدی بحث کو حقیقی ٹھوس سوچ کے ساتھ ملا دیں کہ ہم دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ کام، معلومات اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیسا دکھائی دینا چاہیے۔
لیکن اس کا جواب دینے کا مطلب مقصد، معنی اور ہم یہاں کیوں ہیں کے بارے میں مزید فلسفیانہ بحث کرنا ہوسکتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن سے انسانی ذہانت ہزاروں سال سے نبرد آزما ہے لیکن مصنوعی ذہانت انہیں ایک نئی اور زیادہ فوری اہمیت دینے والی ہے۔ فی الحال بحثیں گھبراہٹ اور اضطراب کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ سونک یقینی طور پر اکیلے نہیں ہیں جو آٹومیشن کے بارے میں مایوس کن نقطہ نظر کے بارے میں پریشان ہیں اور اس سے کتنی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ خودکار مستقبل کیسا نظر آ سکتا ہے۔ کیوں کہ اسے کم خوفناک بنانے کا موقع موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کے بارے میں گھبراہٹ کا سب سے بڑا حصہ جس کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے۔ یہ وہ روبوٹ نہیں ہیں جن سے ہم ڈرتے ہیں۔ یہ انسان ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پریشان کن صورت حال کے بارے میں تمام گھبراہٹ کی بنیاد یہ ہے کہ ملازمتوں کے خودکار ہونے کا کوئی بھی فائدہ ان انسانی کارکنوں کو نہیں جائے گا جو پہلے یہ ملازمت کرتے تھے۔
یہ اضطراب ہر جگہ موجود ہے اور رشی سونک نے ایلون مسک کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران نشاندہی کی کہ جب وہ دنیا میں لوگوں سے ملتے ہیں تو انہیں ذہانت یا کمپیوٹنگ کی حدود کے بڑے سوالات میں دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ ملازمتوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ آٹومیشن کے عمل کا حصہ ہیں اور وہ اس سے کچھ حاصل کریں گے تو دنیا کم پریشان کن جگہ ہو گی۔ یہ مقصد مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ سب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہے کہ لوگ آٹومیشن کے ذریعہ پیدا ہونے والی پیداواری صلاحیت اور کارکردگی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس سوال پر دنیا کا ملا جلا ٹریک ریکارڈ ہے۔ تکنیکی تبدیلی نے ہمیشہ لیبر مارکیٹ میں خرابی پیدا کی لیکن اس کے اثرات مختلف ہیں۔ اکثر وہ لوگ جو تاریخ میں مشینوں کی وجہ سے فالتو ہو گئے اور ان نئی ملازمتوں کی طرف چلے گئے جن عام طور پر خطرہ اور مشقت کم ہے۔ اگر ماضی میں لوگوں نے روبوٹس اور کمپیوٹرز والی ہماری دنیا کو دیکھا ہو تو وہ سوچیں گے کہ یہ ان کے پاس موجود خطرناک اور تھکا دینے والی ملازمتوں کے مقابلے میں ایک کامل اور مثالی جگہ ہے۔ ہمیں ان فوائد کو صرف وجہ سے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔
لیکن ہمارے پاس ہمیشہ وہ یوٹوپیا نہیں رہا جس کا وعدہ ماضی کے ان لوگوں نے ہم سے کیا تھا۔ جب 1928 میں کینز نے وعدہ کیا تھا کہ دنیا میں دن میں چند گھنٹے کام ہو گا تو اس میں امید کم اور پیشگوئی زیادہ تھی۔ مالی بحران کے وقت بھی انہوں نے ’بجلی، پیٹرول، فولاد، ربڑ، کپاس، کیمیائی صنعتوں، خودکار مشینوں اور بڑے پیمانے پر پیداوار کے طریقوں‘ جیسے وسیع پیمانے پر کام کرنے والی ٹیکنالوجیز کی طرف اشارہ کیا جو آج مصنوعی ذہانت کے فوائد کی بات کرنے والوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس کا کوئی اچھا جواب نہیں ہے کہ ہمیں فراوانی اور آرام کی وہ دنیا کیوں نہیں ملی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کینز نے پیش گوئی کی تھی کہ لوگ فرصت میں زیادہ وقت گزارنے کے لیے اضافی وسائل کا استعمال کریں گے۔ تاہم جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے وسائل کو مزید چیزوں پر صرف کیا ہے۔ بڑے حصے کے طور پر ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی صرف فون جیسی زیادہ ٹیکنالوجی خریدنے میں استعمال کی گئی۔ لیکن ایک اور وجہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے فوائد کو استعمال کرنے کے بارے میں کبھی سنجیدہ بحث نہیں کی۔ کسی نے بھی دنیا سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کی کارکردگی کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس صورت کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے فراوانی والی دنیا اور وقت کی فراوانی کی پیشگوئی کہ کینز نے رشی سونک سے مکمل طور پر اختلاف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’خوف کے بغیر تفریح اور فراوانی کے دور کا انتظار‘ ناممکن ہے۔ اور یہ کہ ’ہمیں بہت طویل عرصے تک تربیت دی گئی ہے کہ ہم مشقت کریں اور لطف اندوز نہ ہوں۔‘ لوگوں کو فکر ہے کہ کام کے ذریعے دنیا سے جڑے بغیر ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کوئی خاص صلاحیت نہیں ہو گی۔ کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو یہ جاننے کے لیے کہ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، صرف امیر لوگوں کو دیکھنا پڑے گا۔ لیکن لوگ اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے دن میں تین گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر کام اس لیے کیا جائے گا کہ ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ ہم تنخواہ کی بجائے بنیادی طور پر کسی مقصد کے تحت کام کر رہے ہوں گے۔ لوگ اس مقصد کو کیسے تلاش کرتے ہیں؟ لوگ کا کیا مقصد ہے؟ ہم اپنا ’ایکی گائے‘ (جاپانی زبان کا لفظ جس مطلب مقصد حیات ہے) کیسے تلاش کرتے ہیں؟ مقصد زندگی کو گزارنے کے قابل بناتا ہے۔ سو سال پہلے جب کینز نے ہم سے پوچھا تو ہمارے پاس اچھا جواب نہیں تھا۔ اور نہ ہی ہزاروں سال پہلے اسی جیسے سوال کا جواب تھا جب افلاطون نے پوچھا۔ لیکن لیکن اب جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اینڈریو گرفن  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
38 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
"ایسی محبت پر شرط مت لگائیں جو آپ کے دن کی تفصیلات نہیں پوچھتی ہے، جس سے آپ کہتے ہیں کہ آپ کو سر درد کی شکایت ہے اس پر شرط مت لگائیں.. اور وہ ایک گھنٹے بعد آپ سے پریشان ہوکر نہیں پوچھتا کہ آپ کیسے ہیں؟ اب سر درد ہے، محبت پر شرط مت لگائیں.. جب آپ سفر کرتے ہیں اور وہ ٹیک آف کے آخری لمحات تک آپ کے ساتھ نہیں ہوتا، تو ایسی محبت پر شرط نہ لگائیں جس کے ساتھ آپ 24 گھنٹے گزاریں اور آپ سے یہ نہ پوچھیں کہ آپ کہاں ہیں؟"
"Don't bet on a love that doesn't ask for the details of your day, don't bet on the one you tell that you complain of a headache.. And he does not ask you with worry after an hour how your headache is now, do not bet on love.. When you travel and he is not with you until the last moments of taking off, do not bet on a love that you spend 24 hours with and does not ask you where you are? "
11 notes · View notes
aiklahori · 1 year
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، ک��نے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
discoverislam · 11 months
Text
حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ
Tumblr media
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی منصوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔
Tumblr media
اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ اردو
3 notes · View notes
pakistantime · 1 year
Text
ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی
Tumblr media
امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔ 
Tumblr media
ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔ 
یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
2 notes · View notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب
لاہور، فون نمبر:99201390
ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1008
وزیراعلی مریم نوازشریف کی زیر صدارت 7گھنٹے طویل اجلاس، نیا ریکارڈ بن گیا
77 اقدامات، 70 منصوبے، 7 پروگرامز پر پیشرفت کا جائزہ، پی ڈی ڈبلیو پی کے 28 اجلاس،عوام کی بھلائی کی 287 سکیموں کا جائزہ
صوبے میں زراعت، موسمیات، آئی ٹی، سماجی بہبود سمیت مختلف شعبوں میں ترقی کے لئے پیشرفت سے متعلق امور پر غور
ترقیاتی سکیموں کیلئے 278 ارب روپے مختص، 83 ارب روپے جاری،جدید ٹیکنالوجی، ڈرون اور جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے مانیٹرنگ متعارف
منصوبوں پر پیشرفت وقت کے واضح تعین کیساتھ یقینی بنائی جائیگی، منصوبوں کے موجودہ سٹیٹس اور ان کی تکمیل کی تاریخوں کا جائزہ
لاہور20 ستمبر:……وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل 7 گھنٹے طویل اجلاس منعقد کر کے اپنی طرز کا منفرد ریکارڈ بنا لیا-وزیراعلی مریم نوازشریف نے 77 اقدامات، 70 منصوبے،7 پروگرامز پر پیش رفت کا جائزہ لیا-سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے وزیراعلی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پی ڈی ڈبلیو پی کے 28 اجلاس منعقد ہوئے-صوبے میں عوام کی بھلائی کی 287 سکیموں پر غور کیاگیا- وزیراعلی مریم نوازشریف کے 206 خصوصی اقدامات پربھی غور کیا گیا-صوبے میں زراعت، موسمیات، آئی ٹی، سماجی بہبود سمیت مختلف شعبوں میں ترقی کے لئے پیشرفت کا تفصیلی جائزہ لیاگیا -ترقیاتی سکیموں کے لئے 278 ارب روپے مختص کئے گئے، 83 ارب روپے جاری کئے جاچکے ہیں -جدید ٹیکنالوجی، ڈرون اور جی آئی ایس میپنگ کے ذریعے مانیٹرنگ کو متعارف کرایا جا رہا ہے- منصوبوں پر پیشرفت وقت کے واضح تعین کے ساتھ یقینی بنائی جائے گی-اجلاس میں منصوبوں کے موجودہ سٹیٹس اور ان کی تکمیل کی تاریخوں کا جائزہ لیا گیا -وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ عوام کی بھلائی کے منصوبوں کی شفافیت، عملدرآمد کی رفتار اور معیار پر سمجھوتہ نہیں کروں گی-
٭٭٭٭
0 notes
googlynewstv · 10 days
Text
قومی اسمبلی کااجلاس مزید تاخیر کاشکار،8بجے ہونے کاامکان
وفاقی کابینہ کےبعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی تاخیرکا شکار ہو گیا اور اسمبلی کا اجلاس مزیدچار گھنٹے تاخیر کے بعد رات8بجے شروع ہونے کا امکان ہے قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام4 بجے ہونا تھا لیکن بعدازاں یہ تاخیر کا شکار ہو گیا اور اب یہ4گھنٹے بعد رات8 بجے شروع ہونے کا امکان ہے۔ جس میں ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کو منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے…
0 notes
rewindbyrabeea · 1 month
Text
For a grand five years, you've lived more life with said chosen family than you have with your actual family; ناشتے کے لیے ان  دوستوں نے اٹھایا ہے; the night before an exam, آدھے گھنٹے بعد ان دوستوں نے اٹھایا ہے; during a bad headache, panadol ان دوستوں نے دی ہے; during home-sick hours, mindless distraction بھی انہی دوستوں نے دی یے.
Nostalgia might be a mind trick , but the reality that there will come a day when you see some of these people for the last time in a very long time, and most of these people for the last time ever- isn't. Nostalgia might be a mind trick, but the inevitability of these grand five years culminating with just an echo of a memory here, a flicker of a reverie there- isn't. Nostalgia might be a mind trick, unfortunately- endings aren't one at all. 
May these memories break our fall.
0 notes
apnabannu · 6 months
Text
شیاؤمی الیکٹرک کار: 24 گھنٹے میں 89 ہزار آرڈر، خریداروں کے لیے چھ مہینے کا انتظار
http://dlvr.it/T4xMFL
0 notes
rising-gwadar · 6 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
پاکستان چین کا 5 نئی اقتصادی راہداریوں کے لیے کوششیں تیز، ورکنگ گروپ بنانے پر اتفاق_
ان رہداریوں کو 5 ایز فریم ورک سے منسلک کیا جائے گا_ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور چینی سفیر کا ملاقات میں اتفاق
یہ اتفاق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال اور چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ کے درمیان وزارت منصوبہ بندی میں ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں کیا گیا_
چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے پروفیسر احسن اقبال کو چوتھی بار وزیر منصوبہ بندی کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی_
واضح رہے کہ ان پانچ نئے اقتصادی راہداریوں پر ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جاہے گا ان راہداریوں ملازمتوں کی تخلیق کی راہداری، اختراع کی راہداری، گرین انرجی کی راہداری، اور جامع علاقائی ترقی شامل ہیں_
ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ چین کی وزارت منصوبہ بندی اور قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) اور وزرات منصوبہ بندی اقتصادی راہدریوں پر الگ الگ Concept Paper مرتب کریں گے، جو مستقبل میں ہر شعبے کے لیے ایک واضح روڈ میپ فراہم کریں گے_
جبکہ بعدآزں یہ Concept Paper جے سی سی میں پیش کی جاہیں گی_
یاد رہے کہ وزارت منصوبہ بندی نے پہلے ہی 5Es فریم ورک پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور ماحولیات شامل ہیں_
وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے تحت ہر شعبے میں پاکستان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے یہ فریم ورک پانچ نئے اقتصادی راہداریوں کے ساتھ منسلک کیا جائے گا_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ذریعے پاکستان کی برآمدی صلاحیتوں کو تیز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کے اندر خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا_
انہوں نے ایک "ون پلس فور" ماڈل تجویز کیا، جس کے تحت پاکستان میں ہر SEZ کو چین کے ایک صوبے کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی، SEZs کے اندر خصوصی کلسٹرز تیار کرنے کے لیے ایک صنعتی گروپ، تکنیکی مہارت فراہم کرنے کے لیے چین سے ایک SEZ، اور ایک سرکاری کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی جائے گی_
جبکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زور اشتراکی فریم ورک پاکستان میں SEZs کے قیام اور ترقی کو تیز کرے گا، ان کی مسابقت اور سرمایہ کاروں کے لیے کشش میں اضافہ کرے گا_
اس موقع پر چین کے سفیر کے سی پیک کے فیز ٹو پر عمل دررامد تیز کرنے پر پاکستان کی کاوشوں کو سراہا_
انہوں نے خصوصی طور پر وفاقی وزیر کی سی پیک کے منصوبوں پر دلچسبیبی لینے اور منصوبوں کو تیز کرنے پر کوششوں کو سراہا_
جبکہ وفاقی وزیر کو خصوصی طور پر مسٹر سی پیک کے لقب سے مخاطب کرتے ہوے کہا چینی قیادت اپکی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے_
مزید براں، پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ SEZs کی کامیابی کا انحصار ان کی مخصوص صنعتوں کے کلسٹر بننے، پیمانے کی معیشتوں کو فروغ دینے، اور جدت اور ترقی کے لیے سازگار ایک متحرک ماحولیاتی نظام کی تشکیل پر ہے_
ملاقات میں بات گوادر پورٹ اور M-8 موٹروے جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر خصوصی زور دینے کے ساتھ علاقائی روابط بڑھانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی، جو تجارتی روابط کو مضبوط کریں گے اور علاقائی انضمام کو آسان بنائیں گے_
ملاقات میں وفاقی وزیر نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ حکومت چینی حکام کی سیکورٹی کے کیے بھر پور اقدامات اٹھا رہئ ہے_
1 note · View note
risingpakistan · 8 months
Text
شہید حکیم محمد سعید … یادیں اور باتیں
Tumblr media
کتاب ’’شہید حکیم محمد سعید…. یادیں اور باتیں‘‘ میں سعدیہ راشد ’’ابا جان‘‘ کے عنوان سے لکھتی ہیں۔ ’’ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور پھر ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ، سارے نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے، حکیم محمد سعید، میرے آئیڈیل۔ وہ ایک مکمل شخصیت تھے۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی۔ میں شروع میں ان سے ڈرتی تھی لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا، میری امی نے بھی نہیں لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی ��ہ کروں جو میرے ابا جان کے معیار سے گری ہوئی ہو۔
میرے قول اور عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہوکہ کوئی یہ کہے ’’یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہے۔‘‘ مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ عمل کر کے دکھاتے تھے، انھیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور وہ تمام قدریں جو انھیں عزیز تھیں، اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انھوں نے مجھے سب سکھا دیا۔ میں چودہ سال کی تھی کہ ابا جان نے مجھے پارٹیز میں لے جانا شروع کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلی پارٹی جس میں مجھے وہ اپنے ساتھ لے گئے چینی سفارت خانے میں تھی۔ چینی سفارت خانہ ان دنوں ہمارے گھر کے قریب تھا۔‘‘
Tumblr media
سعدیہ لکھتی ہیں ’’ابا جان اپنے بڑے بھائی، حکیم عبدالحمید سے بہت محبت کرتے تھے۔ دونوں کی قدریں ایک تھیں، ان کی سوچ، خدمت کا جذبہ، عام لوگوں کی بھلائی، ذاتی خوبیاں ایک تھیں، البتہ شخصیتیں مختلف تھیں، کام کا انداز مختلف تھا۔ نہ جانے ابا جان انھیں دلی میں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے وابستگی جس نے انھیں پاکستان آنے پر مجبورکیا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اللہ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’دفتر میں ابا جان ایک ڈسپلن قائم رکھتے تھے۔ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ بینہم کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد میں تھے وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ 
ایک طرف ہمدردکی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طب یونانی کا جسے ابا جان کہتے تھے کہ یہ طب اسلامی ہے، دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور پھر علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں، یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جانفشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی تو وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل جاتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر نہ کرتے لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔ آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے یہ کہا کہ ’’مجھے اب اپنی نیند کا ایک گھنٹہ اور کم کرنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ آپ کیسے کریں گے؟ چارگھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر اپنے فنکشن کس طرح پورے کریں گے؟‘‘ وہ کہنے لگے، ’’نہیں مجھے بہت کام ہے، مجھے اپنی نیند کا ایک گھنٹہ کم کرنا پڑے گا۔‘‘ سعدیہ لکھتی ہیں ’’میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی، وہ اپنا مشن پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ 
اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا، برملا اظہار کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو، اپنے خیالات کو، احساسات کو، سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو چھپا رہ گیا ہو۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ لو پڑھ لو، جان لو، پرکھ لو۔‘‘ سعدیہ راشد لکھتی ہیں ’’جب غیر ملکی کرنسی پر پابندیاں تھیں اور بیرونی سفر کے لیے بینک سے مقررہ زر مبادلہ ملتا تھا تو ابا جان سفر سے واپس آ کر ایک ایک ڈالر واپس کر دیتے تھے۔ انھیں بین الاقوامی کانفرنسوں میں بلایا جاتا، یونیسکو، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، یونی سیف، اسلامی ملکوں کی تنظیم اور دوسرے اداروں کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا جاتا اور سفری خرچ پیش کیا جاتا۔ ابا جان لکھ دیتے کہ ’’اس کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے خرچ پر آؤں گا۔‘‘ کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالوں پر معاوضہ پیش کیا جاتا۔ عموماً یہ اچھی خاصی رقم ہوتی، وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ کہہ دیتے کہ علمی کاموں کا معاوضہ لینا مجھے پسند نہیں۔ 
زندگی کے تمام معاملات میں انھوں نے ہمیشہ اصول پسندی اور دیانت داری سے کام لیا اور اسی نے ان میں وہ اخلاقی جرأت پیدا کردی تھی کہ وہ ہر بددیانتی کو، ہر غلط کام کو ٹوک دیتے تھے اور لوگ اسے خاموشی سے برداشت کر لیتے تھے۔ ابا جان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ انھوں نے کبھی کسی کا برا نہیں چاہا، کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کی۔ جنھوں نے انھیں نقصان پہنچانا چاہا، ان کے کاموں میں رکاوٹ ڈالی، ان کے لیے در پردہ مشکلات پیدا کیں، ابا جان نے ان کے ساتھ بھی بھلائی کی۔ ان سے شکوہ تک نہ کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اُجلے، ایسے بھلے، نیک نفس انسان پرکیسے گولیاں چلائی گئیں، جو دوسروں کے لیے جیتا تھا اسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ اس روشنی کو بجھا دیا جو نہ جانے کتنے گھروں کی روشنی کا سامان کیے ہوئے تھی۔ ابا جان شہید ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے، خدمت کرنے والے امر ہو جاتے ہیں، وہ امر ہو گئے۔‘‘
رفیع الزمان زبیری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
اگر مجھ میں اتنی ہمت ہوتی، ہر روز، ایک چوتھائی گھنٹے تک چیختا، تو میں مکمل توازن رکھتا۔
If I had the courage to scream every day for a quarter of an hour, I would have perfect balance.
Emel Serran, if Adam was happy
21 notes · View notes
urduchronicle · 8 months
Text
ڈیفنس کراچی میں افتتاح کے 8 گھنٹے بعد ہی چوروں نے بوتیک کا مکمل صفایا کردیا
کراچی میں افتتاح کے آٹھ گھنٹوں بعد چوروں نے بوتیک کا صفایا کردیا۔ واقعہ ڈیفنس میں پیش آیا جہاں نامعلوم کار سوار چور رات گئے گزری تھانے کی حدود ڈی ایچ اے فیز 6 کے بوتیک میں تالا توڑ کر داخل ہوئے۔ چورمبینہ طور پر ایک کروڑ روپے سے زائد کے ڈیزائینر ملبوسات اور دیگر اشیا لوٹ کر فرار ہوگئے۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آ چکی ہے جس میں چور بوتیک سے سامان باہر کھڑی کار میں منتقل کرتے دکھائی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
ٹیکنالوجی سے انسان کی زندگی بہتر ہوئی یا پریشانی میں اضافہ ہوا؟
Tumblr media
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ عصر حاضر کی جدید ٹیکنالوجی نے انسان کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں، تاہم یہ ایک غلط خیال ہے کیونکہ ٹیکنالوجی کے دماغی صحت اور انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن سے بچنا محال ہو جاتا ہے خاص طورپر اس کا مسلسل استعمال اور روز مرہ کے کاموں میں اس پر انحصار کرنا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نے واقعی آپ کی زندگی کو بہتر بنایا ہے؟
ٹیکنالوجی کے نفسیات پر اثرات ٹیکنالوجی کا مسلسل استعمال اور اس پر مکمل انحصار کرنے سے نفسیات پر جلد یا بدیر نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں سے چند کی مثال ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
تنہائی اگرچہ جدید سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو دیکھیں تو اس سے فاصلے تو سمٹ گئے ہیں اور باہمی روابط بھی بہتر ہو گئے ہیں تاہم حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس حوالے سے 19 سے 32 برس کے افراد پر ایک ریسرچ کی گئی جس میں یہ ثابت ہوا کہ جو افراد سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے مسلسل جڑے رہتے ہیں وہ ان کے مقابلے میں جو اس کا کثرت سے استعمال نہیں کرتے، تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔  مسلسل سوشل میڈیا سے منسلک رہنے والے 73 فیصد افراد نے تصدیق کی کہ وہ عملی طور پر سماجی زندگی میں تنہائی کا شکار ہیں۔
Tumblr media
پریشانی و ڈپریشن ریسرچ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ افراد جو مسلسل سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے منسلک ہوتے ہیں ان میں ذہنی مسائل بڑھ جاتے ہیں جیسے بے چینی اور ڈپریشن وغیرہ۔ ماہرین نے اس حوالے سے مختلف نتائج بھی پیش کیے ہیں جن میں ایسے افراد جنہیں سماجی ویب سائٹس پر مثبت رویہ اور حوصلہ افزائی ملتی ہے ان میں پریشانی اور ڈپریشن کافی کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جنہیں سوشل نیٹ ورک پر حوصلہ افزائی کا سامنا نہیں ہوتا ان میں ڈپریشن کافی زیادہ ہوتا ہے۔
ڈیجیٹل ڈیمنشیا کچھ لوگ ٹیکنالوجی کی کثرت استعمال سے ڈیجیٹل ڈیمنشیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس طرح انہیں معلومات پر توجہ مرکوز کرنے یا یاد رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سائبر کونڈریا ’الیکٹرانک ہائپوکونڈریا‘ اس سے مراد حد سے زیادہ پریشانی جو کسی بھی شخص کو اس کی صحت کے بارے میں پریشانی میں مبتلا کر سکتی ہے وہ یہ کہ آن لائن اپنے طبی مسائل کے بارے میں دریافت کرنے سے صحت کے حوالے سے بے چینی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس سے بھی ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
انٹرنیٹ کے استعمال کی عادت بعض افراد اس قدر انٹرنیٹ کے استعمال کے عادی ہو جاتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے اس کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں جس سے ان کے سماجی راوبط ہی نہیں بلکہ کام بھی متاثر ہوتا ہے۔
احساس کمتری اور خود اعتمادی کا فقدان اس حوالے سے کی گئی ایک تحقیق، جو ’جے اے ایم اے‘ میگزین میں شائع ہوئی، میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو یومیہ تین گھنٹے سے زیادہ وقت سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں خود اعتمادی کی کمی اور احساس محرومی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ذہنی انتشار اور اضطراری عمل اگرآپ آن لائن گیمز یا سمارٹ فون سرفنگ میں کافی وقت گزارتے ہیں تو اس صورت میں ذہنی انتشار جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ زندگی میں دیگر مسائل بھی پیش آ سکتے ہیں اور آپ کے پیشہ ورانہ شب روز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
توجہ کا فقدان تاہم یہ بات حتمی نہیں کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے پریشانی اور بے چینی میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے، تاہم جدید تحقیق میں توجہ کے فقدان کا بڑا سبب انٹرنیٹ پر زیادہ دیر گزارنے کو قرار دیا گیا ہے۔
نیند کی مشکلات بعض افراد کی یہ عادت بن جاتی ہے کہ وہ سوتے وقت اپنے ساتھ موبائل فون رکھ لیتے ہیں۔ ان کو گمان ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی میسج آئے گا یا فیس بک پر کوئی اپ ڈیٹ ہی آ سکتی ہے۔ بعض اوقات ان کا یہ عمل لاشعوری طور پر بھی ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نیند پرسکون نہیں ہوتی اور وہ سوتے ہوئے بھی ذہنی طور پر اضطراب کا شکار رہتے ہیں۔ نیند میں دشواری کا دوسرا سبب ’بلو ریز‘ یعنی نیلی روشنی ہوتی ہے جو سمارٹ فون کی سکرین سے خارج ہوتی ہے۔ یہ بھی نیند میں دشواری کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے میلاٹوئین نامی ہارمونز کا اخراج متاثر ہوتا ہے اور یہ شعاعیں جسمانی اعضا کو بھی متاثر کرنے کا سبب ہو سکتی ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق گذشتہ 50 برسوں سے بالغ افراد کی نیند کا اوسط دورانیہ آٹھ گھنٹے ہوتا ہے جس میں اب کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور آج کے وقت میں یہ سات گھنٹے ہو گیا ہے اور یہ عمل یقینی طور پر جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔
جسم پر ٹیکنالوجی کے اثرات صرف نفسیاتی صحت ہی ٹیکنالوجی کے مضر اثرات کی زد میں نہیں رہتی بلکہ جسمانی صحت کو بھی اس جدید ٹیکنالوجی کے غیرضروری استعمال سے خطرات کا سامنا رہتا ہے۔ اس بارے میں بعض مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں جو جسمانی صحت کے حوالے سے ہیں۔
1 ۔ آنکھوں پر دباؤ سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر کا مسلسل استعمال کرنے والوں کو آنکھوں میں جلن، خشکی اور دباؤ کے علاوہ سر، گردن اور کندھوں میں درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے آنکھوں پر پڑنے والے دباؤ کے بعض عوامل کی ذیل میں نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ۔ وہ وقت جو سکرین کے سامنے گزارتے ہیں ۔ سکرین کی تیز روشنی ۔ آنکھوں سے سکرین کا غیرمناسب فاصلہ ۔ آنکھوں کے مسائل کا پہلے سے شکار ہونا اس لیے آنکھوں پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے دباؤ کو کم کرنے اور انہیں بار بار ہونے والی تکلیف سے بچانے کے لیے بیس بیس کی مشق پر عمل کیا جانا چاہیے۔ یہ مشق خاص طور پر ان لوگوں کے لیے کارآمد ہوتی ہے جو طویل دورانیہ تک سمارٹ ڈیوائسز کا استعمال کرتے ہیں۔
2 ۔ غلط نشست اکثر لوگ سکرین کے سامنے غلط طریقے سے بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیشتر افراد کے کمپیوٹر کی سکرین نیچے کی جانب ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی گردن اور ریڑھ کی ہڈی پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ بہتر ہے کہ وہ افراد جو زیادہ دیر تک ڈیسک پر بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کرتے ہیں وہ ہر تھوڑی دیر بعد اٹھ جائیں اور اعضا کو حرکت دیں تاکہ جسم پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ 3 ۔ جسمانی حرکت یا عمل میں کمی یہاں خطرے کی گھنٹی آپ کو متنبہ کرتی ہے کیونکہ زیادہ دیر تک بغیر جسمانی حرکت کے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے مختلف نوعیت کی جسمانی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں موٹاپا، دل اور شریانوں کے امراض اور شوگر یا دوسرے درجے کی ذیابیطیس شامل ہے۔
ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنی نفسیاتی اور جسمانی صحت کو برقرار رکھا جائے؟ جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات کا مقابلہ دانش مندی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ذیل میں چند تجاویز بیان کی جا رہی ہیں۔ ۔ ایسی کسی بھی ایپلی کیشن اور دوستوں کو ڈیلیٹ کر دیں جن سے رابطے پر آپ کو اداسی کا سامنا کرنا پڑے۔ ۔ ای میل پر ایسی اپ ڈیٹس کو بلاک کر دیں جو آپ کے لیے غیرضروری ہوں، جتنی کم میلز ہوں گی اتنا ہی بہتر ہو گا۔ ۔ نوٹیفکیشن ساؤنڈ کو آف کر دیں جب آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ ۔ دن کا کچھ وقت ڈیجیٹل ڈیوائسز سے دور رہیں۔ ۔ سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ قبل اپنی تمام ڈیجیٹل ڈیوائسز کو آف کر دیں جس سے آپ پرسکون نیند حاصل کر سکیں گے۔
بشکریہ اردو نیوز
0 notes
adil0786 · 8 months
Text
Tumblr media Tumblr media
محنت صرف مزدوری کا نام نہیں گھر بیٹھ کہ پیسہ کمایا جا سکتا ہے
سوشل میڈیا پر مارکیٹینگ کریں اور روزانہ کا دس سے پندرہ ہزار کمائیں آئیں ہم سکھائیں گے آپکو گھر بیٹھے محنت کرنا.اِسی موبائل کا تھوڑا سا سہی استعمال اور آپ کر سکتے ہیں اپنے خواب پورے میسنجر پر رابطہ کریں ہوسکتا آپکا ایک کیا ہوا میسج آپکی زندگی بدل دے جس طرح ہماری بدلی اپنے قیمتی وقت میں سے آدھے گھنٹے کا ایک سیشن لیں اور زندگی نا بدلے تو ہم ذمہ دار فیصلہ آپکا-
Whatsapp number 03465918294
0 notes
Text
بہ تسلیمات ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ننکانہ صاحب
ننکانہ صاحب:16 ستمبر 2024
طبی سہولیات کی فراہمی میں بہتری / اہم فیصلے / محکمہ صحت کوہدایات جاری
ڈپٹی کمشنر ننکانہ محمد تسلیم اختر راو کی زیرصدارت طبی سروسز میں بہتری لانے کے لیے خصوصی اجلاس
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل ، اسسٹنٹ کمشنر ننکانہ، سی او ہیلتھ اور ایم ایس ڈی ایچ کیو کی شرکت
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے پیڈز وارڈ میں بیڈز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ
ہسپتال کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کو تین یوم میں چالو کیا جائے ، ایم ایس کو سخت ہدایت
ڈائیلسز سنٹر میں ڈاکٹرز کی تعیناتی کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ڈی سی ننکانہ
ایمرجنسی اور لیبر روم کے مریضوں کو فری ادویات کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائی جائے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ہسپتال کے تمام ان ، آوٹ پوائنٹس اور سٹورز پر میڈیسن کی دستیابی کے چارٹ لگائے جائیں۔محمد تسلیم اختر راو
پرچی کاونٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ، لین میں پانچ سے زیادہ افراد نہ کھڑے ہوں۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
پرچی کاونٹرز پر وی آئی پی کلچر کا خاتمہ یقینی بنایا جائے ، ہسپتال میں آنے والا ہر مریض وی آئی پی ہے۔تسلیم اختر راو
پرچی کاونٹرز پر کیمرے نصب کیے جائیں اور پرچی کاونٹرز پر سٹاف کا ڈیوٹی روسٹر روزانہ کی بنیاد پر جاری کیا جائے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ضلع بھر میں ڈاکٹرز کی تعداد کو ہر صورت پورا کیا جائے ، غیر حاضر رہنے والے ڈاکٹرز کو سرنڈر کیا جائے۔ڈی سی ننکانہ
ہسپتالوں میں سیکورٹی اور صفائی ستھرائی کے بہترین انتظامات کیے جائیں ، معیار پر پورا نہ اترنے والی کمپنیز کے لائسنس کینسل کر دیے جائیں ۔ڈی سی ننکانہ
سرکاری ہسپتالوں میں مسائل صرف نااہلی کی وجہ سے ہیں ، نااہلی برداشت نہیں کروں گا۔ڈی سی تسلیم اختر راو
ہسپتال کے آوٹ ڈور میں آنے والے مریض کا دورانیہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
ہسپتال کی تمام وارڈز میں داخل مریضوں کے لواحقین کے لیے کارڈز جاری کیے جائیں۔ڈپٹی کمشنر
ہسپتال کی کسی بھی وارڈ میں مریض کے پاس ایک اٹینڈنٹ سے زیادہ افراد نہ ہوں۔ڈی سی محمد تسلیم اختر راو
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے ویژن کے مطابق عوام الناس کو طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ڈپٹی کمشنر ننکانہ
0 notes