Tumgik
#pakistan flood relief
queen0ftheroses · 2 years
Text
Links to Pakistani Flood Relief
So there is currently horrifying floods happening in Pakistan right now, and I wanted to share some links for easy donating to some relief orgs helping with the flood relief right, please donate if possible or at least share this around. https://www.muslimaid.org/pakistan-flood-emergency/
https://minhajwelfare.org/pakistanfloods/
https://prcs.org.pk/
211 notes · View notes
aldereign · 2 years
Text
hello 💖 for those of you who don’t know, pakistan (my home country) is currently facing unimaginable flooding. the death toll is rising to over a thousand people, and nearly 30 million are in danger. as usual, the political disarray is hindering crucial support to locals. i’m asking all my mutuals, if you are able to, here is a spreadsheet of organizations / individuals currently helping out—please consider donating if possible & please signal boost this if you see it! 
480 notes · View notes
dio-nya · 2 years
Text
To the people who are willing to donate to Pakistan for the flood relief:
Please do NOT donate the government
All money donated to the government will NOT be sent for flood relief. Our government is extremely corrupt. They do not want to help us. They keep doing political ralies and keep making videos of "helping" us.
Please do NOT donate to the government or any government related body.
13 notes · View notes
aamiralihussain82 · 1 year
Text
Nearly 500 people have perished in Pakistan's monsoon rains and flash floods during the past seven weeks. Numerous thousands of homes have been destroyed, and those affected desperately need assistance. Even though our partners are working incredibly hard to provide emergency assistance, we still need your assistance to reach more individuals. For more information, click here. https://pennyappealusa.org/pakistanfloods/
0 notes
irtibaat · 2 years
Text
وزیر اعظم نے فلڈ ریلیف ڈیش بورڈ کے افتتاح کو غیر معیاری قرار دے کر مسترد کر دیا۔
وزیر اعظم نے فلڈ ریلیف ڈیش بورڈ کے افتتاح کو غیر معیاری قرار دے کر مسترد کر دیا۔
سیلاب سے متعلق امداد اور تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنانے کے مقصد کے ساتھ ایک ڈیجیٹل ڈیش بورڈ تیار کیا گیا ہے۔ تاہم، وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے فلڈ ریلیف ڈیش بورڈ کا افتتاح کرنے سے انکار کے بعد چیزیں منصوبے کے مطابق نہیں ہوئیں۔ سیلاب سے متعلق امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ڈیش بورڈ ہے؟ یہ ایک لطیفہ ہے۔ یہ ایک بورڈ نہیں ہے جس کی ضرورت ہے” اور حکام سے کہا کہ اس میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
یہ سیاست کا وقت نہیں
کہا جاتا ہے کہ لیڈر قومیں بناتے ہیں۔ لیڈر کا طرزِ عمل کسی بھی قوم کا طرزِ عمل ہوتا ہے۔ جیسا کردار ایک لیڈر کا ہوتا ہے ویسا ہی قوم کا کیوں کہ قوم لیڈروں کو فالو کرتی ہیں۔ مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ بحیثیتِ قوم ہم نے اپنے نام نہاد لیڈروں سے سوائے بد زبانی، بد اخلاقی، گالم گلوچ اور مخالف کی ذاتیات پہ کیچڑ اچھالنے کےاور کچھ نہیں سیکھا۔ ہمارے لیڈر جلسوں میں اپنی کارکردگی اور اپنی پالیسیاں بتانے کی بجائے فریق مخالف پر فقرے کسنے کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے۔ ویسا ہی حال ہماری قوم کا ہے کیونکہ قومیں اپنے لیڈر کو فالو کرتی ہیں۔ پہلے ہم پاکستانی تھے پھر آہستہ آہستہ بعض سیاسی لیڈروں نے ہمیں پاکستانی سے پنجابی، بلوچی، سندھی، کشمیری اور پختون قوم پرستی کے خانوں میں تبدیل کر دیا۔ آج ان سیاستدانوں کی وجہ سے ہم اپنے گھروں میں بھی تقسیم ہو چکے ہیں۔ باپ بیٹے کا اور بھائی بھائی کا دشمن بن چکا ہے۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ اپنے لیڈر کی غلط بات کو بھی سچ ثابت کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کو سرِ عام گالیاں دی جاتی ہیں، اقبالؒ نے 100 سال قبل جو بات کہی تھی وہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عوام سیلاب پر سیاست کرنے والوں سے حساب لیں گے۔عوام کو پتہ ہے کہ کون سیلاب پر سیاست اور کون خدمت کر رہا ہے ۔وہ خاموش ہیں لیکن ان کے اندر ناراضی، دکھ اور تکلیف ہے جسے وہ بیان نہیں کر پا رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا۔ دوسری جانب سیلاب کے باعث سندھ کے کئی علاقے تاحال پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ملک بھر میں بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث مزید 45 سے زیادہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ رواں سال سیلاب کی شدت بھی زیادہ ہے اور اب کی بار 2010 کی نسبت ملک کا زیادہ علاقہ متاثر ہوا ہے ۔ حالیہ سیلاب کے بعد بحالی کی سرگرمیوں کے لئے کثیر رقم درکار ہو گی۔ ملکی معیشت کا حال سب کے سامنے ہے، ان حالات میں سیاسی استحکام یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں کا فرض ہے ۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے درد ناک واقعات کی رپورٹنگ اور پروگرام دیکھ کر دل کٹ جاتا ہے۔ 
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سڑکوں اور نہروں کے کنارے لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان تلے موجود ہیں، اگرچہ بڑی حد تک ریلیف کا کام شروع ہو چکا ہے مگر مستحقین کی ایک بڑی تعداد کو اب تک کوئی امداد نہیں ملی ۔ بہت سے علاقوں میں سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ۔ چاروں طرف سے گندے پانی میں گھرے لوگوں کو پیاس بجھانے کے لئے پینے کے قابل صاف پانی بھی میسر نہیں اور وہ آلودہ پانی پینے کے سبب وبائی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ ہر دوسرا شخص ملیریا، ڈینگی، پیٹ یا جلد کی بیماری کا شکار ہو چکا ہے خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو بڑی تعداد میں انسانی اموات ہو نے کا خدشہ ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ عوام اسی وجہ سے پانی اترنے کے بعد بھی مستقبل سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں، جس وسیع رقبے پر سیلاب کا پانی موجود ہے، بہ ظاہر یہ لگتا نہیں کہ 2 ماہ میں پانی اتر جائے گا۔ کپاس اور گنے کی فصل نقد تصور ہوتی ہے، جنوبی پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں سارے سال کے اخراجات پورے کرنے کے لئے لوگ ان فصلوں کی آمد نی پر تکیہ کرتے ہیں ۔
پانی میں ڈوبنے سے کپاس کی فصل مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور گنے میں بھی کیڑا لگنا شروع ہو چکا ہے ۔ 10 سے 15 روز مزید گنے کی فصل ڈوبی رہی تو وہ بھی خراب ہو جائے گی ۔ نومبر کے مہینے میں گندم کی بوائی ہوتی ہے۔ اکتوبر تک اگر زرعی زمینوں سے پانی مکمل طور پر نہ نکل سکا تو گندم کی فصل بھی کاشت نہیں ہو سکے گی، یعنی جو خوش قسمت سیلاب میں ڈوب کرمرنے سے بچ جائیں گے لا محالہ اگلے سال بھی وہ قحط اور بھوک کا سامنا کر رہے ہوں گے۔ کس کس جگہ کانوحہ لکھا جائے ؟ دیکھتے ہی دیکھتے تونسہ اور ڈیرہ غازی خان میں دیہات صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ بلوچستان میں پہلے کم بدحالی اور غربت تھی، اب وہاں حالات زیادہ خراب ہو نے کا خدشہ ہے، کے پی بھی تباہی سے محفوظ نہیں رہا ۔ سوات، چار سدہ اور بحرین کے مناظر دل دہلانے والے ہیں، نوشہرہ تو مکمل طور پر ڈوب چکا ہے ۔ سکھر، لاڑکانہ اور خیر پور میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے۔ خیر پور، ناتھن شاہ، جھڈو، میہڑ، جوہی اور نوشہروفیروز میں سنگین المیہ برپا ہے۔ سانگھڑ بھی بلا مبالغہ مکمل سیلاب برد ہو چکا ہے ۔
ضروری ہے کہ اس وقت عدلیہ، فوج، سیاستدان اور بیورو کریٹس مل کر اس سیلاب کی مصیبت سے نکلنے کا کوئی حل نکالیں۔ معیشت تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے ، رہی سہی کثر اس سیلاب نے نکال دی ہے ۔ لہٰذا مل بیٹھ کر ہی ان مشکل حالات سے نکلا جا سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا دل اور معاشی شہ رگ ہے لیکن اس کے انفرا سٹر کچر کی جو حالت کر دی گئی ہے بالخصوص 15 برسوں میں شہر کی سڑکوں کا جو حال ہو گیا ہے، کچرے کے ڈھیر گلی محلوں میں ہی نہیں مرکزی شاہراہوں پر بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ پانی کے لئے لوگ ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں نکاسی کا نظام بھی مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے۔ ایک طرف شہر کی یہ حالت ہے تو دوسری جانب شہریوں سے ٹیکس وصولی کے نئے نئے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے اب خاموشی کے ساتھ کراچی کے شہریوں پر سالانہ 3 ارب روپے کا مزید بوجھ ڈال دیا ہے اور کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدے کر لیا ہے جس کے تحت شہریوں سے میونسپل ٹیکس بجلی کے بلوں کے ساتھ وصول کیا جائے گا ۔ کراچی میں بجلی کے صارفین کی تعداد 24 لاکھ کے قریب ہے جس سے یہ بلدیاتی ٹیکس وصول کرنا طے پایا ہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
خدا ترسی بھی سائنس ہے
سنہ 2005 کا زلزلہ، سنہ 2010 کا سیلاب اور سنہ 2022 کی آبی قیامت اور اس دوران دہشت گردی سے اجڑے لاکھوں لوگوں سمیت ہم کئی بڑے قومی دھچکوں سے گزر چکے ہیں اور ابھی تو محض ابتدا ہے۔ ایسے آسمانی و زمینی المیات سے کیسے نپٹا جائے یا ان سے پہنچنے والے نقصانات کو کس حد تک کم سے کم کیا جا سکے؟ ان ادق موضوعات پر بحث اور ناقابلِ عمل حکمت عملی یکے بعد دیگرے وضع کرنے کے لیے بہت سے دماغ پہلے کی طرح آج بھی مصروف ہیں۔ انھیں تاحیات مصروف رہنے دیجیے۔ اس وقت میری توجہ کا مرکز وہ خدا ترسی ہے جو کسی بھی سانحے کا سن کر ایک بے غرض شہری کے خون میں وقتی اچھال پیدا کر دیتی ہے اور وہ مدد کے خیال سے جو شے ہاتھ لگے اسے اٹھا کر مصیبت زدگان یا امدادی اداروں کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔ اور جب اسے لگتا ہے کہ اپنا فرض پورا کر کے ضمیر مطمئن کر لیا ہے تو پھر سے روزمرہ کاموں میں کھو جاتا ہے۔ چونکہ مخیر و فلاحی سرکاری و غیر سرکاری ادارے بھی انہی جیسے افراد پر مشتمل ہیں لہٰذا ان کی سوچ بھی دماغ سے زیادہ دل کے تابع ہو جاتی ہے۔ یوں ان کی توانائی و وسائل ضرورت مندوں کے کام کم آنے کے بجائے غیر ضرورت مندوں کے ہاتھوں ضائع ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
مثلاً موجودہ آبی قیامت کا شکار ہونے والے لاکھوں انسانوں میں نوزائیدہ بچوں سے بوڑھوں تک ہر عمر کے انسان شامل ہیں اور عمر کے اعتبار سے ان کی ضروریات بھی مختلف ہیں۔ مگر فلاحی حکمتِ عملی ان ضروریات کے مطابق ڈھالنے کے بجائے ہر انسان دوست فرد، تنظیم اور ادارے کی سوچ ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے۔ کھانا، ٹینٹ، کھانا ٹینٹ، کھانا ٹینٹ ۔۔۔۔۔۔ کھانے سے مراد صرف نمکین چاول ہیں اور ٹینٹ سے مراد کسی بھی سائز یا کوالٹی کا ٹینٹ جو بارش اور دھوپ سے مکمل یا جزوی بچا سکے۔ کوئی بھی انسان ایک مہینے تک دونوں وقت نمکین چاول کھا کے بنا صاف پانی پئے کتنی دیر تک اپنی جسمانی مدافعت بحال رکھ سکتا ہے۔ اور ٹینٹ ملنے کے باوجود مچھروں اور کیڑے مکوڑوں سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ کتنی فلاحی تنظیمیں اور سرکاری خیر کے ادارے بڑھ چڑھ کے امداد کی اپیل کرتے وقت دیگر لازمی ضروریات کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے ہیں جتنا کھانے اور ٹینٹ کی اپیل کو۔ حالانکہ یہ سب سوچنا اور سمجھنا راکٹ سائنس نہیں۔ پھر بھی ایک جامع اپیل کا نمونہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں ترمیم و اضافے کی گنجائش ہمیشہ رہے گی۔
'اے صاحبانِ استطاعت آپ کے امدادی جذبے کو سلام۔ مگر ہمیں ایسے افراد، کمپنیوں اور اداروں کی مدد درکار ہے جو پانچ برس تک کی عمر کے بچوں کے لیے دودھ اور دلیے کے پیکٹ ارسال کر سکیں۔ ہمیں بوتل بند صاف پانی کی بڑی مقدار چاہیے۔ ایسی ٹکنیکل مدد بھی درکار ہے جو آلودہ پانی کو فوری طور پر انسانی استعمال کے قابل بنا سکے۔ ہمیں پورٹیبل بیت الخلا اور غسل خانے درکار ہیں جنھیں آسانی سے منتقل اور نصب کیا جا سکے۔ ہمیں ان ٹرانسپورٹروں کا دستِ تعاون چاہیے جن کے پاس اگر کم ازکم دس فور وہیلر گاڑیاں، ٹرک، ڈمپرز یا وینز ہیں تو ان میں سے ایک گاڑی اگلے پندرہ دن یا مہینے بھر کے لیے عملے سمیت کسی بھی قابلِ بھروسہ تنظیم یا ادارے کے حوالے کر دیں۔  ہمیں بڑی تعداد میں جنرل فزیشنز، گائنی ماہرین، ہیلتھ ورکرز اور ویکسینیٹرز کی ضرورت ہے جو ہفتہ، پندرہ دن یا ایک ماہ کے لیے اپنی خدمات مصیبت زدگان کے لیے وقف کر سکیں۔ ہمیں ایسے اصحاب اور اداروں کا تعاون درکار ہے جو حسبِ استطاعت سینٹری پیڈز کی کھیپ خرید کر یا تیار کروا کے عطیہ کر سکیں۔ 
ہمیں ہزاروں مچھر دانیاں، مچھر مار ادویات اور لوشن درکار ہیں جو کھلے آسمان تلے ہزاروں لوگوں کو ملیریا، ڈینگی اور دیگر کیڑے مکوڑوں سے لاحق خطرات سے بچا سکیں۔ ہمیں ہر متاثرہ علاقے میں ایمبولینسوں کی بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں ایسے نوجوان درکار ہیں جو فی الوقت بے روزگار مگر فلاحی جذبے سے سرشار ہیں تاکہ وہ روزمرہ کی امدادی سرگرمیوں میں حسبِ صلاحیت کسی نہ کسی ادارے یا تنظیم کا ہاتھ بٹا سکیں۔ ہمیں ایسے اداروں اور افراد کا دستِ تعاون درکار ہے جو لاکھوں جانوروں کے لیے خشک چارے، ویکسینز اور ادویات کی فراہمی ممکن بنا سکیں۔ اگر یہ جانور بھی نہ بچے تو ہزاروں خانماں برباد کنبے معاشی طور پر زندہ درگور ہو سکتے ہیں۔ ہر شہری جو مدد کے جذبے سے سرشار ہے اسے فلاحی اداروں اور سرکار کی جانب سے بروقت پیشہ ورانہ رہنمائی درکار ہے۔ تاکہ امداد صرف تنبو، خشک و پکے ہوئے راشن یا کپڑوں کی روایتی اپیل تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائے بلکہ ہر بنیادی انسانی ضرورت کا احاطہ کر سکے۔  فلاحی کام صرف جذبے کا نام نہیں بلکہ اس جذبے کو سائنسی انداز میں مربوط و مؤثر کر کے آخری ضرورت مند تک پہنچنے کا نام ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
ڈوبتے پاکستان میں اپنے چیف کی تلاش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گذشتہ ہفتے سیلاب سے ہوئی تباہ کاری دیکھنے پاکستان آئے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی میں اتنی تباہی کبھی نہیں دیکھی اور پاکستان کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تصور ہے۔ دنیا میں خوراک کی فراہمی اور آٹے دال کے بھاؤ پر نظر رکھنے والے ماہرین چیخ چیخ کر دستک دے رہے ہیں کہ پاکستان جیسا وہ ملک، جسے فخر تھا کہ ہمارے ہاں بھوکا کوئی نہیں سوتا، اب بھوک اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی دہائیاں دے رہے ہیں کہ جو پالتو جانور اس آفت سے بچ گئے ہیں، ان کے لیے چارہ ختم ہو رہا ہے۔ ہمارے حکمران، اپوزیشن والے اور میڈیا اس بات پر سینگ پھنسا کر بیٹھے ہیں کہ جنرل باجوہ کو اگر ایک چھوٹی موٹی ایکسٹینشن اور دے دی جائے تو موجودہ سیاسی بحران کا شاید حل نکل آئے۔
بحث صرف اس پر جاری ہے کہ تھوڑی دی جائے، پوری دی جائے یا پھر کوئی اپنی پسند کا چیف ڈھونڈ لیا جائے۔ پاکستانی فوج میں سے اپنی پسند کا چیف تلاش کرنا ہماری پرانی عادت ہے اور اپنی پسند کا چیف تلاش کرنے کے بعد اس کے ہاتھوں بے عزت ہونا اس سے بھی پرانی عادت ہے۔ بھٹو نے اپنی پسند کا ضیا ڈھونڈا، اسی نے بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا۔ نواز شریف نے اپنی پسند کے کتنے لگائے اور انھوں نے نواز شریف کے ساتھ کیا کیا، سب کو یاد ہو گا۔ عمران خان کی چیف چننے کی باری آئی تو اپوزیشن کو اتنا ڈرا دیا گیا کہ انھوں نے جیسے تیسے سازش کر کے عمران خان کو گھر بھیج دیا۔ ابھی بھی بحث صرف اس بات پر ہے کہ اگلا چیف عمران خان منتخب کرے گا یا عمران خان کے دشمن۔ اس بات پر کوئی بحث نظر نہیں آئی کہ ہماری بھوکی بھینسوں، بکریوں کو چارہ کون پہنچائے گا۔ جنرل باجوہ، جن کی چھوٹی یا بڑی ایکسٹینشن کے گرد موجودہ بحث گھوم رہی ہے، وہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی ایک جامع ماحولیاتی منصوبہ ہے۔ پتا نہیں چھ سال تک انھوں نے اسے قوم سے کیوں چھپائے رکھا۔
دفاعی امور کے بارے میں میرا علم صفر ہے۔ آئندہ چیف بننے کے امیدواروں کے نام بھی نہیں پتا لیکن اتنا جاتنا ہوں کہ یہ پانچ سات سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کا وزیراعظم چاہے کوئی بھی ہو، اس کو ان ہی پانچ سات میں سے ایک چننا ہو گا۔ عمران خان کل 110 فیصد ووٹ لے کر بھی وزیراعظم بن جائیں تو وہ بھی یہ نہیں کر سکتے کہ تھوڑی بہت پریڈ تو ابرار الحق کو بھی آتی ہے، چلیں انھیں چیف بنا دیتے ہیں یا مولانا طارق جمیل ملک کا بڑا درد رکھتے ہیں، انھیں سپہ سالار مان لیتے ہیں۔ (ویسے سپہ سالار جو بھی بنے گا، اسے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ مولانا طارق جمیل خود ہی دے دیں گے) اور جو پانچ سات ہیں، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی کمیونسٹ پارٹی کا خفیہ رکن نکل آئے یا گھر میں چھپ کر استاد بڑے غلام علی خان کو سنتا ہو۔ 
جس کو بھی بناؤ گے وہ تگڑا ہو گا، محب وطن ہو گا اور اگرچہ میں نہ نام جانتا ہوں، نہ ذات پات نہ تجربہ لیکن حلف لے کر ابھی سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ ایک پروفیشنل فوجی ہو گا، جس کو عسکری امور کا وسیع تجربہ ہو گا اور جس کو سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہ ہو گی۔ جو آج حکومت میں ہیں وہ اپوزیشن میں تھے، جو ملک کو آزاد کرانے چلے ہیں، وہ حکمران تھے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا مسئلہ آیا تو سر جوڑ کر بیٹھے اور صرف 13 سے 17 منٹ کے اند مسئلہ حل کر لیا۔ اس وقت ملک میں کوئی قدرتی آفت بھی نہیں تھی۔ اب بار بار یاد کرانا پڑتا ہے کہ حضور ایک تہائی ملک ڈوبا ہوا ہے، لاکھوں لوگ سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، اگر جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینی ہے، چھوٹی دینی ہے، بڑی دینی ہے، دیں لیکن اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ ہماری بھوکی بھینسیں اور بکریاں صرف چارہ مانگتی ہیں۔ چیف جیسا بھی ہو ہم گزارا کر لیں گے۔
محمد حنیف
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
readerswholearn · 2 years
Text
Abu Ibraheem Hussnayn Pakistan Flood Appeal 2022 - Humanity Care Relief
0 notes
leakshareorg · 2 years
Text
Pakistan's First Female Architect Delivers Disaster Relief Housing
Pakistan’s First Female Architect Delivers Disaster Relief Housing
Pakistan is plagued by historic floods. Floods and landslides have forced millions of people from their homes. Many people have lost their homes and have nowhere to live. More than 1 million tents are needed to provide shelter for people. The problem is that there is a shortage of tents and they are not durable enough. A solution appeared that could help effectively. Low cost houses that are easy…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
moryen · 2 years
Text
DONATE TO THE VICTIMS OF THE FLOODS IN PAKISTAN!!! HELP THE PEOPLE OF SWAT!!!
Swat is faced with one of the most deadly floods which has destroyed many houses, businessess, livestocks, agriculture and many lives. The people stranded in the far flung villages in Upper Swat have no access to clean drinking water, no basic health facilities, no Medications, No food rations and without any blankets, clothes and mattresses. These people need your help, we have so far helped around 2000 people with the basic necessities but still the suffering of the people continues and these need to be addressed as there are 258000 people living in these areas.
1 note · View note
theyaoiconnoisseur · 2 years
Text
Hi! I usually don’t make these kind of posts but someone I know made a go fund me in order to set up a food kitchen in Old amrothpur, zilla shikarpur, Sindh. There’s more info on the page, please consider donating a bit!
https://www.gofundme.com/f/donate-for-a-langar-in-sindh-flooded-area?member=21813425&sharetype=teams&utm_campaign=p_na+share-sheet&utm_medium=copy_link&utm_source=customer
0 notes
vincent-van-playdoh · 2 years
Text
Here’s some links for Pakistani Flood Relief
https://www.gofundme.com/c/act/donate-to-pakistan-flood-relief
There’s a bunch of links under the go fund me so do with these what you can!
1 note · View note
news-folds · 2 years
Text
Pakistan floods toll continues to climb with 57 more deaths, 25 of them children, as country pleads for relief
Pakistan floods toll continues to climb with 57 more deaths, 25 of them children, as country pleads for relief
The death toll from Pakistan’s cataclysmic floods continues to rise with 57 more people reported dead, including 25 children, as aid received so far remains insufficient for over 33 million people displaced. The figures were released by Pakistan‘s National Disaster Management Authority on Saturday from flood-affected areas of Sindh, Khyber Pakhtunkhwa and Baluchistan provinces, in which 25 were…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hhviraldesigns · 2 years
Link
Flood victims need your help please help them. Thanks 
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
یا خود نپٹو یا راستہ دو
اس وقت پاکستان میں سیلاب نہیں بلکہ ایک بڑا انسانی المیہ ورق در ورق کھل رہا ہے۔ دس بلین ڈالر کے نقصان کا ابتدائی تخمینہ پوری داستان کھلنے تلک بیس بلین یا اس سے بھی اوپر کا ہندسہ چھو سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہر چھٹا پاکستانی کلی یا جزوی طور پر اس المیے کی زد میں ہے۔ بین الاقوامی برادری نے گورننس سے متعلق تحفظات کے باوجود امداد کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سرکردہ عالمی این جی اوز بھی ہاتھ بٹانے کے لیے بے تاب ہیں۔ حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ اس المیے سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کی اور ہر طرف کی مدد درکار ہے۔ ایسے میں پاکستان میں رجسٹرڈ اڑتیس بین الاقوامی این جی اوز کے پاکستان ہیومینٹیرین فورم کی جانب سے یہ بیان آیا ہے کہ خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے بعض متاثرہ علاقوں تک ہم اس لیے نہیں پہنچ پا رہے کیونکہ وفاقی حکومت کی تحریری اجازت درکار ہے۔ سرکاری عذر یہ ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز کی بہت سے حساس علاقوں میں مکمل سیکورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
جہاں جہاں رسائی کی اجازت ہے وہاں وہاں تک بائیس بین الاقوامی امدادی اداروں اور بیرونی گرانٹ پر منحصر مقامی تنظیموں نے اب تک پونے دو لاکھ متاثرین کی مدد کی ہے۔ مگر بہت سے اندرونی علاقے اس وقت کٹے ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ پناہ، خوراک اور علاج معالجے کی سہولتوں کے منتظر ہیں۔ فورم کا کہنا ہے کہ اس ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں سرکار کے نافذ کردہ قواعد و ضوابط میں عارضی نرمی درکار ہے۔ سرکاری صلاحیتیں اور امدادی انفراسٹرکچر کی کمزوریاں گزشتہ کی طرح اس المیے نے بھی ایک اور بار آشکار کر دی ہیں۔ مگر حکومت کے اندر بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں ہیں، جو غیر معمولی حالات میں بھی معمول کی سوچ یا بقول شخصے آؤٹ آف باکس حل نکالنے سے ہمیشہ کی طرح قاصر ہیں۔ پاکستان کا عالمی این جی اوز اور امدادی اداروں سے رشتہ ہمیشہ سے اعتماد اور شک کے درمیان جھولتا آیا ہے۔ کبھی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو کبھی اچانک ملکی سالمیت، مقامی ثقافت اور دوست کے بھیس میں اغیار کی مسلمان دشمنی کا خیال زور پکڑ لیتا ہے اور شکنجہ کس دیا جاتا ہے اور جب نئی ابتلا آتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ شکنجے کا کون سا پیچ ڈھیلا کیا جائے اور کتنا کیا جائے۔ مگر وہ جو شیخ سعدی نے کہا ہے کہ چناں قحط سالی شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق (دمشق میں ایسا قحط پڑا کہ عاشق محبت کرنا بھول گئے)
جب آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو شمالی پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو کاروبارِ زندگی ایسا چوپٹ ہوا کہ بین الاقوامی اداروں کے لیے وہ تمام متاثرہ علاقے کھولنے پڑ گئے جہاں غیر ملکی بنا اجازت نامہ کبھی پر نہیں مار سکتے تھے۔ امریکی شنوک اور جاپانی فضائیہ کے ہیلی کاپٹر ان علاقوں میں سینکڑوں پروازیں بھرتے رہے۔ یوں بیسیوں مقامی و بین الاقوامی امدادی اداروں کے تعاون سے امداد و بحالی کا کام تیز رفتاری سے ممکن ہو سکا اور ہزاروں زندگیاں بچا لی گئیں۔ دو ہزار سات آٹھ میں جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصانات کی بھرپائی کے لیے امریکی کانگریس نے ساڑھے سات ارب ڈالر کا کیری لوگر پیکیج منظور کیا تو اس میں ڈیڑھ ارب ڈالر ایسے فلاحی منصوبوں کے لیے مختص ہوئے جنہیں بین الاقوامی این جی اوز کے توسط سے مکمل ہونا تھا۔ حکومتِ وقت نے تھوڑی بہت آنا کانی کے بعد یہ شرط مان لی اور یو ایس ایڈ اور ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمٹ کی معرفت متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع ہو گیا۔
شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا تازہ باب تب کھلا جب دو ہزار دس میں اخبار نیویارک ٹائمز میں خبر چھپی کہ مبینہ طور پر پینٹاگون نے امریکی امدادی نیٹ ورک سے منسلک کچھ کنٹریکٹرز کو پاک افغان سرحدی علاقوں میں جہادی تنظیموں کے اندرونی نظامِ کار اور قبائلی ڈھانچے کی بدلتی ہیت سے متعلق معلومات جمع کرنے کا کام سونپا۔ اس رپورٹ کے بعد پاکستانی حساس اداروں نے ان علاقوں میں ریسرچ اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر کام کرنے والے اجنبیوں اور ان کے مقامی اتحادیوں کی نگرانی بڑھا دی۔ البتہ اونٹ کی کمر اس آخری تنکے سے ٹوٹی جب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے آپریشن کے کچھ دن بعد ”سیو دی چلڈرن‘‘ کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکی سی آئی اے کی مدد سے ایک جعلی طبی مہم چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ مہم اسامہ بن لادن کے ڈین این اے کے حصول اور توثیق کے لیے منظم کی گئی تھی۔ چنانچہ کئی بین الاقوامی این جی اوز نے شدید تنقید کرتے ہوئے برملا کہا کہ اس حرکت سے تمام این جی اوز کی سلامتی، نیک نامی اور جاری منصوبے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
شکیل آفریدی کی گرفتاری کے نتیجے میں ”این جی او کلچر‘‘ کی مخالف مقامی تنظیموں کے ہاتھ میں تازہ ڈنڈہ آ گیا اور اس موقع کو ریاستی اداروں نے بھی این جی اوز کو پوری طرح قابو کرنے کے لیے خوب استعمال کیا۔ تمام غیر ملکی سفارت کاروں اور اقوامِ متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے حکام کو پابند کیا گیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں سے باہر وزارتِ داخلہ کے اجازت نامے کے بغیر نہیں جا سکتے۔ دو ہزار پندرہ میں نواز شریف حکومت کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے این جی او سرگرمیوں کو نکیل ڈالنے کا کام اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے ”سیو دی چلڈرن‘‘ کو مکمل طور پر بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا۔ جبکہ پندرہ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے اجازت نامے بھی کم ازکم چھ ماہ کے لیے معطل کر دیے گئے۔ ان میں اوکسفیم یوکے، نارویجن ریفیوجی کونسل، ڈینش ریفیوجی کونسل، کیتھولک ریلیف سروس، ورلڈ وژن اور مرسی کور جیسی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔
نئے ضوابط کے تحت بین الاقوامی این جی اوز کی رجسٹریشن کا کام وزارتِ خزانہ کے اکنامک ڈویژن سے وزارتِ داخلہ کو منتقل کر دیا گیا اور این او سی کا اجرا حساس اداروں کی رضامندی سے مشروط ہو گیا۔ یہ بھی پابندی لگائی گئی کہ این جی اوز کے مقامی بجٹ کا صرف تیس فیصد انتظامی اخراجات کے لیے مختص ہو گا اور کسی بھی پروجیکٹ کی افرادی قوت میں دس فیصد سے زائد غیر ملکی عملہ شامل نہیں ہو گا۔ ان پابندیوں کا اطلاق ان مقا��یاین جی اوز پر بھی کیا گیا جنہیں بین الاقوامی امداد ملتی ہے۔ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ میں عمران حکومت کے دور میں اسلام آباد میں حساس اداروں نے ایکشن ایڈ سمیت اٹھارہ بین الاقوامی این جی اوز کے دفاتر پر چھاپہ مار کر ریکارڈ سربمہر کر دیا اور انہیں ساٹھ دن میں اپنے منصوبے مکمل کر کے ملک چھوڑنے کا حکم یہ کہتے ہوئے دیا گیا کہ وہ چھ ماہ بعد دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔
ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ساتھ فارن فنڈنگ پر منحصر درجنوں مقامی تنظیمیں بھی مفلوج ہو گئیں۔ یو ایس ایڈ نے بھی اپنے منصوبے مختصر کر دیے اور نئے منصوبوں پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی زد میں زیادہ تر وہ علاقے ہیں جو قومی سلامتی کے اداروں کی ریڈ لسٹ میں ہیں۔ ان میں قبائلی پٹی سے متصل جنوبی خیبر پختون خواہ، یورینیم کی پیداوار کے لیے معروف پنجاب کا ضلع ڈیرہ غازی حان اور بدامنی سے دوچار بلوچستان شامل ہے۔ ان علاقوں میں مقامی این جی اوز فعال ہیں اور بہت اچھا کام کر رہی ہیں مگر جتنا وسیع بحران ہے اس کے ہوتے سب کا کام ملا کے بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ اس بحران نے قومی سلامتی کو حقیقی اندرونی خطرے میں ڈال دیا ہے مگر فیصلہ سازوں کی توجہ اب بھی بیرونی خطرات کے فریم میں پھنسی ہوئی ہے اور قیمتی وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ کوئی بھی دلیل روٹی، صاف پانی، خیمے، پناہ اور علاج سے بڑی نہیں ہو سکتی۔ یا تو ریاست میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ اس قیامت سے اکیلے نمٹ سکے۔ اگر یہ صلاحیت بھی چوپٹ ہو تو پھر کون سی سلامتی اور کون سے کروڑوں لوگ کہ جنہیں انجانے بیرونی خطروں سے بچانا اس وقت بھی ترجیح ہے جبکہ وہ حقیقی خطرے کی طغیانی میں غوطہ زن ہیں۔ کوئی تو حل ہو گا اس بوالعجبی کا؟
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes