kishmishwrites
kishmishwrites
Kishmish
66 posts
Don't wanna be here? Send us removal request.
kishmishwrites · 5 months ago
Text
"رازداری میں کیا گیا صدقہ اللّٰـــہ پاک کے غصے کو بجھاتا ہے۔“
دمشق کا معروف و مشہور تاجر رات کے پچھلے پہر سڑکوں پہ ٹہل رہا تھا۔ موسم خوشگوار ہونے کے باوجود اس کا دم گھٹا جا رہا تھا۔
ڈاکٹروں کے مطابق اس کے پاس ہفتہ یا دس دن سے زیادہ ٹائم نہیں تھا۔ دنیا کی ہر آسائش کے ہوتے ہوئے بے بسی کا یہ عالم تھا کہ ٹائم سے ‏پہلے ہی سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ ملک کے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔ ایک ننھی سی امید تھی کہ امریکا میں علاج ہو سکتا ہے وہ بھی دم توڑ گئی۔ جب وہاں کئی مہینے ٹیسٹ وغیرہ کروانے کے بعد سینئر ترین ڈاکٹر نے آخر کار ایک دن آ کر نرمی سے سمجھایا کہ آپ کے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے ۔ ‏لہٰذا میرا مشورہ ہے اور عقل مندی یہی ہو گی کہ باقی کا قیمتی ٹائم آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزاریں-
رات کے اس پہر بے خبری کے عالم میں نہ جانے کتنی دیر ٹہلتا رہا۔ اس کی سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک تنگ سے بے رونق پل پر پہنچ چکا تھا۔
‏سڑک پار دوسری طرف سٹریٹ لائٹ کے نیچے ایک خاتون کھڑی کسی آدمی سے گفتگو کر رہی تھی۔ تیس سال کے لگ بھگ خاتون کا انداز منت سماجت والا تھا، جبکہ بندہ کوئی اوباش قسم کا تھا جو کہ اس کی بات نہیں مان رہا تھا۔ اس کے چلنے کی رفتار خود بخود آہستہ ہو گئی، کانوں میں جب آواز پہنچنا ‏شروع ہوئی تو خاتون کہہ رہی تھی:
خدا کے لئے مجھے اتنے پیسوں کی ضرورت ہے، بچے بھوکے ہیں، میں تمہارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں۔
جبکہ وہ اوباش قسم کا بندہ اس خاتون کی (قیمت) آدھی سے بھی کم دینا چاہ رہا تھا اور یہ کہ تمہاری اس سے بھی کم قیمت بنتی ہے بول رہا تھا۔ پھر وہ ‏کندھے اُچکاتا ہوا چل پڑا اور خاتون حسرت کی تصویر بنی کھڑی رہ گئی-
وہ تھوڑا آگے جا کر مُڑا اور خاتون کی طرف چل دیا۔ اسے نزدیک آتا دیکھ کر خاتون چوکنی ہو گئی۔ اُمید بھری نظروں سے قریب آتے کو دیکھنے لگی۔ نزدیک پہنچنے سے پہلے خاتون آگے بڑھی اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے اپنے آپ سے ‏زبردستی کر رہی ہو ۔ اس نے قریب پہنچ کر سلام کیا۔ خاتون نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور تھوڑا قریب ہوتے ہوئے معنی خیز انداز بنا کر پوچھا کیا موڈ ہے؟
وہ پیچھے ہٹا اور نرمی سے کہا، نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ دراصل میں نے ابھی گزرتے ہوئے تمہاری ‏اس آدمی کے ساتھ تھوڑی سی گفتگو سنی ہے۔ مجھے بتاؤ میری بہن تمہارا کیا مسئلہ ہے؟
اس طرح پوچھنا تھا کہ خاتون ��و کہ مضبوط دکھائی دینے کی کوشش کر رہی تھی یکدم روہانسی ہو گئی بولی:
”بھائی قسم ہے اس ذات کی جو ہماری گفتگو سن رہا ہے، میں اس ٹائپ کی عورت نہیں ہوں جو اس وقت گھر سے نکل کر ‏سڑک پہ کسی کا انتظار کرے ۔ مگر میں بہت مجبوری کے عالم میں اس وقت اس جگہ پہ ہوں۔”
اسے لگا کسی نے اس کا دل مٹھی میں لے لیا ہو۔ اس نے مزید نرمی سے کہا دلوں کا حال تو اللّٰـــہ جانتا ہی ہے بہن، مجھے بتاؤ کیا بات ہے؟ بولی:
”میں ایک بیوہ عورت ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں شوہر کو فوت ہوئے ۔ سال ہونے کو ہے۔ شروع میں تو پڑوسی، رشتےدار کچھ مدد وغیرہ کر دیتے تھے، پھر آہستہ آہستہ سب نے ہاتھ کھینچ لیا۔ گھر میں راشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کرائے دار کا صبر بھی ختم ہو گیا ہے، اس نے کل شام تک کی آخری مہلت دی ہے۔ اگر کرایہ نہ دیا تو سامان سمیت گھر سے نکال دے گا ۔ میرے پاس اب اور کوئی چارہ نہیں رہا سوائے کہ اپنے آپ کو ۔۔۔“
یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بیٹھ گئی۔ اس نے بھی جلدی سے دوسری طرف مڑ کر بہانے سے اپنے آنسو صاف کئے۔ پھر مڑ کر جلدی سے بولا، بس بس ٹھیک ہے بہن کوئی بات نہیں اور اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے تو پتہ چلا کہ جیبوں میں جو رقم ہے، ‏وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ جس عالم میں وہ نکلا تھا اسے تو ہوش ہی نہیں تھا، اس نے خاتون سے کہا فی الحال یہ رکھو اور مجھے اپنا ایڈریس بتاؤ فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اپنے گھر جاؤ ان شاء اللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ خاتون بے یقینی کے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔
‏جیسے سوچ رہی ہو کہ اس پہ بھروسہ کرے کہ نا کرے
اس نے پھر سے یقین دھانی کرائی کہ تم جاؤ اور ایڈریس بتا دو بس۔ اس نے آخر کار ایڈریس بتا دیا اور پھر ایک طرف کو چل پڑی۔
تھوڑی دیر تک خاتون کو جاتا دیکھنے کے بعد وہ مڑا اور واپسی کی طرف تیزی سے قدم اٹھانے لگا۔
‏گھر پہنچ کر اس نے کافی مقدار میں نقدی لی اور ڈرائیور کو بڑی وین نکالنے کو کہا پھر خود ڈرائیو کرتے ہوئے شہر کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے سٹور سے راشن کی بڑی مقدار وین میں بھری اور خاتون کے بتائے ہوئے ایڈریس پہ پہنچ کر سارا راشن اس کے گھر اتارا باقی کی رقم خاتون کو دی اور کہا ۔۔۔
‏صبح کرائے دار سے وہ خود بات کر لے گا اور کرائے کا معاملہ نمٹا دے گا اور ان شاء اللّٰہ ہر مہینے مخصوص رقم آپ تک پہنچا دی جائے گی۔ یہ کہہ کر جلدی سے بنا کچھ کہے سنے واپس مڑ گیا۔ خاتون بُت بنى بے یقینی کے عالم میں کھڑی آنسؤوں بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی اور وہ وین سمیت نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
‏اس کی کیفیت اب کافی بلکہ بہت مختلف تھی، اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ کچھ گھنٹوں پہلے جو اس کی حالت تھی وہ اب یکسر بدل گئی تھی۔ اب اسے ہفتہ دس دن گزارنے کی جو فکر تھی وہ تھوڑی کم ہو گئی تھی۔ ہفتہ دس دنوں کا خیال آتے ہی اس نے کاغذ قلم لے کر خاتون کا ایڈریس لکھ کر وصیت لکھی ‏کہ ہر ماہ باقاعدگی سے چار لوگوں کے معقول سے بڑھ کر خرچے کی رقم اس ایڈریس پہ بھجوائی جائے۔ اور کاغذ کو لفافے میں بند کر کے تجوری میں رکھ دیا۔
اب اسے لگ رہا تھا کہ اپنے آخری سفر کے لئے وہ تیار ہے یا تھوڑی بہت تیاری کر لی ہے۔ پھر ہفتہ گزر گیا اور دس دن گزر گئے۔ پھر مزید دس اور پورے پندرہ دن گزر گئے۔ گھر والوں کے کہنے کے باوجود وہ ہسپتال نہیں گیا اور پھر پورا ایک مہینہ گزر گیا اور اگلے مہینے کی رقم بھی اس نے فوراً بھجوا دی۔
پھر ایسے ایک ایک مہینہ کرتے پورا سال گزر گیا اور وہ معمول کے مطابق رقم بھجواتا رہا۔ پھر پانچ سال، پھر دس سال گزر گئے اور پھر پورے بیس سال گزر جانے کے بعد ایک رات وہ معمول کے مطابق تہجد کے لئے اٹھا، وضو کر کے تہجد شروع کی اور سجدے میں دعا کرتے کرتے اس کی سانسیں ختم ہو گئیں ۔ وہ اس جہانِ فانی سے سجدے کی حالت میں رخصت ہو گیا۔
یہ سچا واقعہ یہاں ختم نہیں ہوتا اصل خلاصہ تو اب آنا ہے ۔
گھر والے جب صبح اٹھے تو اس کو سجدے کی حالت میں مردہ پایا۔ افسوس کے ساتھ ساتھ گھر والوں کو اس بات کی خوشی سی بھی تھی کہ اچھی اور مبارک موت ہوئی ہے۔
خیر تکفین و تدفین اور دیگر انتظامات کے بعد اولاد کا تجوری اور وصیت کھولنے کا وقت آیا تو وہ بند لفافہ بھی نکل آیا جو کم از کم بیس سال پہلے کی تاریخ کا ان کے والد ‏کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا اور اس کا مطلب تھا اس لکھے گئے ایڈریس پہ بیس سال سے رقم دی جاتی رہی ہے۔ لفافہ پڑھنے کے بعد ان کو پتہ چلا کہ والد صاحب کو فوت ہوئے سات دن ہو گئے ہیں جو کہ تکفین و تدفین اور رشتے دار لوگوں کے ملنے ملانے میں نکل گئے ہیں اور وصیت کے مطابق رقم کی ادائیگی سات دن لیٹ ہو گئی ہے۔
رقم لے کر وہ لوگ اس ایڈریس پر پہنچے تو دروازہ کھٹکھٹانے پر خاتون باہر آئی جو کہ اب پچاس سے اوپر کی ہو چکی تھی۔ سلام دعا کے بعد تاجر کے بڑے لڑکے نے خاتون سے مؤدب انداز میں کہا کہ ہم آپ کو والد صاحب کی طرف سے جو ماہانہ مخصوص رقم ہے وہ دینے آئے ہیں اور معذرت چاہتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی سات دن لیٹ ہو گئی وہ اصل میں۔۔۔
خاتون جلدی سے بولی، ارے نہیں نہیں کوئی بات نہیں آپ کے والد صاحب کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔ آپ لوگ میری طرف سے والد صاحب کو بہت بہت شکریہ بولئے گا اور اور انہیں بتائیے گا کہ ہم ہمیشہ انہیں دعاؤں میں یاد ‏رکھتے ہیں اور رکھیں گے، اور میری طرف سے آداب کے ساتھ انہیں بتائیے گا کہ اب انہیں رقم بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بیٹا حیرانگی سے بولا کیوں؟ اب کیوں نہیں ہے ضرورت رقم کی؟
‏خاتون نے خوشی کے آنسووں میں ملی آواز میں جواب دیا، اللّٰـــہ کے فضل سے مہینہ پہلے میرے بڑے بیٹے کی ملازمت لگی تھی اور سات دن پہلے ہی بیٹے اس کو اس کی پہلی تنخواہ ملی ہے ۔
خاتون روانی میں پتہ نہیں کیا کیا بولے چلے جا رہی تھی جب کہ لڑکوں کے کانوں میں خاتون کا یہی جملہ اٹک کر رہ گیا،
”سات دن پہلے ہی میرے بیٹے کو اس کی پہلی تنخواہ ملی ہے۔“
”سات دن پہلے ہی میرے بیٹے کو اس کی پہلی تنخواہ ملی ہے۔“
(عربی سے منقول)
فرمان ہے کہ :
“صدقة السر تطفئ غضب الرب”
رازداری میں کیا گیا صدقہ اللّٰـــہ پاک کے غصے کو بجھاتا ہے۔“
Tumblr media
3 notes · View notes
kishmishwrites · 9 months ago
Text
Tumblr media
ٰ "رف کاپی اور رف لوگ "
مجھے شروع سے کتابوں سے آتی خوشبو بہت پسند تھی۔ جب بھی کوئی کاپی یا کتاب لیتی تو اس کو سونگھتی کیوں کے اس کی چھپائی کی مہک آتی تھی اور وہ مہک کسی مہنگے پرفیوم سے کم تو نا تھی۔
اچھا کسی نے بچپن میں کاپیاں خریدتے ہوئے پنک کلر کی ' رف ' کاپی استعمال کی ہے ؟
میں نے بہت کی ہے وہ ہلکی سے گلابی صفحوں والی کاپی جو ذرا کھردری سی ہوتی تھی پر اب شاید وہ نہیں آتی دکانوں پہ یا پھر میری نظر سے نہیں گزری مگر بہت استعمال کی وہ کاپی۔۔
سارا کام جو ہوتا وہ اس پہ کیا جاتا اور پھر صاف ستھرا کر کے سفید رنگ والی کاپی پہ اتارا جاتا تھا ۔۔
کیا قسمت تھی نا اس 'رف ' کاپی کی بھی کہ استعمال تو ہوتی تھی پر صاف ستھری نہیں رہتی تھی اور شاید سب صاف ستھری کاپیاں بھی اس کے ' رف ' ہونے کا مذاق اڑاتی ہوں۔۔۔
اور سب کے بیچ میں وہ گلابی صفحات والی کاپی خود کو اچھوت محسوس کرتی ہو ۔ ان چاہی موجودگی ۔۔۔
ہماری زندگی میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں وہ ' رف ' کاپی سمجھتے ہیں اور خود کو وہ صاف ستھری کاپیاں۔۔ ہمارے اوپر سب کچھ آزمایا جاتا۔ اور پھر استعمال کر کے ہمیں پھینک دیا جاتا ہے ۔
لیکن ایک بات بتاؤں آپ کو جیسے کاپی پہ پڑی آڑھی ترچھی لکیریں اپنا اثر رکھتی ہیں اپنے نشان چھوڑتی ہیں بلکل ویسے ہی ہم پہ کی گئ لوگوں کی باتیں اور ان کے ہم پہ آزمائے ہوئے تجربات اپنا نشان چھوڑ جاتے ہیں اور پھر وہ کبھی نہیں مٹتے ۔ دنیا کا کوئی ربڑ اُن نشانوں اُن اٹھی ترچھی لکیروں کو نہیں مٹا سکتا ہے ۔
آپ دیکھ لیں کسی بھی کاپی پر آپ جب کچھ لکھتے ہیں تو چاہے جتنا مرضی ربڑ کا استعمال کر لیں نشان ہلکا سا بھی ہو رہ جاتا ہے اور اگر کسی نے بہت زیادہ کاپی پہ زور سے لائنیں لگائی ہوں تو اس کے نشان نچلے باقی صفحات پہ بھی آ جاتے ہیں۔۔۔
بلکل ایسے ہی جو لوگ ہماری زندگی میں کم یا زیادہ توڑ پھوڑ کرتے ہمارے بارے میں جو بھی کہتے ہیں ، وقت ان کو مدہم ضرور کر دیتا مگر ان کے نشانات نہیں جاتے۔۔ کوئی کسی کو دئیے ہوئے دکھ ، اذیت، تکلیف دے کر واپس نہیں لے سکتا ہے اور نا ان کو مٹا سکتا ہے ۔۔۔
تو ہماری زندگی اور 'رف' کاپی کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے ۔ وہ بھی سب خود پہ برداشت کرتی ہے اور ہم بھی۔۔۔ کسی کی زندگی میں ہم وہ ایکسٹرا کاپی ہوتے اور کبھی کوئی ہماری زندگی میں ایکسٹرا کاپی کی مانند ہوتا جس کے ساتھ ہم بھی ویسا ہی کرتے جو 'رف' کاپی کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔۔۔
کوشش کریں بس کے لگی ہوئی لائنیں یا لگائی گئی لائنیں اتنی گہری نا ہو کہ زندگی بھر وہ نشان کبھی مٹ نا سکیں۔۔۔ کاپی ہو سکتا ہے صاف ہو جائے مگر جناب یہ جو انسان کا دل ہوتا ہے نا اور یہ جو روح ہوتی اس سے کچھ بھی نہیں مٹ سکتا۔۔۔۔!!!
Tumblr media
2 notes · View notes
kishmishwrites · 9 months ago
Text
جب آپ کے فون کی اسکرین ٹوٹ جاتی ہے تو آپ پہلے پہل بے حد پریشان ہوتے ہیں
آپ سوچتے ہیں کہ آپ اسے اس حالت میں برداشت نہیں کر سکیں گے
لیکن چند دنوں کے بعد آپ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور ایسے برتاؤ کرتے ہیں جیسے وہ بالکل ٹھیک ہو
آپ کی نظر میں وہ دراڑیں اب خاص توجہ کا مرکز نہیں رہتیں
بالکل اسی طرح، جب آپ دنیا میں آتے ہیں تو ہر روز کسی نہ کسی واقعے یا شخص کے سامنے ٹوٹتے ہیں، اور وقت گزرنے کے ساتھ آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آپ کی تمام ٹوٹ پھوٹ ٹھیک ہو چکی ہے
مگر حقیقت میں وہ دراڑیں آپ کے اندر ہمیشہ موجود رہتی ہیں
1 note · View note
kishmishwrites · 10 months ago
Text
تبدیلی
انسان بدلتا نہیں بلکہ بدلتے حالات کے ساتھ اس کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا ہے زمانہ تب بدلتا ہے جب انسان بدلتا ہے، اور انسان تب بدلتا ہے جب اسکا کردار بدلتا ہے۔ کردار سوچ بدلنے کا نتیجہ ہوتا ہے اور سوچ کا بدلاؤ زیادہ تر حالات سے تعلق رکھتا ہے۔ جب کم ظرف لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے تو وہ بدل جاتے ہیں آسمان سر پر اٹھاتے ہیں۔ لوگ بھی خوش آمد کر کرکے ان کو سر پر بٹھاتے ہیں۔ لوگوں کی رائے بدل جاتی ہے یہاں پر، کوئی اس کو ذہین سمجھنے لگتا ہے تو کوئی خوش نصیب کوئی قسمت دار تو کوئی محنتی کا نام سونپ دیتے ہیں حیثیت سے زیادہ عزت ملنے پر وہ اکثر تمیز نام کی چیز بھول جاتا ہے اسکا سوچ بدل جاتا ہے اور احساس برتری کا شکار ہو جاتا ہے
پیسے سے ہم اپنا گھر بار، رہن سہن، کھانا پینا غرض پوری زندگی بدل تو سکتے ہیں لیکن ہماری اوقات وہی رہتی ہے جو اصل میں ہوتی ہے ہماری اوقات پہ پیسے کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہاں اگر انسان اعلیٰ ظرف ہے تو اچھا بدلاؤ ہوتا ہے وہ اپنی اوقات کبھی نہیں بھولتا اسی لیے کہتے ہیں:
پیسہ، حیثیت بدل سکتا ہے اوقات نہیں
#copied
7 notes · View notes
kishmishwrites · 10 months ago
Text
خاموشی
خاموشی، ایک ایسا لفظ جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، لیکن اس کی اہمیت کو ناقابل یقین طور پر کم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسا دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دیتا، ایک ایسا ساتھی جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے، اور ایک ایسا استاد جو ہمیں زندگی کے سب سے قیمتی سبق سکھاتا ہے۔
آج کے اس شور شرابے سے بھرے دور میں، خاموشی ایک ایسی نعمت ہے جسے ہم اکثر بھول جاتے ہیں۔ ہر طرف ہنگامہ، ہر طرف شور، اور ہر طرف باتیں۔ اس سب کے درمیان، خاموشی ایک ایسی پناہ گاہ ہے جہاں ہم اپنے آپ کو تلاش کر سکتے ہیں۔
خاموشی کے فوائد بے شمار ہیں۔ یہ ہمیں اپنے اندر کی آواز سننے کا موقع دیتی ہے۔ جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ زیادہ واضح طور پر سوچ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بہتر فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ خاموشی سے ہم دوسروں کو بھی سننے کا موقع دیتے ہیں۔ کبھی کبھی لوگوں کو صرف سننے کی ضرورت ہوتی ہے۔
خاموشی سے ہم بہت سی الجھنوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔ جب ہم زیادہ بولتے ہیں تو کبھی کبھی ایسی باتیں بھی نکل جاتی ہیں جن پر ہمیں بعد میں پچھتاوا ہوتا ہے۔ خاموشی سے ہمارے تعلقات بھی بہتر ہوتے ہیں۔ جب ہم خاموش ہوتے ہیں تو دوسرے لوگ ہمیں زیادہ توجہ سے سنتے ہیں اور ہماری باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
خاموشی سے ہم اپنی توانائی کو بھی بچا سکتے ہیں۔ جب ہم زیادہ بولتے ہیں تو ہماری توانائی ضائع ہوتی ہے۔ خاموشی سے ہم اپنی روح کو سکون دیتے ہیں۔
خاموشی ایک فن ہے، جسے سیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم روزانہ کچھ وقت خاموشی کے لیے نکالیں تو ہم اس فن میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میڈٹیشن کر سکتے ہیں، یا کسی پرسکون جگہ پر بیٹھ کر خاموش رہ سکتے ہیں۔
خاموشی کا سفر آسان نہیں ہے۔ ہمارے اردگرد اتنا شور ہے کہ خاموشی کو برقرار رکھنا مشکل کام ہے۔ لیکن اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم خاموش رہیں گے تو ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
خاموشی ہی زندگی کی اصل آواز ہے۔
7 notes · View notes
kishmishwrites · 10 months ago
Text
ایک اور صاحب سے میری دیرینہ شناسائی ہے جنہوں نے دوسروں کی زندگیوںکو جہنم بنا کر اپنی زندگی کو جنت بنا رکھا ہے۔ یہ صاحب ریٹائرڈ ہیڈ کلرک ہیں اور لاہور کے ایک نواحی گائوں میں رہتے ہیں۔ ضلع کچہری کے پاس انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے۔ ان کا واحد شوق لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمے دائر کر کے انہیں تھانوں اور عدالتوں میں خوار کرنا ہے۔ وہ زیادہ تر مقدمے لاہور سے باہر کے لوگوں پر کرتے ہیں، دو چار سال بعد یہ مقدمہ خارج ہو جاتا ہے لیکن ان دو چار برسوں میں بیچارا ملزم لاہور کے پھیرے لگا لگا کر اپنے علاقے میں ’’بھائی پھیرو‘‘ مشہور ہو جاتا ہے۔ میں نے ایک دفعہ ان صاحب سے پوچھا ’’آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ’’بولے‘‘ پولیس کے غریب اہلکاروں، وکیلوں کے منشیوں اور عدالتوں کے درجہ چہارم کے مظلوم ملازموں کے گھروں کا چولہا مجھ ایسے دردمند لوگوں ہی کی وجہ سے جلتا ہے۔ میں تو سوچتا ہوں اگر میں فوت ہوگیا تو ان بے چاروں کا کیا بنے گا؟
عطا ء الحق قاسمی
1 note · View note
kishmishwrites · 10 months ago
Text
تلخ رویے زہر کی مانند ہوتے ہیں جو انسان کے اندر گہرائی تک اثر کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسان کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں بلکہ اس کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ تلخ رویوں کا سامنا کرنے والے افراد اکثر ڈپریشن، اضطراب اور تنہائی کا شکار ہوتے ہیں
آپ کا تلخ رویہ صرف دوسروں کو ہی نہیں بلکہ آپ کی طبیعت و مزاج کو بھی متاثر کرتا ہے
5 notes · View notes
kishmishwrites · 10 months ago
Text
اگر چہ ہم سمجھتے ہیں کہ دماغ کا انتخاب زیادہ درست ہے لیکن ان چیزوں کو ترک کرنا مشکل ہوتا ہے جنہیں ہمارا دل چنتا ہے
یہ ایک بہت ہی عام انسانی تجربہ ہے
دل اور دماغ کی باہمی کشمکش اکثر ہمیں مشکل میں ڈال دیتی ہے
دل کی خواہشات اکثر جذباتی اور فوری طور پر خوش کر دینے والی ہوتی ہیں لیکن دماغ کی باتیں منطقی اور طویل المدتی فائدے کی حامل ہوتی ہیں
8 notes · View notes
kishmishwrites · 10 months ago
Text
اپنی زندگی سے دور ہو جانے والی چیزوں کے پیچھے مت بھاگیں ورنہ انہیں پانے کیلئے بھاگیں گے تو اہنے پاس موجود نعمتوں سے بھی لطف نہیں اٹھا سکیں گے
Tumblr media
3 notes · View notes
kishmishwrites · 11 months ago
Text
خودی کی تلاش
لوگوں کو متاثر کرنے کی خواہش ایک ایسی زنجیر ہے جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ ذہنی قید کی ایک بہت گہری شکل ہے جو انسان کو اپنے اصل خود سے دور کر دیتی ہے۔
آئیے اسے کچھ اور زاویوں سے سمجھتے ہیں:
* خوشی کی تلاش میں گم: جب ہم صرف دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اپنی خوشی کو بھول جاتے ہیں۔
* اصل خود کو چھپا کر رکھنا: ہم اپنی اصل شخصیت کو چھپا کر ایک نقاب اوڑھ لیتے ہیں۔
* ناکامی کا خوف: دوسروں کی رائے ہمارے لیے سب سے اہم ہو جاتی ہے اور ناکامی کا خوف ہمارے اندر سرایت کر جاتا ہے۔
* مقصد سے بھٹک جانا: ہم اپنا اصل مقصد بھول جاتے ہیں اور صرف دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
* اپنی قدر کریں: خود پر یقین رکھیں اور اپنی کمزوریوں کو قبول کریں۔
* اپنی رائے رکھیں: دوسروں کی رائے کو اہمیت دیں لیکن اپنی رائے پر بھی قائم رہیں۔
* اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کریں: دوسروں کی بجائے اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کریں۔
* اپنی زندگی جئیں: دوسروں کو خوش کرنے کی بجائے اپنی زندگی کو اپنے طریقے سے جئیں۔
یاد رکھیں: خوشی دوسروں کو متاثر کرنے میں نہیں بلکہ اپنے آپ کو قبول کرنے اور اپنی زندگی سے محبت کرنے میں ہے
6 notes · View notes
kishmishwrites · 11 months ago
Text
غلط فہمیاں
غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ بات چیت اور گفتگو ہے۔ جب دو افراد کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے حل کرنے کا پہلا قدم ایک دوسرے کی بات سننا اور اپنی بات کو واضح طور پر بیان کرنا ہوتا ہے۔ لیکن افسوسناک طور پر اکثر اوقات ہم اسی بات چیت کے دروازے کو بند کر دیتے ہیں۔
یہ بات چیت کا دروازہ بند کرنا بہت سی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جیسے:
* خوف: ہم خوفزدہ ہوتے ہیں کہ بات چیت میں ہماری کوئی بات غلط سمجھی جا سکتی ہے یا ہماری عزت مجروح ہو سکتی ہے۔
* غصہ: غصے میں آکر ہم بات چیت کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
* مغروریت: ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم غلط ہو سکتے ہیں۔
* وقت کی کمی: ہمیں لگتا ہے کہ بات چیت کرنے کے لیے ہمارے پاس کافی وقت نہیں ہے۔
بات چیت کا دروازہ بند کرنا دراصل مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس سے دوریاں بڑھتی ہیں اور رشتے کمزور ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھیں۔
بات چیت کا دروازہ کھولنے کے لیے ہم یہ کام کر سکتے ہیں:
* صبر سے سنیں: جب کوئی ہم سے بات ��ر رہا ہو تو صبر سے اس کی بات سنیں۔ اس کے درمیان میں بات نہ کاٹیں۔
* واضح طور پر بات کریں: اپنی بات کو واضح اور سادہ الفاظ میں بیان کریں۔
* ایک دوسرے کی جگہ خود کو رکھیں: دوسرے شخص کی احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
* الزامات سے بچیں: الزامات لگانے سے بات چیت کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
* حل تلاش کریں: مسئلے کا حل تلاش کرنے پر توجہ دیں۔
اگر ہم بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں گے تو ہم نہ صرف اپنی غلط فہمیوں کو دور کر سکیں گے بلکہ اپنے رشتوں کو بھی مضبوط بنا سکیں گے۔
آپ کی کیا رائے ہے؟
2 notes · View notes
kishmishwrites · 11 months ago
Text
غلط فہمیاں
غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ بات چیت اور گفتگو ہے۔ جب دو افراد کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اسے حل کرنے کا پہلا قدم ایک دوسرے کی بات سننا اور اپنی بات کو واضح طور پر بیان کرنا ہوتا ہے۔ لیکن افسوسناک طور پر اکثر اوقات ہم اسی بات چیت کے دروازے کو بند کر دیتے ہیں۔
یہ بات چیت کا دروازہ بند کرنا بہت سی وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے جیسے:
* خوف: ہم خوفزدہ ہوتے ہیں کہ بات چیت میں ہماری کوئی بات غلط سمجھی جا سکتی ہے یا ہماری عزت مجروح ہو سکتی ہے۔
* غصہ: غصے میں آکر ہم بات چیت کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
* غرور: ہم یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہم غلط ہو سکتے ہیں۔
* وقت کی کمی: ہمیں لگتا ہے کہ بات چیت کرنے کے لیے ہمارے پاس کافی وقت نہیں ہے۔
بات چیت کا دروازہ بند کرنا دراصل مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ اس سے دوریاں بڑھتی ہیں اور رشتے کمزور ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھیں۔
بات چیت کا دروازہ کھولنے کے لیے ہم یہ کام کر سکتے ہیں:
* صبر سے سنیں: جب کوئی ہم سے بات کر رہا ہو تو صبر سے اس کی بات سنیں۔ اس کے درمیان میں بات نہ کاٹیں۔
* واضح طور پر بات کریں: اپنی بات کو واضح اور سادہ الفاظ میں بیان کریں۔
* ایک دوسرے کی جگہ خود کو رکھیں: دوسرے شخص کی احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
* الزامات سے بچیں: الزامات لگانے سے بات چیت کا ماحول خراب ہوتا ہے۔
* حل تلاش کریں: مسئلے کا حل تلاش کرنے پر توجہ دیں۔
اگر ہم بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں گے تو ہم نہ صرف اپنی غلط فہمیوں کو دور کر سکیں گے بلکہ اپنے رشتوں کو بھی مضبوط بنا سکیں گے۔
آپ کی کیا رائے ہے؟
1 note · View note
kishmishwrites · 11 months ago
Text
رشتے اور جذبات:
یہ بات درست ہے کہ گہرے رشتے بہت خوشی بھی دیتے ہیں اور بہت دکھ بھی۔ جب ہم کسی سے بہت جڑ جاتے ہیں تو ان کے جانے کا خیال ہمیں بہت ڈراتا ہے
یہ زندگی کا ایک قدرتی حصہ ہے کہ ہم رشتوں میں باندھے جاتے ہیں اور ان سے جدا ہونے کا درد محسوس کرتے ہیں
دنیا کی ہر اچھی چیز کا ایک برے پہلو بھی ہوتا ہے۔ رشتے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں
3 notes · View notes
kishmishwrites · 11 months ago
Text
زندگی
* زندگی بذات خود بہت آسان اور ہلکی پھلکی سی ہوتی ہے
* زندگی کی بنیادی فطرت نہایت سادہ اور بے تکلف ہوتی ہے
* وزن تو سارا خواہشات کا ہوتا ہے
* یہ زندگی کی پیچیدگیاں اور مشکلات ہی تو ہیں جو دراصل ہماری اپنی خواہشات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں
بہترین بات تو یہ ہے کہ:
* سادگی سے جِئیں
* زندگی کو پیچیدہ نہ بنائیں
* خواہشات پر قابو پائیں
* زیادہ خواہشات رکھنے سے ہم پریشان رہتے ہیں
* موجودہ لمحے کو گزاریں
* ماضی کا افسوس اور مستقبل کی فکر نہ کریں
2 notes · View notes
kishmishwrites · 11 months ago
Text
نفرت
نفرت ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ خود انسان کو بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ ایک منفی جذبات ہے جو انسان کو دوسروں سے دور کر دیتا ہے اور سماج میں انتشار پھیلاتا ہے۔
نفرت کی جڑیں مختلف وجوہات میں ہو سکتی ہیں جیسے کہ:
* تعصب: کسی خاص گروہ، مذہب، یا قومیت کے خلاف نفرت۔
* حسد: دوسرے کی کامیابی یا خوشی پر حسد کرنا۔
* بدلہ: کسی سے کسی نقصان یا تکلیف کی وجہ سے بدلہ لینا۔
* نہ سمجھنا: دوسرے کی سوچ اور احساسات کو سمجھنے میں ناکامی۔
نفرت کے اثرات بہت سنگین ہوتے ہیں جن میں شامل ہیں:
* دوسروں کو نقصان: جس شخص سے نفرت کی جاتی ہے اسے جسمانی اور نفسیاتی طور پر نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
* سماج میں انتشار: نفرت سے سماج میں نفرت، دشمنی اور تشدد پھیلتا ہے۔
* ذاتی زندگی تباہ ہونا: نفرت سے انسان کی ذاتی زندگی تباہ ہو سکتی ہے اور وہ دوسروں سے تعلقات قائم نہیں رکھ پاتا۔
* نفسیاتی بیماریاں: نفرت سے انسان میں مختلف نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
نفرت سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
* دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں: دوسروں کی سوچ اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
* تعصب سے بچیں: کسی بھی قسم کے تعصب سے بچیں۔
* معاف کرنے کی عادت ڈالیں: اگر کوئی آپ کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے معاف کرنے کی کوشش کریں۔
* محبت اور شفقت پھیلائیں: دوسروں کے ساتھ محبت اور شفقت کا سلوک کریں۔
* اپنے آپ کو مثبت سوچوں سے بھرپور رکھیں: منفی سوچوں سے دور رہیں اور مثبت سوچوں کو فروغ دیں۔
نفرت ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کو بچنا چاہیے۔ اس کے بجائے محبت، شفقت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے
2 notes · View notes
kishmishwrites · 1 year ago
Text
Tumblr media
الســـــلام علــــــیکم ورحمتہ اللہ وبركاتہ
"وہ رب تمہاری مرضی کے مطابق تمہاری زندگی کو بدل دے گا بس صبر کرنا اور یقین کامل رکھنا وہ تمہاری کہانی مکمل ��رے گا اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں...♥️
صــــــبح بخــــــیر
8 notes · View notes
kishmishwrites · 1 year ago
Text
اختلافات ہمیشہ بہادر اور اصول پسند لوگ رکھتے ہیں
مفاد پرست اور لالچی لوگ ہمیشہ چمچہ گیری اور چاپلوسی میں زندگی گزار دیتے ہیں
11 notes · View notes