Tumgik
#امن کی خواہش
hassanriyazzsblog · 1 year
Text
🌹🌹 *ₚₑₐ𝄴ₑ 𝄴ᵤₗₜᵤᵣₑ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣8️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *PEACE CULTURE*
*One of the teachings of Islam is that when a person meets someone, both should greet each other.*
(Sunan an-Nasai, Hadith No. 10078)
*That is, they should say “peace be upon you” to each other.*
*Islam is a culture of peace, and saying “peace be upon you” is a symbol of this culture.*
*The teaching of Islam is that there should be feelings of mercy and compassion for the other in the heart of every person.*
*Every person should desire a peaceful life for another.*
*Every person should strive to make society a symbol of peace and security.*
*This is the basic teaching of Islam.*
*The fact is that all the teachings of Islam are directly or indirectly based on the principle of peace because, without it, no constructive work can be done.*
*Where there is no peace, there will be no development.*
*Peace is as important to the development of society as water is to the fertility of the land.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *پرامن زندگی :*
*اسلام کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ملے تو دونوں ایک دوسرے کو سلام کریں۔*
(سنن نسائی)
*یعنی وہ ایک دوسرے سے "السلام علیکم" کہیں۔*
*اسلام امن کی ثقافت ہے، اور "السلام علیکم" کہنا اسی ثقافت کی علامت ہے۔*
*اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص کے دل میں دوسرے کے لیے رحم اور ہمدردی کے جذبات ہوں۔*
*ہر شخص کو دوسرے کے لیے پرامن زندگی کی خواہش کرنی چاہیے۔*
*ہر فرد کو معاشرے کو امن و سلامتی کی مثال بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔*
*یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔*
*حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امن کے اصول پر مبنی ہیں کیونکہ، اس کے بغیر، کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔*
*جہاں امن نہیں وہاں ترقی نہیں ہو گی۔*
*امن معاشرے کی ترقی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا پانی زمین کی زرخیزی کے لیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ* 🍂
🔸 *اپنے گھرمیں سلام کہ کر داخل ہونے والے کے ضامن اللہ تعالیٰ ہے :*
*آپ ﷺ نے فرمایا ! تین انسانوں کی حفاظت کرنا اللہ کے ذمہ ہے ،*
*١- وہ انسان جو اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے نکلا ،اللہ اس کا ضامن ہے یہاں تک کہ اس کو فوت کرے گا ،*
٢ *​- وہ انسان جو مسجد (کی جانب ) گیا ، اللہ اس کا ضامن ہے اور*
٣ *​- وہ انسان جو اپنے گھر میں السلام و علیکم کہتا ہوا داخل ہوا ،اس کا بھی اللہ ضامن ہے .*
(صیح ابو داؤد #٢١٧٨)
🔸 *رخصت ہوتے وقت بھی سلام کہیں :*
*آپ ﷺ نے فرمایا ! جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو السلام و علیکم کہے ،اگر وہاں بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے ، پھر وہاں سے اٹھے تو ،، السلام و علیکم ،، کہے اس لئے کے پہلا سلام آخری سلام سے ز یادہ ضروری نہیں ہے .*
(صیح الترمذی #٢١٧٧)
*رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ ایمان لے آؤ ، اور تم ایمان (مکمل ) نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، کیا تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں ،اگر تم اسے کرے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے ؟ السلام (السلام و علیکم ) کو اپنے درمیان پھیلا دو .*
(صحیح مسلم)
*نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : "سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے اور چلنے والا بیٹھنے والے کواور کے تعداد والے بڑی جماعت کو سلام کریں"-*
(صحیح بخاری و مسلم)
*مزید آپ ﷺ نے فرمایا:" فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے ،مگر اسے سلام نہیں کہتا"-*
*اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "پہچاننے والے اور نہ پہچاننے والے سب کو سلام کریں"*
(صحیح بخاری و مسلم)
*ایک اور جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:" جو دو مسلمان ملتے ہیں اور مصحافہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے انہیں معاف کر دیا جاتا ہے -"*
( ابوداؤد، ابن ماجہ و ترمزی)
*مزید آپ ﷺ نے فرمایا :"جو شخص سلام سے پہلے کلام شروع کر دے ، اس کا جواب نہ دو ،جب تک کہ وہ سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے -"*
( الطبرانی)
🍂 *غایبانہ ( غیر موجود احباب ) کو سلام بھیجنے کا طریقہ :*
*عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کھ مجھ سے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ جبرئیل علیہ السلام ہیں جو تجھے سلام عرض کرتے ہیں ،، عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ،، میں نے جواب میں کہا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاته ،،-*
(صیح بخاری # ٦٢٥٣)
🔸 *قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:*
*اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔*
(النساء:86)
*اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : "سلام کو عام کرو"۔*
(کتاب صحیح الجامع)
🔸 *سر راہ ملاقات اور معمولی جدائی پر دوبارہ سلام کہنا چاہیے :*
*نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کھ وہ سلام کہے اگر درمیان میں کوئی درخت ، دیوار یا پتھر آ جائے پھر اس سے ملاقات ہو تو اسے چاہیے کھ پھر سلام کہے .*
{صیح ابی داؤد حدیث #٤٣٣٢ }​
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
نئے چیف جسٹس سے قوم کی توقعات
Tumblr media
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس منصب جلیلہ پر فائز ہوتے ہی ان سے قوم نےبہت سی توقعات وابستہ کر لی ہیں کیونکہ ان کی شہرت ایک ایسے جج کی ہے جو نہ صرف آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ آئین کی بنیادی روح کو بھی سمجھتے ہیں اور ان پر کوئی اثر انداز بھی نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت قوم ہمارا عظیم المیہ یہ رہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ قابل فخر نہیں رہی، جس کی وجہ سے ہم عظیم بحرانوں کا شکار ہیں ۔ چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال کا دور ختم ہو گیا ہے۔ بدقسمتی سے ان کے دور میں بھی ہماری عدلیہ کے ناقابل فخر کردار کا عمومی تاثر نہ صرف یہ کہ ختم یا کم نہیں ہوا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے فیصلوں سے جتنا اختلاف ان کے ساتھ بینچز میں شامل جج صاحبان نے کیا ، شاید اتنا اختلاف کسی اور چیف جسٹس کے فیصلوں پرنہیں ہوا ۔ ان کی سربراہی میں قائم کردہ ایک بینچ کے اکثریتی فیصلے پر تو ایک جج صاحب نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ تک لکھ دیا کہ’’ اس فیصلے سے آئین کو ازسر نو تحریر کیا گیا ہے۔ ‘‘اختلافی نوٹ کا یہ جملہ عدلیہ کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کی ایک تاریخی چارج شیٹ ہے۔ 
چیف جسٹس (ر) عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے اپنی سربراہی میں قائم کردہ تین رکنی بینچ کا دو ایک کی اکثریت سے جو آخری فیصلہ سنایا ہے، جس میں قومی احتساب آرڈی ننس یعنی نیب آرڈی ننس میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے نہ صرف بینچ کے ایک رکن جسٹس منصور علی شاہ نے اختلاف کیا بلکہ اپنا ایک ایسا اختلافی نوٹ لکھا ہے، جس میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ ’’ اس کیس میں بنیادی سوال نیب آرڈی ننس میں ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمان کی بالادستی کا ہے۔‘‘ اس اختلافی نوٹ میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے پارلیمان کے اختیارات استعمال کئے ہیں۔ ہماری عدلیہ کا یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اس نے نہ صرف مقننہ ( پارلیمنٹ ) اور انتظامیہ (ایگزیکٹو) کے اختیارات میں مداخلت کی اور جوڈیشل ایکٹیوزم سے اس مداخلت میں اضافہ کیا بلکہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً فوجی آمروں کی آئین شکنی کو بھی درست قرار دیا۔ 
Tumblr media
عدلیہ پر نہ صرف یہ الزام ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے راستہ ہموار کیا بلکہ بعض جج صاحبان نے خود بھی پولیٹیکل انجینئرنگ بھی کی۔ عمر عطا بندیال ، ثاقب نثار ، آصف سعید کھوسہ ، گلزار احمد اور افتخار چوہدری پر یہ الزامات بہت زیادہ ہیں ۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی ، کرپشن اور معاشی بحران کا شکار ہے ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جنگ اور معاشی بحران پر قابو پانے کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن اس جنگ اور ان کی کوششوں میں ہر ادارے کی اپنی آئینی حدود ہیں ، جو خطرناک حد تک پار کر لی گئی ہیں۔ یہ صورت حال حقیقی جمہوریت ، قانون، آئین کی عمل داری اور معاشی استحکام کیلئے خطرناک ہے ۔ اگر ادارے اپنی آئینی حدود میں کام نہیں کریں گے تو حالات مزید بگڑ تے جائیں گے ۔ ملک میں نہ جمہوریت جڑ پکڑ سکے گی، نہ امن قائم ہو سکے گا ، نہ معیشت ٹھیک ہو گی اور نہ احتساب کا مضبوط نظام قائم ہوپائے گا۔ اس صورت حال میں پاکستان کی عدلیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود سمیت دیگر اداروں کو آئینی حدود سے باہر نہ نکلنے دے۔ 
مقننہ اور سویلین انتظامیہ کے اختیارات میں تجاوز کر کے انہیں مفلوج کر دیا گیا ہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس ناجائز خواہش پر مبنی کردار کی تمنا ہی ازخود آئینی اور ریاستی ڈھانچے کو منہدم کر رہی ہے ۔ ریاست پاکستان میں طاقت کا ایک مرکز نہیں رہا، جس کی مضبوط بنیاد عوام کے آزادانہ جمہوری فیصلے ہوتے ہیں بلکہ طاقت کے کئی مراکز بن گئے ہیں ، جو انتشار کا باعث ہیں۔ احتساب کا نظام صرف پولیٹیکل انجینئرنگ کا ہتھیار بن کر رہ گیا ہے اور بعض طاقتور حلقے احتساب سے بالاتر ہیں۔ اب پاکستان کو کسی ’’ ہیرو ‘‘ یا ’’ نجات دہندہ ‘‘ کی ضرورت نہیں ۔ مہذب اور جمہوری معاشروں کی طرح ایسے لوگوں کی ضرورت ہے ، جو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے قائل ہوں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ داروں کو مقننہ اور انتظامیہ کی حدود میں مداخلت سے روکنا ہی آج کی عدلیہ اور خصوصاً نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس چیلنج سے کیسے بنرد آزما ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے انہیں اپنے ’’ ہاوس کو آرڈر میں لانا ہو گا ‘‘ یعنی اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا تاکہ جج صاحبان میں گروہ بندی کا وہ تاثر ختم ہو ، جو عمر عطا بندیال کے دور میں پیدا ہوا ۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق یا خود عدلیہ کی سوچ کے مطابق سب مسائل کو حل کرنے کا زعم اگر کسی میں ہے تو اسے ختم کرنا ہو گا۔ پاکستان میں مقننہ اور سول انتظامیہ کو مضبوط بنانا ہو گا۔ احتساب کا سیاسی انتقام یا پولیٹیکل انجینئرنگ والا نظام ختم کر کے جمہوری اداروں کے ذریعے احتساب کا مضبوط نظام قائم کرنا ہو گا۔ اس کیلئے نیب آرڈی ننس کو درست کرنے کی پارلیمان کی دانش سے اتفاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ آرڈی ننس نہ صرف پروڈا ، ایبڈو اور پوڈا جیسے سیاہ قوانین کا چربہ اور تسلسل ہے بلکہ انہی سیاہ قوانین کے پس پردہ مذموم مقاصد اور بدنیتی کا ورثہ ہے۔ اگر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ادارے اپنی آئینی حدود میں واپس آجاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کی بڑی کامیابی ہو گی بلکہ عدلیہ کی ساکھ اور اس کا اعتبار بحال کرنے میں مددگاربھی ملے گی۔ قوم کو نئے چیف جسٹس سے یہی توقعات ہیں۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
اگر طیب ایردوآن ہار جاتے؟
Tumblr media
دعا کریں، طیب ایردوآن جیت جائیں، ورنہ خطہ بہت سے مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔’ یہ جملہ پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ہے۔ ترکیہ کے صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے بعد کی بات ہے جو بے نتیجہ رہا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب وزیر اعظم نے یہ بات اپنے ایک دوست عظیم چودہری سے تشویش کے لہجے میں کہی۔ ترکیہ جیسا عزیز از جان دوست ہو یا کوئی بھی دوسرا دوست ملک، ایک دوست کی حیثیت سے اس کے انتخابی عمل میں اصولی طور پر اتنی دل چسپی ہی ہونی چاہیے کہ انتخابات پر امن رہیں اور عوام کی حقیقی رائے کے مظہر ہوں۔ یہ بھی درست ہے کہ رجب طیب ایردوآن پاکستان کے لیے ہمیشہ پرجو�� اور پر خلوص رہے ہیں اور شریف خاندان سمیت پاکستانی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات بھی گرم جوش ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات میں ان کی کامیابی کی خواہش اور فکر مندی فطری ہے لیکن خطے کے مسائل سے اس معاملے کا کیا تعلق؟ یہ سوال جتنا ترکیہ کے عوام کے لیے اہم ہے، اتنا ہی اہم پاکستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی ہے۔ ترکیہ میں حالیہ انتخاب محض انتخاب نہ تھے، تہذیبی آویزش تھی۔ دو برس ہوتے ہیں، ترکیہ کے ایک چھوٹے صوبے بردر کے شہر بردر میں واقع محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی میں ایک نوجوان اسکالر سر این دال سے ملاقات ہوئی۔ 
بین الاقوامی تعلقات کے اس سنجیدہ طالب علم نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ ہماری قیادت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس سلسلے میں مجھے جو کہنا تھا کہا لیکن جواب میں؛ میں نے یہ سوال کیا کہ جن ترکوں سے اس موضوع پر بات ہوتی ہے، وہ بہت پرجوش ہوتے ہیں یا ان میں تشویش کا ایک پہلو دیکھنے کو ملتا ہے۔ سبب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اس سوال کا جواب تو میں آپ کو اسی وقت بھی دے سکتا ہوں لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ کچھ چیزیں آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خود کسی فیصلے پر پہنچیں۔ رات کا کھانا کچھ دیر میں ختم ہو گیا۔ مجھے کچھ خریدنا تھا چناں چہ ہم دونوں ان کی منگیتر کے ساتھ پہلے ہوٹل کی لابی میں پہنچے پھر شاپنگ ایریا میں اور اس کے بعد کچھ دیگر مقامات پر۔ کہنے لگے کہ آپ ہمارے ملنے جلنے اور دعا سلام کے طریقوں پر غور کیجئے گا۔ ترکی زبان ہمارے لیے کچھ ایسی اجنبی بھی نہیں۔ دو چار روز کسی جگہ گزار لینے کے بعد مسافر گفتگو کو سمجھنے لگتا ہے۔ ان کی بول چال میں بیشتر اسی قسم کے الفاظ ہوے ہیں جو ہم عام طور پر اردو یا عربی وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کسر اگر ہوتی ہے تو لہجے کی ہوتی ہے۔ لہجہ پکڑ لیا تو سمجھئے نصف سے زیادہ مسئلہ حل ہو گیا۔
Tumblr media
امریکا میں جیسے آتے جاتے پاس سے گزرتے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور تھوڑی جان پہچان ہو تو ہیلو ہائے بھی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ترکوں کے ہاں بھی ہے۔ جہاں کہیں آنکھیں چار ہوئیں، مسکرا کر منھ ہی منھ میں کچھ کلمات کہہ دیے۔ ترک تیزی سے بولتے ہیں اور لہجے میں کچھ گمبھیر تا بھی ہوتی ہے لہٰذا ابتدائی سماعت میں بات بالعموم سمجھ میں نہیں آتی۔ سر این کے کہنے پر یہ مسکراہٹ اور خیرمقدمی الفاظ میں نے ذرا توجہ سے سنے تو معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل پاکستان جیسی صورت حال ہے جیسے جان پہچان ہو نہ ہو، آنکھ ملتے ہی ہم لوگ السلام علیکم کہہ دیتے ہیں، ان کے یہاں ‘ سلام علیک’ کہا جاتا ہے۔ سر این نے بتایا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے، زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی دہائی پہلے کا۔ لوگ باگ نجی زندگی میں ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی ہی بھیجتے ہوں لیکن سرکاری دفاتر، تقریبات اور پبلک مقامات پر ان الفاظ سے گریز کرتے ہوئے ‘ مرحبا’ کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ ماضی میں یہ خطرہ ہوتا تھا کہ آپ ایسا کرتے ہوئے پائے گئے تو ریاست آپ کو مذہبی قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ ‘ یہ تبدیلی طیب ایردوآن کی مرہون منت ہے’.  سر این نے بتایا۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ اب مرحبا نہیں کہتے، بے شمار لوگ کہتے ہیں لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کا نظریاتی پس منظر مختلف ہے۔ سلام علیک والے اپنے رجحان کا تحفظ چاہتے ہیں اور مرحبا والے پرانے رجحان کی واپسی کے آرزو مند ہیں۔ یہ گویا ایک تہذیبی اور نظریاتی آویزش ہے جو ہمہ وقت ترکی میں جاری رہتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہی کشمکش بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی۔ ان انتخابات کا تہذیبی پہلو تو یہی تھا جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ مشکل نہیں۔ تہذیبی آویزش کے پہلو بہ پہلو ترکیہ میں ایک سیاسی کشمکش بھی جاری رہی جو تہذیبی پہلو کا ایک فطری پہلو ہے جس میں پاکستان اور مسلم دنیا کے بارے میں غور و فکر کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ پہلے بھارت کا ذکر۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان فطری محبت اور گرم جوشی بھارت کے لیے ہمیشہ فکر مندی کا باعث رہی ہے لہٰذا بھارت نے ترکیہ میں اپنی لابی بنانے اور مضبوط کرنے کے لیے ان تھک محنت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر روایتی سفارت کاری کو ذریعہ بنایا گیا۔ 
آشرم بنائے گئے جہاں ترک سماج کے با اثر لوگوں کو مدعو کر کے ان سے یوگا وغیرہ کے ذریعے رابطے مضبوط بنائے گئے۔ اسی طرح اب وہاں ہولی جیسے تہوار بھی باقاعدگی سے منائے جانے لگے ہیں۔ استنبول کی سڑکوں پر بالی وڈ کے اداکاروں کے بڑے بڑے بل بورڈ بھی اکثر اوقات دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں کتنی مؤثر رہی ہیں؟ اس کا اندازہ چند برس قبل اس وقت زیادہ ہوا جب بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر کے متنازع خطے کی حیثیت بدل کر اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ اس موقع پر ترکیہ میں بھی حکومت اور غیر سرکاری سطح پر مکالمے ہوئے۔ ان مواقع پر نوٹ کیا گیا کہ بالائی طبقات کے کچھ نمائندے بعض عرب ملکوں کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر غیر جانب داری اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ ترکیہ میں ایسی رائے رکھنے والا یہ طبقہ وہی ہے جو ان انتخابات میں کمال کلیچ دار اولو کی حمایت میں تھا۔ خود کمال کلیچ دار اولو بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انھوں دو ٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لائیں گے۔ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ ترکیہ کا رخ مسلم دنیا کی طرف زیادہ ہے، وہ اسے دوبارہ مغرب کی طرف موڑ دیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ترکیہ کے خارجہ تعلقات کا ایک تیسرا رخ بھی ہے۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی کے اس پہلو کا تعلق مشرق میں ابھرتے ہوئے طاقت کے نئے مراکز سے ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا اور نیٹو کا اتحادی رہتے ہوئے بھی مشرق کے سب سے بڑے اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم میں بھرپور دل چسپی لی ہے اور اس میں شمولیت کے ابتدائی مراحل ایران کی طرح کامیابی سے طے کر لیے ہیں آسانی کے لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے چین کے تعاون سے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر خطے میں ابھرنے والے نئے امکانات سے استفادے کی تیاری کی ہے، اسی طرح ترکیہ بھی اپنے مغربی رشتے متاثر کیے بغیر اپنے فطری رشتوں یعنی مشرق کی طرف زیادہ بامعنی انداز میں لوٹ رہا ہے۔ 
اس میں ظاہر ہے کہ ترکیہ کے پیش نظر اقتصادی مفادات کے علاوہ نظریاتی پہلو بھی ہیں۔ اب یہ کہنا تو اضافی ہو گا کہ اس پر عزم پالیسی کے اصل معمار اور روح رواں صدر ایردوآن ہیں لیکن کمال کلیچ دار اولو اس پالیسی کے یک سر مخالف تھے اور انھوں نے علانیہ اس سے مراجعت کی بات کی تھی۔ اس پس منظر میں اگر حالیہ انتخابات میں صدر طیب ایردوآن کی کامیابی میں پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے اطمینان کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں تو دوسری طرف خود ترکیہ کے اندر بھی اس سلسلے میں اطمینان کی گہری لہر پائی جاتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد مطمئن ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف ان کے ثقافتی اور نظریاتی عقاید کا تحفظ یقینی بنا دیا ہے بلکہ یہ ممکن بھی نہیں رہا کہ اب کوئی ان کے وطن کو ان کے فطری اتحادیوں اور محبت کرنے والے دوستوں سے محروم کر سکے گا۔
ڈاکٹر فاروق عادل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
افغان جہاد کے دور میں بھی روس نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے جاری رکھے
دوسری قسط افغان صدر سردار داؤد نے ایک بار پھر امن کی خواہش کا پیغام پاکستان کے نئے فوجی حکم��ان کو بھیجا ، جنرل ضیاء الحق اقتدار سنبھالنے کے محض تین ماہ بعد افغان دارالحکومت کابل جا پہنچے اور مفاہمت کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ سردار داؤد مخالف جہادی گروہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ سردار داؤد نے بھی ک��مونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کا آغاز کر دیا۔ روس کے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
افغان جہاد کے دور میں بھی روس نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبے جاری رکھے
دوسری قسط افغان صدر سردار داؤد نے ایک بار پھر امن کی خواہش کا پیغام پاکستان کے نئے فوجی حکمران کو بھیجا ، جنرل ضیاء الحق اقتدار سنبھالنے کے محض تین ماہ بعد افغان دارالحکومت کابل جا پہنچے اور مفاہمت کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ سردار داؤد مخالف جہادی گروہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ سردار داؤد نے بھی کیمونسٹ گروہوں کے خلاف سخت کارروائیاں کا آغاز کر دیا۔ روس کے لئے یہ صورتحال قابل قبول نہ…
View On WordPress
0 notes
whatsappwishes · 2 years
Text
Eid mubarak whatsapp status in urdu
Eid-Ul-Adha is the second-largest religious feast for the Muslim people and is celebrated for three days. This festival, which is also known as the Muslim "feast of sacrifice" or "Festival of Sacrifice," begins with a number of mouthwatering, lovingly prepared traditional foods. Together, Muslims around the world honour Ibrahim's commitment to sacrifice his son for Allah. We have wide collection of Eid Mubarak whatsapp status in urdu for you to wish and share with everyone.
"میری طرف سے آپ کو عید الاضحیٰ بہت مبارک اور پرامن ہو۔ اللہ آپ کے نیک اعمال کو قبول فرمائے، آپ کی غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرے اور دنیا بھر کے تمام لوگوں کی تکلیفوں کو کم کرے۔ عید مبارک!"
عید الاضحی کے پرمسرت دن اللہ آپ کی زندگی کو خوشیوں، سکون اور خوشحالی سے بھر دے۔ اللہ آپ کے دل کو محبت سے، آپ کی روح کو روحانی، آپ کے دماغ کو حکمت سے بھر دے۔ عید مبارک!
"زندگی کے کینوس پر، ہم اکثر رنگوں سے اتر جاتے ہیں، لیکن جب تک آپ جیسے لوگ صحیح رنگوں کو شامل کرنے کے لیے موجود ہیں، زندگی ایک قوس قزح بنتی رہے گی! عید مبارک."
آپ اور آپ کے اہل خانہ کے لیے بہت بہت نیک تمنائیں، اللہ آپ کو ایک پرامن اور خوشحال زندگی عطا فرمائے! ایک بہت گرم عید الاضحی مبارک.
"عید کے موقع پر آپ کو دل کی گہرائیوں سے نیک تمنائیں بھیج رہا ہوں اور خواہش کرتا ہوں کہ یہ آپ کے لیے ہمیشہ خوشیاں اور خوشیاں لائے۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔"
اللہ آپ کی تمام دعائیں قبول فرمائے اور آپ کی تمام خطاؤں کو معاف فرمائے۔
میری طرف سے آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو عید کی خوشیاں مبارک ہوں۔
عید مبارک. آپ کو امن، خوشی اور خوشحالی کی خواہش
عید الفطر مبارک! اللہ آپ کو وہ تمام محبتیں اور خوشیاں عطا فرمائے جو آپ کے دل کو تھام سکتے ہیں۔
عید کا دن محفوظ اور مبارک ہو
Tumblr media
عید کا دن محفوظ اور مبارک ہو
یہ ایک خاص وقت ہے جب خاندان اور دوست اکٹھے ہوتے ہیں، عید کے اس تہوار کے موسم میں اور ہمیشہ آپ کے دنوں کو خوش کرنے کے لیے ہنسی اور مزے کی خواہش کرتے ہیں! عید مبارک.
میں آپ پر اللہ کی رحمتوں کا متمنی ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آپ کی تمام رکاوٹیں جلد دور ہو جائیں۔ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو عید مبارک!
میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی تمام زندگیوں کو محبت اور خوشحالی سے بھر دے۔ عید مبارک
آپ کو اور آپ کے پیارے خاندان کو ڈھیروں پیار اور دل کو گرمانے والی خواہشات کے ساتھ مٹھائیاں بھیج رہا ہوں۔ عید مبارک!
عید کے پرمسرت موقع پر آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو امن، ہم آہنگی، خوشی، اچھی صحت اور خوشحالی کی دعا ہے۔ آپ کو اور گھر میں موجود سب کو عید الاضحی مبارک۔
یہ عید، اللہ آپ کو اچھی صحت اور خوشیوں سے نوازے۔ عید الاضحی مبارک۔
یہاں ایک مبارک عید کی خواہش ہے جو آپ کو زندگی کے ہر چیلنج کو جیتنے میں مدد کرنے کے لیے ہمت اور طاقت کے ساتھ تحریک دے گی! عید الاضحی مبارک۔
اللہ آپ کو شفقت، صبر اور محبت سے نوازے۔ عید الاضحی مبارک۔
عید کا جادو اپنے اردگرد محسوس کریں اور جان لیں کہ خدا کا فضل ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے۔ آپ ہمیشہ محبت اور دیکھ بھال سے گھرے رہیں گے۔ عید الاضحی مبارک ہو!
0 notes
apnibaattv · 4 years
Text
پاکستان بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا 'امن کی خواہش' کے ساتھ جواب دے گا: ایف او زاہد چوہدری
پاکستان بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ‘امن کی خواہش’ کے ساتھ جواب دے گا: ایف او زاہد چوہدری
خبریں / فائلیں درست معلومات ، مثبت رسائی اور “امن کی خواہش” کو شیئر کرکے پاکستان بھارت کی نفرت انگیز مہم کا جواب دے گا ہندوستان نے “افسوس سے” اور “واضح طور پر اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی بے عزتی کی اور جان بوجھ کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی” یوروپی یونین کے ڈس انفلوب نے نومبر 2020 میں انکشاف کیا کہ 750 سے زیادہ ہندوستانی حمایت یافتہ ویب سائٹس نے تقریبا 15 سالوں سے یورپی یونین ، اقوام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hassanriyazzsblog · 2 years
Text
🌹🌹 *ₚₑₐ𝄴ₑ 𝄴ᵤₗₜᵤᵣₑ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
4️⃣8️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *PEACE CULTURE*
*One of the teachings of Islam is that when a person meets someone, both should greet each other.*
(Sunan an-Nasai, Hadith No. 10078)
*That is, they should say “peace be upon you” to each other.*
*Islam is a culture of peace, and saying “peace be upon you” is a symbol of this culture.*
*The teaching of Islam is that there should be feelings of mercy and compassion for the other in the heart of every person.*
*Every person should desire a peaceful life for another.*
*Every person should strive to make society a symbol of peace and security.*
*This is the basic teaching of Islam.*
*The fact is that all the teachings of Islam are directly or indirectly based on the principle of peace because, without it, no constructive work can be done.*
*Where there is no peace, there will be no development.*
*Peace is as important to the development of society as water is to the fertility of the land.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *پرامن زندگی :*
*اسلام کی تعلیمات میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی سے ملے تو دونوں ایک دوسرے کو سلام کریں۔*
(سنن نسائی)
*یعنی وہ ایک دوسرے سے "السلام علیکم" کہیں۔*
*اسلام امن کی ثقافت ہے، اور "السلام علیکم" کہنا اسی ثقافت کی علامت ہے۔*
*اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص کے دل میں دوسرے کے لیے رحم اور ہمدردی کے جذبات ہوں۔*
*ہر شخص کو دوسرے کے لیے پرامن زندگی کی خواہش کرنی چاہیے۔*
*ہر فرد کو معاشرے کو امن و سلامتی کی مثال بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔*
*یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔*
*حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امن کے اصول پر مبنی ہیں کیونکہ، اس کے بغیر، کوئی تعمیری کام نہیں ہو سکتا۔*
*جہاں امن نہیں وہاں ترقی نہیں ہو گی۔*
*امن معاشرے کی ترقی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا پانی زمین کی زرخیزی کے لیے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ* 🍂
🔸 *اپنے گھرمیں سلام کہ کر داخل ہونے والے کے ضامن اللہ تعالیٰ ہے :*
*آپ ﷺ نے فرمایا ! تین انسانوں کی حفاظت کرنا اللہ کے ذمہ ہے ،*
*١- وہ انسان جو اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے نکلا ،اللہ اس کا ضامن ہے یہاں تک کہ اس کو فوت کرے گا ،*
٢ *​- وہ انسان جو مسجد (کی جانب ) گیا ، اللہ اس کا ضامن ہے اور*
٣ *​- وہ انسان جو اپنے گھر میں السلام و علیکم کہتا ہوا داخل ہوا ،اس کا بھی اللہ ضامن ہے .*
(صیح ابو داؤد #٢١٧٨)
🔸 *رخصت ہوتے وقت بھی سلام کہیں :*
*آپ ﷺ نے فرمایا ! جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو السلام و علیکم کہے ،اگر وہاں بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے ، پھر وہاں سے اٹھے تو ،، السلام و علیکم ،، کہے اس لئے کے پہلا سلام آخری سلام سے ز یادہ ضروری نہیں ہے .*
(صیح الترمذی #٢١٧٧)
*رسول کریم ﷺ نے فرمایا ! تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ ایمان لے آؤ ، اور تم ایمان (مکمل ) نہیں لا سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، کیا تمہیں وہ چیز نہ بتا دوں ،اگر تم اسے کرے تو آپس میں محبت کرنے لگو گے ؟ السلام (السلام و علیکم ) کو اپنے درمیان پھیلا دو .*
(صحیح مسلم)
*نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : "سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے اور چلنے والا بیٹھنے والے کواور کے تعداد والے بڑی جماعت کو سلام کریں"-*
(صحیح بخاری و مسلم)
*مزید آپ ﷺ نے فرمایا:" فرشتے اس مسلمان پر تعجب کرتے ہیں جو مسلمان کے پاس سے گزرتا ہے ،مگر اسے سلام نہیں کہتا"-*
*اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "پہچاننے والے اور نہ پہچاننے والے سب کو سلام کہ"*
(صحیح بخاری و مسلم)
*ایک اور جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:" جو دو مسلمان ملتے ہیں اور مصحافہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے انہیں معاف کر دیا جاتا ہے -"*
( ابوداؤد، ابن ماجہ و ترمزی)
*مزید آپ ﷺ نے فرمایا :"جو شخص سلام سے پہلے کلام شروع کر دے ، اس کا جواب نہ دو ،جب تک کہ وہ سلام کے ساتھ ابتدا نہ کرے -"*
( الطبرانی)
🍂 *غایبانہ ( غیر موجود احباب ) کو سلام بھیجنے کا طریقہ :*
*عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کھ مجھ سے رسول ﷺ نے فرمایا : یہ جبرئیل علیہ السلام ہیں جو تجھے سلام عرض کرتے ہیں ،، عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں ،، میں نے جواب میں کہا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاته ،،-*
(صیح بخاری # ٦٢٥٣)
🔸 *قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:*
*اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔*
(النساء:86)
*اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : "سلام کو عام کرو"۔*
(کتاب صحیح الجامع)
🔸 *سر راہ ملاقات اور معمولی جدائی پر دوبارہ سلام کہنا چاہیے :*
*نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے ملاقات کرے تو اسے چاہیے کھ وہ سلام کہے اگر درمیان میں کوئی درخت ، دیوار یا پتھر آ جائے پھر اس سے ملاقات ہو تو اسے چاہیے کھ پھر سلام کہے .*
{صیح ابی داؤد حدیث #٤٣٣٢ }​
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
45newshd · 4 years
Photo
Tumblr media
پاکستان کے تحمل اور امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے بھارت کو کسی بھی مہم جوئی کو منہ توڑ جواب ، پاکستان کا بھارت کو دوٹوک پیغام جاری  ملتان (این این آئی)وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے لایک بار پھر بھارت پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کے تحمل اور امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے ، بھارت کی جانب سے کسی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائیگا،اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت بلوچستان میں بدامنی پیدا کرناچاہ رہا ہے،خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے اورافغانستان سے منسلک بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں
0 notes
urduu · 3 years
Text
پلائو سے بریانی تک کا سفر
بریانی جنوبی ایشیا کی مقبول ترین ڈش ہے۔ مصالحوں کی مہک اور پیاز لہسن ادرک اور ٹماٹروں میں رچے بسے گوشت کی بوٹیاں گرما گرم بھاپ اڑاتے چاولوں کے ساتھ ۔۔۔ ساتھ میں دہی پودینے کا رائتہ اور کھیرے پیاز ٹماٹر کا سلاد ۔۔۔۔
اہتمام کے ساتھ دسترخوان پررونق افروز بریانی اپنی خوشبو سے کھانے والوں کی بھوک اور اشتیاق بڑھا دیتی۔ کھاتے جاؤ پیٹ بھر جائے جی نہ بھرے کا معاملہ ہوتا۔ اس کے ذائقہ نے ایسا رنگ جمایا کہ کوئی دعوت بغیر بریانی کے دعوت نہیں مانی جاتی ہے۔ ۔ بچے کی پیدائش پر چھلہ ، چھٹی، عقیقہ ، شادی بیاہ کونسی تقریب ہے جس کے کھانے میں بریانی نہ ہو یہاں تک کہ مرنے کے بعد زیارت اور چہلم میں بھی بریانی ہی مرنے والے کی مغفرت کا سہارا بن گئی ہے۔
بریانی کہاں سے شروع ہوئ اور کس طرح موجودہ شکل و صورت کو پہنچی، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
بریانی کا نام :
اس سلسلے میں دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ بریانی فارسی لفظ برنج بمعنی چاول سے نکلی ہے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ یہ فارسی لفظ بریاں سے نکلی ہے جس کا مطلب بھوننا یا گھی میں چرب کر کے کسی چیز کو تلنا۔ بریانی میں کیونکہ گوشت کو مصالحوں کے ساتھ تل کر چاولوں میں شامل کیا جاتا ہے اس لئے اس کا نام بریانی پڑ گیا۔
پلاؤ:
ایک تاریخ دان کے مطابق آج سے کوئ چار ہزار سال قبل وسط ایشیا کے لوگوں نے چاولوں میں مختلف جانوروں جیسے کہ گائے، بھیڑ بکری اور مرغ وغیرہ کا گوشت شامل کر کے پکانا شروع کیا اور یہ ڈش پلائو کہلائ۔ جب مغلوں نے انڈیا کا رخ کیا تو وہ اپنے ساتھ پلاؤ بھی برصغیر میں لائے۔
لیکن ابتدا میں یہ پلائو محض گوشت چاول اور خشک میوہ جات پر
مشتمل ہوتا تھا جیسا کہ آجکل کا افغانی پلائو۔
بکرے کے گوشت کا پلاﺅ برصغیر کے پکوانوں کی تاریخ میں ایک مقبول پکوان رہا ہے اور اب بھی اسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ پلاؤ بنانے کے لئے بکرے کے گوشت ،گرم مصالحوں اور ثابت دھنیا و سونف کو لہسن ادرک اور پیاز کے ساتھ کے ساتھ ابال کر یخنی بنائ جاتی ہے۔ پھر اس یخنی میں چاول پکا کر تلی ہوئ براؤن پیاز اور زعفران اور کیوڑے کے ساتھ دم دیا جاتا ہے۔
یہ پکوان عید الاضحیٰ کے موقع پر لگ بھگ ہر گھر میں تیار کیا جاتا ہے اور خصوصی مواقعوں پر بھی اسے بےحد پسند کیا جاتا رہا ہے۔ بریانی دہلی میں زیادہ مقبول تھی جبکہ لکھنؤ میں پلاﺅ، دونوں شہروں کے رہائشیوں کی چاول کے ان دونوں پکوانوں کے لیے ترکیب بھی اپنی تھی۔
بریانی:
جب مغلوں نے ایران سے راہ و رسم بڑھائے تو ایرانی مصالحے بھی پلائو میں شامل ہو گئے۔ فارسی کھانا پکانے کی ایک سب سے امتیازی تکنیک گوشت کو دہی میں بھگونا ہے۔ بریانی کے لیے پیاز، لہسن، بادام اور مصالحوں کو دہی میں شامل کرکے ایک گاڑھا پیسٹ تیار کیا جاتا ہے جس کی کوٹنگ گوشت پر کی جاتی ہے۔ ایک بار جب یہ عمل مکمل ہوجاتا ہے تو گوشت کو پکانے کے برتن میں منتقل کرنے سے قبل کچھ دیر تل لیا جاتا ہے، اس کے بعد پلاﺅ کو پکانے کی تکنیک پر عمل کیا جاتا ہے، چاولوں کو پکا کر گوشت پر ڈال دیا جاتا ہے، زعفران ملے دودھ کو چاولوں پر انڈیلا جاتا ہے تاکہ اس پر رنگ چڑھ سکے اور خوشبو پیدا ہو اور پھر پورے پکوان کو ڈھکن سے ڈھک کر کم کوئلوں کی آنچ پر پکایا جاتا ہے۔ بریانی درحقیقت فارسی پلاﺅ کا ہندوستانی مصالحہ دار روپ ہے، کچھ مورخین کا یہ خیال ہے کہ بریانی دوران جنگ فوجیوں کے لئے تیار کی جاتی تھی کہ جنگ کے دوران وقت اورجگہ کی کمی کے سبب ایک ایسی ڈش تیار کی جاتی تھی جو جلدی بن جائے اور ہر طرح کے غذائیت سے بھرپور ہو۔ اس سلسلے میں مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کو جدید بریانی تخلیق کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے اس مکمل پکوان کا خیال پیش کیا اور تجویز دی کہ اسے جنگوں اور امن کے زمانوں میں فوجیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے۔
بریانی کی اقسام:
یہ مانا جاتا ہے کہ چاولوں کو تلنے سے ان میں خشک میوے کا ذائقہ آجاتا ہے جبکہ نشاستے کو جلانے سے چاولوں کی اوپری تہہ لیس دار ہوکر جم جاتی ہے۔
اس سے الگ ایک بکرے کی ران کو دہی، مصالحوں اور پپیتے میں رچایا جاتا ہے اور پھر نرم ہونے تک پکائی جاتی ہے۔ ایک بار جب گوشت پک جاتا ہے تو اسے ادھ پکے چاولوں پر تہہ کی صورت میں بچھا دیا جاتا ہے، پھر اس میں عرق گلاب کے چند قطرے، زعفران اور جاوتری کو ڈالا جاتا ہے، پھر ایک دیگ میں سیل بند کرکے ہلکی آنچ پر پکنے کے لیے اس وقت تک چھوڑ دیا جاتا ہے جب تک چاول مکمل طور پر پک اور پھول نہ جائیں، اور پیش کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائیں
اب جب بریانی برصغیر میں مقبول ہوئ تو مختلف علاقوں میں اس کی مختلف اقسام بھی وجود میں آتی گئیں۔
حیدرابادی بریانی:
کہا جاتا ہے کہ نظام حیدراباد آصف جاہ اول کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا ایک شاہی پکوان یا ڈش ہو۔ اس سلسلے میں چوٹی کے باورچیوں کی خدمات حاصل کی گئیں اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے چٹپٹی حیدرابادی بریانی کی صورت موجود ہے۔
۔
میسوری بریانی:
ٹیپو سلطان بریانی کو کرناٹک سے میسور لے گئے اور بریانی کی ایک نئ شکل میسوری بریانی وجود میں آئی۔
دہلی بریانی:
جب مغلوں نے اپنا دارالسلطنت دہلی کو بنایا تو بریانی ایک شاہی پکوان تھا۔ شاہی باورچیوں نے بریانی میں مختلف مصالحہ جات کی آمیزش سے اس کو ایک ایسی ڈش بنا دیا کہ جس کی شہرت عوام سے نکل کر خواص تک پہنچ گئی۔ سن 1950 تک بریانی لوگ گھروں میں ہی تیار کرتے تھے اور یہ بازار میں بہت کم ملتی تھی۔ دہلی میں حضرت نظام الدین کی درگاہ پر لنگر میں تقسیم کی جانے والی بریانی کا اپنا ایک الگ رنگ اور ذائقہ تھا۔ اسی طرح دہلی کی جامع مسجد کے اطراف مختلف باورچی اور بھٹیارے بریانی تیار کر کے فروخت کرتے تھے۔
تہاری:
بریانی کی شہرت اور ذائقے سے متاثر ہو کر کچھ لوگوں نے بغیر گوشت کی بریانی بھی بنانا شروع کردی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان ہندوئوں کے لئے بنائ گئ ہو جو گوشت سے پرہیز کرتے ہیں۔ عام طور پر تاہری میں آلو چاول اور مصالحے شامل کئے جاتے ہیں۔
سندھی بریانی:
پاکستان میں مصالحے دار سندھی بریانی سب سے زیادہ مقبول ہے کہ جس میں پلائو کی یخنی کے ساتھ خوب مصالحہ دار گوشت ، دہی ٹماٹر اور ہرے مصالحے کی تہہ لگا کر دم دیا جاتا ہے۔ اس میں آلو بھی شامل کئے جاتے ہیں۔ کراچی اور پاکستان کے مختلف شہروں میں یہی سندھی بریانی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر جگہ دستیاب ہے۔ کراچی کی اسٹوڈنٹ بریانی کا اس شہرت میں بڑا ہاتھ ہے کہ آج سے کوئ تیس پینتیس برس قبل صدر کی ایمپریس مارکیٹ کے عقب میں ٹین کی چادروں کے شیڈ تلے یہ بریانی فروخت کے لئے پیش کی گئ اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دئے۔ آج نہ صرف پورے ملک میں اس کی فرنچائز ہیں بلکہ بیرون ممالک بھی بہت مقبول ہے۔
اس کے علاوہ بمبئی بریانی، کچے گوشت کی بریانی، میمنی بریانی، برمی بریانی، انڈا بریانی، کوفتہ بریانی وغیرہ ۔ غرض یہ کہ برصغیر کے ہر علاقے نے بریانی کو اپنے انداز میں ڈھال کر اس کا نام اپنے علاقے سے جوڑ دیا ہے۔
جھینگا اور مچھلی بریانی:
نہ صرف گائے بھینس بھیڑ بکرے اور مرغ کے گوشت کی بریانی بنائ جاتی ہے بلکہ مچھلی بریانی اور جھینگا بریانی بھی اپنا رنگ جما چکی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب شتر مرغ بریانی بھی دستیاب ہوگی۔
لیکن بریانی کا گوشت روکھا اور نرم ہونا چاہئے تاکہ اس میں مصالحوں کا ذائقہ اچھی طرح رچ بس جائے۔ بریانی کے بنانے میں دوسرا سب سے بڑا اور اہم انتخاب چاولوں کا ہے۔ بریانی عام طور پر باسمتی چاولوں سے بنائ جاتی ہے تاکہ پکنے کے بعد چاول کھلے کھلے رہیں اور ان کی مہک محسوس ہو۔
بریانی کی بین الاقوامی مقبولیت:
بریانی اب نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ، امریکہ اور یورپ کے تقریبا" ہر شہر میں دستیاب ہے۔ ہمارے دوست چینی بھی بریانی سے پورا انصاف کرتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی ڈش بن چکی ہے۔ لیکن اس کی تخلیق کا سہرا یقینا" مغلوں سے کوئ نہیں چھین سکتا۔
ایک زمانہ تھا کہ جب لوگ اچھی بریانی کے لئے شادی بیاہ یا دعوتوں کا انتظار کرتے تھے لیکن اب سینکڑوں ریسٹورنٹس بہترین دیگی بریانی ایک فون کال پر آپ کو گھر بیٹھے مہیا کر دیتے ہیں۔
لیکن یہ تلخ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اصلی بریانی کا لازمی جز زعفران، کیوڑہ، جائفل جوتری اور دیگر کچھ مصالحے اب بریانی میں نہیں ڈالے جاتے۔ ان گنت ہوٹلیں بریانی کے اشتہار سے چمک اٹھی ہیں مگر اس میں وہ مزہ نہیں۔ گوشت کی دو چار بوٹیاں ، چاول تو بریانی کے ہوتے ہیں لیکن خوشبو شاید ہی ہو۔ نہ اب وہ باذوق لوگ رہے اور نہ بریانی کا ذائقہ رہا۔ جب تک انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے خاندانوں کی سگھڑ خواتین حیات رہیں وہ بریانی کو اس کی اصل ترکیب اور ذائقے کے ساتھ بناتی رہیں اور کچھ نے یہ فن و ترکیب اپنی آنے والی نسل کو سونپ دی۔ اب نہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی قوس قزح ہے نہ وہ لوگ تو صاحب باورچی کی بریانی میں مزہ کیسے آئے گا وہ لذت کہاں سے آئے گی جو اصلی بریانی کی شان امتیاز تھی۔
لیکن بہرحال کراچی آج بھی بریانی میں نمبر ون ہے۔
تو پھر کیا خیال ہے ، ہو جائے ایک گرما گرم بریانی؟؟؟
(اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس، بلاگز، انسائیکلوپیڈیا اور کوکنگ ویب سائٹس سے بھی مددلی گئ
‏Sanaullah Khan Ahsan
13 notes · View notes
pakistantime · 3 years
Text
طالبان کابل میں داخل ہو گئے
طالبان جلال آباد اور مزار شریف کو فتح کرنے کے بعد کابل کے مضافات میں داخل ہو گئے جب کہ ترجمان طالبان نے دارالحکومت میں پُرامن طریقے سے داخل ہونے اور عام معافی کا اعلان کیا ہے دوسری جانب صدارتی محل میں اقتدار کی منتقلی اور عبوری حکومت کے قیام پر مذاکرات جاری ہیں جس میں اشرف غنی حکومت چھوڑنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ طالبان کابل میں تمام اطراف سے داخل ہو گئے۔ سائرن بج رہے ہیں اور چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ فضا میں ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزا کوال نے مزید بتایا طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ طالبان کابل پر حملہ نہیں کریں گے اور کابل حکومت اقتدار عبوری حکومت کو منتقل کر دے گی۔ عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات تاحال جاری ہیں۔
طالبان کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور اپنے امیر کے احکامات کے منتظر ہیں۔ افغان فوج کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور کابل حکومت بھی مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر سمیت اہم طالبان رہنما کابل پہنچ گئے۔  برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق طالبان وفد اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے افغان صدارتی محل میں داخل ہو گئے جہاں طالبان اور کابل میں صدارتی محل کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ طالبان نے اقتدار کی پُرامن منتقلی پر زور دیا ہے۔ دوسری جانب افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ صدارتی محل میں طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں کابل پر حملہ نہ کرنے اور اقتدار کی پُرامن منتقلی پر اتفاق کر لیا گیا ہے جس کے تحت عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کے سربراہ سابق وزیرداخلہ علی احمد الجلالی ہوں گے۔ افغان صدر اشرف غنی کے نائب اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ صدارتی محل میں ہونے والے مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ اطلاعات ہیں کہ سابق افغان وزیرداخلہ علی احمد الجلالی کو عبوری حکومت کا سربراہ بنایا جانے کا امکان ہے۔عالمی میڈیا کے ذرائع کے مطابق طالبان کی خواہش ہے کہ افغان فوج ہتھیار ڈال دے تاکہ خوں ریزی نہ ہو۔ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کے بعد داخلی دروازوں پر موجود طالبان جنگجوؤں کو دارالحکومت کے مرکز میں داخل ہونے کا حکم دیا جائے گا۔
طالبان کا عام معافی کا اعلان افغانستان میں ترجمان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دارالحکومت کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سے انتقام لیں گے۔ ہمارے جنگجو کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور پُر امن طریقے سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب دوحہ میں طالبان کے ترجمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کابل میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو تشدد سے گریز کا حکم دیا گیا ہے جب کہ جو بھی مخالف لڑائی کے بجائے امن پر آمادہ ہو انھیں جانے دیا جائے گا اور خواتین سے محفوظ علاقوں میں جانے کی درخواست کی ہے۔
بغیر کسی مزاحمت کے کابل فتح کیا عینی شاہدین نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ دارالحکومت میں طالبان جنگجوؤں کو بہت ہی معمولی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ کابل یونیورسٹی آج صبح ہی خالی کردی گئی تھی اور تمام طالبات گھروں کو جا چکی ہیں۔ عوام گھروں میں محصور ہو گئے ہیں۔
کابل حکومت کا ردعمل اور زمینی حقائق
کابل حکومت نے اس تمام صورت حال پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم صدر اشرف غنی کے چیف آف اسٹاف نے ٹویٹر پر کابل کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ براہ کرم فکر نہ کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے. کابل کی صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم تین افغان حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جنگجو دارالحکومت کے کالکان ، قرا باغ اور پغمان اضلاع میں موجود ہیں۔
امریکی اور برطانوی سفارت کاروں کا انخلا جاری دوسری جانب امریکی حکام نے بتایا کہ سفارت کاروں کو سفارت خانہ سے قلعہ بند وزیر اکبر خان میں واقع ہوائی اڈے پر لے جایا جا رہا یے جب کہ مزید امریکی فوجی انخلاء میں مدد کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔ ادھر برطانوی سفارت کاروں اور برطانوی فوج کے لیے مترجم کا کام انجام دینے والے افغان شہریوں کی منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ہدایت پر برطانوی فوج ان افراد کو لینے پہنچ گئی ہے۔  واضح رہے کہ طالبان اس سے قبل اہم شہر جلال آباد اور مزار شریف پر قبضہ کر چکے ہیں اور طور خم بارڈر تک کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ صرف کابل ایسا شہر باقی بچا تھا جہاں طالبان کی عمل داری قائم نہیں ہوسکی تھی۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
risingpakistan · 3 years
Text
محکمۂ پولیس روبہ زوال کیوں؟
انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو مختلف ناموں سے پولیس فورس سماج سے جرائم کے خاتمے، قیامِ امن، اور قانون کی بالا دستی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس ڈیوٹی میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی نائن الیون کے بعد بڑھتی دہشت گردی اور بم دھماکوں کی وجہ سے پولیس کی روایتی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ موجودہ عالمی تناظر میں قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ ماضی میں پولیس سروس آف پاکستان کے افسران بیرونِ ممالک بھی قانون کی عملداری کے فرائض بجا لاتے رہے ہیں۔ آج حکومتی و سیاسی دخل اندازی اور پولیس کو سیاسی و گروہی فائدے کیلئے استعمال کرنے کی روش کی بدولت یہ اہم ترین شعبہ روبہ زوال ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ بدلتے تقاضوں کے ساتھ اس اہم ترین قومی سلامتی کے ادارے کو اقربا پروری، ملکی سیاست اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
نہ تو گزشتہ 74 برسوں میں مناسب وسائل کی فراہمی ممکن ہو سکی اور نہ ہی میرٹ کی بالا دستی، قوانین کی تبدیلی، تربیت کی مناسب سہولتیں، پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں اشرافیہ سمیت حکومتی و سیاسی طبقے کے شکنجے سے نجات مل سکی۔ ہمارا موجودہ پولیس کا نظام برطانوی راج کا تحفہ ہے؛ اگرچہ 1861ء ایکٹ کی جگہ2002ء پولیس آرڈر لایا گیا جس کے تحت پبلک سیفٹی کمیشن کا قیام، قومی، صوبائی اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر پولیس کو خود مختاری ملی اور عوام کو بھی پولیس کے محاسبے کا اختیار تفویض ہوا تاکہ پولیس اور عوام کے مابین ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو سکے مگر چہ معنی دارد؟ پولیس کا مورال عوام کے نزدیک اس قدر گر چکا ہے کہ بالخصوص پنجاب پولیس کا تصور آتے ہی خوف کی ایک لہر سی پورے بدن میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ صوبے کے بڑے شہروں کی نسبت جنوبی پنجاب سمیت دیگر پسماندہ و دور دراز علاقوں میں پولیس کے ظلم و ستم کی داستانیں زبان زدعام ہیں۔ وہاں کے پولیس سٹیشن عقوبت خانوں کا دوسرا روپ ہیں۔ آئے ��وز اخبارات ان کی زیادتیوں کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں جبکہ کرپشن، رشوت ستانی، تشدد کی خبریں بریکنگ نیوز ہوتی ہیں۔ 
میں مانتا ہوں کہ پاک فوج کی طرح محکمہ پولیس کے ا��ک معمولی سپاہی سے لے کر افسرانِ بالا تک‘ سب میں مادرِ وطن کے تحفظ کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، وہ الگ بات کہ چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے کا پورا محکمہ بدنام ہو چکا ہے اور فرض شناس و ایماندار پولیس اہلکاروں اور افسروں کے اچھے کارنامے بھی یکساں نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ میں اپنے کالم کے ذریعے چند گزارشات کرنا چاہوں گا کہ ' شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات ‘ اور متعلقہ اربابِ حکومت کو سوچنے پر مجبور کر دے۔ مذکورہ ڈپارٹمنٹ میں بے جا سیا سی مداخلت نے قومی سلامتی کے ادارے پر مضر اثرات مرتب کئے ہیں اور پولیس کی شبیہ بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ فرض کریں اگر کوئی ایماندار، فرض شناس سپاہی یا پولیس افسر اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہا ہے تو بدلے میں اسے کیا ملے گا؟ اس کا متعلقہ علاقے کے حکومتی و عوامی نمائندوں کے مفادات کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنا اگلے ہی روز اس کے تبادلے کا سبب بن جائے گا؛ چنانچہ پولیس کے حالات موجودہ نہج تک پہنچانے میں حکومتی و سیاسی اراکین کا کردار اہم رہا ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان اپنے گزشتہ حکومتی دور میں کے پی پولیس اصلاحات کا خوب چرچا کرتے رہے کہ انہوں نے صوبے کی پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا۔ اسی مقصد کے پیش نظر پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ سابق آئی جی کے پی ناصر درانی مرحوم کو پنجاب میں بھی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی مگر افسوس تحریک انصاف حکومت بلند بانگ دعووں تک محدود رہی اورپولیس سے سیاسی اثر و رسوخ کم کرنے کیلئے کسی طور آمادہ دکھائی نہیں دی؛ ناصر درانی کے استعفے کو بھی اسی سوچ کا شاخسانہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ پنجاب پولیس ان کی خدمات سے استفادہ نہ کر سکی۔ ان حالات میں بھی راولپنڈی پولیس نے اعلیٰ کارکردگی میں ایک مثال قائم کی ہے۔ کھلی کچہری میں 20 ہزار سے زائد افراد کے مسائل سن کر موقع پر احکامات جاری کرنا یقینا ایک ریکارڈ ہے۔ میں کسی کی تعریفوں کے پل نہیں باندھ رہا لیکن یہ سچ ہے کہ محکمہ پولیس میں چند انقلابی اقدامات نے محکمے میں اصلاحات کا آغاز کر دیا ہے۔ 
میری خواہش ہے کہ ایسا سسٹم صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سمیت پسماندہ علاقوں میں بھی اپنایا جائے۔ مجھے خود سی پی او راولپنڈی کی ایک کھلی کچہری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں سائلوں کی عزتِ نفس مجروح کئے بغیر بڑے احسن طریقے سے باری آنے پر ہر سائل کی شکایات سنی جاتی ہے اور اس کی داد رسی کیلئے فوری طور پر متعلقہ افسر و ڈپارٹمنٹ کو احکامات جاری کر دیے جاتے ہیں۔ پولیس کا آفیشل سوشل میڈیا پیج بھی کھلی کچہری کا انعقاد کرتا ہے اور یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ تازہ ہوا کے جھونکوں کی مانند انقلابی اقدامات محکمے کی نیک نامی میں اضافے کے ساتھ پولیس اور عوام کے درمیان خلیج پاٹنے کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ شہر میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور جرائم میں واضح کمی بالخصوص کار چوری کی وارداتیں کم ہونے پر پولیس افسران لائقِ ستائش ہیں۔ بلاشبہ پولیس کے شعبے میں اصلاحات کا آغاز ہو چکا ہے۔
پنجاب پولیس جس کا نام سن کر ایک ظالم‘ جابر پولیس کا تصور ذہن میں آتا ہے اسے ایک خوشگوار تبدیلی کے ذریعے واقعی ' پولیس کا فرض مدد آپ کی ‘ کے سلوگن میں ڈھالا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور ہیومن انٹیلی جنس وسائل کا اغوا برائے تاوان اور ریپ کیسز میں استعمال سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ لاک ڈائون جیسی آزمائش کی گھڑی میں پولیس پر کئی اضافی ذمہ داریاں بھی آئیں جن سے پولیس بخوبی عہدبرآ ہوئی۔ دکانوں اور کاروبار کو فول پروف سکیورٹی کی فراہمی ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ٹرانس جینڈرز، خواتین و بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت خواتین کیلئے ہراسمنٹ رپورٹنگ یونٹ کی تشکیل اور بچوں پر تشدد کے حوالے سے شکایات کے ازالہ کیلئے مفید ریفارمز کی گئیں۔ پاک فوج کے علاوہ دیگر سکیورٹی اداروں اور پولیس کے جوانوں نے بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں شہادتیں پائی ہیں اور شجاعت و بہادری کی داستانیں رقم کی ہیں۔ 
پولیس والوں کے برے کاموں کا تو خوب شوروغوغا کیا جاتا ہے‘ بدعنوانی، زیادتی اور اختیارات سے تجاوز کی خبریں تو بڑھ چڑھ کر نشر کی جاتی ہیں لیکن ان کی قربانیاں اور اچھے کاموں کی اس طرح کوریج نہیں کی جاتی جو ان کا حق بنتا ہے۔ پولیس کے شہدا و غازی ہنوز پذیرائی سے محروم ہیں ۔ اس سلسلے میں وہ پولیس آفیسرز مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے پولیس کے شہدا کی تصاویر شہر کی اہم شاہراہوں پر آویزاں کر کے ان کو عزت و رتبہ دیا جس کے وہ اصل میں حقدار ہیں۔ مادرِ وطن پر جان نچھاور کرنے والوں کیلئے اس سے بہترخراجِ تحسین نہیں ہو سکتا۔ پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے تاریخی اقدامات کرتے ہوئے ان کی چھٹیوں، میڈیکل اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ون ونڈو سسٹم متعارف کروایا گیا ہے۔ بہتر پرفارمنس اور بہادری کے جوہر دکھانے والے پولیس اہلکاروں کے لیے نقد انعامات و تعریفی سرٹیفکیٹس اور ناقص کارکردگی کی صورت میں سخت تادیبی محکمانہ کارروائی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ اگر حسنِ نیت ہو اور کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو بہت بہتر انداز میں کام کیا جا سکتا ہے، جبکہ جدید دور کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے اگر محکمانہ اصلاحات کی جائیں تو کم وقت میں یقینا بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ چنانچہ اب وقت آگیا کہ محکمہ پولیس سیاست سے مبریٰ کیا جائے تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو اور عوام کی نظر میں پولیس والوں کا ایک بہتر امیج ابھرے جس سے اس ادارے سے وابستہ شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہو اور صحیح معنوں میں یہ قومی خدمتگار ادارہ بن سکے۔
محمد عبداللہ حمید گل
بشکریہ دنیا نیوز  
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
انسان کی بے اختیاری
برٹش سائنس داں سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پر اسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں انسان اور کائنات کے تعلق کے بارےمیں لکھا ہے— ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیںگئی تھی:
It appears that man has strayed in a world which was not made for him.
مگر زیادہ صحیح بات یہ ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جس کو اس نے خود نہیں بنایا، اور نہ وہ اس دنیا کو کنٹرول کرنے والا ہے۔
It appears that man has strayed in a world which was not made by him, and nor is he its controller.
اس دنیا میں انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے۔ انسان اپنے آپ کو اس دنیا میں ایک زندہ وجود کی حیثیت سے پاتا ہے۔ لیکن یہ وجود ایک عطیہ ہے، اس نے خود اپنے آپ کو وجود نہیں بخشا۔ انسان کو صحت مند جسم چاہئے۔ صحت مند جسم ہوتو وہ بھرپور زندگی گزارتا ہے، لیکن صحت مند جسم اس کے اپنے بس میں نہیں۔ انسان کو وہ تمام چیزیں چاہئیں جن کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم ہوتو انسان کامیاب زندگی گزارےگا، لیکن اس سسٹم کو قائم کرنا اس کے اپنے بس میں نہیں۔
انسان کو موافق موسم درکار ہے۔ موافق موسم ہوتو انسان امن و عافیت کے ساتھ زندگی گزارے گا، لیکن موافق موسم کو قائم کرنا انسان کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی خواہش کے مطابق ابدی زندگی چاہتا ہے، لیکن ہر انسان جو پیدا ہو کر اس دنیا میں آتا ہے، وہ ایک مقرر وقت پر مر جاتا ہے۔ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنے آپ پر موت کو وارد ہونے سے روک دے۔ انسان مکمل طور پر ایک ضرورت مند ہستی ہے، لیکن اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ مکمل طور پر ایک خارجی طاقت کا محتاج ہے۔
انسانی زندگی کا یہ پہلو بے حد قابلِ غور ہے۔ انسان اپنی تخلیق کے اعتبار سے کامل معنوں میں ایک صاحبِ اختیار مخلوق ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت کو خود پورا کرنے پر قادر نہیں۔ انسان کی زندگی کے یہ دو متضاد پہلو (two contradictory aspects) انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس معاملے کی حقیقت کو دریافت کرے، اور اس دریافت کے مطابق اپنی زندگی کی تعمیر کا نقشہ بنائے۔
انسان کا تجربہ اس کو بتاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ صرف ایک پانے والا (taker) ہے، اور دوسری طرف کوئی ہے جو صرف دینے والا (giver) ہے۔ یہ نسبت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حقیقت کے بارے میں سوچے، وہ اپنی زندگی کو حقیقت واقعہ کے مطابق بنائے۔ وہ اپنے آپ کو اس مقام پر رکھے جہاں وہ حقیقتاً ہے، اور دوسری ہستی کے لیے اس مقام کا اعتراف کرے جس کا وہ حق دار ہے۔
مختصر الفاظ میں یہ کہ انسان اگر سنجیدگی کے ساتھ اپنے ہر معاملے پر غور کرے گا تو وہ پائے گا کہ وہ خود اس دنیا میں عبد کے مقام پر ہے، اور دوسری ہستی معبود کے مقام پر۔ یہی دریافت انسان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔ جو انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اس حقیقت کو دریافت کرلے، وہی انسان، انسان ہے۔ اس کے لیے تمام ابدی کامیابیاں مقدر ہیں۔ اس کے برعکس، جو شخص اس حقیقت کی دریافت میں ناکام رہے، وہ انسان کی صورت میں ایک حیوان ہے۔ اس کے لیے اس دنیا میں ابدی خسران (eternal loss) کے سوا اور کچھ نہیں۔
جو شخص اس حقیقت کو دریافت کرلے، فطری طور پر اس کا رسپانس (response) وہی ہوگا، جس کا ذکر قرآن کے ابتدا میں ان الفاظ میںا ٓیاہے: الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (1:2)۔ یعنی اس بر تر ہستی کا شکر جو سارے عالم کا رب ہے، جو انسان کی تمام کمیوں کی تلافی کرنے والا ہے۔ یہ اعتراف انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کرے گاجب کہ اس کے اندر اپنے رب کے لیے حبّ شدید اور خشیت شدید پیدا ہوجائے۔ یہی وہ فرد ہے جس کو قرآن میںمومن کہا گیا ہے۔
الرسالہ اگست 2017
4 notes · View notes
emergingpakistan · 4 years
Text
چین بھارت جھگڑا کیوں جاری رہے گا ؟
پہلی بات یہ کہ یہ جھگڑا ورثے میں ملا ہے۔ اب سے ایک سو چھ برس پہلے ( انیس سو چودہ ) جب تبت اور برٹش انڈیا کے درمیان شمال مشرقی بھارت اور جنوبی تبت کی سرحدی حد بندی کا سمجھوتہ میکموہن لائن کے نام سے ہوا توتبت چین کا حصہ نہیں تھا۔ اسی طرح چینی ترکستان ( شن جیانگ) بھی چین کا علامتی حصہ مگر اندرونی طور پر خود مختار صوبہ تھا۔ جب انیس سو انچاس میں چین میں چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو کیمونسٹوں نے بیجنگ سے کھدیڑ کر فارموسا (تائیوان) کے جزیرے تک محدود کر دیا اور ماؤزے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تو نئی حکومت نے تمام ’’ غیر منصفانہ عوام دشمن‘‘ بین الاقوامی سمجھوتوں کا ازسرِنو جائزہ لینے کا عندیہ دیا ۔
انیس سو پچپن میں انڈونیشیا کے قصبے بنڈونگ میں صدر احمد سوئیکارنو سمیت پانچ میزبان ایشیائی ممالک (بشمول برما، بھارت، پاکستان، سری لنکا) نے بڑی طاقتوں کی سرد جنگ سے الگ تھلگ رہنے کے خواہش مند نو آزاد ممالک کے ایک الگ گروپ کی تشکیل کے لیے اعلیٰ سطح اجلاس بلایا جس میں چواین لائی ، نہرو ، ناصر ، بن بلا اور محمد علی بوگرہ سمیت انتیس ایفرو ایشین ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی (بعد ازاں اس گروپ نے غیر جانبدار تحریک کی شکل اختیار کی )۔ نئے گروپ کی قیادت کے لیے چین اور بھارت دونوں ہی بہت شدت سے خواہاں تھے۔ نہرو اور چواین لائی بظاہر ایک دوسرے سے بنڈونگ میں گرم جوشی سے ملے مگر نجی طور پر چواین لائی نے رائے دی کہ میں نے اس سے زیادہ خود پسند (نہرو) شخص آج تک نہیں دیکھا۔
حالانکہ بھارت اور پاکستان کیمونسٹ چین کی حکومت تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھے۔ مگر ابتدائی عشرے میں عوامی جمہوریہ چین سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی معاہدوں میں شمولیت کے سبب پاکستان کو مغرب کے طفیلیے کے طور پر شبے سے دیکھتا رہا۔ جب کہ نہرو کے ساتھ چینی قیادت کی نسبتاً آسانی سے نبھتی رہی کیونکہ برصغیر کی آزادی کی تحریک میں نہرو کے کردار اور سوشلسٹ نظریات کے سبب چینی اور روسی کامریڈ نہرو کو اعتماد کا آدمی سمجھتے تھے۔ پہلی چین بھارت علاقائی دراڑ تب پڑی جب انیس سو انسٹھ میں بھارت نے ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی ہمالیائی سرحدی حد بندی کے نقشے شایع کیے جس میں تبت کے کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔ 
کشمیر سے متصل اڑتیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اکسائی چن ، مشرقی لداخ کے کچھ علاقے اور جنوبی تبت سے متصل بھارت کے زیرِ قبضہ ارونا چل پردیش کے نوے ہزار کلو میٹر کے رقبے پر چین کا تاریخی دعوی تھا۔ جب بھارت نے یکطرفہ سرحدی نقشے شایع کیے ��و چین نے پہلی بار واضح طور پر کہا کہ وہ انیس سو چودہ کی برٹش انڈیا اور تبت کے مابین کھینچی گئی میکموہن لائن سمیت کسی سرحدی حد بندی کو تسلیم نہیں کرتا جب تک کہ نئی حد بندی کے لیے باضابطہ بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا۔ بھارت نے اس چینی موقف کو مسترد کر دیا۔ یوں سرد مہری بڑھتے بڑھتے دونوں ممالک کو تین برس بعد (انیس سو باسٹھ) ایک بھرپور جنگ کے دہانے تک لے آئی۔
اس سے پہلے کہ ہم باسٹھ کے سال میں داخل ہوں۔ یہ کھوجنے میں کیا حرج ہے کہ اپریل انیس سو پچاس میں بھارت کی جانب سے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات ہندی چینی بھائی بھائی کے پائیدان سے صرف دس برس میں ہی جنگ آمد کے قدمچے تک کیسے گر گئے ؟ انیسویں صدی میں رنجیت سنگھ کی افواج نے کشمیر سے بھی آگے بڑھ کے لداخ سمیت تبت کے ایک بڑے حصے پر مختصر عرصے میں قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں انگریزوں کی کوششوں سے تبت کی خود مختار حکومت اور جموں کے ڈوگروں کے مابین امن اور علاقائی تبادلے کا سمجھوتہ ہو گیا۔ مگر لداخ تبت کو واپس نہیں کیا گیا۔ 
چنانچہ جب اکتوبر انیس سو اڑتالیس میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو مہاراجہ کو اس دستاویز میں ریاست جموں و کشمیر کے ’ نریش‘ اور تبت کے ’دیش ادھی پتی‘ کے طور پر مخاطب کیا گیا۔ تب سے اب تک بھارت کا مسلسل موقف ہے کہ سابق ریاست جموں و کشمیر کے وہ تمام علاقے جو چھبیس اکتوبر انیس سو اڑتالیس کے دن تک ریاست کا حصہ تھے بھارت سے الحاق کے بعد اس کی ملکیت میں آ گئے۔ ان میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر ، گلگت بلتستان، چین کے زیرِ قبضہ آکسائی چن بھی شامل ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اسی دستاویز الحاق میں مہاراجہ ہری سنگھ کی تبت کی ملکیت کی دعویداری کا آج تک کسی بھارتی حکمران نے بھولے سے بھی تذکرہ نہیں کیا۔ 
بلکہ نہرو نے تو ریاست کے بھارت سے الحاق کے دو برس بعد عوامی جمہوریہ چین کو کھل کے یقین دہانی کروائی کہ تبت پر بھارت کا کوئی سیاسی و جغرافیائی دعوی نہیں۔ البتہ جب انیس سو انسٹھ میں انھی پنڈت نہرو کے ہوتے بھارت نے سرحدی نقشے شایع کیے تو تبت کے کئی سرحدی علاقے بھی بھارت کا حصہ دکھائے گئے۔ ویسے دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جس کا کسی دوسرے ملک سے سرحدی تنازعہ نہ ہو۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ چین اور بھارت کا یہ پرانا سرحدی جھگڑا آناً فانا نومبر انیس سو باسٹھ میں دس ہفتے کی ایک بھرپور لڑائی میں بدل گیا اور اس نے مستقبل کی علاقائی سیاست و اتحادی نظام کی شکل بدل کے رکھ دی۔
اس جنگ کی بنیادی وجہ چین اور بھارت کی ایک دوسرے کے علاقوں پر دعویداری نہیں بلکہ بھارت کا دہرا سیاسی رویہ تھا۔ چین نے اگرچہ سن پچاس میں تبت میں دلائی لامہ کی حکومت کو چین کے ایک خودمختار علاقے کی انتظامیہ کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ مگر اس دوران یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ بھارت نے ہمالیہ میں امریکی سی آئی اے کو کچھ خفیہ مواصلاتی چوکیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ تبت اور شنجیانگ کے علاقے میں چینی نقل و حرکت پر مسلسل نگاہ رکھی جا سکے۔ چین کو یہ مبینہ ثبوت بھی ملے کہ سی آئی اے بھارتی خفیہ اداروں کی مدد سے تبت کے دارلحکومت لہاسہ میں چین مخالف جذبات ابھارنے اور تبت کو ایک آزاد و خود مختار ملک میں تبدیل کروانے کے لیے دلائی لامہ کی مدد کر رہی ہے۔
اب یہ حقیقت تھی کہ چین کا وہم ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مگر ہوا یوں کہ اس کے سبب تبت کی رہی سہی خود مختاری بھی ختم ہو گئی اور اسے چین کا باقاعدہ صوبہ قرار دے دیا گیا۔ دلائی لامہ سے انتظامی اختیارات واپس لے لیے گئے اور انھیں محض ایک علامتی روحانی درجے تک محدود کر دیا گیا۔ پھر انیس سو انسٹھ کے ایک روز اطلاع ملی کہ دلائی لامہ اپنے سیکڑوں حامیوں کے ہمراہ پاپیادہ فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے۔ حکومتِ بھارت نے انھیں ہماچل پردیش میں دھرم شالہ کے مقام پر ایک بڑی جگہ فراہم کر دی۔ وہاں تبت کی جلاوطن حکومت کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا جو آج تک قائم ہے۔ دو ہزار نو میں خاکسار کو دلائی لامہ سے نصف گھنٹے کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ بہت سے سوالات میں ایک یہ بھی تھا کہ کیا واقعی ان کا پچاس کی دہائی میں سی آئی اے سے رابطہ تھا۔
اس کا سیدھا جواب دینے کے بجائے دلائی لامہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ جب اتنے برس گذرنے کے بعد میں چینیوں کو یقین نہیں دلا سکا کہ اگر کوئی ایجنٹ ہوں گے بھی تو میرے علم میں نہیں تھے۔ تو آپ بھی اپنی سمجھ کے مطابق اس سوال کا جواب خود ہی دے لیں۔ میں تو جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔ بھارت میں تبت کی جلاوطن حکومت کے قیام کا مطلب چینی بھینسے کو لال رومال دکھانا تھا۔ چنانچہ دونوں ممالک کے مابین کسی بھی جامع جغرافیائی سمجھوتے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ اسی دوران چین اور سوویت یونین کی نظریاتی دوستی میں بھی دراڑ پڑ گئی۔ بھارت نے غیر جانبدار رہنے کے بجائے سوویت یونین سے اسٹرٹیجک تعاون بڑھا نے کا فیصلہ کیا اور یوں چین اور بھارت کے مابین مستقبل کے تعلقات کا ٹیڑھا سانچہ تیار ہو گیا۔ اور پھر ایک روز نومبر انیس سو باسٹھ میں معلوم ہوا کہ چین نے بھارت پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا۔  
اونچے پائیدان پر براجمان رہنماؤں کا ایک بنیادی المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انھیں ہمیشہ وقت کی کمی کا وہم رہتا ہے لہذا وہ عجلت میں بڑے بڑے کام انجام دینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ٹھوکر لگنے اور منہ سے بڑا نوالہ ٹھونس لینے کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ عجلت پسند رہنما اوپر یا آگے تو دیکھ لیتے ہیں البتہ عقب یا پاؤں تلے دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جواہر لال نہرو کے ساتھ بھی یہی المیہ تھا۔ ایفرو ایشیائی قائد بننے کے شوق میں وہ بھول گئے کہ پہلے محلے والوں سے خود کو منوا لیں تب آگے بڑھیں۔ نہرو نے خود کو محلے میں منوانے کی کوشش تو کی مگر اتفاقِ رائے کے بجائے زور زبردستی کے ذریعے۔ یعنی بین الاقوامی تاریخ کے عالم ہوتے ہوئے بھی اس علم کا خود پر انطباق نہ سیکھ پائے۔( بھٹو کا بھی شاید یہی المیہ تھا)۔
انیس سو باسٹھ کی چین بھارت جنگ سے چودہ برس پہلے نہرو نے کشمیر کے الحاق میں زور زبردستی کے ذریعے علاقائی ہیت کو اپنی مرضی سے بدلنے کی کوشش کی حالانکہ بطور مورخ انھیں علم ہونا چاہیے تھا کہ تاریخ سے زور زبردستی کسی قابلِ علاج جغرافیائی زخم کو بھی ناسور بنا دیتی ہے۔ پھر نہرو جی نے اپنے تئیں اندازہ لگایا کہ چین کیمونسٹ انقلاب کے بعد اندرونی اتھل پتھل کا شکار ہے اور پرانے اداروں کی شکست و ریخت کے بعد نئے ادارے بنانے اور مستحکم ہونے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔ نیز چین کی پیپلز لبریشن آرمی نہ صرف ڈھائی عشروں سے قوم پرستوں سے لڑ لڑ کر پیشہ ورانہ تھکن کا شکار ہو چکی ہے بلکہ اس کا اسلحہ خانہ بھی بھارت کو ورثے میں ملنے والے جدید نوآبادیاتی اسلحہ خانے کے مقابلے میں کہیں کمزور ہے۔
بھارتی فوج کو دو عالمی جنگوں میں بھانت بھانت کے بین الاقوامی محاذوں پر لڑائی کا بیش بہا تجربہ بھی ہے لہذا یہی موقع ہے کہ چین کے اپنے پاؤں پر اٹھ کھڑے ہونے سے پہلے پہلے جارحانہ فارورڈ پالیسی کے تحت نئی فوجی چوکیاں تعمیر کر کے سرحدی حد بندی کو ہمیشہ کے لیے اپنے حق میں کر لیا جائے۔ بھارتی خفیہ اداروں کی بھی یہی رپورٹ تھی کہ چین فی الحال طاقت کے بھرپور استعمال کی سکت نہیں رکھتا۔ لداخ میں رہے ایک جنرل نے رائے دی کہ چینی ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ ہم ایک راؤنڈ فائر کرتے تھے تو وہ غائب ہو جاتے تھے۔ صرف ایک الگ آواز ویسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل دولت سنگھ کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دستے پوری ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی ہمالیائی سرحد پر بکھرے پڑے ہیں۔ جب کہ سرحد پار چینوں کا کیل کانٹے سے لیس پندرہ ہزار فوجیوں پر مشتمل ایک پورا ڈویژن پیش قدمی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ ہمیں کم ازکم چار اضافی پہاڑی بریگیڈز کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وقت درکار ہے۔ مگر اکثریت نے کہا کہ چین صرف ایک مسلح ڈویڑن کے بل پر کوئی بڑی حماقت نہیں کرے گا۔ اور اب تو سوویت یونین بھی اس کے ساتھ نہیں جو جنگ کی صورت میں اسے رسد بھیجتا رہے۔ لہذا بھگوان کا نام لے کر شروع کرو۔ یوں بھارت نے لداخ سے آسام تک فارورڈ پالیسی کے تحت یکطرفہ سرحدی حد بندی اور فارورڈ چوکیوں کی تعمیر شروع کر دی۔ حسبِ توقع فریقین کے درمیان ہلکی پھلکی مسلح چھیڑ چھاڑ معمول ہوتی گئی۔
مگر بھارت کے علم میں شائد یہ نہیں تھا کہ چین سو سنار کی ایک لوہار کی، کی فوجی حکمتِ عملی کا سرپرائز بھی دے سکتا ہے۔ حملے سے ایک ہفتے قبل ماؤزے تنگ نے سینٹرل ملٹری کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی روائتی بذلہ سنجی کو برقرار رکھا ’’ اب جب کہ نہرو نے سینگ پھنسا لیے ہیں اور ہمیں لڑنے پر مجبور کر ہی دیا ہے تو مروت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم ترکی بہ ترکی جواب دیں تاکہ نہرو کی دل شکنی نہ ہو‘‘۔ اور پھر بیس اکتوبر انیس سو باسٹھ کو چین نے دو محاذ کھول دیے۔ ایک شمال مشرق میں آسام کی جانب اور دوسرا وسط میں لداخ کی جانب۔ بیس سے پچاس کلو میٹر تک تیزی سے پیش قدمی کی۔ آسام کی سرحد کے اندر تینتالیس کلومیٹر پرے تیز پور قصبے پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد شمال مشرقی بھارت کا سارا میدانی علاقہ کھلا تھا مگر چینی رک گئے۔
اسی طرح لداخ کے محاذ پر ڈیمچوک کے علاقے پر بھی چین نے قبضہ کر لیا اور کشمیر و شن جیانگ کے درمیان واقع اقصائے چن پر قبضہ مزید پکا کر لیا۔ اکیس نومبر کو چین نے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی فوجیں رضاکارانہ طور پر بیس کلو میٹر پیچھے تک ہٹا لیں اور بھارت کو پیش کش کی کہ وہ بھی فوجیں پیچھے ہٹا کر باضابطہ سرحدی حد بندی کے لیے بات چیت شروع کرے۔ اس ایک ماہ کی لڑائی میں چین کے سات سو بائیس جوان کام آئے اور ایک ہزار بیالیس زخمی ہوئے۔ بھارت کے تیرہ سو سینتیس فوجی جان سے گئے اور ایک ہزار چالیس زخمی ہوئے ، سولہ سو چھیانوے بھارتی فوجی لاپتہ ہو گئے اور لگ بھگ چار ہزار قیدی بن گئے۔
اس جنگ نے خطے پر جو دورس اثرات مرتب کیے وہ آج تک غالب ہیں۔ پہلی بار بھارت کو اندازہ ہوا کہ اونٹ پہاڑ تلے بھی آ سکتا ہے۔ پہلی بار چین کو اندازہ ہوا کہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے باوجود اس کے اندر ایک بڑی طاقت بننے کا کس بل باقی ہے۔ چین نے بین الاقوامی اسٹیج پر آمدِ نو کا اعلان اکتوبر انیس سو چونسٹھ میں پہلے ایٹمی دھماکے سے کیا۔ بھارت اس ایٹمی منزل سے ابھی دس برس پیچھے تھا۔ چین کا یہ ایٹمی دھماکہ مغرب کو خبردار کرنے سے زیادہ سوویت یونین کو کرارا جواب تھا جس نے عین اس وقت چین کا ساتھ چھوڑا جب چین عالمی طور پر تنہا اور عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں پسماندہ تھا۔ باسٹھ کی چین بھارت لڑائی کے سبب پاکستان کو پہلی اور آخری بار قدرت نے موقع دیا کہ جب بھارت نے وادیِ کشمیر سے اپنا واحد ماؤنٹین ڈویژن لداخ کی سرحد پر منتقل کیا تو پاکستان دوسرا محاذ کھول کر جنگ بندی لائن پار کر کے جموں و سری نگر پر قبضہ کر لے۔
جب چینی سفیر نے ایوب خان کے سامنے یہ آئیڈیا رکھا تو سادہ دل ایوب خان نے اسے اپنے پیٹ میں رکھنے کے بجائے امریکا اور برطانیہ کے سفارت کاروں سے فوراً بانٹ لیا۔ بات واشنگٹن اور لندن تک پہنچ گئی اور ایوب خِان کو فوری طور اعلی ترین سطح پر یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر اس وقت پاکستان غیر جانبدار رہے تو جنگ کے بعد ہم کشمیر کا تنازعہ حل کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے۔ معصوم ایوب خان مان گئے اور پرامید تماشائی بن کے رہ گئے۔ اور جب حسبِ فطرت مغربی ممالک وعدے سے پھر گئے تو تین برس بعد ایوب خان نے اپنے تئیں طارق بن زیاد بن کر کشمیر آزاد کرانے کی ٹھانی۔ تب تک بھارت چین سے لڑائی کے زخم چاٹ چکا تھا اور چینی بدمعاشی کے مقابلے کا واویلا مچا مچا کر جدید امریکی و برطانوی اسلحے کی مدد سے چار نئے ڈویژن کھڑے کر چکا تھا۔
بھارت کو چین کے مقابلے میں اٹھا رکھنے کے لیے نہ صرف امریکا اور برطانیہ کی بھرپور فوجی، اقتصادی و سفارتی امداد ملی بلکہ چین کے نظریاتی دشمن سوویت یونین نے بھی مگ لڑاکا طیاروں کی پہلی کھیپ دان کر دی اور یوں بھارت سوویت اسٹریٹیجک پارٹنر شپ کی طویل اننگز شروع ہوئی۔ دوسری جانب جب پاکستان نے پینسٹھ کی یکطرفہ مہم جوئی کے دوران یہاں وہاں دیکھا تو سیٹو اور سینٹو کے پیارے اتحادی، اور انیس سو انسٹھ کے فوجی معاہدے کا فریق امریکا چمپت ہو گئے۔ بلکہ امریکا اور برطانیہ نے تو کمال انصاف سے کام لیتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو اسلحے کی فروخت پر ہی عارضی پابندی لگا دی کیونکہ لڑائی بھڑائی اچھی بات نہیں ہوتی۔ اب پاکستان کے سامنے بس ایک چین ہی کھڑا تھا کہ جس کے کندھے پر پاکستان اپنا سر رکھ سکے۔ یوں ایک تاریخی بندھن کی تاریخ شروع ہوئی۔
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا (فراز)
ویسے تو یہ فیصلہ باسٹھ کی جنگ تن تنہا لڑنے والے ایک بڑے ملک ( چین ) اور پینسٹھ کی جنگ کے موقع پر اپنے ہی دوستوں کے وعدوں کے مارے چھوٹے ملک ( پاکستان ) کے باہمی حالات نے ہی کر دیا تھا کہ اگلے زمانے میں ’’ جے اور ویرو ‘‘ ایک دوسرے کے لیے کیا کیا کر سکتے ہیں۔ مگر اس دوستی کی بنیاد وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کی انیس سو پچپن میں بنڈونگ کانفرنس میں چواین لائی سے خوشگوار ملاقات ، حسین شہید سہروردی کے انیس سو چھپن کے دورہِ بیجنگ ، میجر جنرل این ایم رضا کی فعال سفارت کاری اور پھر انیس سو اٹھاون کی پہلی مارشل لا کابینہ میں شامل انتیس سالہ وزیرِ قدرتی وسائل ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اپنے انداز میں مضبوط کی۔ گزشتہ مضامین میں تذکرہ ہو چکا ہے کہ پچاس کی دہائی میں جب پاکستان سیٹو ، سینٹو ، پشاور کے سی آئی اے جاسوسی اڈے اور انیس سو انسٹھ کے پاک امریکا دفاعی معاہدے کی زنجیروں میں خود کو رضاکارانہ طور پر جکڑ چکا تھا تو چین کے نزدیک تصورِ پاکستان یہ تھا کہ مغربی سامراج کی کٹھ پتلی ریاست جو چین کے گھیراؤ کی زنجیر میں محض ایک کڑی ہے۔ مگر جب سرحدی حد بندی اور دلائی لامہ کے مسئلے کو لے کر چین اور بھارت بالکل ہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ گئے تو پاکستان نے شاید پہلی اور اب تک کا آخری موقع استعمال کیا کہ دو بڑے ممالک کی دشمنی کو اپنے اسٹرٹیجک و جغرافیائی مفادات کے لیے چابکدستی سے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس نوعیت کا پہلا مثبت اشارہ چین کی بدظن قیادت کو انیس سو اکسٹھ میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں ملا۔ جب پاکستانی مندوب ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی جمہوریہ چین کی اقوامِ متحدہ کی رکنیت کے بارے میں پیش ہونے والی قرار داد کی مخالفت کرنے کے بجائے رائے شماری سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ قرار داد امریکی ویٹو کے سبب منظور نہ ہو سکی مگر امریکی پاکستان کے اس بدلے ہوئے سفارتی رویے پر خاصے جز بز ہوئے۔مگر پاکستان نے بیجنگ کو اپنی نیت کے بارے میں جو اشارہ دینا تھا وہ کامیابی سے دے دیا۔ اسی دوران میں چین نے پاکستان اور کشمیر سے ملنے والی سرحد کے کچھ مقامی نقشے شائع کیے جن میں کچھ ایسے علاقے بھی دکھائے گئے جن پر پاکستان کا بھی دعویٰ تھا۔ ایوب حکومت نے کھلا احتجاج کرنے کے بجائے خاموشی سے چینی قیادت کو اپنی دعویداری سے آگاہ کیا۔ چین نے سرحدی حد بندی کے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔ بھارت سے چین کی ایک بھرپور جنگ کے بعد پاکستان کے حق میں جو سازگار حالات بن گئے تھے اس فضا میں دو مارچ انیس سو تریسٹھ کو سمجھوتے پر دستخط ہوئے۔ اس کے تحت ساڑھے سات سو مربع میل علاقے کے بیشتر حصے پر چین نے پاکستانی دعویٰ تسلیم کر لیا۔ اس دعویٰ میں ہنزہ کے علاوہ متنازعہ کشمیر کا علاقہ بھی شامل تھا چنانچہ بھارت نے پاک چین سرحدی سمجھوتے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر اس سمجھوتے کا ایک تاریخی فائدہ یہ ہوا کہ اب کشمیر کے تنازعے میں تین کے بجائے چار فریق ہو گئے۔ انیس سو اڑسٹھ میں شاہراہ ِ ریشم کی تعمیر کے منصوبے کے آغاز نے چین کو پکا پکا فریق بنا دیا اور گزشتہ برس پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر اور لداخ کی جغرافیائی حیثیت کو جس طرح یکطرفہ طور پر بدلنے کی کوشش کی اور وزیرِ داخلہ امیت شا نے چین کے زیرِ قبضہ کشمیری علاقے آکسائی چن کو آزاد کرانے کا جو کھلا چینلج دیا۔ اس کے نتیجے میں آج لداخ میں بھارت کو چین کے بھرپور ردِعمل کا سامنا ہے اور بھارت کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کرے تو کیا کرے۔ اس ��حاظ سے انیس سو تریسٹھ کا پاک چین سرحدی سمجھوتہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سیاسی و جغرافیائی ہیئت کے تعلق سے مسلسل ’’ گیم چینجر ‘‘ ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان اور چین نے تو اپنی حد بندی طے کر لی، مگر بھارت اور چین کے مابین کشمیر ، لداخ ، ہماچل پردیش ، اتراکھنڈ ، سکم ، ارونا چل پردیش سے آسام تک ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کی لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی کوئی حد بندی نہیں۔ چنانچہ جس کا جہاں زور چلتا ہے کچھ عرصے بعد اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا یہ پوری لکیر ایک دکھتا ہوا پھوڑا ہے جو جگہ جگہ سے کسی بھی وقت پھٹ پڑتا ہے۔ جیسے ستمبر اکتوبر انیس سو سڑسٹھ میں ارونا چل کے علاقے میں نتھو لا اور چولا پہاڑی دروں میں بھارت نے باڑھ لگانے کی کوشش کی تو دونوں ممالک کے مابین بھرپور تصادم ہوا۔ اس بار انیس سو باسٹھ کی نسبت بھارت کا پلہ بھاری رہا۔چین کے لگ بھگ تین سو چھیالیس اور بھارت کے اٹھاسی فوجی مہینے بھر کی جھڑپوں میں کام آئے۔ آٹھ برس بعد ( انیس سو پچھتر ) اسی علاقے میں چین اور بھارتی آسام رائفلزّ میں جھڑپ کے دوران چار بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ انسی سو اٹہتر میں وزیرِ خارجہ اٹل بہاری واجپائی پہلے اعلیٰ ہندوستانی عہدیدار تھے جنہوں نے چین کا انیس سو باسٹھ کی جنگ کے بعد دورہ کیا۔ اس کے اگلے برس دونوں ممالک نے ستائیس برس کے وقفے سے سفارتی تعلقات بحال کیے۔ مگر ان ڈھائی دہائیوں میں پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد چین نے پاکستان کی خواہش پر جوہری تعاون بڑھا دیا۔ انیس سو چوہتر میں بھارت نے چین کے جوہری طاقت بننے کے دس برس بعد پہلا ایٹمی تجربہ کیا۔ چین نے پاکستان کو مشترکہ اسلحہ سازی کے مواقعے اور میزائل ٹیکنالوجی دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ اگلے دس برس میں ( انیس سو چوراسی تک ) پاکستان ایک غیر اعلانیہ جوہری طاقت بن چکا تھا۔ امریکا اور بھارت سمیت متعلقہ ممالک کے علم میں بھی یہ بات پوری طرح سے آ چکی تھی۔ لہٰذا تب سے آج تک سوائے کارگل کے واقعہ کے بھارت اور پاکستان کے مابین گلابی جھڑپیں تو ہوتی رہیں مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ سہ طرفہ علاقائی جوہری توازن اور سپر پاوریت کے راستے پر چین کے تیز رفتار سفر نے کسی بھی بھرپور مقامی جنگ کے امکانات کو پہلے سے کم کر دیا ہے۔ کیونکہ اس بار واقعی سب جانتے ہیں کہ آغاز کے بعد خاتمے کا فیصلہ کسی بھی ملک کے بس سے باہر ہو گا۔ شاید اسی لیے جب بھارت نے انیس سو چھیاسی میں ارونا چل پردیش کو باقاعدہ ریاست کا درجہ دینے کا اعلان کیا تو چین نے بھرپور احتجاج ضرور کیا اور پوری ریاست پر اپنا دعویٰ ضرور جتایا البتہ کوئی براہ راست فوجی اقدام کرنے یا شمشیر ہوا میں لہرانے سے گریز کیا۔ بھارت کو اگر سرحدی علاقوں میں چین کے ہم پلہ ہونا ہے تو اسے فوجی نقل و حرکت تیز رفتار بنانے کے وسائل کو مسلسل ترقی دینا ہو گی۔ مودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ دو ہزار بائیس تک بھارت چین سرحد پر کم ازکم تین ہزار آٹھ سو بارہ کلو میٹر طویل سڑکیں تعمیر کی جائیں تاکہ ضروت پڑنے پر فوجی نقل و حرکت ہفتوں کے بجائے دنوں اور گھنٹوں میں ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت لداخ سے ارونا چل تک لگ بھگ بیس فضائی پٹیوں کو بھی ترقی دینا چاہتا ہے تاکہ بھاری مال بردار طیارے اتر سکیں۔ سابق بھارتی سپاہ سالار جنرل بکرم سنگھ کہتے ہیں کہ چین نے پچھلے تیس برس میں سرحد کے دوسری جانب ذرائع نقل و حمل کو اتنی ترقی دے لی ہے کہ اب وہ زمینی و فضائی راستے سے ایک ہفتے کے اندر اندر بتیس ڈویژن تک فوجی قوت ہنگامی طور پر سرحد تک پہنچا سکتا ہے۔ جب کہ بھارت کو کم ازکم بائیس ڈویژن فوج کی تیز رفتار نقل و حرکت کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔ فی الحال تو بھارت کی صلاحیت کا یہ حال ہے کہ دو ہفتے قبل لداخ کی گلوان ویلی میں جس جھڑپ کے دوران بیس بھارتی فوجی ہلاک اور چھہتر زخمی ہوئے۔ انھیں پیچھے لے جانے میں ہی بھارت کو بارہ گھنٹے لگ گئے۔ اگر بھارت کے پاس برق رفتار مواصلاتی صلاحیت ہوتی تو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھی۔ اس ہاؤ ہو سے فائدہ اٹھا کر چین نے وادی گلوان میں پیچھے ہٹنے کے بجائے بھارت سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کر دیا ہے اور اس علاقے میں اپنی فوجی موجودگی میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے تاکہ اس علاقے تک سڑک پہنچانے کے منصوبے کو روکا جا سکے اور قریب ہی موجود بھارتی فضائی پٹی بھی نشانے پر رہے۔ تین برس قبل سکم اور تبت کے مابین دوکلام میں بھی سڑک کی تعمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک تہتر دن تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے رہے۔ یعنی اس وقت دونوں ممالک کی پوری کوشش ہے کہ ایک دوسرے کو سرحدی مواصلاتی رسائی بہتر بنانے سے روکیں۔
یہی مواصلاتی رسائی بہتر بنانے کے سبب نیپال اور بھارت کے مابین بھی سرحدی ملکیت کا تنازعہ ابھر آیا ہے۔ اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل منوج نروانے نے پہلی بار کھل کے کہا ہے کہ نیپال چین کی شہہ پر بھارت کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ یہ بیان دیتے وقت جنرل منوج غالباً بھول گئے کہ آج بھی لگ بھگ بتیس ہزار نیپالی گورکھے بھارتی فوج میں شامل ہیں۔ تو اگر مودی حکومت فی الحال اس قابل نہیں کہ چین کے مقابلے میں وہی مردانگی دکھا سکے جو وہ باقی پڑوسیوں پر بہانے بہانے سے جتاتی رہتی ہے تو پھر کون سا دوسرا راستہ ہے جس پر چل کر چین کو چھٹی کا نہ سہی پانچویں کا دودھ ہی یاد دلایا جا سکے۔ بھارت کا خیال ہے کہ چینی سامان کا بائیکاٹ کر کے وہ چین کو راہِ راست پر لا سکتا ہے۔ اس بھارتی نظریے میں کتنی جان ہے۔
ایک نسل در نسل کہاوت ہے ’’ دل کا راستہ معدے سے گذرتا ہے‘‘۔ یعنی مہمان نوازی دل نرم کرتی ہے اور جب دل نرم پڑ جائیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان میں کئی عشروں سے یہ نسخہ بتایا جا رہا ہے کہ پہلے تجارت کے فروغ ، چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کے نمٹاؤ اور ویزے و سفر کی سہولتیں آسان کر کے باہمی اعتماد سازی کی جائے۔ اس کے بعد کشمیر جیسے بڑے مسئلے سلجھانے کی کوشش کی جائے تو بہتر نتیجہ نکلے گا۔پاکستان نے اس نظریے کو مکمل طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس کا موقف ہے کہ پہلے اگر سب سے بڑے مسئلے کو سیدھا کر لیا جائے تو چھوٹے مسئلے خود بخود تیزی سے حل ہو جاتے ہیں۔ ورنہ چھوٹے مسائل بھی بڑے مسئلے کے گرد گول گول گھومتے رہتے ہیں۔ البتہ بھارت کی تھیوری یہ رہی کہ بڑے پتھر پر ہاتھ ڈالنے سے قبل اگر اردگرد بکھرے پتھر صاف ہو جائیں تو پھر بڑا پتھر اٹھاتے وقت کسی چھوٹے پتھر سے ٹھوکر نہیں لگے گی۔
پہلے اعتماد سازی اور پھر بڑے مسائل کے حل کا یہ فارمولا چین بھارت تعلقات پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ تجارت و اعتماد میں مسلسل اضافہ ہوا مگر ساڑھے تین ہزار کلو میٹر طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی باضابطہ حد بندی کے آثار آج بھی اتنے ہی دور ہیں جتنی چلتے گدھے کے منہ کے آگے لٹکتی ہوئی گاجر۔ انیس سو اناسی میں دونوں ممالک کے مابین سترہ سال کے وقفے سے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ راجیو گاندھی نے انیس سو اٹھاسی میں چین کا دورہ کیا۔ راجیو کے بعد نرسیمہا راؤ ، اٹل بہاری واجپائی ، من موہن سنگھ بھی بیجنگ یاترا پر گئے۔ چینی وزرائے اعظم لی پنگ نے انیس سو اکیانوے میں اور وزیرِ اعظم وین جیا باؤ نے دو ہزار پانچ میں چار سو چینی سرمایہ کاروں کے ہمراہ بنگلور کا دورہ کیا۔ موجودہ چینی صدر لی پنگ دو بار بھارت آ چکے ہیں، نریندر مودی پانچ بار چین جا چکے ہیں۔ پچھلے چھ برس میں دونوں رہنماؤں کی مختلف بین الاقوامی فورمز سمیت کل ملا کے گیارہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ کبھی مودی اور لی پنگ پینگ پر بیٹھے جھول رہے ہیں ، کبھی کشتی میں سفر کر رہے ہیں ، کبھی احمد آباد کے گاندھی آشرم میں ماتھا جوڑے بیٹھے ہیں ، کبھی کیرالہ کے کھنڈرات میں چہل قدمی کر رہے ہیں، کبھی تیسری دنیا کے صنعتی ممالک کی تنظیم برکس کے اجلاس میں لنچ کر رہے ہیں ، کبھی شنگھائی تعاون کونسل میں پہلے آپ پہلے آپ کر رہے ہیں۔ چین سارک کی تنظیم میں بطور مبصر بھی شامل ہے۔ مگر اس سب کے نتیجے میں کیا بنیادی سرحدی معاملات ایک انچ بھی بہتر ہوئے یا اور ابتر ہو گئے ؟ البتہ باہمی تجارت حیران کن رفتار سے آگے بڑھتی چلی گئی۔ دو ہزار چار میں زمینی راستوں سے تجارت شروع ہوئی اور پہلے برس ہی دس ارب ڈالر کا مال بیچا اور خریدا گیا۔
آج صورت یہ ہے کہ دو طرفہ تجارت کا حجم نوے ارب ڈالر سے اوپر ہے۔ چین بھارت کا دوسرا اور بھارت چین کا دسواں بڑا اقتصادی ساجھے دار ہے۔ اگر کورونا نہ ٹوٹ پڑتا اور بھارت چین سرحدی کشیدگی کا بخار اچانک ایک سو پانچ تک نہ پہنچ جاتا تو موجودہ برس کو دونوں ممالک باہمی سفارتی تعلقات کی ستہرویں سالگرہ کے طور پر شاندار طریقے سے مناتے اور باہمی تجارت کا حجم سو ارب ڈالر کے ہدف تک پہچانے کی کوشش کرتے۔ مگر آج بھارت میں سب سے بڑا ہیش ٹیگ ہے چینی اشیا کا بائیکاٹ۔ تو جو مقصد میدانِ جنگ میں حاصل نہ کیا جا سکے وہ تجارتی بائیکاٹ کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے ؟ ہو بھی سکتا ہے مگر اس کیس میں شائد یہ ممکن نہ ہو۔ بھارت کو دوطرفہ تجارت میں اس وقت لگ بھگ باون ارب ڈالر کا سالانہ خسارہ ہے۔ مودی حکومت کو بھی احساس ہے لہذا اس نے سرکاری طور پر تجارت معطل کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا البتہ آل انڈیا ٹریڈرز کنفیڈریشن جیسے نجی اداروں کے ذریعے چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کا دھیان سرحدی پٹائی کی وجوہات جاننے کے بجائے قسطوں میں خریدے چینی ٹی وی توڑنے اور صدر شی پنگ کے پتلے جلانے میں لگا رہے۔ اس وقت بھارت کی پچھتر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سروس سیکٹر میں لگ بھگ چھ ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری اگر منسوخ ہوتی ہے تو بھارت کو بھاری جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ریلوے اور ٹیلی کمیونکیشن کے بڑے بڑے ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کے پاس ہیں یا ان ٹھیکوں میں شراکت ہے۔ اگر بھارت اس مرحلے پر یہ ٹھیکے منسوخ کرتا ہے تو یہ ترقیاتی منصوبے بہت پیچھے چلے جائیں گے ، ان کی لاگت بھی بڑھتی چلی جائے گی اور شائد منسوخی کا ہرجانہ بھی دینا پڑے۔ بھارت میں دوا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والا ستر فیصد خام مال ، شمسی توانائی کے چوراسی فیصد کل پرزے ، ہیوی انجینرنگ اور آٹو موبیل صنعت کے آدھے اجزا چین سے آتے ہیں۔ اگر باقی دنیا سے یہ اشیاء خریدی جائیں گی تو لاگت بڑھ جائے گی۔ لاگت بڑھے گی تو دنیا میں کون سستی چینی اشیا کے مقابلے میں مہنگی بھارتی اشیاء خریدے گا ؟ چلیے چینی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی کامیابی سے ہو جاتا ہے اور بھارت متبادل کے طور پر جاپانی، یورپی اور امریکی کمپنیاں ڈھونڈھ لیتا ہے۔ مگر تب کیا ہو گا جب معلوم ہو گا کہ یہ کمپنیاں بھی چین میں قائم اپنی فیکٹریوں سے ہی مال تیار کراتی ہیں۔ چین پر دآرو مدار کا یہ عالم ہے کہ دیوالی کے پٹاخے، ہولی کے رنگ اور پچکاریاں اور گنیش جی کی مورتیاں تک سستی پڑنے کے سبب چین سے منگوائی جاتی ہیں۔ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تین ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا گیا کانس�� کا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ڈونکنگ میٹل ہینڈی کرافٹ کے چینی انجینروں کا کارنامہ ہے۔ دو ہزار سترہ میں جب دوکلام کے محاذ پر چین اور بھارت کی فوجیں تہتر روز تک آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہیں تب بھی سردار پٹیل کے مجسمے پر کام ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا اور دو ہزار اٹھارہ میں مکمل ہوا۔ چین بالی وڈ فلموں کی یورپ اور امریکا کے بعد تیسری بڑی منڈی ہے اور اس منڈی سے بالی وڈ کو لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کا ریونیو ملتا ہے۔ چونکہ اوپر کی سطح پر کسی کو ادراک نہیں کہ اتنی بڑی تجارت کا پہیہ اچانک سے روکنے کے قومی نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔ لہذا جس کے منہ میں جو آ رہا ہے اگل رہا ہے۔جیسے ایک مرکزی وزیر رام داس اتاولے نے کہا کہ دیش کی جنتا چائنیز کھانا چھوڑ دے اور چائنیز ریسٹورنٹس کا بائیکاٹ کر دے۔ اتاولے جی اس قدر اتاولے ہیں کہ کوئی انھیں سمجھا بھی نہیں سکتا کہ حضور چینی کھانے چین سے بن کے نہیں آتے بلکہ ان کھانوں میں جتنے بھی اجزا شامل ہوتے ہیں وہ سویا ساس وغیرہ کو چھوڑ کر نوے فیصد ہندوستانی ہی ہوتے ہیں، یہ کھانے لاکھوں ہندوستانی سڑک پر بیچتے ہیں اور کروڑوں لوگ سڑک پر ہی کھاتے ہیں۔ لہذا چینی کھانوں کے بائیکاٹ سے چین کا توکچھ بھی نہیں بگڑے گا۔اس کی چوٹ براہِ راست عام بھارتیوں کے پیٹ پر ہی پڑے گی۔ رام داس اتاولے جیسے ہی ایک صاحب دلی میں رہتے تھے مگر مسلسل چوبیس گھنٹے ریڈیو پاکستان سنتے تھے۔ کسی نے پوچھا ججمان جی کبھی آل انڈیا ریڈیو بھی سن لیا کرو۔ ججمان جی نے کہا میاں ریڈیو پاکستان میں اپنے شوق کے لیے تھوڑی بلکہ دشمن کی بجلی ضایع کرنے کے لیے سنتا ہوں۔ ( تمت بالخیر) وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
humaahmed · 5 years
Text
Tumblr media
"شہ رگــــ" کا وظیفہ ترکــــ کرو
یہ جھوٹـــــ مسلسل متــــ بولو
اکـــــ آدھ مہینہ سال نہیں
یہ پون صـــدی کا قصہ ھے
تم شام وسحر یہ کہتے تھے
کشــــــمیـر ہمارا حصہ ھـے
تم بھول چکے سبـــ اپنا کہا
بس جھوٹــــ پہ مبنی وعدہ کیا
تم نے جو بنائے میــــــزائل
تم ان کی نمائش کرتے رہو
تم سینت کے رکھّو ایٹم بم
اور امن کی خواہش کرتے رہو
دنیا یہ عجوبہ دیکھ چکی
"شہ رگ" کے بِنا تم زندہ ہو
تم بھول چکے سب اپنا کہا
اس قول پہ تم شرمندہ ہو
گلشن ہے ہمارا پیارا وطـــــن
ہم اس کو لہو سے سینچیں گـے
ھــــــــــم دیکھ نہ پائــے آزادی
بچے تو ھمــــارے دیکھیں گـے
1 note · View note
omega-news · 2 years
Text
امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے. شہبازشریف
امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے. شہبازشریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے پاکستان کی مسلح افواج ہر خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ میری ٹائم مفادات کے تحفظ کے لیے بحریہ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا اولین ترجیح ہے، دوست ممالک سے مشترکہ منصوبے اس کی صلاحیت میں اضافے کا باعث بنیں گے. انہوں نے کراچی میں نیول اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج ہرخطرے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes