Tumgik
#دھرنا
urduchronicle · 5 months
Text
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا، مسئلہ کے حل کے لیے 4 دن کی ڈیڈلائن
اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے فرسٹ ایئر کے بدترین نتائج کے خلاف جماعت اسلامی نے انٹرمیڈیٹ بورڈ آفس کے باہر دھرنا دے دیا۔دھرنے میں طلباء اور والدین کی بڑی تعداد شریک ہے۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم بھی احتجاج میں پہنچ گئے۔ حالیہ فرسٹ ایئر کے نتائج میں 44 ہزار سے زائد طلباء فیل ہوئے ہیں، حالیہ فرسٹ ایئر کے تمام گروپوں کے نتائج میں فیل ہونے والے طلباء کا تناسب 64 فیصد تھا دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 4 months
Text
گوری میم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔!!!
قسط نمبر 27
تم نے اپنی سیکسی باتوں سے پہلے ہی میرا برا حال کیا ہوا ہے۔ اس پر میں اس کے ہاتھ سہلاتے ہوئے بولا۔ کیسے؟ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگی۔ خود ہی چیک کر لو۔۔۔ اس کی آفر سن کر میں نے اپنے پیروں میں پہنا جوتا اتارا اور ایک دفعہ پھر ۔۔۔۔۔۔ میز کے نیچے سے اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں لے گیا۔ میرے پاؤں کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں محسوس کرتے ہی وہ کرسی پر کھسک کر آگے ہو گئی اور میں نے ۔۔ اپنے پاؤں کا انگھوٹھا اس کی چوت پر رکھ دیا وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اس وقت اس کی چوت بہت گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں انگھوٹھے کو اس کی پھدی پر رگڑتے ہوئے بولا۔۔۔--- ---- رمشا تمہاری پھدی تو لیک کر رہی ہے ۔۔۔۔ تو وہ میرے --- انگھوٹھے پر اپنی پھدی کا دباؤ بڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تمہارے اس کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے بھی اس سے کہا ... خود چیک کر لو۔ وہ کہنے لگی ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن۔ پہلے تم اپنے پاؤں کو واپس کرو۔۔۔ تو میں نے اس کی پھدی پر رکھے انگھوٹھے کو واپس کھینچ لیا اور خود کھسک کر کرسی کے کنارے پر آ گیا۔ اس وقت میری حالت یہ ہو رہی تھی کہ میرا لن شلوار میں
اکڑا کھڑا تھا۔ اور اس کی چوت کی طرح میرے لن سے بھی مزی ٹپک رہی تھی گویا کہ دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی۔۔۔ ۔
Tumblr media
دوسری طرف اس نے اپنی جوتی اتاری اور پھر میرے اکڑے
ہوئے لن کو اپنے ننگے پیروں کے درمیان رکھا اور پھر اپنے پیروں کو اوپر نیچے کرتے ہوئے بولی۔۔۔ اُف ف ف -- تمہارا کتنا بڑا اور سخت ہے۔۔۔ تو میں نے اس سیکسی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ تمہیں پسند آیا؟ تو وہ کہنے لگی میرا بس نہیں چل رہا ورنہ میں نے ابھی ۔۔۔ تم کو بتانا تھا کہ مجھے تمہارا کیسا لگا ہے۔۔ وہ کچھ دیر تک۔۔۔ اپنے پاؤں سے کی مدد سے میرے لن پر مساج کرتی رہی۔ پھر اس نے اپنے پاؤں کو وہاں سے ہٹا لیا ۔۔ اور کہنے لگی کاش اس کیبن کی جگہ تم میرے بیڈ روم میں ہوتے۔ اتنی دیر میں باہر سے اسی مخصوص کھانسی کی آواز سنائی دی اور اس آواز کے سنتے ہی ہم دونوں نارمل ہو کر بیٹھ گئے۔۔۔ حسب توقع چند سیکنڈز کے بعد کیبن کا پردہ ہٹا ۔۔۔۔۔۔ آنے والا ویٹر تھا اس نے ہمارے سامنے جوس رکھا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔۔ اس کے باہر نکلتے ہی میں رمشا سے بولا اچھا یہ بتاؤ۔۔ کہ انوشہ نے تمہاری خوبصورت چوت کو کیوں نہیں چوسا؟ تو وہ کہنے لگی اس لیئے کہ وہ مردوں کی سخت شوقین تھی
اس لیئے جب بھی ملتی ہے۔۔۔ مجھے یہی درس دیتی ہے کہ۔۔۔۔ عورت کے برعکس مرد کے ساتھ سیکس کرنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے اس کے لن پر زبان پھیرنے کا اپنا ہی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ اور اس کے لن کو منہ میں لے کر چوسنے سے نشہ سا ہو جاتا ہے۔۔۔ چونکہ وہ میری بیسٹ فرینڈ اور کزن تھی اس لیئے۔۔ آہستہ
آہستہ میں اس کی باتوں پر کان دھرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ - اور پھر ایک دن جب اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ کیئے ہوئے سیکس کا قصہ سنایا تو اسے سن کر میں بہت زیادہ ہاٹ ہو گئی۔۔۔۔۔۔ اور یہ قصہ سن کر پہلی دفعہ میری پھدی نے بھی ایک لن کا تقاضا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اس کی سٹوری والی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ اور میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ اپنی دوست کا وہ قصہ مجھ سے شئیر کر سکتی ہو۔۔۔۔ کہ جسے سن کر آپ بھی لنڈ کی طرف مائل ہو گئیں تو وہ کہنے لگی ضرور سناؤں گی۔ اسی دوران - اپنی آمد کی اطلاع بزریعہ کھانسی دے کر ویٹر کیبن میں داخل ہو گیا۔ چونکہ اس وقت تک ہم دونوں جوس پی چکے تھے چنانچہ اس نے میرے سامنے بل رکھ دیا۔۔۔۔ میں نے اس کو بل معہ بھاری ٹپ دی تو وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔ اس کے جاتے ہی رمشا بھی اپنی جگہ سے اٹھی اور مجھ سے کہنے لگی چلو یار چلتے ہیں ۔ تو میں نے اس سے کہا انوشہ کی کہانی کدھر گئی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ وہ میں تم کو فون پر سنا دوں گی پھر اس نے مجھے فون کرنے کا وقت بتایا ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے آگے بڑھ کر میرے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو جوڑ دیا۔۔۔ مینگو جوس پینے کے بعد ۔۔۔ اب میں رمشا کے نرم اور لذت سے بھر پور۔۔۔ ہونٹوں کا
جوس پی رہا تھا۔ جو کہ مینگو جوس سے ہزار درجہ بہتر اور ٹیسٹ میں بہت اعلیٰ تھے۔۔۔
وعدے کے مطابق ٹھیک گیارہ بجے رات جب میں نے اس کو فون کیا تو وہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ ہیلو ہائے کرنے کے بعد ہم
کے مزہ لینے لگے۔ لگے۔۔ موقع دیکھ کر میں نے اس سے پوچھا ۔ کہ آپ کو میرا لن کیسا لگا ؟... تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولی میری جان مجھے تیرا موٹا اور سخت لن بہت پسند آیا ہے اس لیئے گوری
دوپہر کو ایک دوسرے کے ساتھ کی ہوئی چھیڑ چھاڑ کی باتیں کر
سے پہلے میرا شکار تم ہو گئے۔۔۔ پھر کہنے لگی تم کو میری پسی کیسی لگی؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ اور مجھے بھی تیری گرم اور گیلی پھدی بہت پسند آئی ۔۔۔ اس لیئے مجھے تیری چوت چاہیئے تو وہ ہنس کر بولی میرا بھی یہی دل کر رہا ہے کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت ..... پھدی دے دوں اور تم اپنے اس موٹے ڈنڈے کے ساتھ اس کی خوب دھلائی کرو... پھر وہ خود ہی کہنے لگی لیکن یہ ابھی ممکن نہیں ۔ جیسے ہی ماما کہیں آگے پیچھے ہوئی۔۔۔۔ تو میں تمہیں کال کروں گی ۔ اور تم نے سارے کام چھوڑ کر آ جانا ہے اس کی بات سن کر میں نے ایک سرد آہ بھری اور اس سے
بولا وہ دن پتہ نہیں کب آئے گا۔۔۔ فی الحال تم مجھے اپنی کزن کی سیکس سٹوری سناؤ -- -- پھر ہنستے ہوئے بولی رئیلی یہ میری کزن جس کا نام انوشہ ذوالفقار ہے ۔۔۔ کی ایک سچی سیکس سٹوری ہے جسے سن کر ایک کنٹر لیزبین لڑکی مردوں کی طرف بھی مائل ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے بعد رمشا کہنے لگی۔۔۔۔۔ انوشہ کو فیس بک کا بڑا شوق تھا-------- -- --- جہاں اکثر وہ لڑکوں کے ساتھ سیکس چیٹ کیا کرتی تھی۔ -- اسی طرح مختلف لڑکوں کے ساتھ چیٹ کرتے ہوئے اسے عمران مل گیا۔ پھر کہنے لگی اس سے آگے کی داستان
اتم كلام انوشہ بزبان انوشہ سنو
عمران ایک ڈینسٹ لڑکا تھا اس کی عمر 29 سال تھی اور وہ اچھا خاصہ صحت مند قسم کا لڑکا تھا۔ اس کا قد پانچ فٹ اور آٹھ انچ کے قریب ہو گا وہ مجھے فیس بک پر چلتے چلتے مل گیا تھا ایک دن میری آئی ڈی پر اس کی فرینڈز ریکوئیسٹ آئی ۔۔ میں نے اس کی پر فائل دیکھی تو وہ مجھے اچھا لگا ۔۔ سو میں نے اسے اپنی فرینڈز لسٹ میں ایڈ کر لیا۔۔۔۔
Tumblr media
اور یوں میری اس کے ساتھ چٹ چیٹ شروع ہو گئی۔ اسے لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ ۔ ہوتے
ہوتے میری اس کے ساتھ بڑی گہری دوستی ہو گئی۔۔۔ عمران کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کبھی بونگی نہیں مارتا تھا بلکہ بڑی رسپیکٹ کے ساتھ بات کرتا تھا۔ چونکہ مجھے سیکس چیٹ کرنے کا بہت شوق تھا ۔ اس لیئے جلد ہی میری اس کے ساتھ سیکس چیٹ
بھی شروع ہو گئی سیکس چٹ کے ساتھ ساتھ ۔۔ وہ رول پلے بہت اچھا کرتا تھا ... ایک ایک ایکٹ کی ایسی دل کش منظر نگاری کرتا تھا کہ مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ سب حقیقت میں ہو رہا ہو۔۔۔۔۔۔ اس کی چیٹ پڑھ کر مجھے بڑی فیلنگز آتی تھیں
اتنی زیادہ کہ بعض دفعہ تو میں بنا فنگرنگ کے ہی ڈسچارج ہو جاتی تھی ۔۔۔ چنانچہ اس کی یہ چیز مجھے بھا گئی ۔ اور میں من ہی من میں اس کے ساتھ سیکس کرنے کے لیئے مچلنے لگی۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ وہ پاکستان سے باہر ہوتا تھا۔۔۔۔ اس دوران ہماری دوستی اس قدر بڑھ گئی کہ ہم نے اپنی اپنی اصل تصویریں بھی شئیر کر لیں۔ اور پھر فون پر بھی باتیں ہونے لگی۔ اس کی آواز اتنی پراثر اور سیکسی تھی کہ اب ہم لوگوں نے فون سیکس بھی کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ فون سیکس کر کر کے اب میرے اندر۔۔۔۔۔ اس کا لن لینے کی تڑپ مزید بڑھنا شروع ہو گئی۔ ہم اکثر ہی ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کا پروگرام بناتے تھے لیکن مسلہ پھر وہی تھا کہ وہ
ملک سے باہر ہوتا تھا اس لیئے ایک دم سے اس کا ملنا ممکن نہیں تھا۔ لیکن پھر ایک دن وہ پاکستان آ گیا۔ میں فیصل آباد میں رہتی تھی جبکہ وہ لاہور کا رہنے والا تھا۔ لیکن اس کا بھی حل نکل آیا وہ یوں کہ اس کی ایک خالہ فیصل آباد میں رہتی تھی چنانچہ وہ ان سے ملنے کے بہانے فیصل آباد آ گیا اور ہماری ملاقات ایک ریسٹورنٹ میں ہوئی اس ملاقات میں ۔۔۔ میں اپنی ایک دوست کو بھی ساتھ لے گئی تھی۔ اس نے بڑا زبردست لنچ کروایا اور اس دوران اس نے سیکس کے بارے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔۔۔۔ ہاں لنچ کے بعد جب ہمیں چند لمحے تنہائی کے میسر آئے تو اس نے "نائٹ پروگرام " کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے رات ہسپتال آنے کا بولا۔ چنانچہ وہ ٹھیک وقت پر ہسپتال پہنچ گیا۔۔ اس نے جین کے اوپر آف وہائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں وہ بہت سمارٹ لگو رہا تھا۔۔ اسے دیکھ کر۔۔۔ اور آنے والے وقت کا تصور کر کے میری چوت خود بخود کھل بند ہو رہی تھی۔ چنانچہ چائے پینے کے بعد میں نے اپنی ساتھی کولیگ کو جو کہ میری ہمراز بھی تھی۔ خیال رکھنے کا بولا ۔ اور اس کو ساتھ لے کر نرسنگ روم میں چلی گئی۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے کمرے کو لاک کیا۔۔۔ چونکہ ہم دونوں کا شہوت سے برا حال تھا ۔ اس لیئے اندر داخل ہوتے ہی ہم ایک دوسرے کے ساتھ ایسے لپٹ گئے کہ جیسے ٹچ بٹنوں کی جوڑی ”۔
میں عمران کے مضبوط بازؤں کے حصار میں تھی میرا سر اس کے فراخ سینے پر ٹکا ہوا تھا ۔ اور میرے دل کی دھڑکن دھک دھک کر رہی تھی اسی دوران وہ مجھ پر جھک کر بولا۔ ایک بات کہوں جان تو میں نے اس کہا -- بولو تو وہ میرے گال کو چوم کر
بولا ۔ ڈارلنگ -- تم اپنی تصویر سے بھی زیادہ خوب صورت ہو۔۔ تو
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔ تم بھی تو کچھ کم نہیں ہو۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا ۔ اجازت ہو تو دوستی کی پہلی کس کر لوں؟ تو میں نے شوخی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ اس میں اجازت لینے والی کون سی بات ہے آج کی رات تمہیں پوری اجازت ہے۔ تو وہ میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے بولا۔ دوستی کا پہلا کس ان خوب صورت ہونٹوں کے نام۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر بڑے پیار سے چوسنے لگا۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا .... اور مزے کے عالم میں۔۔۔۔ میں اس کے ساتھ مزید چمٹ گئی تبھی مجھے اس کی پینٹ کا ابھار اپنی رانوں پر محسوس ہوا ۔۔۔ اس کے لن کی سختی محسوس کرتے
ہی میری پھدی سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک گیا۔۔۔۔ اور میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کی ابھار والی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور پینٹ کے اوپر سے ہی اسے دبانا شروع ہو گئی۔ جبکہ دوسری طرف کسنگ
کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا ہاتھ میری باہر کو نکلی ہوئی نرم و ملائم گانڈ پر تھا اور کسنگ کے ساتھ ساتھ وہ اس پر بھی ہاتھ
پھیرے جا رہا تھا اپنی گانڈ پر ہاتھ کا لمس مجھے بہت مست کر رہا تھا اور میں مزے کے مارے ہلکا ہلکا کراہ رہی تھی پھر کچھ دیر بعد اس نے میری گانڈ سے ہاتھ ہٹایا اور میرے جسم کو ٹٹولنا شروع ہو گیا۔۔ . جبکہ میں نے مست ہو کر اپنی زبان اس کے منہ میں
ڈال دی۔ جسے اس نے بڑی بے تابی کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا زبان چوستے چوستے اس نے میرے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا اور کہنے لگا۔۔۔ انوشہ ڈارلنگ تم بہت زبردست فگر کی مالک ہو ۔ مجھے پتہ ہوتا کہ تمہار ا ایسا مست اور سیکسی فگر ہے تو میں نے کب کا پاکستان آ جانا تھا تو میں نے شرارت سے کہا۔۔ آ کر کیا کرنا تها جناب نے ؟ تو وہ شہوت سے بولا ۔۔۔۔ تجھے چود نا تھا۔ تیری
پھدی مارنی تھی۔۔۔ اس کی بات سن کر میں مست ہو گئی اور میں نے
عمران کا لن پکڑ کر دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔ پینٹ کے اوپر سے ہی تمہارا لنڈ اتنی پھنکاریں مار رہا ہے جب میرے اندر جائے گا تو
جانے کیا غضب ڈھائے گا اور کہا میری جان مجھے ایسے چودنا
جیسے پورن مویز میں ہیرو ہیروئن کو چودتے ہیں۔۔۔۔
Tumblr media
میری بات سن کر عمران نے شہوت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ میری شلوار کی طرف سرکنے لگا۔ اپنی شلوار کی طرف ہاتھ بڑھتے دیکھ کر میری چوت میں سرسراہٹ سی ہونے لگی۔۔۔ اور میں اس کے ہاتھ کی مومنٹ کو بڑے غور سے دیکھنے لگی۔۔۔ اس کا ہاتھ سرکتے سرکتے آخر اپنی جائے مخصوصہ پہنچ گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ کو میری پیاسی چوت پر رکھ دیا اور اس وقت پوزیشن یہ تھی کہ عمران کا ایک ہاتھ میری کمر کے گرد حمائل تھا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ میری چوت پر دھرا تھا۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ وہ میری پیاسی چوت کو سہلانے لگا۔۔ اور میں عمران کی آنکھوں میں دیکھنے لگی جس میں اس وقت بلا کی مستی چھائی ہوئی --- میری چوت کو سہلاتے ہوئے ۔۔۔۔ وہ اپنے لنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ تم بھی اسے پکڑو نا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کے لنڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ کہنے لگا ایسے نہیں میری جان -- پینٹ کے اندر سے پکڑو۔۔۔ سو میں نے اس کے پینٹ کی زپ کھولی اور .... انڈروئیر میں ہاتھ ڈال کر اس کے لن کو باہر نکالا واؤؤؤؤؤؤ یہ ایک براؤن کلر کا لمبا اور خاصہ موٹا لنڈ تھا اسے پکڑ کر میری مٹھی بھر گئی۔۔۔ اس کے لنڈ کی خاص
بات اس کا پھولا ہوا ٹوپا تھا۔۔۔ وہ اتنا کیوٹ تھا کہ جی کرتا تھا کہ
میں اسے کھا جاؤں۔۔۔۔ میں نے اس کے تنے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ
میں پکڑ لیا۔ دوسری طرف وہ میری چوت کو مسلسل سہلا ئے جا
رہا تھا اور وہ میری پھدی کو اس قدر مہارت کے ساتھ سہلا رہا
تھا کہ مجھے ایسی فیلنگز آ رہیں تھیں کہ جیسے کسی نے میری
چوت پر انگار رکھ دیئے ہوں۔ چوت سہلاتے ہوئے اس نے مجھے
قمیض اوپر کرنے کو کہا۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے قمیض اوپر کی
تو میری چھاتیاں ننگی ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گئیں۔
میری ننگی چھاتیوں کو دیکھتے ہی وہ کہنے لگا۔شاندار۔۔۔ تیرے
ممے بہت شاندار ہیں۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ ۔۔۔۔۔ انہیں چوسو تو وہ نیچے جھکا ۔۔۔ اور میری چھاتی کو چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس کا کھردرا ہاتھ میری مخملی چوت پر
آگ لگا رہا تھا۔ میں آدھی ننگی قمیض سے چھاتیاں باہر نکالے اس سے اپنے ممے چسوا ۔۔۔ اور اس کا لن سہلا رہی تھی اور اب وہ میری شلوار میں ہاتھ دیئے ۔۔۔ میرے
پھولے ہوئے۔۔۔ دانے کے ساتھ کھیل رہا تھا اور میں اس کے لوڑے اور بالز کو سہلا رہی تھی اب میری چوت انتہائی گیلی ہو گئی تھی چنانچہ چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو میری چوت کا گیلاپن جب کچھ زیادہ ہی لگنے لگا تو اس نے اپنے گیلے ہاتھ کو میری شلوار سے باہر نکالا اور سارا گیلا پن میری چھاتیوں پر لگا کر بولا میری انوشے ذوالفقار ! اب میں تیری چوت کو اپنے لنڈ سے چود کر اس کی ساری پیاس بجھا دوں گا۔ تو میں نے بھی جوش میں آکر کہا، آج میں بھی اپنی پیاسی چوت کو تیرے لنڈ سے چدوا کر ہی
سانس لوں گی ۔ لیکن سے پہلے میری چوت چاٹ... میری بات سن کر عمران نیچے جھکا اور شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت کو کس کرنے ۔۔۔۔۔ اور اس کے لبوں پر ہلکا ہلکا کاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔... میں اس کی یہ بے تابی محسوس کر کے انجوائے کر رہی تھی۔۔۔ جبکہ وہ بھی میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔ چوت پر ہلکا بلکا کاٹ رہا تھا۔ مزے کی وجہ سے چوت سے پانی نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔ پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر خود ہی اپنی شلوار اتار دی تو وه میری بالوں سے پاک ننگی چوت کو دیکھ کر بولا "ہائے کیا خوب صورت نظارہ ہے! کیا مست چوت ہے تیری " تب وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ انوشہ میری رنڈی میری جان تیری چوت کو بھی میں ایسے ہی چوسوں گا . جیسے تھوڑی دیر پہلے تیرے ہونٹوں کو چوسا تھا۔۔۔۔ " اتنا کہتے ہی وہ پھر اپنے منہ کو میری چوت کی طرف لے گیا اور میری ہموار
بغیر بالوں والی چوت پر اپنے ہونٹوں سے چومنے لگا جس سے مجھے بہت سرور ملا اور میں نے مستی کے عالم میں اس سے پوچھا کہ تمہیں میری چوت کیسی لگی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا تیری پھدی فٹ بھوکی شیرنی کی
طرح ہے تو میں نے اس سے کہا میری پھدی کی اور تعریف کرو نا پلیز۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔ تیری پھدی بہت خوبصورت ایک دم گرم اور لنڈ کی پیاسی ہے اس کے دونوں لب کھولو تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوبرا پھن پھیلا کے کھڑا ہو - تیرا دانہ مست اور
پھدی کے اوپر کسی پہرے دار کی طرح تنا کھڑا ہے اور زبان حال
سے کہہ رہا ہے کہ پھدی کا مزہ لینا ہے۔۔۔۔ تو پہلے مجھے خوش
کرنا ہو گا۔ اتنی بات کرتے ہی عمران کہنے لگا چونکہ میں نے
تیری پھدی کا مزہ لینا ہے ۔۔۔۔۔ اس لیئے۔ اب میں تیرے دانے کو
خوش کرنے کو اپنے منہ میں لیا۔۔۔ اور چوسنا شروع ہو گیا۔ اور مزے کے مارے میرے منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔ آه آه..اف. کچھ دیر چوسنے کے بعد وہ واپس میری چوت کی طرف پلٹا۔۔۔ اور اب میری چوت پر عمران کے ہونٹوں کی آگ تھی میں سسکیاں بھرتے ہوئے اس کے سر کو سہلانے لگی اور اپنی پیاسی چوت پر اس کا سر
دبانے لگی . وہ میری چوت پر تھوکتا اور پھر..... زور زور سے چوت کو چاٹنا شروع ہو جاتا۔۔۔ میں نشے میں اس کے سر کو اپنی پھدی کی طرف دباتے ہوئے بولی۔۔۔ " ایسے ہی چوس "... مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔ میری فرمائش پر وہ ایسے ہی میری چوت کو چوستا رہا ۔۔۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔ میں نے تو تیری چوس لی .... اب تو میرے اس شیر کا کچھ کر۔۔۔ اس کی فرمائیش سن کر میں نیچے جھکی اور پھر کچھ سوچ کر کھڑی ہو گئی یہ دیکھ کر عمران کہنے لگا۔۔ کیا ہوا جان؟ تو میں نے جواب دینے کی بجائے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور ننگی ہو کر نیچے بیٹھ گئی۔۔ اتنی دیر میں وہ بھی اپنی پینٹ و انڈر وئیر دونوں اتار چکا تھا۔ نیچے بیٹھ کر میں نے پوری تسلی سے اس کے لنڈ کا جائزہ لیا۔۔۔ اور پھر اس کے ٹوپے پر کس کرنے لگی تو وہ کہنے لگا۔۔ ۔ کس نہیں کرو ۔۔۔
منہ میں ڈالو اور میں نے اس کے تنے ہوئے لنڈ کو اپنے منہ میں ڈال کر اسے چوسنے لگی ۔ --- میری پھدی کی طرح اس کا لنڈ بھی مسلسل مزی چھوڑ رہا تھا جو کہ ٹیسٹ میں کافی نمکین تھی۔۔۔ چنانچہ میں اس کے نمکین لن کو کافی دیر تک چوستی رہی اور میرے ہر چوپے پر وه اوه اوه.... کرتا رہا... ایک دفعہ تو جوش میں آ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو پکڑا ۔۔۔۔ اور اپنے لنڈ کی طرف دبانا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے اس کا لنڈ میرے حلق تک جانے کی وجہ مجھے غوطہ لگ گیا۔ گیا۔ لیکن لیہ میں نے لن چوسنا جاری رکها.. پھر کچھ دیر تک لن چسوانے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ انوشہ جانو! کھڑی ہو جاؤ مجھے اب تیری پھدی مارنی ہے ۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔
Tumblr media
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
میں نے جب سے یہ سترہ اصول اپنائے ہیں میری زندگی بدل کر رہ گئی ہے۔
احمد البوری سعودی عرب کے بینکر ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو سرمایہ کاری سے متعلق مشورے دیتے ہیں۔ بچت کی عادت اپنانے پر اکساتے ہیں اور شتر بے مہار جینے کے ڈھنگ کو ترک کرنے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
01: اپنے اھداف مقرر کیجیئے اور اھداف کی طرف بڑھتے اپنے اقدام کی پیمائش کرتے رہا کیجیئے۔
اگر ھدف مقرر نہ کیا گیا ہو، ایسے میں کوئی بڑا موقع مل بھی گیا تو آپ کو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اس کو استعمال کیسے کرنا ہے اور اس سے کیسے مستفید ہونا ہے۔
یہ سوچنا بالکل غیر اہم ہے کہ آپ اپنے ھدف کی طرف بہت آہستہ بڑھ ہیں۔ بس اہم یہ ہے کہ آپ نے پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے۔
02: اپنی زندگی میں کچھ نیا ضرور ایجاد کیجیئے۔
صرف صارف بن نہ جیئے، بلکہ کوئی نئی چیز بنا کر دنیا کو دیجیئے۔
اپنے شب و روز ہی دیکھ لیجیئے کہ آپ کیا پسند کرتے ہیں اور کیسے کرنا چاہتے ہیں، بس ویسا ہی کچھ بنانا شروع کیجیئے۔ وقت کے ساتھ بہتر بن جائے تو خلق خدا کو بھی فائدہ اٹھانے دیجیئے۔
"بنجمن فرینکلن کہتا ہے: کچھ ایسا لکھیئے جسے پڑھنے کا حق بنتا ہو، یا کچھ ایسا کیجیئے جس پر لکھا جانا حق بنتا ہو۔
03: کام کرنے کا نشہ طاری کیجیئے، نتیجے پر رسائی کیلیئے جلدی کیجیئے۔
اپنے افکار کو حقیقت کا روپ دینے اور اس کو جلد مکمل کرنے کی عادت ڈالیئے، جب تک ایسا نہ ہوگا زندگی کیسے بدلے گی؟
سب لوگ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، اپنے آپ کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسے بہت کم ہیں جو اپنے خوابوں کو حقیقت بنانے پر کام بھی کرتے ہیں۔ اپ بھی انہی بہت کم لوگوں میں سے ایک بن جائیے۔ بھروسہ رکھیئے جلد بہتری ہوگی۔
بروسلی کہتا تھا: بغیر چلے مسافت کا کیسے پتہ چلے گا؟
04: اپنے بارے میں سوچیئے، اور اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے والوں کی ایک حد مقرر کیجیئے۔
ایسے لوگوں کو بالکل ہی نظر انداز کیجیئے جو آپ کی روح کو نہیں سمجھتے، آپ پر مسلط رہنا چاہتے ہیں یا آپ کے فیصلے خود سے کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے آپ سے قائل ہو کر رہیئے۔ آپ اپنی زندگی کے مالک ہیں۔ اپنے ��یصلے خود کیجیئے، غلطیاں ہونگی مگر ان سے سیکھیئے۔
ٹیموتھی لیری کہتا ہے: اپنی ذمہ داریاں اٹھائیے اور اپنی زندگی کو خوبصورت بنائیے۔
05: آپ کی زندگی آپ کی ذمہ داری ہے۔
آپ سے زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی ذمہ داری اٹھائیے خواہ یہ کوئی بلا واسطہ رشتہ یا تعلق ہو یا بالواسطہ تعلق۔
یقین جانیئے آپ کا ذہن بدلنا شروع ہو جائے گا، بہانے بازی کی عادت ختم ہوگی، زندگی تلاش اور مسائل کے حل کی طرف چلے گی نہ کہ ایسے بہانوں کی طرف کہ ایسا کیوں نہ کیا۔
بہر حال زندگی فرار کا نہیں بڑے سے بڑا بوجھ اٹھانے یا اٹھا لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کا نام ہے۔
06: اپنے منفی رد عمل کو کم کریں۔
منفی رد عمل آپ کو اپنے کیئے پر شرمسار کرتا ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک نہیں تھا۔
جیسے ہی اپ کے اندر منفی خیالات کی یلغار ہو، رُک جائیے، ایک لمبا سانس لیجیئے اور ایک سے 10 کی الٹی گنتی گنیئے۔
اس سے آپ تھوڑا سا پر سکون ہونگے یا کم از کم اپنے کہے یا کیئے پر سوچنے لگیں گے۔
مارک ٹوین کہتا ہے: کسی احمق کے ساتھ بحث مباحثہ نہ کرنا، دیکھنے والے آپ دونوں میں سے کچھ بھی فرق نہ کر پائیں گے۔
07: لوگوں کی باتوں پر زیادہ کان نہ دھریئے یا لوگ کیا کہیں پر مت سوچیئے۔
اپنی زندگی کو گومگو میں برباد نہ کیجیئے کہ نجانے یہ ٹھیک ہو یا نجانے یہ غلط ہوگا۔ بہت سارے لوگوں کو آپ سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ آپ نے کیا کیا ہے۔
ٹائرہ کہتی ہے: کسی اور کیلیئے اپنے خوابوں کا قتل نہ کیجیئے گا۔
08: اپنی ناکامیوں کا الزام لوگوں پر دھرنا بند کیجیئے۔
اپنے افسر، اپنے دوستوں یا اپنے کنبے پر اپنی ناکامی کا الزام نہ لگائیے۔
اگر آپ اپنے خوابوں کو حقیقت کا جامہ نہیں پہنا سکے تو اپنے آپ سے سوال کیجیئے کہ اس سلسلے مین جو کام کرتے رہے ہیں وہ ٹھیک تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اپ اپنے اھداف تک پہنچ جاتے مگر آپ نے راستہ غلط چنا تھا۔
اپنی پریشانیوں، ناکامیوں یا محرومیوں کا الزام دوسروں پر ڈالنے کے بارے میں کبھی سوچیئے بھی نہیں۔
09: خطرات سے کھیلنا سیکھیئے۔ ایسے کیئے بغیر زندگی ملل اور بے فائدہ بن کر رہ جاتی ہے۔
ہاں ایک بات ہے: جب بھی کوئی رسک لیجیئے تو اپنئ طاقت اور استطاعت پر نظر رکھیئے گا۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خطرات سے کھیلنے پر ندامت ہوتی ہے اور ناکامی کی پشیمانی بھی اٹھانی پرتی ہے۔
اپنی استطاعت کا حساب لگائیے۔ خطرات میں اہستہ آہستی کودیئے اور اپنی زندگی کو تھوڑا تھوڑا کر کے بہتری کی طرف لے جائیے۔
محمد علی کلے فرماتے ہیں: جس کے اندر خطرات کو برداشت کرنے کی ناکافی صلاحیت ہو وہ زندگی میں کچھ نہیں کر پاتے۔
10: اپنی صحت سے لا پرواہی نہ برتیئے۔
آپ کی صحت آپ کی دولت ہے۔ اور یہ ایسی دولت ہے جو خالص آپ ہی کیلیئے ہے۔
اپنی اس دولت کی کھیل سے، کھانے پینے سے، سیر و تفریح سے اور خوش باش ماحول میں گپ شپ سے حفاظت کیجیئے۔
اگر تو آپ دکھاوے کی زندگی نہیں جیتے تو پھر پوری خود غرضی کے ساتھ اس کی حفاظت کیجیئے۔ اس کے بارے میں اپنی خاطر سوچیئے۔
اگر آپ کا غذائی نظام ہی درست نہیں تو آپ کو دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ اور اگر آپ اپنی صحت کی بہتر حفاظت کر رہے ہیں تو پھر اپ کو دوائیوں کی ضرورت ہی نہیں پڑنے والی۔
11: اپنا وقت ایسے لوگوں کے ساتھ گزاریئے جن سے آپ محبت کرتے ہیں۔
ایسی زندگی مین زیادہ لطف ہے جب آپ ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جن سے آپ پیار کرتے ہیں، جن کے ساتھ آپ ہنستے مسکراتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں بلکہ اوٹ پٹانگ مذاق بھی کر سکتے ہیں۔
اس بات کا لازمی خیال رکھیں کہ آپ نے اپنے پیاروں کیلیئے وقت ضرور نکالنا ہے اس کی خاطر بھلے کام کیلیئے آپ کو کچھ اضافی وقت ہی نہ دینا پڑ جائے۔
اپنے پیاروں کے ساتھ وقت یہ سوچ کر گزاریئے کہیں کسی دن اس بات کی حسرت نہ کرنی پڑ جائے کہ میری تمنا تھی کہ میں ایسا کرتا۔ یا میں ایسے کر جاتا تو زیادہ خوشی ملتی۔
12: شکوے کرنا بند اور قربانی کا بکرا تلاش کرنا چھوڑیئے۔
شکوہ کرنے سے نہ تو کوئی مفاد ملتا ہے اور نہ ہی ہو چکی کو کوئی فرق پڑتا ہے۔
یہ بالکل غلط ہے: ، میں آپ کو یہ بھی نہیں کہتا!
آپ کے اندر بہت سارے جذبات ہو سکتے ہیں، لیکن آپ اپنی اس عادت سے اپنی اور دوسروں کو آپ سے بھی نفرت ہوگی کہ آپ جتنا شکوہ شکایت کرتے ہیں یہ امر اتنا زیادہ واقع ہوتا ہے۔
رینڈی پاؤچ کہتا ہے: شکایت نہ کرو۔ بس ذرا محنت کرو۔
13: جو کچھ آپ کے پاس ہے اس کا شکر ادا کیجیئے۔
اس سے زیادہ کی تمنا کیجیئے، اس سے بہتر کی لالچ کیجیئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ اپ کے پاس ہے اس کو بھی قبول کیجیئے اور اس کی قدر کیجیئے۔
بس یہی بہترین طریقہ کار ہو سکتا ہے۔ اس طرح آپ نفسیاتی طور پر پرسکون رہیں گے۔
ماہر روحانیات ایکھارٹ ٹول کہتا ہے: اپنے پاس پہلے سے موجود اچھی چیز یا اچھائی کا اعتراف کرنا ہی کثرت کی بنیاد ہوتی ہے۔
14: پیسہ ایک وسیلہ تو ہوتا ہے مگر سب کچھ نہیں ہوتا۔
پیسے کی طاقت کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا، لیکن لوگوں کی بات کو اس حد تک بھی نہ مانیئے کہ پیسہ آتا ہے تو تبدیلی آتی ہے۔ پیسوں سے جو منفی خیال آتے ہیں ان کو ترک کیجیئے۔
اگر آپ اچھے انسان ہیں تو آپ کے پاس مزید پیسہ آنے سے آپ کی اچھائی اور نکھرے گی، اور اگر کوئی شخص پہلے سے ہی مغرور ہے تو اس کے پاس پسیہ آنے سے اس کا گھمنڈ اور تکبر اور بڑھے گا۔
پیسے کی ہوس کو طاری نہ کریں، آپ نفسیاتی طور پر آرام سے رہیں گے، آپ کو آپ کے اطراف میں ہر شئے پر سکون محسوس ہوگی، آپ خوشی خوشی رہنے لگیں گے۔
15: ایک اصول کو ذہن میں بٹھا لیجیئے کہ علم حاصل کرنا کسی بھی لمحے نہیں رکنا چاہیئے، اور آپ نے کبھی بھی علم حاصل کرنے سے نہیں رکنا۔
اگر آپ کوئی علم نہیں حاصل کرنا چاہتے تو آپ اپنا خاتمے کا سوچ چکے ہیں۔
کوشش کیجیئے کہ روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملے، بھلے وہ چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ ہو۔
سٹیف جابز کہتا تھا: سیکھنے کا کام مستقل کرتے رہیئے، کائنات میں ہمیشہ ایک اور مختلف چیز موجود ہوتی ہے۔
16: چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لطف اُٹھائیے۔
اپنے لطف اندوز ہونے کیلیئے کوئی حد مقرر نہ کیجیئے: جیسے: اگر میں نے یورپ کا دورہ نہ کیا تو مزا نہیں آئے گا۔
اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے لطف لیجیئے، ایسی ایسی چھوٹی باتیں یا چیزیں جن سے آپ کو ذرا سی بھی خوشی مل رہی ہو۔
اپنی زندگی میں چھوٹی چیزوں سے ابھی سے لطف لینا شروع کیجیئے، ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا وقت آ جائے جب آپ کو لگے یہ تو بڑے مزے کے اور بڑے بڑے کام تھے۔
17: ایمانداری اور سچائی کے ساتھ رہیئے۔
بھلے آپ نے لاکھ کوششیں کیں، تھک ہار بیٹھے لیکن کچھ بہتری نہ لا سکے تو بھی کوئی بات نہیں، جان لیجیئے کہ مغلوب بھی غالب آ جایا کرتے ہیں۔
اپنے بن کر رہیئے، اپنے آپ سے سچے بن کر رہیئے، بہتر سے بہتر کی کوشش جاری رکھیئے، ایسا بہتر جو آپ کیلیئے بہتر ہو، آپ کی شخصیت کیلیئے ��ہتر ہو اور اپ کے مقام و مرتبے کیلیئے بہتر ہو۔
سائمن سینک کہتا ہے: اصل وہی ہوا کرتا ہے جس پر آپ ایمان اور یقین رکھتے ہوئے کہتے اور کرتے ہوں
1 note · View note
mediazanewshd · 2 months
Link
0 notes
emergingpakistan · 4 months
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر نئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
جسٹس فائز کیسے ’’اچھا جج‘‘ بن سکتے ہیں
Tumblr media
بّلے کا نشان بیلٹ پیپر پر نہیں ہوگا یعنی تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت 8 فروری کے انتخابات سے باہر ہو گئی۔ اب پارٹی کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے یعنی کسی کا انتخابی نشان کرسی ہو گا، تو کسی کا پھول، کوئی ہارمونیم کے نشان پر الیکشن لڑے گا تو کسی کو جہاز، فاختہ، مور جیسے کئی دوسرے انتخابی نشانات پر ووٹ مانگنے پڑیں گے۔ اتنے بڑے بڑے وکیلوں کے ہوتے ہوئے بھی تحریک انصاف اپنا کیس سپریم کورٹ میں بھی ہار گئی، انٹرا پارٹی الیکشن بھی قانونی تقاضوں کے مطابق نہ کروا سکی، نہ ہی الیکشن کمیشن کو مطمئن کر سکی اور اوپر سے بلّے کے نشان کے جانے کی صورت میں بلّے باز کا نشان بھی نہ لے سکی۔ یعنی تحریک انصاف کا پلان اے بھی فیل ہو گیا اور پلان بی بھی ناکام، نہ بلّا رہا نہ بلّے باز۔ اس صورتحال تک تحریک انصاف کو پہنچانے کا کون کون ذمہ دار ہے اس کیلئے عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو دوسروں کی طرف انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے گریبانوں میں بھی ضرور جھانکنا چاہیے کہ پارٹی اور اس کے رہنمائوں سے کہاں کہاں غلطیاں بلکہ بلنڈرز ہوئے۔
بلّے کے نشان کا بیلٹ پیپر پر نہ ہونے نے بلاشبہ انتخابات کو متنازع بنا دیا ہے اور اس بات کا افسوس اپنی جگہ کہ ایک بڑی سیاسی جماعت بحیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی لیکن سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونے والے مقدمہ میں دو دن کی طویل بحث کو سننے کے بعد کسی کو اس بات کا شک نہیں کہ تحریک انصاف کا کیس بہت کمزور تھا، اس کے وکیلوں کے پاس نہ ثبوت تھے نہ مضبوط قانونی نکات۔ اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بُرا بھلا کہنے سے اور اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے اُن کی ٹرولنگ کرنے سے تحریک انصاف والے اپنے آپ کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن کیا یہ درست نہیں کہ بار بار موقع دیے جانے کے باوجود انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروایا اور جب کروایا تو وہ محض کاغذی کارروائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ قانونی طور پر تو تحریک انصاف کے وکیلوں کے پاس کچھ نہ تھا اس لیے سارا زور کیس کے سیاسی پہلو پر ڈالا گیا اور بار بار یہ کہا گیا کہ اتنی بڑی سیاسی پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا سیاست، جمہوریت اور سسٹم کو بہت نقصان ہو گا۔
Tumblr media
عدالتی کارروائی کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ تحریک انصاف انتخابی نشان سے محروم ہوئی تو اُس کے امیدوار پھر بھی الیکشن لڑیں گے لیکن آزاد حیثیت سے۔ سپریم کورٹ کے تین ججوں نے متفقہ طور پر جو فیصلہ دیا وہ قانونی نوعیت کا تھا اور اُس میں سیاسی پہلو کو نظر انداز کیا گیا، جس پر قاضی فائز جیسے جج پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر یہ فیصلہ دیا۔ اگر سیاسی فیصلہ کیا جاتا اور قانونی نکات کو نظر انداز کیا جاتا تو پھر کہا جاتا کہ یہ تو سیاسی فیصلہ ہے جس میں قانون اور آئین سے ایک لاڈلے کی خاطر پہلو تہی کی گئی۔ اگر تحریک انصاف آج سے دو سال پہلے، ایک سال پہلے یا چھ ماہ پہلے ہی الیکشن کمیشن کے بار بار کہنے پر انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ یاد رہے کہ یہ مسئلہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف کے درمیان عمران خان کی حکومت کے دور سے چل رہا ہے اور یہ وہ دور تھا جب خان صاحب کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔
کہا جا رہا ہے کہ انتخابات سے ایک ماہ قبل سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیوں دیا؟ ذرا سوچیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو لیا؟ تحریک انصاف کے کسی مخالف کی درخواست کو سنا؟ یا تحریک انصاف کی اپنی اپیل پر فیصلہ دیا جو دو تین دن پہلے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اور یہ درخواست کی گئی کہ اس اپیل کو فوری سنا جائے جس کیلئے عدالت کو ہفتہ کے روز بھی پورا دن بیٹھنا پڑا۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ کا تعلق تحریک انصاف کے اپنے فیصلوں اور اپنے اقدامات سے تھا۔ تحریک انصاف کو یقیناً فوج پر 9 مئی کے حملے اور اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لینے پر کئی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے تحریک انصاف کی لڑائی چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو لڑنی چاہیے، اُنہیں دو تین جرنیلوں کے خلاف فیصلے دینے چاہئیں اور عمران خان کو جیل سے نکال کر اقتدار کی کرسی میں بٹھا دینا چاہیے تو پھر ہی وہ اچھے جج کہلوانے کے اہل ہوں گے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہ فیصلہ کرتے ہیں نہ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے خوفزدہ ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فیصلے بھی دیے اور اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ حمایت سے عمران خان کی حکومت میں اپنے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس اور اپنی اہلیہ سمیت ہراساں کیے جانے کی تمام کوششوں کا بڑی جرات مندی سے مقابلہ کیا اور تمام الزامات کو کھلی عدالت میں غلط ثابت کیا۔ اُنہوں نے چیف جسٹس بننے کے بعد گزشتہ چند مہینوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے متعلق فیض آباد ��ھرنا کیس سمیت مشکل مقدمات (جن کو سابق چیف جسٹسز نے فائلوں میں دبا دیا تھا) کو کھول کر کھلی عدالت میں سنا اور ایکشن لیا۔ جسٹس فائز کے فیصلے پر اعتراض ہو سکتا ہے، اُن کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن کیا ایسا جج تحریک انصاف اور اُس کی سوشل میڈیا کی ٹرولنگ سے خوفزدہ ہو کر اُن کیلئے ’’اچھا جج‘‘ بن سکتا ہے۔
 انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
kanpururdunews · 9 months
Text
Tumblr media
سڑک سے پارلیمنٹ تک بھاجپالیڈروں نے انسانیت کو کیا شرمسار: ترجمان نجیو کم گمٹی نمبر - پر دوا تاجر کے ساتھ ھونے والے سانحه کولیکر دھرنا |
0 notes
kanpururdunewsa · 10 months
Text
Tumblr media
طالب علم روتل سر کار فیل کیس میں پولیس نے گھر والوں کی تحریر پرقتل و جوتوں کو منانے کی رپورٹ درج کی تھی۔ کئی مہینے گزرنے کے بعد بھی جب متاثرہ کنبے کو انصاف نہیں ملا تو انہوں نے چکیری تھانے کے سامنے دھرنا دے کرستید گرہ کیا اور پولیس افسران سے انصاف کی فریاد کے ساتھ قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا اسی سلسلے میں دیر رات پولیس نے چھاپہ مار کر رول سر کار قتل کیس میں شامل ساحل یا دو ولد مہر سنگھ ساکن چکیری گاندھی گرام اور ایشو یادو ولد اگست پال سنگھ ساکن چکیری لوگر فتار کر لیا ہے۔
0 notes
urdunewskanpur · 10 months
Text
Tumblr media
منریگا مزدور سنگھ کے زیر اہتمام دھرنا و مظاہرا
0 notes
urduchronicle · 5 months
Text
شہباز شریف کا فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن میں پیشی سے گریز
فیض آباد دھرنا کمیشن میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف تاحال پیش نہ ہوئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہشہباز شریف نے اپنے وکیل کے زریعے بیان جمع کروانے کی استدعا کی تھی لیکن تاحال اپنے وکیل کے زریعے بھی بیان جمع نہیں کروایا۔ کمیشن نے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ سید ضمیر الحسن  اور سابق ڈی جی رینجر میجر جنرل ریٹائرڈ اظہر ندیم کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ تمام افراد کو 9 اور 10 جنوری کو بھی طلبی کا نوٹس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdudottoday · 10 months
Text
صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف  بدین میں مظاہرہ
اردو ٹوڈے، بدین پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی  ملگ گیر اپیل پر سکھر میں شہید کئے جانے والے شہید صحافی جان محمد مہر کے قتل اور مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری کے خلاف حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ بدین یونٹ کے زیراہتمام بدین پریس کلب اور ایوان صحافت کی جانب سے بدین پریس کلب سے ایون صحافت تک ضلع بھر کے صحافیوں نے احتجاجی ریلی نکالی مظاہرہ کیا اور دھرنا دے کر احتجاج کیا .  اس موقع پر احتجاجی شرکاء نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 5 months
Text
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے
کہ تازہ زخم ملنے تک پرانا زخم بھرنا ہے
ابھی سادہ ورق پر نام تیرا لکھ کے بیٹھا ہوں
ابھی اس میں مہک آنی ہے تتلی نے اترنا ہے
بڑھے جو حبس تو شاخیں ہلا دینا کہ اب ہم کو
ہوا کے ساتھ جینا ہے ہوا کے ساتھ مرنا ہے
مبادا اس کو دقت ہو نشانے تک پہنچنے میں
سو میں نے پھول سے دیوار کے رخنے کو بھرنا ہے
یہی اک شغل رکھنا ہے اذیت کے دنوں میں بھی
کسی کو بھول جانا ہے کسی کو یاد کرنا ہے
کوئی چہرہ نہ بن پایا مقدر کی لکیروں سے
سو اب اپنی ہتھیلی میں مجھے خود رنگ بھرنا ہے
کوئی رستہ ملے کیوں کر مرے پائے خجالت کو
یہاں تو پاؤں دھرنا بھی کوئی الزام دھرنا ہے
وہ ہر لمحہ دعا دیتے ہیں لمبی عمر کی تابشؔ
مجھے لگتا ہے پیاروں کو بھی رخصت میں نے کرنا ہے
عباس تابش
1 note · View note
mediazanewshd · 2 months
Link
0 notes
emergingpakistan · 9 months
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا
Tumblr media
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
Tumblr media
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 6 months
Text
الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پہ مارے جا رہے ہیں؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے قوم کے منہ پہ مارے جا رہے ہیں ’لے مر ٹھونس لے۔‘ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘ اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہو گا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیربکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہو گی۔
شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔ نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو۔ آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں۔ مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو۔ میرے لوگ ہو۔ اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو۔ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔ 
Tumblr media
کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘۔ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورہ پانی بھی نہ بجھوا سکے۔ اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔ سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورہ بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا۔ تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔ کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔
مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انھیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انھیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔ منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم ( جون ایلیا )
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
pakistanpress · 1 year
Text
خان کو کون سمجھائے
Tumblr media
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو لیبیا، شام اورعراق بنانے کی طرف تیزی سے دھکیلا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ ملک میں خانہ جنگی شروع کرانے کی پہلی جھلک تھی، جان بوجھ کر فوج اور دفاعی اداروں پر حملے کروائے گئے تاکہ اُس ادارے کو Demoralise کر دیا جائے جو پاکستان کے لیبیا، شام اور عراق بننے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مجھے نہیں معلوم واقعی کوئی سازش موجود ہے کہ نہیں لیکن حالات خانہ جنگی اور افراتفری کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور یہاں وہ کچھ ہو رہا ہے جس کے بارے میں کبھی کسی نے سوچا نہ دیکھا۔ عمران خان پہلے سے زیادہ خطرناک ہو گئے ہیں۔ دنیا نے دیکھا کہ کس نے بھڑکایا اور کس نے دفاعی اداروں پر پرتشدد حملے اور، جلائو گھیراو کیا۔ ایک طرف عمران خان کہتے ہیں کہ یہ اُن کے لوگ نہیں دوسری طرف اُنہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر direct حملے شروع کر دئیے اور تمام تر صورتحال کا ذمہ دار اُنہیں ٹھہرا دیا۔ نیب کے چیئرمین کیلئے ’’بے غیرت‘‘ جیسے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے کہ نیب چیئرمین کے ہینڈلرز بھی بے غیرت ہیں۔
دو دن کی قید کے بعد ملنے والی رہائی کے بعد عمران خان مزید بپھر گئے۔ جو کچھ 9 مئی کو ملک میں ہوا اُسے دیکھ کر خان صاحب کو ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تھا لیکن مجھے محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ جس انداز میں عدلیہ نے9 مئی کےانتہائی قابل مذمت واقعات اور فوج پر حملوں کے باوجود اُن کو ضمانتوں پر ضمانتیں دیں اور حکومت کو اُنہیں کسی بھی پرانے یا نئے کیس میں گرفتار کرنے سے روکا، اسے خان صاحب اور اُن کے سپورٹرزنے اپنی جیت تصور کیا۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان خود کو پاکستان کا مضبوط ترین شخص سمجھتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لائیں گے اور فوجی تنصیبات کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی اب کسی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے۔ ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس میں تحریک انصاف کے رہنما 9 مئی کے منصوبہ ساز دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی اور حملہ آوروں کے ساتھ موقع پر موجود پائے گئے لیکن عمران خان ماننے پر تیار نہیں۔
Tumblr media
اپنی رہائی کے بعد عمران خان نے آرمی چیف سے کھلی ٹکر لے لی ہے جس سے صورتحال پاکستان کیلئے بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ اس صورت حال کی خرابی میں کیا عدلیہ کی کوئی ذمہ داری ہے؟ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی عمران خان کو دیکھ کر خوشی کا اظہار اور میڈیا کا یہ الزام کہ خان صاحب کی ضمانت اور اُنہیں دوبارہ گرفتاری سے بچانے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا اور اس سلسلے میں خواجہ طارق رحیم اور جیو کے سینئر رپورٹر قیوم صدیقی کی آڈیو لیک کا سامنے آنا بہت حیران کن تھا۔ دوسرے دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت یا کسی دوسرے ادارے کو عمران خان کو کسی بھی کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا۔ عدلیہ نے عمران خان کو وہ سب کچھ دیا جو اُنہوں نے مانگا۔ یہاں تک کہ توشہ خانہ کیس جس میں عمران خان پیش ہونے سے کتراتے رہے اور اُن کی دو دن کی قید کے دوران اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں اُن پر فرد جرم عائدکی گئی، اُس کیس کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے سٹے دے کر خان صاحب کے حق میں روک دیا۔ دوسرے دن اسلام آباد کی ایک عدالت نے عمران خان اور بشری بی بی کے عدت کے دوران نکاح والے کیس کو بھی ختم کر دیا۔
عدلیہ کی عمران خان پر ان بے مثال عنائتوں کو دیکھ کر حکومتی اتحاد نے بھی سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور ججوں پر خوب طعن کیا جا رہا ہے اُنہیں عمران خان کی ٹائیگر فورس سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اب ڈر ہے، ایسا نہ ہو کہ حکومتی اتحاد کے دھرنے میں شامل عدلیہ کے خلاف بھڑکے ہوئے مظاہرین سپریم کورٹ پر ہی حملہ کر دیں جو ایک اور خطرناک عمل ہو گا اور موجودہ حالات کی مزید خرابی کا باعث بنے گا۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی اتحاد کو سپریم کورٹ کے سامنے ایسا مظاہرہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔ اگر ایک طرف عدلیہ کو اپنے رویے اور انصاف کے دہرے معیارپر نظر ثانی کرنی چاہئے تو دوسری طرف حکومت حالات کی مزید خرابی کا ذریعہ مت بنے۔ باقی جہاں تک عمران خان کا معاملہ ہے تو مجھے نہیں معلوم اُن کو کون سمجھا سکتا ہے؟
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes