Tumgik
#روس الیکشن
urduchronicle · 9 months
Text
معیشت کے لیے بیلٹ باکس بم شیل
دنیا کی اقتصادی پیداوار کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ بنانے والے ممالک اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی میں اس سال انتخابات ہو رہے ہیں۔ مالیاتی خدمات کے گروپ مارننگ اسٹار کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں کو “بیلٹ باکس بم شیل” کا سامنا ہے، اس قسم کے واقعات کے خطرے کا پیشگی تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑی تبدیلیاں سیل آف کا سبب بن سکتی ہیں”۔ یہاں ان انتخابات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو مارکیٹوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، آنے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
ٹرمپ کا دنیا کی جنگیں ایک فون پر ختم کرنے کااعلان
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر صدارتی الیکشن جیت گیا تو ایک فون کال پر دنیا بھر کی جنگیں ختم کردوں گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کاانتخابی مہم سے خطاب میں کہنا تھا کہ روس یوکرین اور حماس اسرائیل کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو ایسی جنگیں صرف ایک ٹیلی فون کال پر ختم کروں گا ۔اگر میں امریکہ کا صدر ہوتا تو اسرائیل کو کبھی غزہ میں گھسنے کی اجازت نہ دیتا ۔ ٹرمپ نے جوبائیڈن کو سخت…
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات ��یران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے ��ور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
peghamnetwork-blog · 8 months
Text
پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا
2024 کے الیکشن پاکستانی سیاست کا کھیل تماشا سے بڑھ کر کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ اس کھیل تماشے سے پہلے جو سین ہوئے ان پر ایک نظر۔۔۔ سین1 ”تم روس نہیں جاؤ گے!” ”تم ہم پر حکم نہیں چلا سکتے، ہم ایک آزاد قوم ، آزاد ملک اور آزاد جمہوریت ہیں، ہم اپنے فیصلے اب خود کریں گے! تم اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کر سکتے!” ”تم روس نہیں جاؤ گے! اور ہماری (مغربی) نظروں میں اچھا بننے کے لیے DO MORE پر عمل کرو گے!” ”میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years
Text
روس اور مغرب کے مابین جنگ کے خاتمے کے بعد مالڈووا کے انتخابات ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہورہے ہیں
روس اور مغرب کے مابین جنگ کے خاتمے کے بعد مالڈووا کے انتخابات ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہورہے ہیں
Tumblr media
یوروپی حامی مالڈوواں کا حریف صدارتی حریف پیر سے روس کی موجودہ روسی رہنما کے خلاف اچانک برتری حاصل کرنے کے لئے سامنے آیا تھا ، جس نے اس ماہ کے آخر میں ایک سخت دوسرا دور کا اشارہ کیا تھا۔
چھوٹی سابقہ ​​سوویت ریاست نے ماسکو کی نگرانی میں ووٹ دیا ، جو روس کی سرحدوں پر سیاسی اور سلامتی کے بحرانوں کے درمیان ملک کو اپنے مدار میں قائم رکھنا چاہتی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس امید کا اظہار کیا کہ…
View On WordPress
0 notes
urduu · 5 years
Text
یاد ماضی
مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں اکثر پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائی کے پاکستانی شہروں کی ایسی تصاویر لگائی جاتی ہیں جو بہت ہانٹ کرتی ہیں اس دور کے پاکستانی شہروں کا جدید پسند ، روادار، آزاد خیال اور ترقی پسند ماحول دیکھ کر نہ صرف اس گزرے ماضی کا ناسٹیلجیا جنم لیتا ہے بلکہ قاری آج کے شہروں کا ماحول دیکھ کر سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ دراصل ہم نے تو ترقی کی بجائے تنزلی کی اگر ہمارا ماضی ایسا ہی تھا۔
آخر یہ ترقی معکوس کیوں ہوئی، اس کی عام وضاحت تو جنرل ضیا اور افغان جہاد کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ دو سیاسی وجوہات کافی نہیں اور بہت سے سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں مثلاً کیا ان دو واقعات نے پورے معاشرے کی بنت اور سوچ ہی تبدیل کردی؟ کیا فرد واحد یوں ایک معاشرہ کو اس کے مرضی کے خلاف تبدیل کرسکتا ہے روبوٹ کی طرح ؟ ایسا کبھی ہوا نہیں پھر باقی مسلم دنیا افغانستان ، ایران ، لبنان وغیرہ بھی اسی دور میں اسی طرح تبدیلی کے عمل سے گزرے تو وہاں بھی کیا ضیا نے کچھ کیا؟
اس تمام تجزیہ سے سماجی پہلو نکال دیا جاتا ہے تو سوالات تشنہ رہ جاتے ہیں اگر اس تصویر میں سماجی جہت کو بھی شامل کرلیا جائے تو تصویر مکمل ہوجاتی اور ہر چیز اپنی جگہ پہ بیٹھ جاتی ہے۔ یہ ایک سماجی پروسیس تھا جو کم و بیش تمام مسلم معاشروں پہ اسی دور میں اثرانداز ہوا اسکو سمجھے بغیر مکمل کہانی سمجھ نہیں آ سکے گی۔
پچاس کی دہائی کے لگ بھگ جب مسلم ممالک آزاد ہوئے تو ان ممالک کی باگ ڈور جس طبقہ نے سنبھالی وہ جدید مغربی تعلیم یافتہ طبقہ تھا لیکن مسلم معاشروں کے اندر ایک کشمکش نوآبادیاتی دور سے ہی چلی آرہی تھی اس کشمکش کو جدیدیت پسند شہری کلچر اور روایت پسند دیہی مذہبی کلچر کی کشمکش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ شہروں کی تعلیم یافتہ کلاس پہ جدید مغرب کی چھاپ کافی نمایاں تھی جبکہ دیہی عوامی کلچر پہ قدامت پسند مذہبیت کی چھاپ تھی۔ مذہبی طبقہ جدیدیت سے خوفزدہ تھا اور اسے مغربیت گردانتا تھا اسے خوف تھا کہ جدیدیت اپنے ساتھ مغربیت لائے گی اور پرانے روایتی کلچر کو بہا لے جائے گی کچھ اسے اپنی اجاراداری کے خاتمے کا بھی ڈر تھا اس لئے جدیدیت کو مغربیت، عریانی اور فحاشی سے تعبیر کرتا تھا۔
لیکن پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں انفراسٹکچر کی کمزوری کے باعث دیہی طبقہ دیہات یا چھوٹے شہروں تک محدود تھا جبکہ شہروں بالخصوص بڑے شہروں کا کلچر جدیدیت کا حامل تھا اسی لئے اس عہد کی تصویریں آج کے شہروں کی نسبت بہت آزاد خیال اور روادار معاشرے کی جھلک دکھاتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان کی حد تک نہ تھا بلکہ تمام مسلم دنیا یہی تصویر پیش کرتی تھی افغانستان جو پاکستان کی نسبت معاشی اور ہر لحاظ سے پسماندہ تھا وہاں کابل کا شہری معاشرہ جو تاجک آبادی پہ مشتمل تھا جدیدیت یا مغربیت میں پاکستانی شہری معاشرہ سے کہیں آگے تھا جبکہ افغانستان کا دیہی پشتون معاشرہ پاکستان کے دیہی پشتون معاشرہ کی نسبت کہیں زیادہ پسماندہ اور تنگ نظر تھا لیکن کمزور انفراسٹکچر کی وجہ سے شہری تاجک اور دیہی پشتون دو الگ دنیاؤں میں رہ رہے تھے۔
ایران ، لبنان ، ترکی الغرض ہر جگہ کم و بیش مجموعی صورتحال ایسی ہی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نوآزاد ملکوں میں اس وقت کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ نے ملکوں کی ترقی کے لیے بے مثال کام کیا پاکستان کے حکمران طبقے اور بزنس انڈسٹریل کلاس نے ایشیا مین ترقی کے ریکارڈ توڑے اس کے ساتھ انفراسٹکچر بھی بہتر ہوتا گیا اور دیہاتوں سے مذہبیت کے حامل قدامت پسند دیہی کلچر کی عوامیت بھی رفتہ رفتہ شہروں کا رخ کرنے لگی ابتدا میں انکی تعداد بہت کم تھی تو شہری کلچر کا ہی حصہ بنتے گئے لیکن ستر کی دہائی تک کیفیت بدلنا شروع ہوئی جیسے جیسے قدامت پسند مذہبی کلچر کی افرادی قوت بڑھتی گئی تو ایک تضاد یا ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوئی۔ قدامت پسند دیہی کلچر کی قیادت روایتی طور پہ مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں تھی جو جدیدیت پسند شہری کلچر کو مغرب زدہ عریانی اور فحاشی کو پھیلانے والا اور معاشرے کے لیئے خطرہ قرار دیتا تھا ان کے مطابق اگر اس عریانی اور بے حیائی کو نہ روکا گیا تو یہ معاشرہ کو زوال پذیر کردے گا۔
ستر کی دہائی کے دوسرے وسط تک شہروں میں قدامت پسند طبقہ کی نمائندگی کافی مضبوط ہوچکی تھی لہذا خطہ بھونچالوں کی زد میں آنا شروع ہوگیا۔ اگرچہ افغانستان میں سردار داؤد کے خلاف قدامت پسند مذہبی طبقہ کی تحریک کی بھٹو نے بھی جواباً سرپرستی کی لیکن یہ تقسیم اور ٹکراؤ پہلے سے ہی موجود تھی اور انکے داؤد پہ الزمات یا شکایات بعینہ وہی تھے جو پی این اے کی تحریک نظام مصطفی میں بھٹو پہ لگائے گئے یا شاہ ایران پہ۔ بھٹو اور شاہ ایران کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ انکے خلاف وہ طبقہ جو خود کو ماسکو نواز ترقی پسند کہلاتا تھا بھی مذہبی طبقہ کی تحریک میں شامل تھا۔
بھٹو کے خلاف نظام مصطفی کی یہ تحریک اپنی بھرپور اور ہمہ گیر تھی کہ ملک تقریباً مفلوج ہی ہوکر رہ گیا تھا اور اگر ضیا مارشل لاء نہ بھی لگاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ بھٹو کامیابی سے ملک اور حکومت چلا سکتا تھا اسی طرح شاہ ایران کے خلاف تو عوام کا ایک سیلاب تھا جو امڈ پڑا اور اسے جاتے ہی بنی۔
افغانستان کی حد تک فوج نے داؤد کی چھٹی کرا طاقت کے زور پہ حالات کنٹرول کرنا چاہے لیکن نتیجہ الٹ نکلا۔ اس طرح ۱۹۸۰ تک ماحول ہی بدل چکا تھا۔
جہاں تک سیاسی عوامل کا تعلق ہے تو وہ بھی اتنے چھوٹے ، محدود اور مقامی نہیں تھے جتنے ہمارے تجزیہ کار بتاتے ہیں سیاسی عوامل بھی کہیں زیادہ وسیع اور ہمہ گیر تھے۔ مشرق وسطی کے ممالک کی اپنی اندرونی کشمکش تھی یہ جدیدیت پسند روس نواز فوجی ڈکٹیٹروں اور امریکہ نواز قدامت پسند عرب بادشاہتوں میں تقسیم تھا۔ عمومی امریکی رویہ یہ تھا کہ اگر کوئی جدیدیت پسند ڈکٹیٹر امریکہ نواز ہوتا شاہ ایران کی طرح تو امریکہ اسے قدامت پسند بادشاہتوں پہ ترجیح دیتا تھا لیکن خمینی کے اسلامی جمہوری انقلاب کے نعرے نے یکدم سے ماحول بدل دیا ڈکٹیٹر اور بادشاہ بیک وقت اس نعرے سے خوفزدہ تھے اور انکے آپسی اختلافات پس پشت چلے گئے اسی لیے ایران عراق جنگ میں باشاہتوں نے صدام کی حمایت کی شاہ ایران کے جانے کے بعد امریکہ نے بھی اپنا سارا وزن عرب بادشاہتوں کے پلڑے میں ڈال دیا ادھر عرب بادشاہتوں نے مسلم ممالک میں قدامت پسند اسلام کی ترویج کے لئے باقاعدہ سرمایہ کاری کی کیونکہ قدامت پسند اسلام بادشاہت کا روایتی طور پہ عادی تھا اسی لئے پاکستان کا اسلامسٹ جو پہلے مودودی کی سوچ سے متاثر تھا اب رفتہ رفتہ مدارس کے اسلام کی طرف رجحان رکھنے لگ گیا۔ ضیا کی بجائے کوئی اور ہوتا تو شائد اس کے لئے بھی اس مجموعی سیاسی ماحول سے کوئی جائے مفر نہ ہوتی لیکن ضیا تو خود قدامت پسند دیہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتا تھا تو کچھ اور سوچنے کی گنجائش ہی کب تھی؟
ادھر اسی کی دہائی کے پاکستان مین شہراؤ کا عمل کہیں اور تیز ہوگیا اور شہروں میں اب بھاری تعداد قدامت پسند دیہی مذہبی فکر کے حامل طبقہ کی تھی تو تبدیلی کا یہ عمل مکمل ہی ہوگیا اس وقت کے پاکستانی شہروں کی معاشرت نے وہ رخ اختیار کرلیا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اور جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے بالکل معکوس رخ پہ نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ضیا تو ۱۹۸۸ میں چلا گیا لیکن اسکا شروع کیا ہوا عمل ریورس نہ ہوسکا کیونکہ شہروں میں وہ جدیدیت پسند طبقہ نہ صرف پسپا ہوچکا تھا بلکہ اب تو اقلیت بن چکا تھا الیکشن یا جمہوریت بھی ان تبدیلیوں کو ریورس نہ کرسکتی تھی یہی وجہ ہے کہ ضیا کے بعد کے جمہوری دور میں بھی معاشرہ اسی ڈھب پہ چلتا آیا جو ضیا کے دور میں متعین ہوچکی تھی۔
صرف ایک ہی طاقت تھی جو جنوب مشرقی ایشیا کی طرح جدیدیت پسندی کی حمایت کرسکتی تھی اور وہ تھی انڈسٹریل بزنس کلاس کی معاشی اور کاروباری ضروریات لیکن بھٹو دور کی نیشنلائزیشن کے بعد پاکستان کی وہ کلاس جو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی حیرت انگیز معاشی کارکردگی کی ذمہ دار تھی، ملک چھوڑ کر ہی جاچکی تھی کچھ نے یورپ میں بینکنگ شروع کردی کوئی ہانگ کانگ میں شپنگ سے وابستہ ہوگیا کوئی جرمنی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگا۔ جو باقی رہ گئے تھے وہ انڈسٹریل کلاس کہلانے کے لائق نہ تھے بلکہ دیگر ممالک کے موازنہ میں چھوٹے اور درمیانہ درجہ کے تاجر تھے جنکا سکوپ ، ضروریات اور مفادات بہت محدود درجہ کے تھے۔
مسلم ممالک میں جدیدیت پسند اور قدامت پسند مذہبی کلچر کے ٹکراؤ کی دلچسپ مثال مراکش اور الجزائر کا موازنہ ہے۔ مراکش کی نسبت الجزائر آزادی سے ہی بہت زیادہ جدیدیت پسند سمجھا گیا حواری بومدین کے دور سے وہ مراکش کی نسبت کہیں زیادہ خوشحال تھا اس کے شہروں کا ماحول یورپ کے شہروں سے ملتا تھا جس میں اس دور میں الجزائری خواتین میں ساحل سمندر پہ غسل آفتابی ایک عام روایت تھی۔ جبکہ مراکش اس کی نسبت کمزور معیشت کی حامل بادشاہت تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد الجزائر کے صدر کو مغرب کے قریب آنا پڑا تو مغرب بالخصوص فرانس کے دباؤ پہ شاذلی بن جدید کے دور میں جمہوریت لانے کی کوشش ہوئی اور ۱۹۹۱ میں انتخابات ہویے لیکن انکا نتیجہ سب کی توقعات کے برعکس تھا اور شدت پسند اسلامسٹ پارٹی نے میدان مار لیا۔
یہ نتائج اتنے غیر متوقع تھے کہ نہ صرف الجزائر کی حکمران فوجی کونسل نے صدر شاذلی بن جدید کی چھٹی کرا کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا بلکہ خود مغرب نے بھی خوفزدہ ہو کر اس اقدام کی تائید کی اس کے بعد الجزائر ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس کے برعکس سست رفتار مراکش رفتہ رفتہ آئینی بادشاہت کی طرف بڑھتا گیا جہاں جدیدیت پسند شہری کلچر اور قدامت پسند دیہی مذہبی کلچر دونوں کے نمائندے شاہ پرست تھے اور بادشاہت پہ متفق تھے اس طراح مراکشی معاشرہ میں وہ پولرائزیشن پیدا نہ ہوئی جو دیگر مسلم معاشروں میں جدیدت پسندوں اور قدامت پسندوں کا خاصہ رہی۔ یوں بالاخر آج مراکش میں جدید پسند معاشرتی رویہ گراس روٹ لیول پہ پہنچنے کا دعوی کرسکتا ہے جو دیگر مسلم ممالک میں شاذ ہی موجود ہے۔
پاکستان ایک نئی معاشرتی سطح سے دوچار ہے یہ جنوبی ایشیا کا سب سے زیادہ اربنائزڈ ملک ہے جہاں دیہی کے مقابلہ میں شہری آبادی کا تناسب ساٹھ فیصد کے قریب ہے اس تبدیلی نے اثرات بھی مرتب کئے ہیں تعلیم ، انفراسٹکچر اور ابلاغ بڑھا ہے معاشی ڈھانچہ اور ضروریات تبدیل ہورہی ہیں اس وجہ سے قدامت پسند مذہبی طبقہ کی اپیل دن بدن گھٹتی جارہی ہے اور حالیہ ادوار میں مذہبی طبقہ نے جو سیاسی جوئے کھیلے اس کی وجہ سے عوام میں انکی اہمیت اور تاثر گھٹتا گیا۔ سیاسی حالات بھی بدل چکے ہیں ریاست کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے وہ جدیدیت سے ہم آہنگ ہوئے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ دیکھتے ہیں کہ کل کے پاکستانی شہروں کا ناک نقشہ کیسا ہوتا ہے
11 notes · View notes
apnibaattv · 2 years
Text
فرانس میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ الیکشن نیوز
فرانس میں نئے صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ ہو رہی ہے۔ الیکشن نیوز
موجودہ میکرون، انتہائی دائیں بازو کے رہنما لی پین کو صدارتی انتخابات میں سب سے آگے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پیرس، فرانس – فرانس میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے۔ demagoguery کی طرف سے خصوصیات اور سیاسی ایجنڈے کا فقدان۔ برسراقتدار ایمانوئل میکرون، دوسری میعاد کے حصول کے لیے، زیادہ تر مہم کے لیے بھگوڑے کی طرح لگ رہا تھا، جو روس-یوکرین جنگ میں اپنے “ریاستدان” کے کردار پر یقین رکھتا تھا۔ اگر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
صدر پیوٹن کا ایک اور صدارتی الیکشن، مدمقابل امیدوار کون ہیں؟
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جمعہ کو اعلان کیا کہ وہ آئندہ مارچ 2024 کے صدارتی انتخابات میں ایک اور مدت صدارت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پیوٹن کا اعلان فوجیوں سے ملاقات کے دوران سامنے آیا، جس میں انہوں نے یوکرین میں فوجی آپریشن کے دوران اپنے آپ کو کارہائے نمایاں انجام دینے والوں کو ہیرو آف روس کے تمغوں سے نوازا۔ پوتن نے کہا کہ اس معاملے پر ان کے “مختلف اوقات میں مختلف خیالات” رہے ہیں، لیکن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
شان ہینٹی نے روس کے بارے میں بائیڈن کے ماضی کے بیان پر روشنی ڈالی جس کی عمر ٹھیک نہیں تھی #اہمخبریں
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d8%b4%d8%a7%d9%86-%db%81%db%8c%d9%86%d9%b9%db%8c-%d9%86%db%92-%d8%b1%d9%88%d8%b3-%da%a9%db%92-%d8%a8%d8%a7%d8%b1%db%92-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a8%d8%a7%d8%a6%db%8c%da%88%d9%86-%da%a9%db%92-%d9%85/
شان ہینٹی نے روس کے بارے میں بائیڈن کے ماضی کے بیان پر روشنی ڈالی جس کی عمر ٹھیک نہیں تھی
Tumblr media
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
اس وقت کے امیدوار جو بائیڈن نے 2 سال قبل پیر کو ایک جرات مندانہ اعلان کیا تھا، جب انہوں نے روسی رہنما کا دعویٰ کیا تھا۔ ولادیمیر پوٹن شان ہینٹی نے پیر کو کہا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ 2020 کا الیکشن جیتیں کیونکہ وہ “میدان میں واحد شخص ہے جو کبھی بھی اس کے ساتھ پیر سے پیر تک گیا ہے۔”
اس میں افتتاحی Monologue، “Hannity” کے میزبان نے نشاندہی کی کہ “یہ کتنا برا ہے۔ [message] عمر رسیدہ” – جیسا کہ بائیڈن اب ممکنہ طور پر افغانستان کے تباہ کن انخلاء کے بعد دنیا کے دوسری طرف ایک اور تباہی کا فریق بن جائے گا۔
ہینٹی نے رپورٹ کیا کہ پوٹن پہلے ہی یوکرین کے مشرقی حصے میں “امن کیپنگ” مشن کی آڑ میں فوجی اہلکار بھیج چکے ہیں تاکہ وہاں نام نہاد روسی دوست “علیحدگی پسندوں” کی پشت پناہی کی جا سکے۔
جیس واٹرس: بائیڈن کا پیغام یوکرین کے مسائل امریکہ کے مسائل سے زیادہ اہم ہیں
“حقیقت میں، سچائی سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا: تجزیہ کاروں اور حکام کے مطابق، ہم ایک طویل اور خونی جنگ کی شروعات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں،” ہینٹی نے کہا۔
ہنیٹی نے کہا کہ ماہرین نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ پوٹن کے ممکنہ منصوبے 1939 کے بعد سے یورپ میں ہونے والا سب سے بڑا حملہ بن سکتا ہے جب سابق جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر نے سوڈیٹن لینڈ پر حملہ کیا تھا، جو مغربی اس وقت کے چیکوسلواکیہ کا ایک حصہ ہے جہاں بڑی تعداد میں نسلی جرمنوں کی آبادی ہے۔ مہینوں بعد، ہٹلر کے نازیوں نے فرانس، لکسمبرگ، بیلجیم اور ہالینڈ پر حملہ کیا۔
“اب یاد رکھیں کہ صرف دو سال پہلے اس دن کے امیدوار جو بائیڈن نے ایک جرات مندانہ اعلان کیا تھا: ٹویٹر پر اس کی عمر ٹھیک نہیں تھی – ‘ولادیمیر پوٹن نہیں چاہتے کہ میں صدر بنوں۔ وہ نہیں چاہتا کہ میں صدر بنوں۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس میدان میں واحد شخص ہوں جو کبھی بھی اس کے ساتھ پاؤں سے پاؤں تک گیا ہے۔”
Tumblr media
امریکی صدر جو بائیڈن روس-یوکرین سرحد پر صورتحال کے بارے میں ایک قومی اپ ڈیٹ فراہم کر رہے ہیں۔ (تصویر برائے جم واٹسن/اے ایف پی بذریعہ گیٹی امیجز)
ہینٹی نے مزید کہا، “یہ پتہ چلتا ہے کہ جو پوٹن، درحقیقت، سب کچھ چاہتا تھا، اور بہت کچھ تھا۔” “پوتن نے دیکھا کہ بائیڈن نے کتنے امریکیوں، کتنے گرین کارڈ ہولڈرز، افغانستان کی اسلامی امارات میں ہمارے کتنے افغان اتحادیوں کو چھوڑ دیا اور امریکیوں کو یرغمال بنانے کے انتہائی شرمناک اور افراتفری کے طریقے سے، دشمن کی صفوں کے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔”
ہینٹی نے کہا کہ بائیڈن نے امریکی توانائی کی پیداوار اور تلاش کو بند کر کے پوٹن کے مقصد میں بنیادی طور پر مدد کرنے پر بھی دگنا اضافہ کر دیا ہے، کیونکہ یوکرین پر روسی حملے سے گیس کی قیمتیں بھیجنے کا امکان ہے، اور اس طرح مجموعی طور پر افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے – امریکی توانائی کی کمی کی وجہ سے بائیڈن کے اپنے جان بوجھ کر اقدامات کی وجہ سے پیداوار۔
بائیڈن نے کبھی وضاحت نہیں کی کہ روس-یوکرین تنازعہ میں ہمارے مفادات کیا ہیں: کرسچن وائٹن
“[In July 2020]، پوتن نے یوکرین کے لیے اپنی ہوس کا اعلان کیا … تمام روسی فوجیوں اور ساز و سامان کے دوران، وہ ایک سال کے بہتر حصے میں یوکرین کی سرحد پر جمع تھے۔ اور پھر بھی بائیڈن پیچ موڑنے میں ناکام رہا۔ وہ ولادیمیر کو کسی بھی طرح سے تبدیل کرنے میں ناکام رہا، “میزبان نے آگے کہا۔” وہ آج تک دوبارہ پابندیاں عائد کرنے میں ناکام رہے، اور وہ اس پر قابل رحم ہیں، صرف الگ الگ نام نہاد علیحدگی پسند علاقوں پر دو معمولی اقتصادی حدود کے ساتھ۔ مشرقی یوکرین. بہت کم۔ بہت دیر ہو گئی۔”
“اور جیسا کہ روس کے سفیر سویڈن نے کہا، ماسکو پابندیوں کے بارے میں ‘ایڈم شیف’ نہیں دیتا،” انہوں نے کہا۔
Tumblr media
بائیڈن کے تبصروں کے تناظر میں پوتن کا کہنا ہے کہ روس جانتا ہے کہ “اپنے مفادات کا دفاع کیسے کرنا ہے۔” (رائٹرز)
سفیر وکٹر تاتارینٹسیف نے اسٹاک ہوم کے اخبار “افٹن بلیڈیٹ” کو بتایا، “میری زبان معاف کریں، لیکن ہم ان کی تمام پابندیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دیتے۔”
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے کلک کریں۔
ہنٹی نے متنبہ کیا ، “اب بائیڈن تنازعات کو روکنے کے لئے عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتا ہے۔” “اور یقیناً، امریکہ یوکرین کے ساتھ شوٹنگ کی جنگ میں نہیں اترے گا اور نہ ہی ہمیں۔ لیکن امریکیوں کو اس کی بھاری مالی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔”
“ایک بیرل تیل کی قیمت اب بہت زیادہ ہے $94 فی بیرل پر۔ لیکن یورپ میں تیل پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک کے درمیان جنگ، یہ قیمت کچھ لوگوں کے ساتھ چھت سے نیچے جا سکتی ہے، اقتصادی ماہرین کی توقع ہے کہ یہ مزید بڑھ سکتی ہے۔ $150 فی بیرل سے زیادہ، آپ اس کی ادائیگی کریں گے۔ بہت برا صدر بائیڈن نے اپنی صدارت کا پہلا سال بنیادی طور پر اس ملک میں امریکی تیل اور گیس کی پیداوار کو تباہ کرنے والی گیند کو لے کر گزارا۔”
Source link
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
اہل قیادت منتخب کرنا ہو گی
Tumblr media
قارئین، بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا، ورلڈ بینک نے 1.2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا، مگر پھر الزام لگا دیا گیا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہیں اور قرضہ کینسل کر دیا۔ حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ذرائع سے پیسہ اکٹھا کر کے 6 کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پدما پر بنایا۔ یہ 6.15 کلومیٹر طویل پل تقریبا 3.6 بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر کیا گیا۔ اتوار کی صبح 6 بجے سے عام ٹریفک کیلئے کھولے جانے کے بعد سے پدما پل پر پہلے 8 گھنٹوں میں کل 82,19,050 روپے جمع کئے گئے ہیں۔ اگلے 8 گھنٹوں میں پل کے زجیرہ پوائنٹ پر 35,29,500 روپے اور ماوا پوائنٹ سے 46,89,550 روپے جمع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں 15,200 گاڑیاں دونوں سروں سے گزریں اور آج صرف یہ ایک منصوبہ ہی بنگلہ دیشی معیشت میں سالانہ 1.3 فیصد منافع کا حامل ہے۔ گزشتہ سال اس کا افتتاح ہونے کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پدما پل کی ایک فریم شدہ تصویر تحفے میں پیش کی۔ شاید یہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی اور قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔
در در کشکول لیکر بھیک مانگنے سے ترقی نہیں ہوتی ہم ’’دشمن‘‘ ہندوستان سے تو نہیں سیکھ پا رہے کم از کم اپنے پرانے حصے اور ’’بھائی‘‘ بنگلہ دیش سے تو سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ میرے بچپن میں یہ کہانی سنائی جاتی تھی کہ بھوکے ننگے بنگالیوں کو سوائے اپنی زندگی پر رونے دھونے کے کوئی کام نہیں تھا اور ہم ہی ان کو پال رہے تھے، بنگلہ دیش کی ہم سے علیحدگی کے بعد بھی کئی برس عوام کو یہی داستان سنائی جاتی رہی۔ آج 50 سال بعد بنگلہ دیش ہم سےکہیں آگے نکل گیا اور ہم 75 سال بعد بھی ایک سے دوسری دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی ساڑھے 7 کروڑ اور مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے 4 کروڑ تھی۔ آج بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے 15 کروڑ اور ہماری 24 کروڑ سے زائد ہے۔ 20 برس پہلے پاکستانی روپے کے پونے 2 ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم ہے۔ بنگلہ دیش کے خزانے میں 38 بلین ڈالر اور ہمارے خزانے میں 9 بلین ڈالر ہیں۔
Tumblr media
اب میں اپنے ملک پاکستان کی طرف آتا ہوں۔ اس وقت دنیا میں 207 کے لگ بھگ ممالک ہیں ان میں پاکستان ایسا ملک ہے جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے بھی 3 گنا بڑا ہے۔ ہمارا ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر۔ خوبانی، کپاس، گنے کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر۔ پیاز ، دودھ پانچویں نمبر پر۔کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر۔ آم، گندم اور چاول کی پیداوار میں ساتویں نمبر پر ۔ مالٹے ، کینو کی پیداوار میں دسویں نمبر پر ہے ۔ گندم کی پیداوار پورے براعظم جنوبی افریقہ کی پیداوار سے زیادہ ہے ۔ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے چوتھے نمبر پر۔ تانبے کے ذخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبر پر اور سی این جی کے استعمال میں پہلے نمبر پر ۔ گیس کے ذخائر میں ایشیا میں چھٹے نمبر پر۔کوئی سبزی، کوئی اناج ایسا نہیں جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں خلیجی ، فارسٹ اور یورپ میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو تمام اناج پیدا کر سکتا ہو ۔ یعنی اگر چاول پیدا کر رہا ہے تو گیہوں پیدا نہیں کرتا اور اگر گیہوں پیدا کر رہا ہے تو مکئی ، جوار پیدا نہیں کر سکتا ، دالیں پیدا نہیں کر سکتا۔ یہی حال سبزیوں اور پھلوں کا ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں زمین کے اندر انمول پتھر اور کوئلہ، پیٹرول، گیس کے ذخائر کے ساتھ ساتھ، سیب، بادام، خوبانی، انجیر، شہتوت، اخروٹ، اسٹرابری اور کھجوریں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہیں۔ بہترین جھینگے اور مچھلیاں اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ پیٹرول کے بھاری ذخائر موجود ہیں مگر ہم نے منصوبہ بندی نہیں کی۔ ہماری سرزمین سے پیٹرول گزر کر ایران جا رہا ہے، اسی طرح گیس کے ذخائر بھی وافر مقدار میں ہیں مگر ہمیں اس کی قدر نہیں۔ ہم پاکستانی عوام کسی نیک، ایماندار اور صالح قیادت کو منتخب کرنے کے بجائے بار بار کرپٹ اور دھوکے باز سیاستدانوں کو ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے کہ ہم آئندہ الیکشن میں دیانتدار اہل قیادت کو منتخب کر سکیں۔ ہم اپنا 76واں یوم جشن آزادی منا چکے ہیں۔ آزادی رب ذوالجلال کی وہ خوبصورت ترین نعمت ہے جس کے سامنے مال و دولت کے بلند و بالا پہاڑ بھی بے کار ہیں۔ 
برسوں پہلے مسلمانان ہند بھی قید و قفس کی ایسی ہی بے رحم زندگی گزار رہے تھے، جہاں نہ مذہبی آزادی تھی نہ اپنی چاہت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت تھی، جہاں مسلمانان ہند ایک ایسی غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے جس کا ایک ایک دن کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔ بالآخر شاعر مشرق علامہ اقبال نے آزادی کا ایک حسین خواب دیکھا جسے علمائے کرام، اکابر امت اور قائد اعظم محمد علی جناح نے عملی جامہ پہنایا اور 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک خوبصورت ملک بن کر وجود میں آگیا۔ آزادی کی اس جدوجہد میں لاکھوں مائوں نے اپنے لخت جگر قربان کئے، بیویوں نے اپنے سہاگ ملک پر وار دئیے، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، پھر جاکر میرا دیس وجود میں آیا۔ آج چوک چوراہوں میں لہرانے والے سبز ہلالی پرچم میں لاکھوں مسلمانوں کا سرخ لہو شامل ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہم حقیقی آزادی سے کوسوں دور ہیں لیکن پھر بھی اپنے علیحدہ وطن کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ آئیے عہد کریں کہ اپنی اس دھرتی کو علم وہنر، تعلیم و ترقی، امن و آشتی، کرپشن سے پاک اسلام کا مرکز بنائیں گے اور اپنے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کریں گے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
googlynewstv · 3 years
Text
روسی الیکشن میں بھی پاکستانی تاریخ دہرا دی گئی
روسی الیکشن میں بھی پاکستانی تاریخ دہرا دی گئی
اگر آپ کا خیال ہے کہ الیکشن میں دھاندلی صرف پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہی ہوتی ہے تو آپ کا خیال غلط ہے. روس میں 19 ستمبر کو مکمل ہونے والے تین روزہ الیکشن کے دوران صدر ولادی میر پیوٹن کی جماعت پر دھاندلی کے الزامات عائد ہو گئے ہیں اور انکی حکمران جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہوتی نظر آتی ہے۔ روس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں پر بڑے شہروں میں پولنگ کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
breakpoints · 3 years
Text
پیوٹن نواز پارٹی نے روسی پارلیمانی ووٹ جیت لیا: ایگزٹ پول | ایکسپریس ٹریبیون۔
پیوٹن نواز پارٹی نے روسی پارلیمانی ووٹ جیت لیا: ایگزٹ پول | ایکسپریس ٹریبیون۔
ماسکو: حکمراں یونائیٹڈ روس پارٹی ، جو صدر ولادیمیر پیوٹن کی حمایت کرتی ہے ، تین دن تک جیتنے کے لیے تیار ہے۔ پارلیمانی الیکشن، ابتدائی نتائج اور ایک ایگزٹ پول نے اتوار کو دکھایا۔ ملک بھر میں صرف 9 فیصد بیلٹوں کی گنتی کے ساتھ ، مرکزی الیکشن کمیشن نے کہا کہ متحدہ روس نے 38.57 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ علیحدہ طور پر ، ایک ایگزٹ پول جو INSOMAR نے کیا تھا اور روس نے شائع کیا تھا۔ آر آئی اے خبر رساں…
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
روسی الیکشن کمیشن کا ملک میں جاری انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کا دعویٰ
روسی الیکشن کمیشن کا ملک میں جاری انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کا دعویٰ
روس کے الیکشن کمیشن نے ملک میں جاری 3 روزہ پارلیمانی انتخابات میں غیرملکی مداخلت کا دعویٰ کیا ہے۔ خیال رہےکہ روس میں پارلیمانی انتخابات جمعے کے روز شروع ہوئے تھے جو کہ اتوار تک جاری رہیں گے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق روسی الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کے ثبوت ملے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق حزب اختلاف کے خلاف ہونے والے شدید کریک ڈاؤن کے بعد ہونے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
'تھکاوٹ کا احساس' جب فرانس اگلے صدر کے انتخاب کی تیاری کر رہا ہے | الیکشن نیوز
‘تھکاوٹ کا احساس’ جب فرانس اگلے صدر کے انتخاب کی تیاری کر رہا ہے | الیکشن نیوز
پیرس، فرانس – فرانس میں ووٹرز اتوار کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں، جو کہ 1958 کے بعد سے پانچویں جمہوریہ کے 12ویں انتخابات ہیں۔ اس مہم پر روس اور یوکرین کی جنگ چھائی ہوئی ہے۔ گھریلو محاذ پر، اس نے لیس ریپبلکن پارٹی کے دائیں بازو کے امیدوار، فرانکوئس فلن کے 2017 کے غبن کے اسکینڈل جیسی کمزور کنڈکٹ کو پیش نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ایمینوئل میکرون کی حکومت کا میک کینسی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 6 years
Text
روس نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی
امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کی اپنی اپنی انٹیلیجنس کمیٹیاں ہیں۔ واشنگٹن میں ملکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی نے اب پہلی بار کھل کر کہہ دیا ہے کہ روس نے امریکا میں ہوئے گزشتہ صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔ امریکا میں ملکی پارلیمان کانگریس کہلاتی ہے، جس کے دو ایوان ہیں، ایوان زیریں یعنی ایوان نمائندگان اور ایوان بالا جو سینیٹ کہلاتا ہے۔ واشنگٹن سے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق روس پر 2016ء کے موسم خزاں سے ہی یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ ماسکو نے امریکا کے ان صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تھی، جن کے نتیجے میں ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تھے۔
امریکا میں اس بارے میں مختلف سطحوں پر چھان بین ہوتی رہی ہے کہ آیا ماسکو نے واقعی امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ اب پہلی بار امریکی ایوان بالا کی انٹیلیجنس کمیٹی نے اس بارے میں اپنے موقف کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ روس نے یہ مداخلت کی تھی۔ ڈی پی اے کے مطابق اس سلسلے میں سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے، وہ یقینی طور پر صدر ٹرمپ کو پسند نہیں آیا ہو گا، اس لیے کہ ٹرمپ بار بار ان دعووں کی تردید کرتے رہے ہیں کہ ان کی انتخابی مہم کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر روس کے ساتھ کوئی روابط تھے۔
سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی نے اب امریکی خفیہ اداروں کے اس موقف کی کھل کر تائید کر دی ہے کہ روس نے دو سال پہلے ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں اس لیے مداخلت کی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کی جا سکے۔ یہ بات سینیٹ کی اس کمیٹی کی ایک ایسی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو ریپبلکن سینیٹر رچرڈ بَر نے ڈیموکریٹ سینیٹر مارک وارنر کے ساتھ مل کر پیش کی ہے۔ انتخابی سیاست کی سطح پر ٹرمپ اور روس کے روابط سے متعلق امریکی سینیٹ کا یہ موقف ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کی سربراہی ملاقات میں چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہی موقف اور اس بارے میں امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کی رپورٹ اس وجہ سے بھی بہت اہم ہیں کہ ان میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، وہ صرف ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹ سیاستدانوں نے ہی نہیں کہا بلکہ ایوان بالا میں ڈیموکریٹس اور ٹرمپ کی اپنی ریپبلکن پارٹی دونوں کی سوچ یہی ہے۔ ریپبلکن سینیٹر رچرڈ بَر نے اس بارے میں واشنگٹن میں کہا کہ سینیٹ نے اپنے اس موقف تک پہنچنے کے لیے 16 ماہ تک ایسی بے شمار دستاویزات اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کیا، جن کی بنیاد امریکی خفیہ اداروں کو ملنے والی اطلاعات تھیں۔ سینیٹر بَر کے مطابق، ’’اس امر کی کوئی وجہ نہیں کہ امریکی انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹوں میں اخذ کردہ نتائج کی تردید کی جا سکے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں ہی کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اپنے اپنے طور پر ان الزامات کی چھان بین کر رہی تھیں۔ سینیٹ میں اگر دونوں سیاسی جماعتوں کے نمائندہ اراکین نے یہ کہا ہے کہ روس نے یہ مداخلت کی تھی تو ایوان نمائندگان کی انٹیلیجنس کمیٹی میں ابھی تک انہی دونوں پارٹیوں میں یہ اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ آیا روس نے یہ مداخلت کی تھی یا نہیں۔ اسی سلسلے میں خصوصی تفتیش کار رابرٹ میولر بھی ابھی تک اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں کہ آیا روس نے 2016ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔
م م / ع ا / ڈی پی اے، اے ایف پی  
1 note · View note
maqsoodyamani · 3 years
Text
صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا: روسی صدر پوٹن
صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا: روسی صدر پوٹن
صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا: روسی صدر پوٹن ماسکو، یکم دسمبر ( آئی این ایس انڈیا) روسی صدر پوٹن کے بقول انہوں نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ ان کے منصب کی موجودہ مدت سن 2024 میں پوری ہو رہی ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پوٹن رواں صدی کے اوائل سے اپنے ملک کے اقتدار پر براجمان ہیں، کبھی بطور صدر اور کبھی بحیثیت وزیر اعظم۔ وہ سابق سوویت…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes