Tumgik
#یورپی پارلیمنٹ الیکشن
urduchronicle · 6 months
Text
یورپی یونین کے الیکشن میں نوجوان ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ٹیلر سوئفٹ سے مدد مانگ لی
یورپی یونین نے بدھ کے روز امریکی پاپ آئیکن ٹیلر سوئفٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ نوجوان ووٹروں کی بے حسی کو دور کرنے اور جون میں ہونے والے یورپی انتخابات میں پولنگ میں حصہ لینے میں مدد کریں۔ چارٹ میں ٹاپ کرنے والی امریکی دیوا اپنا بلاک بسٹر “ایرا ٹور” 9 مئی میں پیرس لے کر آئے گی، اس سے ایک ماہ قبل یورپی یونین کے 27 ممالک کے ووٹرز اگلے یورپی پارلیمنٹ کے قانون سازوں کے انتخاب کے لیے انتخابات میں حصہ لیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
یورپی یونین نے فرانسیسی امیدوار لی پین سے فنڈز کی وصولی کا مطالبہ کیا: رپورٹ | الیکشن نیوز
یورپی یونین نے فرانسیسی امیدوار لی پین سے فنڈز کی وصولی کا مطالبہ کیا: رپورٹ | الیکشن نیوز
یوروپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ میرین لی پین نے یورپی پارلیمنٹ (ایم ای پی) کی رکن ہونے کے دوران عوام کے پیسے کا غلط استعمال کیا۔ فرانسیسی استغاثہ نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین کی اینٹی فراڈ ایجنسی کی اس رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں جس میں انتہائی دائیں بازو کی صدارتی امیدوار مارین لی پین اور ان کی پارٹی کے ارکان پر یورپی پارلیمنٹ کے فنڈز کے غلط استعمال کا الزام…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 4 years
Text
کورونا وائرس پر شک و شبہات
پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس کا شکار ہے۔ اب 3 ماہ کے کلی اور جزوی لاک ڈائون پر شکوک کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ بڑے بڑے نامور پروفیسر صاحبان پہلے اس وائرس کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے، اب اس پر اپنے اپنے تحفظات؍ تحقیقات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نامور کیمسٹری کے پروفیسر مائیکل لیوٹ (Michael Levitt) جن کو 2013ء میں کیمسٹری میں نوبیل پرائز ملا تھا، نے برملا اس وائرس پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر تحقیق شدہ مفروضہ وائرس صرف اقتصادی ماہرین کی منطق سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ جس پر سائنسی ماہرین کی رائے ایک جیسی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی حتمی حل نظر آرہا ہے۔ ماسوائے اقتصادی تباہی، اربوں انسانوں کو لاک ڈائون کر کے بھوک پیاس اور خوف سے مارا جا رہا ہے۔
انہوں نے بھارتی حکومت پر خصوصی طور پر تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ 1 ارب 40 کروڑ عوام کو 2 ماہ غیر صحتمند علاقوں، مکانوں اور بستیوں میں قید رکھا گیا، جبکہ وائرس سے اموات صرف چند سو تھیں۔ بھوک اور گھٹن سے کتنی اموات ہوئیں، اس غریب ملک میں جہاں 30 فیصد آبادی بے گھر ہے، 2 وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں، کل کام ملے گا یا نہیں اس خوف سے کتنے لوگ مر گئے، اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ پوری دنیا کو بیروزگاری میں مبتلا کر کے کس کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ یقیناً یہ ایک گھنائونا کھیل، انسانوں کی آبادیاں کم کرنے اور معیشت پر کنٹرول کرنے کی سازش گزشتہ 10 سال سے خصوصی طور پر تیار کی گئی تھی۔ 
یہی نہیں امریکہ جو اس وائرس کی لپیٹ میں سب سے آگے ہے، یہاں کے دانشور اور ماہر اقتصادیات بھی اب کھل کر لاک ڈائون کے خلاف میدان میں عوام کے شانہ بشانہ آ چکے ہیں۔ ہر محاذ پر اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ بیروزگاری سے تنگ آکر امریکہ کی پہلے 28 ریاستوں نے بغاوت کی اور عوام کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے لاک ڈائون میں نرمیاں کیں، پھر اب پورے امریکہ سے لاک ڈائون ختم کر دیا۔ شراب خانے، جوا خانے، شاپنگ مالز ایک ایک کر کے سب کھول دیا گیا ہے۔ ریسٹورنٹس میں عوام کو کھانا کھانے کی اجازت بھی مل چکی ہے، کئی ریاستوں میں ماسک اور فاصلے بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔ اٹلی جو اس مہلک وائرس کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 35 ہزار اموات اور لاکھوں مریضوں ہیں، اس کی پارلیمنٹ کی ایک معزز رکن سارہ کونیل نے اس وائرس کا موجد مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس کو ٹھہرا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ 
اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اربوں ڈالر خرچ کر کے بل گیٹس نے اپنی کورونا چپس بیچنے کے لئے یہ خوف پھیلایا اورعالمی میڈیا کو اپنے ساتھ ملا کر 8 ارب چپس عوام کے جسموں میں لگا کر اپنے نامعلوم عزائم کے لئے 10 سال سے راہیں پیدا کی گئیں تاکہ وہ ان کی ویکسین اور چپس سے بڑھتی ہوئی آبادیوں کو کنٹرول کر سکے۔ خصوصاً افریقہ کی غریب آبادیاں ان کا ٹارگٹ تھیں اس لئے انہوں نے اپنی ویکسین کو آزمانے کے لئے کینیا کو بہت بڑی رقم پیش کی جس کو کینیا کی حکومت نے ٹھکرا دیا، انہوں نے بل گیٹس کو بین الاقوامی مجرم ٹھہراتے ہوئے عالمی عدالت میں ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
اس سینئر رکن اسمبلی کی تقریر کو عالمی میڈیا نے خاص کوریج نہیں دی اور دیگر میڈیا نے خصوصاً مائیکرو سافٹ کے زیر اثر ہونے کے سبب اس خبر کا بلیک آئوٹ کیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کیلئے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے یہ کھیل رچایا تھا اور بار بار کہہ رہا ہے کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون بند کریں اور اس نے اس کو نیچا دکھانے کے لئے 28 کمپنیوں کو وہاں سے نکال کر انڈونیشیا میں نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ الیکشن جیتنے کے لئے اسی طرح فلسطین کو تقسیم کر کے بیت المقد س پر یہودیوں کے قابض ہونے کا جو پلان بنایا تھا وہ سارا اس کے اگلے الیکشن کا اہم حصہ ہے۔ 
بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پوری دنیا کی معیشت جو امریکی یہودیوں کے نو، دس اداروں کے پاس ہے وہ آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کو مفلوج بنانا چا ہتے تھے اور وہ اس پر کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں، اس لئے یہ وائرس کا معاملہ شک و شبہات سے بھرپور ہے۔ اس وقت اس وائرس کی وجہ سے ایئر لائنز کی صنعت کو 60 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہزاروں طیارے پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر قطار در قطار کھڑے طیاروں کے قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ لاکھوں ایئر لائنز اسٹاف کو فارغ کیا جا چکا ہے، اس سے ملحق ہوٹل، ریسٹورنٹس اشیاء کی بندش سے 130 ارب ڈالرز کی مزید انڈسٹری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
البتہ پیٹرول کی قیمتیں 30 ڈالر تک واپس آچکی ہیں۔ عرب امارات، افریقی ممالک، کوریا، تائیوان، یورپی یونین اور برطانیہ کی حکومتیں لاک ڈائون ختم کر چکی ہیں اور آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی لاک ڈائون بتدریج ختم کر رہے ہیں۔ جولائی تک حتمی طور پر پوری دنیا لاک ڈائون سے چھٹکارا پا سکے گی، بشرطیکہ اس وائرس کے منفی اثرات میں غیر معمولی تیزی نہ آئے۔ مگر ایک بات ہے ہر طبقہ میں اس وائرس پر شک و شبہ کا اظہار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بھوک و افلاس اور بیروزگاری ہے جو 90 فیصد دنیا کی آنکھیں کھول چکی ہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ  
0 notes
risingpakistan · 4 years
Text
طیب اردوان کی باتیں
کافی عرصہ بعد محترم وزیرِ اعظم جناب عمران خان صاحب کے منہ سے ایک سچی بات نکلی ہے کہ عالمِ اسلام کے جراتمند رہنما اور ترکی کے مردِ آہن طیب اردوان اگر پاکستان میں الیکشن میں حصّہ لیں تو وہ یہاں بھی سویپ کریں گے۔ زمانہ حال میں مسلم دنیا کے سب سے مقبول اور محبوب لیڈر طیب اردوان اپنے دوسرے گھر پاکستان آئے اور یہاں کے مکینوں کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا، عالمِ اسلام کا درد رکھنے والے رہنما کے دل سے نکلی ہوئی آواز گونجی کہ ’’پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد صرف سیاسی، تجارتی یا معاشی نہیں، یہ رشتہ عشق اور محبت کا رشتہ ہے‘‘ تو تمام ممبرانِ پارلیمنٹ نے پہلی بار کسی تقریر کو پورے جوش و خروش سے داد دی۔
اہلِ پاکستان کے دل تو پہلے بھی طیب اردوان کی محبت سے سرشار ہیں مگر انھوں نے یہ کہہ کر کہ ’’کشمیر کے ساتھ جو آپکا تعلق ہے وہی ہمارا تعلق ہے‘‘ بائیس کروڑ پاکستانیوں کے دل مٹھی میں لے لیے۔ مہمان رہنما کو اس خطے کے مسلمانوں کا ترکوں کے ساتھ محبت، عقیدت اور یکجہتی کا مکمل ادراک تھا، اور اس نے اس کا کھل کر اظہار کیا، اُس نے علی برادران کا عثمانی خلافت کی بحالی کے لیے جدوجّہد کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں یہاں کی مسلمان خواتین نے ہمارے مشکل وقت میں اپنے زیورات تک اتار کر دے دیے تھے اور پھر یہ بھی کہا کہ ہم عظیم شاعر ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی ترکوں کے کے لیے کہی گئی نظموں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انھوں نے اپنے خطاب میں طرابلس پر اٹلی اور دیگر یورپی فوجوں کے حملے میں شہید ہونے والے ترک بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بادشاہی مسجد لاہور میں منعقد ہونے والے عظیم الشّان جلسے میں علامّہ اقبالؒ کی اُس نظم کا ترکی میں ترجمہ سنا دیا جسے سن کر مسلمانوں کا جوش و جذبہ آسمان کو چھونے لگا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے حکیم الامت حضرت علامّہ اقبالؒ کی اصل نظم شیئر کر رہا ہوں۔ ’’نظم کا عنوان ہے ’’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘‘ یہ شعر ایک تخیلاتی سفر کے بارے میں ہے جس میں اقبالؒ دربارِ رسالت میں پہنچتے ہیں اور آقائے دوجہاںﷺ کو ایک تحفہ پیش کرتے ہیں۔
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامہء زمانہ ہُوا جہاں سے باندھ کے رَختِ سفر روانہ ہُوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضورِ آیہء رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضوؐر نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز کلی کلی ہے تری گرمیِء نوا سے گُداز
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سُوئے گردُوں سِکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا ہمارے واسطے کیا تُحفہ لے کے تُو آیا؟
اب اقبال ؒ عرض کرتے ہیں: ’’ حضورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں مِلتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے، جنّت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمّت کی آبرو اسمیں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہُو اسمیں
ہمیشہ کیطرح ترکی کے حکمران اور خاتونِ اوّل دونوں ا کٹّھے پاکستان تشریف لائے، جناب طیب اردوان دنیا بھر کے مسلمانوں کا مقدمہ ایک نڈر اور بیباک لیڈر کیطرح لڑتے ہیں، دوسری طرف خاتونِ اوّل حجاب میں کبھی شرمندگی یا کمتری کے احساس میں مبتلا نہیں ہوئیں۔ نہ اردوان صاحب دنیا کے وڈیروں اور وقت کے فرعونوں سے کبھی خائف ہوئے ہیں اور نہ ہی کبھی ان کی رفیقہء حیات اسلامی اقدار پر عمل پیرا ہو کر اور اسلامی لباس پہن کر کسی احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہیں۔ جب تک ترکی کی زمامِ کار سیکولر اور دین بیزار حکمرانوں کے ہاتھ میں رہی، ترکی اقتصادی پسماندگی کا شکار اور یورپ کا مردِ بیمار رہا۔
اُسی ترکی کی باگ ڈور جب اللہ اور اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ سے رہنمائی حاصل کرنے والوں نے سنبھالی تو اسے چند سال میں ہی (امریکا اور بہت سے یورپی ممالک کی مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود) ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اس سلسلے میں کئی یورپی ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہمارے اب تک کے تمام حکمران مغرب سے متاثر ہیں اور وہیں سے رہنمائی لیتے ہیں، انھی کے طے کردہ معیار ہمارے لیے حرفِ آخر ہیں۔ ہم ان کی تہذیب اور کلچر سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ان کی زبان بولنے والوں اور انھی کا لباس پہننے والوں کو ہم برتر سمجھتے ہیں۔
ان کی تہذیب کی نقالی میں ہم نے اپنی اقدار تک قربان کر دی ہیں۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے مغربی کلچر کے پرچارک ہماری سرزمین پر آ کر حیاء کے قلعے پر حملہ آور ہوئے اور اسے تاراج کر کے رکھ دیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے حجاب تو کیا اُس تہذیب کے علمبرداروں نے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے دوپٹہ تک کھینچ لیا ہے اور ہم اسی طرح خاموش رہے جسطرح بے غیرت لوگ چند ٹکوں کے لیے اپنی بیٹیاں زبردستی لے جانے والے وڈیروں اور چوہدریوں کے سامنے خاموش رہتے ہیں۔ اپنی بے حسی اور بے غیرتی چھپانے کے لیے ہم والدین کی حیثیت سے یہ جواز گھڑتے ہیں کہ ’یہ نئے زمانے کا تقاضا ہے، ’یہ ماڈرن ازم ہے ’نوجوان نئے زمانے کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘۔ 
ایسا ھرگز نہیں ہے، نہ یہ زمانے کا تقاضا ہے اور نہ یہ ماڈرن ازم ہے، یہ بدترین قسم کا احساسِ کمتری ہے۔ یہ مغربی تہذیب کی یلغار کے سامنے اعترافِ شکست ہے۔ ترکی کی خاتونِ اوّل اس یلغار کے سامنے کھڑی ہو گئی ہیں۔ انھوں نے شکست تسلیم کرنے اور اپنی دینی اقدار چھوڑنے اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے سے انکار کر دیا ہے تو کیا اس سے ان کا مقام اور مرتبہ کم ہوا ہے؟ ھرگز نہیں ، ان کا مقام بلند ہوا ہے، وہ ترک خواتین کے لیے رول ماڈل بن گئی ہیں اور یورپی خواتین انھیں عزّت، احترام اور مرعوبیّت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ آج سے ایک صدی قبل یورپی تہذیب کے سونامی کی یلغار آج سے کہیں زیادہ تند و تیز تھی اُسوقت بھی الیٹ کلاس اُسمیں بہہ گئی تھی۔ عام لوگوں کا دین اور عقیدہ بھی اس میں بہے جارہا تھا، کہ اقبالؒ کے پاور فل پیغام اور پرشکوہ آواز نے انھیں اس سیلاب میں بہہ جانے سے بچا لیا۔ اقبالؒ نے مسلمانوں کو متنبّہ کیا کہ اس تہذیب کی چکا چوند سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں یہ نقلی زیورات والی چمک ہے۔
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ مغرب کی یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال ؒنے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو سمجھایا کہ تم نے مغرب کی خرافات اپنا لی ہیں مگر ان سے وہ چیز نہیں سیکھی جس میں ان کی قوت اور ترقی کا راز ہے۔ طیب اردوان اور ان کی باوقار اہلیہ اقبالؒ کے پیغام کی مجسّم تصویر نظر آئے،
اقبالؒ نے کیا کہا تھا، وہ بھی سن لیں!
قُوتّ ِ مغرب نہ از چنگ و رباب نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب
نے زسحرِ ساحرانِ لالہ روست نے ز عریاں ساق و نے از قطعِ موست
قوتّ ِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است
(مغرب کی قوتّ گانے بجانے میں یا بے حجاب لڑکیوں کے رقص و سرور میں نہیں، نہ ہی ان کی قوتّ جادو اثر حسیناؤں یا ان کی ننگی پنڈلیوں یا ان کے کٹے ہوئے بالوں سے ہے۔ یورَپ نے یہ قوتّ علم اور فن سے حاصل کی ہے اور اسی سے انھوں نے اپنی ترّقی کا چراغ روشن کیا ہے)  
 ذوالفقار احمد چیمہ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
mypakistan · 7 years
Text
ترکی کے صدارتی ریفرنڈم کا جائزہ
ترکی میں سولہ اپریل بروز اتوار سیاسی نظام کی تبدیلی کے بارے میں ریفرنڈم کروایا گیا۔ اس ریفرنڈم میں ساڑھے پانچ کروڑ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے اہل تھے جن میں سے چھیاسی فیصد ووٹروں نے ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار پولنگ اسٹیشنز پر اپنا اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ ترکی دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جہاں ووٹروں کی بہت بڑ ی تعداد اپنے اور ملک کے مستقبل کےلئے باقاعدگی اور بڑی تعداد میں ووٹ ڈالتی ہے۔ صدارتی ریفرنڈم کے بعد پاکستان اور عالمی میڈیا میں صدر ایردوان کے 2029ء تک صدر منتخب ہونے کے بارے میں تبصرے کئے گئے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
اس ریفرنڈم میں صرف ملک میں آئینی ترامیم کی منظوری یعنی صدارتی نظام کی منظوری دی گئی ہے جس پر تین نومبر 2019 کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے بعد ہی عمل درآمد کیا جائے گا اور اس وقت تک ملک میں موجودہ پارلیمانی نظام ہی چلتا رہے گا یعنی بن علی یلدرم وزیراعظم کے طور پر فرائض ادا کرتے رہیں گے تو ایردوان صدر کے طور پر(پرانے آئین کے تحت تفویض کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے) اپنے فرائض ادا کرتے رہیں گے البتہ اس دوران پارٹی کی رکنیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے چیئر مین کے ��ور پر بھی فرائض ادا کر سکیں گے تاہم ریفرنڈم کے بعد اپنے نئے اختیارات کو وہ تین نومبر 2019 کے صدارتی انتخابات کے بعد کامیاب ہونے کی صورت میں ہی استعمال کر سکیں گے یعنی ان کو 2019ء تک صدر منتخب نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان کو دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔
یہ ریفرنڈم ترکی کی تاریخ کے لحاظ سے اس لئے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ترکی میں پہلی بار ریفرنڈم کے ذریعے سیاسی نظام میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور آئینی ترامیم کی منظوری دی گئی ہے جبکہ اس سے قبل ترکی میں سیاسی نظام کی تبدیل کبھی پارلیمنٹ یا عوام کے ذریعے نہیں آئی ہے بلکہ تبدیلی فوج ہی مارشل لاء لگاتے ہوئے لاتی رہی ہے۔ اگرچہ ان انتخابات میں آئینی ترامیم کے حق میں صرف اکیاون اعشاریہ چار فیصد ووٹ پڑے ہیں لیکن صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ میچ چاہے صفر کے مقابلے میں ایک گول سے یا صفر کے مقابلے میں پانچ گول سے جیتا جائے۔ اس میں جیت ہی اہمیت رکھتی ہے لوگو ں کی تعداد کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام کو آئینی ترامیم کے بارے میں قائل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کے بلاک کو سب سے پہلے پارٹی کارکنوں اور پھر عوام کو اس نئے نظام کے بارے میں قائل کرنے کے لئے بڑی جدو جہد کرنا پڑی اور ابتدا میں پارٹی کے اندر سے بھی مزاحمت دیکھی گئی تھی جسے وقت کے ساتھ ساتھ ختم کر دیا گیا اور عوام کو قائل کرنے کی کوششوں کو تیز تر کر دیا گیا۔
اس ریفرنڈم میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے اور اس کے رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں کے درمیان بڑی خلیج سامنے آگئی ہے کیونکہ اس جماعت کے اسی فیصد ووٹروں نے اپنے رہنماؤں کے حق میں نہیں بلکہ مخالفت میں ووٹ دیا ہے جس سے پارٹی تقسیم ہو کر رہ گئی ہے اور جلد ہی اس پارٹی کی قیادت بدلتی ہوئی دکھائی دے گی یا پھر رہنماؤں کے خلاف دھڑا ایک نئی جماعت تشکیل دینے کی کوشش کرے گا اور یوں پارٹی کے چیئرمین دولت باہچے لی کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
اس آئینی ریفرنڈم میں جنوبی مشرقی اناطولیہ،تھریس، بحیرہ ایجین اور بحیرہ روم کے علاقوں میں بڑی تعداد میں آئینی ترامیم کے خلاف ووٹ پڑے ہیں جبکہ بحیرہ اسود اور وسطی اناطولیہ میں آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ پڑے ہیں۔ علاوہ ازیں ترکی کے تینوں بڑے شہروں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں صدارتی نظام کے خلاف ووٹوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس سخت مقابلے کے بعد صدر ایردوان کو اپنے آئندہ ڈھائی سال نئی اسٹرٹیجی وضع کرتے ہوئے گزارنے پڑیں گے۔ صدر ایردوان دنیا کے عظیم ترین سیاسی اسٹرٹیجسٹ سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے اس وقت سے اب تک اس میدان میں کامیابی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں.
دنیا میں کوئی بھی رہنما مسلسل اقتدار میں رہتے ہوئے اتنی بڑی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکا ہے جتنی صدر ایردوان کے حصے میں آئی ہیں۔ اس ریفرنڈم کے بعد ری پبلکن بلاک نے ریفرنڈم میں دھاندلی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس ریفرنڈم کو منسوخ کروانے اور نئے سرے سے ریفرنڈم کروانے کے لئے ترکی کے سپریم الیکشن کمیشن کو درخواست دی جسے سپریم الیکشن کمیشن کے سربراہ سعدی گووین نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ غیر مہر شدہ لفافوں والی بے ضابطگیاں اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہیں تاہم ری پبلکن پیپلز پارٹی نے اسٹیٹ کونسل اور اس کے بعد یورپی یونین کی عدلیہ سے بھی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس ریفرنڈم کے نتیجے میں ملکی آئین میں تبدیلی آئے گی اور وہاں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام رائج ہو جائے گا۔ وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا اور صدر کا انتخاب براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے ہو گا۔ سربراہِ مملکت کے طور پر وہی حکومتی انتظامیہ کا سربراہ ہوا کرے گا۔ صدر کو متعدد اختیارات مل جائیں گے، جن میں بجٹ کے مسودے کی تیاری کے ساتھ ساتھ حکومتی وزرا اور ججوں کی تقرری اور اُن کی سبکدوشی کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ صدر کی مدت اقتدار پانچ سال ہو گی اور اس کا انتخاب زیادہ سے زیادہ دو بار کیا جا سکتا ہے۔صدر براہ راست اعلیٰ حکام جن میں وزرا بھی شامل ہیں کو تعینات کر سکتا ہے۔صدر کے پاس ایک یا کئی نائب صدر متعین کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی صدر کرے گا۔
ترکی میں ریفرنڈم کی شفافیت کی نگرانی کے لئے کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی (PACE)، یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم (OSCE) کے انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کے دفتر (ODIHR) کے مبصرین کے مشترکہ مشن کی سربراہی کرنے والی شخصیت سیزار فلورین پریدا نےانقرہ میں ایک بیان دیتے ہوئے ریفرنڈم کے لئے چلائی جانے والی سیاسی مہم کو مساوی مواقع نہ دیتے ہوئے شدید تنقید کی تھی جس پر صدر ایردوان نے اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہم آپ کی جانب سے سیاسی بنیادوں پر تیار کردہ رپورٹوں کو نہ تو دیکھتے ہیں نا ہی ان کی پروا کرتے ہیں۔ ہم اپنی راہ پر گامزن رہیں گے۔ " ا س ریفرنڈم میں صدر ایردوان کی کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ اب جدید ترکی کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں گی اور صدر ایردوان کو وسیع تر اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ صدر ایردوان نےاس کامیابی کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ پچیس ملین ترکوں نے اُن کی اُس تجویز کی حمایت کی ہے، جس کے تحت ترکی کے پارلیمانی نظام کی جگہ ایک ایسا صدارتی نظام رائج ہو جائے گا جو ملک میں سیاسی استحکام کا باعث ہوگا جس کے نتیجے میں ترکی ایک بار پھر تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
ڈاکٹر فر قان حمید
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
شیریں مزاری کی یورپین پارلیمنٹ کے صدر سے ملاقات
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/121625/
شیریں مزاری کی یورپین پارلیمنٹ کے صدر سے ملاقات
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یورپین پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تاجانی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے یورپی پارلیمنٹ کے صدر کو خطے کی تازہ ترین صورتحال اور افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کردار سے آگاہ کیا۔ انہوں نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی پر گفتگو کرتے ہوئے یورپین قیادت پر زور دیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
جواب میں پارلیمنٹ کے صدر انتونیو تاجانی نے وفاقی وزیر کا خیر مقدم کرتے ہوئے پاکستان اور یورپ کے درمیان تعلقات پر اظہار اطمینان کیا ۔ انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری کے توسط سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لئے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا۔انتونیو تاجانی نے مزید کہا کہ انکی پاکستان کے وزیر اعظم سے انتخابات کے فوراً بعد ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی تھی جو کہ ایک اچھا رابطہ ثابت ہوا ۔ 
انہوں نے یقین دلایا کہ وہ امن کے فروغ کیلئے کردار ادا کریں گے۔ قبل ازیں وفاقی وزیر نے یورپین پارلیمنٹ کے صدر کو تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے امن کی شمع کا نام دیا تھا۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے صدر پارلیمنٹ کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ الیکشن کے بعد اس پر غور کریںنگے۔  ملاقات کے موقع پر بیلجئیم لکسمبرگ اور یورپین یونین کے لئے پاکستانی سفیر نغمانہ عالمگیر ہاشمی ، ڈپٹی ہیڈ آف مشن آصف میمن، ایچ او سی گیان چند ، قونصلر ثاقب رئوف اور پریس قونصلر سلطانہ رضوی بھی موجود تھیں
0 notes
urduchronicle · 6 months
Text
معیشت کے لیے بیلٹ باکس بم شیل
دنیا کی اقتصادی پیداوار کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ بنانے والے ممالک اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی میں اس سال انتخابات ہو رہے ہیں۔ مالیاتی خدمات کے گروپ مارننگ اسٹار کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں کو “بیلٹ باکس بم شیل” کا سامنا ہے، اس قسم کے واقعات کے خطرے کا پیشگی تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑی تبدیلیاں سیل آف کا سبب بن سکتی ہیں”۔ یہاں ان انتخابات پر ا��ک نظر ڈالتے ہیں جو مارکیٹوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، آنے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
dhanaklondon · 5 years
Text
سینئیر صحافی چودھری عارف علی پندھیر پریس کلب آف پاکستان یو کے یورپ کے صدر کاظم رضا جنرل سیکرٹری منتخب ھو گئے مانچسٹر کے مقامی ھال میں پریس کلب آف پاکستان یو کے یورپ کے انتخابات کا انعقاد ھوا الیکشن کمیشن کے فرائض ممتاز صحافی حسن چودھری نے ادا کئے
#gallery-0-5 { margin: auto; } #gallery-0-5 .gallery-item { float: left; margin-top: 10px; text-align: center; width: 33%; } #gallery-0-5 img { border: 2px solid #cfcfcf; } #gallery-0-5 .gallery-caption { margin-left: 0; } /* see gallery_shortcode() in wp-includes/media.php */
سئینئر صحافی چودھری عارف علی پندھیر بلا مقابلہ صدر اور کا ظمُ رضا جنرل سیکرٹری منتخب ھو گئے باقی عہیدیدیران باہمی مشورے سے بنائے گئے سینئر صحافی صدر چودھری محمد عارف پندھیر ، سینئر نائب صدر تاثیر احمد چودھری،نائب صدر شوکت قریشی،سیکریٹری جنرل کاظم رضا،ڈپٹی سیکریٹری راجہ واجد حسین، فنانس سیکریٹری باجی صابرہ ناہید ،سیکریٹری نشرواشاعت محمد شہزاد علی مرزا، جائنٹ سیکرٹری چودھری اظہر اوری ،کوآرڈینیٹر ارشد اعوان، شامل ہیں آخر میں منتخب صدر چودھری عارف پندھیر نے کہا کہ میں ممبران پریس کلب کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہوں ۔خاص طور پر سرپرست اعلی شیخ اعجاز افضل، چیف الیکشن کمشنر حسن چودھری،قابل صداحترام انعام سحری ،محمود اصغر چودھری ،ڈاکٹر فصہ ،نجیب بھائی اور معززمہمان اسحاق چودھری صاحب کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں کے انہوں نے ہم سب کی حوصلہ افزائی فرمائی۔عاف چودھری نے مزید کہا کہ پریس کلب کے اگلے اجلاس میں ترجیحات کو ممبران کے سامنے رکھوں گا ممبران کے تعاون سے متفقہ فیصلے کئے جائیں گے صحافیوں کے مثبت مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائیں جائیں گے تمام ممبران ھی صدر ھیں جنرل سیکرٹری کاظم رضا نے بھی صحافیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا تقریب کے آخر میں کیک بھی کاٹا گیا ممبر پارلیمنٹ شیڈو وزیر افضل خان ممبر پارلیمنٹ فیصل رشید ڈپٹی لارڈ مئیر مانچسٹر عابد چوھان۔ مئیر اولڈھم جاوید اقبال۔ مئیر راچڈیل محمد زمان۔ بر طانیہ کے نوجوان بزنس مین نبیل جاوید سابقہ ڈپٹی پراسیکیٹو جنرل پنجاب رانا بختیار فالکن ٹریول کے ایم ڈی امجد مغل بز نس مین چودھری شہزاد ڈاکٹر لطیف ساجد ممبر یورپی پارلیمنٹ واجد خانُ ممبر یورپی پارلیمنٹ ڈاکٹر سجاد کریم نے صدر چودھری عاف پندھیر اور تمام عہیدیدران کو منتخب ھونے پر دلی مبارکباد دی رپورٹ۔ چودھری عارف پندھیر
سئینئر صحافی چودھری عارف علی پندھیر بلا مقابلہ صدر اور کا ظمُ رضا جنرل سیکرٹری منتخب سینئیر صحافی چودھری عارف علی پندھیر پریس کلب آف پاکستان یو کے یورپ کے صدر کاظم رضا جنرل سیکرٹری منتخب ھو گئے مانچسٹر کے مقامی ھال میں پریس کلب آف پاکستان یو کے یورپ کے انتخابات کا انعقاد ھوا الیکشن کمیشن کے فرائض ممتاز صحافی حسن چودھری نے ادا کئے
0 notes
classyfoxdestiny · 2 years
Text
مارک اسپینسر: فیملی فارم سے گورنمنٹ چیف وہپ تک #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%85%d8%a7%d8%b1%da%a9-%d8%a7%d8%b3%d9%be%db%8c%d9%86%d8%b3%d8%b1-%d9%81%db%8c%d9%85%d9%84%db%8c-%d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%85-%d8%b3%db%92-%da%af%d9%88%d8%b1%d9%86%d9%85%d9%86%d9%b9-%da%86%db%8c%d9%81/
مارک اسپینسر: فیملی فارم سے گورنمنٹ چیف وہپ تک
Tumblr media Tumblr media
حکومت چیف وہپ مارک اسپینسر نے کہا ہے کہ انہوں نے نصرت غنی سے 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے تنزلی کے بعد ان سے بات کی تھی، لیکن انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے کہا کہ ان کے مذہب کو ایک مسئلہ کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔
محترمہ نصرت نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ ایک حکومتی وہپ نے انہیں بتایا کہ کابینہ میں ردوبدل کے دوران ان کی “مسلمانیت” کو ایک مسئلہ کے طور پر اٹھایا گیا تھا۔
مسٹر اسپینسر نے پوسٹ کیا۔ ٹویٹر اپنی شناخت کرنے کے لیے، لیکن الزام کے مادہ سے انکار کیا۔
مسٹر اسپینسر، 51، بچوں کے ساتھ شادی شدہ ہیں۔ میں پیدا ہوا تھا۔ ناٹنگھم شائر اور اپنے خاندانی فارم کے کاروبار میں شامل ہونے سے پہلے بیڈ فورڈ شائر کے زرعی کالج میں داخل ہوئے۔
وہ 1999 میں نیشنل فیڈریشن آف ینگ فارمرز کلب کے چیئرمین بنے اور 2001 میں سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کی جب وہ ہکنیل کی نوٹنگھم شائر کاؤنٹی کونسل سیٹ کے لیے الیکشن ہار گئے۔
دو سال بعد وہ گیڈلنگ ڈسٹرکٹ کونسل کے ریونس ہیڈ وارڈ کے لیے منتخب ہوئے۔
مسٹر اسپینسر 2010 میں پارلیمنٹ میں داخل ہوئے جب انہوں نے لیبر ایم پی پیڈی ٹِپنگ کے استعفیٰ کے بعد شیرووڈ سیٹ جیتی۔
انہیں 2015 میں یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ ملازمت کے متلاشیوں کو “وقت کی حفاظت کا نظم و ضبط سیکھنا چاہئے” جب ایک لیبر ایم پی نے کہا کہ ایک معذور ملازمت کے متلاشی نے ملاقات میں چار منٹ تاخیر سے ادائیگی میں کٹوتی کی تھی۔
بیک بینچر کے طور پر اس نے یو کے کے لیے یورپی یونین کا رکن رہنے کے لیے مہم چلائی لیکن چھٹی کے نتیجے کے بعد سے عوامی طور پر پارٹی قیادت کی پوزیشن کی حمایت کی ہے۔
2019 میں اس نے نوٹنگھم شائر لائیو کو بتایا: “میرے خیال میں ہمیں بورس کے پیچھے جانے کی ضرورت ہے اور واقعی ایک اچھا معاہدہ کرنے میں اس کی مدد کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اگر ہمیں یوروپی یونین سے کوئی معاہدہ نہیں ملتا ہے تو ہمیں برطانیہ کا ساتھ دینا پڑے گا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم ٹھیک ہے.”
انہیں جون 2017 میں مکمل حکومتی وہپ مقرر کیا گیا تھا اور جولائی 2019 میں انہیں چیف وہپ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے نوٹنگھم شائر لائیو کو بتایا: “یہ ایک بڑا کام ہے۔ لہذا یہ ایک دلچسپ موقع ہے جب قوم کو تھوڑا سا استحکام کی ضرورت ہے اور میں اسے فراہم کرنے کا منتظر ہوں۔”
“واضح طور پر وزیر اعظم ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ایک معاہدہ حاصل کرنے کے مقصد سے حال ہی میں برسلز میں کافی ہے، لیکن کوئی ڈیل نہیں ہے جس کی حکومت تیاری کر رہی ہے۔
مسٹر اسپینسر اس مہینے پہلے ہی چیف وہپ کے طور پر مسٹر جانسن کو ممکنہ قیادت کے چیلنجوں سے بچانے کی کوششوں میں بلیک میل کرنے کے الزامات میں الجھ چکے ہیں۔
Source link
0 notes
newestbalance · 6 years
Text
الیکڑانک ووٹنگ مشین
جدید دور میں پوری دنیامیں ہر کام کے لیے نت نئی اشیا کا استعمال ہو رہا ہے۔ چناں چہ بعض ممالک میں کچھ عر صے سے انتخابی عمل کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعما ل کی جارہی ہے۔اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کافی اہمیت حاصل ہے۔یہ مشین مقناطیسی ،بر قی مقناطیسی اور الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہے جوووٹ یا بیلٹ کی و ضا حت کرنے ،ووٹ ڈالنے ،شمار کرنے اور انتخابی نتائج کی رپورٹ تیار کرنےکے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔عام طو ر پر یہ مشینیں ای وی ایمز (EVMs) اور ای ووٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ای ووٹنگ، انتخابی عمل میں رائے دینے کی ایسی قسم ہے جو الیکٹرانی نظام کے ذریعے ا ستعما ل کی جاتی ہے ۔اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ ،ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں ۔اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون ،انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سب سے پہلے وسیع پیمانے پر 1964 ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم امریکا کی 7 ریاستوں میںاستعمال ہوچکا ہے۔ یہ نیا آپٹیکل اسکین ووٹنگ سسٹم کمپیوٹر کوبیلٹ پر ووٹر کا نشان شمار کرنے کی اجازت دیتا ہے اورجیسے ہی کوئی بھی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو برا ہ راست ریکارڈنگ الیکٹرانک مشین (Direct recording electronic machine) فوری طور پر اس کو ووٹ کی فہرست میں شامل کر لیتی ہے ۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد یہ سسٹم ووٹز کے ڈیٹاکو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سسٹم انفرادی طور پر ڈیٹا کی ترسیل ،بیلٹ پیپرزبھیجنے،مرکزی مقام پر سمتوں سے نمٹنے اور رپورٹنگ کے نتائج کے لیے ایک مقام پر ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ۔یہ سسٹم امریکا کے علاوہ انڈیا ، برازیل، ہالینڈ، وینزویلا  اور متحدہ ریاستوں میں بھی بڑے پیمانےمیں بھی استعمال ہوچکا ہے۔ان ممالک کے ساتھ ساتھ الیکٹرنک ووٹنگ سسٹم نے ایسٹونیا اور سوئٹرزلینڈ میں بھی مقبولیت حاصل کی، یہاں پر بھی حکومتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔ جب اس سسٹم کے اتنے زیادہ چر چے ہونے لگے تو کینیڈا میں اس کا استعمال حکومتی اور میونسپل دونوں انتخابات میں کیا گیا ۔ اس سسٹم میں ہائبرڈ سسٹم بھی موجود ہیں جن میں الیکٹر انک بیلٹ ڈیوائس، معاون ٹیکنالوجی (assistive technology) اور ٹچ اسکرین شامل ہے۔ یہ میشن ووٹرز کے تصدیق شدہ کاغذ کو آڈٹ کرنے کا کام بھی خود انجام دیتی ہے ۔بنگلہ دیش نے 2019 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے 2012 ء کے میونسپل انتخابات میں اس سسٹم کا استعمال کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے صاف و شفاف الیکشن ہوں گے ،کیوں کہ اس میں دھاندلی کرنے کے کوئی چانس نہیں ہے ۔
ایک مکمل ای وی ایم مشین دوکیبلس پر مشتمل ہوتی ہے ،ایک کنٹرول یونٹ اور دوسرا بیلٹنگ یونٹ، یہ یونٹ پولنگ کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بیلٹنگ یونٹ ایک چھوٹےسےباکس کی طر ح ہوتا ہے ۔اس میں ہر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشان کو ایک بڑے بیلٹ کاغذ کی طرح درج کردیا جاتا ہے اور ہر امید اوار کے نام کے آگے ایک لال رنگ کی ایل ای ڈی اور ایک نیلے رنگ کا بٹن فراہم کیا جاتا ہے ۔ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداوار کے نام کے خلا ف نیلے رنگ کا بٹن دبا کے اپنا ووٹ کا سٹ کرتا ہے ۔کنٹرول یونٹ کا کام امیدواروں کے خلاف ووٹوں کا سر اغ لگا نا ہوتا ہے ،بعدازاں انتخابی نتیجہ اخذکیا جا تا ہے ۔ آخری ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کنٹرول یونٹ میں پولنگ آفیسر کوئی بھی قر یبی بٹن دبائے گا ،جس کے بعد ای وی ایم مشین کسی بھی ووٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بیلٹنگ یونٹ کو کنٹرول یونٹ سے الگ کر کے علیحدہ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر بیلٹنگ یونٹ کے ذریعے ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے ۔گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نتیجہ پیش کرنے والے بٹن کو دبا کر کا نتیجہ پیش کیا جا تا ہے ۔ ویسے تو یہ سسٹم ہر طر ح سے محفوظ ہے ،مگر ہر سسٹم کے کوئی نہ کوئی منفی اور مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔
اس سسٹم میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلٹ پیپر کی طرح کوئی کاغذی نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سوفٹ ویئر میں کسی بھی قسم کی خرابی کرکے ووٹ چوری کیے جاسکتے ہیں ۔کوئی ایسا فرد جس کو ای وی ایم مشین تک رسائی حاصل ہوں ��ہ سسٹم میں موجود میموری کارڈ نکال کر نیا میموری کارڈ ڈال سکتا ہے ،جس کے بعدموجودہ تمام ووٹس ضائع ہوجائیں گے ۔اگر سسٹم میں کوئی بھی وائرس آجائے تو بھی ڈیٹا ضائع ہوجائے گا۔ ان ہی خرابیوں کی بناء پر ابھی تک آئرلینڈ ،اٹلی ،جرمنی ، نیدرلینڈ اورفن لینڈ نےاپنے حکومتی انتخابات میں ابھی تک اس سسٹم کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم یہ سسٹم بہت فوائد کا حامل بھی ہے،اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے ،ووٹوں کی گنتی بھی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہوجاتی ہے ،ووٹوںکی آڈیٹنگ بھی بآسانی ہو جاتی ہےاور نتائج بھی جلد از جلد پیش کر دیں جاتے ہیں۔اس سسٹم کی بدولت انسانی غلطی ہونے کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے۔
ان تمام خصوصیات کے با وجود یہ سسٹم اب تک پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔حالاں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹر انک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور بائیو میٹر ک کی تصدیق کے لیے مشینیں خریدنے کے لیےمعاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ ای سی پی کے سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال کریں۔اس معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کمیٹی ،متعلقہ وزارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت تما م شراکت داروں کو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے حوالے سے ووٹرز ،قانون ساز ،ذرائع ابلاغ اورسول سوسائٹی تنظیموں کو آگاہی فراہم کی جائے گی ۔ڈائر یکٹر جنرل ایڈمن ریٹائر ڈ بر یگیڈ عباس علی اور ایم ایس اسمارٹمیٹک انٹر نیشنل ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے متعلقہ اداروں کی جانب سے 150 ای وی ایم مشینیں کی خریداری کے معاہدے کی منظوری بھی دی تھی ۔ای سی پی سیکرٹری کے مطابق یہ ایک پائلٹ پر وجیکٹ تھا اور الیکشن کمیشن اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئےنتا ئج میں فرق دیکھنا چاہتی ہے ۔سب کو اُمید ہے کہ الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کے تحت انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی جاسکتی ۔
یادرہے کہ اس سسٹم کےشفاف اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود جرمنی کی سپریم کورٹ نے اس سسٹم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے سے انکارکر دیا تھا ۔علاوہ ازیں چھ یورپی ممالک نے بھی ووٹنگ کے لیے اس سسٹم کے بجائے روایتی طر یقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگر چہ بھارت نے اپنے تین انتخابات 2004 ،2009 اور 2014 میں الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا ہے ۔علاوہ ازیں یہ سسٹم 11 ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی ) نے گز شتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2018 ءکے جنرل انتخابات میں الیکٹرا نک ووٹنگ کی مشینیں (ای وی ایمز ) کا استعمال ہونا بہت مشکل ہے،کیوں کہ یہ کام بہت زیادہ وقت طلب ہے ۔ ای سی پی کے سیکر یٹری کے مطابق وقت کی کمی اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں اس کا استعمال ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا ہم اس دفعہ بھی اپنے روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے انتخابی کام کریں گے۔
The post الیکڑانک ووٹنگ مشین appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NE3h5r via Urdu News
0 notes
pakistantime · 5 years
Text
پاکستانی بس ڈرائیور کا بیٹا برطانوی وزیر اعظم ؟
برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید برطانوی وزارت عظمٰی کی دوڑ میں شریک ہونے والے نویں امیدوار بن گئے۔ ساجد جاوید نے بھی بریگزٹ پر ڈلیور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ساجد جاوید کے والد پاکستان سے منتقل ہو کر برطانیہ میں بسے تھے اور بس ڈرائیور کی حیثیت سے کام کیا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے الیکشن میں تھریسا مے کے کنزرویٹو ارکان کو جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے حوالے سے ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ نئے پارٹی لیڈر کو ووٹرز کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔ ایک ٹوئیٹ میں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ شب کے نتائج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جمہوریت میں نئے اور بھرپور اعتماد کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے ہمیں بریگزٹ کے معاملے میں ڈلیور کرنا ہی ہو گا۔ 
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہمیں کمیونٹیز کے زخم مندمل کرنے کے لیے خلیجیں پاٹنا ہوں گی اور ایک متحدہ بادشاہت کی حیثیت سے اپنی مشترکہ اقدار نہیں بھولنی چاہئیں۔ ساجد جاوید نے پارٹی کی قیادت کے متوقع امیدواروں کی اس بات میں شرکت گوارا نہیں کی کہ وہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نئی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر تک ڈیل کے ساتھ یا بغیر نکال لیں گے۔ کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کی دوڑ میں شریک (بشمول سابق وزیر خارجہ بورس جانسن) امیدواروں نے کہا ہے کہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کو کسی ڈیل کے بغیر بھی نکالنے کے لیے تیار ہیں گوکہ اس صورت میں ملک کو شدید نوعیت کی معاشی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ الیکشن میں نائجل فیریج کی اینٹی یوروپین بریگزٹ پارٹی کی مضبوط کارکردگی نے تھریسا مے کی پارٹی کو دائیں بازو کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔ نائجل فیریج کی کامیابی بریگزٹ ڈیل 28 مارچ کی ڈیڈ لائن کے مطابق مکمل کرنے میں ناکامی اور برسلز سے ڈیل کو پارلیمنٹ میں تین بار مسترد کیے جانے کے حوالے سے کنزرویٹو ووٹرز کی شدید ناراضی کی مظہر ہے۔ کنزر ویٹوز نے صرف 9 فیصد ووٹ حاصل کیے جو 1832 ء کے بعد ان کی سب سے بری کارکردگی ہے۔ نائجل فیریج کی پارٹی نے کم و بیش 32 فیصد ووٹ لیے اور اب برسلز سے مذاکرات کی میز پر نشست کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ 49 سالہ ساجد جاوید سوشل میڈیا کے ذریعے امیدواری کا اعلان کرنے والے پہلے امیدوار ہیں۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ اس دوڑ میں مضبوط امیدوار ثابت ہوں گے۔
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
risingpakistan · 6 years
Text
خان صاحب کہیں آپ بھی غدار نہ ہو جائیں
انتخابات میں دھاندلی اور الیکشن سے پہلے کس طرح تحریک انصاف کو جتوانے کے لیے پری پول ریکنگ کی گئی جیسے تنازعات میں پڑے بغیر میری خواہش ہے کہ عمران خان حکومت بنانے میں کامیاب ہوں اور اس قابل ہوں کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کریں، ملک میں سیاسی استحکام ہو، پاکستان ترقی کرے اور عوام کے مسائل حل ہوں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی تقریر میں عمران خان نے بہت اچھی باتیں کیں۔ اب عمران خان کے لیے باتوں کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا وقت آ چکا اور اب اُن کو ان کے عملی اقدامات کی بنا پر ہی جانچا جائے گا۔ اللہ کرے وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں۔
اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا اور دھاندلی کے الزامات 2013 کے مقابلے میں بہت سنگین ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور کچھ دوسری سیاسی جماعتیں اور رہنما تو انتخابات کو کالعدم قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو ہی ماننے سے انکاری ہیں اور وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں جو عمران خان گزشتہ پانچ سال کرتے رہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایسے انتہائی اقدام کے حق میں نہیں۔ ڈی چوک میں دھرنے، لاک ڈائون کی سیاست، شہروں اور شاہراہوں کو بلاک کرنا، پارلیمنٹ کا بائیکاٹ اور استعفیٰ، ، سول نافرمانی کی تحریک اور بہت کچھ عمران خان نے کیا لیکن میں کبھی خواہش نہیں کروں گا کہ موجودہ اپوزیشن یہی کچھ دُہرائے کیونکہ اس کا نقصان پاکستان کو ہو گا۔ عمران خان کو کام کرنے دیا جائے اور اُن کے ہر اچھے کاموں میں رُکاوٹ کی بجائے ساتھ دیا جائے۔ 
ابتدائی ہفتوں اور مہینوں میں پتا چل جائیگا کہ عمران خان کیا کرتے ہیں اور آیا اپنے وعدے پورے کرتے ہیں یا نہیں لیکن میری خان صاحب سے درخواست ہو گی کہ گزشتہ پانچ سال دوسروں پر جس سنگین نوعیت کے الزامات لگاتے رہے، اب حکومت میں آنے کے بعد اُن الزامات کی تحقیقا ت کرائیں اور دنیا پر ثابت کریں کہ وہ سچے تھے۔ اب تو خان صاحب کے ماتحت تمام ادارے، ایجنسیاں، پولیس، فوج سب ہوں گے۔ خان صاحب ثبوت کے ساتھ دنیا کو بتائیں کہ نواز شریف نے تین سو ارب روپیہ چوری کیا اور ملک سے باہر بجھوایا کیونکہ ایسا کوئی ثبوت نہ تو نیب اور نہ ہی کوئی اور عدالت میں پیش کر سکا۔ خان صاحب نواز شریف اور مودی کی یاری کے ثبوت بھی اب دنیا کے سامنے پیش کر دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ شریف خاندان کا کون کون سا بزنس بھارت میں موجود ہے۔
اگر کوئی غدار ہے تو اُسے ثابت کیا جائے اور قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔ محض الزاما ت تو بار بار ہر دوسرے سول رہنما پر لگائے گئے۔ مجھے ڈر ہے کہ اب اس الزام کا نشانہ کہیں خان صاحب نہ بن جائیں کیونکہ انتخابی کامیابی پر اپنی تقریر میں انہوں نے بھی بھارت سے پاکستان کے اچھے تعلقات کی خواہش کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اُن کے بھارت میں بہت سے لوگوں سے تعلقات ہیں۔ اپنی تقریر میں خان صاحب نے بھارتی جاسوس اور دہشتگرد کلبھوشن یادیو کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ بہتر ہو گا خان صاحب ایسی باتوں سے پرہیز کریں اور فوری کلبھوشن کی پھانسی دینے کا بھی اعلان کر دیں ورنہ خطرہ ہے کہ کہیں اب خان صاحب کو بھی مودی کا یار نہ بنا دیا جائے اور غداری کے طعنے اُن کو بھی سننے کو نہ ملیں۔ 
گزشتہ چار پانچ سال کے دوران خان صاحب نے جنگ گروپ اور میر شکیل الرحمن صاحب کا بھی بار بار نام لے لے کر غدار ی کے الزامات لگائے، یہ الزامات بار بار دہرائے کہ جنگ گروپ بھارت، امریکا اور یورپی ممالک سے پیسہ لے کر پاکستان کو بدنا م کر رہا ہے، جنگ گروپ نے نوازشریف حکومت میں اربوں روپے لے کر نواز حکومت کا دفاع کیا۔ اب تو حکومت اپنی ہو گی، ان الزامات کے ثبوت فوری سمیٹیں اور دنیا بھر کے سامنے جنگ گروپ کی غداری اور کرپشن کو ثابت کر کے قانونی ایکشن لیں۔ ہاں 2014 میں کنٹینر پر چڑھ کر خان صاحب نے کئی صحافیوں پر اُس وقت کے وزیر اعظم سے ملنے پر الزام لگایا کہ ہر ایک صحافی کو نواز شریف نے دو دو کروڑ دیے۔ 
یہ ثبوت بھی سامنے لائیں اور متعلقہ صحافیوں کو عدالت سے سزا بھی دلوائیں۔ لیکن خان صاحب اگر آپ ایسا نہ کر سکے اور یقینا ًنہیں کر پائیں گے تو کم از کم اُن تمام افراد سے جن پر آپ بے بنیاد الزامات لگاتے رہے اُن سے معافی مانگ لیں۔ اپنی تقریر میں آپ نے یہ ذکر تو کیا کہ دوسروں نے آ پ پر ذاتی حملے کیے لیکن آپ وہ سب بھلا رہے ہیں جو بہت اچھی بات ہے لیکن کتنا اچھا ہوتا اسی تقریر میں آپ اُن انگنت لوگوں سے معذرت کرتے جن پر اپنے اختلافات کی وجہ سے آپ نے طرح طرح کے الزامات لگائے اوربد زبانی تک کی۔ ایسے افراد کی فہرست بہت لمبی ہے بلکہ مجھے یقین ہے کہ خان صاحب کو بھی یاد نہیں ہو گا کہ اُنہوں کو کس کس پر بے بنیاد الزامات لگائے اور اُنہیں بُرا بھلا کہا۔ لیکن ایک بات خان صاحب ضرور یاد رکھیں کہ اس سب کے باوجود اگر اُن کے خلاف کوئی سازش کی گئی، اُن پر غداری کے فتوے لگائے اور لگوائے گئے تو ہم ایسے کسی کھیل کا حصہ نہ پہلے بنے تھے نہ اب بنیں گے۔
انصار عباسی  
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
الیکڑانک ووٹنگ مشین
جدید دور میں پوری دنیامیں ہر کام کے لیے نت نئی اشیا کا استعمال ہو رہا ہے۔ چناں چہ بعض ممالک میں کچھ عر صے سے انتخابی عمل کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعما ل کی جارہی ہے۔اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کافی اہمیت حاصل ہے۔یہ مشین مقناطیسی ،بر قی مقناطیسی اور الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہے جوووٹ یا بیلٹ کی و ضا حت کرنے ،ووٹ ڈالنے ،شمار کرنے اور انتخابی نتائج کی رپورٹ تیار کرنےکے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔عام طو ر پر یہ مشینیں ای وی ایمز (EVMs) اور ای ووٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ای ووٹنگ، انتخابی عمل میں رائے دینے کی ایسی قسم ہے جو الیکٹرانی نظام کے ذریعے ا ستعما ل کی جاتی ہے ۔اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ ،ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں ۔اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون ،انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سب سے پہلے وسیع پیمانے پر 1964 ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم امریکا کی 7 ریاستوں میںاستعمال ہوچکا ہے۔ یہ نیا آپٹیکل اسکین ووٹنگ سسٹم کمپیوٹر کوبیلٹ پر ووٹر کا نشان شمار کرنے کی اجازت دیتا ہے اورجیسے ہی کوئی بھی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو برا ہ راست ریکارڈنگ الیکٹرانک مشین (Direct recording electronic machine) فوری طور پر اس کو ووٹ کی فہرست میں شامل کر لیتی ہے ۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد یہ سسٹم ووٹز کے ڈیٹاکو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سسٹم انفرادی طور پر ڈیٹا کی ترسیل ،بیلٹ پیپرزبھیجنے،مرکزی مقام پر سمتوں سے نمٹنے اور رپورٹنگ کے نتائج کے لیے ایک مقام پر ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ۔یہ سسٹم امریکا کے علاوہ انڈیا ، برازیل، ہالینڈ، وینزویلا  اور متحدہ ریاستوں میں بھی بڑے پیمانےمیں بھی استعمال ہوچکا ہے۔ان ممالک کے ساتھ ساتھ الیکٹرنک ووٹنگ سسٹم نے ایسٹونیا اور سوئٹرزلینڈ میں بھی مقبولیت حاصل کی، یہاں پر بھی حکومتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔ جب اس سسٹم کے اتنے زیادہ چر چے ہونے لگے تو کینیڈا میں اس کا استعمال حکومتی اور میونسپل دونوں انتخابات میں کیا گیا ۔ اس سسٹم میں ہائبرڈ سسٹم بھی موجود ہیں جن میں الیکٹر انک بیلٹ ڈیوائس، معاون ٹیکنالوجی (assistive technology) اور ٹچ اسکرین شامل ہے۔ یہ میشن ووٹرز کے تصدیق شدہ کاغذ کو آڈٹ کرنے کا کام بھی خود انجام دیتی ہے ۔بنگلہ دیش نے 2019 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے 2012 ء کے میونسپل انتخابات میں اس سسٹم کا استعمال کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے صاف و شفاف الیکشن ہوں گے ،کیوں کہ اس میں دھاندلی کرنے کے کوئی چانس نہیں ہے ۔
ایک مکمل ای وی ایم مشین دوکیبلس پر مشتمل ہوتی ہے ،ایک کنٹرول یونٹ اور دوسرا بیلٹنگ یونٹ، یہ یونٹ پولنگ کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بیلٹنگ یونٹ ایک چھوٹےسےباکس کی طر ح ہوتا ہے ۔اس میں ہر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشان کو ایک بڑے بیلٹ کاغذ کی طرح درج کردیا جاتا ہے اور ہر امید اوار کے نام کے آگے ایک لال رنگ کی ایل ای ڈ�� اور ایک نیلے رنگ کا بٹن فراہم کیا جاتا ہے ۔ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداوار کے نام کے خلا ف نیلے رنگ کا بٹن دبا کے اپنا ووٹ کا سٹ کرتا ہے ۔کنٹرول یونٹ کا کام امیدواروں کے خلاف ووٹوں کا سر اغ لگا نا ہوتا ہے ،بعدازاں انتخابی نتیجہ اخذکیا جا تا ہے ۔ آخری ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کنٹرول یونٹ میں پولنگ آفیسر کوئی بھی قر یبی بٹن دبائے گا ،جس کے بعد ای وی ایم مشین کسی بھی ووٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بیلٹنگ یونٹ کو کنٹرول یونٹ سے الگ کر کے علیحدہ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر بیلٹنگ یونٹ کے ذریعے ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے ۔گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نتیجہ پیش کرنے والے بٹن کو دبا کر کا نتیجہ پیش کیا جا تا ہے ۔ ویسے تو یہ سسٹم ہر طر ح سے محفوظ ہے ،مگر ہر سسٹم کے کوئی نہ کوئی منفی اور مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔
اس سسٹم میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلٹ پیپر کی طرح کوئی کاغذی نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سوفٹ ویئر میں کسی بھی قسم کی خرابی کرکے ووٹ چوری کیے جاسکتے ہیں ۔کوئی ایسا فرد جس کو ای وی ایم مشین تک رسائی حاصل ہوں وہ سسٹم میں موجود میموری کارڈ نکال کر نیا میموری کارڈ ڈال سکتا ہے ،جس کے بعدموجودہ تمام ووٹس ضائع ہوجائیں گے ۔اگر سسٹم میں کوئی بھی وائرس آجائے تو بھی ڈیٹا ضائع ہوجائے گا۔ ان ہی خرابیوں کی بناء پر ابھی تک آئرلینڈ ،اٹلی ،جرمنی ، نیدرلینڈ اورفن لینڈ نےاپنے حکومتی انتخابات میں ابھی تک اس سسٹم کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم یہ سسٹم بہت فوائد کا حامل بھی ہے،اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے ،ووٹوں کی گنتی بھی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہوجاتی ہے ،ووٹوںکی آڈیٹنگ بھی بآسانی ہو جاتی ہےاور نتائج بھی جلد از جلد پیش کر دیں جاتے ہیں۔اس سسٹم کی بدولت انسانی غلطی ہونے کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے۔
ان تمام خصوصیات کے با وجود یہ سسٹم اب تک پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔حالاں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹر انک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور بائیو میٹر ک کی تصدیق کے لیے مشینیں خریدنے کے لیےمعاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ ای سی پی کے سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال کریں۔اس معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کمیٹی ،متعلقہ وزارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت تما م شراکت داروں کو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے حوالے سے ووٹرز ،قانون ساز ،ذرائع ابلاغ اورسول سوسائٹی تنظیموں کو آگاہی فراہم کی جائے گی ۔ڈائر یکٹر جنرل ایڈمن ریٹائر ڈ بر یگیڈ عباس علی اور ایم ایس اسمارٹمیٹک انٹر نیشنل ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے متعلقہ اداروں کی جانب سے 150 ای وی ایم مشینیں کی خریداری کے معاہدے کی منظوری بھی دی تھی ۔ای سی پی سیکرٹری کے مطابق یہ ایک پائلٹ پر وجیکٹ تھا اور الیکشن کمیشن اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئےنتا ئج میں فرق دیکھنا چاہتی ہے ۔سب کو اُمید ہے کہ الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کے تحت انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی جاسکتی ۔
یادرہے کہ اس سسٹم کےشفاف اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود جرمنی کی سپریم کورٹ نے اس سسٹم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے سے انکارکر دیا تھا ۔علاوہ ازیں چھ یورپی ممالک نے بھی ووٹنگ کے لیے اس سسٹم کے بجائے روایتی طر یقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگر چہ بھارت نے اپنے تین انتخابات 2004 ،2009 اور 2014 میں الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا ہے ۔علاوہ ازیں یہ سسٹم 11 ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی ) نے گز شتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2018 ءکے جنرل انتخابات میں الیکٹرا نک ووٹنگ کی مشینیں (ای وی ایمز ) کا استعمال ہونا بہت مشکل ہے،کیوں کہ یہ کام بہت زیادہ وقت طلب ہے ۔ ای سی پی کے سیکر یٹری کے مطابق وقت کی کمی اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں اس کا استعمال ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا ہم اس دفعہ بھی اپنے روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے انتخابی کام کریں گے۔
The post الیکڑانک ووٹنگ مشین appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NE3h5r via Urdu News
0 notes
summermkelley · 6 years
Text
الیکڑانک ووٹنگ مشین
جدید دور میں پوری دنیامیں ہر کام کے لیے نت نئی اشیا کا استعمال ہو رہا ہے۔ چناں چہ بعض ممالک میں کچھ عر صے سے انتخابی عمل کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعما ل کی جارہی ہے۔اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کافی اہمیت حاصل ہے۔یہ مشین مقناطیسی ،بر قی مقناطیسی اور الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہے جوووٹ یا بیلٹ کی و ضا حت کرنے ،ووٹ ڈالنے ،شمار کرنے اور انتخابی نتائج کی رپورٹ تیار کرنےکے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔عام طو ر پر یہ مشینیں ای وی ایمز (EVMs) اور ای ووٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ای ووٹنگ، انتخابی عمل میں رائے دینے کی ایسی قسم ہے جو الیکٹرانی نظام کے ذریعے ا ستعما ل کی جاتی ہے ۔اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ ،ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں ۔اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون ،انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سب سے پہلے وسیع پیمانے پر 1964 ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم امریکا کی 7 ریاستوں میںاستعمال ہوچکا ہے۔ یہ نیا آپٹیکل اسکین ووٹنگ سسٹم کمپیوٹر کوبیلٹ پر ووٹر کا نشان شمار کرنے کی اجازت دیتا ہے اورجیسے ہی کوئی بھی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو برا ہ راست ریکارڈنگ الیکٹرانک مشین (Direct recording electronic machine) فوری طور پر اس کو ووٹ کی فہرست میں شامل کر لیتی ہے ۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد یہ سسٹم ووٹز کے ڈیٹاکو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سسٹم انفرادی طور پر ڈیٹا کی ترسیل ،بیلٹ پیپرزبھیجنے،مرکزی مقام پر سمتوں سے نمٹنے اور رپورٹنگ کے نتائج کے لیے ایک مقام پر ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ۔یہ سسٹم امریکا کے علاوہ انڈیا ، برازیل، ہالینڈ، وینزویلا  اور متحدہ ریاستوں میں بھی بڑے پیمانےمیں بھی استعمال ہوچکا ہے۔ان ممالک کے ساتھ ساتھ الیکٹرنک ووٹنگ سسٹم نے ایسٹونیا اور سوئٹرزلینڈ میں بھی مقبولیت حاصل کی، یہاں پر بھی حکومتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔ جب اس سسٹم کے اتنے زیادہ چر چے ہونے لگے تو کینیڈا میں اس کا استعمال حکومتی اور میونسپل دونوں انتخابات میں کیا گیا ۔ اس سسٹم میں ہائبرڈ سسٹم بھی موجود ہیں جن میں الیکٹر انک بیلٹ ڈیوائس، معاون ٹیکنالوجی (assistive technology) اور ٹچ اسکرین شامل ہے۔ یہ میشن ووٹرز کے تصدیق شدہ کاغذ کو آڈٹ کرنے کا کام بھی خود انجام دیتی ہے ۔بنگلہ دیش نے 2019 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے 2012 ء کے میونسپل انتخابات میں اس سسٹم کا استعمال کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے صاف و شفاف الیکشن ہوں گے ،کیوں کہ اس میں دھاندلی کرنے کے کوئی چانس نہیں ہے ۔
ایک مکمل ای وی ایم مشین دوکیبلس پر مشتمل ہوتی ہے ،ایک کنٹرول یونٹ اور دوسرا بیلٹنگ یونٹ، یہ یونٹ پولنگ کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بیلٹنگ یونٹ ایک چھوٹےسےباکس کی طر ح ہوتا ہے ۔اس میں ہر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشان کو ایک بڑے بیلٹ کاغذ کی طرح درج کردیا جاتا ہے اور ہر امید اوار کے نام کے آگے ایک لال رنگ کی ایل ای ڈی اور ایک نیلے رنگ کا بٹن فراہم کیا جاتا ہے ۔ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداوار کے نام کے خلا ف نیلے رنگ کا بٹن دبا کے اپنا ووٹ کا سٹ کرتا ہے ۔کنٹرول یونٹ کا کام امیدواروں کے خلاف ووٹوں کا سر اغ لگا نا ہوتا ہے ،بعدازاں انتخابی نتیجہ اخذکیا جا تا ہے ۔ آخری ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کنٹرول یونٹ میں پولنگ آفیسر کوئی بھی قر یبی بٹن دبائے گا ،جس کے بعد ای وی ایم مشین کسی بھی ووٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بیلٹنگ یونٹ کو کنٹرول یونٹ سے الگ کر کے علیحدہ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر بیلٹنگ یونٹ کے ذریعے ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے ۔گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نتیجہ پیش کرنے والے بٹن کو دبا کر کا نتیجہ پیش کیا جا تا ہے ۔ ویسے تو یہ سسٹم ہر طر ح سے محفوظ ہے ،مگر ہر سسٹم کے کوئی نہ کوئی منفی اور مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔
اس سسٹم میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلٹ پیپر کی طرح کوئی کاغذی نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سوفٹ ویئر میں کسی بھی قسم کی خرابی کرکے ووٹ چوری کیے جاسکتے ہیں ۔کوئی ایسا فرد جس کو ای وی ایم مشین تک رسائی حاصل ہوں وہ سسٹم میں موجود میموری کارڈ نکال کر نیا میموری کارڈ ڈال سکتا ہے ،جس کے بعدموجودہ تمام ووٹس ضائع ہوجائیں گے ۔اگر سسٹم میں کوئی ��ھی وائرس آجائے تو بھی ڈیٹا ضائع ہوجائے گا۔ ان ہی خرابیوں کی بناء پر ابھی تک آئرلینڈ ،اٹلی ،جرمنی ، نیدرلینڈ اورفن لینڈ نےاپنے حکومتی انتخابات میں ابھی تک اس سسٹم کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم یہ سسٹم بہت فوائد کا حامل بھی ہے،اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے ،ووٹوں کی گنتی بھی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہوجاتی ہے ،ووٹوںکی آڈیٹنگ بھی بآسانی ہو جاتی ہےاور نتائج بھی جلد از جلد پیش کر دیں جاتے ہیں۔اس سسٹم کی بدولت انسانی غلطی ہونے کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے۔
ان تمام خصوصیات کے با وجود یہ سسٹم اب تک پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔حالاں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹر انک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور بائیو میٹر ک کی تصدیق کے لیے مشینیں خریدنے کے لیےمعاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ ای سی پی کے سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال کریں۔اس معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کمیٹی ،متعلقہ وزارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت تما م شراکت داروں کو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے حوالے سے ووٹرز ،قانون ساز ،ذرائع ابلاغ اورسول سوسائٹی تنظیموں کو آگاہی فراہم کی جائے گی ۔ڈائر یکٹر جنرل ایڈمن ریٹائر ڈ بر یگیڈ عباس علی اور ایم ایس اسمارٹمیٹک انٹر نیشنل ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے متعلقہ اداروں کی جانب سے 150 ای وی ایم مشینیں کی خریداری کے معاہدے کی منظوری بھی دی تھی ۔ای سی پی سیکرٹری کے مطابق یہ ایک پائلٹ پر وجیکٹ تھا اور الیکشن کمیشن اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئےنتا ئج میں فرق دیکھنا چاہتی ہے ۔سب کو اُمید ہے کہ الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کے تحت انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی جاسکتی ۔
یادرہے کہ اس سسٹم کےشفاف اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود جرمنی کی سپریم کورٹ نے اس سسٹم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے سے انکارکر دیا تھا ۔علاوہ ازیں چھ یورپی ممالک نے بھی ووٹنگ کے لیے اس سسٹم کے بجائے روایتی طر یقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگر چہ بھارت نے اپنے تین انتخابات 2004 ،2009 اور 2014 میں الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا ہے ۔علاوہ ازیں یہ سسٹم 11 ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی ) نے گز شتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2018 ءکے جنرل انتخابات میں الیکٹرا نک ووٹنگ کی مشینیں (ای وی ایمز ) کا استعمال ہونا بہت مشکل ہے،کیوں کہ یہ کام بہت زیادہ وقت طلب ہے ۔ ای سی پی کے سیکر یٹری کے مطابق وقت کی کمی اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں اس کا استعمال ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا ہم اس دفعہ بھی اپنے روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے انتخابی کام کریں گے۔
The post الیکڑانک ووٹنگ مشین appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NE3h5r via Roznama Urdu
0 notes
dragnews · 6 years
Text
الیکڑانک ووٹنگ مشین
جدید دور میں پوری دنیامیں ہر کام کے لیے نت نئی اشیا کا استعمال ہو رہا ہے۔ چناں چہ بعض ممالک میں کچھ عر صے سے انتخابی عمل کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعما ل کی جارہی ہے۔اس ضمن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو کافی اہمیت حاصل ہے۔یہ مشین مقناطیسی ،بر قی مقناطیسی اور الیکٹرانک آلات کا مجموعہ ہے جوووٹ یا بیلٹ کی و ضا حت کرنے ،ووٹ ڈالنے ،شمار کرنے اور انتخابی نتائج کی رپورٹ تیار کرنےکے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔عام طو ر پر یہ مشینیں ای وی ایمز (EVMs) اور ای ووٹنگ کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ای ووٹنگ، انتخابی عمل میں رائے دینے کی ایسی قسم ہے جو الیکٹرانی نظام کے ذریعے ا ستعما ل کی جاتی ہے ۔اس نظام میں آپٹیکل اسکیننگ ،ووٹ سسٹم اورپنج کارڈ شامل ہیں ۔اس نظام کی مدد سے آپ گھر بیٹھے ٹیلی فون ،انٹر نیٹ اور پرائیوٹ کمپیوٹرکے ذریعے بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سب سے پہلے وسیع پیمانے پر 1964 ء میں امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ سسٹم امریکا کی 7 ریاستوں میںاستعمال ہوچکا ہے۔ یہ نیا آپٹیکل اسکین ووٹنگ سسٹم کمپیوٹر کوبیلٹ پر ووٹر کا نشان شمار کرنے کی اجازت دیتا ہے اورجیسے ہی کوئی بھی ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو برا ہ راست ریکارڈنگ الیکٹرانک مشین (Direct recording electronic machine) فوری طور پر اس کو ووٹ کی فہرست میں شامل کر لیتی ہے ۔ الیکشن ختم ہونے کے بعد یہ سسٹم ووٹز کے ڈیٹاکو کمپیوٹر میں محفوظ کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سسٹم انفرادی طور پر ڈیٹا کی ترسیل ،بیلٹ پیپرزبھیجنے،مرکزی مقام پر سمتوں سے نمٹنے اور رپورٹنگ کے نتائج کے لیے ایک مقام پر ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ۔یہ سسٹم امریکا کے علاوہ انڈیا ، برازیل، ہالینڈ، وینزویلا  اور متحدہ ریاستوں میں بھی بڑے پیمانےمیں بھی استعمال ہوچکا ہے۔ان ممالک کے ساتھ ساتھ الیکٹرنک ووٹنگ سسٹم نے ایسٹونیا اور سوئٹرزلینڈ میں بھی مقبولیت حاصل کی، یہاں پر بھی حکومتی انتخابات اور ریفرنڈمز کے لیے اس سسٹم کا استعمال کیا گیا ۔ جب اس سسٹم کے اتنے زیادہ چر چے ہونے لگے تو کینیڈا میں اس کا استعمال حکومتی اور میونسپل دونوں انتخابات میں کیا گیا ۔ اس سسٹم میں ہائبرڈ سسٹم بھی موجود ہیں جن میں الیکٹر انک بیلٹ ڈیوائس، معاون ٹیکنالوجی (assistive technology) اور ٹچ اسکرین شامل ہے۔ یہ میشن ووٹرز کے تصدیق شدہ کاغذ کو آڈٹ کرنے کا کام بھی خود انجام دیتی ہے ۔بنگلہ دیش نے 2019 ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم متعارف کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ جب کہ وہ اپنے 2012 ء کے میونسپل انتخابات میں اس سسٹم کا استعمال کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی کچھ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے ذریعے صاف و شفاف الیکشن ہوں گے ،کیوں کہ اس میں دھاندلی کرنے کے کوئی چانس نہیں ہے ۔
ایک مکمل ای وی ایم مشین دوکیبلس پر مشتمل ہوتی ہے ،ایک کنٹرول یونٹ اور دوسرا بیلٹنگ یونٹ، یہ یونٹ پولنگ کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے ۔یہ بیلٹنگ یونٹ ایک چھوٹےسےباکس کی طر ح ہوتا ہے ۔اس میں ہر امیدواروں اور ان کے انتخابی نشان کو ایک بڑے بیلٹ کاغذ کی طرح درج کردیا جاتا ہے اور ہر امید اوار کے نام کے آگے ایک لال رنگ کی ایل ای ڈی اور ایک نیلے رنگ کا بٹن فراہم کیا جاتا ہے ۔ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداوار کے نام کے خلا ف نیلے رنگ کا بٹن دبا کے اپنا ووٹ کا سٹ کرتا ہے ۔کنٹرول یونٹ کا کام امیدواروں کے خلاف ووٹوں کا سر اغ لگا نا ہوتا ہے ،بعدازاں انتخابی نتیجہ اخذکیا جا تا ہے ۔ آخری ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد کنٹرول یونٹ میں پولنگ آفیسر کوئی بھی قر یبی بٹن دبائے گا ،جس کے بعد ای وی ایم مشین کسی بھی ووٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ووٹنگ کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد بیلٹنگ یونٹ کو کنٹرول یونٹ سے الگ کر کے علیحدہ رکھ دیا جاتا ہے اور پھر بیلٹنگ یونٹ کے ذریعے ووٹس کی گنتی کی جاتی ہے ۔گنتی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد نتیجہ پیش کرنے والے بٹن کو دبا کر کا نتیجہ پیش کیا جا تا ہے ۔ ویسے تو یہ سسٹم ہر طر ح سے محفوظ ہے ،مگر ہر سسٹم کے کوئی نہ کوئی منفی اور مثبت پہلو ضرور ہوتے ہیں ۔
اس سسٹم میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بیلٹ پیپر کی طرح کوئی کاغذی نشان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے سوفٹ ویئر میں کسی بھی قسم کی خرابی کرکے ووٹ چوری کیے جاسکتے ہیں ۔کوئی ایسا فرد جس کو ای وی ایم مشین تک رسائی حاصل ہوں وہ سسٹم میں موجود میموری کارڈ نکال کر نیا میموری کارڈ ڈال سکتا ہے ،جس کے بعدموجودہ تمام ووٹس ضائع ہوجائیں گے ۔اگر سسٹم میں کوئی بھی وائرس آجائے تو بھی ڈیٹا ضائع ہوجائے گا۔ ان ہی خرابیوں کی بناء پر ابھی تک آئرلینڈ ،اٹلی ،جرمنی ، نیدرلینڈ اورفن لینڈ نےاپنے حکومتی انتخابات میں ابھی تک اس سسٹم کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم یہ سسٹم بہت فوائد کا حامل بھی ہے،اس کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس میں بہت ہی کم وقت لگتا ہے ،ووٹوں کی گنتی بھی گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہوجاتی ہے ،ووٹوںکی آڈیٹنگ بھی بآسانی ہو جاتی ہےاور نتائج بھی جلد از جلد پیش کر دیں جاتے ہیں۔اس سسٹم کی بدولت انسانی غلطی ہونے کی گنجائش بہت کم ہو تی ہے۔
ان تمام خصوصیات کے با وجود یہ سسٹم اب تک پاکستان میں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔حالاں کہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹر انک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) اور بائیو میٹر ک کی تصدیق کے لیے مشینیں خریدنے کے لیےمعاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ ای سی پی کے سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات میں ای وی ایم مشین کا استعمال کریں۔اس معاہدے کے دوران پارلیمنٹ کمیٹی ،متعلقہ وزارتوں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت تما م شراکت داروں کو بورڈ میں شامل کیا گیا تھا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سسٹم کے حوالے سے ووٹرز ،قانون ساز ،ذرائع ابلاغ اورسول سوسائٹی تنظیموں کو آگاہی فراہم کی جائے گی ۔ڈائر یکٹر جنرل ایڈمن ریٹائر ڈ بر یگیڈ عباس علی اور ایم ایس اسمارٹمیٹک انٹر نیشنل ہولڈنگ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نے متعلقہ اداروں کی جانب سے 150 ای وی ایم مشینیں کی خریداری کے معاہدے کی منظوری بھی دی تھی ۔ای سی پی سیکرٹری کے مطابق یہ ایک پائلٹ پر وجیکٹ تھا اور الیکشن کمیشن اس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئےنتا ئج میں فرق دیکھنا چاہتی ہے ۔سب کو اُمید ہے کہ الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کے تحت انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں کی جاسکتی ۔
یادرہے کہ اس سسٹم کےشفاف اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود جرمنی کی سپریم کورٹ نے اس سسٹم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انتخابات میں استعمال کرنے سے انکارکر دیا تھا ۔علاوہ ازیں چھ یورپی ممالک نے بھی ووٹنگ کے لیے اس سسٹم کے بجائے روایتی طر یقوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگر چہ بھارت نے اپنے تین انتخابات 2004 ،2009 اور 2014 میں الیکٹر انک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا ہے ۔علاوہ ازیں یہ سسٹم 11 ممالک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی ) نے گز شتہ سال ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ 2018 ءکے جنرل انتخابات میں الیکٹرا نک ووٹنگ کی مشینیں (ای وی ایمز ) کا استعمال ہونا بہت مشکل ہے،کیوں کہ یہ کام بہت زیادہ وقت طلب ہے ۔ ای سی پی کے سیکر یٹری کے مطابق وقت کی کمی اور تکنیکی مسائل کی وجہ سے 2018 ء کے انتخابات میں اس کا استعمال ہونا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے ۔لہٰذا ہم اس دفعہ بھی اپنے روایتی طریقے پر عمل کرتے ہوئے انتخابی کام کریں گے۔
The post الیکڑانک ووٹنگ مشین appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NE3h5r via Today Pakistan
0 notes
khouj-blog1 · 5 years
Text
گورنر پنجاب نے بھارتی جنگی جنون کو کیا کہہ دیا کہ
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/112679/
گورنر پنجاب نے بھارتی جنگی جنون کو کیا کہہ دیا کہ
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ پاکستان نے پائلٹ رہا کر کے امن قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔ پاکستان جارحیت نہیں چاہتا لیکن جواب دینا جانتے ہیں۔
کھوج نیوز ذرائع کے مطابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا کہ 20 کروڑ عوام پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم جارحیت نہیں کر رہے لیکن ہم اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کشیدگی کم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
یہ بھی ضرور پڑھیں: کون سے پاکستانی شہربھارت کے نشانے پر، ہوشربا رپورٹ
ان کا کہنا تھا کہ برطانوی اور یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کو پاکستانی کوششوں سے متعلق خط لکھا ہے۔ بھارتی پائلٹ رہا کر کے پاکستان نے امن قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔ چودھری محمد سرور کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس پلوامہ واقعے کا کوئی ثبوت نہیں، کشمیر کے مظالم چھپانے کے لئے بھارت پلوامہ واقعے کی آڑ لے رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگی جنون کا تعلق پلوامہ سے نہیں بلکہ بھارتی الیکشن سے ہے۔ بھارتی عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ نریندر مودی کی باتوں میں نہ آئیں۔ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ بھارت چاہتا تھا کہ پاکستان تنہائی کا شکار ہو لیکن بھارت خود بین الاقوامی سطح پر اکیلا رہ گیا ہے۔
0 notes