Tumgik
#میکسیکو الیکشن
urduchronicle · 9 months
Text
معیشت کے لیے بیلٹ باکس بم شیل
دنیا کی اقتصادی پیداوار کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ بنانے والے ممالک اور اس کی نصف سے زیادہ آبادی میں اس سال انتخابات ہو رہے ہیں۔ مالیاتی خدمات کے گروپ مارننگ اسٹار کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں کو “بیلٹ باکس بم شیل” کا سامنا ہے، اس قسم کے واقعات کے خطرے کا پیشگی تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ بڑی تبدیلیاں سیل آف کا سبب بن سکتی ہیں”۔ یہاں ان انتخابات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو مارکیٹوں کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، آنے والے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
ٹرمپ کی دیوار کو قدرت نے اکھاڑ پھینکا! ۔ ویڈیو دوہزار سولہ کے صدارتی الیکشن میں ٹرمپ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار تعمیر کرنے کے وعدے کے ساتھ میدان میں اترے تھے تاکہ بقول انکے امریکہ میں مہاجرین کی رفت و آمد کا سلسلہ روکا جا سکے اور انہوں نے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا بھی شروع کر دیا۔ مگر حال ہی میں ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک طوفانی ہوا نے مذکورہ دیوار کے ایک حصے کو اکھاڑ کر زمیں بوس کر دیا۔ خبرکا ذریعہ : سحر اردو
0 notes
emergingpakistan · 6 years
Text
پینٹاگون نے میکسیکو کی سرحدی دیوار کے لیے ایک ارب ڈالر کی منظوری دے دی
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے فوجی انجینئرز کو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے ایک ارب امریکی ڈالر کی منظوری دے دی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد یہ پہلے فنڈز ہیں جو کہ کانگرس کو نظر انداز کر کے ان کی الیکشن مہم کے وعدے کے مطابق اس دیوار پر لگائے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے اپنی جنوبی سرحد پر معاملے کو ایک ’بحران‘ قرار دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مجرموں کو امریکہ میں آنے سے روکنے کے لیے ایک دیوار کا بننا بہت ضروری ہے۔ ان کہ مخالفین کا کہنا ہے کہ انھوں نے بارڈر پر ہنگامی حالات خود ایجاد کیے ہیں۔
پینٹاگون کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری دفاع پیٹرک شیناہین نے ’ہو ایس آرمی کور آف انجینئرز کے کمانڈر کو اختیار دیا ہے کہ وہ ایک ارب امریکی ڈالر تک کے فنڈز اس مقصد کے لیے ڈپارمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی اور کسٹمز اینڈ بارڈر پٹرول کو متعین کیے جائیں۔ اس بیان میں ایک وفاقی قانون کا ذکر کیا گیا ہے جس کہ تحت ’ڈپارٹمنٹ آف ڈیفینس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ سڑکیں یا جنگلے بنائے اور روشنی کے انتظامات کرے تاکہ امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں بین الاقوامی سرحدوں پر منشیات کی آمد و رفت کو روکا جا سکے۔‘
امریکی میڈیا کے مطابق پیٹنا گون اور قانون سازوں کے درمیان ایسے فنڈز کے اختیارات کا معاملہ قانونی لڑائی کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ ڈیمو کریٹ سینیٹرز نے بھی شکایت کی ہے کہ پینٹاگون نے فنڈز جاری کرنے سے قبل متعلقہ کمیٹیوں سے اجازت نہیں لی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 15 فروری کو ایمرجنسی نافذ کی تھی جب کانگرس نے ان کی جانب سے سے سرحدی دیوار کے لیے 5.7 ارب ڈالر مہیا کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس ایمرجنسی کے باعث اب کانگرس کو بائی پاس کیا جا سکتا ہے اور عسکری فنڈز کے ساتھ دیوار تعمیر کی جا سکتی ہے۔ ڈیمو کریٹس نے اس ایمرجنسی کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
امریکی کانگریس میں دو نومنتخب مسلم اراکین کا قرآن پاک پر حلف  واشنگٹن: امریکا کے وسط مدتی الیکشن میں کامیاب ہونے والے 535 ممبران نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا جن میں سے دو مسلم خواتین نے قرآن پاک پر حلف اُٹھایا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق کانگریس میں 100 سینٹ اراکین اور 435 ایوان نمائندگان کے اراکین نے آج اپنے عہدے کا حلف اُٹھالیا۔ حلف اُٹھانے والوں میں 127 خواتین شامل ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کی 29 سالہ سے الیگزینڈرا سب سے کم عمر خاتون رکن بن گئیں۔ امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی بار اتنی خواتین نے ایک ساتھ حلف اُٹھایا ہے جب کہ پہلی ہی بار دو پناہ گزین مسلم خواتین 37 سالہ الہان عمر اور 42 سالہ راشدہ طالب نے قران پاک پر حلف اٹھایا۔ الہان عمر نے حجاب پہنا ہوا تھا اور ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی جب کہ راشدہ طالب نے فلسطینی لباس پہن کر شرکت کی۔ ڈیمو کریٹ پارٹی کی رکن “نینسی پیلوسی” نے ایوان نمائندگان کی اسپیکر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ نینسی پیلوسی کو 220 ووٹ ملے۔ ایوان نمائندگان نے 6 بلوں کی منظوری دی تاہم میکسیکو سرحد پر دیوار کے لیے فنڈز کو منظور نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس 6 نومبر کو ہونے والے وسط مدتی الیکشن میں ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹس کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی جب کہ صدر ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن کو اپ سیٹ کا سامنا رہا تھا۔ The post امریکی کانگریس میں دو نومنتخب مسلم اراکین کا قرآن پاک پر حلف appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
jehanbeen-blog · 5 years
Text
وعدے پورے نہ کرنے کی سزا: عوام نے میئر کو زنانہ لباس پہنا دیا
وعدے پورے نہ کرنے کی سزا: عوام نے میئر کو زنانہ لباس پہنا دیا
یہ تصویریں اور ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر کے لوگوں نے اس عمل کو سراہا ہے۔ (فوٹو: اوڈیٹی سینٹرل)
میکسیکو: الیکشن جیتنے کے لیے طرح طرح کے وعدے کرنا، اور الیکشن جیت جانے کے بعد وہ وعدے پورے نہ کرنا سیاستدانوں کی پرانی عادت ہے۔ سیاستدانوں کی اس وعدہ خلافی پر عوام شور تو بہت مچاتے ہیں اور احتجاج بھی کرتے ہیں، لیکن انہیں سزا نہیں دیتے۔ لیکن میکسیکو کے ایک قصبے میں عوام نے اپنے وعدہ خلاف…
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 6 years
Text
ایک ارب ڈالر کی دیوار
New Post has been published on https://khouj.com/international/118740/
ایک ارب ڈالر کی دیوار
پینٹاگون نے میکسیکو کی سرحد پردیوار بنانے کے لیے ایک ارب ڈالرز کی منظوری دیدی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے فوجی انجینئرز کو امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے ایک ارب ڈالرز کی منظوری دے دی ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد یہ پہلے فنڈز ہیں جو کانگرس کو نظر انداز کرکے ان کی الیکشن مہم کے وعدے کے مطابق اس دیوار کی تعمیر کے لیے خرچ ہوں گے جب کہ ڈیموکریٹ پارٹی نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
پینٹاگون کی جانب سے جاری ان فنڈز سے تقریباً اکانوے کلومیٹر کی دیوار بنائی جائے گی، پینٹاگون کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وفاقی قانون کے مطابق محکمہ دفاع کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سڑکیں یا جنگلے بنائے اور روشنی کے انتظامات کرے تاکہ امریکا کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں بین الاقوامی سرحدوں پر منشیات کی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
کینیڈا وبائی انتخابات میں ووٹ ڈالتا ہے جو ٹروڈو کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔
کینیڈا وبائی انتخابات میں ووٹ ڈالتا ہے جو ٹروڈو کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔
وزیر اعظم شرط لگا رہے ہیں کہ کینیڈین اس کو انعام دیں گے کہ وہ زیادہ تر ممالک کی نسبت کورونا وائرس کے بحران کو بہتر انداز میں چلا سکے۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے قبل از وقت انتخابات میں جوا کھیلا ، لیکن اب 20 ستمبر کو کینیڈا کے انتخابات میں اقتدار سے دستبردار ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم ٹروڈو کی لبرل پارٹی حریف کنزرویٹو کے ساتھ سخت مقابلہ میں ہے – یہ ممکنہ طور پر پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں جیتے گی ، لیکن پھر بھی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ، جس کی وجہ سے وہ قانون سازی کے لیے کسی اپوزیشن پارٹی پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئی۔
ٹورنٹو یونیورسٹی میں کینیڈا کی تاریخ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر رابرٹ بوتھ ویل نے کہا ، “ٹروڈو نے فیصلے میں ناقابل یقین حد تک احمقانہ غلطی کی۔
مسٹر ٹروڈو نے ایک مستحکم اقلیتی حکومت کی قیادت میں الیکشن میں حصہ لیا جسے ختم کرنے کا خطرہ نہیں تھا۔
اپوزیشن جسٹن ٹروڈو پر اپنے ذاتی عزائم کے لیے – آخری وقت سے دو سال قبل ابتدائی ووٹ بلانے کا الزام لگانے میں بے باک رہی ہے۔ مسٹر ٹروڈو نے اپنے والد ، لبرل آئیکن اور آنجہانی وزیر اعظم پیئر ٹروڈو کی اسٹار پاور کو چینل کیا ، جب وہ پہلی بار 2015 میں جیتے تھے ، لیکن وبائی امراض کے دوران گذشتہ ماہ اعلی توقعات ، اسکینڈل اور الیکشن کو کال کرنے سے ان کے برانڈ کو نقصان پہنچا ہے۔
وزیر اعظم شرط لگا رہے ہیں کہ کینیڈین اس کو انعام دیں گے کہ وہ زیادہ تر ممالک کی نسبت کورونا وائرس کے بحران کو بہتر انداز میں چلا سکے۔ کینیڈا اب دنیا کی سب سے زیادہ ویکسین شدہ ممالک میں سے ایک ہے اور اس کی حکومت نے لاک ڈاؤن کے درمیان معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے سیکڑوں ارب ڈالر خرچ کیے۔
وزیر اعظم نے استدلال کیا کہ کنزرویٹو کا نقطہ نظر ، جو لاک ڈاؤن اور ویکسین مینڈیٹ کے بارے میں زیادہ شکوک و شبہات رکھتا ہے ، خطرناک ہوگا اور کہتا ہے کہ کینیڈینوں کو ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو سائنس کی پیروی کرے۔
کنزرویٹو لیڈر ایرن او ٹول نے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ٹیکے لگانے کی ضرورت نہیں کی تھی اور یہ نہیں بتائیں گے کہ کتنے غیر ٹیکے لگائے گئے ہیں۔ مسٹر او ٹول ویکسینیشن کو ذاتی صحت کا فیصلہ قرار دیتے ہیں ، لیکن ویکسین سے بچنے والے کینیڈین کی بڑھتی ہوئی تعداد ان لوگوں سے پریشان ہو رہی ہے جو ویکسین لینے سے انکار کرتے ہیں۔
مسٹر ٹروڈو نے ایک مہم کے اختتام پر کہا ، “وہ اپنی پارٹی کے اندر اینٹی ویکسسرز کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ ان لوگوں کے لیے کھڑے ہیں جنہوں نے صحیح کام کیے ہیں اور معمول پر آنا چاہتے ہیں۔” ونڈسر ، اونٹاریو ، 17 ستمبر کو۔
وزیر اعظم ٹروڈو کینیڈینوں کے لیے ہوائی یا ریل سے سفر کرنے کے لیے ویکسین کو لازمی بنانے کی حمایت کرتے ہیں ، جس کی کنزرویٹو مخالفت کرتے ہیں۔ اور اس نے نشاندہی کی ہے کہ کنزرویٹو صوبائی حکومت کے زیر انتظام البرٹا بحران کا شکار ہے۔ البرٹا کے پریمیئر جیسن کینی ، جو مسٹر او ٹول کے حلیف ہیں ، نے کہا کہ صوبے میں چند دنوں کے اندر انتہائی نگہداشت کے یونٹوں کے لیے بستر اور عملہ ختم ہو سکتا ہے۔ مسٹر کینی نے اس سنگین صورتحال پر معذرت کی ہے اور اب وہ ہچکچاہٹ کے ساتھ ویکسین کا پاسپورٹ متعارف کروا رہے ہیں اور تقریبا all تمام پابندیاں ختم کرنے کے دو ماہ بعد گھر سے لازمی آرڈر نافذ کر رہے ہیں۔
ایک قدامت پسند جیت مسٹر ٹروڈو کی سرزنش کی نمائندگی کرے گی ، جو اب اپنے نام کی پہچان کے ایک حصے کے ساتھ کسی سیاستدان کے عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ ہے۔ مسٹر او ٹول (47) ایک فوجی تجربہ کار ، سابق وکیل اور نو سال تک پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔
مسٹر او ٹول نے ایک سال پہلے خود کو “سچے نیلے قدامت پسند” کے طور پر اشتہار دیا تھا۔ وہ ’’ کینیڈا واپس لینے ‘‘ کے عہد کے ساتھ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما بن گئے ، لیکن فورا immediately پارٹی کو سیاسی مرکز کی طرف دھکیلنے کے لیے کام شروع کر دیا۔ ان کی نئی حکمت عملی ، جس میں آب و ہوا کی تبدیلی ، بندوق اور متوازن بجٹ جیسے مسائل پر اپنی پارٹی کی بنیاد پر ناپسندیدہ عہدوں کو شامل کیا گیا ہے ، ایک ایسے ملک کے ووٹروں کے وسیع تر طبقے کو اپیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جو کہ اس سے کہیں زیادہ آزاد خیال ہے۔ جنوبی پڑوسی
ایک طویل عرصے سے سیاستدان کے بیٹے کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ منتخب ہونے کے لیے کچھ بھی کہے گا اور کرے گا۔ “میں آپ کے والد کی کنزرویٹو پارٹی نہیں ہوں ،” مسٹر او ٹول نے کہا۔
چاہے اعتدال پسند کینیڈین مسٹر او ٹول کو ترقی پسند قدامت پسند سمجھتے ہیں اور وہ روایتی قدامت پسندوں کو الگ کر چکے ہیں ، اس مہم کے مرکزی سوالات بن گئے ہیں۔
جینی برن ، جنہوں نے سابق کنزرویٹو وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر کے مہم منیجر اور ڈپٹی چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ، نے کہا کہ ملک بھر میں قدامت پسندوں میں جوش کی کمی ہے۔
“ہم 21 ستمبر کی صبح جان لیں گے کہ آیا کنزرویٹو پارٹی کا ایرن او ٹول ورژن ووٹروں کے ساتھ جڑ رہا ہے ، لیکن اگر انتخابات میں کوئی سچائی ہے تو ، یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں مجھے نہیں لگتا کہ وہ تعداد میں جڑ رہے ہیں کہ ہم ماضی میں منسلک ہوئے ہیں ، بشمول پچھلے انتخابات میں ، “جینی برن نے کہا۔
وائلڈ کارڈ ایک سیاستدان ہوسکتا ہے جس نے 2017 میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت کو کھو دیا تھا لیکن جو اب ایک دائیں بازو کی جماعت کی قیادت کر رہا ہے جو ویکسین اور لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتی ہے۔ رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ 5 to سے 10 Max میکسم برنیئر اور پیپلز پارٹی آف کینیڈا کی حمایت کرتے ہیں۔
وزیر اعظم ٹروڈو کی میراث میں ایسے وقت میں امیگریشن کو قبول کرنا شامل ہے جب امریکہ اور دیگر ممالک ��ے اپنے دروازے بند کر دیے۔ اس نے ملک بھر میں بھنگ کو قانونی حیثیت دی اور ماحولیاتی تبدیلی سے لڑنے کے لیے کاربن ٹیکس بھی لایا۔ اور اس نے امریکہ اور میکسیکو کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کو محفوظ رکھا جو کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیوں کے درمیان تھا۔
شاید سینڈ ٹروڈو مشکل میں ہے ، سابق امریکی صدر باراک اوباما اور ڈیموکریٹک پارٹی کی سابقہ ​​امیدوار ہلیری کلنٹن نے مسٹر ٹروڈو کی حمایت کی ٹویٹ کی۔ مسٹر او ٹول کی ٹرمپ کی توثیق نہیں ہوگی۔ کنزرویٹو مہم کے شریک چیئرمین ولید سلیمان نے کہا کہ مسٹر او ٹول اور ٹرمپ ازم کے درمیان کوئی صف بندی نہیں ہے۔
لیکن اگر مسٹر او ٹول جیت جاتے ہیں تو ، انہوں نے چین کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کا وعدہ کیا ہے ، جس میں چینی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی ہواوے کو کینیڈا کی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی اگلی نسل پر پابندی بھی شامل ہے۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں کینیڈا کا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرے گا جس طرح ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو منتقل کیا اور کئی دہائیوں کی پالیسی کو برداشت کیا۔
. Source link
0 notes
unnnews-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
پاکستان سمیت کہیں بھی انتخابات میں فیس بک کا غلط استعمال روکیں گے :زکر برگ نیویارک(یو این این )فیس بک کے بانی اور سی ای او مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ ان دنوں ان کے ادارے کی توجہ کا اہم مرکز آئندہ مہینوں میں پاکستان، بھارت اور امریکہ سمیت کئی ملکوں میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت کا تحفظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں قائم ایک کمپنی کیمبرج اینالیٹکا کی طرف سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی چوری کے باعث فیس بک شدید دباؤ میں ہے۔ فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا 2016 میں امریکی صدارتی انتخابات کے دوران مبینہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد میں استعمال ہوا تھا۔ بزنس ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زکربرگ کا کہنا ہے کہ اس سال امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے ساتھ ساتھ پاکستان، بھارت، برازیل، میکسیکو، ہنگری اور کئی دوسرے ملکوں میں بھی الیکشن ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہماری زیادہ تر توجہ انتخابات کے معاملات پر مرکوز رہے گی۔ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ ہمارے ادارے کے 15 ہزار کا رکن اس سلسلے میں فیس بک کی سیکیورٹی اور اس میں شائع ہونے والے مواد کے جائزے سے منسلک امور پر کام کر رہے ہیں۔ جب کہ اس سال کے آخر تک ہم کارکنوں کی تعداد 20 ہزار تک بڑھا دیں گے۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو یہ بھی بتایا کہ فیس بک پر مس انفارمیشن کو پھیلنے سے روکنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے مدد لی جا رہی ہے۔ زکربرگ کا کہنا تھا کہ فرانس کے صدارتی انتخابات کے موقع پر آرٹیفیشل انٹیلی جنیس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے ہم نے 30 ہزار سے زیادہ جعلی اکاؤنٹس کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے زکر برگ نے کہا کہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے ہم مزید کام کر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے پاکستان اور ہنگری سمیت کئی بھارتی ریاستوں کے انتخابات ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی وسط مدتی انتخابات اور کئی دوسرے ملکوں کے الیکشن ہیں۔ فیس بک کے عہدے دار اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انتخابات کے موقع پر فیس بک اپنی غیر جانب داری برقرار رکھے اور سوشل میڈیا کے دنیا کے اس سب سے بڑے پلیٹ فارم کو کوئی بھی امیدوار یا پارٹی کسی بھی طرح سے انتخابی عمل اور نتائج کو متاثر کرنے کے لیے استعمال نہ کر سکے۔
0 notes
Photo
Tumblr media
ایتھے رکھ ! – وسعت اللہ خان ٹرمپ کے چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی میڈیا اس ملک کو نہیں سمجھتا۔اسے اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ٹرمپ امریکا کے صدر کیوں ہیں۔جو میڈیا قبل از وقت ٹرمپ کی جیت کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام ہو کر دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوا  وہی اب چپڑ چپڑ باتیں بنا رہا ہے۔لگتا ہے اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نہیں بلکہ میڈیا ہے۔اب اسے چاہیے کہ اپنا منہ بند رکھے اور کچھ عرصے کے لیے سنے بھی۔ خود ٹرمپ کا بس چلے تو ایسے میڈیا کے ساتھ وہی کریں جو مہابلی نے انار کلی کے ساتھ کیا۔مگر اس سے پہلے اور بھی ضروری کام ٹرمپ کو تیزی سے نمٹانے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں آپ کے جو بھی خیالات ہوں مگر ایک بات تو ماننا پڑے گی۔انھوں نے امریکیوں سے جن جن کھلم کھلا وعدوں کی بنیاد پر ووٹ لیا وہ وعدے بغیر الفاظ چبائے، ہچر مچر کیے بلاہچکچاہٹ تیزی سے پورے کرنے شروع کر دیے ہیں۔لہذا اب انھیں کم ازکم یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ سیاستداں اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے کچھ ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کرتے کچھ ہیں۔اگر پچھلی امریکی حکومتوں نے اپنے عوام اور دنیا سے کیے وعدے پورے کیے ہوتے تو آج ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں نہ ہوتے۔ مثلاً ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر وہ میکسیکو اور امریکا کی دو ہزار میل طویل سرحد پر باڑھ کی جگہ تیس فٹ بلند کنکریٹ دیوار تعمیر کریں گے تاکہ میکسیکو اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک کے غیر تارکینِ وطن کہ جن میں ریپسٹ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر اور اکا دکا شریف لوگ شامل ہیں غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس دیوار پر تعمیر ہونے والے آٹھ ارب ڈالر کے اخراجات میکسیکیو سے وصول کیے جائیں گے۔وہ میکسیکو میں سستی لیبر کی لالچ میں لگائے گئے امریکی سرمائے کو واپس لائیں گے تاکہ بے روزگار امریکیوں کو ملازمت مل سکے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے گھر واپس آنے والی امریکی صنعتوں کو ٹیکس چھوٹ بھی ملے گا۔وہ امریکا کی ان شہری حکومتوں کی وفاقی امداد میں بھی کٹوتی کردیں گے جہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کا جمھگٹا ہے اگر ان حکومتوں نے تارکینِ وطن کو نکال باہر کرنے کے وفاقی احکامات پر عمل نہیں کیا۔وہ غیر ملکیوں کی جانب سے غلط بیانی پر انھیں فوراً ڈی پورٹ کریں گے اور اس ضمن میں نہ صرف پولیس کے اختیارات بڑھائیں گے بلکہ سرحدی محافظوں کی تعداد میں بھی کم ازکم ایک لاکھ کا اضافہ کریں گے۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ ٹرمپ نے صدر بننے کے بہتر گھنٹے کے اندر اندر ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صدارتی حکم ناموں پر دستخط کردیے۔اب نام نہاد دانشور اور امریکا کے بہی خواہ لاکھ چلائیں کہ کیا یہ وہی امریکا ہے جس نے دیوارِ برلن کو انسانی آزادی پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیتے ہوئے تیس برس تک سوویت یونین کو مطعون کیے رکھا حتی کہ دیوار گروا کے دم لیا اور اب خود کے اردگرد دیواریں اٹھا رہا ہے۔یہ خوف دلایا جا رہا ہے کہ دیوارِ میکسیکو پر آٹھ ارب نہیں پچیس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔یہ سنسنی اٹھائی جا رہی ہے کہ سستی میکسیکن لیبر عنقا ہوئی تو امریکی زراعت اور گھریلو کام کاج اور چھوٹی صنعتیں ٹھپ ہو جائیں گی۔اس ہراس میں مبتلا کیا جا رہا ہے کہ میکسیکو امریکی مصنوعات کی دوسری سب سے بڑی منڈی ہے اور میکسیکو کی اسی فیصد درآمدات امریکا سے آتی ہیں۔اور اگر ٹرمپ کے اقدامات کے سبب میکسیکو کی معیشت ٹھپ ہوتی ہے تو وہ امریکا کے سر پے دوسرا کیوبا بن سکتا ہے۔جو خلا امریکا چھوڑے گا وہ چین بھرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا۔ مگر یہ وعدہ تو ٹرمپ نے امریکی ووٹروں سے کیا تھا۔اگر پریشان ہونا تھا تو ووٹر کو ہونا تھا۔جب ووٹر ہی بن داس نکلا تو ٹرمپ کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر کیوں مطعون کیا جا رہا ہے؟ میکسیو کے صدر نے اکتیس جنوری کو ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات منسوخ کردی ہے اور دیوار کے اخراجات دینے سے صفا انکار کردیا ہے۔ٹرمپ نے بھی  ٹویٹ کر دیا ہے کہ پیسے نہیں دینے تو ملاقات کی بھی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ٹرمپ نے اس نعرے پر الیکشن جیتا کہ سب سے پہلے امریکا۔۔۔ابھی تو حسبِ وعدہ نارتھ امریکن فری ٹریڈ معاہدے پر نظرِ ثانی بھی ہو گی جس میں میکسیکو کے ساتھ ساتھ کینیڈا بھی امریکا کا ساجھے دار ہے اور اس پر بل کلنٹن نے دستخط کرتے ہوئے اسے تاریخی اور بے مثال معاہدہ قرار دیا تھا۔کیا ٹرمپ جو کر رہا ہے یا کرے گا وہ تاریخی و بے مثال نہیں۔کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ ابھی تو ناٹو کی باری بھی آنے والی ہے جس کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ آیندہ یورپ کو اپنا دفاعی بار خود اٹھانا پڑے گا۔امریکا کے خرچے پر بہت عیاشی کر لی۔ابھی تو ماحولیاتی آلودگی کے پیرس عالمی سمجھوتے سے بھی امریکا کو الگ ہونا ہے۔کیونکہ قولِ ٹرمپ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا ریکٹ ایک سائنسی فراڈ ہے۔ جب اوباما نے دنیا کی چالیس فیصد معیشت کے مالک بحرالکاہل کے آر پار بارہ ممالک کے ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ کے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تو اس وقت بھی بغلیں بجائی گئی تھیں۔مگر مردِ قلندر ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹروں سے وعدہ کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی امریکا کے لیے زہرِ قاتل اس معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔اور بالکل یہی ہوا۔پہلے حکم نامے پر دستخط کرنے والے قلم سے اس معاہدے کا سر قلم کردیا گیا۔ کیا ٹرمپ نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ دنیا سے ’’اسلامی دہشتگردی ’’جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا؟ تین روز پہلے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کو بطور صدر پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کیا کہا؟ مشرقِ وسطی میں لوگوں کے سر قلم ہو رہے ہیں تو کیا ہم دہشتگردوں سے اقبالِ جرم کروانے کے لیے واٹر بورڈنگ کا حربہ بھی استعمال نہ کریں۔آگ کا مقابلہ آگ ہی کر سکتی ہے۔میں نے اپنے وزیرِ دفاع جیمز میٹس اور سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو سے کہہ دیا ہے کہ قانون کے مطابق دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں۔میں نے اپنے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے پوچھا کیا تشدد سے کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا بالکل ہوتا ہے۔ اب ری بلیکن اکثریتی کانگریس کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر پال رائن اور سینیٹ میں ری پبلیکن اکثریتی لیڈر میک اونیل اور سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سربراہ جان مکین لاکھ واویلا کریں کہ صدر ٹرمپ جتنے بھی حکم نامے جاری کر لیں مگر آرمی فیلڈ مینوئل میں تشدد سے راز اگلوانے پر پابندی کی ترمیم برقرار رہے گی کیونکہ اسے کانگریس نے منظور کیا ہے۔لیکن ان ری پبلیکن رہنماؤں نے تو تب بھی ٹرمپ کی مخالفت کی تھی جب وہ صدر نہیں بنے تھے۔ یہ رہنما اب بھی نہیں جانتے کہ ٹرمپ کوئی فلمی نہیں اصلی والا سلمان خان ہے۔ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو خود کی بھی نہیں سنتا۔ اے بی سی نیٹ برک کے انٹرویو میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ عراق پر قبضہ بھاری غلطی تھی۔اور بغیر تیل پر قبضہ کیے وہاں سے نکلنا اس سے بھی بڑی غلطی۔کیونکہ اس تیل نے ہی داعش کو زندہ رکھا۔جب ہم نکلے تو عراق میں کوئی حکومت نہیں تھی۔آج بھی نہیں ہے۔ہم نے مشرقِ وسطی میں چھ ٹریلین ڈالر جھونک کے خود کو کھکھل کر لیا۔تیل قابو کر لیتے تو داعش بھی نہ ہوتی۔اب کوئی لاکھ چیختا رہے کہ عراق پر قبضہ نہ ہوتا تو داعش بھی نہ ہوتی اور یہ موجودہ عراقی حکومت ہی ہے جو داعش سے نبرد آزما ہے مگر ٹرمپ تو ٹرمپ ہے۔ کیا ٹرمپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں دہشتگردوں کی آمد روکنے کے لیے سات ممالک ( شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا، سوڈان، صومالیہ) کے شہریوں کو تب تک ویزا نہیں دے گا جب تک ایک نیا امیگریشن ڈھانچہ نہ بن جاتا۔اور افغانستان، پاکستان اور سعودی باشندوں کی ویزا درخواستوں کی سختی سے جانچ پڑتال ہوگی۔اب یہ محض حسنِ اتفاق ہے کہ یہ سب ممالک مسلمان ہیں۔کیا ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کی رجسٹریشن کرے گا۔تو اب کیوں مظاہرے ہو رہے ہیں۔اور تو اور سابق وزیرِ خارجہ میدلین اولبرائٹ بھی کہہ رہی ہیں کہ میں یہودی سہی مگر ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں کی رجسٹریشن کی تو میں احجاجاً بطور مسلمان خود کو رجسٹر کرواؤں گی۔یہ وہی البرائٹ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ امریکی اقتصادی پابندیوں سے پانچ لاکھ عراقیوں کا مر جانا کوئی بڑی قیمت نہیں۔ابھی تو امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ بھی پورا ہونا ہے۔اسرائیل نے تو پہلے ہی یروشلم میں ڈھائی ہزار نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کر دیا ہے۔ کوئی لاکھ چیختا رہے کہ اس طرح کے اقدامات  سے مشرقِ وسطی میں ایک نئی آگ لگ جائے گی۔اے بی سی کے صحافی نے بھی یہی پوچھا تھا کہ آپ کے اقدامات سے کیا مسلمان دنیا میں امریکا سے نفرت نہیں بڑھے گی؟ ہمارے ٹرمپ نے جواب دیا اب بھی کون سی کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کتنی بڑھے گی۔دنیا ہم  سے پہلے ہی کون سی خوش ہے؟ کیا فرق پڑتا ہے اگر دو لاکھ عورتیں ٹرمپ کے صدر بننے کے دوسرے دن واشنگٹن میں مظاہرہ کریں۔کیا فرق پڑتا ہے اگر میڈیا یہ تصاویر دکھائے کہ ٹرمپ کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں جتنے لوگ تھے اس سے چار گنا اوباما کی تقریب میں تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ وعدوں کا پکا ٹرمپ اب امریکا کا صدر ہے۔ کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اس سے جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے
0 notes
emergingpakistan · 8 years
Text
سب سے پہلے امریکا ؟
ٹرمپ کے چیف اسٹریٹجسٹ اسٹیو بینن نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکی میڈیا اس ملک کو نہیں سمجھتا۔ اسے اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ٹرمپ امریکا کے صدر کیوں ہیں۔ جو میڈیا قبل از وقت ٹرمپ کی جیت کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام ہو کر دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہوا  وہی اب چپڑ چپڑ باتیں بنا رہا ہے۔ لگتا ہے اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی نہیں بلکہ میڈیا ہے۔ اب اسے چاہیے کہ اپنا منہ بند رکھے اور کچھ عرصے کے لیے سنے بھی۔ خود ٹرمپ کا بس چلے تو ایسے میڈیا کے ساتھ وہی کریں جو مہابلی نے انار کلی کے ساتھ کیا۔مگر اس سے پہلے اور بھی ضروری کام ٹرمپ کو تیزی سے نمٹانے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں آپ کے جو بھی خیالات ہوں مگر ایک بات تو ماننا پڑے گی۔ انھوں نے امریکیوں سے جن جن کھلم کھلا وعدوں کی بنیاد پر ووٹ لیا وہ وعدے بغیر الفاظ چبائے، ہچر مچر کیے بلاہچکچاہٹ تیزی سے پورے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ لہذا اب انھیں کم ازکم یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ سیاستداں اقتدار میں آنے سے پہلے کہتے کچھ ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کرتے کچھ ہیں۔ اگر پچھلی امریکی حکومتوں نے اپنے عوام اور دنیا سے کیے وعدے پورے کیے ہوتے تو آج ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں نہ ہوتے۔
مثلاً ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر وہ میکسیکو اور امریکا کی دو ہزار میل طویل سرحد پر باڑھ کی جگہ تیس فٹ بلند کنکریٹ دیوار تعمیر کریں گے تا کہ میکسیکو اور جنوبی امریکا کے دیگر ممالک کے غیر تارکینِ وطن کہ جن میں ریپسٹ اور دیگر جرائم پیشہ عناصر اور اکا دکا شریف لوگ شامل ہیں غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس دیوار پر تعمیر ہونے والے آٹھ ارب ڈالر کے اخراجات میکسیکیو سے وصول کیے جائیں گے۔ وہ میکسیکو میں سستی لیبر کی لالچ میں لگائے گئے امریکی سرمائے کو واپس لائیں گے تا کہ بے روزگار امریکیوں کو ملازمت مل سکے اور اس کی حوصلہ افزائی کے لیے گھر واپس آنے والی امریکی صنعتوں کو ٹیکس چھوٹ بھی ملے گا۔ وہ امریکا کی ان شہری حکومتوں کی وفاقی امداد میں بھی کٹوتی کر دیں گے جہاں غیر قانونی تارکینِ وطن کا جمھگٹا ہے اگر ان حکومتوں نے تارکینِ وطن کو نکال باہر کرنے کے وفاقی احکامات پر عمل نہیں کیا۔ وہ غیر ملکیوں کی جانب سے غلط بیانی پر انھیں فوراً ڈی پورٹ کریں گے اور اس ضمن میں نہ صرف پولیس کے اختیارات بڑھائیں گے بلکہ سرحدی محافظوں کی تعداد میں بھی کم ازکم ایک لاکھ کا اضافہ کریں گے۔
اور پھر سب نے دیکھا کہ ٹرمپ نے صدر بننے کے بہتر گھنٹے کے اندر اندر ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صدارتی حکم ناموں پر دستخط کر دیے۔ اب نام نہاد دانشور اور امریکا کے بہی خواہ لاکھ چلائیں کہ کیا یہ وہی امریکا ہے جس نے دیوارِ برلن کو انسانی آزادی پر ایک سیاہ دھبہ قرار دیتے ہوئے تیس برس تک سوویت یونین کو مطعون کیے رکھا حتی کہ دیوار گروا کے دم لیا اور اب خود کے اردگرد دیواریں اٹھا رہا ہے۔ یہ خوف دلایا جا رہا ہے کہ دیوارِ میکسیکو پر آٹھ ارب نہیں پچیس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ سنسنی اٹھائی جا رہی ہے کہ سستی میکسیکن لیبر عنقا ہوئی تو امریکی زراعت اور گھریلو کام کاج اور چھوٹی صنعتیں ٹھپ ہو جائیں گی۔ اس ہراس میں مبتلا کیا جا رہا ہے کہ میکسیکو امریکی مصنوعات کی دوسری سب سے بڑی منڈی ہے اور میکسیکو کی اسی فیصد درآمدات امریکا سے آتی ہیں۔ اور اگر ٹرمپ کے اقدامات کے سبب میکسیکو کی معیشت ٹھپ ہوتی ہے تو وہ امریکا کے سر پے دوسرا کیوبا بن سکتا ہے۔ جو خلا امریکا چھوڑے گا وہ چین بھرنے میں ذرا دیر نہیں لگائے گا۔
مگر یہ وعدہ تو ٹرمپ نے امریکی ووٹروں سے کیا تھا۔ اگر پریشان ہونا تھا تو ووٹر کو ہونا تھا۔ جب ووٹر ہی بن داس نکلا تو ٹرمپ کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر کیوں مطعون کیا جا رہا ہے؟ میکسیو کے صدر نے اکتیس جنوری کو ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی ہے اور دیوار کے اخراجات دینے سے صفا انکار کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے بھی  ٹویٹ کر دیا ہے کہ پیسے نہیں دینے تو ملاقات کی بھی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ٹرمپ نے اس نعرے پر الیکشن جیتا کہ سب سے پہلے امریکا۔ ابھی تو حسبِ وعدہ نارتھ امریکن فری ٹریڈ معاہدے پر نظرِ ثانی بھی ہو گی جس میں میکسیکو کے ساتھ ساتھ کینیڈا بھی امریکا کا ساجھے دار ہے اور اس پر بل کلنٹن نے دستخط کرتے ہوئے اسے تاریخی اور بے مثال معاہدہ قرار دیا تھا۔ کیا ٹرمپ جو کر رہا ہے یا کرے گا وہ تاریخی و بے مثال نہیں۔ کچھ تو خدا کا خوف کرو۔
ابھی تو ناٹو کی باری بھی آنے والی ہے جس کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ آیندہ یورپ کو اپنا دفاعی بار خود اٹھانا پڑے گا۔ امریکا کے خرچے پر بہت عیاشی کر لی۔ ابھی تو ماحولیاتی آلودگی کے پیرس عالمی سمجھوتے سے بھی امریکا کو الگ ہونا ہے۔ کیونکہ قولِ ٹرمپ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا ریکٹ ایک سائنسی فراڈ ہے۔ جب اوباما نے دنیا کی چالیس فیصد معیشت کے مالک بحرالکاہل کے آر پار بارہ ممالک کے ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ کے آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تو اس وقت بھی بغلیں بجائی گئی تھیں۔ مگر مردِ قلندر ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹروں سے وعدہ کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی امریکا کے لیے زہرِ قاتل اس معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔ اور بالکل یہی ہوا۔ پہلے حکم نامے پر دستخط کرنے والے قلم سے اس معاہدے کا سر قلم کر دیا گیا۔
کیا ٹرمپ نے وعدہ نہیں کیا تھا کہ وہ دنیا سے ’’اسلامی دہشتگردی ’’جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا ؟ تین روز پہلے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کو بطور صدر پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کیا کہا؟ مشرقِ وسطی میں لوگوں کے سر قلم ہو رہے ہیں تو کیا ہم دہشتگردوں سے اقبالِ جرم کروانے کے لیے واٹر بورڈنگ کا حربہ بھی استعمال نہ کریں۔ آگ کا مقابلہ آگ ہی کر سکتی ہے۔ میں نے اپنے وزیرِ دفاع جیمز میٹس اور سی آئی اے کے سربراہ مائک پومپیو سے کہہ دیا ہے کہ قانون کے مطابق دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں۔ میں نے اپنے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے پوچھا کیا تشدد سے کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا بالکل ہوتا ہے۔ اب ری بلیکن اکثریتی کانگریس کے ایوانِ زیریں کے اسپیکر پال رائن اور سینیٹ میں ری پبلیکن اکثریتی لیڈر میک اونیل اور سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سربراہ جان مکین لاکھ واویلا کریں کہ صدر ٹرمپ جتنے بھی حکم نامے جاری کر لیں مگر آرمی فیلڈ مینوئل میں تشدد سے راز اگلوانے پر پابندی کی ترمیم برقرار رہے گی کیونکہ اسے کانگریس نے منظور کیا ہے۔ لیکن ان ری پبلیکن رہنماؤں نے تو تب بھی ٹرمپ کی مخالفت کی تھی جب وہ صدر نہیں بنے تھے۔ یہ رہنما اب بھی نہیں جانتے کہ ٹرمپ کوئی فلمی نہیں اصلی والا سلمان خان ہے۔ ایک بار کمٹمنٹ کر لے تو خود کی بھی نہیں سنتا۔
اے بی سی نیٹ برک کے انٹرویو میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ عراق پر قبضہ بھاری غلطی تھی۔ اور بغیر تیل پر قبضہ کیے وہاں سے نکلنا اس سے بھی بڑی غلطی۔ کیونکہ اس تیل نے ہی داعش کو زندہ رکھا۔ جب ہم نکلے تو عراق میں کوئی حکومت نہیں تھی۔ آج بھی نہیں ہے۔ ہم نے مشرقِ وسطی میں چھ ٹریلین ڈالر جھونک کے خود کو کھکھل کر لیا۔ تیل قابو کر لیتے تو داعش بھی نہ ہوتی۔ اب کوئی لاکھ چیختا رہے کہ عراق پر قبضہ نہ ہوتا تو داعش بھی نہ ہوتی اور یہ موجودہ عراقی حکومت ہی ہے جو داعش سے نبرد آزما ہے مگر ٹرمپ تو ٹرمپ ہے۔ کیا ٹرمپ نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں دہشتگردوں کی آمد روکنے کے لیے سات ممالک ( شام، عراق، ایران، یمن، لیبیا، سوڈان، صومالیہ) کے شہریوں کو تب تک ویزا نہیں دے گا جب تک ایک نیا امیگریشن ڈھانچہ نہ بن جاتا۔ اور افغانستان، پاکستان اور سعودی باشندوں کی ویزا درخواستوں کی سختی سے جانچ پڑتال ہو گی۔ اب یہ محض حسنِ اتفاق ہے کہ یہ سب ممالک مسلمان ہیں۔
کیا ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ نہیں کہا تھا کہ وہ امریکا میں مقیم مسلمانوں کی رجسٹریشن کرے گا۔ تو اب کیوں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور تو اور سابق وزیرِ خارجہ میدلین اولبرائٹ بھی کہہ رہی ہیں کہ میں یہودی سہی مگر ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں کی رجسٹریشن کی تو میں احجاجاً بطور مسلمان خود کو رجسٹر کرواؤں گی۔ یہ وہی البرائٹ ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ امریکی اقتصادی پابندیوں سے پانچ لاکھ عراقیوں کا مر جانا کوئی بڑی قیمت نہیں۔ ابھی تو امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا وعدہ بھی پورا ہونا ہے۔ اسرائیل نے تو پہلے ہی یروشلم میں ڈھائی ہزار نئے مکانات کی تعمیر کا اعلان کر دیا ہے۔ کوئی لاکھ چیختا رہے کہ اس طرح کے اقدامات  سے مشرقِ وسطی میں ایک نئی آگ لگ جائے گی۔ اے بی سی کے صحافی نے بھی یہی پوچھا تھا کہ آپ کے اقدامات سے کیا مسلمان دنیا میں امریکا سے نفرت نہیں بڑھے گی؟ ہمارے ٹرمپ نے جواب دیا اب بھی کون سی کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کتنی بڑھے گی۔ دنیا ہم  سے پہلے ہی کون سی خوش ہے؟
کیا فرق پڑتا ہے اگر دو لاکھ عورتیں ٹرمپ کے صدر بننے کے دوسرے دن واشنگٹن میں مظاہرہ کریں۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر میڈیا یہ تصاویر دکھائے کہ ٹرمپ کی تقریبِ حلفِ وفاداری میں جتنے لوگ تھے اس سے چار گنا اوباما کی تقریب میں تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وعدوں کا پکا ٹرمپ اب امریکا کا صدر ہے۔
کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اس سے
جو یوں کیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اس سے
وسعت اللہ خان
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
بولسنارو نے سوشل نیٹ ورکس کو کچھ پوسٹس ہٹانے سے روک دیا۔
بولسنارو نے سوشل نیٹ ورکس کو کچھ پوسٹس ہٹانے سے روک دیا۔
برازیل کے صدر جائر بولسنارو عارضی طور پر سوشل میڈیا کمپنیوں پر کچھ مواد ہٹانے پر پابندی لگا رہے ہیں ، بشمول ان کے دعووں کے کہ وہ اگلے سال کے انتخابات ہار جائیں گے۔ اگر دھاندلی ہوئی ہے – جمہوری طور پر منتخب لیڈر کی جانب سے انٹرنیٹ پر جو کچھ کہا جا سکتا ہے اسے کنٹرول کرنے کے لیے ایک اہم ترین اقدام۔
کی سوشل میڈیا کے نئے قوانینانٹرنیٹ قانون کے ماہرین اور ٹیک کمپنیوں کے عہدیداروں کے مطابق ، اس ہفتے جاری کیا گیا اور فوری طور پر نافذ ، پہلی بار ایسا لگتا ہے کہ کسی قومی حکومت نے انٹرنیٹ کمپنیوں کو ان کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کو اتارنے سے روک دیا ہے۔ اور وہ برازیل کے لیے ایک نازک لمحے پر آتے ہیں۔
مسٹر بولسنارو نے اپنی سیاسی تحریک کی تعمیر اور اسے صدر کے دفتر تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کو بطور میگا فون استعمال کیا ہے۔ اب ، پولز کے ساتھ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر وہ آج صدارتی انتخابات ہار جائیں گے ، تو وہ فیس بک ، ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی سائٹوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ووٹ کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانا، کی پلے بک کے بعد۔ اس کا قریبی ساتھی ، سابق صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ منگل کو ، مسٹر بولسنارو نے دو شہروں میں ہزاروں حامیوں کو الیکشن کے بارے میں اپنے دعوے دہرائے۔ برازیل کے یوم آزادی پر ملک گیر مظاہرے.
نئی پالیسی کے تحت ٹیک کمپنیاں صرف اس صورت میں پوسٹس کو ہٹا سکتی ہیں جب ان میں کچھ موضوعات شامل ہوں۔ پیمائش میں بیان کیا گیا ہے۔، جیسے عریانیت ، منشیات اور تشدد ، یا اگر وہ جرائم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا حق اشاعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں دوسروں کو نیچے اتارنے کے لیے انہیں عدالت کا حکم ملنا چاہیے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ، برازیل میں ، ٹیک کمپنیاں آسانی سے ایک عریاں تصویر ہٹا سکتی ہیں ، لیکن کورونا وائرس کے بارے میں جھوٹ نہیں۔ مسٹر بولسونارو کے تحت وبائی بیماری کا ایک بڑا موضوع رہا ہے ، جس میں فیس بک ، ٹویٹر اور یوٹیوب سب موجود ہیں۔ ہٹا دی گئی ویڈیوز اس سے جس نے غیر ثابت شدہ ادویات کو کورونا وائرس کے علاج کے طور پر دھکیل دیا۔
ریو ڈی جنیرو اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر کارلوس افونسو سوزا نے کہا ، “آپ صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک بڑے پلیٹ فارم کے لیے ہر ایک ڈس انفارمیشن کے لیے عدالتی حکم حاصل کرنا کتنا مشکل ہوگا۔”
برازیل کے نئے انٹرنیٹ قواعد جدید ترین کوششیں ہیں۔ ایک بڑی لڑائی کہ قدامت پسند سلیکن ویلی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سیاستدان اور پنڈت۔ حق پر نے دلیل دی ہے کہ ٹیک کمپنیاں ہیں۔ قدامت پسند آوازوں کو سنسر کرنا۔، اور تیزی سے انہوں نے ایسے قوانین کو آگے بڑھایا ہے جو سوشل نیٹ ورکس کے لیے اپنی سائٹوں سے پوسٹس یا اکاؤنٹس کو ہٹانا مشکل بنا رہے ہیں۔
فلوریڈا نے مئی میں ایک قانون منظور کیا۔ ٹھیک انٹرنیٹ کمپنیاں یہ کسی بھی سیاسی امیدوار کو ان کی سائٹوں سے روکتا ہے ، حالانکہ وفاقی جج۔ ایک ماہ بعد اسے بلاک کر دیا۔. توقع ہے کہ ٹیکساس کا گورنر جلد ہی قانون میں اسی طرح کے بل پر دستخط کریں۔. دوسرے ممالک نے بھی اسی طرح کی قانون سازی کی تجویز دی ہے ، لیکن برازیل کی نئی پالیسی قومی سطح پر نافذ ہونے والا سب سے اہم اقدام ہے۔
میں ایک ٹویٹر پوسٹمسٹر بولسنارو کی حکومت نے کہا کہ پالیسی “ایسے مواد کو ہٹانے سے منع کرتی ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی قسم کی ‘سیاسی ، نظریاتی ، سائنسی ، فنکارانہ یا مذہبی ترتیب کی سنسر شپ ہو سکتی ہے’ ‘۔
محدود کرنے کے علاوہ کس قسم کی پوسٹس کمپنیاں ختم کر سکتی ہیں ، قوانین ٹیک کمپنیوں کو کسی بھی پوسٹ یا کسی بھی اکاؤنٹ کو ہٹانے کے جواز کا تقاضا بھی کر سکتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ بھی جن میں محفوظ استثناء شامل ہوں۔ اس کے بعد حکومت کمپنیوں کو پوسٹ یا اکاؤنٹ بحال کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اگر وہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہٹانا غیر ضروری تھا۔
ٹیک کمپنیوں نے فوری طور پر نئی پالیسی پر تنقید کی۔ فیس بک نے کہا کہ “پیمائش ہمارے پلیٹ فارم پر غلط استعمال کو محدود کرنے کی ہماری صلاحیت میں نمایاں طور پر رکاوٹ بنتی ہے” اور یہ کہ کمپنی “قانونی ماہرین اور ماہرین سے اتفاق کرتی ہے جو اس اقدام کو آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
ٹوئٹر نے کہا کہ یہ پالیسی برازیل میں موجودہ انٹرنیٹ قانون کو تبدیل کرتی ہے ، “اس کے ساتھ ساتھ اقدار اور اتفاق رائے کو کمزور کرتی ہے۔”
یوٹیوب نے کہا کہ وہ کوئی بھی تبدیلی کرنے سے پہلے قانون کا تجزیہ کر رہا ہے۔ کمپنی نے کہا ، “ہم اپنی پالیسیوں کی اہمیت اور اپنے صارفین اور تخلیق کاروں کے لیے خطرات کو واضح کرنا جاری رکھیں گے اگر ہم انہیں نافذ نہیں کر سکتے۔”
فیس بک نے کہا کہ اس نے برازیل میں مواد کو پولیس کرنے کا طریقہ تبدیل نہیں کیا ہے۔ ٹویٹر نے کہنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں تھا کہ یہ اقدام برازیل سے باہر کے مواد کو کیسے متاثر کرے گا۔
برازیل کو ٹریک کرنے والے سیاسی اور قانونی تجزیہ کاروں کے مطابق ، اگرچہ وہ دور دراز ہیں ، نئے قوانین شاید قائم نہیں رہیں گے۔ مسٹر بولسنارو نے انہیں نام نہاد عارضی اقدام کے طور پر جاری کیا ، ایک قسم کا ہنگامی حکم جس کا مقصد فوری حالات سے نمٹنا ہے۔ اس طرح کے اقدامات 120 دن میں ختم ہو جاتے ہیں اگر برازیل کی کانگریس انہیں مستقل نہیں کرتی ہے۔ کانگریس کے کچھ ارکان پہلے ہی عوامی سطح پر اس اقدام کی مخالفت کر چکے ہیں ، اور پانچ سیاسی جماعتوں اور ایک برازیلین سینیٹر نے ملک کی سپریم کورٹ میں اس کو روکنے کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔
لیکن مسٹر بولسنارو نے منگل کو ایک ریلی میں حامیوں سے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جسٹس کے فیصلے کو نظر انداز کر دیں گے جنہوں نے مسٹر بولسنارو کی انتظامیہ کی تحقیقات میں مدد کی ہے ، دنیا بھر کے خطرناک مبصرین کہ صدر برازیل کی جمہوریت کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
مسٹر بولسنارو نے آن لائن ڈس انفارمیشن کو لڑنے کے لیے مشکل بنانے ��ے لیے دوسرے اقدامات کیے ہیں۔ اس ماہ ، مثال کے طور پر ، اس نے قومی سلامتی کے قانون کے ایک حصے کو ویٹو کر دیا جس سے بڑے پیمانے پر غلط معلومات کی مہم چلانے والے مجرموں کے لیے مجرمانہ سزائیں مقرر کی جائیں گی۔
کے ڈائریکٹر میتھیو ٹیلر۔ برازیل ریسرچ انیشیٹو۔ امریکن یونیورسٹی میں ، نے کہا کہ مسٹر بولسنارو انٹرنیٹ پالیسی کا استعمال اپنے حامیوں کو اکٹھا کرنے اور وبائی امراض سے نمٹنے اور عدالتوں کے ساتھ ان کے جھگڑوں کے گرد گھپلوں سے ہٹانے کے لیے کر رہے تھے۔ مسٹر بولسنارو نے اس لمحے کو اپنی سیاسی تحریک کی قسمت کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
“��قت کوئی غلطی نہیں تھی ،” مسٹر ٹیلر نے اس پالیسی کے بارے میں کہا ، جو نافذ کیا گیا تھا۔ احتجاج کے موقع پر کہ مسٹر بولسونارو نے امید کی تھی کہ وہ اپنی زیر صدارت صدارت کے لیے حمایت میں اضافہ کریں گے۔ “یہ بولسنارو کے گھریلو سامعین کے ساتھ کھیل رہا ہے۔”
برازیل کی حکومت۔ ٹویٹر پر اپنی پوسٹ میں کہا۔ کہ وہ “سوشل نیٹ ورکس پر آزادی اظہار رائے کے دفاع اور شہریوں کے خیال اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ میں عالمی قیادت لے رہا ہے۔” حکومت نے مزید تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
قانون کے پروفیسر مسٹر افونسو سوزا نے کہا کہ اس طرح کے عارضی اقدامات فوری طور پر نافذ ہوتے ہیں ، کمپنیوں کے پاس جرمانے کا سامنا کرنے سے پہلے اپنی پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے 30 دن ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی سپریم کورٹ انٹرنیٹ کمپنیوں کی تعمیل کرنے سے پہلے اس اقدام کو ختم کر سکتی ہے ، لیکن دلیل دی کہ اس نے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر نے اس بات کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ بنایا ہے کہ غلط معلومات “انٹرنیٹ پر قائم رہتی ہے اور اسے پھیلانا آسان بناتی ہے۔”
مسٹر بولسنارو نے حالیہ مہینوں میں برازیل کے بہت سے شعبوں کو سیاسی بحرانوں کے سلسلے میں اپنے بڑھتے ہوئے آمرانہ ردعمل کے ساتھ چوکنا کر دیا ہے ، بشمول ایک بڑھتی ہوئی وبائی بیماری ، معاشی مشکلات ، اس اور اس کے خاندان کے بارے میں عدالتی تحقیقات ، اور گرتے ہوئے پول نمبر۔ اس نے برازیل کے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر حملہ کیا ہے۔ آنے والے الیکشن کو چھوٹ دینے کی ایک وجہ، اور اس نے حال ہی میں حامیوں سے کہا ہے کہ اس کی صدارت کے صرف تین نتائج ہیں: وہ دوبارہ منتخب ہو جاتا ہے ، جیل جاتا ہے یا مارا جاتا ہے۔
جولائی میں، یوٹیوب نے مسٹر بولسنارو کی 15 ویڈیوز کو ہٹا دیا۔ کورونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے اور پچھلے مہینے کے آخر میں ، یوٹیوب نے کہا کہ ، برازیل کی عدالت کے احکامات کے تحت ، ایسا ہوا ہے۔ بولسونارو کے حامی 14 چینلز کو ادائیگی روک دی۔ جس نے اگلے سال کے صدارتی انتخابات کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی تھیں۔
برازیل کی سپریم کورٹ بھی ملک میں غلط معلومات کی کارروائیوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔ مسٹر بولسنارو گزشتہ ماہ ان تحقیقات کا ہدف بن گئے تھے ، اور ان کے کئی ساتھیوں سے پوچھ گچھ یا حراست میں لیا گیا ہے۔
اس ہفتے، جیسن ملر۔مسٹر ٹرمپ کے ایک سابق مشیر کو تین گھنٹوں کے لیے ملک کے دارالحکومت برازیلیا کے ایک ہوائی اڈے پر حراست میں لیا گیا جہاں انہوں نے ایک قدامت پسند سیاسی کانفرنس کے لیے سفر کیا تھا۔ ایک انٹرویو میں ، مسٹر ملر نے کہا کہ حکام نے انہیں بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر ان سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز تھا۔ “یہ واقعی ظاہر کرتا ہے کہ برازیل کے ملک میں کتنی آزاد تقریر حملہ کی زد میں ہے۔”
مسٹر بولسونارو ، جو دائیں بازو کے ایک پاپولسٹ ہیں ، جنہوں نے 2018 میں صدارتی انتخاب جیتا ، طویل عرصے سے مسٹر ٹرمپ سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے حالیہ اقدامات – بشمول دھاندلی زدہ انتخابات کے دعوے ، کورونا وائرس کا شکوک و شبہات اور بگ ٹیک سنسرشپ کے بارے میں شکایات – نے مماثلت کو مزید گہرا کردیا ہے۔
مسٹر ٹرمپ نے اس سال اپنا لاؤڈ اسپیکر کھو دیا جب ٹیک کمپنیاں۔ اسے اپنی سائٹوں سے نکال دیا جنوری میں امریکی دارالحکومت کے طوفان سے متعلق تبصرے کے لیے۔
حال ہی میں ، مسٹر بولسنارو نے بڑی ٹیک کمپنیوں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیر کے روز ، اس نے ٹوئٹر اور فیس بک پر لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ٹیلی گرام پر اس کی پیروی کریں ، ایک پیغام رسانی کی خدمت جس میں مواد کے حوالے سے زیادہ توجہ ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں انٹرنیٹ قانون پڑھانے والی ڈیفنی کیلر نے کہا کہ قدامت پسند سیاستدانوں نے امریکہ ، پولینڈ اور میکسیکو میں برازیلین اقدام جیسے قوانین تجویز کیے ہیں ، لیکن یہ کوئی بھی منظور نہیں ہوا۔
محترمہ کیلر نے کہا ، “اگر پلیٹ فارمز کو ہر ایک چیز جو قانونی ہے لے کر جانا ہے تو وہ خوفناک سیسپول میں بدل جائیں گے جسے کوئی بھی استعمال نہیں کرنا چاہتا۔” “حکومت کے لیے یہ ایک طریقہ کار ہے کہ وہ اپنے انگوٹھے کو ترازو پر رکھے تاکہ انٹرنیٹ پر کیا دیکھا جائے۔”
لیس موریکونی نے رپورٹنگ میں تعاون کیا۔
Source link
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
نیواڈا سینیٹ کی دوڑ: لکسلٹ نے ریاست میں ریپبلکن رن کا آغاز کیا جو کہ جی او پی 2022 کا ایک اعلی ہدف ہے۔
نیواڈا سینیٹ کی دوڑ: لکسلٹ نے ریاست میں ریپبلکن رن کا آغاز کیا جو کہ جی او پی 2022 کا ایک اعلی ہدف ہے۔
Tumblr media
خصوصی: سابقہ نیواڈا اٹارنی جنرل ایڈم لیکسلٹ۔ منگل کو باضابطہ طور پر اپنی امیدواری کا اعلان کیا۔ سینیٹ ایک ___ میں ریپبلکن 2022 میں پہلی مدت کے ڈیموکریٹک سین کیتھرین کارٹیز مستو کو بے دخل کرنے کی بولی۔ وسط مدتی انتخابات.
“بنیاد پرست بائیں بازو ، امیر اشرافیہ ، کارپوریشنز ، اکیڈمیا ، ہالی ووڈ ، اور میڈیا جاگ گئے – وہ امریکہ پر قبضہ کر رہے ہیں ،” لکسلٹ نے پہلے فاکس نیوز کے ساتھ شیئر کیے گئے ایک بیان میں الزام عائد کیا۔
پانچ بڑے سوالات بطور GOP ٹرائیز 2022 میں سینیٹ کو جیتنے کے لیے
لکسلٹ نے ڈیموکریٹس پر “ان کے راستے میں کھڑے ہونے والوں کو منسوخ کرنے” کا الزام لگایا اور استدلال کیا کہ “ہمیں ان کے راستے میں کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ یہ صرف ہمارا نہیں ہے۔ ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کے مقروض ہیں۔ میں اس کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ٹھیک ہے۔ امریکی یہی کرتے ہیں۔ یہی میراث ہے جس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ “
نیواڈا ان اولین اہداف میں سے ایک ہے جو جی او پی اگلے سال کے مڈٹرمز میں نیلے سے سرخ تک پھسلنے کا ارادہ رکھتی ہے ، جب پارٹی کو 2020 کے انتخابی چکر میں ہارنے والی سینیٹ کی اکثریت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے صرف ایک نشست حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
اور لکسلٹ ، این۔ عراق۔ جنگ تجربہ کار اور نیواڈا کے مرحوم گورنر اور سینیٹر پال لکسلٹ کے پوتے ، جی او پی کے لیے متفقہ امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک اتحادی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ، اور دیرینہ کے قریب ذرائع۔ سینیٹ جی او پی لیڈر مچ میک کونل۔ فاکس نیوز کو بتائیں کہ ممکنہ طور پر کینٹکی ریپبلکن کی توثیق اگلے ہفتوں میں ہو سکتی ہے۔
اپنی مہم کا اعلان کرتے ہوئے ایک ویڈیو میں ، لکسلٹ نے روشنی ڈالی کہ “9/11 کے بعد ، میں نے رضاکارانہ طور پر اس میں خدمات انجام دیں بحریہ. میں نے ہر نسل اور پس منظر کے دیگر مردوں اور عورتوں کے ساتھ مل کر عراق میں خدمات انجام دیں۔ ہم سب امریکی اپنا کردار ادا کر رہے تھے ، اس عظیم قوم کا دفاع کرنے والوں سے ان کا دفاع کر رہے تھے۔ “
اور 42 سالہ رینو میں مقیم اٹارنی ، لاکالٹ نے یہ دکھایا کہ نیواڈا کے اٹارنی جنرل کے طور پر اپنے چار سالوں کے دوران ، “میں نے اپنے آئین اور امریکی طرز زندگی کے لیے لڑا۔ میں متاثرین کے لیے کھڑا ہوا۔ عصمت دری اور انسانی اسمگلنگ کے شکار سرپرستی کے غلط استعمال اور اوپیئڈ بحران کے شکار۔ “
انہوں نے نوٹ کیا کہ “ہمارے ملک کو آزاد رکھنے کی جنگ ختم نہیں ہوتی۔ اگر کچھ بھی ہے تو ، داؤ ہماری زندگی میں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسی وجہ سے میں سینیٹ کے لیے انتخاب لڑ رہا ہوں۔”
نصف 2021 کے دوران ، یہ پانچ سینیٹر اب بھی 2022 کے بارے میں ماں ہیں
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ اس کے بچے “سٹار وار” کے بڑے پرستار ہیں ، انہوں نے کہا کہ “ہم نے تمام نو فلمیں دیکھی ہیں ، دو بار… اور گنتی۔ انہیں یہ پسند ہے کیونکہ یہ صحیح اور غلط کی کہانی ہے۔ اچھا بمقابلہ برائی۔”
اور اس نے دلیل دی کہ اس کی مہم “آسان جنگ نہیں ہوگی۔ ہم ڈیوڈ ہیں ، وہ گولیت ہیں۔ ہم باغی ہیں ، وہ سلطنت ہیں۔ لیکن ہم امریکہ ہیں۔ ہم اچھے لوگ ہیں۔ اور اس کے لیے ہمارے تمام بچے ، ہم برے لوگوں کو جیتنے نہیں دیں گے۔ “
نیو میکسیکو کے سابق ریپبلکن سین پیٹ ڈومینیکی کے بیٹے لکسلٹ نے 2014 کے انتخابات میں نیواڈا میں ریاست بھر میں کامیابی حاصل کی اور ملک کے سب سے کم عمر اٹارنی جنرل کی حیثیت سے تاریخ رقم کی۔ وہ 2018 میں ناکام ہوکر گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اب حکومت سے بہت کم ہار گئے۔ اسٹیو سیسولک۔
دو سال بعد ، لکسلٹ نے نیواڈا میں ٹرمپ کی 2020 کی مہم کے شریک چیئر کے طور پر خدمات انجام دیں اور الیکشن کے فورا بعد ناکام ہونے والے ناکام قانونی دھکے کے رہنماؤں میں سے ایک تھے جو بائیڈن کی۔ ریاست میں استرا پتلی فتح
لکسلٹ ریپبلکن نامزدگی کی دوڑ میں تیسرا امیدوار بن گیا ، جس کا فیصلہ اگلے جون کے پرائمری میں کیا جائے گا۔ اور وہ دوسرا تجربہ کار ہے ، جو سیم براؤن میں شامل ہو رہا ہے۔ فوج۔ جنگ میں افسر شدید زخمی ہوا۔ افغانستان۔.
Tumblr media
نیواڈا کے سابق اٹارنی جنرل ایڈم لیکسلٹ 14 اگست 2021 کو گارڈنرویل ، نیو میں اپنے چھٹے سالانہ باسک فرائی سے خطاب کر رہے ہیں۔
ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں نے مہینوں تک لکسلٹ کی بولی کی توقع کی۔ اور جب کہ لکسلٹ ہفتہ کو اپنی زیر التواء خبروں کے بارے میں خاموش رہا ، اپنے چھٹے سالانہ باسک فرائی کے دوران ، قدامت پسند اجتماع میں دو نمایاں مقررین اور نیواڈا ریپبلکن کے لیے فنڈ ریزر کرنے والے نے ان کی تمام اعلان کردہ مہم کی تعریف کی۔
ٹرمپ کی کابینہ کے سابق رکن ریک گرینل نے تقریبا 4 4000 کے ہجوم کو بتایا کہ وہ منگل کو باضابطہ اعلان کی توقع کریں گے۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اور سین ٹام کاٹن۔ آرکنساس کے ، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ڈیموکریٹس کانگریس کے دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرتے ہیں ، نے پیش گوئی کی ہے کہ “ہم 2022 میں آنے والی تبدیلی کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں ، اور یہ تبدیلی یہاں نیواڈا میں شروع ہوتی ہے ، جب ایڈم لیکسلٹ کیتھرین کارٹیز مستو کو پیکنگ گھر بھیجتا ہے۔”
لیکن مغربی میدان جنگ کی ریاست میں کورٹیز مستو کو ہرانا آسان نہیں ہوگا۔ سابق دو مدت کے نیواڈا اٹارنی جنرل نے 2016 کی دوڑ میں ریپبلکن جو ہیک کو ڈھائی پوائنٹس سے شکست دی تاکہ سینیٹ کے ڈیموکریٹک لیڈر ہیری ریڈ کو ریٹائر کیا جا سکے۔ اس نے سینیٹ کے لیے منتخب ہونے والی پہلی لاطینی کی حیثیت سے تاریخ رقم کی۔
Source link
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
کورونا وائرس: بھارت کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑھے گا
نیو یویارک(  جی سی این رپورٹ) بھارتی ادارے سینٹر فار ڈیزیز ڈائنیمکس، اکانومکس اور پالیسی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رامانن لکشمینارائن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کو کورونا وائرس کیسز کے ”سونامی“ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر علم ریاضی کی بنیاد پر کورونا وائرس کے کیسز سے متعلق جو اندازے برطانیہ اور امریکہ میں لگائے گئے ہیں اگر ان کا اطلاق بھارت پر بھی کیا جائے تو ملک میں بہت جلد 30 کروڑ کیسز سامنے آ سکتے ہیں جن میں سے چالیس سے پچاس لاکھ کیسز کی نوعیت شدید ہو سکتی ہے بھارت نے پہلے ہی متعدد اقدامات کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاو¿ کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں ملک میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک 149 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم صحت کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت نے کورونا کے بہت کم ٹیسٹ کیے ہیں یا کیس رپورٹ ہی نہیں کیئے گئے.بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کے بعد ملک میں عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولیات محدود کی جا رہی ہیںپبلک ٹرانسپورٹ جیسے کہ ٹرینیں اور بسیں ملک کی بیشتر آبادی کا ذریعہ نقل و حمل ہے. بھارتی ریاست پنجاب میں تمام پبلک ٹرانسپورٹ فوری طور پر معطل کر دی گئی ہے دارالحکومت دہلی میں بھی میٹرو اب پرہجوم سٹیشنوں پر نہیں رکے گی جبکہ اس کی آمدوروفت کے اوقات میں بھی تبدیلی کی گئی ہے جبکہ مسافروں کی سکیننگ بھی کی جا رہی ہے. ممبئی میں بھی اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ پبلک ٹرینوں کو آنے والے دنوں میں معطل کر دیا جائے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اودے ٹھاکرے کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرینوں کو خالی دیکھنا چاہتے ہیں ملک کے بڑے شہروں میں بسوں میں مسافروں کے کھڑے ہونے پر پہلے ہی پابندی عائد کی جا چکی ہے جبکہ ان کی تعداد میں بھی کمی کر دی گئی ہے.سری لنکا نے عام انتخابات ملتوی کرتے ہوئے آج سے مقامی وقت کے مطابق شام 6بجے سے سوموار صبح6 بجے تک ملک گیر کرفیو لگانے کا اعلان کیا ہے صدر گوٹابایا راجہ پکسے نے اس سے قبل کہا تھا کہ الیکشن ملتوی کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا انھیں امید تھی کہ وہ اس مرتبہ پارلیمان میں دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے جس کے بعد وہ آئین میں تبدیلی کر پائیں گے. تاہم گذشتہ چند دنوں میں ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور گذشتہ تین دنوں میں متاثرہ افراد میں دگنا اضافہ ہوا ہے سرکاری میڈیکل افسران کی تاجر یونین نے خبردار کیا ہے کہ سری لنکا میں کیسز میں اضافے کی شرح اٹلی سے بھی زیادہ ہے.امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 10000 سے تجاوز کر گئی ہے جانز ہاپکنز کے مطابق دنیا بھرمیں اس وقت مصدقہ مریضوں کی تعداد اڑھائی لاکھ کے قریب ہے اور تیزی سے بڑھ رہی ہے.فلپائن میں محکمہ ٹرانسپورٹ نے کہا ہے کہ غیر ملکی افراد کے ملک میں داخلے پر پابندی کا نفاذ اتوار رات 12 بجے سے کیا جائے گا فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں تمام پراوزیں پہلے ہی معطل کر دی گئی ہیں جبکہ سکولز بھی بند ہیں اور پولیس اور آرمی افسران کو قرنطینہ مراکز کے باہر سکیورٹی پر تعینات کیا گیا ہے.منیلا میں برطانوی سفارت خانے کے مطابق 200 کے قریب برطانوی شہری اس وقت ملک میں موجود ہیں جو ان سفری پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں تاہم فلپائن حکومت کا کہنا ہے کہ تمام غیرملکی افراد کو کسی بھی وقت ملک سے جانے کی اجازت ہو گی ملک میں اب تک کورونا وائرس کے 217 کیسز سامنے آ چکے ہیں تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے.ادھر دوا سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی تیاری میں 12 سے 18 ماہ لگ سکتے ہیں دواساز کمپنیوں کی عالمی تنظیم کے نمائندوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس میں دنیا کی بڑی دوا ساز کمپنیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس مقصد کے لیے وہ ادویات کی تیاری کے لیے طے شدہ قوائد و ضوابط میں تو نرمی لا سکتے ہیں تاہم ویکسین کی تلاش میں ٹیسنگ کے عمل میں جلد بازی نہیں کی جا سکتی ان کے مطابق چونکہ یہ ویکسین صحت مند لوگوں کو دی جا رہی ہوگی اس لیے وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی کسی کوتاہی کی وجہ سے کوئی بھی شخص بیمار ہو جائے ماہرین کے مطابق اگر ایسا ہوگا تو دنیا بھر میں لوگ ویکسین کی افادیت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں گے. تاہم ماہرین پہلے سے موجود ادویات پر بھی تجربات کررہے ہیں کہ شاید کچھ دوائیوں کو ملا کر وباءکی روک تھام یا کم کرنے کے لیے کوئی دوائی بنائی جاسکے ا س سلسلہ میں فرانس اور امریکا میں ملیریا کی بعض ادویات کو تجرباتی طور پر مریضوں کو دینے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے. جنوبی امریکا کے ممالک میں کورونا کی وباتیزی سے پنجے گاڑرہی ہے اور پورے براعظم امریکا میں کوئی بھی ملک اس وباءمرض سے محفوظ نہیں رہا البتہ بحرالکاہل کے بعض جزائردنیا سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اب تک محفوظ ہیں . پورے براعظم امریکا میں ریاست ہائے متحدہ امریکا (یوایس اے)کی تمام پچاس ریاستوں میں وائرس سے متاثرہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں‘کینیڈا کے بھی کئی صوبوں میں کیس رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ میکسیکو سے لے کر چلی کر جنوبی امریکا کا کوئی بھی ملک اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں . تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ارجنٹا ئن جنوبی امریکہ میں لاک ڈاﺅن ہونے والا پہلا ملک بن چکا ہے تمام شہریوں پر رواں ماہ کے آخر تک کھانے پینے کی اشیا اور دوائیاں خریدنے کے علاوہ گھروں سے نکلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے.لاطینی امریکہ میں اب تک کورونا کے کیسز کی تعداد یورپ میں متاثرہ افراد کے اعداد و شمار تک تو نہیں پہنچی تاہم بتایا کہ سامنے آنے والے فیصلوں سے لگتا ہے کہ جنوبی امریکی ملکوں کی حکومتیں اس حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی.ادھر امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیوین نیوسوم نے کہا ہے کہ وہ لوگوں سے گھر پر رہنے کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے سماجی دباﺅ پر منحصر ہیںچنانچہ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ چند یورپی ممالک کے برعکس جہاں لوگوں پر گھروں سے باہر نکلنے پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں، وہاں کیلیفورنیا میں اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں نہیں آئیں گے.پریس کانفرنس کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ ریاست میں جو غیر رجسٹرڈ تارکین وطن ہیں، کیا وہ ڈاکٹرز کے پاس جا پائیں گے تو اس پر گورنر کا کہنا تھا کہ کیلیفورنیا میں بلا امتیاز طبی سہولیات سب کے لیے موجود ہیں ‘پبلک پالیسی انسٹیٹیوٹ آف کیلیفورنیا کے مطابق ریاست میں 23 لاکھ سے 26 لاکھ کے درمیان غیر رجسٹرڈ تارکینِ وطن موجود ہیں. گورنر نیوسوم نے کہا کہ انھیں علم ہے کہ کیلیفورنیا میں ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف نسل پرستانہ رویہ رکھا جا رہا ہے یہاں تک کہ لوگوں کی جائے پیدائش اور ان کے چہرے کے خدوخال کی وجہ سے ان پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے.انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ یہ مرحلہ انسانیت کی مشترکہ بنیادوں پر غور کرنے کا ہے انہوں نے کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے کیلیفورنیا کے لیے ایک ارب ڈالر امداد کی بھی اپیل کی ہے‘نیویارک کے میئرنے ریاست کے گورنر سے اپیل کی ہے کہ وہ نیویارک شہر میں نیشنل گارڈتعینات کرنے کا حکم دیں امریکی آئین کے مطابق یونین میں شامل ہر ریاست جس طرح اپنا جھنڈا اور مقامی قوانین رکھ سکتی ہے اسی طرح ہر ریاست فوجی ونیم فوجی دستے بھی رکھ سکتی ہے جنہیں نیشنل گارڈزکہا جاتا ہے .کورونا وائرس نے دنیا کی 7بڑی اقتصادی طاقتوں کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ جون میں امریکا کے کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والا سربراہی اجلاس ملتوی کردیں جی 7 دنیا کے سات ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم ہے جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں مگر اس وقت یہ تمام ممالک کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بحرانی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور معیشتوں پر وائرس کے متوقع اثرات سے نمٹنے کی تیاری کر رہے . بتایا جارہا ہے کہ جی7کانفرنس کیمپ ڈیوڈ میں نہیں ہورہی وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جوڈ ڈیر کا کہنا ہے کہ تمام میٹنگز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہوں گی تاکہ تمام ممالک اپنے تمام تر وسائل کو کووِڈ 19 سے جنم لینے والے طبی اور معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے استعمال کر سکیں. ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے عالمی راہنماﺅں کو کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے کے بارے میں سخت انتباہ جاری کیا ہے انٹونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ اگر ہم وائرس کو جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے دیں خاص طور پر دنیا کے انتہائی کمزور خطوں میں تو یہ لاکھوں افراد کو ہلاک کردے گا. انہوں نے کہا کہ عالمی یکجہتی نہ صرف اخلاقی ضروری ہے، بلکہ یہ ہر ایک کے مفاد میں ہے صحت کے شعبے میں آنے والی اس تباہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم صحت کے کمزور ترین نظام کی طرح ہی مضبوط ہیں. اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ معاشی طور پر کمزور طبقے، کم اجرت والے مزدوروں ، اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد کی مدد کریں. Read the full article
0 notes