. مرگ یعنی: بروی تا قدم اخر عشق و بگویند: بمان، وصلتتان قسمت نیست... #آنا_جمشیدی . #قسمت #ازدواج #اشعارناب #آبان #شعر_تلخ #تک_بیت #شاه_بیت #بیت_ناب #بیت_عاشقانه #غزل_ناب #شعر #مشاعره #شکست_عشقی #حافظ #سعدی #عطار #مولانا #کوروش https://www.instagram.com/p/CkTWAM_qTPM/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
نواز شریف کا ورکرز کو خط
آج میں دل کی کچھ باتیں آپ کیساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خط آپ تک پہنچنے سے پہلے سیاسی مخالفین میرے ناشتہ کرنے کی تصویر پر ہنگامہ برپا کر چکے ہوں گے۔ اُنہیں میری تصویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہو گا کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ نواز شریف بسترِ علالت پر یوں دراز ہو کہ منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہو اور چلنے پھرنے سے یا بات کرنے سے قاصر ہو لیکن اُن کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ یہ ذہنی مریض اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ کسی سے ملنے جلنے یا باہر کسی ریستوران پر جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بیماری ڈھونگ ہے اور اب اس شخص کو کوئی مرض لاحق نہیں۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ سب پاکستان میں ہونے والی حالیہ پیشرفت کے باعث سکتے کی کیفیت میں ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یہ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عصر کے وقت روزہ کیوں توڑ دیا۔ بھانت بھانت کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف مجھے اس تنقید سے دُکھ ہو رہا ہے تو دوسری طرف یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ میری جدوجہد بےثمر نہیں رہی اور اب ہمارے معاشرے میں ووٹ کی حرمت کا تصور راسخ ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخلص کارکن بھی نہ صرف قیادت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں بلکہ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔
عزیز ساتھیو!
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے اس بیانیے کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جو لوگ میرے مزاج سے واقف ہیں، انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک بار جو ٹھان لیتا ہوں وہ کر کے رہتا ہوں۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔ اگر مجھے ڈیل کرنا ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حکومتی وزرا بھی برملا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف سمجھوتہ کر لیتا تو چوتھی بار بھی وزیراعظم ہوتا مگر میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو ڈکٹیشن لیتے ہیں یا شکست کے خوف سے سرنڈر کر دیتے ہیں۔
میں نے اپنی بیوی کو بسترِ مرگ پر تنہا چھوڑ کر اپنی بیٹی کیساتھ لندن سے واپس آکر گرفتاری اس لئے دی کہ مجھ پر اعتماد کرنے والوں کو مایوسی نہ ہو۔
میں جیل کی سختیوں اور مشکلات سے نہیں گھبرایا ۔ میں ذہنی طور پر اس بات کیلئے بھی تیار تھا کہ شاید مجھے جیل میں ہی مار دیا جائے۔ جب ان کٹھن ترین حالات میں نوازشریف نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تو اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ چند سانسیں اُدھار لینے کیلئے میں تاریخی کردار سے روگردانی کر لیتا ؟ ڈیل کا طعنہ دینے والے بتائیں کہ ڈیل کے ذریعے مجھے کیا عطا کیا جا سکتا ہے؟ وہ اقتدار جسے میں ٹھوکر مار کر آیا ہوں؟ سانسوں کی وہ ڈور جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے اس کیلئے بھیک مانگنے کی حماقت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے شہباز شریف صاحب یا پھر اپنی بیٹی مریم کیلئے قربانی دی ہے، وہ بھی مغالطوں کا شکار ہیں۔
سویلین بالادستی کے علم بردارو!
میں جیل میں یا پاکستان کے کسی ہاسپٹل میں مر جاتا اور میں ذہنی طور پر موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھا لیکن کیا ایک اور چراغ بجھ جانے سے اندھیرے چھٹ جاتے؟ کیا میری موت سے ووٹ کو عزت مل جاتی اور سویلین بالادستی کی منزل حاصل ہو جاتی؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے بجائے زندہ رہ جاتا تو کیا آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ سچ یہ ہے کہ میں نے دوراندیشی اور حکمت کے تحت دریا پار کرنے کیلئے فی الحال ڈوب جانے کا فیصلہ کیا۔ میں تو کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوقین نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ سیاست گر اور جادو گر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں۔
سیاستدان کو بھی جادوگر کی طرح بعض ایسے کرتب دکھانا پڑتے ہیں جو دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ مریم نے ایک بار امریکی اسکالر، ایچ ایل میکن سے منسوب قول بتایا تھا کہ بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا نام جمہوریت ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان جیسے ملک میں ووٹ کو عزت دلانے کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لینا پڑتی ہے جس کے سبب آپ بیمار ہوئے۔
ووٹ کو عزت دو کے پاسدارو!
یہ راج نیتی کا کھیل شطرنج کی بازی سے بھی کہیں زیادہ ناقابلِ فہم ہے۔ مخالف کو شہ مات دینے اور بڑی چال چلنے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ نے پسپائی اختیار کر لی۔ زہر کا اثر ختم کرنے کیلئے زہر کو ہی تریاق بنانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک بار پھر جسم میں زہر اُتارنے کی حماقت کی جا رہی ہے۔ م��ں نے ووٹ کو عزت دلانے اور سویلین بالادستی کا مقام پانے کیلئے جو چال چلی ہے اس کی علامات تو فوری طور ہر ظاہر ہونے لگی ہیں البتہ چند ماہ بعد اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
آپ بددل ہونے کے بجائے اپنے دوستوں کو یہ فلسفہ سمجھائیں، اُنہیں بتائیں کہ اگر آپ کو ہماری جماعت کی موجودہ سیاسی چال کی سمجھ نہیں آئی تو شعیب منصور کی فلم ’’ورنہ ‘‘ دیکھیں۔ اگر یہ فلم دیکھنے کے بعد بھی کوئی ہونقوں کی طرح منہ تکتا نظر آئے تو محض یہ کہنے پر اکتفا کریں۔ ’’ارے او بوندھو! تم کیا جانو! دو چٹکی راج نیتی کا سواد۔‘‘ فی الحال اجازت دیں۔ ڈاکٹر عدنان کہہ رہا ہے کہ رائل برومپٹن ہاسپٹل (Royal Brompton Hospital) چیک اپ کیلئے جانا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہوا خوری کیلئے دن میں دو بار گھر سے باہر نکلنے کو کہا ہے اس لئے ممکن ہے آئندہ دنوں میں مزید تصویریں سیاسی مخالفین کی چھاتی پر مونگ دلتی نظر آئیں۔
آپ کا اپنا
نوازشریف
ایون فیلڈاپارٹمنٹس،مے فیئر، لندن
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note
·
View note
25 فروردین بزرگداشت عطار نیشابوری
25 فروردین بزرگداشت عطار نیشابوری
25 فروردین بزرگداشت عطار نیشابوری
عطار نیشابوری که از افرادی مشهور و سرشناس و تاثیرگذار در ادبیات فارسی بوده است آثاری بسیاری از خود برجای گذاشت که شامل: اسرارنامه-الهینامه-منطقالطیر-مصیبتنامه-مختارنامه-تذکرةالاولیاء-دیوان اشعار می باشد.وی در نهایت در کنار دروازه شهر به دست سربازان مغول کشته شد.
روز 25 فروردین ماه در تقویم رسمی کشور به نام عطار نیشابورینامگذاری شده است و همه ساله مراسم…
View On WordPress
0 notes
🌱 بوستان جان دوست امروز با دوست فرهیخته ام جناب آقای علی جمشیدی بودم. به ایشان گفتم از دوران مدرسه و دانشگاه آموزه های چندان درخوری ندارم و آنچه در زندگی کرامند بود از دوستان ارجمندم آموختم و سپاس گزار همه ی آن ها هستم. یکی از آن آموزه های زیبا را هم از همین دوست نازنینم آقای جمشیدی به یادگار دارم. در یکی از طبیعت گردی هایی که با هم رفته بودیم ایشان فرمودند ما باغ دارها اگر درختان و باغ بار و میوه ای داشته باشد نخست از آن پرندگان و جانوران دیگر است سپس مردمی که از آنجا گذر می کنند و دوستان و دست آخر اگر چیزی ماند از آن دارنده ی باغ هست. اکنون این سخن و کردار نیک را با آن ها که عکس از نوشته ی جلو باغ آن ها داریم که نوشته ورود خطر مرگ یا باغ شخصی ورود ممنوع ، و ... بسنجید و ببینید آدم ها تا چه اندازه پندار و کردار های گوناگونی دارند. آن مایه ز دنیا که خوری یا پوشی معذوری اگر در طلبش میکوشی باقی همه رایگان نیرزد هشدار تا عمر گرانبها بدان نفروشی 🍁❤️🍁 گر یک نفست ز زندگانی گذرد مگذار که جز به شادمانی گذرد هشدار که سرمایه سودای جهان عمرست چنان کش گذرانی گذرد ❄️ #خیام به این باورم که فرهیختگانی همچون #مولوی #فردوسی ، #سعدی ، #عطار، حافظ، خیام و ... الگوی نیکو و پسندیده ای برای زندگی مردمان جهان هستند و گرایش مردم به منش آن ها می تواند ما را به زندگی آرامش بخش، شاد، آشتی جویانه همرا با بهرهمندی از #خرد_گروهی و #همکاری_همگانی و عاشقانه زیستن رهنمود کند. ❤️ #حافظ : من ترک عشق شاهد و ساغر نمیکنم صد بار توبه کردم و دیگر نمیکنم باغ بهشت و سایه طوبی و قصر و حور با خاک کوی دوست برابر نمیکنم تلقین و درس اهل نظر یک اشارت است گفتم کنایتی و مکرر نمیکنم هرگز نمیشود ز سر خود خبر مرا تا در میان میکده سر بر نمیکنم شیخم به طعنه گفت حرام است می مخور گفتم به چشم و، گوش به هر خر نمی کنم پیر مغان حکایت معقول می کند معذورم ار محال تو باور نمی کنم این تقوی ام تمام که با شاهدان شهر ناز و کرشمه بر سر منبر نمیکنم حافظ جناب پیر مغان جای دولت است من ترک خاک بوسی این در نمیکنم #حافظ #عاشقانه_زیستن #بومگردی #زندگی #شادی #عشق #مادر_زمین 🌱 #از_خودمان_آغاز_کنیم #ساده_زیستی #کلبه #گردشگری #بومگردی #محسن_موسوی_زاده 09153093733 #پدر_اوریگامی_ایران #ایده_پرداز #طراح #عکاس #طبیعت #تسهیلگر #میراث_فرهنگی همه ی زیستمندان به یک اندازه حق زندگی دارند. 🌱@amootour کانال طبیعت (at Mashhad مشهـد) https://www.instagram.com/p/CG5NyLGH-6h/?igshid=1eyrd784ton87
0 notes
در چهار دههی کنونی در ایران، همانگونه که درهای اقتصادی و اجتماعی یکییکی بسته میشوند و مهر و موم، با انقطاع فرهنگی نیز روبرو هستیم. هژمونی ضدفرهنگ و تمدنستیز حاکم بر ایران، جریانهای ارتباط فرهنگی نسل جدید با فرهنگ و هنر ایران را مسدود کرده تا پس از قتل و تبعید روشنفکران، سانسور کتاب و سینما و تئاتر، ممنوعیت کنسرتهای موسیقی و ابطال مجوز نمایشگاهها به کتابهای اختهی آموزشی امروز، به سینمای تحریفشدهی امروز، به صدا و سیمای دروغین امروز و به سلبریتیهای تهی امروز برسیم. در این فضای سترونشده، کودکان و نوجوانان دههی ۸۰ و ۹۰ قادر به حفظ ارتباط تاریخی خود با میراث فرهنگی ایرانزمین نیستند. ادبیات و موسیقی کلاسیک ایران فراموش میشود، هنر مدرن ایران از یاد میرود و ابتذال و رانت و پروپاگاندای ضدفرهنگ ریشه میدواند. به همین دلیل معتقدم وظیفهی نویسندگان و هنرمندانی که دل در گرو فرهنگ و تمدن ایرانزمین دارند، پس از مرگ چهرههای فرهنگی معاصر، بیش از افسوس و سوگواری است. گفتن و نوشتن مداوم از میراث فرهنگی ما، از فردوسی و عطار و سعدی و خیام تا فریدون رهنما و احمد تفضلی و جلیل ضیاپور و ایرج افشار، «برای نسل جوان» شاید مهمترین مبارزهی فرهنگی دوران ما باشد. یادآوری فعالیتهای چهرههای فرهنگ و تمدن ایران به دور از حب و بغض و با تمرکز بر خدمات فرهنگی هزاران شاعر و نویسنده و موسیقیدان و نقاش و مورخ و پژوهشگر که راه دیده شدن، خوانده شدن و شنیده شدنشان بسته شده، سبب کاهش گسست فرهنگی در سرزمینی میشود که روزگاری نه چندان دور، جهانیان آن را نه با جنگ و ظلم و اعدام و فقر که با هنر و معماری و فرهنگش میشناختند. پرترهی #محمدرضا_شجریان از استاد بزرگوار فخرالدین فخرالدینی https://www.instagram.com/p/CGFo6OAAp_r/?igshid=qnoj0wb0idwo
0 notes
مادر سرایش پارسی هفت شهریور ۳۲۲: ۱۰۷۷ سال پیش در چنین روزی #رابعه #بلخی در بلخ (مزار شریف افغانستان کنونی) کشته شد: "خوردیم ز تو خون و نخوردی غم ما در پای تو مُردیم و سر مات نبود". رابعه بنت کعب قزداری در سال ۲۹۳ در بلخ زاده شد. پدرش فرمانروای بخشی از خراسان بزرگ بود. آنچه از زندگی او میدانیم، داستانسراییهایی است که سرایندگان و تذکرهنویسان روایت کردهاند و شناختهترین آنها در حکایت ۲۱ الهینامه عطار آمده است: "امیری سخت عالیرای بودی که اندر حد بلخش جای بودی یکی دختر در ایوان بود نیزش که چون جان بود شیرین و عزیزش". او همان اندازه که از زیبایی و بیباکی در سوارکاری و شمشیرزنی بهرهمند بود، ذوق و هوش بسیاری در نگارگری و سرایش داشت: "چنان در شعر گفتن خوشزبان بود که گویی از لبش طعمی در آن بود". پدرش هنگام مرگ به برادر او سفارش کرد که به عنوان فرمانروای بعدی، او را به همسری یکی از شاهزادگان درآورد، اما او دل به کلیددار خزانه برادرش داد: "به نام آن ماهوش بکتاش بودی ندانم تا کسی همتاش بودی". او پنهانی چهرهاش را کشید و با غزلی برای دلدارش فرستاد، اما به او گفت که عشقش آسمانی است نه یک هوس زمینی. سراینده بنام، رودکی روزی با رابعه دیدار میکند و داستان و سرودههای پنهانی او را در حضور برادرش امیر حارث آشکار میسازد: "به صد دل عاشق است او بر غلامی در افتادست چون مرغی به دامی زمانی خوردن و خفتن ندارد به جز بیت و غزل گفتن ندارد". برادر با آشکار شدن راز، خشم میگیرد: "دل حارث پرآتش گشت از آن راز هلاک خواهر خود کرد آغاز". روشن نیست که این روایت تا چه اندازه درست و دقیق باشد. هرچه هست سرودههای صمیمانه و روایتها همه، زنی را میشناسانند که سرودههایش با زندگی کوتاه و پردردش سازگار بودند. او نخستین زن پارسیگوی تاریخ است و بیپرواییش در عشق و سرایش او را از پیشینیان راستین فروغ فرخزاد محسوب میکند، گو اینکه نوشتهاند برادرش سرودههای او را از میان برده و چند شعری بیشتر از او به جا نمانده است: "باز عشقت اندر آوردم ببند کوشش بسیار نامد سودمند عشق دریایی کرانه ناپدید کی توان کردن شنا ای هوشمند عشق را خواهی که تا پایان بری بسکه بپسندید باید ناپسند زشت باید دید و انگارید خوب زهر باید خورد و انگارید قند توسنی کردم ندانستم همی کز کشیدن تنگتر گردد کمند". رابعه بلخی در ۲۹ سالگی در زادگاهش درگذشت. https://www.instagram.com/p/CEcDTGuHfBi/?igshid=dggsa7tvbftw
0 notes
دروغ حناق هست یا نیست؟
زمانی نه چندان دور، به کسانی که راحت و زیاد دروغ می بافتند، می گفتند: «دروغ حناق نیست که بیخ گلوت رو بگیره.» ولی این مثل انگار در این روزگار بیشتر کاربرد دارد. دروغ که از بزرگترین گناهان دینی و آبرو برترین گناه های اجتماعی است، حالت نقل و نبات یافته و بدبختانه هر قدر روی صندلی بزرگ تری نشسته باشی، هم بزرگ تر دروغ می گویی هم آسان تر. دروغهایی که نه تنها حناق نمی شود تا گلو را بگیرد، که با آنها انگار راحت تر نفس می کشی و لابد میخندی به ریش دیگران یا حتی جامعه ای که دروغ و دروغهای تو شده است بلای جانشان. اصلا این حناق چیست؟ دروغ حناق هست یا نیست؟
اتاق با ح و تشدید روی نون، در اصل خناق بوده است با خ و بی تشدید. بعید نیست از زبان پدربزرگ ها و مادربزرگ ها آن را ناق یا خناق شنیده باشید. خناق واژه عربی همان بیماری معروف دیفتری است که از طب قدیم به زبان فارسی راه یافته و در گذر از این راه درازی کم کم نقطه خ آن در فارسی افتاده و تبدیل شده به حناق. دیفتری هم از بیماری هایی است که، در قدیم، اغلب کودکان و کهنسالان به آن دچار می شدند. باکتری دیفتری وقتی به بدن انسان راه می یابد، قسمت بالایی دستگاه تنفسی را دچار مشکل می کند و به مرور با درگیر کردن قلب و سیستم عصبی، بیمار را به مرگ می کشاند. از نشانه های آن، که به بحث شیرین دروغ خودمان هم مربوط می شود، گلودرد و صدای گرفته و دشواری در بلعیدن است. خلاصه و خودمانی اش می شود خفه شدن آدم.
این خناق در قدیم در معنای مجازی هم زیاد به کار می رفته است. حتى شاعرانی چون عطار و نظامی و منوچهری و وحشی بافقی و خاقانی و بیدل دهلوی و از همه بیشتر مولانا «خناق» را در کلامشان به معنای خفگی به کار برده اند. این دو بیت از مولوی از بهترین نمونه هاست: خون به جوش آمد ز شعله اشتیاق تا پدید آمد بر آن مجنون، خناق و این یکی:
تو خون تکبر اور نریزی خون جوش کند، خناق خیزد ولی کاربرد آن به همین مقدار محدود نیست. مصدر عربی «اختناق» در دو معنای خفه کردن و خفه شدن هم با خناق هم ریشه است که اتفاق در فارسی هم از پرکاربردترین مصدرهای قدیمی و هنوز زنده است؛ هم در دانش پزشکی از اختناق تنفسی گرفته تا اختناق رحم، هم در ادبیات سیاسی به معنای رعب و وحشتی که یک حکومت برای جلوگیری از آزادی مردم در جامعه ایجاد می کند. نمونه های آن هم که بسیار است، از برخی حکومت های اسبق اروپای امروز آزاد تا مثلا همین کره شمالی خودمان که مدرن ترین و باورنکردنی ترین نمونه اختناق سیاسی را به جامعه جهانی معرفی کرده است.
در زمانی نه خیلی دور، در نکوهش کسی که آشکارا و بی پروا دروغ می بافت، می گفتند: «دروغ که خناق نیست، گلوت رو بگیره.» در آن زمان خناق بیماری شایعی بود و قضاوتی هم به گستردگی امروز در کار نبود.
امروزه اما هر قدر این بیماری ریشه کن و کنترل شده، قضاوت عمومی نیرومندتر و گسترده تر شده و خناق اگر گلوی دروغگو را نگیرد، رسوایی و بی آبرویی یقه اش را سفت می چسبد و رها نمی کند؛ دست کم نه به این سادگی!
دروغ حناق هست یا نیست؟/ مزخرفات فارسی/ رضا شکراللهی
Read the full article
0 notes
مجموعه گلچین شعر حافظ با معنی و زندگی نامه حافظ شیرازی با رباعیات
حافظ
حافظ , درباره زندگی شاعر بزرگ پارسی مخصوصاً دوران جوانیاش اطلاعات حقیقی بسیارکمی در دسترس است. بلافاصله بعد از مرگ وی، بسیاری از داستان ها و برخی از نسبت های افسانه ای در حول زندگی اش نوشته شده است. در ادامه مطلب سعی کرده ایم تا اطلاعات دقیقی را که در مورد زندگی حافظ می دانیم برای شما بیان کنیم.همینطوری تعدادی از اشعار حافظ شیرازی را برای شما عزیزان آماده کرده ایم.
تولد حافظ
روز: بین سال های1310-1325 پس از میلاد یا 712 یا 727 هجری قمری . به احتمال زیاد تاریخ 1320 یا 1325 است.
مکان: شیراز در جنوب غربی ایران
نام: شمس الدین محمد
نام خانوادگی
نام مستعار: حافظ( به کسانی که قرآن را حفظ کرده باشند این عنوان داده می شود. گفته شده است که حافظ این کار را به 14 روش مختلف انجام داده است.)
عنوان کامل
خواجه شمس الدین محمد حافظ شیرازی
انواع مختلف املایی عبارتند از:خواجه شمس الدین محمد حافظ شیرازی،یا خوجه شمس الدین محمد حافظ شیرازی
پدر: بهاء الدین
برادران: او دو برادر بزرگتر داشت
همسر:
حافظ در بیست سالگی و با عشق خود یعنی شاخه نبات ازدواج کرد. کسی که نماد خالق زیبایی برای وی بود.
فرزندان:
حافظ یک کودک داشت.
رویداد های مهم زندگی حافظ
نوجوانی
او با گوش دادن به تلاوتهای پدرش، قرآن را حفظ کرد. همچنین او بسیاری از آثار سعدی، عطار، رومی و نظامی را حفظ کرده بود.پدرش که یک معامله گر زغال سنگ بود، درگذشت و او و مادرش را با بدهی های زیادی ترک کرد. حافظ به همراه مادرش به پیش عمویش رفتند تا با او زندگی کنند (که سعدی نام داشت). او مدرسه روز را ترک کرد تا در یک مغازه پارچه فروشی و سپس در یک نانوایی کار کند.
سن 21 ساله
در حالی که هنوز هم در نانوایی کار می کرد، او نان یک چهارم ثروتمندان شهر را تحویل می داد تا اینکه شاخه نبات، زن جوان زیبایی باور نکردنی را دید. مخاطب بسیاری از اشعار وی شاخه نبات است.به دنبال دستیابی به معشوق خود، او 40 روز و شب را در آرامگاه بابا کوی شب زنده داری کرد. پس از موفقیت در این امر، او عطار را ملاقات کرد و شاگردش شد.
اواخر دهه بیست و سی سالگی
تبدیل به یک شاعر از مکتب ابو اسحاق شد. شهرت و نفوذ زیادی در شیراز به دست آورد. این مرحله "رمانتیک معنوی" در شعر او بود.
سن 33 سال
مبارز مظفر شیراز را غصب کرد و در میان اعمال مختلف او حافظشیرازی را از موقعیت خود معلم مطالعات قرآنی اخراج کرد. در این زمان او اشعار اعتراضی نوشت.
سن 38 سال
شاه شجاع پدرش ظالمش را برکنار کرد و او را به عنوان یک معلم به مدرسه فرستاد. او در شعر خود فاز معنویت ظریف خود را آغاز کرد.
چهل ساله
رابطه اش با شاه شجاع خراب شد و به دردسر افتاد
سن 48 سالگی
حافظ به خاطر حفظ جان خود از شیراز فرار کرد و خودش را به اصفهان تبعید کرد. اشعار او عمدتا از میل خود به شیراز ،برای شاخ نبات و استاد روحانی او، یعنی عطار بود (منظور از عطار، فریدالدین عطار نیشابوری که در چندین قرن قبل از حافظ زندگی می کرده است نیست. بلکه استاد حافظ است که کمتر از عطار نیشابوری شناخته تر است)
سن 52 سال
با دعوت ��اه شجاع، او تبعید خود را به پایان رساند و به شیراز بازگشت. او به پست خود در مدرسه مجددا احضار شد.
سن 60 سالگی
او با خالق خود متحد شد، او 40 روز و شب را با نشستن در یک دایره که خودش را گرفته بود آغاز کرد.بعد از چلهل روز شب زنده داری که به مناسبت چهل و نهمین سالگرد آشنایی با استاد عطار بود، او به خانه استاد خود رفت و بعد از نوشیدن یک فنجان شراب که عطار به او داد، به درک خدا پی برد .
شصت به بعد
در این مرحله، تا سن 69 سالگی هنگامی که درگذشت، بیش از نیمی از غزالهایش را تشکیل داد و همچنان به دایره کوچکتری از شاگردانش آموزش داد. در این زمان به شعر او، کسی که با اقتدار یک استاد که با خدا متحد شده صحبت می کند گفته می شد.
اشعار حافظ
صوفی از پرتو می راز نهانی دانست
گوهر هر کس از این لعل توانی دانست
قدر مجموعه گل مرغ سحر داند و بس
که نه هر کو ورقی خواند معانی دانست
عرضه کردم دو جهان بر دل کارافتاده
بجز از عشق تو باقی همه فانی دانست
آن شد اکنون که ز ابنای عوام اندیشم
محتسب نیز در این عیش نهانی دانست
دلبر آسایش ما مصلحت وقت ندید
ور نه از جانب ما دل نگرانی دانست
سنگ و گل را کند از یمن نظر لعل و عقیق
هر که قدر نفس باد یمانی دانست
ای که از دفتر عقل آیت عشق آموزی
ترسم این نکته به تحقیق ندانی دانست
می بیاور که ننازد به گل باغ جهان
هر که غارتگری باد خزانی دانست
حافظ این گوهر منظوم که از طبع انگیخت
ز اثر تربیت آصف ثانی دانست
————
چه لطف بود که ناگاه رشحه قلمت
حقوق خدمت ما عرضه کرد بر کرمت
به نوک خامه رقم کردهای سلام مرا
که کارخانه دوران مباد بی رقمت
نگویم از من بیدل به سهو کردی یاد
که در حساب خرد نیست سهو بر قلمت
مرا ذلیل مگردان به شکر این نعمت
که داشت دولت سرمد عزیز و محترمت
بیا که با سر زلفت قرار خواهم کرد
که گر سرم برود برندارم از قدمت
ز حال ما دلت آگه شود مگر وقتی
که لاله بردمد از خاک کشتگان غمت
روان تشنه ما را به جرعهای دریاب
چو میدهند زلال خضر ز جام جمت
همیشه وقت تو ای عیسی صبا خوش باد
که جان حافظ دلخسته زنده شد به دمت
————
رباعیات حافظ
چون غنچهٔ گل قرابهپرداز شود
نرگس به هوای می قدح ساز شود
فارغ دل آن کسی که مانند حباب
هم در سر میخانه سرانداز شود
————
اول به وفا می وصالم درداد
چون مست شدم جام جفا را سرداد
پر آب دو دیده و پر از آتش دل
خاک ره او شدم به بادم برداد
————
از چرخ به هر گونه همیدار امید
وز گردش روزگار میلرز چو بید
گفتی که پس از سیاه رنگی نبود
پس موی سیاه من چرا گشت سفید
دیوان حافظ
از حدود 500 غزل، 42 رباعی و چند قصیده در مدت 50 سال سروده شده است. حافظ فقط وقتی می سرود که به وی الهام شود. به خاطر همین در سال حود 10 غزل می نوشت. تمرکز او برای نوشتن شعر ارزشمند معشوق بود.
دیوان گردآوری شده
حافظ این مجموعه شعرش را کامل نکرد و بعد از مرگ حافظ شخصی به نام محمد گل اندام مقدمه ای بر مجموعه حافظ نوشت و در سال 813 هجری قمری و یا 1410 یعنی حدود 21 تا 22 پس از فوت حافظ مجموعه را کامل کرد.
همچنین یکی دیگر از افرادی که شعر حافظ را تهیه کرده بود، یکی از شاگردان جوانش سید کاظم انور بود که 569 غزل منتسب به حافظ را جمع آوری کرد. او در سال 1431 یعنی حدود 42-43 سال پس از مرگ حافظ در��ذشت.
مرگ
تاریخ: در اواخر 1388 یا 1389 پس از میلاد یا 791 هجری قمری در سن 69 سالگی
مکان: شیراز
آرامگاه: در باغ مصلا و در کنار رودخانه رکنآباد در شیراز که به حافظیه مشهور است.
Read the full article
0 notes
تعبیر خواب در آغوش گرفتن
تعبیر خواب در آغوش گرفتن
تعبیر خواب در آغوش گرفتن در آغوش گرفتن مرده
روزی موسی زوار عطار نزد امام صادق (ع) آمد و گفت: یا ابن رسول اللَّه خوابی دیدم که مرا بهراس انداخته و در خواب دیدم دامادم که مرده مرا در آغوش گرفته و میترسم مرگم نزدیک باشد فرمود: ای موسی مرگ را در هر بام و شام منتظر باش ولی همآغوشی مردهها با زنده عمر آنها را درازتر کند.
تعبیر خواب آغوش گرفتن و بغل کردن
لوک اویتنهاو میگوید: کسی را در آغوش کشیدن:…
View On WordPress
0 notes
Flw⏩ @Asharenabir . عین مرگ است اگر بی تو بخواهد برود او که از جان خودت دوست ترش می داری . . #سید_تکتم_حسینی #تکتم_حسینی . @Asharenabir @Asharenabir @Asharenabir #Asharenab #تک_بیت #اشعارناب #شعر #عشق #عکس_نوشته #عاشقانه #اشعار_ناب #شعر_کهن #شعر_فارسی #ایران #تو #شعر_عاشقانه #عکسپروفایل #عاشقانه #poem #persian #ایران #خیام #بوسه #سعدی #مولوی #شعر_عاشقانه #عطار #منزوی #شعر_قلیان #دوستت_دارم #قلیان . . . ممنون از اینکه همراه ما هستید، حامی ما باشید ❤️💙 https://www.instagram.com/p/CJmGB2uh2dZ/?igshid=5qjcz57kg3vh
0 notes
بنیان مرگ ارادی در اشعار عطار نیشابوری
بنیان مرگ ارادی در اشعار عطار نیشابوری
عطار نیشابوری بنیان مرگ ارادی را تهذیب اخلاق و تصفیه درون از رذایل اخلاقی میداند چرا که رذایل اخلاقی در برابر حرکت تکاملی انسان مانع بزرگی است. با تخلیه و پیرایش درون از زنگارهای رذایل اخلاقی مقدمات تحلیه و تحصیل فضایل و صفات حمیده فراهم میگردد. در منطقالطیر هر یک از اوصاف مذموم اخلاقی پرندگان از نظر هدهد مانع سلوک ایشان است که تا از این صفات نمیرند و نفس خود را از گرداب هلاکت و نجاست آن رذایل…
View On WordPress
0 notes
سروش دباغ: خداناباوری ستیزهگر و بنیادگرایی هر دو خطرناکند
فوج نیوز به نقل از شفقنا- سروش دباغ میگوید: نیازمند بازخوانی انتقادی سنت عرفان در ادبیات خود هستیم و فکر هم میکنم این کار شدنی باشد و پارهای از مولفههایی مثل امر سیاسی یا نگاه معناکاوانه و معنایابانه در دین که از نظر گذشتگان ما مغفول مانده میتواند مورد توجه قرار بگیرد و مکمل آن سنت شود.
به گزارش فوج نیوز به نقل از شفقنا به نقل از ایلنا، کتاب «حریم علفهای قربت» نوشته سروش دباغ به تازگی توسط انتشارات «اچ اند اس» در انگلستان منتشر شده است. او در مقدمه این اثر نوشته است: «مدتهاست دلمشغول حدود و ثغورِ سلوک معنوی در زمانۀ پر تب و تاب کنونیام؛ روزگاری که به تعبیر ماکس وبر راززدایی شده و امر قدسی بسان گذشته، میان آسمانِ حقیقت فاش نمیدرخشد و به سهولت از پنجره به ضمیر مشتاقان نمیتابد.»
دباغ در این اثر به رابطه عشق و عرفان و نمود و بروز این دو مقوله در ادبیات پرداخته و گریزی نیز به دو مفهوم خداناباوری ستیزهجو و بنیادگرایی زده و از مضر بودن هردوی این نگرشها برای جهان امروز سخن گفته است.
به همین مناسبت گفتوگویی کوتاه با سروش دباغ داشتهایم که میخوانید.
میتوانیم بگوییم دغدغه شما در این کتاب روشن ساختن مفهوم عشق آن هم عشق از منظر عرفانی است؟ اصولا از دید شما چه رابطهای میان عشق و عرفان میتوان متصور بود؟
چند صباحی است که به این قصه مشغول هستم و بازخوانی سنت عرفان اسلامی و درانداختن آنچه که از آن با نام عرفان مدرن یاد میکنم را دنبال میکنم. در این راستا هم به آثار عرفای سنتی (مولوی، حافظ، سعدی، بایزید بسطامی، ابوالحسن خرقانی و دیگر عرفای خراسانی و عرفای مکتب شیراز) عطف نظر کردهام و آنها در مطالعه گرفتهام و در باب مضامین و تعارفشان تامل کردهام. اگر بپذیریم حافظ و سعدی قوامبخش مکتب دیگری هستند در درازنای تاریخ تصوف ما که میتوان آن را مکتب شیراز نام نهاد و در مقابل مکتب خراسان قرار دارد.
ایامی که هنوز ایران بودم به این قصه میاندیشیدم که در حوزه نواندیشی دینی معاصر اگر در باب مقولانی مثل رفع نسبت میان علم و دین، معرفتی دینی و … اندیشیده شده و سخنانی گفته شده و اتفاقا مطالب مهمی هم منتشر گشته، در باب عرفان و اینکه چه بر سرش میآید اگر بخواهد در منظومه معرفتی جدید ما بنشیند کمتر سخن گفته شده است. اول دغدغههای خود دراین موضوع را در مقالهای تحت عنوان «عرفان و میراث روشنفکری دینی» منتشر کردم که مقاله مذکور اکنون هم در کتاب «ترنم موزون حزن» قرار گرفته است. در این مقاله بیشتر در قالب پرسشهایی سامان پذیرفته که چه بر سر عرفان میآید اگر مبادی و مبانی انسانشناختی، معرفتشناختی و وجودشناختی ما در جهان جدید و بر اثر گشودگی نسبت به مدرنتیه دخل و تصرفی پیدا کند. وقتی به کانادا آمدم و در دانشگاه تورنتو مشغول به تدریس و پژوهش شدم در مقام پاسخ به این پرسش نگارش سلسله مقالاتی تحت عنوان «طرحوارهای از عرفان مدرن» را آغاز کردم و به نوعی به این پرسش سهمگین از منظرهای مختلف پاسخ گفتم، از منظر وجودشناختی و معرفتشناختی، اخلاقی، انسانی که تاکنون ۸ مقاله از این سلسله موضوع منتشر شده است. در این مقالات سالکان مدرنی را هم معرفی کردم که سهراب سپهری، علی شریعتی، مجتهد شبستری، داریوش شایگان، جان هیک و اکار توله آنچنان که من میفهمم در زمره این سالکان به حساب میآیند.
پرداختن به عرفان مدرن همزمان شد با سپهریپژوهیهای من و از بخت و روزگار دو مجلد از سپهریپژوهیهای من با نامهای «در سپهر سپهری» و «فلسفه لاجوردی سپهری» تاکنون منتشر شده است. اتفاقا در این سلسله مقالات به مقوله عشق که در سوال مطرح شده هم پرداختهام اما نه عشق افلاطونی، بلکه عشقی که سبقه اگزیستینسیل دارد و با تنهایی معنوی درگیر است. از ربط و نسبت عشق و تنهایی معنوی به تفصیل در این دو کتاب سخن گفتهام. عشق و تنهایی معنوی چون با متافیزیک نحیف که از برساختهای من در این جستارهاست هم عنان است دیگر چندان جایی برای عرفان و عشق افلاطونی بر جای نمینهند. پس از انتشار این دو کتاب به پیشنهاد دوستان از آنجایی که از سال ۹۰ شمسی سلسله درسهایی با نام «پیام عارفان برای زمانه ما» را در تورنتو برگزار میکنم و در میانه دوره چهارم آن هستیم.
دوره سوم این ادوار را که سبقه خودکاوانه و خودشناسانه پررنگی داشت و در آن هم از مولوی و حافظ برای بیان مطالب وام گرفته بودم و هم از سپهری و هم از اکار توله و کریشنا مورتی، با زحمت دوستان تمام این جلسات پیاده و ادیت شد و در قالب کتاب «حریم علفهای قربت» منتشر شد. میتوان این کتاب را جلد سوم از آثار مکتوب من در حوزه عرفان مدرن و سلوک معنوی در روزگار کنونی قلمداد کرد و در مقدمه اثر هم با برساختن مثل سالک مدرن، ایمان آرزومندانه، مرگهراسی، کورمرگی و متافیزیک نحیف کوشیدهام سویههای مختلف سلوک معنوی در روزگار راززدایی شده کنونی را به روایت خویش بیان کنم. امیدوارم به کار کسانی که علاقهمند به این موضوعات هستند و هم آثار من را در حوزه سپهریپژوهی را دنبال میکنند و هم دلمشغول سلوک معنوی در روزگار کنونی هستند، بیاید.
در بخشی از مقدمه آمده که «حریم علفهای قربت» حاصل غبض و بسطها و روند و آیندهای آونگآسا، حیرتها، تلاطمها و تاملات روای این سطور در سالهای اخیر است و امیدوارم به کار کسانی که ذهن و زبانشان دگرگون گشته و به فرآوردههای معنوی جهان جدید به دیده عنایت مینگرند و نسبت به آنها گشودهاند و در عین حال دلمشغول ساحت قدسی و سامانبخشیدن به زیست معنوی خویش هستند بیاید.
در کتاب به ادبیات کلاسیک ایران مثل آثار مولوی، حافظ، عطار و بایزید بسطامی و … اشاره شده و البته به سهراب سپهری هم به عنوان یک شاعر معاصر در حوزه کاری شعر نو هم در این بررسیها پرداخته شده است، کمی درمورد جایگاه عرفان در ادبیات کلاسیک ایران و تقریبا افت این مفهوم در ادبیات معاصر هم صحبت کنید. چرا در ادبیات معاصر از این عشق عرفانی و افلاطونی که در این کتاب به آن پرداختهاید خیلی کم دیده میشود؟ اصولا عرفان برای ادبیات امروز پاسخگوی خلق اثر هست؟
تصور میکنم عرفانی که در ادبیات ما ریزش کرده است احتیاج به بازخوانی انتقادی دارد و اگر صرفا به آنچه در میان گذشتگان ما جاری بوده عطف نظر کنیم بارمان بار نمیشود. به همین علت هم میگویم که نیازمند بازخوانی انتقادی سنت عرفان در ادبیات خود هستیم و فکر هم میکنم این کار شدنی باشد و پارهای از مولفههایی مثل امر سیاسی یا نگاه معناکاوانه و معنایابانه در دین که از نظر گذشتگان ما مغفول مانده میتواند مورد توجه قرار بگیرد و مکمل آن سنت شود.
و البته از نظر کسی مثل من نقد مفاهیمی مثل الفناءبالله که با وام گرفتن و باور داشتن به مفهوم آتانامی یا خدایینی میتواند سمت و سو و رنگ و بوی دیگری پیدا کند. به همین خاطر هم عشق سبقه اگزیستنشیل پیدا میکند و چنانچه در کتاب آوردم از عشق افلاطونی فاصله میگیرد و هم مضامین مذکور نیاز به بازخوانی دارد تا انسان سالک مدرن که دلمشغول امر قدسی است بتواند سلوک معنوی خود را حول این مفاهیم جدید سامان ببخشد.
امیدوارم افراد دیگری هم که در این عرصه کار میکنند، آثار خودشان را منتشر کنند و و در نهایت به صورت جمعی به این رویکرد انتقادی به سنت عرفان خود برسیم. من افزون بر حوزه فلسفه غرب و همچینی رفورم دینی قصه سلوک معنوی در روزگار کنونی و این بازخوانی انتقادی از سنت عرفان دینی با مدد گرفتن از شعر را ادامه میدهم و در این ژانر پیش خواهم رفت.
افزون بر سپهری و شریعتی که سالکان مدرن روزگار ما هستند میتوان از میلان کوندرا و داستایوفسکی و پارهای دیگر از نویسندگان جهان جدید که دغدغه پررنگ معنوی هم دارند یاد کرد و از آثارشان بهرهمند شد و تا جایی که بتوانم بنا دارم درمورد این افراد بنویسم و دغدغههای خود را در این باب بیان کنم.
۹۷۸۱۷۸۰۸۳۷۳۵۲_l-684×1024
در کتاب از نوعی از خدانابوری صحبت کردهاید که آن را سکولاریسم ستیزهگر نامگذاشتهاند. این تفکر حتی همطراز با بنیادگرایی دینی دانسته شده است. این دو تفکر کجا به یکدیگر میرسند که هر دو میتوانند تهدیدی برای جامعه بشری شوند؟ راهحل مقابله با چنین تفکراتی چه میتواند باشد که بشر چه برای ستیز با دین و چه برای گسترش آن… متوسل به خشونت نشود؟
سکولاریسم ستیزهگر که در کتاب یاد شده و در فصل هشتم با بنیادگرایی دینی هم عنان انگاشته شده را هم اول در کتاب کارن آرمسترانگ دیدم و با آن همدلی دارم. در درسهایی هم تحت سالهای اخیر در کانادا دادهام یا دورهای را که در دانشگاه مکزیک برگزار کردم هم اتفاقا به این نکته به صورت مفصل پرداختهام. ما یک خداناباوری مهاجم و ستیزهگر داریم که از نظر خانم آرمسترانگ روی دیگر سکه بنیادگرایی دینی است، چراکه هردو در مقام ندیدن یکدیگر و حذف طرف مقابل گام برداشته و میدارند.
در دهههای اخیر جنبشی که از آن با نام سکولاریسم ستیزهگر یاد میشود و پیروانی هم دارد در دنیای ما سر برآورده است و نویسنده هوشمندی مثل کارن آرمسترانگ نمیتواند از این موضوع چشمپوشی کند. کتاب تاریخ خداباوری خانم آرمسترانگ به فارسی هم ترجمه شده ولی «The Case for God» که از آن در این کتاب استفاده کردهام تا جایی که میدانم به فارسی برگردانده نشده است. تصور میکنم بله خداناباوری ستیزهگر و بنیادگرایی هر دو میتوانند برای دنیای امروز خطرآفرین باشند. اگر کسی خداناباور است و به حقوق دیگران احترام میگذارد خب اشکالی ندارد و خودش میداند و هر تلقی که از هر هستی دارد. اما اگر بنا باشد که چه به اسم دیانت جلوی حقوق و فعالیتهای خداناباوران گرفته شود و چه به اسم خداناباوری برای فعالیتهای خداباوران و قائلان به دین مزاحمت ایجاد شود مضر و ناموجه و دلآزار هستند.
اساسا خشونت از مدلولهای چنین نگراشهایی است. هرچند تاکنون در جهان بیشتر با خشونت دینی مواجه بودهایم، اما یادمان باشد در جریان دو جنگ جهانی هم این دیانت نبود که فاشیزم را به وجود آورد و میلیونها نفر کشته شدند. به هرحال هر تفکری که دیگری را برنمیتابد، دیگری گوشت و پوست و استخواندار را با هر انگیزه و به هر بهانهای چه به سبب دیانت یا نژاد یا خلقوخو منتج به خشونت میشود و البته دلآزاد و غیراخلاقی است.
راهی که میتوان با این نگرش مقاله کرد و آلترناتیوی که امثال من به آن باور داریم به رسمیت شناختن کثرت و سبکهای مختلف زندگی است. اگر خداناباوری ستیزهگر فرونهادنی است، بنیادگرایی دینی هم فرونهادنی است و اینجا به رسمیت شناختن کثرت و سبکهای مختلف زندگی از ما دستگیری میکند. افزودن و افزایش تساهل و پذیرش کثرتگرایی فرهنگی راه ممکن برای حفظ جهان از خشونت است. در کشوری مثل کانادا انصافا این پذیرش محقق شده و یا در برخی دیگر از کشورهای اروپایی با همه گیروگرفتهایی که وجو دارد میبینیم که تساهل را هم مدنظر دارند.
در همین کانادا با یک دولت سکولار کاملا مسلمانان آزاد بودند در ماه رمضان و …. محافل دینی خود را دایر کنند، همچنان که یهودیها، مسیحیها و بوداییها این آزادی را دارند. یعنی هر دینی به شرط اینکه به حقوق دیگران احترام بگذارد و آزار و اذیتی برای دیگری به دنبال نیاورد آزاد است و حق دارد که اعمال مذهبی و دینی خود را اجرا کند. نوعی از سکولاریسم که نسبت به ادیان مختلف بیطرف میایسند و مجال را برای فعالیتهای آنها فراهم میکند به نظرم اخلاقیتر و معنویتر و راهگشاتر است.
موضعی که بر خلاف دو سر طیف خدانابور ستیزهگر یا بنیادگرایی در میان طیف میایستد عمیقا به نظرم راهی است میتواند برای زندگی پرتلاطم ما در قرن بیستویکم راهگشا باشد. همه باید با صبوری و مدارا و امیدواری به نهادینه شدن این نگاه در میان جامعهای مثل جامعه خودمان کمک کنیم. به خاورمیانه نگاه کنید که چه در آن میگذرد و ما دستکم تا جایی که میتوانیم این مدارا را در جامعه خود نهادینه کنیم و امیدواریم روزی به نحو حداکثری این مهم در خاورمیانهای که امروز در آتش مخاصمت میسوزد جاری شود و صلح برقرار گردد.
فکر میکنید کتاب را در ایران هم به چاپ برسانید؟ برای چاپ آن صحبتی با ناشر ایرانی شده که موضوع ممیزی و دریافت مجوز را پیگیری کند؟
امیدوارم کتاب در ایران هم منتشر شود و برخی موانع که در ماههای اخیر و قریب به یک سال گذشته پدید آمده چه برای من چه برای برخی دیگر از مالفان رفع گردد و آثاری از این دست و آنچه که در قلمرو فرهنگ منتشر میشود مجال انتشار در ایران را پیدا کند.
0 notes
Flw⏩ @Asharenabir . حضور تو مرا از روز مرگم دور خواهد کرد ♥️ . . #جواد_منفرد . . @Asharenabir @Asharenabir @Asharenabir #Asharenab #تک_بیت #اشعارناب #شعر #عشق #عکس_نوشته #عاشقانه #اشعار_ناب #شعر_کهن #شعر_فارسی #ایران #تو #شعر_عاشقانه #عکسپروفایل #عاشقانه #poem #persian #ایران #خیام #بوسه #مرگ #مولوی #شعر_عاشقانه #عطار #حافظ_شیرازی #مولانا #دوستت_دارم . . . ممنون از اینکه همراه ما هستید، حامی ما باشید ❤️💙 https://www.instagram.com/p/CGVhvIBJvgj/?igshid=1wrvhqa6ft976
0 notes
Flw⏩ @Asharenabir . تو را در روزگاری دوست دارم ، که عشق را نمی شناسند ...! . . #نزار_قبانی . . @Asharenabir @Asharenabir @Asharenabir #Asharenab #تک_بیت #اشعارناب #شعر #عشق #عکس_نوشته #عاشقانه #اشعار_ناب #شعر_کهن #شعر_فارسی #ایران #تو #شعر_عاشقانه #عکسپروفایل #عاشقانه #poem #persian #ایران #خیام #غزل #دلتنگی #مولوی #مرگ #عطار #حافظ_شیرازی #مولانا #دوست_دارم . . . ممنون از اینکه همراه ما هستید، حامی ما باشید ❤️💙 https://www.instagram.com/p/CGAOKNJpJiq/?igshid=x7hy25qoht09
0 notes
Flw⏩ @Asharenabir . هربار که نگاهت میکنم جملهای آشنا ، به ذهنم خطور میکند : در اين سرزمين ، چيزی هست كه ارزش زندگی كردن دارد . . #محمود_درويش . . @Asharenabir @Asharenabir @Asharenabir #Asharenab #تک_بیت #اشعارناب #شعر #عشق #عکس_نوشته #عاشقانه #اشعار_ناب #شعر_کهن #شعر_فارسی #ایران #تو #شعر_عاشقانه #عکسپروفایل #عاشقانه #poem #persian #ایران #خیام #غزل #دلتنگی #مولوی #مرگ #عطار #حافظ_شیرازی #مولانا #دوست_دارم . . . ممنون از اینکه همراه ما هستید، حامی ما باشید ❤️💙 https://www.instagram.com/p/CGAMu3cJe3J/?igshid=14w1hz3g8a3z6
0 notes
Flw⏩ @Asharenabir . مردان و زنان بسیاری می توانند با هم بخوابند اما تعداد بسیار معدودی از آنان می توانند با هم بیدار بمانند... . . #برتراند_راسل . . @Asharenabir @Asharenabir @Asharenabir #Asharenab #تک_بیت #اشعارناب #شعر #عشق #عکس_نوشته #عاشقانه #اشعار_ناب #شعر_کهن #شعر_فارسی #ایران #تو #شعر_عاشقانه #عکسپروفایل #عاشقانه #poem #persian #ایران #خیام #غزل #نیچه #مولوی #مرگ #عطار #حافظ_شیرازی #مولانا #آرتور_شوپنهاور . . . ممنون از اینکه همراه ما هستید، حامی ما باشید ❤️💙 https://www.instagram.com/p/CFzQDzjpGwg/?igshid=1px5ea8gmgt9m
0 notes