Tumgik
#منجن
thegypsyfaeriequeen9 · 6 months
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media Tumblr media
ما أعرف من وين أبدأ أو كيف أقدر أعبّر عن مشاعري لكن هذي محاولة:
قاعدة أغصب نفسي أكتب لأن الكتابة هي الفعل الوحيد اللي أعرف فيه نفسي، ولأني قضيت أيامي الماضية بإعادة قراءة مذكراتي ونوتاتي ولستاتي وأفتقدت هذي الصلة مع ذاتي وكيف كانت الكلمات تسهل عملية الوصول لنفسي.
غارقة بفكرة انه الزمن دائرة، مهووسة بهالفكرة بالأحرى، أشوف كل شي يعيد نفسه والعجلة تدور ومحد منجن غيري.
كأني قاعدة أطلع بدرج لولبي وكل مرة اعتقد إني وصلت مستوى أعلى (وأكون فعلا وصلته) إلا إني أجد نفسي واقفة بنفس النقطة - ولو أنه من مستوى أعلى من الوعي والفكر والتجارب الخ
أعتقد المشكلة برمضان، لأن فيه تفاصيل معينة ودقيقة غير مشتركة مع أي شهر ثاني وهالتفاصيل تقدر تاخذني بكل سهولة للسنوات الماضية وأقدر أتذكر كل شي بالتفصيل. ما أشعر بالحنين لوقت مضى لكن أشعر بشعور ثقيل وبوطأة ذيك اللحظات وكيف ما زالت كثيفة وثقيلة بمخي وهي راحت وخلصت.
الحياة غريبة وعشوائية، حوار عابر وسؤال عن الحال مع صديق فجأة يخليك تكتشف حقيقية مرعبة عن نفسك وعن حياتك. ومرعبة فكرة انه كل المشاعر بداخلك وموجودة ولا قدرت تطلع على السطح على الرغم من كل الناس اللي حولك لكن سؤال صادق عن الحال وتعاطف من شخص يقدر يطلّع كل هذا.
أحس إني طول الوقت أتفرج على حياتي من برا ومو مصدقة هذي حياتي. أحاول أتذكر وقت بحياتي مر علي بدون أزمة وجودية وأزمة هوية لكن ما أقدر. ما أعرف ليش أنا دائما بحالة ذهول من كل اللي قاعد يصير أحس إني بحالة تجمد (كردة فعل على الصدمات؟ ما أعرف) والدنيا تمشي بسرعة من جنبي.
على العموم، أنا بمرحلة غريبة من حياتي (وما قد صرت بغيرها) لكن كل مرة أتفاجئ انه الغرابة تأخذ أشكال كثيرة ومتنوعة.
مخي قطني وضعيف. الحياة فيها لحظات كثيرة من البهجة الخالصة - تذكر هذي الحقيقة صعب. حياة الإنسان هشة ومحد قاعد يستوعب. مرة ثمين ومهم وغالي اننا نقدر نتواصل مع بعض، انك تقدر تخلق صلة مع شخص بكلمات بسيطة ومشاعر صادقة. أعتقد هذا أهم حدث بالتجربة الإنسانية.
#i
15 notes · View notes
zxzxzxzx20-blog · 2 years
Text
١: يناير🥳🌈 .
2021:1:1 𖠶
لـ صديقاتـي ayo , Dau 🤎...
ڪل عام وادعي وانتـن بالف خير פـياتيي من دنيا ڪل عام وانتـن العافيۿۃ لڪلبيـہ وسندي ڪل عام وأني احـبجن اڪثر ڪل عام ونبقى سوه وكل سنه ربي يشوفجن الخير بحياتجن القادمه اللههۂ يخليجن الي ووميحرمني منجن ولا مـטּ ضحكتجن الحلواا احب سوالفجن التافهه وخبالاتجن ،ايلافيوو 🥳🌈.
2 notes · View notes
lost--soul · 3 months
Text
حلوه وسمره گصيره تجنن دايخ بيها وعقلي منجن . . . تموت ويلي تفتن تفتن ياربي اشسوت بحوالي . . . من ضحكتلي شفت الدنيا صارت حلوه ومو عاديه . . . اثرت بيه فد شخصيه ما كامت تطلع من بالي . . . انا اتوقع صاير مدمن واتوقع متخبل يمكن . . .
0 notes
risingpakistan · 7 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح ��بادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
bastawihashimqasmi · 2 years
Link
0 notes
altoheed · 2 years
Text
دانتوں کو چمکانے کے لئے ”کوئلہ منجن
دانتوں کو چمکانے کے لئے ”کوئلہ منجن
دانتوں کو چمکانے کے لئے ”کوئلہ منجن “ ہمارے ہاں یہ سوچ بری طر ح پھیل چکی ہے کہ اگر ہمارے ہاں قدیم طب کے مطابق صحت کو بحال رکھنے کے لئے ٹوٹکوں کو استعمال کیا جائے تو یہ انتہائی فرسودہ عمل متصوّر ہوگا حالانکہ امریکہ سے آسٹریلیا تک سبھی متمدن اور عہد جدید کے حامل ملکوں میں قدرتی اور نباتاتی علاج اور ٹوٹکے پورے اعتماد سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ سٹالوں پر آسٹریلیامیں مقبول عام ہربل میڈیسن کا طوطی…
View On WordPress
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
عمران خان کی کامیابی کا راز؟
کیا کبھی کسی نے سنجیدگی سے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ عمران خان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تمام سیاسی جماعتیں اپنے جملہ اختلافات کو فراموش کر کے یکجا ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو شکست دینے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں؟آپ کی آنکھوں میں سیاسی عصبیت کا موتیا اُتر آیا ہو یا پھر کبوتر کی طرح حقیقت سے آنکھیں چرانا چاہیں تو الگ بات ہے، ورنہ سچ یہی ہے کہ عمران خان مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ آپ اس بات پر جلتے اور کڑھتے رہیں کہ وہ خوابوں کے سوداگر ہیں، قوم کو گمراہ کر رہے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کا منجن ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک توڑا ہے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں نقب زنی کی ہے لیکن میری دانست میں انہوں نے جیالے اور متوالے مستعار لینے کے بجائے اپنے حصے کے بیوقوف جمع کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ برسہا برس سے پارلیمانی سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی مسلم لیگ (ن) ہو یا پھر پیپلز پارٹی ،ان کے ہاں تغیر و تبدل کو اہمیت نہیں دی گئی۔
زمانے کے انداز و اطوار بدل گئے مگر یہ پرانی ڈھب اور روش کے لوگ وہیں ساکت و جامد کھڑے رہ گئے۔ انہیں اِدراک ہی نہیں ہوا کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔وقت مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتا چلا گیا اور یہ ماضی کے کارناموں پر اُتراتے رہے۔ عمران خان کو سیاسی میدان میں شکست دینی ہے تو اس کی حکمت عملی کو سمجھنا ہو گا۔ آپ نے ٹارگٹ آڈینس کی اصطلاح تو سنی ہو گی۔ یعنی اگر آپ کو کوئی پروڈکٹ لانچ کرنی ہے تو سب سے پہلے یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ ممکنہ صارفین کون ہو سکتے ہیں؟ اسے خریدے گا کون؟ اگر آپ اخبار، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کوئی اشتہار دینا چاہ رہے ہیں تو پہلے یہ طے کریں کہ آپ کس قسم کے لوگوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی یا ریڈیو کے شوکے لئے ٹارگٹ آڈینس کا تعین ضروری ہے۔ عمران خان نے بھی اپنی سیاست کے لئے یوتھ کو یوتھیا بنانے اور اپنے عقیدت مندوں کی فہرست میں شامل کرنے کا ہدف سامنے رکھا۔ اقوام متحدہ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 
پاکستان کی آبادی کا جتنا حصہ آج نوجوانوں پر مشتمل ہے، ماضی میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں پر مشتمل نہیں رہا اور یہ رجحان 2050ء تک جار ی رہے گا۔ اگر آپ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں بدلتے ہوئے رجحانات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس ملک کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور قیادت منتخب کرنے میں فیصلہ کن کردار انہی کا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت 122 ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 56 ملین یعنی 45.84 فیصد ووٹر 35 سال تک کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے بھی 23.58 ملین یا 19.46 فیصد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان ہیں گویا ان میں سے بیشتر 2023ء کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کریں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان نوجوان ووٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 9 سال کے دوران تقریباً 37 ملین نئے ووٹرز کا اندراج ہوا۔ اور عمران خان نے انہی نوجوانوں کو اپنی ٹارگٹ آڈینس بنایا۔
ٹارگٹ آڈینس طے کرنے کے بعد عمران خان نے پروپیگنڈے کی طاقت کو سمجھا اور تمام تر وسائل ہی نہیں توانائیاں بھی اس جھونک دیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اس مغالطے کا شکار رہے کہ کسی گائوں میں بجلی کا کھمبایا ٹرانسفامر لگوا کر ، گیس کے کنکشن دلوا کر ،چند نوکریوں کا لالچ دے کر یا کوئی سڑک اور پل بنوا کر لوگوں کی تائید وحمایت حاصل کی جاسکتی ہے مگر اس نے ترقیاتی کام کروانے والوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر ساری کارکردگی کا صفایا کر دیا۔ جب کردار کشی کر کے آپ کے بارے میں یہ رائے پختہ کر دی جائے یہ لوگ کرپٹ ہیں تو پھر سب خوبیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے فراہم کردہ لیپ ٹاپ پر نوجوان آپ ہی کے خلاف ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ آپ کی بنائی موٹر ویز اور آپ کی چلائی اورنج ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لوگ آپ کو برُا بھلا کہتے ہیں۔ جوانی کا دور امنگوں، آرزئوں ، تمنائوں، امیدوں اور باغیانہ روش سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس عمر میں انسان نتائج کی پروا کئے بغیر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ خواب اور سراب بیچے گئے۔ 
پہلے سے دہک رہے جذبات و احساسات کوغیر حقیقی مگر پرکشش سیاسی نعروں سے بھڑکا یا گیا۔ ہمارے ہاں انواع واقسام کی نفرتوں کی چنگاریاں برسہا برس سے سلگ رہی تھیں۔ عدالتی نظام سے مایوسی، سیاسی قیادت سے بیزاری، کرپشن پر جھنجھلاہٹ ،غیر ملکی مداخلت پر اشتعال اور پھر حکومت ختم ہوجانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باسی کڑھی میں وقتی اُبال۔ اس ایندھن کی وافر مقدار میں دستیابی کے سبب آگ تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔ بیانیہ بنانے کے لئے وہ غیر روائتی اور جدید ذرائع ابلاغ استعمال کئے گئے جن کی اہمیت سے دیگر سیاسی جماعتیں ابھی تک لاعلم ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے کی طاقت نے عمران خان کو ایک ایسا دیوتا بنا دیا ہے جسے روایتی طرز سیاست سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’آئوٹ آف باکس‘‘حل تلاش کرنا ہو گا۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
banniherbal · 2 years
Text
youtube
0 notes
masailworld · 2 years
Text
روزے کی حالت میں منجن یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیسا ہے ؟
روزے کی حالت میں منجن یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیسا ہے ؟
روزے کی حالت میں منجن یا ٹوتھ پیسٹ کرنا کیسا ہے ؟ سائلہ افسانہ شیخ گوپی گنج بھدوہی یوپی انڈیا۔ الجواب-بعون الملک الوھاب- صورت مستفسرہ میںبلاضرورت صحیحہ ٹوتھ پیسٹ اور منجن کرنا مکروہ ہے جب کہ مکمل اطمینان ہو کہ کوئی ذرہ حلق سے نیچے نہ اترے گا اور کوئی ذرہ حلق سے  نیچے اتر گیا تو روزہ جاتا رہا۔ علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں: ” كره له ذوق شئي” ( الدر المختار مع…
View On WordPress
0 notes
aan56 · 4 years
Note
العالم منجن على حلقه بوكو الاخيره وانتي تشوفين حلقه هايكيو بدالها ار يو سيريس
هههههههههههههههه واذا شفت الحلقة وما أعجبتني وش أشوي فيكم يا فانز بنها ؟! ☺️😂
ناوية أختم هايكيو ثم أكمل الانميات الاسبوعية
9 notes · View notes
winyourlife · 5 years
Text
اچھی صحت کے بنیادی اصول
صحت مند رہنے کے لیے چند عادات اپنانا لازم ہے مکمل صحت چند بنیادی اصولوں کے اپنانے پر منحصر ہے۔ ان میں سب سے اہم صفائی ہے، جسم کی صفائی، کپڑوں کی صفائی اور گھر کی صفائی۔ یہ تمام چیزیں تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔ 
غسل: سب سے پہلے جسمانی صفائی ہی کو لیجئے۔ غسل جسم کی صفائی کا بہترین طریقہ ہے جو ہر موسم میں فائدہ مند ہے۔ گرمیوں کے موسم میں روزانہ غسل ضروری ہے جبکہ موسم سرما میں ہفتہ میں دوبار غسل ضرور کرنا چاہیے۔ جوان اور صحت مند آدمی سرد (تازہ) پانی سے غسل کر سکتے ہیں جبکہ بچوں اور بوڑھوں کو ہلکے گرم پانی سے غسل کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل حالات میں غسل کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ 
۱۔ ورزش کے فوراً بعد یا پھر پہلے غسل نہ کیا جائے۔ 
۲۔ تھکا دینے والے کام کے فوراً بعد غسل نہ کیا جائے۔ 
۳۔ نہانے کے فوراً بعد صاف تولیہ سے جسم کو اچھی طرح خشک کرنا چاہیے۔
۴۔ ہلکے گرم پانی سے غسل ہر عمر اور مزاج کے لوگوں کے لیے، ہر موسم میں مفید ہے، کوشش کی جائے کہ نہانے کے دوران جسم مکمل طور پر رگڑا جائے، صابن کے استعمال سے میل کچیل اور غلاظت دور ہوتی ہے۔ 
منہ:جسمانی صفائی کے ساتھ ساتھ دانتوں کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ عام طور پر دانتوں کی خرابی سے ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور مختلف بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مسواک دانتوں کی صفائی کا اچھا ذریعہ ہے۔ اس سے مسوڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ نیم یا ببول (کیکر) کی تازہ شاخوں یا پیلو کی جڑ کی مسواک بنائی جاتی ہے۔ دانتوں کے برش بھی عام ہیں۔ یہ دانتوں کی صفائی کرتے ہیں۔ لیکن سخت برش دانتوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ منجن کا استعمال بغیر برش کے کرتے ہیں لیکن صرف منجن کے استعمال سے مکمل صفائی نہیں ہوتی کیونکہ دانتوں کے درمیان رہ جانے والے ذرات عموماً نہیں نکلتے جن کے لیے برش یا مسواک ضروری ہے۔ زبان کو صبح کے وقت اچھی طرح صاف کر لینا چاہیے۔ ناخن اور بال صاف رکھیں۔ ہرہفتے ناخن کاٹیں۔
لباس: گندے کپڑے صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ایسے کپڑے جو بدن سے متصل رہتے ہیں مثلاً بنیان وغیرہ، روزانہ تبدیل کرنے اور صابن سے دھونے چاہئیں۔ کپڑے ہر موسم میں زیادہ سے زیادہ تین دن بعد ضرور تبدیل کرنے چاہئیں۔ 
گھر: اس کے ساتھ ساتھ مکان کی صفائی بھی بہت ضروری ہے۔ موسم کے لحاظ سے کھڑکیاں دروازے اور روشندان کھلے رکھے جائیں تاکہ ہوا اور روشنی آ جا سکے۔ فرش پر روزانہ جھاڑو لگایا جائے تاکہ فرش گندے نہ ہوں۔ گھر کے گندے پانی کے نکاس کا اچھا انتظام کرنا چاہیے۔ غسل خانے اور بیت الخلا کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ عورتوں کے وقت کا ایک بڑا حصہ کھانا پکانے میں صرف ہوتا ہے اور سارے گھر کی خوراک بھی یہیں تیار ہوتی ہے اس لیے باورچی خانے کی صفائی کریں، اور خاص طورپراسے دھوئیں اور گرمی کے نکاس کا۔ 
غذا: کھانے کے لیے وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔ غذا عمر اور موسم کی مناسبت اوراپنی ضرورت کے مطابق ہونی چاہیے۔ غذا کا صاف اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
حکیم محمد رشید  
1 note · View note
nahnotesblog · 5 years
Text
ومنرجع منجن شوي 😂
1 note · View note
urduu · 6 years
Text
چلو زندگی کو گنتے ہیں!
''بولتے ہاتھ ۔ انکل سرگم۔ آخری چٹان۔ تنہائیاں۔ صبح کی نشریات۔ چاچا جی۔ ففٹی ففٹی۔ خواجہ اینڈ سن۔ شب دیگ۔ سورج کے ساتھ ساتھ۔ وارث۔ من چلے کا سودا۔ توتا کہانی۔ جانگلوس۔ ایک محبت سو افسانے۔ ویلے دی گل۔ فرمان الٰہی۔ بھول نہ جانا پھر پپا۔ کیوی ایک پرندہ ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ بناکا گیت مالا۔ ایگل اور ٹی ڈی کے کیسٹ۔ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر۔ دس روپے کی برف۔ پانی سے بھرا واٹر کولر۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گزرتے کسی بابے کے درود شریف پڑھنے کی آواز۔ روشن دان۔ ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔ فلاوری انگلش۔ تختی۔ گاچی۔ بستہ۔ چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔ خوشخطی۔ رف کاپی۔ رف عمل۔ سلیٹ۔ سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔ گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔ شٹاپو۔ باندر کلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو‘ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔ صراحی۔ چائے کی پیالیاں۔ سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔ بتیوں والا چولہا۔ ٹارزن۔ عمرو عیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔ دکان دار سے چونگا۔ نیاز بٹنا اور آواز آنا ''میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں۔‘‘
مرونڈا۔ گچک۔ سوکھا دودھ۔ ڈیکو مکھن ٹافی۔ لچھے۔ ون ٹین کا کیمرہ۔ مائی کا تنور۔ کوئلوں والی استری۔ ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔ گولی والی بوتل۔ جمعرات کی آدھی چھٹی۔ ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ ششماہی امتحانات۔ پراگریس رپورٹ۔ عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ ٹیڈی پیسہ۔ چونّی۔ بارہ آنے۔ پُتلی تماشا۔ گراری والا چاقو۔ سیمنٹ کی ٹینکی۔ شام کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکائو۔ دروازے کی کنڈی۔ دیسی تالا۔ ہاون دستہ۔ دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔ لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرا لو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی پیدائش پر خواجہ سرائوں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔ چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔ دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔ انٹینا۔ چھت پر مٹی کا لیپ۔ شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔ چڑیوں کا آلنا۔ مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔ کھرا۔ نالی۔ پلاسٹک کی ٹونٹی۔ کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔ مسی روٹی۔ پنجیری۔ پِنّیاں۔ بالو شاہی۔ دو ٹیوٹر والا ڈیک۔ دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔ دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔ سٹیل کے جگ۔ موڑھے۔ سائیکل کی قینچی۔ سکائی لیب کی خبریں۔ سیلاب کا خوف۔ ماں کی آغوش۔ باپ کا ڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔ اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔ اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔ کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ ڈیمو کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ ڈیمو کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔
دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر 'واکی ٹاکی‘ بنانا۔ پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔ نانی جان کے لیے پانی کی بوتل میں نمازیوں سے پھونکیں مروا کے لانا۔ سر درد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔ بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈرائونے قصے سننا۔ رات دس بجے کے بعد سڑکوں کا سنسان ہو جانا۔ خالی کمرے میں کسی بابے کا گمان ہونا۔ بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔ مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا۔ بیلٹ کے بغیر پینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پر پڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔ خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنے کا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔
پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل آنا۔ سنیمائوں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔ سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں A سے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔ کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں‘ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔ کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کر کے کال ملانے کی کوشش کرنا۔
عید میلاد النبیﷺ پر چراغ جلانا۔ محرم میں حلیم بانٹنا۔ سبیل سے میٹھا پانی پینا۔ باراتوں پر سکے لوٹنا۔ دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہو جانا۔ سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔ محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔ مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔ فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔ لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔ سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔
مائوں کا گھر کی پیٹی میں چپکے چپکے بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرنا۔ ایک پائو گوشت کے شوربے سے پورے گھر کا خوشی خوشی کھانا کھانا اور شکر الحمدللہ کہہ کر سو جانا۔ مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ''مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا‘‘۔ بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا‘ مانجھا لگانا۔ بازار سے پنے‘ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔ گڈیاں لوٹنا‘ ڈوریں اکٹھی کرنا۔ چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کر شیو کرنا۔ صبح کام پر نکلنا تو مائوں کی دعائوں کی آوازیں گلی کی نکڑ تک سنائی دینا۔ جسمانی تھکاوٹ کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر پی جانا اور اگلی صبح بھلے چنگے ہو جانا۔ سکول سے چھٹی کا بہانہ بناتے ہوئے بغلوں میں پیاز رکھ کر جسمانی حرارت تیز کر لینا اور پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا۔ سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مار کھانا اور بھول جانا۔ پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور ' میکدہ‘ کے لفظ سے نا آشنائی کے باعث گاتے پھرنا ''ایک طرف اُس کا گھر‘ ایک طرف میں گدھا‘‘۔
اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے والی زندگی انجوائے کرآئے۔
اِن میں سے شاید ہی کوئی چیز باقی بچی ہو‘ اور اگر ہو گی بھی تو شاید ویسی نہیں رہی ہو گی۔
زندگی کی نہر کے بہتے پانیوں میں سے ایک دفعہ ہاتھ نکال لیں تو وہ ویسے کب رہتے ہیں!
ایسی بھی تھی زندگی!
93 notes · View notes
columnspk · 3 years
Text
Nae Musheer Barye Ahtasab Ka Qura Faal
Nae Musheer Barye Ahtasab Ka Qura Faal
نئے مشیربرائے احتساب کا قرعہ فال  شہزاد اکبر مرزا صاحب کی جانب سے استعفیٰ دینے کی خبر آئی تو کئی مہربان قارئین نے بہت مان سے یاد کیا کہ موصوف کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی اس کالم میں انہیں ’’منجن فروش‘‘ پکارا گیا تھا۔آپ سے التجا کی تھی کہ بالآخر وہ ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا‘‘ والا پیغام ہی دیں گے۔قارئین کی محبت کا خلوص سے شکریہ ادا کرتے ہوئے دیانت دارانہ عاجزی سے اصرار یہ بھی کرنا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
omega-news · 3 years
Text
ماما والا منجن مت بیچیں. شیریں مزاری کی بیٹی کا شہباز گل کو کرارا جواب
ماما والا منجن مت بیچیں. شیریں مزاری کی بیٹی کا شہباز گل کو کرارا جواب
وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے بھانجی کہنے پر وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل کو کرارا جواب دیا ہے۔ ایمان مزاری نے ٹوئٹر پر شہباز گل کو ٹیگ کرکے حکومت کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئےکہا کہ اگر حکومت چلانے کے قابل ہوتے تو عوام کو ہر وقت مذہب کا درس نہ دے رہے ہوتے بلکہ اپنی کارکردگی دکھا رہے ہوتے۔ ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے ملک کی معیشت تباہ کر دی، میڈیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
penslipsmagazine · 3 years
Text
منجن بیچنا بند کرو ۔۔۔ صفیہ حیات
منجن بیچنا بند کرو ۔۔۔ صفیہ حیات
منجن بیچنا بند کرو صفیہ حیات بیروزگاری جنسی تشدد بھوک بڑھتی جارہی ہے مگر تم ہو کہ ابھی تک پھٹی پرانی بنیان لئے پھر رہے ہو ۔ “محبت ایسا دریا ہے” کی رٹ لگانے والے سنو ! اس محبت کی بارش میں بھیگ کر کئ سوہنیاں ڈوب چکیں۔ ۔ ویاگرا کھا کر بانہوں میں جھولتی جوانی کے رسیلے لبوں پہ شعر لکھنے سے فرصت ملے تو غربت کا رقص دیکھو کوڑے سے روٹی اٹھاکر پیٹ کی آگ بجھاتے لوگوں کو دیکھو ۔ قفس میں زنجیریں چیخ رہی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes