Tumgik
#مہتاب
urduchronicle · 8 months
Text
مسلم لیگ ن نے سردار مہتاب عباسی کی پارٹی رکنیت ختم کردی
سابق گورنر خیبر پختونخواہ اورمسلم لیگ ن کے رہنما سردار مہتاب عباسی کی پارٹی رکنیت ختم کر دی گئی۔  پارٹی صدر شہباز شریف کی ہدایت پر سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے مہتاب عباسی کی رکنیت ختم کرنے کا نو ٹیفیکشن جاری کر دیا۔ سابق وزیر اعلی وگورنر مہتاب عباسی پر پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا الزام ہے، مہتاب عباسی نے ایبٹ آباد میں تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ انتخابات 2018 میں مہتاب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 3 months
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چھاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر ، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا ، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
فیض احمد فیض
7 notes · View notes
my-urdu-soul · 5 months
Text
نظم - اے عشق کہیں لے چل
................
اے عشق کہیں لے چل، اس پاپ کی بستی سے
نفرت گہِ عالم سے، لعنت گہِ ہستی سے
ان نفس پرستوں سے، اِس نفس پرستی سے
دُور اور کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ہم پریم پُجاری ہیں، تُو پریم کنہیّا ہے
تُو پریم کنہیّا ہے، یہ پریم کی نیّا ہے
یہ پریم کی نیّا ہے، تُو اِس کا کھویّا ہے
کچھ فکر نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
بے رحم زمانے کو، اب چھوڑ رہے ہیں ہم
بے درد عزیزوں سے، منہ موڑ رہے ہیں ہم
جو آس کہ تھی وہ بھی، اب توڑ رہے ہیں ہم
بس تاب نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ جبر کدہ آزاد افکار کا دشمن ہے
ارمانوں کا قاتل ہے، امّیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آپس میں چھل اور دھوکے، سنسار کی ریتیں ہیں
اس پاپ کی نگری میں، اجڑی ہوئی پریتیں ہیں
یاں نیائے کی ہاریں ہیں، انیائے کی جیتیں ہیں
سکھ چین نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک مذبحِ جذبات و افکار ہے یہ دنیا
اک مسکنِ اشرار و آزار ہے یہ دنیا
اک مقتلِ احرار و ابرار ہے یہ دنیا
دور اس سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
یہ درد بھری دنیا، بستی ہے گناہوں کی
دل چاک اُمیدوں کی، سفّاک نگاہوں کی
ظلموں کی جفاؤں کی، آہوں کی کراہوں کی
ہیں غم سے حزیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
آنکھوں میں سمائی ہے، اک خواب نما دنیا
تاروں کی طرح روشن، مہتاب نما دنیا
جنّت کی طرح رنگیں، شاداب نما دنیا
للہ وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
وہ تیر ہو ساگر کی، رُت چھائی ہو پھاگن کی
پھولوں سے مہکتی ہوِ پُروائی گھنے بَن کی
یا آٹھ پہر جس میں، جھڑ بدلی ہو ساون کی
جی بس میں نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
قدرت ہو حمایت پر، ہمدرد ہو قسمت بھی
سلمٰی بھی ہو پہلو میں، سلمٰی کی محبّت بھی
ہر شے سے فراغت ہو، اور تیری عنایت بھی
اے طفلِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اے عشق ہمیں لے چل، اک نور کی وادی میں
اک خواب کی دنیا میں، اک طُور کی وادی میں
حوروں کے خیالاتِ مسرور کی وادی میں
تا خلدِ بریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
سنسار کے اس پار اک اس طرح کی بستی ہو
جو صدیوں سے انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور جس کے نظاروں پر تنہائی برستی ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مغرب کی ہواؤں سے، آواز سی آتی ہے
اور ہم کو سمندر کے، اُس پار بلاتی ہے
شاید کوئی تنہائی کا دیس بتاتی ہے
چل اس کے قریں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی فضا جس تک، غم کی نہ رسائی ہو
دنیا کی ہوا جس میں، صدیوں سے نہ آئی ہو
اے عشق جہاں تُو ہو، اور تیری خدائی ہو
اے عشق وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی جگہ جس میں، انسان نہ بستے ہوں
یہ مکر و جفا پیشہ، حیوان نہ بستے ہوں
انساں کی قبا میں یہ شیطان نہ بستے ہوں
تو خوف نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
برسات کی متوالی، گھنگھور گھٹاؤں میں
کہسار کے دامن کی، مستانہ ہواؤں میں
یا چاندنی راتوں کی شفّاف فضاؤں میں
اے زہرہ جبیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
ان چاند ستاروں کے، بکھرے ہوئے شہروں میں
ان نور کی کرنوں کی ٹھہری ہوئی نہروں میں
ٹھہری ہوئی نہروں میں، سوئی ہوئی لہروں میں
اے خضرِ حسیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
اک ایسی بہشت آگیں وادی میں پہنچ جائیں
جس میں کبھی دنیا کے، غم دل کو نہ تڑپائیں
اور جس کی بہاروں میں جینے کے مزے آئیں
لے چل تُو وہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
...............................
- اختر شیرانی
11 notes · View notes
moizkhan1967 · 3 months
Text
Tumblr media
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
(فیض احمد فیض)
🩵✨
4 notes · View notes
nowaybiba · 1 year
Text
چاند میں تو نظر آیا تھا مجھے
میں نے مہتاب نہیں دیکھا تھا
chaand mei tu nazar aaya tha mujhe
maine mehtaab nahi dekha tha
Tumblr media
6 notes · View notes
thepoetistguy · 5 months
Text
نا بھوک کا اب خیال ہے
نا بے حال پر کوئی رنج
نا دھوپ کا احساس ہے
نا چھاؤں کی تلاش ہے
ترے انتظار کی ساعت
میں بتکدہ ہوں بن گیا
نا وقت کی پیمائش ہے
نا دھڑکنوں میں ربط ہے
اب جان سے ہون با پردہ
اب غم کا لبادہ سر اوپر
سانس سانس سسکتی
لہو مرا لہو سے ہے لرزتا
لختِ میں مرے آگ بپا
دھواں ہر سُو ہے افشاں
نا چیخ میں اب آواز ہے
نا درد میں ہے وہ شدت
چھوڑنے کا سوال ہے کیا؟
رہ سکو تو رہ لو رہ گزر
نا زخم میں اب تاب ہے
نا رفوگر کوئی بیتاب ہے
نا آفتاب میں آس ہے
نا مہتاب میں جلوہ
چراغ دل بُجھا دیا
ہوا کو سینے لگا لیا
سارے رشتے نبھائے
زندگی کے دن لٹائے
پھر آخر میں نے بھی
تنگ آکر اک کام کیا
مٹی کو مٹی سونپی
موت کو زندگی دی
نا لاش کو عطر لگا
نا کفن کو چار چاند
گورکن کو گلے لگا کر
آنکھیں موند لیں مینے!
” دانش دھرمانی “
Tumblr media
0 notes
mohsinshafisposts · 1 year
Text
آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں
اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور
جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
نا توانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
0 notes
urdudottoday · 1 year
Text
 خیرپور يونين آف جرنلسٹس کی جانب سے سينيئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کی مذمت
اردو ٹوڈے، خیرپور پی ايف يو جے رہنماء صوفی محمد اسحاق سومرو، خیرپور یونین آف جرنلسٹس کے صدر سید اکبر عباس زیدی، شجاعت صدیقی ، علی بخش بروہی، اطہر صدیقی، بشیر راجپوت، مقبول شیخ، آغا شیر عالم، اسد علی ناریجو، ثاقب صدیقی، مہتاب باقری، اشرف مغل، عباس باقری، ارتضیٰ زیدی،اویس سومرو، اظہر ابڑو، اسلام الدین شیخ، رمضان آرائیں، اسد علی راجپر، اسلام الدین عباسی، غلام جعفر راجپر سمیت دیگر صحافیوں نے کا کہنا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
waqasyousaf · 1 year
Text
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
جون ایلیاء
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ و بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر متاع نفس نذر آہنگ کی ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اول شب کا مہتاب بھی جا چکا صحن مے خانہ سے اب افق میں کہیں آخر شب ہے خالی ہیں جام و سبو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں وقت کی اس مسافت میں بے آرزو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہر جاں اور آباد جب شہر جاں ہو گیا ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در کو بہ کو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
دشت میں رقص شوق بہار اب کہاں باد پیمائی دیوانہ وار اب کہاں بس گزرنے کو ہے موسم ہاؤ ہو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ں رسوا کن دلی و لکھنؤ اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو میرؔ دلی سے نکلے گئے لکھنؤ تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
0 notes
bazmeur · 1 year
Text
میرا جی۔۔۔ نامعلوم، جمع و ترتیب: اعجاز عبید
میرا جیاز قلمنامعلومجمع و ترتیب: اعجاز عبیدڈاؤن لوڈ کریںپی ڈی ایف فائلورڈ فائلای پب فائلکنڈل فائلٹیکسٹ فائلمکمل کتاب  پڑھیں ……میرا جینا معلومجمع و ترتیب: اعجاز عبید میرا جی کے حالات زندگیمیرا جی منشی مہتاب دین سب انجینئر ( ریلوے) کے ہاں 25 مئی 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام محمد ثناء اللہ شانی ڈار تھا۔ والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں کا رخ کرتے رہے، اس لیے میرا جی کی تعلیم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
humaahmed · 2 years
Text
تیرے آنے کے جو اسباب ہوا کرتے ہیں
وه فقط خواب، فقط خواب ہوا کرتے ہیں
مدتوں پیاس کے صحرا میں بھٹکنے والے
ایک قطرے سے بھی سیراب ہوا کرتے ہیں
ایسے پھولوں کو نہ کہنا کے بہار آئی ہے
جو خزاں آنے یہ شاداب ہوا کرتے ہیں
تمہیں یہ جو بے کار سے لگتے ہیں دیئے دن میں تمہیں
یہ اندھیروں میں ہی مہتاب ہوا کرتے ہیں
کچھ / اپنی محبت کا بھرم ہی رکھتے
بُھول جانے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
مہتاب عباسی نے مسلم لیگ ن چھوڑ دی، آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ
سردار مہتاب خان عباسی نے مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کرلیں۔سابق گورنرخیبرپختونخوا آزاد حیثیت میں انتخابات لڑیں گے۔ سردار مہتاب خان عباسی نے فروری میں بطورمرکزی نائب صدرن لیگ پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ سردار مہتاب نے پارٹی کی صوبائی قیادت پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف سے اصولی اختلاف ہیں، ان کے پاس کمزور ٹیم ہے اورمعاشی بحران کا حل مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ پنجاب تک محدود ہو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 7 months
Text
چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں
بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنّائیں
کچھ الجھی ہُوئی باتیں، کچھ بہکے ہُوئے نغمے
کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں
فیض احمد فیض
7 notes · View notes
my-urdu-soul · 3 months
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج ، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا ، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چھاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر ، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا ، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن میرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
- فیض احمد فیض
5 notes · View notes
moizkhan1967 · 5 months
Text
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے​
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا​
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن​
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا​
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو​
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا​
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید​
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا​
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ​
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا​
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے​
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے​
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے!
فیض احمد فیض
4 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years
Text
ائی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے حکومت کی حکمت عملی تیار
Tumblr media
معلوم ہوا ہے کہ کسی بھی معاشی دلیل کے بجائے اعلیٰ ترین سطحوں پر ’’غیر فیصلہ کن پن‘‘ کے پیچھے بڑی محرک قوت کے طور پر سیاسی خیالات کا لیبل لگاتے ہوئے حکومت کے اعلیٰ پالیسی سازوں نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے تعطل کو توڑنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی ہے اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اب سخت اقدامات کے فیصلے کرنے ہوں گے جن میں بنیادی طور پر بالواسطہ ٹیکسوں اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کے ذریعے 300 سے 400 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانا یا بجلی کی پوری قیمت 7.50 روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 50 سے 60 فیصد تک صارفین کو فوری طور پر منتقل کرنا شامل ہیں۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو تصدیق کی کہ اعلیٰ پالیسی سازوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے کیونکہ انہوں نے حکمت عملی، منسلک لاگت اور آئی ایم ایف کے نسخوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اس کے مضمرات کو بیان کیا ہے جیسا کہ ایڈجسٹمنٹ کی لاگت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھے گی۔ موجودہ حکومت اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ وہ آنے والے مہینوں میں بھی اپنی کارکردگی جاری رکھیں گے کیونکہ یہ خدشات ہیں کہ یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافے اور اضافی ٹیکسوں کے ذریعے سخت فیصلے لینے کے بعد انہیں دروازہ دکھایا جا سکتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام فیصلے لینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے کیونکہ موجودہ حکومت اس بات سے بے خبر ہے کہ اگر وہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت فیصلے لے کر سیاسی سرمائے کی قیمت ادا کرے اور پھر ملک اگلے عام انتخابات کی جانب بڑھے تو کیا ہو گا۔ لہٰذا حکمران اتحاد مکمل الجھن کا شکار ہو گیا ہے اور وہ غیر فیصلہ کن موڈ میں چلا گیا ہے۔ آئی ایم ایف بنیادی طور پر پاکستانی حکام کی جانب سے مطلوبہ اصلاحات کے راستے کو شروع نہ کرنے اور ساختی اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پریشان ہے۔ گردشی قرضے کا عفریت 4 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا، حکومت کو بجلی کے نرخوں میں 7.30 روپے فی یونٹ اضافہ کرنا پڑے گا۔
Tumblr media
گردشی قرضہ جو 1640 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اسے ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ پاور سیکٹر کے دو بڑے اداروں کے منافع اور پھر ٹیرف میں اضافے کے ذریعے اسے کم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) کی مد میں درآمدات میں کمی اور 855 ارب روپے کی عدم کامیابی کے تناظر میں ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے 7470 ارب روپے کے ہدف پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اسلام آباد سے منی بجٹ میں 400 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کا کہا ہے جو کہ سالانہ بجٹ ٹیکسیشن اقدامات سے زیادہ ہو گا جب حکومت نے 250 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے تھے۔ اگر حکومت نے 400 ارب روپے کے اضافی اقدامات کیے تو رواں مالی سال کے بقیہ عرصے میں 175 سے 200 ارب روپے اکٹھے کر سکتے ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ اضافی محصولات کے اقدامات صرف بالواسطہ ٹیکسوں اور ودہولڈنگ ٹیکس کی بڑھتی ہوئی شرحوں کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ 1 سے 3 فیصد کی حد میں فلڈ لیوی سے 60 ارب روپے اضافی حاصل کرنے کی تجویز دی جا سکتی ہے۔ حکومت زر مبادلہ کی شرح میں مبینہ ہیرا پھیری کے ذریعے بینکوں کو حاصل ہونے والے منافع میں سے 60 سے 70 فیصد تک کٹوتی پر محصول عائد کرنے کے اختیارات پر غور کر رہی ہے۔ مہتاب حیدر  بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes