Tumgik
#نسل پرستی
urduchronicle · 4 months
Text
نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت پابندیاں لاگو کی جائیں، میلان کے گول کیپر کا مطالبہ
اے سی میلان کے گول کیپر مائیک میگنن نے ہفتے کے روز یوڈینیس میں سیری اے میچ میں 3-2 سے جیت کے دوران احتجاجاً پچ چھوڑنے کے بعد کہا کہ نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے سخت پابندیاں لاگو کی جانی چاہئیں۔ اطالوی میڈیا کے مطابق، مقامی شائقین کے بار بار نسل پرستانہ نعروں کی وجہ سے میگنن نے پچ چھوڑنے سے پہلے ریفری کو آگاہ کیا۔ چند منٹوں کے بعد گول پر واپس آنے سے پہلے اس کے ساتھیوں نے ٹنل تک اس کا تعاقب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
therealmehikikomori · 2 years
Text
کَرِیا بامَن گور چَمار ، تیکرا سنگ نَہ اُترے پار
سیاہ رنگ کا برہمن اور گورے رنگ کا چمار کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ اپنی نسل کے نہیں ہوتے ، برہمن گورا اور چمار کالا ہونا چاہیے.
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
نسل پرستی اسکینڈل، ای سی بی کی تحقیقات 'انتہائی مایوس کن' ہیں، راجر ہٹن
نسل پرستی اسکینڈل، ای سی بی کی تحقیقات ‘انتہائی مایوس کن’ ہیں، راجر ہٹن
یارکشائر کے سابق چیئرمین راجر ہٹن نے ای سی بی کی جانب سے کلب کے نسل پرستی کے اسکینڈل سے نمٹنے کے “انتہائی مایوس کن” طریقے پر تنقید کی ہے۔ گزشتہ ہفتے، گورننگ باڈی نے اپنی تحقیقات کے بعد کاؤنٹی اور کچھ افراد کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی ہیں۔ لیکن سابق چیئرمین راجر ہٹن نے کہا کہ یہ عمل “ناقص” تھا اور اس کی آزادی پر سوالیہ نشان لگا۔ سابق چیئرمین نے کہا کہ وہ اس معاملے کے دوران ای سی بی کے اپنے طرز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 7 months
Text
طاقت سے مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو دبایا نہیں جاسکتا‘
Tumblr media
اسرائیل-فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ ایک ایسا لاوا تھا جو طویل عرصے سے پک رہا تھا۔ فلسطین پر 7 دہائیوں کے وحشیانہ اسرائیلی قبضے کے باعث حالات اس نہج پر پہنچے۔ اسرائیل جو ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ’حالتِ جنگ‘ میں ہے، اس نے فلسطینیوں کے خلاف شدید جارحیت، آبادکاروں کی جانب سے تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، مقدس اسلامی مقامات کی بےحرمتی اور جدید تاریخ میں نسل پرستی کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بےدخل کیا گیا، انہیں ان کے گھروں سے محروم کیا گیا جبکہ انہیں ظلم، بلاوجہ گرفتاریاں اور اجتماعی سزاؤں کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان کے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ ان مظالم نے بےگھر ہونے والے لوگوں کو ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا کیا ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16 سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ وہ ایسی جگہ رہتے ہیں ��سے دنیا کی سب سے بڑی ’کھلی جیل‘ کہا جاتا ہے۔
ناانصافیوں کی اس تاریخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا زیادہ حیران کن نہیں لگتا۔ اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ اور بلاامتیاز جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ’دردناک انتقام‘ لے گا اور ساتھ ہی غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے۔ وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے جبکہ رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنارہا ہے جو کہ بلاشبہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بمباری سے 700 بچوں سمیت 2 ہزار 200 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ تقریباً 5 لاکھ کے قریب فلسطینی بےگھر ہوچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کر کے اسرائیل نے ایک خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اسرائیلی فوج نے 11 لاکھ فلسطینیوں کو شمالی غزہ خالی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ 
Tumblr media
اقوامِ متحدہ کی جانب سے تباہ کُن نتائج کے لیے خبردار کیا گیا ہے اور اب غزہ میں انسانی المیے کا سامنا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری کا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کر رہا ہے کہ ’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا ہے، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو ’جدید ہتھیار‘ بھی فراہم کیے ہیں۔ کوئی بھی اس اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جس کے تحت دونوں جانب بےگناہ افراد مارے گئے لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک کی حکومتوں نے اسرائیلیوں کی اموات پر تو غم و غصے کا اظہار کیا مگر بے گناہ فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے پر وہ چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ جس دوران اسرائیلی بمباری سے پوری کی پوری آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن رہی تھیں اس دوران آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن (او آئی سی) نے بیان جاری کیا جس میں فلسطینی عوام پر اسرائیل کی عسکری جارحیت کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ غیرمستحکم حالات کی وجہ اسرائیل کا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ 
لیکن 57 مسلمان ممالک کی اس تنظیم نے فلسطین کے حق میں اجتماعی اقدامات پر غور نہیں کیا۔ نہ ہی ان عرب ممالک جو گزشتہ سالوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر چکے ہیں، سے کہا گیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ درحقیقت نارملائزیشن کی اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو حوصلہ ملا ہے اور وہ آزادانہ طور پر غزہ میں اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا جس نے اسرائیل سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر کے خاموشی اختیار کر لی۔ ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 8 اکتوبر کو حالات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اس کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا لیکن یہ اجلاس اس وقت تعطل کا شکار ہوا جب سیکیورٹی کونسل کوئی بیان ہی جاری نہ کرسکی۔ کہا جارہا ہے کہ مغربی ممالک چاہتے تھے کہ سلامتی کونسل حماس کی پُرزور اور سخت الفاظ میں مذمت کرے جبکہ کشیدگی کم کرنے پر ہرگز زور نہ دے۔
روسی نمائندے نے کونسل پر جنگ بندی اور بامعنیٰ مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالا لیکن وہ کسی کام نہیں آیا۔ 13 اکتوبر کو ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی شدید اختلافات دیکھنے میں آئے۔ روس نے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی‘ کی تجویز دی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دینے کے لیے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو پی 3 یعنیٰ امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے کوئی توجہ نہ مل سکی جبکہ اس پر ووٹ ہونا ابھی باقی ہے لیکن اس قرارداد کو اکثریت کی حمایت ملنا ناممکن لگ رہا ہے۔ یوں سلامتی کونسل تشدد کو روکنے کا اپنا فرض ادا نہیں کر پائی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کسی معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہی ہو۔ مسئلہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو تقریباً اقوامِ متحدہ کے آغاز سے ہی اس کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں میں اس مسئلے کو حل کرنے اور فلسطین پر اسرائیل کے غیرقانونی قبضے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ 
فلسطین کے مسئلے پر کم از کم 88 قراردادیں سلامتی کونسل میں پیش کی گئیں۔ اس مسئلے کا سب سے پرانا حل جو سلامتی کونسل نے پیش کیا وہ دو ریاستی حل تھا جس کے تحت فلسطین عملی اور خودمختار ریاست ہو گا۔ لیکن اسرائیل کو برسوں پہلے سے مغربی ممالک کی حمایت حاصل تھی خاص طور پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے دو ریاستی حل کو مسترد کیا اور اس کے بجائے ایک ریاست کا ’حل‘ پیش کیا جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر اسرائیلی بستیوں کی توسیع کر کے نہ ص��ف سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ اس آبادکاری کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ ان قراردادوں پر عمل نہ کر کے عالمی قوتوں نے خود پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ یہ قوتیں حالات بدلنے کا اختیار رکھتی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی غیرمشروط حمایت میں اس قدر اندھی ہو چکی ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے دعوے کے برعکس عمل کر رہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ موجودہ تنازع ’اچانک کھڑا نہیں ہوا ہے‘ بلکہ اس کے پیچھے ایک ’دیرینہ مسئلہ ہے جو 56 سال پرانے قبضے سے پروان چڑھا‘۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ خونریزی کو بند کیا جائے اور ’اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پیش کردہ دو ریاستی حل کی روشنی میں مذاکرات کر کے امن بحال کیا جائے۔ اسی طرح اس سرزمین کے لوگوں اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے پائیدار استحکام لایا جاسکتا ہے‘۔ انہوں نے اسرائیل پر یہ بھی زور دیا کہ وہ 11 لاکھ لوگوں کے انخلا کے اپنے حکم پر نظرثانی کرے۔ اس طرح کی اپیلوں پر اسرائیل بالکل بھی کان نہیں دھر رہا۔ اسرائیل کی غزہ پر زمینی کارروائی اور غزہ پر دوبارہ قبضے کی منصوبہ بندی کے باعث اس تنازع کے نتائج واضح نہیں ہیں۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ جنگ خطے میں پھیل سکتی ہے۔ ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ خطے میں نارملائزیشن کی تمام کوششیں بالخصوص سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بنانے کے تمام منصوبے ملیا میٹ ہو چکے ہیں۔ پھر گزشتہ 7 دہائیوں کا نتیجہ بھی ہمارے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ طاقت اور جبر سے کوئی بھی مظلوم قوم کے جذبہ مزاحمت کو نہیں دبا سکتا ۔
ملیحہ لودھی  یہ مضمون 16 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
2 notes · View notes
jhelumupdates · 2 months
Text
معروف امریکی مصنف و صحافی شان کنگ نے اہلیہ کے ساتھ اسلام قبول کرلیا
0 notes
urduintl · 2 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) میئر لندن صادق خان کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی اور مسلمان ہونےکی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور 2016 میں زیک گولڈ اسمتھ نے ان کے خلاف اسلاموفوبک حملوں کی بنیاد رکھی۔
صادق خان نے کہا کہ لندنستان اور مسلم سلیپر سیل جیسے الفاظ کا استعمال خطرناک ہے، مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں وہ معاشرے میں قبولیت کے لیے اورکیا کریں، رشی سونک اور ان کی کابینہ مجھ پر الزامات لگانے والے کو نسل پرست کہنے سے خوفزدہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ رشی سونک اور دیگر اسلامو فوبک کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے، 2016 کی طرح پھر میرے خلاف نسل پرستانہ مہم شروع کردی گئی ہے، مجھے مسلمان اور پاکستانی کہہ کر لوگوں کو ووٹ دینےسے ڈرایا جائےگا۔
صادق خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف مہم چلانے والوں میں مرکزی دھارے کے سیاستدان شامل ہیں، سویلا بریوربتائیں کہ مسلمان کون سے شعبوں پر قابض ہوئے ہیں، نسل پرستی دیکھ کر سیاست سے دور نہ ہوں بلکہ اس کا حصہ بنیں۔
میئر لندن نے کہا کہ مشکلات کے باوجود لندن میں جرائم کی وارداتوں کو نیچے لائے ہیں۔
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
ہر جمہوریت ، جمہوریت تھوڑا ہوتی ہے
Tumblr media
گزشتہ روز ( پندرہ ستمبر ) عالمی یومِ جمہوریت منایا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بقول عالمی تنازعات میں شدت کے سبب بڑھتی کشیدگی، اقتصادی اتھل پتھل اور ماحولیاتی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں جمہوریت بھی بحران کی زد میں ہے اور شہری آوازوں کو دبانے کے لیے دیواریں اونچی ہو رہی ہیں۔ گمراہ کن اور غلط اطلاعات کی وبا تیزی سے ذہنوں کو آلودہ کر کے سماجی فاصلے بڑھا رہی ہے اور اداروں پر عدم اعتماد برابر بڑھ رہا ہے۔ اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ متاثر وہ جوان نسل ہو رہی ہے کہ جس کے کاندھوں پر اس دنیا اور جمہوریت کا مستقبل ہے۔ چنانچہ اس برس کے عالمی یومِ جمہوریت کا موضوع ہے ’’ اگلی نسل کی با اختیاری ۔‘‘ یعنی عالمی، علاقائی و ملکی سطح پر کیے جانے والے دوررس فیصلوں کے عمل میں نئی پود کی رائے اور امنگوں کا خصوصی دھیان رکھا جائے۔ جمہوریت کی بیسیوں قسمیں ہو سکتی ہیں، لیکن آزادیِ اظہار ناقص یا برائے نام یا مشکوک ہو تو ایسا نظام کچھ بھی ہو سکتا ہے جمہوریت نہیں ہو سکتا۔
انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی شق انیس میں کسی بھی چونکہ چنانچہ ہچر مچر کے بغیر واضح لکھا ہے کہ ’’ ہر انسان کو بنا کسی رکاوٹ ، دباؤ اور مداخلت کے اپنی رائے رکھنے اور اس کے اظہار کی بنیادی آزادی حاصل ہے۔ کسی بھی شہری تک اطلاعات کی آزادانہ ترسیل میں کسی بھی طرح کی اڑچن پیدا کر کے اس کی رائے بدلنے یا اثرانداز ہونے کی کوئی بھی کوشش اس بنیادی حق کی پامالی ہے ۔‘‘ اس حق کو شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے توسط سے ذرائع ابلاغ کی بنیادی آزادی سے بھی مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس آئینے میں وہ تمام ریاستیں اور حکومتیں جنہوں نے انسانی حقوق کے عالمی میثاق کی توثیق کی ہے۔ اپنی اپنی جغرافیائی حدود میں جمہوریت کا پست و بلند معیار باآسانی دیکھ سکتی ہیں جمہوریت کی موجودہ شکل ہزاروں برس کی انسانی جدوجہد کا نتیجہ ہے اور اس تصور کے تحفظ یا اس کی خامیاں دور کرنے اور اسے صحیح معنوں میں بنی نوع انسان کا آدرش بنانے کے لیے مسلسل کوششیں جاری رہنی چاہیں۔
Tumblr media
یونانی شہری ریاستوں میں جمہوریت کی ابتدائی شکل سے لے کے اکیسویں صدی تک کی ڈیجیٹل دنیا میں اس نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے لاتعداد قربانیاں دی گئی ہیں۔ جن جن ممالک میں بھرپور عوامی نمایندگی کے اصول پر جمہوری اقدار جڑ پکڑ چکی ہیں ان کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ بنیادی آزادیوں کے روزمرہ ثمرات کو ایک معمول کا طرزِ نظام سمجھ کے لطف اندوز ہو سکیں، مگر اسی دنیا میں نصف سے زائد آبادی ایسی بھی ہے جس کے لیے بنیادی حقوق کا حصول ایک پر آسائش خواب ہے اور انہیں اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے آج بھی بظاہر ناقابلِ عبور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگر ایک عام شہری ریاستی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہے اور اس کا یہ بنیادی حق کسی بھی حیلے، بہانے یا جبر کے بل پر ایک طاقتور اقلیت نے نظریے، قوم پرستی یا قسمت کے پردے میں غصب کر رکھا ہے۔ یا کسی بھی شہری کو نسل، رنگ، علاقے یا تعصب کی کسی بھی شکل کے ذریعے ووٹ کے حق سے ایسے محروم رکھا جا رہا ہے کہ جس کے نتیجے میں انسانی مساوات کے ازلی قانون پر آنچ آتی ہو تو پھر اس نظام کا نام جمہوریت کے بجائے کچھ بھی رکھا جا سکتا ہے۔
اس دنیا میں سوائے چھ خلیجی ریاستوں ، برونائی ، افغانستان اور ویٹیکن ہر ریاست کے سرکاری نام میں آپ کو ڈیموکریٹ یا ری پبلک یا پیپلز ریپبلک یا اسلامک ریپبلک کا لاحقہ مل جائے گا۔ محض لاحقہ لگانے سے کیا جمہوریت کے بنیادی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں ؟ محض ایک خاص مدت کے بعد انتخابات کروانے کے عمل کو ہی جمہوریت کہا جا سکتا ہے ؟ کیا یک جماعتی نظام بھی جمہوریت کی مروجہ تعریف پر پورا اترتا ہے ؟ کیا کثیر جماعتی نظام کے باوجود کسی بھی ریاست کے وسائل اور سیاست پر اکثریتی گروہ کی اجارہ داری اور اس اجارہ داری کے منفی اثرات سے اسی ریاست کی مذہبی ، لسانی و نسلی اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی موثر آئینی و قانونی ڈھال تشکیل دئیے بغیر اس ریاست کو جمہوری کہا جا سکتا ہے ؟ اور اگر کوئی ریاست انتخابی عمل، کثیر جماعتی نظام اور اکثریتی گروہ کی بالادستی کی زد سے اقلیتی گروہوں کو محفوظ رکھنے کا نظام بنا بھی لیتی ہے مگر سب کو پابند کر دیتی ہے کہ طے شدہ ریاستی نظریات سے ہٹ کے اپنی رائے کا اظہار غداری کے مترادف ہو گا تو کیا ایسے نظام کو بھی جمہوریت کی دستار پہنائی جا سکتی ہے ؟
اگر ریاست محض لیپا پوتی کی خاطر جمہوری سمبلز اپنا لے اور جمہوری اداروں کی نقالی بھی کر لے مگر اس کے خمیر میں آمریت و فسطائیت گندھی ہوئی ہو، کاغذ پر بہترین آئین چھپا ہوا اور قوانین کی کتاب میں بظاہر تمام شہریوں کی قانونی برابری کا عہد بھی کیا گیا ہو۔ مگر ریاست کا عمل اس کے قول کی چغلی کھاتا ہو اور آئین کو بھی موشگافیوں اور خود ساختہ منطق کی دھول اڑا کے اپنے پوشیدہ و اعلانیہ مقاصد کے حصول کے لیے موم کی ناک اور غریب کی جورو میں تبدیل کر دیا جائے تو کیا ایسے ماحول کو بھی جمہوری کہا جا سکتا ہے ؟ جمہوریت کوئی وقت گذاری کا مشغلہ، خوش وقتی یا کتابی شے نہیں بلکہ انتخابی عمل برقرار رکھنے اور آئینی روح کے مطابق چلنے کا مطلب ریاستی سطح پر جمہوری تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے سماج کی تشکیل میں مدد دینا ہے جہاں قوتِ برداشت ، تحمل ، بردباری ، ہمدردی کے اوصاف نمایاں ہوتے چلے جائیں اور ہر شہری اس اصول کو دل سے تسلیم کرنے کے قابل ہو جائے کہ جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں پر آپ کے مکے کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں ہر شہری اور ادارہ اتفاق کے ساتھ ساتھ اختلافِ رائے کا بھی مکمل احترام کر پائے۔ تب تو یہ عمل جمہوریت کہلا سکتا ہے۔ورنہ ادھ کچی پکی ، لولی لنگڑی جمہوریت تو کہیں بھی بازار سے بارعایت ہر وقت دستیاب ہے۔ بس آواز دے کے طلب فرما لیں۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
کایاکلپ انقلاب ہر سماج کا مقدر نہیں
جن جن ممالک میں کامیاب عوامی تحریک کے ذریعے حسبِ خواہش تبدیلی آئی۔ ان ممالک میں ایک قدرِ مشترک ہے۔ یعنی ہم زبان، ہم ثقافت، ہم خیال اکثریتی نسلی گروہ کی لیڈرشپ نے تحریک کی قیادت کی۔ مثلاً فرانس کی آبادی ایک چوتھائی فرنچ، ایک چوتھائی جرمن اور ایک چوتھائی ہسپانوی نسلی پس منظر سے ہوتی تو ہر ایک کے اپنے اپنے مفادات اور مسابقتی باریکیاں، ایک ہی صورتِ حال کو دیکھنے اور پرکھنے کے مختلف زاویے صدیوں سے گڑی بادشاہت کو اتنی آسانی سے اٹھارویں صدی کے آخر میں نہ الٹ پاتے۔ قوی امکان تھا کہ شورش یا تحریک ابتدائی جوش اور غصے کے مرحلے سے گذرتے ہوئے نفاق، خانہ جنگی یا حکمران طبقے کے چالاک ترغیباتی جال میں پھنس کے کوئی اور شکل اختیار کر جاتی اور یہ شکل انقلاب یا تبدیلی کے اصل مقاصد سے بالکل تین سو ساٹھ ڈگری مختلف ہوتی۔ اسی طرح انیس سو سترہ کے روس میں اگر زار شاہی کا تختہ الٹا گیا تو انقلابی قیادت ، عام لوگوں اور محاذِ جنگ سے شکست خوردہ لوٹنے والے فوجیوں میں اکثریت زار شاہی کے مقبوضہ وسطی ایشیائی غیر روسی شہریوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ اس کی قیادت اکثریتی سلاوک نسل ( رشیا اور یوکرین ) کے رہنماؤں کے ہاتھ میں تھی۔ بصورتِ دیگر زار شاہی قوم پرستی کا ہتھیار استعمال کر کے آسانی سے اس انقلابی شورش کو ایک علاقائی یا نظریاتی بغاوت کے طور پر کچلنے کا کارڈ استعمال کر سکتی تھی۔
چین میں کیمونسٹ انقلاب سے پہلے جو خانہ جنگی ہوئی اس میں دونوں فریق (چیانگ کائی شیک اور ماؤزے تنگ) اکثریتی ہان قومیت سے تعلق رکھتے تھے۔ چھوٹی قومیتوں نے اس تحریک کے حق میں یا خلاف محض معاون کردار ادا کیا۔ یہی تصویر ہوچی منہہ کی قیادت میں ویتنامی انقلابیوں کی بھی تھی۔ یعنی ہم نسل ، ہم زبان، ہم ثقافت اور یکساں نوآبادیاتی استحصال کا شکار اکثریتی نسلی گروہ اپنی جبلی و تہذیبی ہم آہنگی کے سبب فرانسیسیوں کو ملک سے نکالنے میں کامیاب رہا۔یہی تصویر کیوبا کی بھی ابھرتی ہے۔ یہی تصویر انیس سو بیس کے ترکی اور انیس سو اناسی کے ایران کی بھی بنتی ہے۔ تازہ ثبوت عرب اسپرنگ کا تجربہ ہے۔ مصر کی ساخت اگر کثیر نسلی ہوتی تو حسنی مبارک کا بستر گول ہونا مشکل تھا۔ وہ الگ بات کہ مختصر عرصے کے بعد وہی پرانا نظام زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا، اور یہی مثال تیونس، لیبیا ، شام اور یمن میں جاری رسہ کشی پر بھی منطبق ہوتی ہے۔
یعنی کایاکلپ انقلابی تبدیلی صرف ان سماجوں میں آئی جن کی اکثریت یک نسلی تھی اور ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کثیر نسلی افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب یا اس کے ردِعمل میں ہونے والی خانہ جنگی کے سبب ابھرنے والے طالبان کو خود کو اقتدار میں رکھنے کے لیے طاقت کا مسلسل استعمال نہ کرنا پڑتا اور طاقت کے ابتدائی استعمال کے بعد چند برسوں میں تبدیلی کا پودا اپنی جڑ پکڑ چکا ہوتا۔ اب آپ برصغیر کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہاں کوئی بھی نسلی گروہ غالب اکثریت نہیں رکھتا۔ ممکن ہے آپ یہ مثال دیں کہ کسی ایک گروہ کی نسلی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اسی فیصد آبادی ہندو ہے اور بیس فیصد آبادی مسلمان ہے۔ کیا مشترکہ مذہب کثیر نسلی گروہوں کو انقلابی تبدیلی کے مشترکہ مقصد کی لڑی میں پرونے کے لیے ناکافی ہے؟ اس نظریے میں وزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ جسے ہم ہندو دائرہ کہتے ہیں اس کے اندر تقسیم در تقسیم کا پیچیدہ سماجی و سیاسی و معاشی نظام ایک متحد ہندو قوم کی تشکیل میں مسلسل آڑے نہ آتا اور تمام ہندو بلاامتیاز وہ ہندو ہوتے جن کی ثقافت اور زبان بھی یکساں ہوتی۔ یا دوسرے بڑے مذہبی گروہ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ سیاسی و سماجی امتیاز اتنا واضح اور گہرا نہ ہوتا جو کسی بھی فیصلہ کن سماجی و سیاسی تبدیلی کی راہ کا پتھر نہ بن سکتا۔
اگر مذہبی عینک سے بھی دیکھا جائے تو انقلاب یا تبدیلی وہیں آئی جہاں غالب نسلی اکثریت کا مذہبی نظریہ بھی یکساں تھا۔ مثلاً فرانس میں غالب اکثریت رومن کیتھولکس کی تھی، روسی آرتھوڈکس مسیحت کے پیروکار تھے۔ عرب اسپرنگ سے متاثر ممالک میں اکثریت شافعی و مالکی سنیوں کی تھی اور ایران میں شیعت غالب تھی۔ چنانچہ تبدیلی کے پیغام کو یک آواز لڑی میں کامیابی سے پرو لیا گیا۔  انیس سو سینتالیس میں جب برصغیر کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو ایسا لگا کہ تبدیلی کے لیے صرف ہم مذہب ہونا کافی ہے۔ مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کثیر نسلی بھارت میں علاقائی ، نسلی اور ذات پات کے تضادات ایک فیصلہ کن سیاسی و سماجی تبدیلی کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ہیں۔ بھارت اگر قائم ہے تو کسی انقلابی نظریے یا ڈھانچے کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماج و سیاست میں کچھ لو کچھ دو کے لچک دار اصول کے سہارے رواں ہے۔
اسی طرح پاکستان یہ کہہ کر بنایا گیا تھا کہ ہمیں انگریز اور ہندو کے استحصال سے نجات پا کر مذہب کی بنیاد پر ایک منصفانہ سماج اور طرز حکومت کی تعمیر کرنی ہے۔ مگر یہ تجربہ کتنا کامیاب ہو پایا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں، ہم آج تک ہر سطح پر اپنے تضادات کو پاٹنے کی تگ و دو میں مبتلا ہیں۔ مشرقی پاکستان بھی بنگلہ دیش اس لیے بن پایا کہ تبدیلی کی خواہش مند قیادت کا تعلق غالب نسلی گروہ سے تھا، اگر بنگال بھی کثیر نسلی سماج ہوتا تو بنگلہ دیش بننا بہت مشکل تھا۔ اس پس منظر میں اگر آپ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو برصغیر کے کثیر نسلی سماج میں مختلف علاقوں میں یا قومی سطح پر جو بھی مرکز مخالف یا کسی مخصوص حکمران گروہ کے خلاف علاقائی، نسلی یا نظریاتی تحریکیں اٹھیں۔ ان میں سے اکثر اپنے ابتدائی مقاصد سے بھٹک گئیں اور ان کے وہ نتائج نکلے جو تحریکی قیادت کے زہن میں بھی نہیں تھے۔
غیر مربوط انداز سے ابھرنے والی نسلی و طبقاتی شورشوں کو آبادی کے دیگر طبقات کی مدد سے کچل دیا گیا یا ناکام بنا دیا گیا۔ یہ طریقہ مغلوں نے بھی استعمال کیا اور انگریزوں نے بھی۔ اگر ہم اٹھارہ سو ستاون کو نظرانداز کرتے ہوئے فی الحال بیسویں صدی میں ہی جھانک لیں تو تحریکِ خلافت، گاندھی جی کی سول نافرمانی کی تحریک، ہندوستان چھوڑ دو یا لیگ کا ڈائریکٹ ایکشن اور پھر تحریکِ پاکستان۔ ان سب نے مل ملا کے جاری نظام کو کمزور تو کیا مگر جڑ سے نہ اکھاڑ پائے۔ خود تقسیم کے بعد بلوچستان میں یکے بعد دیگرے پانچ قوم پرست تحریکیں، خیبر پختون خوا میں اور سندھ میں قوم پرستی کی لہر، ایم کیو ایم کا عروج و زوال ، ایوب مخالف تحریک جس کے نتیجے میں ایک آمر دوسرے سے بدل گیا، پی این اے کی تحریک جس کے نتیجے میں نظامِ مصطفی کے بجائے جنرل ضیا وارد ہو گئے، ایم آر ڈی کی دونوں تحریکیں ، بے نظیر بھٹو کا ٹرین مارچ اور لانگ مارچ، نواز شریف کا جوڈیشل مارچ ، عمران خان کا دھرنا، غرض ایک طویل فہرست ہے ناکامیوں، جزوی کامیابیوں اور اصل مقاصد ہائی جیک یا تتر بتر ہونے کی۔
مطلب یہ کہ کثیر نسلی سماج میں لچکدار سمجھوتے ہی بتدریج تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ جب کہ یک نسلی سماج میں یک بیک انقلابی تبدیلی ممکن ہے۔ اب تبدیلی بعد میں سنبھلتی ہے یا مزید انتشار در انتشار تقسیم در تقسیم کا سبب بنتی ہے۔ یہ قیادت کی بالغ نظری، حالات و واقعات اور سماجی طبقات کے مفادات کی یکجائی یا ٹکراؤ پر منحصر ہے۔ ( یہ موضوع ایک سیرحاصل مباحثے کا متقاضی ہے۔ گفتگو ہو تو کوئی بات نکل کر آئے۔)
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
افریقی نسل کے لوگ نسل پرستی اور نفرت انگیز جرائم کے خطرے سے دوچار ہیں، چھن شو
افریقی نسل کے لوگ نسل پرستی اور نفرت انگیز جرائم کے خطرے سے دوچار ہیں، چھن شو
جنیوا(عکس آن لائن)جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر اور سوئٹزرلینڈ میں دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں چین کے مستقل مندوب چھن شو نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 51ویں اجلاس میں افریقی نسل کے لوگوں سے متعلق ورکنگ گروپ کے ساتھ ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے اپیل کی کہ متعلقہ ممالک افریقی نسل کے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور جوابدہی کریں اور افریقی نسل کے بچوں کو ایک صحت مند اور خوشگوار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
newstimeurdu · 2 years
Text
نیویارک میں سفید فام نوجوان کی فائرنگ، 10 افراد ہلاک
نیویارک میں سفید فام نوجوان کی فائرنگ، 10 افراد ہلاک
نیویارک کے علاقے بفیلو کی سپر مارکیٹ میں ایک شخص کی فائرنگ سے 10  افراد ہلاک ہوگئے۔ خبر ایجنسی کے مطابق، نیویارک کے علاقے  بفلیو میں اسلحہ تھامے ایک سفید فام جوان نے سپر مارکیٹ میں داخل ہو کر فائرنگ  شروع کردی۔ اندھا دھند فائرنگ سے 10 افراد ہلاک ہوئے اور  کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔حملہ آور کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق بظاہر واقعہ نسل  پرستی کا ہے۔ 13 افراد کو گولیاں لگیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 11 months
Text
برطانوی کرکٹ میں نسل پرستی اور صنفی امتیاز عرو ج پر، وزیراعظم کا اظہار تاسف
برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے کہا ہے کہ وہ برطانوی کرکٹ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی  اور صنفی امتیاز کی رپورٹ پر اداس ہیں۔ برطانوی کرکٹ میں نسل پرستی کی تحقیقات پاکستان نژاد باؤلر عظیم رفیق کی شکایات کے بعد شروع ہوئی تھیں، جو یارکشائر کی جانب سے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ عظیم  رفیق نے نسل پرسی اور ہراساں کئے جانے کے الزامات 2020 میں عائد کئے تھے، جس پر انگلینڈ کرکٹ بورڈ کو تحقیقاتی کمیشن بنانا پڑا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
hostbooster · 3 years
Text
نسل پرست تبصرے پر جرمن ریڈیو اسٹیشن نے بی ٹی ایس کے شائقین سے گرما لیا
نسل پرست تبصرے پر جرمن ریڈیو اسٹیشن نے بی ٹی ایس کے شائقین سے گرما لیا
ریڈیو نیٹ ورک بایرن 3 کو مشتعل بی ٹی ایس شائقین سے گرمی ملی جب اس کے میزبان ماتیاس ماتسوچک نے کے پاپ بوائے بینڈ پر نسل پرست تبصرے کیے۔ میٹشوک نے غلطی سے بینڈ اور کوویڈ 19 وائرس کے مترادف کھینچتے ہوئے انہیں “کچھ” کے طور پر بیان کیا [expletive] وائرس جو امید ہے کہ جلد ہی اس کے لئے بھی ایک ویکسین موجود ہوگی۔ کولڈ پلے کے بینڈ کے سرورق کو سننے کے بعد اس کے تبصرے سامنے آئے آپ کو ٹھیک کریں۔ “یہ چھوٹی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 3 years
Text
ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ آسٹریا میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے
ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ آسٹریا میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے
Tumblr media
اس ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم نے بدھ کے روز کہا کہ آسٹریا میں مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ حملوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے ، اس سے قبل ویانا میں دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہونے کی کوشش کرنے والے ایک شخص نے مشین گن اور جعلی دھماکہ خیز بنیان سے لیس کیا تھا۔ پولیس نے اسے مارنے سے پہلے اس نے چار افراد کو گولی مار دی۔
آسٹریا میں نسل پرستی کے خلاف کارروائیوں کو انجام دینے…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 3 months
Text
فلاحی، فاشسٹ، ہائبرڈ اور چھچھوری ریاست کا فرق
Tumblr media
فلاحی ریاست کا مطلب ہے وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد ہر طبقے کو نسل و رنگ و علاقے و عقیدے و جنس کی تمیز کے بغیر بنیادی حقوق اور مساوی مواقع میسر ہوں تاکہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی اہلیت کے مطابق بلا جبر و خوف و خطر مادی و ذہنی ترقی کر سکے۔ فلاحی ریاست کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ملک جس کی چار دیواری میں آباد پہلے سے مراعات یافتہ طبقات اپنے سے کمزوروں کے بنیادی حقوق اور مساوی مواقع فراہم کرنے والے راستے پامال کرتے ہوئے محض اپنے تحفظ اور فلاح پر دھیان دیں اور نہ صرف اپنا حال بلکہ اپنی نسلوں کا سیاسی، سماجی و معاشی مستقبل ریاستی و سائل و مشینری کو استعمال میں لاتے ہوئے محفوظ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست وہ ہوتی ہے جہاں ایک گروہ، ادارہ یا تنظیم اندھی قوم پرستی کا جھنڈا بلند کر کے اقلیتی گروہوں، نسلوں اور تنظیموں کو اکثریت کے بوجھ تلے دبا کے اس اکثریت کو بھی اپنا نظریاتی، معاشی و سماجی غلام بنانے کے باوجود یہ تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب ہو کہ ہم سب سے برتر مخلوق ہیں لہذا ہمیں کم تروں پر آسمانوں کی جانب سے حاکم مقرر کیا گیا ہے۔ وقت کی امامت ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جہاں ہم کھڑے ہوں گے لائن وہیں سے شروع ہو گی۔ ہمارا حکم ہی قانون ہے۔ جو نہ مانے وہ غدار ہے۔
فاشسٹ ریاست کے قیام کے لیے جو لیڈر شپ درکار ہے اسے مکمل سفاکی کے ساتھ سماج کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے فطین دماغوں کی ضرورت ہے جو تاریخ اور جغرافیے کی سچائیوں اور سماجی حقائق کو جھوٹ کے سنہری قالب میں ڈھال کے بطور سچ بیچ سکیں۔ فاشسٹ ریاست قائم رکھنا بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کے لیے ضروری ڈسپلن، یکسوئی اور نظریے سے غیر مشروط وفادار کارکنوں و فدائین کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مشن کو مقدس مشن کی طرح پورا کر سکیں اور اپنی انفرادی زندگیوں کو اجتماعی ہدف کے حصول کی راہ میں قربان کرنے کا حوصلہ رکھ سکیں۔ فاشسٹ ریاست محض فاشسٹ بننے کے شوق سے یا موقع پرستوں کے ہاتھوں تشکیل نہیں پا سکتی۔ اس کے لیے مسلسل مستعد رہنے کے ساتھ ساتھ انتھک محنت اور لومڑ و گرگٹ کی صفات سے مالامال مرکزی و زیلی قیادت درکار ہے۔ دلال ریاست وہ کہلاتی ہے جو اپنے جغرافیے اور افرادی قوت و صلاحیت کو بطور جنس دیکھے اور انا و غیرت و ثابت قدمی و اصول پسندی جیسی فضول اقدار بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے رویے میں اتنی لچک دار اور اس رویے کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ میں اتنی ماہر ہو کہ ہر کوئی اسے اپنی ضرورت سمجھ کے خریدنا یا حسبِ ضرورت دہاڑی، ماہانہ، سالانہ کرائے پر لینا یا کسی خاص اسائنمنٹ کا کنٹریکٹ کر کے استعمال کرنا چاہے۔
Tumblr media
لیفٹ رائٹ کے سب ممالک اور بین الاقوامی ادارے اور اتحاد دلال ریاست کو اپنے کام کی شے سمجھیں اور وہ اپنے متمول گاہکوں کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی خوش اسلوبی سے پوری کرنے کی کوشش کرے اور اس کے عوض اپنے تحفظ کی ضمانت، داد و تحسین اور ’ویل‘ سے جھولی بھرتی رہے۔ خود بھی ہر طرح کے حالات میں خوش اور مست رہے اور گاہکوں کو بھی خوش رکھے۔ ہائبرڈ ریاست دراصل ریاست کے روپ میں ایک ایسی لیبارٹری ہوتی ہے جہاں ہر طرح کے سیاسی ، سماجی، معاشی و سٹرٹیجک تجربات کی سہولت میسر ہو۔ یہ تجربات جانوروں پر ہوں یا انسانوں پر۔ اس سے ریاست کے پروپرائٹرز کو کوئی مطلب نہیں۔ بس انھیں اس لیبارٹری سے اتنی آمدن ہونی چاہیے کہ خرچہ پانی چلتا رہے۔ صرف اتنی پابندی ہوتی ہے کہ کوئی ایسا خطرناک تجربہ نہ کر لے کہ لیب ہی بھک سے اڑ جائے۔ باقی سب جائز اور مباح ہے۔ ایک چھچوری ریاست بھی ہوتی ہے۔ جو تھوڑی سی فاشسٹ زرا سی جمہوری، قدرے دلال صفت، کچھ کچھ نرم خو، غیرت و حمیت کو خاطر میں لانے والی چھٹانک بھر صفات کا ملغوبہ ہوتی ہے۔ 
تن و توش ایک بالغ ریاست جتنا ہی ہوتا ہے۔ مگر حرکتیں بچگانہ ہوتی ہیں۔ مثلاً چلتے چلتے اڑنگا لگا دینا، اچھے خاصے رواں میچ کے دوران کھیلتے کھیلتے وکٹیں اکھاڑ کے بھاگ جانا، راہ چلتے سے بلاوجہ یا کسی معمولی وجہ کے سبب بھڑ جانا، چھوٹے سے واقعہ کو واویلا مچا کے غیر معمولی دکھانے کوشش کرنا اور کسی غیر معمولی واقعہ کو بالکل عام سا سمجھ کے نظر انداز کر دینا، کسی طاقت ور کا غصہ کسی کمزور پر نکال دینا۔ لاغر کو ایویں ای ٹھڈا مار دینا اور پہلوان کو تھپڑ ٹکا کے معافی مانگ لینا۔ اچانک سے یا بے وقت بڑھکیں مارنے لگنا اور جوابی بڑھک سن کر چپ ہو جانا یا یہ کہہ کے پنڈ چھڑانے کی کوشش کرنا کہ ’پائی جان میں تے مذاق کر رہیا سی۔ تسی تے سدھے ہی ہو گئے ہو۔‘ جب کسی فرد، نسل ، قومیت ، گروہ یا ادارے کو مدد اور ہمدردی کی اشد ضرورت ہو تو اس سے بیگانہ ہو جانا اور جب ضرورت نہ ہو تو مہربان ہونے کی اداکاری کرنا۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی بدمعاشی کا شوق رکھنا مگر تگڑا سامنے آ جائے تو اس سے نپٹنے کے لیے اپنے بچوں یا شاگردوں کو آگے کر دینا یا آس پاس کے معززین کو بیچ میں ڈال کے معاملہ رفع دفع کروا لینا۔
اپنے ہی بچوں کا کھانا چرا لینا اور گالیاں کھانے کے بعد بچا کچھا واپس کر دینا۔ سو جوتے کھانا ہیں یا سو پیاز اسی شش و پنج میں مبتلا رہنا۔ اکثر عالمِ جذب میں اپنے ہی سر پر اپنا ہی ڈنڈہ بجا دینا اور گومڑ پڑنے کی صورت میں تیرے میرے سے پوچھتے پھرنا کہ میرے سر پے ڈنڈہ کس نے مارا۔ جہاں دلیل سے مسئلہ حل ہو سکتا ہو وہاں سوٹا گھما دینا اور جہاں سوٹے کی ضرورت ہو وہاں تاویلات کو ڈھال بنا لینا۔ ان سب کے باوجود اپنے تئیں خود کو ذہین ترین اور چالاک سمجھتے رہنا۔چھچھوری ریاست خود بھی نہیں جانتی کہ اگلے لمحے اس سے کیا سرزد ہونے والا ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست پر نہ رعایا کو اعتبار ہوتا ہے اور نہ گلوبل ولیج سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس کی حیثیت وہی ہو جاتی ہے جو مادے کی ہوتی ہے۔ یعنی سائنسی تعریف کے اعتبار سے مادہ اس عنصر کو کہتے ہیں جو بس جگہ گھیرتا ہو اور وزن رکھتا ہو۔ ہم ان مندرجہ بالا ریاستوں میں سے کس طرح کی ریاست کے مکین ہیں۔ یہ آپ جانیں اور آپ کو ہنکانے اور چلانے والے یا پھر الیکٹڈ و سلیکٹڈ جانیں۔ میرے جیسا ہومیو پیتھک آدمی کیا جانے۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
nowpakistan · 4 years
Photo
Tumblr media
ہالینڈ میں فٹبال میچ کے دوران نسل پرستی کے خلاف انوکھا احتجاج (ویڈیو)۔ ہالینڈ میں فٹبال میچ کے دوران نسل پرستی کے خلاف انوکھا احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مقامی فٹبال لیگ کا میچ شروع ہونے سے پہلے دونوں ٹیموں کے فٹبالرز نے اپنی جگہ پر ہی کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر منفرد احتجاج کیا جبکہ اسٹیڈیم میں لگے الیکٹرونک اسکور بورڈ پر نسل پرستی کے خلاف پیغامات درج تھے۔ گراؤنڈ میں موجود تماشائیوں نے بھی کھلاڑیوں اور آفشلز کا بھر پور ساتھ دیتے بھی ایک منٹ تک تالیاں بجاتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کروایا۔
0 notes
risingpakistan · 9 months
Text
اپنی اصل، اپنی پہچان کھونے والی قوم
Tumblr media
سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباو طالبات نے ہندو مذہب کی رسم ہولی منائی۔ وڈیو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ہندو مذہب کی یہ رسم پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم قائد کے نام سے موسوم یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں کل کوئی دس بارہ ہندو تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اگر یہ تقریب ہندو طلبا و طالبات منا رہے ہوتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اس ہندوانہ رسم کو بڑی تعداد میں مسلمان طالب علموں (لڑکیوں اور لڑکوں) نے بھی ایسے منایا، جیسے کہ یہ کوئی ہماری اپنی رسم ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یونیورسٹی لیول تک پڑھنے والے ہمارے نوجوانوں کو اپنی دینی تعلیمات کا علم نہیں۔ حیرانی اس بات پر بھی ہوئی کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وائس چانسلر نے کیسے ہولی کی اس تقریب کی اجازت دے دی۔ کسی نے ٹیوٹر پر خوب لکھا کہ’’ اپنی اقدار اور روایات سے ناواقف اِس نوجون نسل کی تربیت جن کی ذمہ داری تھی وہ خود تربیت کے قابل ہیں۔‘‘ یہ بھی کہا گیا کہ اپنی نئی نسل کو یہاں تک پہنچانے میں میڈیا، تعلیمی اداروں، سیاسی اداروں، حکومت، خاندان سب کا کردار ہے۔ 
آئین تو یہاں رہنے والے مسلمانوں کواسلامی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عہد کرتا ہے لیکن آئین کے اس حصے پر عملدرآمد کی بجائے اس کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے جس پر نہ کوئی قانون کی حکمرانی اور نہ ہی آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے، آئین پاکستان میں کیا لکھا ہے اس پر کسی کی توجہ نہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اور نظریہ کیا تھا؟ آزادی کے وقت نعرہ کون سا بلند کیا گیا؟ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں سے کیا وعدہ کیا گیا؟ یہ سب کچھ بھلا دیا گیا اور اب ایک نئی ’’تہذیب‘‘ کو قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے، جس میں سیکولر طبقے، میڈیا ، نام نہاد سول سوسائٹی، این جی اوز وغیرہ کا بڑا کردار ہے۔ اس طبقے کے سامنے ہمارے سیاستدان، عدلیہ، حکومت سب سر جھکائے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری دینی و معاشرتی اقدار کو کھلے عام نشانہ بنایا جا تا ہے اور مغربی اور بھارتی کلچر کو خوب پھیلایا جا رہا ہے۔ بے شرمی اوربے حیائی تو بہت عام ہو چکی اور اس سلسلے میں ٹی وی چینلز کا انتہائی گھٹیا کردار ہے۔ 
Tumblr media
بے حیائی کے ساتھ ساتھ جس گندگی کو تہذیب کے نام پر یہاں پھیلایا جا رہا ہے اُس میں اب تو ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔ کھل کر اور دبے لفظوں میں بھی ہم جنس پرستی کی حمایت کی جاتی ہے۔ مغرب سے مرعوب طبقے نے یہاں حقوق نسواں، آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر عورت کو گھر سے، اپنے خاوند، بھائی، باپ اور خاندان سے دور کر کے بربادی کا کاروبارشروع کیا ہوا ہے۔ شادی اور گھر کو قید ، اور طلاق پر خوشیاں منانے کو رواج دے کر ہم پر مسلط کی جانے والی ’’تہذیب‘‘ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ آہستہ آہستہ سب کچھ اپناتے چلےجا رہے ہیں۔ کوئی رکاوٹ نہیں، کوئی بولتا بھی نہیں۔ جو کچھ قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوا اس پرحکومت کو ادارے کی انتظامیہ کے خلاف تادیبی کاروائی کرنی چاہئے۔ اس سے اہم بات یہ کہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور اساتذہ کی تعیناتی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں اور ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کو اہمیت دیتے ہوں۔ 
اگر اساتذہ اسلام سے دور ہوں گے اور مغربی اور بھارتی کلچر سے مرعوب ہوں گے تو پھر ایسی ہی نسل پروان چڑھے گی جس کی کوئی تہذیب ہی نہ ہو گی۔ جو اپنے اصل سے تو شرماتی ہو گی لیکن غیروں کی نقالی میں فخر محسوس کرتی ہو گی۔ بحیثیت قوم ہم اپنی نسل کو تباہ وہ برباد کر رہے ہیں۔ جو نسل اپنی اصل، اپنی پہچان، اپنے دین اور اپنی اقدار سے واقف نہ ہو اور اس پر فخر نہ کرتی ہو تو ایسی نسل کا کیا بنے گا ؟ یہ لمحہ فکر یہ ہے جس پر ہماری ریاست، حکومت، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ سب کو غور کرنا چاہئے۔ اپنی قوم اور نسل کی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر تربیت اور کردار سازی وہ اہم ترین ذمہ داری ہے جس پر اگر ہم نے توجہ نہ دی تو ہمارا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes