Tumgik
#کدال
davoodshakeri-blog · 11 days
Text
در این مطلب در مورد سامانه تا کدال و ویژگی های آن صحبت شده است. با استفاده از این سایت شما می توانید به راحتی به آخرین تحلیل های بنیادی دسترسی داشته باشید.
0 notes
urdu-poetry-lover · 4 months
Text
طناب ِ کرب نہ خارِ ملال کھینچتا ہے
وہ اب چھوۓ بھی تو لگتا ہے کھال کھینچتا ہے
خزاں کے ہاتھ لگے پھول یا کہ زلفوں کے
ہر اک عروج کو آخر زوال کھینچتا ہے
سراب وہ ہے جو کرتا ہے منزلوں سے گریز
مچھیرا وہ ہے جو پانی سے جال کھینچتا ہے
تمہارا ہجر کسی شرٹ کے بٹن کی طرح
کبھی کبھی مرے سینے کے بال کھینچتا ہے
میں اس کو خواب کے زنداں میں قید رکھتا ہوں
وہ میرے گرد حصار ِ خیال کھینچتا ہے
سخی کی خیر ہو مولا کہ اس کی چوکھٹ سے
فقیر اٹھتا ہے ، دست ِ سوال کھینچتا ہے
گھڑی بنا کے ھے بیٹھا ہوا ازل سے پرے
وہ نقشہ گر جو مرے ماہ و سال کھینچتا ہے
یہ کشمکش ہے کہ اب درمیان سے اپنے
میں ہجر کھینچتا ہوں وہ وصال کھینچتا ہے
کسی کی یاد کا ہل چل رہا ہے یوں جیسے
بدن میں گاڑ کے کوئی کدال کھینچتا ہے
یہ سوز کب ہے مری جاں مری کہانی ہے
یہ نوحہ گر تو مرے دل کا حال کھینچتا ہے
بغور دیکھتے رہنا اسے کہ یہ وحشی
حصار ِ رقص میں اکثر دھمال ،، کھینچتا ہے
بس ایک بار اٌڑا تھا منڈیر سے اس کی
دل اب تو شہر کی سڑکوں پہ فال کھینچتا ہے
اک ایسے شخص کو لڑنا سکھا رہا ہوں جو خود
عدو سے تیغ محافظ سے ڈھال کھینچتا ہے
دئیے کی لَو کو بجھاتا ہے روشنی کے لئے
پھر اس کے بعد وہ چہرے سے شال کھینچتا ہے
ضمیر ، بعد میں بنتا ہے زخم چہرے کا
یہ عشق پہلے محبت سے گال کھینچتا ہے
ضمیر قیس
1 note · View note
kasradoc · 4 years
Photo
Tumblr media
‏‎. جایزه نوبل بورس : هربرت سایمون برنده جایزه نوبل معتقد است که فعالیت اقتصادی به خاطر غفلت از نامعلوم بودن آینده محدود می گردد. مودیلیانی با ارائه نظریه تامین مالی مدرن، نظریه سنتی را کاملاً دگرگون ساخت. شهرت هری مارکوویتس به سبب تحقیقات او در مورد مالیه شرکت ها و نظریه پرتفوی است. ویلیام شارپ یکی دیگر از برندگان جایزه نوبل معتقد است که ریسک بازار را نمی توان با متنوع سازی دارائی ها کاهش داد زیرا این خطر درهمه انواع اوراق بهادار موجود است. تغییر ساختار مالیاتی بر رابطه میان ترکیب دارایی شـرکت و ارزش بازار سهام آن تاثیر می گذارد. هربرت سایمون: هربــرت سایمون (HARBERT A.SIMON) به خاطر اهتمامی که دربیان نظریه های جدید اداری و اقتصادی داشته و همچنین کوشش های او در جرح و تعدیل مسائل رفتاری واداری با استفاده از نبوغ فوق العاده و مهارتهایش در مسائل روانشناسی، علوم اجتماعی و کامپیوتر، در سال ۱۹۷۸ مفتخر به دریافت جایزه نوبل گردید. دانلود نمایید: https://www.kasradoc.com/product/nobel-prize-in-scholarship/ #word #Document #Kasradoc #کسری_داک #ورد #مقاله #تحقیق #جایزه_نوبل_بورس #اقتصاد #بورس #جایزه_نوبل #سهام #نوبل #بورس_اوراق_بهادا_تهران #تحلیل_بازار_سرمایه #حقوق_صاحبان_سهام #ذینفعان_بازار_سرمایه #سهام_سرمایه #سهام_عدالت #کدال #ورود_به_بازار_سرمایه #صندوقهای_سرمایه_گذاری #صورتهای_مالی #فرابورس #بورس_اوراق_بهادار_تهران #تابلو_بورس_تهران #اختیار_معامله #بازار_اولیه #بورس_انرژی #بورس_کالا‎‏ https://www.instagram.com/p/CL9HIUnpk6o/?igshid=1bby7c9jzoeth
0 notes
rasoolzaraei1374 · 4 years
Photo
Tumblr media
‏‎#افزایش_سرمایه شما کدام از این سهام رو دارید ؟ #سهام شارپی #سهام رانتی #سهم های مستعد رشد ✅استوری هارا از دست ندید✅ ✅مارو فالو داشته باشین تا پست های بعدی ما رو از دست ندین✅ ✅جهت اطلاع از سهم های شارپی به دایرکت مراجعه کنید ✅ saham_sharpi saham_sharpi saham_sharpi #بورس#کدال #سکه #طلا #دلار #یورو #بازار_سرمایه #تکنیکال #سیگنال_خرید #بورس_تهران #تریدر #ارز #ترید #آموزش_بورس #تحلیل_تکنیکال #تحليل #عیار #دلار_آمریکا‎‏ https://www.instagram.com/p/CKV5YRuBKlC/?igshid=b5o24ajcl1lj
0 notes
fooyarcompany · 4 years
Photo
Tumblr media
❇️ خبر خوش مدیرعامل شرکت ذوب آهن اصفهان : مدیرعامل ذوب آهن اصفهان از خروج از زیان انباشته و اعلام سود تا پایان سال ، برنامه افزایش سرمایه و ارتقا نماد از فرابورس به بورس و تاسیس صندوق بازارگردانی اختصاصی خبر داد. منصور یزدی زاده در مورد آخرین وضعیت فروش #ذوب_آهن اصفهان گفت: در 6 ماه اول سال جاری نسبت به سال گذشته بیش از 7.56 هزار میلیارد تومان درآمد فروش محقق شده و با این روند قطعا تا پایان سال جاری از زیان انباشته خارج و به سودآوری می رسد. وی ادامه داد: در این صورت شرایط ارتقا نماد "#ذوب" از بازار معاملات #فرابورس به #بورس برای سال آتی فراهم خواهد شد و به طور قطع با تحقق این رویداد ، حمایت از سهام نیز با توجه به اثر سهم بر شاخص افزایش خواهد یافت. یزدی زاده از برنامه #افزایش_سرمایه قریب الوقوع خبر داد و گفت: تدارک افزایش سرمایه از محل آورده نقدی و مطالبات سهامداران در جریان و در مرحله بررسی حسابرس و بازرس قانونی است و بزودی نهایی و در #کدال افشا می شود تا با دریافت مجوز سازمان بورس و برگزاری مجمع فوق العاده ، بهبود ساختار مالی شرکت و همچنین تامین سرمایه در گردش مورد نیاز جهت افزایش تولید در سال آتی فراهم شود . وی تاسیس صندوق #بازارگردانی_اختصاصی را از دیگر اقدامات موثر این شرکت معرفی کرد و توضیح داد: موافقت اصولی تاسیس صندوق بازارگردانی ذوب آهن از سازمان بورس دریافت شده تا برنامه تقویت منابع مالی این صندوق جهت حمایت از سهام شرکت محقق شود . همچنین مذاکراتی با سهامداران عمده شرکت شده تا با بازارگردانی سهام به ایجاد ثبات و تعادل در معاملات کمک کنند . یزدی زاده از احتمال ورود ذوب آهن برای خرید #سهام_خزانه خبر داد و افزود: پس از انجام افزایش سرمایه در خصوص ظرفیت های ناشی از سهام خزانه نیز تصمیم گیری خواهد شد. با این اوصاف تا زمانی که سرمایه گذاران ، قادر به حفظ سهام بوده و اسیر رفتار هیجان های مقطعی نشوند هیچ گونه ضرر و زیانی متوجه آنها نیست . چرا که قطعا شرایط و هیجان های فعلی نیز گذرا خواهد بود و رشد شرکت های بنیادی ادامه خواهد یافت . https://www.instagram.com/p/CF4EuMLpIPY/?igshid=1p6n39koo5526
0 notes
eventbourse · 4 years
Photo
Tumblr media
‌‌ ‌سلام به همگی✌️ ایشالله که ظهر عاشورا از پرتفوی ها همه رخت ببنده وبره😉 هواستون به عرضه اولیه این هفته هست؟؟ #عرضه_اولیه_سهام#عرضه_اولیه_ثامید#آموزش#آموزش_بورس#آموزش_آنلاین#شاخص_کل_بورس#بورس_اوراق_بهادار_تهران#بورس_آنلاین#بورس_تهران#شستا#خودرو#کدال#تحلیل_تکنیکال#تحلیل_بورس#تحلیل_درخواستی#توییتر_بورس#twitter#instagram (at ایران تهران) https://www.instagram.com/p/CE145TlAPus/?igshid=yyjh5lrzinxz
0 notes
boursewithus · 4 years
Photo
Tumblr media
کدال نگر، بررسی عملکرد شهریورماه برخی سهم ها. وغدیر، فخوز، ساینا، وگستر، غویتا گزارش مثبت داشتند #سهام #سهام_عدالت #کارگزاری #مفید #آگاه #کارگزاری_مفید #کارگزاری_آگاه #بورس #فرابورس #بورس_به_زبان_ساده #بورسی_شو #بازار #مطالب_آموزنده #آموزشی #آموزش_بورس #آموزش_بورس_از_صفر #سرمایه_گذاری #دارادوم #پالايش #پالایشی #عرضه_اولیه #سود #کدال #فارابی #وغدیر #فخوز #ساینا #وگستر (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/CFiG_KVllDi/?igshid=1ikxnkaf2x3rn
1 note · View note
risingpakistan · 5 years
Text
خزانے کی دیگ پر ایمنسٹی
بزرگوں سے (جن میں سے اب کوئی باقی نہیں رہا) سنا کہ گئے وقتوں میں ٹھگ لوٹا ہوا مال دیگوں میں بھر کے زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے تھے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ آٹے کا سانپ بنا کر دیگ کے ڈھکن پر بٹھا دیا کرتے تھے۔ یوں وہ دیگ ناگ دیوتا کی حفاظت میں چلی جاتی تھی۔ اب چونکہ یہ لوٹ کا مال ہوتا تھا تو ٹھگوں کو بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ وہ بد نصیب ٹھگی کرتے قانون اور دوسرے ٹھگوں سے بچتے بچاتے ہی مر مرا جایا کرتے تھے۔ زمین کا مال زمین ہی میں دبا رہ جاتا تھا۔ کچھ ایسی ہی کہانیاں بحری قزاقوں کے بارے میں بھی مشہور ہیں کہ فلاں فلاں جگہ ڈوبنے والے جہاز پر لوٹ کا یہ یہ مال لدا ہوا تھا۔ زوال پذیر قوموں پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کمانے دھمانے کی بجائے ایسے دفینوں کی تلاش میں چل نکلتی ہیں۔
سنہ 1857 کے غدر کے بعد جب ہندوستان میں مسلم تہذیب، ثقافت اور صنعت و حرفت سب رو بہ زوال تھیں تو لوگ باگ ایسی کہانیاں سنتے اور ان خزانوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ ایسا ہی ایک مبینہ خزانہ ہماری پشتینی حویلی میں بھی دفن تھا اور اس خزانے کی خبر کئی سو سال پہلے مر جانے والے ایک بزرگ کی روح نے کسی خاتون رشتے دار پر حاضر ہو کر دی تھی۔ نکمے، وقت کے مارے لوگ، کسیاں، کدالیں لے کر نکلے اور بتائی گئی جگہ پر کھدائی کی۔ ساری نشانیاں پوری تھیں لیکن زمین میں مٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ چڑیا کے انڈوں کے برابر سچے موتی اور نہ ہی سونے سے بنا ہاتھی کا ہودا۔ ایک اور رشتے دار کے ہاں بھی جنات ساری رات سونے چاندی کی دیگیں ادھر سے ادھر لڑھکاتے پھرتے تھے لیکن تلاش بسیار کے باوجود ہاتھ کسی کے کچھ نہیں آیا۔
دکھ اس بات کا نہیں کہ خزانے مل نہ پائے، دکھ اس بات کا ہے اس ڈوبی ہوئی دولت پر اگلی نسلوں کے مستقبل تک سوچ لیے جاتے تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہی وقت کسی کاروبار میں لگاتے اور چار پیسے بناتے۔ حکومت ایف بی آر کی مدد سے لوٹی ہوئی دولت اور کالے دھن کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔ نئے بجٹ میں ذرائع آمدن کے طور پر عوام کو رکھا گیا ہے۔ جو ٹیکس دیتے ہیں ان سے مزید ٹیکس لیا جائے گا جو نہیں دیتے انھیں ایمنیسٹی کی کدال سے اپنی سونے کی دیگیں کھود کے لانے پر بہلایا جا رہا ہے۔ مہنگائی کا جن آزاد ہو چکا ہے۔ یوٹیلیٹی بلز لگژری بن گئے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہے، چل رہا ہے تو صرف خزانے کی دیگوں کے خواب دکھانے کا کاروبار۔
مراد سعید کی تقریر کس کو نہیں یاد جس میں وہ کف اڑاتے ہوئے پاکستان کے مبینہ دو سو ارب ڈالر کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ دو سو ارب ڈالر ان کے بیان کے مطابق پچھلے سال ہی خان صاحب کے قدموں میں ڈھیر ہو جانے چاہیے تھے۔ پھر وہ جس کے منہ پہ چاہتے مارتے مگر یہ ہو نہ سکا۔ کرپٹوں کا منہ کالا بھی ہو گیا، تبدیلی بھی آ گئی۔ اب ؟ فرض کرتے ہیں کہ ایف بی آر کوئی جنتر منتر پڑھ کے سارا کالا دھن برآمد بھی کر لیتا ہے تو یہ دھن کب تک چلے گا؟ مثل مشہور ہے بیٹھ کے کھانے سے تو قارون کا خزانہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ پیسہ کے برس چلے گا؟ اس کے بعد کیا ہو گا؟ یہ کالا دھن بنانے والے بھی کشکول لیے ہمارے ساتھ بھیک مانگیں گے۔ روز کا ایک نیا اشقلہ چھوڑا جاتا ہے کبھی بھینسیں بیچی جاتی ہیں، کبھی تیل کے کنووں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور کبھی نمک کی کان میں جا کر واویلا کرتے ہیں کہ ارے ہم تو اس سے ہی امیر ہو سکتے ہیں۔
عرض صرف اتنی ہے کہ ملک کی معیشت، دفینوں، خزینوں، سبز باغوں، متوسط طبقے کے خون پسینے اور غیر ملکی بھیک پر نہیں چلتی۔ مبینہ کرپٹ گرفتار ہیں۔ آپ کا معاشی بحالی کا پروگرام کیا تھا اور وہ کہاں گیا؟ آپ کو شاید خزانوں کی کہانیاں سنانے والے موکلوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کالا دھن کسی کے نصیب کا نہیں ہوتا۔ جب اس کی تلاش کی جائے تو ان پر بیٹھے ناگ انھیں اندر ہی اندر لڑھکا کے کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ چلتے چلتے ایک لطیفہ سن لیجے۔ ایک کنجوس چودھری نے اپنے کسی کامے کو خوش ہو کر انعام دیا اور کہا، ’جا اوئے کرمیا! تجھے وہ بھینس دی جو پچھلے سال سیلاب میں بہہ گئی تھی۔ ان کے مصاحب نے فٹ کان میں کہا کہ چودھری صاحب، وہ بھینس تو مل بھی سکتی ہے آپ وہ کٹی دیں جو کل مر گئی ہے۔‘ تو صاحبو! یہ لوٹا ہوا مال، وہی مردہ کٹی ہے جو زندہ نہیں ہو سکتی۔ معیشت کی بنیاد سچ پر رکھیے، ہم آپ کے جذباتی اور ڈنگ ٹپاو فیصلوں کے نہیں درست اور اچھے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
آمنہ مفتی بشکریہ بی بی سی اردو
1 note · View note
asimhanif · 3 years
Video
instagram
مرا پیمبر عظیم تر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے کمالِ خلاق ذات اُس کی جمالِ ہستی حیات اُس کی بشر نہیں عظمتِ بشر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ وہ خود ہی قانون خود حوالہ وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری وہ آپ مہتاب آپ ہالہ وہ عکس بھی اور آئینہ بھی وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے شعور لایا کتاب لایا وہ حشر تک کا نصاب لایا دیا بھی کامل نظام اس نے اور آپ ہی انقلاب لایا وہ علم کی اور عمل کی حد بھی ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی وہ ہر زمانے کا راہبر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے وہ آدم و نوح سے زیادہ بلند ہمت بلند ارادہ وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے بس ایک مشکیزہ اک چٹائی ذرا سے جَو ایک چارپائی بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی یہی ہے کُل کائنات جس کی گنی نہ جائيں صفات جس کی وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے مرا پیمبر عظیم تر ہے جو اپنا دامن لہو سے بھر لے مصیبتیں اپنی جان پر لے جو تیغ زن سے لڑے نہتا جو غالب آ کر بھی صلح کر لے اسیر دشمن کی چاہ میں بھی مخالفوں کی نگاہ میں بھی امیں ہے صادق ہے معتبر ہے میرا پیمبر عظیم تر ہے جسے شاہِ شش جہات دیکھوں اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں عنانِ کون و مکاں جو تھامے کدال پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں لگے جو مزدور شاہ ایسا نذر نہ دَھن سربراہ ایسا فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے میرا پیمبر عظیم تر ہے وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی محاذ و منبر ٹھکانے اس کے وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی کہیں وہ موتی کہیں ستارہ وہ جامعیت کا استعارہ وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے میرا پیمبر عظیم تر ہے https://www.instagram.com/p/CZL4ELqoZ3I/?utm_medium=tumblr
0 notes
zoqoshoq · 3 years
Text
Tumblr media
آج سے پندرہ سال پہلے کی بات ہے ہمارے گاؤں میں اللہ بچایا نامی ایک گورکن رہتا تھا؛جوفوت ہوچکا ہے۔ایک دن گاؤں کے پڑھے لکھے لڑکے اکھٹے ہوئے اور اللہ بچایا سے کہنے لگے کہ آپ کی ساری زندگی قبرستان میں گزرگئی ہے ہمیں کوئی واقعہ سنائیں۔یہ سن کراللہ بچایا سنجیدہ ہوا اور لمبی سانس لی اور کہنے لگا؛۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج مجھے ستائیس سال ہوگئے ہیں میں قبریں بنارہا ہوں۔میرے ساتھ ایک ہی واقعہ گزرا ہے؛گرمیوں کی دوپہر تھی؛کچھ لوگ میرے پاس آئے کہ بابا جی قبر بنانی ہے۔میں نے پوچھا کہ آدمی ہے یا عورت ہے۔توانہوں نے بتایا کہ عورت۔۔۔۔۔۔۔کرنٹ لگنے کی وجہ سے فوت ہوگئی ہے۔وہ لوگ یہ کہہ کر چلے گئے۔میں عموماًاکیلا ہی قبر بناتا ہوں؛میں نے سخت گرمی میں قبر بنانا شروع کردی۔دوپہر دوڈھائی بجے تک قبر مکمل ہوگئی۔قبر کوفائنل ٹچ دینے کے لئے میں نےقبر کے اندر کدال ماری تو مجھے ایسے آوازآئی جیسےکوئی شیشے کی چیز ٹوٹ گئی ہے اور بس پھر خوشبو ہی خوشبو پھیل گئی اور قبر ٹھنڈی ہوگئی۔میں قبر میں ہی لیٹ گیا۔باہر سخت گرمی تھی اور اندرقبر ٹھنڈک اور خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔اس سے میری روح تک خوش ہوگئی۔میں حیرانی اور دہشت سے خاموش رہا۔مغرب کے بعد جنازہ آگیا۔عورت کے ورثاء نے اسے دفنادیا اورچلے گئے۔مگر میرے اندر تجسس بھرا ہوا تھا کہ اس عورت کی کون سی نیکی ہے جواس کواتنا بڑا انعام ملا ہے۔باتوں ہی باتوں میں میں نے معلوم کرلیا تھا۔کہ یہ عورت فلاں محلے میں رہنے والی تھی اور بجلی کے کرنٹ لگنے سے فوت ہوگئی ہے۔آباؤاجداد یہیں کے رہنے والے تھے۔میں پوچھتا ہوا اس کے محلے پہنچ گیااورعورت کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس عورت کا خاوند کچھ عرصہ پہلے فوت ہوگیا تھا۔وہ بیچارہ چھ سات سال بیمار رہا اس عورت نے دن رات اس کی خدمت کی۔خاوند کی شدید بیماری کے باوجود اس کے ساتھ بے وفائی نہیں کی اور دل وجان سے اس کی تیمارداری کرتی رہی اور باوجود غربت کے اس کو محنت مزدوری کرکے کھانا کھلاتی رہی اور اپنے جذبات کو اپنے خاوند پر قربان کردیا۔جولوگ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر بے لوث انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔اور اپنی راتیں بھی اللہ کی راہ میں جاگتے ہیں۔انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں ایسے ایسے انعامات دوں گا کہ جس کو کسی آنکھ نے دیکھا اور کسی نے تصور بھی نہیں کیا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی قبریں خوشبو اور ٹھنڈک سے بھری ہوئیں ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اور سب مسلمانوں کو بخش دے اور آخرت میں ٹھنڈک عطافرمائے۔۔۔۔۔۔۔آمین۔۔۔۔
0 notes
nourabourse · 3 years
Photo
Tumblr media
پرداخت سود #شستا از طریق سجام در حالی که پیش از این در شفاف سازی شستا روی سامانه کدال قرار بود که سود سهام از ۴ آبان با مراجعه به شعب بانک رفاه پرداخت شود در مجمع این شرکت مقرر شد که از طریق سجام در ۲۵ آبان ماه پرداخت میشود . . (at تهران سعادت آباد) https://www.instagram.com/p/CVNFuoBIxm1/?utm_medium=tumblr
0 notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور....
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور….
مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری اور…. ازقلم:ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226   ممتاز عالم دین‘ داعی اسلام‘ مولانا کلیم صدیقی کو آخر گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر عمرگوتم کی گرفتاری کے بعد سے ہی یہ اندیشہ تھے کہ ان کے علاوہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت پہلی کدال چلانے والے بلبیر (عمر) کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔ عمر کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہوگیا۔ کلیم صدیقی صاحب کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
islamiclife · 3 years
Text
ملکہ زبیدہ اور نہرِ زبیدہ
اس حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ تاریخ اچھے الفاظ میں صرف انہی کو یاد رکھتی ہے جنہوں نے مفاد عامہ کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دی ہوں۔ تاریخ جہاں فلاحی کام کرنے والوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہیں سیاہ کرتوت کے حامل افراد کے سیاہ کارناموں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔ جب ہم خلافت عباسیہ کے پانچویں خلیفہ ہارون الرشید کے دور خلافت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی نیک نامی کے ساتھ کچھ نہ کچھ انتظامی خامیوں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ ہارون الرشید اس لحاظ سے خوش قسمت گردانے جائیں گے کہ ان کی شریکِ حیات ایک نیک، پارسا، خدا ترس اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار خاتون تھیں۔ زبیدہ بنت جعفر ، عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی چچازاد اور بیوی تھیں۔ ان کا ابتدائی نام اگرچہ " امۃ العزیز " تھا لیکن ان کے دادا جنہیں ان سے بے پناہ پیار تھا اسے ''زبیدہ ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے چنانچہ بچپن ہی سے ان کا یہ نام شہرت اختیار کر گیا اور اصل نام امۃ العزیز قصہء پارینہ بن گیا۔
زبیدہ 762 عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کے والد موصل کے گورنر تھے۔ زبیدہ انتہائی خوش شکل، ذہین ، نرم گو، رحم دل مخیراور انتہائی خوش پوش خاتون تھیں۔ سن 782 عیسوی میں جب یہ بیس برس کی عمر کو پہنچیں تو انکی شادی خلیفہ ہارون الرشید سے ہو گئی۔ کہتے ہیں ہارون الرشید اس شادی پر اسقدر خوش تھے کہ انہوں نے بلا تفریق ہر خاص و عام کو شادی کی تقریب میں مدعو کیا تھا۔ ملکہ زبیدہ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ 23 سال تک ایک وسیع و عریض سلطنت کی خاتون اول رہیں۔ ہارون الرشید کا 23 سالہ دور خلافت ملکہ زبیدہ کے شاہانہ عروج کا دور تھا۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر فلاحی کاموں میں حیرت انگیز طور پر حصہ ڈالا۔ انہوں نے عراق سے مکہ معظمہ تک حاجیوں اور مسافروں کے لئے جگہ جگہ سرائیں تعمیر کرائیں ، کنویں کھدوائے۔ اس زمانے میں تواتر سے آتی آندھیوں کے سبب سال کے بیشتر حصے یہ رستہ مٹی سے ڈھک جاتا تھا جس کے سبب مسافر اکثر راستہ بھول جاتے اور کئی کئی دن صحرا میں بھٹکتے رہتے تھے۔
چنانچہ ملکہ زبیدہ نے لاکھوں دینار خرچ کر کے راستے کے دونوں جانب پختہ دیواریں تعمیر کرائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکہ نے اپنے ذاتی خرچ پر کئی مسجدیں بنوائیں۔ علاوہ ازیں ملکہ زبیدہ نے ایک نہر عار کوہ بنان سے بیرو تک بنوائی اور اس پر متعدد پل بھی بنوائے۔ جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں ۔انہیں اب بھی '' تناظر زبیدہ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ''انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا‘‘ کے مطابق ملکہ زبیدہ نے ایران کے ایک پر فضا مقام سے متاثر ہو کر تبریز نامی ایک شہر بھی آباد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مصر کے تاریخی شہر اسکندریہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو دوسری ہجری میں حادثاتِ زمانہ کے ہاتھوں تقریباً اجڑ چکا تھا, ملکہ زبیدہ نے اس تاریخی شہر کے تشخص کو بحال کرنے کے لئے اسکی ازسرنو تعمیر کرائی۔ یوں تو ملکہ زبیدہ کے رفاہی کاموں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ملکہ کا ایک کارنامہ جو رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔ وہ '' نہر زبیدہ ‘‘ جیسے کٹھن اور بظاہر ناممکن منصوبے کی تکمیل تھی۔
نہر زبیدہ کی تعمیر کا پس منظر: صدیوں سے مکہ مکرمہ اور دیگر سعودی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید سے بہت پہلے بھی ایک دفعہ پانی کا اس قدر سنگین بحران پیدا ہو گیا تھا کہ محض ایک مشکیزہ دس درہم تک بکنے لگا۔ ایک دفعہ جب ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں تو انہوں نے اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی قلت دیکھی تو اسی لمحے انہوں نے مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے مستقل انتظام کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ اس کا مقصد اہل مکہ اور حجاج کرام کو بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔ ملکہ نے ہنگامی بنیادوں پر جب دنیا بھر کے ماہرین کو یہ ذمہ داری سونپی تو طویل جدوجہد کے بعد ماہرین نے اطلاع دی کہ انہیں دو جگہوں سے بہتے چشموں کا سراغ ملا ہے۔ ایک مکہ مکرمہ سے لگ بھگ پچیس میل کی دوری پر جبکہ دوسراچشمہ کرا کی پہاڑیوں میں نعمان نامی وادی کے دامن میں واقع ہے ۔
ان چشموں کا مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ درمیان میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے رکاوٹ ڈالتے نظر آ رہے تھے۔ ملکہ جو اس نیک کام کا تہیہ کر چکی تھیں انہوں نے اس موقع پر جو احکامات جاری کئے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے آج بھی زندہ ہیں، ''ان چشموں کا پانی مکہ تک پہنچانے کے لئے ہر قیمت پر نہر کھودو۔ اس کام کے لئے جتنا بھی خرچ آئے پروا نہ کرو حتی کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو دے دو ‘‘۔ ملکہ کا حکم اور ارادے رنگ لے آئے۔ تین سال دن رات ہزاروں مزدور پہاڑیاں کاٹنے میں مشغول رہے۔ منصوبے کے تحت مکہ مکرمہ سے 35 کلو میٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ''جبال طاد ‘‘سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ایک نہر جس کا پانی ''جبال قرا ‘‘ سے '' وادی نعمان ‘‘ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا۔ یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع تھا۔علاوہ ازیں منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر واقع ایک تالاب ''بئیر زبیدہ ‘‘کے نام سے تھا جس میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔
چنانچہ اس تالاب سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر تک لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔اور یوں اللہ نے اہل مکہ اور حجاج کرام کی سن لی اور نہر کا یہ تاریخی منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔ بہت سارے لوگوں کے لئے یہ انکشاف شاید نیا ہو گا کہ اس نہر کا بنیادی نام ''عین المشاش ‘‘تھا لیکن اللہ تعالی کو شاید ملکہ زبیدہ کے نام کو اسی نہر کے توسط سے دوام بخشنا مقصود تھا جس کے سبب یہ ''نہر زبیدہ ‘‘کے نام سے شہرت اختیار کر گئی۔ نہر زبیدہ 1200 سال تک مکہ مکرمہ اور ملحقہ علاقوں تک فراہمی آب کا بڑا ذریعہ رہا۔ پھر 1950 کے بعد اس نہر سے پمپوں کے ذریعہ پانی کھینچنے کاسلسلہ زور پکڑتا گیا جو رفتہ رفتہ نہر کی خشکی تک آن پہنچا۔ آج بھی اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں موجود ہے۔ بلا شبہ یہ ایک کٹھن اور بظاہر ناممکن منصوبہ تھا جسے ملکہ زبیدہ کی مدبرانہ حکمت عملی اور انتھک کاوشوں کے طفیل کامیابی ملی۔ نہر زبیدہ درحقیقت اسلامی ورثے کا ایک نادر نمونہ اور انجنئیرنگ کا لازوال شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر دیکھ کر آج بھی انجینئر اور ماہر تعمیرات حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم اور کٹھن منصوبے کو کیسے پایہء تکمیل تک پہنچایا گیا ہو گا۔
خاورنیازی بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
classyfoxdestiny · 3 years
Text
طالبان فتح کو پائیدار بنائیں
طالبان فتح کو پائیدار بنائیں
10 اکتوبر 2001ء، 9/11 کو پورا ایک ماہ گزر چکا تھا…… رعونت بھری اور قابو میں نہ آنے والے غصے سے کانپتی کرہ ارض کی واحد سپر طاقت امریکہ کے صدر بش دوئم نے پوری ہوائی طاقت کے ساتھ طالبان کی حکومت کو اُڑا دینے کی خاطر اور اسامہ بن لادن کو اپنی دسترس میں لے لینے کے لیے پاکستان کے فوجی جرنیل اور ناجائز آئینی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کے غیر مشروط تعاون کے ساتھ ملک افغاناں پر اندھا دھند بموں کی بارش کرنے اور یوں زمانے کی سب سے بڑی طاقت و قوت کے زور پر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی ٹھان رکھی تھی…… شمالی افغانستان میں اس وقت کا مشہور شمالی اتحاد اس کا ساتھ دینے کا اعلان کر چکا تھا…… بھارت ہم آواز بن گیا تھا لیکن اصل اور فیصلہ کن عامل جنرل مشرف کی جانب سے ایک ہی ٹیلی فون کال پر مملکت پاکستان کے تمام وسائل واشنگٹن کے حکمرانوں کے چرنوں پر ڈال دینے اور قدم قدم پر تعاون کرنے کا اعلان ثابت ہوا …… اس طرح پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اور شرمناک یوٹرن لیتے ہوئے اس مشرف نے جو ایک دو ماہ پہلے تک کابل میں طالبان کی حکومت کا بڑا حامی بنا پھرتا تھا تاریخ کا ایسا ورق پلٹا جس کے کاری زخموں کو چاٹنے پر ہماری قوم اب تک مجبور ہے…… اس تمہید کو مختصر کرتے ہوئے یہ بتانا مقصود ہے 10 اکتوبر 2001 کو جب مشرف کی بندوق بردار اور ٹینکوں پر بیٹھ کر آئی ہوئی حکومت رعب اور دبدبے کے لحاظ سے اپنے عروج پر تھی تب  ہمارے اس ڈکٹیٹر اور امریکہ کے اس وقت کے وزیرخارجہ جان پاول نے اسلام آباد میں مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا اعلان کرنا تھا…… نصف النہار پر 12 بجے پریس کانفرنس کا وقت طے تھا جسے پی ٹی وی پر براہ راست نشر ہونا تھا اور دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں کے کیمرے ایوان صدر کے اس کمرے میں نصب تھے جہاں سے دونوں کے اعلان نے گونج بن کر لمحے کی سب سے بڑی خبر کا روپ دھارنا تھا…… واضح رہے اُن دنوں پاکستان میں نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا رواج نہیں پڑا تھا اور سوشل میڈیا نامی مخلوق سے ہماری قوم زیادہ واقفیت نہیں رکھتی تھی لہٰذا پی ٹی وی واحد برقی ذریعہ ابلاغ تھا اور اس کے ذریعے پاکستان اور امریکہ دونوں کی تاریخ کا اہم باب کھلنے والا تھا…… پی ٹی وی والوں نے اہتمام کیا کہ 12 بجے پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے 10 سے 12 تک آدھ آدھ گھنٹے کے SLOT میں کچھ صحافیوں کو بلا کر ان سے باری باری ناظرین کو صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر سے آگاہ رکھنے کی سعی کی جائے…… مجھے بھی اس زمانے میں وقتاً فوقتاً حالاتِ حاضرہ پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لئے بلا لیا جاتا تھا…… کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میری باری سے قبل 11 اور 11:30 بجے کے SLOT پر مرحوم ارشاد احمد حقانی نے اپنا نقظہ نظر پیش کیا اس کے فوراً بعد اور اتنی بڑی پریس کانفرنس کے عین آدھ گھنٹہ پہلے مجھ نادار کو بھی اسلام آباد کے ایک شریک گفتگو کے ساتھ خیالات پیش کرنے کی دعوت دی گئی…… لاہور سٹوڈیو میں داخل ہونے سے پہلے یہاں کی انتظامیہ نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ عطاء صاحب آپ کو بلا تو لیا ہے اور آپ کے خیالات سے بھی ہم بخوبی واقفیت رکھتے ہیں لیکن براہ کرم ہتھ ہولا رکھئے گا…… اپنی بات ضرور کیجئے گا لیکن انتہائی دھیمے لہجے میں …… میں نے انہیں حوصلہ دیا اور لاہور سٹوڈیو میں کیمرے کے سامنے جا بیٹھا…… اسلام آباد کے ساتھی نے تھوڑی سی گفتگو کی اس کے بعد میری باری آئی تو سینے میں جو آگ بھڑک رہی تھی اس کے شعلے باہر نکل آئے…… پروگرام براہ راست نشر ہو رہا تھا…… جنرل مشرف اور جان پاول پریس کانفرنس کی تیاری کر کے غالباً سامنے بیٹھے ہوئے تھے…… میں بے اختیار بول اٹھا اور الفاظ قابو میں نہ رہے…… ڈنکے کی چوٹ کہا امریکہ پاکستان کو جس آگ میں جھونک رہا ہے اس میں ہمارے ریاستی وسائل تو جل کر خاک ہو جائیں گے ہماری حاکمیت اعلیٰ (Sovereignty) میں بھی اگر کوئی رمق باقی رہ گئی ہے تو ملیامیٹ ہو جائے گی…… میں بے تکان بول رہا تھا…… اسی سانس میں کہا امریکی وزیرخارجہ یہاں بیٹھے ہیں وہ محض طالبان جنگجوؤں کے ساتھ نہیں پوری افغان قوم اور اس کی تاریخ جس نے ہمیشہ حملہ آور طاقتوں کا پانسہ پھیر کر رکھ دیا ہے اور انہیں ذلیل و خوار کر کے واپسی پر مجبور کیا ہے…… سابق سوویت یونین کی مانند یہ بھی جلد اپنا حشر دیکھ لیں گے…… چاہے کتنے سال اس کی نذر ہو جائیں …… میرے Slot کا وقت ختم ہوگیا…… پریس کانفرنس شروع ہوا چاہتی تھی میں سٹوڈیو روم سے باہر نکلا…… لاہور سٹیشن کی ساری انتظامیہ پریشان کھڑی تھی…… انہوں نے میرے طرزِ کلام پر سخت احتجاج کیا اور جو کچھ کہا ہوگا آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں …… میرے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی اور یہ سوچتا ہوا باہر نکل آیا کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آئندہ مجھے کسی پروگرام میں بلایا نہیں جائے گا جس کی 
مجھے پروا نہیں تھی…… تاہم اگلے ہی روز کرنٹ افیئر شعبہ کے اس وقت کے مرحوم انچارج نے مجھے بتایا کہ کل کی Slot پر چاروں سٹیشنوں سے انہیں جو فیڈبیک ملا ہے اس میں میرے دھماکہ خیز بیان کی سب سے زیادہ تائیدو تحسین کی گئی ہے……
آج جبکہ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور افغانستان میں حالات میں حیرت انگیز حد تک جو پلٹا کھایا ہے اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا کہ ہمارے باشعور قارئین گزشتہ 3، 4 دن کے دوران گزرے ایک ایک لمحے سے آگاہی رکھتے ہیں …… عالمی امور کی باریکیوں پر نگاہ رکھنے والے دنیا بھر کے تھنک ٹینکوں میں بیٹھے ہوئے اور دارالحکومتوں کے پالیسی ساز اداروں کے ذریعے حکمرانی کرنے والے داناورطہئ حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں …… سب جگہ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے فوجی ماہرین کے ہاتھوں دو ٹریلین ڈالر کا زرِکثیر صرف کر کے تین لاکھ کی تعداد میں کمانڈروں، افسروں اور جوانوں پر مشتمل جو افغان فوج 20 سال کی محنت شاقہ کے نتیجے میں کھڑی کی گئی تھی اور اسے حالت جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی وہ طالبان جو ایک لاکھ سے زیادہ نہیں کی یلغار کے آگے تنکوں کی طرح کیسے بکھر گئی…… اور یوں امریکہ سمیت تمام یورپی سرپرستوں اور ان کی آواز میں آواز ملانے والے جغادری دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی شرمندگی کا باعث کیونکر بنی…… اس کا ایک جواب جو عمومی طور پر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ فوجی پرلے درجے کے تنظیمی فقدان کا شکار تھے…… ان میں ڈسپلن نام کی چیز عنقا تھی…… وفاداریاں مشکوک تھیں …… جہاں حملہ کرتے اس بستی سے مال و زر سمیٹ لینے کی ہوس میں مبتلا رہتے تھے…… انہوں نے کیا خاک لڑنا تھا…… امریکی صدر جوبائیڈن نے تازہ ترین تبصرے میں اس پر اتنی پخ لگائی ہے کہ افغان فوج لڑنے کے عزم سے محروم تھی…… پہلا سوال یہ ہے کیا امریکی پالیسی سازوں کو 20 سال کے بعد اس حقیقت سے آشنائی ملی ہے کہ جس افغان فوج کو اتنی محنت اور توجہ کے ساتھ تیار کرتے اور قدم قدم پر اپنی رہنمائی میں لڑاتے رہے وہ کسی بھی فوجی میں پائی جانے والی بنیادی صفت یعنی دشمن کو ہر حالت میں نیچا دکھانے اور جنگ میں شکست دینے کے عزم و ارادے سے محروم اور بددلی کا شکار ہے…… اس میں سرے سے مقصد کی لگن نظر نہیں آتی تھی وہ پیشہ ور فوجیوں میں پائی جانے والی کم از کم صفات سے بھی محروم ہیں …… اگر بیس سال گزر جانے کے بعد امریکیوں کو اپنی پالتو فوج کے بارے میں اس حقیقت کا علم ہوا ہے تو تف ہے ان کی عقل و دانش اور وار سٹرٹیجی بنانے والوں پر اس شکست فاش میں افغان فوجیوں کا کم اور امریکہ اور نیٹو کے عسکری ماہرین اور سیاستدانوں کا قصور زیادہ ہے لیکن اس امر واقعہ سے ابھی تک صرف نظر کیا جا رہا ہے یا ہمیشہ کے سامراج کی مانند امریکی بھی اسے بھانپنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان کی تیارکردہ افغان فوج طالبان کی لڑاکا قوت کے ساتھ نہیں بلکہ پوری کی پوری افغان قوم کے ساتھ برسر جنگ تھی…… یہ ��ج نہیں صدیوں سے آزاد منش لوگ چلے آ رہے ہیں …… بندوق ان کا زیور ہے اور بیرونی قوتوں کے غلبے سے نبردآزما ہونے کا جذبہ ان کے جسم کی ایک ایک رگ میں پایا جاتا ہے…… جہاد کا جذبہ ان کے لئے مہمیز کا کام دیتا ہے…… 19ویں صدی کے نصف آخر میں دو جنگوں کے ذریعے انہوں نے انگریز فوج کے چھکے چھڑا کر رکھ دیئے تھے اور یہ توکل کی بات ہے کہ 20ویں صدی کے آخری عشرے میں انہوں نے وقت کی سب سے بڑی جنگی مشینری کی حامل سوویت سرخ فوج کا منہ پھیر کر رکھ دیا تھا…… وہ ایسی ذلت کا شکار ہوئی کہ ہمارے وقت کی سب سے بڑی سوشلسٹ نظریاتی سپر طاقت اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے بکھر گئی…… امریکی جو صرف چار دہائیاں قبل ویت نام کی شکست سے ملنے والی حزیمت سے ابھی تک نکل نہیں سکے ان کے آگے کیا بیچتے ہیں ……
اس جنگ کی دو دہائیوں کے دوران مجھے البتہ یہ تشویش لاحق رہی کہ طالبان کی فتح جو روزاوّل سے نوشتہ دیوار بن کر نظر آتی تھی اس بار بھی یہ لوگ اپنی پہلی حکومت (1996-2001) کی طرح دوبارہ برسراقتدار آئیں گے تو اپنے ہم مذہب ہم مسلک تاجک بھائیوں جو کل آبادی کے 37 فیصد سے کم نہیں اور تقریباً 15 فیصد ازبکوں کے علاوہ شیعہ ہزارہ مسلک کی چھوٹی سی اقلیت کو یکسر نظرانداز کر کے اپنے لئے پہلے جیسے مسائل کھڑے نہ کر لیں …… یہ بات میں اس سے قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ 1997 میں جب پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد اس حکومت کو تسلیم کر لیا تھا تو میں نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کو ایک نشست میں اس خطرے سے آگاہ کیا تھا کہ شمالی اتحاد والے تاجک و ازبک بھارت اور ایران کی شہ پر طالبان کی بظاہر مضبوط نظر آنے والی حکومت کے وجود کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں …… پھر ان سب نے مل کر 10 اکتوبر 2001 کو امریکہ کا ہاتھ بٹا کر طالبان حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں مدد کی چنانچہ قارئین گواہ ہیں کہ پچھلی 20 سالہ جنگِ مزاحمت کے دوران جہاں میں اپنی معروضات کے ذریعے طالبان کی بھرپور حمایت کرتا رہا وہیں اس خطرے کے دوبارہ عود کر آنے کی طرف توجہ دلاتا رہا…… تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ گزشتہ اتوار کو طالبان نے کابل پر اپنی فتح کے فوراً بعد افغان آبادی کے تمام نمائندوں کو شریک حکومت کرنے کے ارادے کا اظہار کیا ہے…… خواتین اور سیاسی مخالفوں کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ان کی تلافی کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے خواتین کو یقین دلایا ہے کہ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنے فرائض سرانجام دے سکتی ہیں …… اعلیٰ تعلیم کے دروازے بھی ان پر ہرگز بند نہیں کئے جائیں گے اور ظاہر ہے طالبان مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دے سکتے جو کسی بھی قدامت پسند اسلامی معاشرے میں امر نامطلوب سمجھا جاتا ہے…… معلوم ہونا چاہئے کہ مذہبی قدامت پسندی افغان معاشرے اور تاریخ کی جڑوں میں اتری ہوئی ہے اسے کھوکھلے لبرلزم کی کدال لے کر اکھاڑ پھینکنا ہمیشہ الٹے ��تائج کا باعث بنا ہے…… طالبان کے لئے کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے سر پر چادر اوڑھے ہوئے یعنی روایتی شٹل کاک برقعے کی بجائے حجاب پہنے اپنی خواتین کو اینکر کے طور پر ٹی وی پروگرام کرنے کی اجازت دے دی ہے یہ اسلام کی پاکیزہ تہذیبی روایات کی پابندی کرتے ہوئے خواتین کی آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول فرمایئے اور طالبان کو اپنا کام کرنے کا پورا موقع دیجئے جبکہ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ اپنے وطن کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے اندر مسلح سرگرمیوں کے حق میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے…… طالبان اپنی فتح کو پائیدار بنانے کے لئے اپنے قومی وقار، حاکمیت اعلیٰ اور اسلامی تشخص اور کردار کو پوری طرح برقرار رکھتے ہوئے وسیع النظری کا مظاہرہ کریں …… تاہم ان کے لئے اس پر نگاہ رکھنا بھی اشد ضروری ہے کہ امریکہ طالبان کی قیادت میں نئی حکومت کے ساتھ دوستی کا ماحول اور اعتماد کی فضا پیدا کر کے انہیں خطے میں اپنی نئی گریٹ گیم کا مہرہ بنانے کی ظاہری یا خفیہ کوششیں شروع نہ کر دے……
Source link
0 notes
kasradoc · 4 years
Photo
Tumblr media
‏‎. تاثیر سود هر سهم بر بازده سهام : از آنجا که سود هر سهم و بازده سهام از مهمترین معیارهایی هستند که در ارزیابی عملکرد شرکت نقش بیشتری را ایفا می کنند: هر شرکتی می تواند با سرمایه گذاری در پروژه هایی با بازده کم ، سود هر سهم خود را افزایش دهد .مادامی که بازده سرمایه یک پروژه جدید، بیش از هزینه بدهی بلند مدت بعد از مالیات آن باشد ، باعث افزایش سود هر سهم خواهد شد . اما اگر بازده پروژه به اندازه کافی بالا نباشد که به سهامداران بازده مناسبی روی سرمایه آنان بدهد ، باعث کاهش قیمت سهام و ضریب قیمت سهام و ضریب قیمت به سود خواهد شد . جذابیت ظاهری سود هر سهم آن است که این روش مبتنی بر چیزی است که می توان آن را مدل حسابداری ارزش نامید . در این مدل ، که قیمت سهام شرکت مساوی حاصل ضرب سود هر سهم در ضریب قیمت به سود می باشد . ضریب قیمت به سود× سود هرسهم = قیمت سهام شرکت دانلود نمایید: https://www.kasradoc.com/product/impact-of-earnings-per-share-on-stock-returns/ #word #Document #Kasradoc #کسری_داک #ورد #مقاله #تحقیق #تاثیر_سود_هر_سهم_بر_بازده_سهام #بازار_سرمایه #بورس #پروژه_تاثیر_سود_هر_سهم_بر_بازده_سهام #بازده_سهام #سرمایه #سهام #تعریف_بازار_سرمایه #حقوق_صاحبان_سهام #ذینفعان_بازار_سرمایه #سهام_سرمایه #سهام_عدالت #کدال #ورود_به_بازار_سرمایه #صندوقهای_سرمایه_گذاری #صورتهای_مالی #فرابورس #بورس_اوراق_بهادار_تهران #تابلو_بورس_تهران #اختیار_معامله #بازار_اولیه #بورس_انرژی #بورس_کالا‎‏ https://www.instagram.com/p/CLD5CBELsSQ/?igshid=1mcwr3sie0jej
0 notes