(51/54) “It’s coming. In the streets it is silent. But in the homes, where Iran still lives, the drumbeat is building. The anger is building. The impatience is building, and soon it will come out. Iran will come out. Our young women have been leading us. But we cannot let them march one-by-one into the night. Do not pass by silently if a woman is getting harassed in the street. Do not let them be called whores or sluts. Speak! Say this is not right! Your neighbor will hear you, and they will say it too. Until all of us are saying it together. The only way to take the battlefield is together. Those of us in free societies, with the freedom to speak, and write, and protest. Do not sit behind the walls of your castle. Write. Speak. Protest. We don’t need the same chants, or the same slogans. But let us come together. Even if it’s only around our dining room tables, let us come together. We cannot let them face the enemy alone. In Iran they are standing up: the students of Tehran, the truck drivers of Bandar Abbas, the oil workers of Khuzestan, the factory workers of Pooladshahr, the teachers of Sanandaj, the farmers of Isfahan. Everyone has found their own way of saying: ‘This does not work for us.’ Everyone is choosing their own words, but now let us say them all together. If you can’t find the courage to march in the streets, then just open your doors. Stand on your stoop as the protesters pass. That would be enough. If everyone who is against this regime could only do that, we’d fill all of Iran. It will be the end. These enforcers, these soldiers, these policemen, they will realize. They will finally see: that we are together, and they are alone. There is only one battle left. The fight against fear. When we win against the fear in our hearts, we win Iran. And in the words of Ferdowsi: ‘Without fighting, they will flee the scene.’”
خیابانها آراماند. اما درون خانهها، جایی که ایران هنوز زنده است، بانگ کوسها رساتر میشود. خشمها پدیدار میشوند. ایران رخ مینماید. زنان جوانمان رهبری را بر عهده گرفتهاند. نگذاریم یکایک در تاریکی شب ناپدید شوند. تنها راه پیروزی در میدان نبرد همبستگیست. ما که در جامعههای آزاد زندگی میکنیم و آزادی سخن گفتن، آزادی نوشتن، آزادی گرد هم آمدن داریم. پشت دیوارهاتان نمانید. بنویسید! سخن بگویید! خود را نشان دهید! نیازی نیست که شعارهامان، اعتراضهامان یا سرودهایمان یکسان باشند. بیایید با هم باشیم. حتا اگر پیرامون سفرهمان باشد. بیایید با هم باشیم. نگذاریم به تنهایی با دشمن روبرو شوند! در ایران همه به پا خاستهاند. دانشآموزان تهران. رانندگان کامیونهای بندرعباس. کارگران صنعت نفت خوزستان. کارگران کارخانهی پولادشهر. آموزگاران سنندج. کشاورزان اصفهان. هر کدام راه خود را پیدا کردهاند تا بگویند: "دیگر این برای ما کارآمد نیست.” هر کسی واژگان خود را برمیگزیند، بیایید همآوا و همراه آنرا فریاد بزنیم. خاموش نمانید. بیاراده از کنار زنی که در خیابان آزار میشود، نگذرید. نگذاریم آنها را فاحشه یا هرزه بنامند. سخنی بگویید! بگویید که این کارتان درست نیست! دست از زشتکاریهایتان بردارید! همسایهتان میشنود و او نیز با شما همصدا خواهد شد. تا زمانی که همهی ما همصدا آنرا تکرار کنیم. بیایید با هم باشیم. اگر شجاعت پیوستن به راهپیماییهای خیابانی را ندارید، درِ خانههایتان را بگشایید. جلو در بایستید و تماشاگر حرکت پهلوانانتان باشید. اگر این کار را انجام دهیم، همهی ایران را پُر خواهیم کرد. این نبرد پایانی ماست: نبرد با ترس. هنگامی که بر آن پیروز شویم، ایران از آن ما خواهد شد. هنگامی که ایران بُرون آید، به معنای راستین بُرون آید، به پایان شوربختیها میرسیم. سرکوبگران، پاسدارها، نیروهای انتظامی، همه خواهند دید و خواهند فهمید که ما باهمیم و آنها تنها. همانگونه که فردوسی میگوید: همه جنگ ناکرده، بگریختند / همه دشت، تیر و کمان ریختند
279 notes
·
View notes
بالنسبة لي ، النص ليس سوى ترس في ممارسة أكبر للنصوص. لا يتعلق الأمر باستخدام التفكيك أو أي ممارسة نصية أخرى ؛ يتعلق الأمر بما يمكن للمرء فعله من خلال ممارسة نصية إضافية تعمل على توسيع النص.
Benim için metin, metinlerin daha geniş pratiğinde bir çarktan başka bir şey değildir. Bu, sökme veya başka herhangi bir metinsel uygulama kullanmakla ilgili değildir; Metni genişleten ek bir metin alıştırmasıyla neler yapılabileceğine iniyor.
128 notes
·
View notes
بازار میں پھدی کی چدائی
ہیلو فرینڈز میرا نام نور العین ہے اور میں یاسر کی بیوی ہوں اور راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہتی ہوں۔
آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے یہ میری زندگی کا ایسا واقعہ ہے جو میں نے اپنے شوہر یاسر کو کافی ماہ کے بعد بتایا اور میرے پیارے شوہر یاسر نے مجھے یہ واقعہ آپ بہن بھائیوں سے شئیر کرنے کا کہا تاکہ آپ اپنی بہن کی چدائی کی کہانی پڑھ کر میرا نام لے لے کر مٹھ ماریں اور تصور میں اپنی منی میری پھدی کے سوراخ پر گرائیں۔
ایک بار گھر کے پردوں کے لیے مجھے راجہ بازار راولپنڈی جانا پڑ گیا۔میں سکول سے چھٹی کے بعد تین بجے وہاں بازار میں پہنچ گئ۔سردیوں کے دن تھے اور بازار میں کافی رش تھا اور کافی دھکم پیل تھی۔
میں بازار میں ایک گلی میں داخل ہوئی اور وہاں پردوں کی دکانیں تھیں اور میں پردے دیکھنے لگی۔بازار میں کافی زیادہ رش تھا اور پنڈی راجہ بازار کا یہ والا ایریا تو بہت رش والا تھا۔میں بازار میں چلتی جارہی تھی اور میرے آگئے اور پیچھے کافی لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔یکدم مجھے احساس ہوا کسی نے پیچھے سے میری چوتڑوں میں انگلی دی ہے۔میں شرم کے مارے چپ رہی تھوڑی دیر کے بعد اب مجھے زیادہ طاقت سے پھدی میں انگلی محسوس ہوئی۔میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو ایک پچاس سالہ انکل مسکرا رہا تھا اور ایسے محسوس کروایا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
کچھ دیر کے بعد میں دکان پر پردے دیکھنے رکی تو وہ انکل بھی رک گیا اور جب میں چلتی تو وہ میرے پیچھے پیچھے چلتا اور دو بار مجھے اس کا لن اپنی چوتڑوں کے درمیان محسوس بھی ہوا۔ میں بہت پریشان ہو گئ تھی اور میں جلدی گھر جانا چاہتی تھی مگر کافی رش تھا اور اس شخص نے اب سب کھل کر کرنا شروع کر دیا۔
میں اسکے آگئے کھڑی ہوتی تو وہ ادھر ادھر لوگوں کا خیال کرتے ہوئے میری پھدی پر ہاتھ رکھ دیتا اور کبھی میرے چوتڑوں پر لن رگڑنے لگا۔شام کے پانچ بج رہے تھے سردی اور آندھیرا ہو رہا تھا۔میری پھدی میں سے جھرنے بہنے لگے تھے اس انکل نے میری پھدی کو اپنی پراپرٹی سمجھ لیا تھا جب موقع ملتا وہ مجھے رش میں گھسے مارتا اور میرے چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگلی ڈالتا۔
ایک جگہ میں نے اس کو رک کر آہستہ سے کہا کیا مسلہ ہے؟ انکل کیوں پریشان کر ریے ہو؟
تو وہ انکل بولا کچھ تمہیں بیٹی مزا دے رہا ہوں دیکھو چہرہ کتنا لال ہو گیا ہے اور یقیناً بیٹی تمہاری پھدی بھی گیلی ہو رہی ہے۔میں انکل کے منہ سے اپنی پھدی کا نام سن کر مزید گرم ہو گئ۔
انکل بولا تمہارا دل ہے تو میرے پیچھے پیچھے چلو اور وہ شخص پرانا قلعہ بازار کی جانب چلا گیا۔ نجانے کیا جادو تھا اس انکل کی باتوں اور آنکھوں میں کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس شخص کے پیچھے چل پڑی اور وہ شخص مجھے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر مسکرایا اور چلتے چلتے ہم ایک محلے میں داخل ہوئے ۔وہ شخص تنگ تاریک گلی میں ایک پرانے مکان میں داخل ہو گیا اور میں بھی اس کے پیچھے اس مکان میں داخل ہو گئ۔
اس شخص نے دروازے کو بند کیا اور مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور کہا میرا نام اشفاق ہے اور یہیں رہتا ہوں ۔
میں نے کہا میرا نام نور العین ہے میں شادی شدہ عورت ہوں۔ نجانے کیا جادو کیا ہے انکل اشفاق آپ نے کہ میں آپکے پیچھے چلی آئی ہوں۔
اشفاق بولا بیٹی تیری پھدی کو گرم کر دی ہے۔
کیسا لگا بیٹی بازار میں پھدی میں انگلیاں اور چپے چڑھوا کر ؟
میں نے کہا عجیب لگا لیکن پھر مزا آنے لگا لیکن انکل آپ مجھے بیٹی کیوں کہہ رہے ہو جبکہ میری پھدی پر مزا بھی لینے والے ہو؟
اشفاق انکل:- بیٹی جیسی ہی ہو ناں اور بیٹی کی پھدی بھی تو باپ کے لن کے لیے ترس رہی ہے۔
اشفاق انکل نے یہ کہتے ہوئے میری چادر اتار دی اور میرے کپڑے اتار کر مجھے ننگی کر کہ خود بھی ننگا ہو گیا۔ انکل اشفاق کا 7 انچ کا لن میری پھدی کو سلامی دے رہا تھا
اشفاق انکل نے مجھے گود میں اٹھا لیا اور ایک چارپائی میں رضائی پڑی تھی اس میں لیٹا دیا اور میرے ساتھ چارپائی میں لیٹ کر رضائی اوپر اوڑھ کر مجھے جھپی ڈال دی۔
انکل اشفاق کی ڈاڈھی اور مونچھیں تھیں اور وہ میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا اور انکل نے میری گوری چٹی ٹانگوں پر اپنی ٹانگیں رکھیں ہوئی تھیں اور اشفاق انکل میرے ہونٹوں کو چوسنے میں مگن تھا۔
آہ آہ اشفاق انکل میری پھدی بہت گرم ہو گئی ہے آج آہ آہ اوہ اوہ اف آف
اشفاق انکل :- بیٹی فکر نہ کر ابھی تیری چوت ٹھنڈی کر دیتا ہوں
اب اشفاق انکل نے میرے ممے چوسنے شروع کر دیے اور میرے مموں کو چوسنے لگا اور میرے ممے دبانے لگا
اشفاق انکل آیک دیہاتی ٹائپ تھا جو سیکس کو بس کسنگ ،بوبز سکنگ اور پھدی چودنے تک جانتا تھا۔
اشفاق انکل نے میری چارپائی پر ٹانگیں اٹھا لی اور اپنا موٹا کالا لن میری گلابی چوت کے سوراخ پر رکھ کر گھسا مارا اف آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ مار ڈالا اور کیا ٹاٹٹ لن ہے ۔
اشفاق انکل نے میری ٹانگوں کو کندھے پر رکھ کر زور دار گھسا مارا اور لن پورا اندر گھسا دیا اور میرے چوتڑوں کو پکڑ کر کر میری پھدی چودنے لگا۔
آف آہ آہ آہ اوہ چودو آہ زور زور سے چودو پھاڑ دو میری گرم چوت آہ آہ آہ آہ اوہ اشفاق انکل کیا لوڑا ہے افف میری پھدی ساتویں آسمان پر ہے آہ آہ آہ چودو
اشفاق انکل:- بیٹی تیری پھدی کو بہت مزا دینا ہے چودنا ہے جی بھر کر تیری چوت مارنی ہے ۔
اشفاق انکل میری جم کر پھدی چودے جا رہے تھے اور میں انکی رنڈی بنی ہوئی تھی۔ میری پھدی تین بار فارغ ہو چکی تھی مگر اشفاق انکل کا لن ابھی تک کڑک تھا۔مجھے درد تھا اور تھک گئ تھی اشفاق انکل نے لن پھدی سے باہر نکال لیا تھا۔
کچھ دیر کے بعد میں گھوڑی بن گئی اور پھدی اشفاق انکل کے لیے کھول دی اور کہا بسم اللہ کرو انکل چودو اپنی گرم بیٹی کی پھدی میرے درد کی پرواہ نہیں کرو۔
اشفاق انکل نے میری گوری چٹی کمر پر ہاتھ رکھ کر پکڑ لیا اور میں نے اشفاق انکل کا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کر اشارہ کیا اور اشفاق انکل نے گھسا زور سے مارا اور لن میری پھدی میں پورا ڈال کر چودنے لگے۔
افف کیا چوت چد رہی تھی پورے کمرے میں میری پھدی میں اشتاق انکل کے لن کے جھٹکوں کی آوازیں گونج رہی تھی اور اشفاق انکل میری جم کر پھدی چودنے میں مگن تھے۔
اشفاق انکل مجھے گھوڑی بنا کر پندرہ منٹ سے چود رہے تھے اور میری دو بار پھدی فارغ ہو چکی تھی۔اشفاق انکل بولا نور العین تیری پھدی کا حشر نکل گیا ہے ۔میرے لوڑے نے تیری پھدی کا پھداڑ بنا دیا ہے۔
میں نے کہا بنا دو مجھے پرواہ نہیں ہے۔
کچھ منٹ میں میری پھدی میں گرم گرم لاوہ گرتا محسوس ہوا میں نے چوت ٹائٹ کر لی اور اشفاق انکل کے لن کو پھدی ٹائٹ کر کہ جکڑ لیا۔اشفاق انکل نے کی میرے تھپڑ مارا کہ پھدی ڈھیلی چھوڑ مگر میں نے کتیا کی طرح چوت ٹائٹ رکھی اور اشفاق انکل کا لن نچوڑ کر پھدی ڈھیلی چھوڑ دی۔
اشفاق انکل:- میری بیٹی بڑی گشتی ہے تو لن نچوڑ دیا ہے۔
میں نے کہا پھدی مارنے کا شوق ہے تو گانڈ میں دم رکھا کرو
میں تیار ہونے لگی تو اشفاق انکل بولا رات رک جاؤ
میں نے کچھ سوچا اور فون نکال کر یاسر کو کال کی کہ آج رات میں اپنی سہیلی کے ساتھ ہوں اسکی طبعیت خراب ہے تو صبح آجاؤں گئ۔یہ کہہ کر فون بند کردیا۔
اور میں اشفاق انکل کے ساتھ رضائی میں گھس کر لیٹ گئی اور اپنی پھدی پر اشفاق انکل کا لن رگڑتے ہوئے کہا ساری رات تیرے لن کے نیچے رکھنی ہے پھدی اب گانڈ میں دم رکھنا۔
اس رات اشفاق انکل نے میری 8 بار پھدی چودی اور صبح میں اپنی چدی ہوئی چوت لے کر اپنے سسرال واپس آگئ۔ یہ میری زندگی کی یادگار چدائی میں سے ایک تھی۔میں اور میرے شوہر یاسر نے سوچا کہ آپ بہن بھائیوں سے شئیر کرنی چاہئے ۔
فرینڈز نور العین کی پھدی کی چدائی کی کہانی کیسی لگی کمٹس میں بتائیے گا۔
///ختم شد///
6 notes
·
View notes
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
جینے کے لیے سوچا ہی نہیں، درد سنبھالنے ہوں گے
مسکرائیں تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے
مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
آج اگر بھر آئی ہے بوندیں، برس جائیں گی
کل کیا پتا ان کے لیے آنکھیں ترس جائیں گی
جانے کب گم ہوا کہاں کھویا ایک آنسو چھپا کے رکھا تھا
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
زندگی تیرے غم نے ہمیں رشتے نئے سمجھائے
ملے جو ہمیں دھوپ میں ملے چھاؤں کے ٹھنڈے سائے
تجھ سے ناراض نہیں زندگی، حیران ہوں میں
تیرے معصوم سوالوں سے پریشاں ہوں میں
گلزارِ
9 notes
·
View notes