Tumgik
#طریقے
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
سات اعمال کی جانچ پڑتال کے طور پر خدا کا شکر کتنا مناسب طریقے سے رہتا ہے؟
سات اعمال کی جانچ پڑتال کے طور پر خدا کا شکر کتنا مناسب طریقے سے رہتا ہے؟
خدا کا شکریہ فلم کی تشخیص، نوین سنگھ بھردواج: سینکڑوں سالوں سے، ویدوں اور پرانوں کے مطابق، مذہب ہو سکتا ہے، یہ خیال کہ ایک فرد مرنے کے بعد جنت یا جہنم میں جاتا ہے۔ تاہم، ان میں سے کس جگہ جانا ہے، اس کا فیصلہ ان کے گناہوں اور نیکیوں سے ہوتا ہے۔ اور اس کا حساب کتاب چترگپت، دیوتاؤں کا حساب دینے والا مکمل کرتا ہے۔ گناہ، فائدے اور دین کی کہانی ایسی ہے اللہ کا شکر ہے! یہاں سیکھیں – کریتیکا کامرا: اقربا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
TikTok Now بنانے اور جڑنے کے مزید طریقے متعارف کراتا ہے۔
TikTok Now بنانے اور جڑنے کے مزید طریقے متعارف کراتا ہے۔
05 مئی 2020 کو لِل میں لی گئی یہ مثالی فائل تصویر ٹیبلٹ کی سکرین پر نیٹ ورکنگ ایپلی کیشن Tik ToK کا لوگو دکھاتی ہے۔ 15 ستمبر 2022 کو ٹک ٹاک۔ — اے ایف پی/فائل پاکستان: ٹک ٹاک جمعہ کو اپنی تازہ ترین خصوصیت TikTok Now کے ساتھ پلیٹ فارم پر مستند اور بے ساختہ رابطوں کو فروغ دینے کے لیے تخلیقی ٹولز کے اپنے سوٹ کو بڑھانے کا اعلان کیا۔ “TikTok Now تفریح ​​​​کرنے اور TikTok پر دوسروں کے ساتھ جڑنے کا سب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
شہباز گل نے کچھ جملے ایسے کہے جو نہیں کہنے چاہیے تھے،شاہ محمود قریشی
شہباز گل نے کچھ جملے ایسے کہے جو نہیں کہنے چاہیے تھے،شاہ محمود قریشی
ملتان(نمائندہ عکس)تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ شہباز گل نے کچھ جملے ایسے کہے جو ان کو نہیں کہنے چاہیے تھے۔ ایک بیان میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جس انداز میں شہباز گل کو گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا، ہم قانونی اور سیاسی طریقے سے اپنا دفاع کریں گے۔انہوں نے کہا کہ شہباز گل نے کچھ جملے ایسے کہے جو ان کو نہیں کہنے چاہیے تھے، انہیں خیال کرنا چاہیے تھا۔
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
پُرامن احتجاج کے طریقے
پُرامن احتجاج کے طریقے
پُرامن احتجاج کے طریقے   ————- ازقلم:ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل ————-   غالب کا ایک مشہور شعر ہے:’یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔ کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا‘میں چارہ سازی اور غم گساری کے جذبے سے چند باتیں اربابِ ملت اور عام لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس وقت مسلمانانِ ہند پوری طرح نفسیاتی دباؤ میں ہیں اور ان کو نت نئے طریقے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
amiasfitaccw · 2 months
Text
آپ لوگوں سے مدد طلب ہے اپنی رائے دیں ۔۔ انسیسٹ کے موضوع پر میں بلکل کھل کے نہیں لکھ پا رہا اسکی وجہ یہ ہے کے میری دو پوسٹ جو میں نے امی اور بہنوں پر ڈالی وہ کسی کو رپورٹ کرنے کی وجہ سے مجھے ہٹانے پڑی ابھی فلحال میرے ذہن میں دو آپشن آرہے ہیں آپ لوگ مجھے بتائیے میں اُس میں سے کیا عمل اختیار کروں اگر اس کے علاوہ بھی کوئی بہتر آپشن ہے تو مجھے ضرور بتائیے
پہلا آپشن۔۔۔۔ اپنا اکاؤنٹ لاک کر لوں تا کے جو لوگ میرے اکاؤنٹ میں ہیں بس وہی میری بے غیرتی والی پوسٹ پڑھ پائیں۔۔۔ اس بات کا خیال رہے کے میں اس آپشن کو اگر اپناونگا تو پھر آگے اُن ہی لوگوں کو ایڈ کروں گا جن کے ساتھ ڈی ایم پر خوبصورت اور تفصیلی باتیں ہوں گی
دوسرا آپشن ۔۔۔۔ ایک پرسنل پر گروپ بنا لوں جہاں لوگوں کو دعوتِ عام دوں میری پوسٹ پڑھنے کا ۔۔۔ اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کے پوری طرح سے ننگی بے ہودہ ویڈیوز جو میں مین پوسٹ پر شیر نہیں کرسکتا وہاں آرام سے کر سکوں گا
لیکِن اس میں بھی گروپ میں ایڈ صرف معیاری لوگوں کو کروں گا جن کو پڑھنے کا شوق بھی ہو اور بات کرنا جانتے ہوں
آپ لوگوں کی رائے کا انتظار رہے گا مجھے
اور برائے مہربانی میرے انباکس میں انے والے لوگ بس hi helo کے میسیج نہیں لکھا کریں اپنے دل کے خیالات آپ جتنا تفصیل سے بیان کریں گے اتنا زیادہ اچھے طریقے سے میں آپکو جواب دوں گا کہ آپکو پڑھ کر مزا ائے گا
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
20 notes · View notes
aiklahori · 23 days
Text
‏اُٹھ شاہ حُسینا ویکھ لے اسیں بدلی بیٹھے بھیس
ساڈی جِند نماݨی کُوکدی اسیں رُݪ گئے وِچ پردیس
(اے شاہ حسین اٹھ کے دیکھ لے، ہم نے اپنے طور طریقے بدل لیے، تبھی تو ہماری جان بےسکون ہے اور ہم پردیس (دنیا) میں دھکے کھا رہے ہیں)
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ-
اساں جیوندی جانے مرگئے، ساڈا مادھو ہویا وَکھ
(ہم ہروقت روتے رہتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری، ایسا لگتا ہے کہ مادھو (محبوب) کے بچھڑ جانے سے ہم جیتے جی مر گئے ہیں)
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چَڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگݪ بݨ گئے شہر
(وقت کے زہریلے سانپ نے ہمیں ڈس لیا ہے تو زہر لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے اندر خوف نے ڈیرے ڈال لیے ہیں ہمارے شہر جنگل بن گئے ہیں)
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولݨ تے پابندیاں، ساڈے سِر لٹکے تلوار
(ہم ایسے غموں میں ڈوبے کہ ہماری کشتی بھی پانی کے ساتھ بہہ گئی، ایسا دور آگیا ہے کہ سچ بولنے بلکہ کچھ بھی بولنے پر پابندی ہے اور کہیں سے حکم کی اک تلوار ہر وقت ہمارے سروں پر لٹکتی رہتی ہے)
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّݨ تیری سَونھ
(ہم نے آنکھوں کے کنویں چلا کر دل کی زمین کو وتر یعنی نم کیا (مطلب رو رو کر ہمارا دل نرم ہوگیا) لیکن اے میرے محبوب تیری قسم! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود راہیں ویران اور بنجر ہی رہیں)
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھݨ لوک ملنگ
(ایسا لگتا ہے ہم باہر سے پرسکون ہیں لیکن ہمارے اندر جنگ لگی ہوئی ہے (موجودہ ملکی حالات کی عکاسی)، ہمیں خاموش دیکھ کے لوگ ہمیں ملنگ (بیوقوف) کہتے ہیں (لیکن وقت سب کچھ بتائے گا ان شاءاللہ)
اساں کُھبھے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تاݨے باݨے سوچدے، اساں بُݨدے رہندے کھیس
(ہم غموں میں ایسے کھو گئے کہ ہمارے بال (زلفیں) لمبے ہوگئے، ہم تانے بانے بنتے رہتے ہیں کہ کھیس چادریں بنانے سے شاید کوئی بہتری ہو جائے)
ہُݨ چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سوݪی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا ماݨ
(اے بابا بلھے شاہ جلدی آجائیے ہماری جان سولی پر لٹکی ہے، آپ کو شاہ حسین کا واسطہ ہمارا مان اور بھروسا نہ توڑنا)
اساں پیریں پا لئے کُعھنگرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُݨ چھیتی مُکھ وِکھاݪ
(ہم نے پیروں میں گھنگھرو باندھ لیے ہیں اور ہم دھمالیں اور لڈیاں ڈال رہے ہیں، ہماری جان، جان بلب ہے، جلدی جلدی اپنا منہ دکھا دیجیے)
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بَݨ چھاں ہُݨ چیتر رُکھ دی، ساڈے ��ندر بھانبڑ باݪ
(ہمارے سر پر گرم سورج ہے لیکن ہمارا اندر ٹھنڈا ٹھار ہے، چیت یعنی بہار کی چھاؤں بن کے ہمارے ٹھنڈے جسم گرم کر دیجیے)
اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانوݪا، اساں ہر دم جپیا توں
(ہمارے اندر اتنا عشق (محبت) ہے کہ ہمارا لوم لوم جل رہا ہے، اور ہم نے آپ کا اتنا نام پکارا ہے کہ خود کو بھول گئے ہیں)
سانوں چِنتا چِخا چڑھاوݨ دی، ساڈے تِڑکݨ لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی گَڈ
(غموں نے ہمیں بہت دکھ دیئے ہیں اور ہماری ہڈیاں بولنے لگ گئی ہیں، قسمت نے دکھوں کی درانتی ہمارے سینے میں گاڑھ دی ہے)
اساں دُھر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی، ساڈے عُمروں لمے روگ
(ہم ہمیشہ سے دکھ ہی دیکھتے آ رہے ہیں اور ہمارے مقدر میں سوگ اور غم لکھا گیا ہے، ہماری دکھ بھری زندگی کے روگ بہت لمبے ہیں)
ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی، ساڈا رو رو چویا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹاݪ دے، تیرا جیوے شہر قصور
(ہمارے اندر اتنا دکھ ہے کہ رو رو کر آنکھوں کا نور ختم ہوگیا ہے، ہماری یہ مشکلات اللہ کرے ختم ہو جائیں اور آپ کا شہر قصور ہنستا بستا رہے)
آ ویکھ سُخن دیا وارثا، تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں ناݪ رکھݨ وَیر
(اے دانش و سخن کی باتیں کرنے والے بابا وارث شاہ آپ کے جنڈیالہ شہر کی خیر ہو، آ کے دیکھ لے کہ ماں بولی (پنجابی) کے بیٹے ہی اپنی ماں کے دشمن ہیں)
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے، اَج اُجڑیا تیرا جَھنگ
(اس دور میں آپ کی ہیر (عورت ذات) سسکیاں بھر رہی ہے اور کیدو (برے لوگوں) پر رنگ چڑھا ہوا ہے، اب تو کئی تخت ہزارے (جھنگ جیسے ہمارے شہر) بھی برباد ہو رہے ہیں)
اَج بیلے ہو گئے سُنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
(اب بیلے اور ڈیرے ویران ہیں اور راوی و چناب سوکھے پڑے ہیں، اب رانجھے (دوسروں کا خیال رکھنے والے لوگ) غمزدہ پھرتے ہیں اور کھیڑے (برے لوگ) خوشیاں منا رہے ہیں)
اَج ٹُٹی ونجݪی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَݨ جوگی دَر دَر ٹوݪھیا، سانوں کوئی نہ مِݪیا مِیت
(اب تو پیار کی بانسری بجانے والا بھی کوئی نہیں، سب بانسریاں اور سکون بھرے گیت ختم ہوگئے، ہم نے جگہ جگہ اچھا ساتھی ڈھونڈنے کی کوشش لیکن ہمیں ہمارا محبوب نہ ملا)
(بابا غلام حسین ندیمؔ)
(ترجمہ: قاسم سرویا)
source
3 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
میں نے جو اضافی محبت دی ہے اس کے لیے مجھے کبھی برا نہیں لگتا۔ ان اوقات کے لیے جب میں دوسروں کے لیے اوپر اور اس سے آگے نکل گیا، اس وقت کے لیے جب میں نے اب بھی ان لوگوں میں بہترین کو دیکھا جو مجھ میں اچھائی بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بولوں گا، کبھی کبھی، جب میں بارش اور تنہائی کو مجھ پر گرفت میں لیتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو میں اپنے آپ کو اس اضافی محبت کی امید کرتا ہوں کہ وہ میرے پاس واپسی کا راستہ تلاش کریں۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ کتنا وقت یا کیا شکل لیتا ہے۔ چاہے وہ اس زندگی میں ہو یا اگلی، کسی نہ کسی طریقے سے۔
I never feel bad for the extra love I gave. For the times when I went above and beyond for others, for the times when I still looked at the best in the people who couldn't even see the good in me. But I'm not gonna lie, sometimes, when I watch the rain and loneliness catches up on me, I find myself hoping for that extra love to find their way back to me. I don't care how long or what form it takes. Be it in this life or the next, in one way or another.
بس مجھ پر بارش ہو جائے۔
Just rain on me.
jmp | Artwork : Rombutan
16 notes · View notes
risingpakistan · 6 months
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
Tumblr media
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی دہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں ​​نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔  وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
Tumblr media
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لیے ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔  اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔ 
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ��یاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔ 
بارعہ علم الدین  
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes · View notes
simmi23 · 7 months
Note
Why was William evil? Or what made him go crazy? If I can know ur AU more bc I love your art & afton family content so much ❤
Tumblr media
ٹھیک ہے ... وہ اپنی زندگی میں اتنا گزرا کہ وہ صرف اپنے آپ کو زندہ کرنا چاہتا تھا، اس نے بہت سے دوست، محنت، اور اپنی بیوی + بچے کھوئے، تو پھر اس کے پاس کافی تھا اور وہ ایک برا انسان بن گیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ تھوڑا کھردرا لیکن نقصان دہ طریقے سے نہیں۔
Well...he went through so much during his life that he just wanted to unalive himself, he lost a lot of friends,hardwork, and his wife + kids So then he had enough and became a bad person, but before he was a little rough but not in a harmful way.
6 notes · View notes
urdu-e24bollywood · 1 year
Text
رانا دگوبتی کی سالگرہ: شریک حیات میہیکا بجاج نے رانا دگوبتی کو ان کی سالگرہ پر ایک خاص طریقے سے مبارکباد دی، ان دیکھی فوٹیج شیئر کی
رانا دگوبتی کی سالگرہ: شریک حیات میہیکا بجاج نے رانا دگوبتی کو ان کی سالگرہ پر ایک خاص طریقے سے مبارکباد دی، ان دیکھی فوٹیج شیئر کی
رانا دگوبتی کی سالگرہ: باہوبلی فیم رانا دگوبتی فوراً اپنی اڑتیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ پیروکاروں سے لے کر مشہور شخصیات تک انہیں اس بڑے دن پر مبارکباد دے رہے ہیں۔ اسی طرح، ان کی شریک حیات میہیکا بجاج نے بھی انہیں ایک خاص طریقے سے مبارکباد دی ہے۔ میہیکا نے اپنے بچپن کی کچھ موجودہ فوٹیج شیئر کرکے رانا دگوبتی کو ان کی سالگرہ کی مبارکباد دی ہے۔ میاں بیوی میہیکا نے سالگرہ کی مبارکباد دی۔ میہیکا نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب جمہوری طریقے سے نہ ہوا تو 'شدید عوامی ردعمل' ہو گا۔
عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر پنجاب میں وزیراعلیٰ کا انتخاب جمہوری طریقے سے نہ ہوا تو ‘شدید عوامی ردعمل’ ہو گا۔
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا ٹیلی ویژن پر خطاب کے ذریعے عوام سے خطاب۔ – انسٹاگرام اسکرین گریب لاہور: سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے جمعرات کو خبردار کیا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخابات جمہوری طریقے سے نہ ہوئے تو شدید عوامی ردعمل سامنے آئے گا۔ ایک ٹیلی ویژن تقریر میں اپنی پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، خان نے کہا کہ اگر معاملات جمہوری طریقے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
وفاقی حکومت کے ہر قدم کا قانونی طریقے سے دفاع کرینگے، شاہ محمود قریشی
وفاقی حکومت کے ہر قدم کا قانونی طریقے سے دفاع کرینگے، شاہ محمود قریشی
اسلام آ باد (نمائندہ عکس ) پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے ہر قدم کا قانونی طریقے سے دفاع کرینگے۔الیشن کمیشن کے فیصلے پر ردعملدیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان سرخرو ہوئے اور عدالت میں بھی سرخرو ہونگے، وفاقی حکومت کیس میں فریق ہے،اچھائی کی کوئی توقع نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کی انکی خواہش دم توڑ گئی، اسامہ بن لادن، لیبیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
Text
Tumblr media
Quran (2:132)
Dan Ibrahim mewasiatkan (ucapan) itu kepada anak-anaknya, demikian pula Yakub. "Wahai anak-anakku! Sesungguhnya Allah telah memilih agama ini untukmu, maka janganlah kamu mati kecuali dalam keadaan muslim".
Abraham ordenó hacer lo mismo a sus hijos varones, y también Jacob: «¡Hijos míos! Alá os ha escogido esta religión. Así, pues, no muráis sino sometidos a Él».
اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب اپنی اولاد کو کر گیا ۔ اس نے کہا تھا میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے ۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم رہنا۔
29 notes · View notes
emergingpakistan · 11 months
Text
کیا معیشت دم توڑ چکی ہے؟
Tumblr media
کمال فنکاری بلکہ اوج ثریا سے منسلک لازوال عیاری سے اصل معاملات چھپائے جا رہے ہیں۔ جذباتیت‘ شدید نعرے بازی اور کھوکھلے وعدوں سے ایک سموک سکرین قائم کی گئی ہے جس میں ملک کی ریڑھ کی ہڈی‘ یعنی معیشت کے فوت ہونے کے المیہ کو خود فریبی کا کفن پہنا کر چھپایا جا رہا ہے۔ ذمہ داری سے گزارش کر رہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت دم توڑ چکی ہے۔ دھوکہ بازی کے ماہر بھرپور طریقے سے غلط اعداد فراہم کر رہے ہیں۔ قوم کو اصل حقیقت سے مکمل دور کر دیا گیا ہے۔ مگر انفارمیشن کے اس جدید دور میں لوگوں کو مسلسل فریب دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ طالب علم کو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی حالات کیا ہیں۔  کون پابند سلاسل ہے اور کون سا پنچھی آزاد ہوا میں لوٹن کتوبر کی طرح قلابازیاں کھا رہا ہے۔ اہم ترین نکتہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات کیا ہیں؟ کیا وہ بہتری کی جانب رواں دواں ہیں یا ذلت کی پاتال میں گم ہو چکے ہیں۔ عوام کی بات کرنا بھی عبث ہے۔ اس لیے کہ اس بدقسمت خطے میں ڈھائی ہزار برس سے عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
عام آدمی چندرگپت موریا اور اشوکا کے زمانے سے دربدر ہے۔ اور اگر ہمارے خطے میں جوہری تبدیلی نہ آئی یا نہ لائی گئی۔ تو یقین فرمائیے کہ کم از کم پاکستان میں حسب روایت اور تاریخ کے غالیچے پر براجمان طبقہ تباہی کا صور اسرافیل پھونک رہا ہے۔ معیشت کو ٹھیک سمت میں اگر موجودہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نہیں لے کر جائے گا تو پھر کون یہ اہم ترین کام کرے گا۔ غور کیجیے۔ اگر کوئی ایسی بیرونی اور اندرونی منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان کو سابقہ سوویت یونین کی طرز پر آرے سے کاٹنا ہے ۔ تو پھر تو درست ہے ۔ مگر وہ کون لوگ اور ادارے ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ملکی معیشت کو دفنانے کی بھرپور کوشش میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کی عقابی نظرسے کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے۔ تو پھر ملکی معیشت کا جنازہ کس طرح نکال دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسین جیسے جید معیشت دان‘ گال پیٹ پیٹ کر ملک کی معاشی زبوں حالی کا ذکر عرصے سے کر رہے ہیں۔ کیوں ان جیسے دانا لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دی گئی۔ گمان تو یہ ہے کہ واقعی ایک پلان ہے‘ جس میں مرکزیت صرف ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا ہے۔ اس اثناء میں‘ اگر معیشت ختم ہو گئی تو اسے زیادہ سے زیادہ Collateral damage کے طور پر برداشت کرنا ہے۔
Tumblr media
صاحبان! اگر واقعی یہ سب کچھ آدھا جھوٹ اور آدھا سچ ہے۔ تب بھی مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سامنے ہم گھٹنوں کے بل نہیں بلکہ سربسجود ہونے کے باوجود ’’ایک دھیلہ یا ایک پائی‘‘ کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ سچ بھرپور طریقے سے چھپایا جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ کے نعروں کے باوجود ورلڈ بینک پاکستان کی کسی قسم کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس پر کمال یہ ہے کہ وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ ‘ گورنر صاحبان ‘ وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہان ہر طرح کی مالی مراعات لے رہے ہیں۔ جن کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ سرکاری ہوائی جہاز‘ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ حکومتی قیمتی ترین گاڑیاں‘ رکشے کی طرح استعمال کی جا رہی ہیں۔ چلیئے‘ اس ادنیٰ اداکاری کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آئے۔ تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر ایک سال سے تو کسی قسم کا کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ کسی قسم کی ایسی بات نہیں کر رہا‘ جس کا ثبوت نہ ہو۔ 
ایکسپریس ٹربیون میں برادرم شہباز رانا کی ملکی معیشت کے متعلق رپورٹ رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ یہ چھبیس مئی کو شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ‘ پاکستان کی معیشت سکڑ کر صرف اور صرف 341 بلین ڈالر تک آ چکی ہے۔ یہ ناقابل یقین کمی‘ ملکی معیشت کا نو فیصد ہے۔ یعنی گزشتہ ایک برس میں اقتصادی طور پر ملک خوفناک طور پر غرق کیا گیا ہے۔ یہ 34 بلین ڈالر کا جھٹکا ہے۔ اس کی وضاحت کون کرے گا۔ اس کا کسی کو بھی علم نہیں۔ انفرادی آمدنی‘ پچھلے اقتصادی برس سے گیارہ فیصد کم ہو کر 1568 ڈالر پر آ چکی ہے۔ یعنی یہ گیارہ فیصد یا 198 ڈالر کی کمی ہے۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری ادارے کے نہیں‘ بلکہ چند دن قبل نیشنل اکاؤنٹس کمپنی (NAC) میں سرکاری سطح پر پیش کئے گئے تھے۔ اور ان پر سرکار کی مہر ثابت ہو چکی ہے۔ معیشت کا سکڑنا اور انفرادی آمدنی میں مسلسل گراؤٹ کسی بھی حکومت کی ناکامی کا اعلانیہ نہیں تو اور کیا ہے۔ تف ہے کہ ملک کے ذمہ دار افراد میں سے کسی نے اس نوحہ پر گفتگو کرنی پسند کی ہو۔ ہاں۔ صبح سے رات گئے تک‘ سیاسی اداکار‘ سیاسی مخالفین کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو سیاسی مخالفین کو غدار اور غیر محب وطن ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی تواتر سے بانٹے جا رہے ہیں۔ ماضی میں یہ کھیل کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔
ہم نے ملک تڑوا لیا۔ لیکن کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہ کھیل آج بھی جاری ہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی سالمیت سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔ عمران خان تو خیر‘ سیاست کی پیچیدگیوں سے نابلد انسان ہے۔ مگر موجودہ تجربہ کار قائدین کیوں ناکام ہو گئے ہیں۔ خاکم بدہن‘ کہیں ملک توڑنے کا نسخہ‘ دوبارہ زیر استعمال تو نہیں ہے۔ وثوق سے کچھ کہنا ناممکن ہے۔ معیشت پر برادرم شہباز رانا کی رپورٹ میں تو یہاں تک درج ہے کہ بیورو آف سٹیسٹسکس (BOS) کو جعلی اعداد و شمار دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ یہ دباؤ حکومت وقت کے سرخیل کی طرف سے آیا ہے۔ بیورو نے ملکی معیشت کو منفی 0.5 فیصد پر رکھا تھا۔ مگر اس رپورٹ کے بقول وزارت خزانہ اور دیگرطاقتور فریقین نے یہ عدد جعل سازی سے تبدیل کروا کر مثبت 0.3 فیصد کروایا ہے۔ دل تھام کر سنیے۔ ملک میں آبادی بڑھنے کی شرح دو فیصد ہے۔ اگر 0.3 فیصد ملکی ترقی کو تسلیم کر بھی لیا جائے۔ تب بھی ملکی معیشت 1.7 فیصد منفی ڈھلان پر ہے۔ یہ معاملات کسی بھی ملک کی بربادی کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ہمارے دشمن شادیانے بجا رہے ہیں۔ اندازہ فرمائیے کہ اس رپورٹ کے مطابق‘ موجودہ حکومت نے 2022ء کے سیلاب میں دس لاکھ جانوروں کے نقصان کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔ Livestock سیکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ مگر BOS کے مطابق حکومت کے یہ اعداد بھی مکمل طور پر غلط ہیں۔
سرکاری ادارے کے مطابق جانوروں کا نقصان صرف دو لاکھ ہے۔ سوچیئے۔ عالمی برادری اور ادارے‘ ہمارے اوپر کس طرح قہقہے لگا رہے ہونگے۔ اس تجزیہ کے مطابق زراعت کے شعبہ میں نمو 1.6 فیصد رکھی گئی ہے۔ یہ عدد بھی کسی بنیاد کے بغیر ہوا میں معلق ہے۔ وجہ یہ کہ کپاس کی فصل اکتالیس فیصد کم ہوئی ہے۔ کپاس کو روئی بنانے کے عمل میں 23 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ چاول کی فصل میں اکیس فیصد کمی موجود ہے۔ یہ سب کچھ برادرم شہباز رانا کی شائع شدہ رپورٹ میں درج ہے۔ مگر ذرا میڈیا ‘ میڈیا رپورٹنگ پر نظر ڈالیے ۔ تو سوائے سیاست یا گالم گلوچ کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ وہاں کوئی بھی ’’مہاشے‘‘ ذکر نہیں کرتا کہ معیشت بھی مقدس ہے۔ اگر یہ بیٹھ گئی تو سب کچھ عملی طور پر ہوا میں اڑ جائے گا۔ مگر کسی بھی طرف سے کوئی سنجیدہ بات سننے کو نہیں آتی۔ وزیر خزانہ کے یہ جملے‘ ’’کہ ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘۔ بس فکر کی کوئی بات نہیں۔ ان پر شائد میرے جیسے لا علم اشخاص تو یقین کر لیں۔ مگر سنجیدہ بین الاقوامی اقتصادی ادارے اور ماہرین صرف ان جملوں پر ہنس ہی سکتے ہیں۔ 
معیشت ڈوب گئی تو پچیس کروڑ انسان‘ کتنے بڑے عذاب میں غرقاب ہو جائیںگے۔ اس پر بھی کوئی بات نہیں کرتا۔ موجودہ حکومت کی سیاست‘ سیاسی بیانات اور کارروائیاں ایک طرف۔ مگر عملی طور پر ہماری معیشت دم توڑ چکی ہے۔ صرف سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے‘ کہ ہماری بلیک اکانومی حد درجہ مضبوط اور فعال ہے۔ یہ واحد وجہ ہے کہ ہم خانہ جنگی میں نہیں جا رہے۔ مگر شائد تھوڑے عرصے کے بعد‘ یہ آخری عذاب بھی بھگتنا پڑے۔ مگر حضور‘ تھوڑا سا سچ بول ہی دیجئے۔ مردہ معیشت کی تدفین کب کرنی ہے!
راؤ منظر حیات 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
amiasfitaccw · 1 month
Text
خواتین میں خود لذتی کا رحجان
ﺁﺝ ﮐﻞ ﭨﯽ ﻭﯼ ، ﺳﯽ ﮈﯾﺰ ، ﺍﻧﮍﻧﯿﭧ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﮑس ﻣﻮﯾﺰ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ کو خود لذتی یا فنگرنگ کا عادی کر ﺩﯾﺎ ﮨﮯ, ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻟﺬﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﮍکیوں کا ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﮕﻠﯽ ،موم بتی یا ﮐﯿﻠﮯ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺸﺖ ﺯﻧﯽ ، ﺧﻮﺩ ﻟﺬﺗﯽ یا فنگرنگ ﮐﮩﺎ ﺟﺎتا ہے.
Tumblr media
ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے خواتین غلط طریقے سے خود لذتی کرتی ہیں جس کی وجہ سے ویجائنا کا رنگ کالا ہو جانا, ویجائنا لپس کی شیپ خراب ہونا اور لوزنگ ہونا, چہرے کی رنگت زرد ہونا, کمزوری, چہرے پر دانوں سمیت مختلف مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں.
Tumblr media
ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮ ﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻓﺮﺝ ‏( Vagina ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮯ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﻨﺴﮯ ﮨﺎﺋﭧ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ٩٠ ﻓﯿﺼﺪ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻈﺮ ‏( Clitoris ‏) ﮐﻮ ﻣﺸﺘﻌﻞ ‏( Stimulate ‏) ﮐﺮ ﮐﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﭘﺎﺭﭦ ﺑﻈﺮ ‏( Clitoris ‏)
ﮨﮯ
Tumblr media
* ﺑﻈﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺍﻡ ﻧﮩﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭﻭﮞ ﻟﺒﻮﮞ ‏( Labia Minora ‏) ﮐﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﯽ ﮐﻠﻐﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮯ ﺟﻨﺴﯽ ﺍﺷﺘﻌﺎﻝ ‏( Stimulation ‏) ﻣﯿﮟ ﺍ ﮐﮍ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺭﮔﺰﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﻨﺴﯽ ﻋﺮﻭﺝ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﮈﮬﯿﻼ ﭘﮍﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮨﺎﺋﭧ ﮐﮯ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺻﺮﻑ ١ . ٥ ﻓﯿﺼﺪ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺝ ‏( Vagina ‏) ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﻈﺮ ﮐﻮ ﻣﺸﺘﻌﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﻣﻘﻌﺪ ‏( Anus ‏) ﺍﻭﺭ پیشاب ﮐﯽ ﻧﺎﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﯿﺰ داخل ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺴﯽ ﻟﻄﻒ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ.
Tumblr media
جو عورتیں اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں انھیں چاہئے ﻣﺜﺒﺖ ﻣﺸﺎﻏﻞ ‏( Hobbies ‏) ﮐﻮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻻﺯﻣﺎً ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻣﺜﺒﺖ ﻣﺸﺎﻏﻞ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﻟﺬّﺗﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ نیز اسے ہمیشہ درست طریقے سے ہی کیا جائے اور باقاعدہ علاج سے اس عادت کو ختم کیا جا سکتا ہے,
مزید معلومات کے لئے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کریں۔
Tumblr media
3 notes · View notes
officialkabirsaheb · 2 years
Text
غلط دھارنا
آستھا کے ساتھ کوئی بھی پوجا کر لو، پرماتما مل جاتے ہیں۔
ثابت سچ
پوَیتر گیتا جی ادھیائے 16 کے منتر 23 میں صاف لکھا ہے کہ شاستروں کے طریقے کار کو چھوڑ کر من مانی پُوجا کرنے والوں کی نا تو مُکتی ہوتی ہے اور نا ہی کوئی دنیاوی فائدہ ملتا ہے۔
موجودہ وقت میں شاستروں کے مطابق سادھنا صرف پُورن سنت ست گُرو رامپال جی مہاراج ہی بتا رہے ہیں۔
#دھرتی_پر_اوَتار
#سنت_رامپالجی_مہاراج
#EssenceOf_BhagwadGita
Tumblr media
2 notes · View notes