Tumgik
#غریب خاندان
pakistantime · 26 days
Text
یحییٰ سنوار، حماس سربراہ کون ہیں؟
Tumblr media
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ یحییٰ سنوار ایک سخت اور پُرعزم جنگجو شخصیت کے مالک ہیں جو اسرائیل کے خلاف فلسطینی تحریک میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
پس منظر اور ابتدائی زندگی یحییٰ سنوار 1962 میں غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں پیدا ہوئے۔ انکا تعلق ایک غریب فلسطینی خاندان سے ہے اور بچپن ہی سے انہوں نے اسرائیل کے خلاف فلسطینی جدوجہد میں حصہ لیا۔ حماس سربراہ کی جوانی 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گزری، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ایک اہم دور سمجھا جاتا ہے۔
حماس میں شمولیت اور قیادت کا سفر یحییٰ سنوار نے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کی رہنمائی میں 1980 کی دہائی میں حماس میں شمولیت اختیار کی، وہ جلد ہی تنظیم کے اندرونی سیکیورٹی یونٹ کے سربراہ بن گئے، یہ یونٹ اسرائیلی حکام کےلیے جاسوسی کرنے والوں کی نشاندہی کرنے اور سزا دینے کےلیے ذمہ دار تھا۔ ان کے اس کردار نے انہیں ایک سخت گیر اور غیر مصالحانہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا۔
قید اور رہائی یحییٰ سنوار کو 1988 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور متعدد قتل کے الزامات میں انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے اسرائیل کی جیلوں میں تقریباً 22 سال گزارے جہاں ان کے نظریات اور ان کی عسکری صلاحیتوں میں مزید پختگی آئی۔ انہیں 2011 میں ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کے ساتھ رہا کیا گیا۔ یہ رہائی انہیں حماس کے اندر ایک مضبوط مقام دلوانے کا سبب بھی بنی۔
حماس کی قیادت میں کردار رہائی کے بعد یحییٰ سنوار نے تیزی سے حماس میں اپنی پوزیشن مضبوط کی۔ 2017 میں انہیں حماس کے غزہ پٹی کے لیے سیاسی دفتر کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ ان کے اس عہدے نے انہیں حماس کے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان ایک رابطے کا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ سنوار کو حماس کی حکمت عملی میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے والا رہنما مانا جاتا ہے، خصوصاً اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور مسلح جدوجہد کے حوالے سے۔ ان کے فیصلے اکثر سخت گیر ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات یا سمجھوتے کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔
حماس کے موجودہ حالات اور سنوار کی قیادت اکتوبر 2023 میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے بعد یحییٰ سنوار زیر زمین چلے گئے اور ان کی تلاش اسرائیل کے لیے ایک اولین ترجیح بن گئی۔ اسرائیلی فوج نے متعدد بار غزہ میں یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ مسلسل اسرائیلی جاسوسی اور حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ یحییٰ سنوار کی قیادت میں حماس نے ناصرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں اضافہ کیا بلکہ فلسطینی عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کو بھی برقرار رکھا۔ ان کی حکمت عملی نے حماس کو تنقید کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور مزاحمتی تحریک کے طور پر قائم رکھا ہے۔
شخصیت اور اثرات
یحییٰ سنوار کو ایک کرشماتی اور سخت گیر رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کی قیادت نے حماس کو ایک مضبوط عسکری اور سیاسی قوت میں تبدیل کر دیا جو ناصرف اسرائیل بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کےلیے بھی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ سنوار کی زندگی اور ان کے کارنامے فلسطینی تحریک کی مزاحمت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ایک مضبوط علامت بن چکے ہیں۔ ان کی قیادت نے حماس کی صفوں میں اتحاد اور مزاحمت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی فلسطینی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھے گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduzz · 1 month
Text
0 notes
googlynewstv · 2 months
Text
سپریم کورٹ کے جج کی بیٹی کے ہاتھوں مرنے والوں کو انصاف کب ملے گا؟
جون 2022 میں تب کے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی بیٹی شانزہ کی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے اسلام آباد میں مارے جانے والے دو غریب نوجوانوں کے خاندان انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں لیکن ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ جسٹس شہزاد احمد خان سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں۔ 8 جون 2022 کی رات جب شکیل تنولی اور اسکے دوست علی حسنین نے اسلام آباد ہائی وے پیدل عبور…
0 notes
urduintl · 7 months
Text
اردو انٹرنیشنل (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے میثاق مفاہمت کی حمایت کرتے ہوئے عدالتی اور الیکشن اصلاحات کا مطالبہ کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں محمود اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی وجہ سے صدارتی الیکشن کو بلاوجہ متنازع کیا جارہا ہے، بلاول بھٹو نے محمود اچکزئی کے گھر پر مبینہ چھاپے کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل بھی کردی۔
بعد ازاں سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو اس ایوان میں دوسری بار منتخب ہوا ہوں، اس عمارت کا جو بنیادی پتھر ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا، یہ قومی اسمبلی کسی ایک کی نہیں سب کی ہے، قومی اسمبلی کا ایوان ہم سب کا ہے، قومی اسمبلی کو مضبوط بنانا عوام کو مضبوط بنانا ہے، جب ہم قومی اسمبلی کو کمزور کرتے سہیں تو وفاق، جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں، ہمیں اس نظام کو کمزور نہیں مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہے، تمام ارکان سے درخواست ہے کہ ایسےفیصلے کریں جس سےقومی اسمبلی مضبوط ہو۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم اس جمہوری ادارے کو طاقتور بنائیں گے، ایسے فیصلے لیں گے جس سے نوجوانوں کا مستقبل بہتر ہو، آئندہ آنے والے ہمیں دعائیں دیں کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لیے اچھے فیصلے کیے، ایسا نہ ہو آئندہ آنے والے ہمیں گالیاں دیں کہ قومی اسمبلی کےساتھ کیا کیا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ ایوان تمام اداروں کی ماں ہے، عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم انہیں مشکلات سے نکالیں گے۔
بلاول بھٹو نے درخواست کی کہ احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں نہ دی جائیں اور قومی اسمبلی میں تمام تقریریں سرکاری ٹی وی پر لائیو دکھائی جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کارکنوں اور امیدواروں پر حملے کیے گئے ہیں، ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ کارکنوں کو جان قربان نہ کرنی پڑے۔
بلاول بھٹو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایوان میں کہا کہ اس ایوان میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، عوام نےایسا مینڈیٹ دیا کہ تمام جماعتوں کو مل بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، عوام نے الیکشن مین بتایا کہ وہ ہماری آپس کی لڑائی سے تنگ آگئے ہیں، اب ہمیں آپس میں بات کرنی ہوگی، عوام نے ہمیں گالیاں دینے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیا ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سیاست کا ضابطہ اخلاق بنالیں گے تو 90 فیصد مسائل ختم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتے تو ان کی پالیسی پر آپ تنقید نہیں کرسکتے ہیں، وزیراعظم نے جو نکات کل اٹھائے ان پر عمل کرکے بحران سےنکل سکتے ہیں، ہم آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ پاکستان اور عوام کو معاشی مشکل سے نکالیں۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے مگر آمدن میں اضافہ نہیں ہورہا ہے، ،ملک میں مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کا سونامی ہے، ہم سالانہ ایک ہزار 500 ارب امیروں کو سبسڈی میں دے دیتے ہیں، غیر ضروری وزارتیں اور امیروں کو سبسڈی دینا بند کرنا ہوگی، امیروں سے سبسڈی کو ختم کرکے غریب عوام کو ریلیف دینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میثاق معیشت پر کوئی ایک جماعت فیصلے نہیں کرسکتی ہے، شہباز شریف موقع دے رہے ہیں کہ آئیں مل کر عوام کو معاشی بحران سے نکالیں، وزیراعظم کی پالیسی میں آپ کا مؤقف شامل ہوگا تو بہتر پالیسی بن سکے گی۔
سابق وزیر خارجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں عدالتی اور الیکشن سے متعلق اصلاحات کرنے ہوں گے، عدالتی، الیکشن ریفارمز پر اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، اگر ہم نے مل کر یہ اصلاحات کرلیں گے تو کوئی جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا الیکشن ہو جہاں وزیراعظم کے مینڈیٹ پر کوئی شکوک نہ ہو، ہم چاہتے ہیں شہباز شریف جیتیں یا قیدی نمبر 804 الیکشن جیتے لیکن کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ میں ملک کا وزیرخارجہ ہوں، جانتا ہوں سائفر کیا ہوتا ہے، اس سائفر کی ہر کاپی کاؤنٹ ہوتی ہے صرف ایک کاپی ہم گن نہیں سکے وہ وزیر اعظم کے آفس میں تھی، خان صاحب نے خود مانا کہ انہوں نے ایک خفیہ دستاویز کھو دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلسے میں ایسے لہرانے کی بات نہیں تھی، یہ آڈیو لیک کی بھی بات نہیں ہے، میرے نزدیک مسئلہ یہاں شروع ہوتا کہ جب خان صاحب کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اگلے دن گرفتاری کے بعد وہ سائفر ایک غیر ملکی جریدے میں چھپ جاتا ہے تو اگر آپ عوام کو بے وقوف سجھتے ہیں تو آپ غلط ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جان بوجھ کے کسی نے اس سائفر کو سیاست کے لیے انٹرنیشنل جریدے میں چھپوایا تاکہ کیسز کو متنازع بنایا جائے، جب آپ خفیہ دستاویز کو پبلک کرتے ہیں تو قومی سلامتی داؤ پر لگتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آئین کی خلاف وزری کرتا ہے تو اس کے سزا دلوانی چاہیے، اگر یہ ہم سے جمہوریت کی بات کریں گے تو میں کہوں گا کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ بات کرنے والے، میں اس شخص کا نواسا ہوں جس نے تختہ دار پر ہوتے ہوئے بھی اصولوں کا سودا نہیں کیا، یہ جو لوگ یہاں ہیں جو احتجاج کر رہے ہیں، جن کو 6 مہینے سے جمہوریت یاد آرہی ہے تو اگر انہیں لیکچر دینا ہے تو ایک دوسرے کو دیں ہمیں نا دیں، یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پر جھوٹا الزام لگائیں اور ہم جواب نا دیں، لیکن میں ان کے جھوٹ کاپردہ فاش کروں گا۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ میں اس قسم کی حرکتوں سے خود مایوس نہیں ہوتا مگر پاکستانی عوام اس قسم کی حرکتوں کو پسند نہیں کرتے، اگر یہ کوئی غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے خلاف کھڑا ہوجاؤں گا، یہ ہمارا فرض ہے کہ سب سے پہلے اپنا فرض ادا کریں نا کہ دوسروں پر تنقید شروع کردیں۔
سابق وزیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے حوالے سے علی امین گنڈاپور نے انکوائری کا مطالبہ کیا ہے کہ اس انکوائری کے مطابق ملزمان کو سزا اور بے قصور کو رہا کردینا چاہیے، تو یہ مجھے یقین دہانی کروائیں کہ ہم جو جوڈیشل کمیشن بنوائیں گے تو اس کا فیصلہ ماننا پڑے گا، یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شہدا کے میموریل پر حملہ کرے اور ہم اسے بھول جائیں،ہم وزیر اعظم سے درخواست کرتے ہیں کہ ایک جوڈیشل کمیشن بنائیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے آپ درخواست کریں کے وہ اس کمیشن کے سربراہ بن کے مئی 9 کے بارے میں تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو سزا دلوائیں۔
اس دوران سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے بلاول کی تقریر پر احتجاج اور شورشرابہ شروع کردیا، بلاول بھٹو نے کہا کہ میری باتیں حذف کردیں، مجھے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
اِس پر اسپیکر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کا بڑا پن ہے، بعدازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے روانہ ہوگئے۔
0 notes
mnaasilveira · 11 months
Text
سسٹر فوسٹینا: دی ہیبل انسٹرومنٹ
______________________________________________________________ ______________________________________________________________ سسٹر فوسٹینا 1930 کی دہائی میں پولینڈ میں سسٹرز آف مرسی کے ایک کانونٹ میں ایک نوجوان راہبہ تھیں۔ وہ ایک انتہائی غریب خاندان سے آئی تھی جو پہلی جنگ عظیم کے دوران اپنے چھوٹے سے فارم پر جدوجہد کر رہی تھی۔ اس کے پاس صرف تین سال کی تعلیم تھی، اس لیے اس نے کانونٹ میں سب سے کم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟
Tumblr media
Fund for Peace ایک تھنک ٹینک ہے۔ یہ ایک تحقیقی ادارہ ہے جو ملکوں اور ریاستوں کو سائنسی اور منطقی انداز میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کامیاب یا ناکام قرار دیتا ہے۔ یہ محنت طلب اور دلیل پر مبنی کام ہے۔ کیونکہ کسی بھی صورت میں‘ کسی بھی ملک کے متعلق غلط بات کرنا‘ اپنے آپ کو عذاب میں ڈالنے والی بات ہے۔ چنانچہ ‘ اس ادارے کو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ یہ امریکی تھنک ٹینک تحقیق حد درجہ محتاط انداز پر کرتا ہے۔ اس میں جذباتیت یا تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر سال یہ ادارہ ایک فہرست چھاپتا ہے جس میں مختلف ممالک کی ساخت‘ کامیابی یا ناکامی کے حساب سے ان کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس فہرست کو پہلے Failed State Index کہا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کا نام Fragile State Index رکھ دیا گیا ہے۔ مگر مطلب تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ یعنی کمزور ریاستیں یا جنھیں توڑنا مشکل نہ ہو۔ یہ ادارہ ’’فارن پالیسی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی شایع کرتا ہے۔ اس مرتبہ 179 ملکوں کا ایک جائزہ لیا گیا ہے۔ ہر ملک کو 120 میں سے نمبر دیتے جاتے ہیں‘ ملک کے نمبر جتنے کم ہوں گے‘ وہ اتنا ہی مستحکم ہو گا۔
اس تحقیق کے مطابق فن لینڈ دنیا کا سب سے مستحکم اور بہترین ملک ہے۔ اس کے مجموعی نمبر صرف پندرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ناروے‘ آئس لینڈ ‘ نیوزی لینڈ بھی کم نمبروں کی بدولت استحکام پر مبنی معاشرے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان اس فہرست کے 89.7 ویں نمبر پر ہے‘ صرف یمن‘ صومالیہ‘ ایتھوپیا‘ عراق‘ افغانستان اور لیبیا وغیرہ ہم سے نیچے ہیں۔ شمالی کوریا‘ کینیا اور فلسطین ہم سے کئی گنا بہتر ہیں۔ علم میں نہیں کہ ہمارے ملک میں اس ناکامی اور اس کے اسباب پر کیوں غور نہیں کیا گیا۔ کسی بھی حکومتی یا ریاستی ادارے نے اس رپورٹ کے حقائق کے حساب سے نفی کیوں نہیں کی۔ اس معذوری کی صرف ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے متعلق جو کچھ اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے۔ وہ بالکل درست ہے۔ اور اسے غلط ثابت کرنا حکومتی سطح پر ناممکن ہے۔ اب میں ان نکات کی طرف آتا ہوں جو کہ اس مقالہ کی بنیا د ہیں۔ بنیادی طور پر پانچ ایسے ٹھوس نکات ہیں جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے آگے مزید نکات بھی شامل ہیں۔ سب سے پہلے ان پانچ نکات کو بیان کرتا ہوں۔
Tumblr media
Economic, Cohesion (معاشی)‘ Political (سیاسی) ‘ Social (سماجی) اور Cross Cutting ۔ یہاں میں ایک اہم ترین عنصر کی طرف توجہ مبذول کروا��ا ہوں۔ تنزلی کا سفر آہستہ آہستہ طے ہوتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ اس ملک میں صلاحیت کی کمی ہوتی ہے۔ مگر اصل مسئلہ قومی صلاحیت کو بروئے کار نہ لانے کا المیہ ہے۔ تمام ناکارہ ریاستوں میں اشرافیہ ‘ اقتدار اور وسائل پر ناجائز طریقے سے قابض ہو جاتی ہے۔ اور عوام بتدریج غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور یہ خاموش المیہ‘ قوموں کو ختم کر دیتا ہے۔ ہاں ‘ ایک اور حد درجہ تلخ سچ جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ وہ یہ کہ ریاستی اور حکومتی ادارے بنیادی طور پر Extractive طرز کے ہوتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی جدت کو ختم کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے ٹیلنٹ کو برباد کیا جاتا ہے۔ ان پر کامیابی کے تمام راستے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کے اشرافیہ Extraction کی بدولت زندہ اور توانا رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اشرافیہ‘ تمام جمہوری اداروں کو اپنی طرز پر ڈھال لیتی ہے۔ پورے نظام کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتی ہے۔ 
مگر اس رپورٹ کے مطابق ایک بات طے ہے۔ اشرافیہ کی اکثریت‘ ملک کے ختم یا برباد ہونے کے ساتھ ہی ڈوب جاتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک حد درجہ تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تمام عوامل موجود ہیں۔ چند ممالک کی عملی مثال بھی اس زاویہ کو تقویت دیتی ہے۔ شمالی کوریا‘ افغانستان‘ مصر‘ صومالیہ‘ کولمبیا‘ پیرو‘ بولیویا وغیرہ اس بربادی کی بھرپور مثالیں ہیں۔ مصر کی مثال ہمارے ملک کے قریب ترین ہے۔ مصر میں ریاستی اور حکومتی اداروں کے پاس ملکی معیشت کا پچاس فیصد قبضہ تھا۔ حسنی مبارک کے اقتدار اور اس کے بعد کے عسکری سربراہان نے معیشت کو De-regulate کرنے کی جعلی کوشش کی۔ مگر اس ڈرامے میں اشرافیہ کے چند حلقوں کو تمام وسائل کا مالک بنا دیا گیا۔  حسنی مبارک کا بیٹا جمال‘ مکمل طور پر صنعتی زار بن گیا۔ تمام صنعت کار جو ریاستی حلقوں کے نزدیک تھے۔ وہ مزید امیر بنا دیے گئے۔ جیسے احمد از کو لوہے کے کارخانے دے دیے گئے‘ سوارس خاندان ‘ ٹیلی کمیونیکشن کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اور محمد نصیر کو میڈیا ڈان کر دیا گیا۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے ان لوگوں اور صنعتی گروپوں کو وہیل مچھلی سے تشبیہہ دی۔ جنھوں نے مصر کی معیشت کو ہڑپ کر لیا۔
پاکستان میں بعینہ یہی مماثلت موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی اشرافیہ ملک کے تمام وسائل کو ناجائز طریقے سے ہڑپ کر چکی ہے۔ اور اس ظلم کو روکنے والا کوئی بھی نہیں ہے‘ نا فرد اور نا ہی کوئی ادارہ۔ ایک کالم میں تو خیر اس Fragile index کا سرسری تذکرہ بھی نہیں ہو سکتا۔ مگر جو پانچ سنجیدہ نکات شروع میں عرض کیے تھے۔ ان کی حد درجہ معمولی سی تفصیل ضرور درج کرنا چاہتا ہوں۔ Cohesion کے عنوان کے نیچے ‘دفاعی مشین ‘ حصوں میں بٹی ہوئی اشرافیہ اور گروہی رقابتیں شامل کی گئیں ہیں۔ غور سے پرکھیے۔ ہمارا دفاعی نظام‘ کیا واقعی لوگوں کی حفاظت کر رہا ہے۔ اس میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے بھی شامل ہیں۔ کسی بھی ذی شعور کا جواب منفی میں ہو گا۔ اس طرح مختلف حصوں پر قابض اشرافیہ بڑی مہارت سے عوام کے ایک حصے کو دوسرے کے خلاف لڑوا رہی ہے۔ پھر گروہی رقابتیں بھی عروج پر ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے پاس مسلح ملیشیا موجود ہیں۔ جو ایک دوسرے کے مسالک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ اب ذرا معاشی صورت حال کی طرف آیئے۔ اس میں معاشی تنزلی ‘غربت‘ ناہموار ترقی اور ذہین لوگوں کا ملک چھوڑنے کا رجحان شامل ہے۔ 
جو اب دیجیے۔ کیا یہ تمام عناصر بھرپور طریقے سے ہمارے سماج میں برہنہ ہو کر رقص نہیں کر رہے۔ غربت عروج پر ہے۔ صنعت دم توڑ چکی ہے۔ ملک کے کچھ علاقے ترقی یافتہ نظر آتے ہیں۔ چند کلو میٹر کی ترقی کے باہر یک دم آپ کو غربت‘ جہالت اور پسماندگی کے سمندر نظر آتے ہیں۔ جواب دیجیے۔ کیا کوئی شخص ملک میں رہنے کے لیے تیار ہے۔ ہرگز نہیں‘ ہماری سیاسی قیادت تک پاکستان رہنے کے لیے تیار نہیں۔ اب ذرا سیاسی معاملات کی طرف نظر دوڑائیے جو کہ اس فہرست میں تیسرا حصہ ہے۔ حکومت کا قانونی جواز‘ عوامی رعایت کے معاملات‘ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی‘ اس کے لازم جزو ہیں۔ اس تیسرے حصے میں کوئی ایک ایسا معاملہ نہیں جس میں ہم لوگ مثبت ڈگر پر چل رہے ہوں۔ سماجی نکتہ میں۔ آبادی کا بڑھنا اور مہاجرین کا عنصر شامل ہے۔ آبادی تو خوفناک طریقے سے مسلسل پھیل رہی ہے۔ اور ہر ملک کے مہاجرین بھی ہر جگہ موجود ہیں۔ آخری نکتہ Crosscutting ہے جس میں بیرونی مداخلت شامل ہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ہم ہر طور پر بیرونی مداخلت بلکہ جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ ہماری افغانستان اور ہندوستان بلکہ ایران تک سے بھی لڑائی ہی لڑائی ہے۔
طالب علم نے حد درجہ احتیاط سے کام لے کر پاکستان کا ’’ناکام اقوام‘‘ میں معاملہ دلیل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ دراصل ہم مکمل طور پر ناکام ریاست بن چکے ہیں۔ ہر ذی شعور کو معلوم ہے۔ مگر حکومتی اور ریاستی سطح پر ہم سے بھرپور طریقے سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ سب اچھا تو دور کی بات‘ کچھ بھی اچھا اور درست سمت میں نہیں ہے۔ ریاستی دروغ گوئی ہمیں اس سطح پر لے آئی ہے۔ کہ غربت‘ جہالت کے ساتھ ساتھ مسلح جتھے پوری طاقت سے عسکری اداروں سے جنگ کر رہے ہیں۔ کوئی مثبت بات یا خبر بھٹک کر بھی ہمارے سامنے نہیں آتی۔ بین الاقوامی ادارے ہماری اشرافیہ کی ناجائز دولت سے واقف ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں کوئی بھی قرض دینے کے لیے تیار نہیں۔ ورلڈ بینک کھل کر کہہ چکا ہے کہ پاکستان ٹیکس اور امداد وصول کر کے اپنی اشرافیہ کو مزید سہولت فراہم کرتا ہے۔ دنیا کا ہر ملک ہمیں منفی انداز میں دیکھتا ہے۔ کسی جگہ پر ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ 
ہم جھوٹ فریب‘ ریاکاری‘ دوغلہ پن‘ منافقت کا وہ ملغوبہ بن چکے ہیں۔ جس کو دیکھ کر مہذ ب ممالک اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ہم سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے متعلق کسی منفی عنصر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بلکہ اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے ‘ یہود و ہنود کی سازش کے مفروضہ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب شاید پانی سر سے گزر چکا ہے۔ بدقسمتی سے اب ہمارا ملک ایک ناکام ریاست ہے! جس کا کوئی والی وارث نہیں!
راؤ منظر حیات  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
discoverislam · 1 year
Text
اسٹاک ایکسچینج
Tumblr media
’’مجھے بھی آج تک وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے سر کھجاتے ہوئے جواب دیا‘ میں نے دوبارہ پوچھا ’’لیکن کوئی نہ کوئی وجہ تو ضرور ہو گی‘ تم کام یابی کے کسی بھی فارمولے پر پورے نہیں اترتے‘ تعلیم واجبی‘ عقل اوسط درجے کی‘ کاروباری سینس نہ ہونے کے برابر‘ حلیہ اور پرسنیلٹی بھی بے جان اور سونے پر سہاگا تم اپنے کاروبار کو بھی وقت نہیں دیتے‘ ہفتہ ہفتہ دفتر نہیں جاتے لیکن اس کے باوجود تمہیں کبھی نقصان نہیں ہوا۔ سیلاب میں بھی سارے شہر کے گودام پانی میں ڈوب جاتے ہیں مگر تمہارے گودام میں پانی داخل نہیں ہوتا اور اگر داخل ہو جائے تو یہ تمہارے مال کو چھوئے بغیر چپ چاپ نکل جاتا ہے‘ تم لوہا بیچنا شروع کر دو تو وہ چاندی کے برابر ہو جاتا ہے اور حتیٰ کہ تمہارے نلکے کا پانی بھی منرل واٹر ہے۔ آخر اس کے پیچھے سائنس کیا ہے؟‘‘ میری تقریر سن کر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں بھی اکثر اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں لیکن یقین کرو مجھے زندگی میں ایک واقعے کے سوا کوئی نیکی‘ اپنی کوئی صفت نظر نہیں آتی‘ شاید اللہ کے کرم کی یہی وجہ ہو‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں نے نویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا‘ میں شروع میں والد کے ساتھ فروٹ کی ریڑھی لگانے لگا‘ والد کا انتقال ہو گیا تو میں ایک آڑھتی کی دکان پر منشی بھرتی ہو گیا۔
زندگی بے مقصد‘ بے رنگ اور الجھی ہوئی تھی‘ دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی تھی لیکن پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘ میں ایک دن اپنے ایک دوست کی کریانے کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا‘ وہاں درمیانی عمر کی ایک خاتون آئی‘ اسے دیکھتے ہی میرا دوست اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے لگا‘ وہ اس سے پرانے پیسے مانگ رہا تھا جب کہ وہ مزید سودے کے لیے منتیں کر رہی تھی۔ عورت مجبور دکھائی دے رہی تھی جب کہ میرا دوست اس کے ساتھ غیر ضروری حد تک بدتمیزی کر رہا تھا‘ میں ان کی تکرار سنتا رہا‘ خاتون جب مایوس ہو کر چلی گئی تو میں نے اپنے دوست سے ماجرا پوچھا‘ اس کا جواب تھا‘ یہ بیوہ ہے‘ اس کا خاوند سعودی عرب میں کام کرتا تھا‘ خاندان خوش حال تھا لیکن پھر خاوند روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گیا اور اس کی زمین جائیداد پر اس کے دیوروں نے قبضہ کر لیا۔ اس کے پاس اب چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ نہیں‘ دو بچیاں ہیں‘ وہ اسکول جاتی ہیں‘ یہ ان پڑھ اور بے ہنر عورت ہے‘ اس کا ذریعہ روزگار کوئی نہیں‘ سعودی عرب سے دو چار ماہ بعد خاوند کی تھوڑی سی پنشن آ جاتی تھی اور یہ اس میں گزارہ کر لیتی تھی مگر اب وہ بھی رک گئی ہے‘ میرے والد صاحب اسے ادھار راشن دے دیتے تھے لیکن یہ بھی اب تھک گئے ہیں لہٰذا میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو میں اس سے اپنے پیسے مانگ لیتا ہوں‘ یہ ہمارا روز کا تماشا ہے‘ تم چھوڑو‘ یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘ وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’یہ ایک عام سی کہانی تھی‘ ایسے کردار ہر شہر‘ ہر قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔
Tumblr media
آپ کسی کریانہ اسٹور پر چلے جائیں‘ آپ کو ایسے بیسیوں لوگ مل جائیں گے مگر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟ میں نے اپنے دوست سے اس کا پتا لیا‘ اس کے خاوند کا نام پوچھا‘ بازار گیا‘ دو ہفتوں کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا‘ بوری بنائی اور جا کر اس کے دروازے پر دستک دے دی‘ وہ اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر آ گئی‘ پانچ اور سات سال کی دو بچیاں بھی اس کے ساتھ آ کر کھڑی ہو گئیں‘ میں نے سودا ان کی دہلیز پر رکھا اور ادب سے عرض کیا‘ میرے والد ارشد صاحب مرحوم کے دوست تھے۔ انھوں نے آپ کے خاوند سے کچھ رقم ادھار لی تھی‘ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کا حکم دے گئے ہیں‘ میرے حالات سردست اچھے نہیں ہیں اور میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں کر سکتا‘ میری تنخواہ کم ہے‘ آپ اگر مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو پندرہ دن بعد گھر کا سودا دے دیا کروں گا‘ اس سے میرا قرض بھی اتر جائے گا اور آپ کے گھر کا نظام بھی چلتا رہے گا‘ وہ عورت اور اس کی بچیاں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں‘ میں نے انھیں سلام کیا اور واپس آ گیا‘ میں اس کے بعد انھیں ہر پندرہ دن بعد راشن پہنچانے لگا‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اس سے پوچھا’’تم خود غریب تھے‘ تم ان کے راشن کے لیے رقم کہاں سے لاتے تھے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم شاید یقین نہیں کرو گے میں نے اپنی جیب سے صرف وہی سودا خریدا تھا‘ پندرہ دن بعد ان کا سودا فری ہو چکا تھا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ وہ بولا ’’میں اگلے دن دکان پر گیا تو میرے مالک نے مجھے مشورہ دیا‘ ہماری دکان کا تھڑا خالی ہوتا ہے۔ تمہارا کام شام کے وقت اسٹارٹ ہوتا ہے اور وہ بھی تم گھنٹے میں ختم کر دیتے ہو اور سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہو‘ میں تمہیں چاول اور دالیں دے دیتا ہوں‘ تم یہ تھڑے پر رکھو اور پانچ پانچ‘ دس دس کلو بیچ دو‘ تمہیں اس سے فائدہ ہو جائے گا‘ غلہ منڈی میں تھوک کا کام ہوتا تھا‘ ہمارے پاس پانچ دس کلو کے بے شمار خریدار آتے تھے لیکن ہم ان سے معذرت کر لیتے تھے‘ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا‘ میں اپنے مالک سے دالیں‘ چاول اور چینی خریدتا تھا۔ اس کے پانچ پانچ اور دس دس کلو کے پیکٹ بناتا تھا اور کھڑے کھڑے بیچ دیتا تھا‘ آپ یقین کریں دو ہفتوں میں میری آمدنی چار پانچ گنا بڑھ گئی اور میں پندرہ دن بعد جب اس بیوہ کے گھر گیا تو میرے پاس سودا بھی ڈبل تھا اور میری جیب بھی ٹھیک ٹھاک بھاری تھی‘ میں نے ایک ماہ بعد اسے بچیوں کی فیس‘ کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی رقم دینا شروع کر دی‘ اللہ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں دو سال بعد اس دکان کا مالک تھا جس پر میں منشی ہوتا تھا‘ وہ دکان بعدازاں پورے کمپلیکس میں تبدیل ہو گئی اور میں دکان دار سے سیٹھ بن گیا۔
میں منڈیوں میں اجناس سپلائی کرنے لگا اور آج میں تمہارے سامنے ہوں‘ مجھے کبھی نقصان نہیں ہوا‘ کیوں نہیں ہوا؟ شاید اس کی وجہ وہ عورت اور اس کی دو بچیاں تھیں‘ وہ بچیاں بڑی ہوئیں‘ ایک ایم بی بی ایس کر کے ڈاکٹر بن گئی‘ دوسری نے بی اے کے بعد بیوٹی پارلر بنا لیا‘ وہ اب چودہ پندرہ سیلون چلا رہی ہے جب کہ آنٹی ایک یتیم خانہ اور بیوہ گھر چلا رہی ہے‘‘ وہ ایک بار پھر رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تم نے اس کے بعد کیا کیا؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’مجھے نیکی کا چسکا پڑ گیا‘ میں نے اس کے بعد اس جیسے گھرانوں کو راشن دینا اور فیملیز کی مدد کرنا شروع کر دیا۔ میں پہلے اپنی کمائی کا دس فیصد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا اور یہ اب آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے 60 فیصد ہو چکا ہے‘ میرے منافع کا 60 فیصد اللہ کی راہ پر خرچ ہوتا ہے‘ میں اپنی ذات کے لیے صرف 40 فیصد رکھتا ہوں لیکن یہ 40 فیصد بھی بے انتہا ہے۔ میں روز صبح اٹھتا ہوں اور آنٹی کو دعا دیتا ہوں‘ وہ اگر اس دن میری زندگی میں نہ آتی تو میں شاید آج بھی کسی دکان پر منشی ہوتا اور سات آٹھ ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہوتا‘ وہ آئی اور اس نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جس پر کام یابی اور خوش حالی کے پُل ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
مجھے یقین ہے آپ کو یہ کہانی فرضی لگے گی اور آپ یہ سوچ رہے ہوں گے میرے پاس اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن آپ یقین کریں یہ کہانی سو فیصد سچی ہے اور یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ دنیا میں ایسی لاکھوں کروڑوں مثالیں موجود ہیں‘ میں اپنے ملک میں ایسے درجنوں لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اللہ سے تجارت کی اور یہ ��ود بھی ارب پتی ہو گئے اور ان کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کے لیے بھی زندگی آسان ہو گئی۔ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی زندگی میں ایک بار ایسا کر کے دیکھ لیں‘ آپ اٹھیں اور کسی بیوہ‘ کسی یتیم کا ہاتھ پکڑ لیں‘ آپ کسی طالب علم کی تعلیم کا خرچہ اٹھا لیں اور آپ اس کے بعد اللہ کا کرم دیکھیں‘ آپ کو اگر اس کے بعد خوش حالی‘ مسرت اور کام یابی نصیب نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے وصول کر لیجیے گا‘ آپ یقین کریں دنیا میں صرف ایک ہی تجارت ہے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے۔ دنیا میں صرف ایک اسٹاک ایکسچینج ہے جس کا کاروبار کبھی بند نہیں ہوتا‘ جو کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتی‘ جو کبھی کریش نہیں ہوتی اور وہ ہے اللہ کی اسٹاک ایکسچینج لہٰذا میرا آپ کو مشورہ ہے آپ ایک بار اس اسٹاک ایکسچینج میں کھاتا کھول کر دیکھیں‘ آپ کو تجارت کا مزہ آ جائے گا۔
جاوید چوہدری  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
peghamnetwork-blog · 2 years
Text
23 مارچ
میں 23 مارچ نہیں مناؤں گا! میں کیسے یہ دیکھ سکتا ہوں کہ سلامی کے چبوترے پر ایک ایسا انسان کھڑا ہو کر سلامی لے گا جو اس ملک کا بدکار ترین مجرم ہے! جو ماڈل ٹاؤن کی نہتی اور حملہ عورتوں کے منہ پر گولیاں برسانے کا مجرم ہے۔ جو اس ملک کی غریب اور پسماندہ عوام کے حق پر ڈاکے ڈالنے والے خنزیر ترین خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک شدید ترین کرپٹ انسان ہے۔میں کیسے دیکھ سکتا ہوں کہ سلامی لینے والا عدالت کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت
لائیک، شیئر اور فالوورز برائے فروخت والے کاروبار پر نظر رکھیں۔ (فوٹو: فائل) ’’اللہ کے نام پر دے دے بابا‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم میں سے اکثر بس اڈوں، بازاروں، شاپنگ مالز اور ہوٹلوں کے باہر پھرنے والے غریب اور مجبور لوگوں سے سنتے ہیں، جو کسی بھی وجہ سے اپنی زندگی کی معیشت کا پہیہ خود سے چلانے کے قابل نہیں ہوتے اور انہیں اپنی اور اپنے خاندان کے افراد کی روح کا رشتہ ان کے جسم سے منسلک رکھنے کےلیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
یہاں لوگوں کے لئے کون سوچتا ہے
عجیب اتفاق ہے کہ ملک چلانے والے سب ارب پتی ہو گئے، ملک مقروض ہو گیا اور مجال ہے کسی نے ایک دھیلے، رتی یا پائی کی کرپشن کی ہو۔ پاکستان میں چند خاندان حکومتوں میں رہے، اب بھی نظام حکومت انہی کے ہاتھوں میں ہے، یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس مقروض ملک کا قرض وہ اتارتے ہیں جنہوں نے یہ قرض لیا ہی نہیں، قرضے ہڑپ کرنے والے اور لوگ ہیں اور قرضوں کا بوجھ سہنے والے لوگ حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ حکومتوں میں رہنے والے چند خاندانوں کو نظام پوری طرح سپورٹ کرتا ہے۔ ان خاندانوں کے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، یہاں عام لوگوں کے لئے سوچنے والا غالباً کوئی نہیں۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جب میں حکمرانوں کو غیر پاکستانی لباس میں دیکھتا ہوں، ان کی چیزوں کو دیکھتا ہوں، ان کی بیگمات کے ہاتھوں میں مہنگے ترین غیر ملکی پرس دیکھتا ہوں تو یہ سوچ مجھے بار بار ڈستی ہے کہ آخر اس ملک کے عوام کا کیا قصور ہے؟ 
کیا یہ ملک مافیاز کے لئے بنا تھا؟ یہ ملک ان مقاصد سے دور کیسے چلا گیا جن کی تکمیل کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا؟ عام لوگوں اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر کیسے بڑھ گئے، لوگوں پر حکمرانی کرنے والوں کے طور طریقے تو عام لوگوں جیسے ہوتے ہیں۔ ایران میں کس طرح سادہ سا لباس پہننے والے امام خمینیؒ انقلاب کے رہبر بن گئے، چین میں انسان کی ترقی کا دارومدارمحنت پر ہے، وہاں خاندانی نظام ترقی کی وجہ نہیں بنتا اور پھر وہاں کا نظام کسی کی مدد نہیں کرتا، صرف لوگوں کی مدد کرتا ہے، چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی صرف دس پندرہ سال میں دور کی، افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا، ہم ساٹھ کی دہائی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے، آج ہمارا تذکرہ آخری صفوں میں ہوتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے ہاں لوگوں کی پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی، ہم نے نفرتوں میں آدھا ملک گنوا دیا، ہم ہنوز اس سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں، تیس چالیس برس پہلے جب ہم خطے میں آگے تھے، انہی تیس چالیس برسوں میں ہمارے ہاں ایسے خاندانوں کی حکومتیں رہیں جو بیرونی دنیا میں جائیدادیں بناتے رہے، اس دوران ملک کہیں پیچھے چلا گیا، اسی عرصے میں نظام بھی ان خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ اس پورے کھیل نے کرپشن کے درخت اگائے، اب ان تناور درختوں نے دھرتی پر نفرت کا زہر گھول دیا ہے، نفرت اور دہشت سے نہ تو امن آتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوتی ہے، خوشحالی ایسے علاقوں کا راستہ بھول جاتی ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں کے مہنگے سوٹ اور مہنگی گاڑیاں غریبوں کا استحصال کرکے حاصل کی جاتی ہیں، ہم عجیب قوم ہیں ہم نے اپنے محسنوں کو بھی دکھ دیئے، ایک ٹی وی اینکر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی شاعری کی تو جواباً قوم کے محسن نے اپنا ہی شعر سنا ڈالا۔ کہنے لگے کہ : گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
شاید ہمارے پورے نظام کو ملک لٹنے کا دکھ نہیں، شاید بربادیوں کا کھیل اس نظام کو نظر نہیں آ رہا؟ قومیں بہت پہلے سوچتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیجئے۔ آگرہ میں پیدا ہونے والے موتی لال نہرو ہندوستان کے نامور وکیل تھے، انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بیٹے کو انگلستان سے قانون کی تعلیم دلوائی، موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی پرورش شہزادوں کی طرح کی، جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان لوٹا تو باپ نے اپنے بیٹے کو الہٰ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے۔ موتی لال نہرو نے دیکھا کہ اس کا بیٹا جواہر لال نہرو کمیونسٹ خیالات کا مالک ہے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے، موتی لال نے بیٹے کو بہت سمجھایا، جب دال نہ گلی تو پھر ایک دن موتی لال نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی الماری سے قیمتی سوٹ، مہنگے جوتے اور سگار نکالے اور لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ 
ساتھ ہی الماری میں کھدر کے تین کرتے، دو پائجامے اور دیسی جوتی رکھوا دی، کمرے سے اعلیٰ فرنیچر اٹھوا کر دری اور موٹی چادر بچھوا دی اور پھر خانساماں کو حکم دیا کہ کل سے صاحبزادے کو جیل جیسا سادہ کھانا دینا شروع کرو، موتی لال نے بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا۔ جواہر لال نہرو شام کو گھر لوٹا تو اس نے اپنے کمرے کا عجیب و غریب حال دیکھا، یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے والد کے پاس گیا، والد اس وقت ٹالسٹائی کا شہرہ ٔ آفاق ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے۔ جواہر لال نہرو نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ مجھ سے خفا ہیں؟ موتی لال نہرو نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور مدھم سی آواز میں جواب دیا ...’’ میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا...‘‘ بیٹے نے پوچھا ،’’تو پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا؟‘‘ والد نے جواب دیا ...’’ بیٹا تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری ہے، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان چیزوں کے عادی ہو جائو، 
غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ ہوتا نہیں اس لئے اگر تم عام آدمی کی بات کرتے ہو تو تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہئے، تم انگلستان کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر بات کرو گے تو کون اعتبار کرے گا، میں نہیں چاہتا کہ دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چنانچہ آج سے تم وہی کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے، تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کی پیشانی چومی اور پھر مرتے دم تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے، کھانا بھی غریبوں جیسا کھایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں لیڈر شپ اور عوام میں زمین آسمان کا تفاوت ہے اسی لئے حکمراں، عوام کا نہیں سوچتے، انہیں غریب لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ بقول ڈاکٹر اطہر قسیم صدیقی:
کوئی تو ایسا جواں مرد ہو قبیلے میں جو روز حشر سے پہلے حساب دے ڈالے
مظہر برلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
airnews-arngbad · 2 years
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad Date : 29 September 2022 Time : 09.00 to 09.10 AM آکاشوانی اَورنگ آ باد علاقائی خبریں تاریخ : ۲۹؍ سِتمبر ۲۰۲۲؁ ء وقت : صبح ۹.۰۰ سے ۹.۱۰ بجے
 Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad
Date : 29 September 2022
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی اَورنگ آ باد
علاقائی خبریں
تاریخ  :  ۲۹؍  سِتمبر  ۲۰۲۲؁ ء
وقت  :  صبح  ۹.۰۰   سے  ۹.۱۰   بجے 
چند اہم خبروں کی سر خیاں سماعت کیجیے ...
٭ پر دھان منتری غریب کلیان خوراک اسکیم کو 3؍ ماہ کے لیے اضا فی مدت دینے کا مرکزی کا بینہ کا فیصلہ 
٭ ممبئی کے چھتر پتی شیواجی مہاراج ٹرمنس ریلوے اسٹیشن تعمیر نو کے لیے اجازت
٭ مرکزی ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں4؍ فیصد اضا فہ
٭ لیفٹِننٹ جنرل انیل چو ہان کا نئے چیف آف ڈِفینس اسٹاف عہدے پر تقرر 
٭ بھارت رتن لتا منگیشکر بین الاقوامی مو سیقی کالج کا افتتاح 
٭ مہاراشٹر پبلک سروِس کمیشن کے آئندہ سال ہونے والے امتحان کا متوقع نظام الاوقات ظاہر
٭ برقی میٹر کی تصویر نہ نکالتے ہوئے اوسط بل دینے کا طریقہ بند کرنے کی ریاستی حکو مت کی ہدایت 
اور
٭ پہلےT-20؍ کر کٹ مقابلے میں بھارت کی جنوبی افریقہ سے 8؍ وِکٹس سے 
کامیابی
اب خبریں تفصیل سے...
ٌٌ مرکزی کابینہ نے پر دھان منتری غریب کلیان خوراک اسکیم کو اِس سال اکتوبر سے دسمبر تک مزید3؍ مہینے کے لیے توسیع دے دی ہے ۔ اطلا عات و نشر یات کے وزیر انو راگ سنگھ ٹھا کر نے بتا یا کہ اگلے3؍ مہینوں میں44؍ ہزار
762؍ کروڑ  روپئے خرچ کیے جائیں گے ۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ حکو مت اِس اسکیم کے تحت اب تک تقریباً3؍ لاکھ
 45؍ ہزار کروڑ  روپئے خرچ کر چکی ہے ۔ ٹھا کر نے بتا یا کہ اِس اسکیم سے ملک بھر میں تقریباً  80؍ کروڑ  لوگ مستفید ہو رہے ہیں  اور  یہ اپریل 2020؁ء سے نافذ ہے ۔ مرکزی کا بینہ نے مہنگائی بھتے میں کَل4؍ فیصد کا اضا فہ کر دیا ہے ۔ نئی دِلّی میں کابینہ کی میٹنگ کے بعد نامہ نگاروںکو تفصیل بتا تے ہوئے انوراگ ٹھا کر نے کہا کہ اِس سے مرکزی سر کار کے ملا زمین  اور  پینشن پانے والوں کو فائدہ حاصل ہو گا ۔ اِس کے لیے حکو مت کی تجوری پر 12؍ ہزار852؍ کروڑ روپیوں کا اضا فی بوجھ پڑے گا ۔
***** ***** ***** 
حکو مت نے 3؍ بڑے اسٹیشنوں کی تعمیر نو  اور  تر قی کے لیے بھارتی ریلوے کی تجویز کو منظوری دے دی ہے ۔ یہ ریلوے اسٹیشن ہیں  نئی دِلّی ریلوے اسٹیشن  ‘  احمد آباد ریلوے اسٹیشن  اور  چھتر پتی شیواجی مہا راج ٹر مِنس‘ ممبئی  ۔ اِس پرو جیکٹ پر تقریباً 10؍ ہزار کروڑ  روپئے خرچ ہوں گے ۔ نئی دِلّی میں کا بینہ کے فیصلوں کےبارے میں نا مہ نگاروں کو تفصیل بتا تے ہوئے ریلوے کے وزیر اشوِنی ویشنو نے کہا کہ اِن تینوں ریلوے اسٹیشنوں کی تعمیر نو  اور  تر قی کا کام  دو  سے تین  سال میں مکمل ہو جائے گا ۔ وزیر موصوف نے کہا کہ اِس سے روزگار کے 35؍ ہزار744؍ نئے مواقع پیدا ہوں گے ۔ اُنھوں نے کہا کہ ریلوے اسٹیشنوں کی تعمیر نو  اور  تر قی سے روز آ نہ20؍ لاکھ سے زیادہ مسا فروںکی
سہو لتوں میں اضا فہ ہو گا  اور  سر مایہ کاری سے مقا می معیشت کو بھی مدد ملے گی ۔
***** ***** ***** 
حکو مت نے کَل ریٹائرڈ لیفٹِننٹ جنرل انِل چوہان کو اگلا  چیف آف ڈِفینس اسٹافCDS مقرر کیا ہے ۔ لیفٹِننٹ جنرل چو ہان فو جی امور کے محکمے کے سیکریٹری کے طور پر بھی کام کریں گے ۔ وہ اُسی دن سے اِس عہدے پر مامورہوں گے جس دن وہ CDS کی ذمہ داری سنبھا لیں گے ۔ تقریباً40؍ برس  پر محیط اپنے کیریئر میں لیفٹِننٹ جنرل انل چو ہان نے کئی کمان ‘ اسٹاف  اور  انتہائی اہم نو عیت کے عہدوں پر کام کیا ہے  اور  انہیں جموں  و کشمیر  اور  شمال مشر قی بھارت میں اِنسداد  در اندازی کی کار وائیوں کا وسیع تر تجر بہ ہے ۔ پچھلے برس8؍ دسمبر کو ہیلی کا پٹر گر نے کے ایک واقع میں جنرل بپن راوت کے انتقال کے بعد سے چیف آف ڈِفینس اسٹاف کا عہدے خالی تھا ۔
***** ***** ***** 
ریاست کے اقتدار کی جد وجہد پر سپریم کورٹ کے بینچ کے رو برو آئندہ سماعت یکم نومبر کو ہو گی ۔ شندے گروپ کے اراکین کی نا اہلی  اور  دیگر تنازعہ کے معاملے میں بینچ کے روبرو سماعت التواء میں ہے ۔
***** ***** ***** 
خواتین صحت کے سلسلے میں مہاراشٹر کو سر ِ فہرست لائیں گے ۔ ایسا تیقن ریاست کے صحت عامّہ  اور خاندانی بہبود وزیر ڈاکٹر تا نا جی ساوَنت نے ظاہر کیا ہے  ۔  پو نا میں SNDT خواتین یو نیور سٹی میں  ’’  ماں محفوظ  تو گھر محفوظ  ‘‘  مہم کا افتتاح  اور  خواتین طِبّی جانچ کیمپ کا آغاز کرنے کے بعد وہ کلی مخاطب تھے ۔ خاندان کی تمام ذمہ داریاں سنبھا لتے ہوئے خواتین کی خود کی صحت کی جانب بے تو جہی ہوتی ہے ۔ اُن کی صحت کی فکر کے لیے اِس مہم پر عمل در آمد کیا جا رہا ہے ۔
اِس مہم کے تحت ریاست کے ساڑھے تین کروڑ مائوں  اور  بہنوں کی طِبی جانچ کی جائے گی یہ بات ساو َنت نے کہی ہے ۔
***** ***** ***** 
بھارت رتن لتا منگیشکر کے یوم پیدائش کے سلسلے میں کَل بین الاقوامی سنگیت کالج کا وزیر اعلیٰ ایکناتھ شِندے  اور  نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس کےہاتھوں افتتاح عمل میں آ یا ۔ یہ کالج ممبئی میں پر بھا دیوی میںP L  Deshpandey  کلا اکادمی  ‘  رویندر ناٹہ مندر میں عارضی طور پر شروع کیا گیا ہے ۔ ثقا فتی امور کے وزیر سُدھیر مُنگنٹی وار کے ہاتھوں اِس موقعے پر مشہور گلو کارہ اوشا منگیشکرکو2020؁ء سال کا  اور  پنڈت ہری پر ساد چو رسیا  کو2021؁ء اِس سال کا لتا منگیشکر ایوارڈ دیا گیا ۔
***** ***** ***** 
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
یہ خبریں آکاشوانی اورنگ آ باد سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
مہاراشٹر پبلک سروِس کمیشن کی معرفت آئندہ سال ہونے والے امتحان کا نظام الاوقات کمیشن کی ویب سائٹ پر ظاہر کر دیا گیا ہے ۔ مہاراشٹر نان گزیٹیڈ  گروپ B  اور  گروپC کے خد مات مشتر کہ قبل از امتحان اپریل  اور  فائنل امتحان ستمبر میں ہوں گے ۔ شہری خد مات گزیٹیڈ قبل از امتحان جون میں  اور  فائنل امتحان ستمبر -اکتوبر میں ہونے کا قیاس ہے ۔
***** ***** ***** 
بر قی میٹر کی تصویر نہ نکالتے ہوئے اوسط بل دینے کے طریقے کو بند کرنے کی ہدایت نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس نے دی ہے ۔ وہ کَل اِس سلسلے میں ایک جائزاتی میٹنگ سے مخاطب تھے ۔ کسانوں کو 2؍ لاکھ شمسی توا نائی کے پمپ مارچ2022؁ء تک تمام زرعی پمپ جوڑ نے کا بیک لاگ مکمل کرنا   اور  زرعی فیڈر شمسی توا نائی پر لا نا وغیرہ کئی اہم فیصلے اِس میٹنگ میں کیے گئے ۔
***** ***** ***** 
قلیل مدّتی فصل قر ض ریگو لر ادا کرنے والے کسانوں کو قرض واپسی کے لیے3؍ ماہ کی سہو لت دینے کا مطالبہ مراٹھواڑہ  گریجویٹ حلقہ انتخاب کے رکن اسمبلی ستیش چو ہان نے کیا ہے ۔ اِس سلسلے میں اُنھوں نے کَل امداد ِ باہمی وزیر اتُل ساوے سے ملا قات کر کے محضر پیش کیا ۔
***** ***** ***** 
ریاست میں کَل کووِڈ سے متاثرہ نئے 492؍ مریضوں کی تصدیق ہوئی ۔ اِس کی وجہ سے تمام ریاست می�� کووِڈ متاثرین کی جملہ تعداد81؍ لاکھ20؍ ہزار501؍ ہو گئی ہے ۔ کَل اِس وباء کی وجہ سے 3؍ مریض لقمہ ٔ  اجل بن گئے ۔ ریاست میں اب تک اِس بیما ری سے مر نے والے مریضوں کی جملہ تعداد ایک لاکھ48؍ ہزار336؍ ہو گئی ہے ۔ شرح اموات ایک اعشاریہ 85؍ فیصد ہے ۔ کَل562؍ مریض صحت یاب ہو گئے ۔ ریاست میں اب تک 79؍ لاکھ
68؍ ہزار736؍ مریض اِس وباء سے نجات حاصل کر چکے ہیں ۔ کووِڈ سے نجات کی شرح 98؍ اعشا ریہ 13؍ فیصد ہو گئی ہے ۔ ریاست میں فی الحال3؍ہزار429؍ مریضوں کا علاج جار ی ہیں ۔
***** ***** ***** 
مراٹھواڑہ میں کَل 34؍ کورونا وارئس متاثرہ مریضوں کا انکشاف ہوا ۔ اِس میں عثمان آباد ضلعے میں15؍ لاتور8؍ اورنگ آباد 6؍ جالنہ 4؍  اور  بیڑ ضلعے میں ایک مریض پا یا گیا ۔
***** ***** ***** 
اورنگ آ باد ضلعے کے ویجا پور  ‘  گنگا پور  اور  کنڑ تعلقوں میں 150؍ افراد کو بھگر  اور  بھگر کے آٹے کی وجہ سے Food Poisoning ہو گیا ۔ اِس سلسلے میں اورنگ آ باد دیہی ویجا پور  پولس نے 8؍ کرانہ دکان داروں کے خلاف کار وائی کر تے ہوئے کیس درج کیا ۔
***** ***** ***** 
تریواننت پورم میں کَل ہوئے پہلےT-20؍ کر کٹ مقابلے میں بھارت نے جنو بی افریقہ کو 8؍ وکٹس سے شکست دے دی ۔ پہلے بلّے بازی کر تےہوئے جنوبی افریقہ کی ٹیم نے 107؍ رنز کا ہدف رکھا ۔ بھارتیہ ٹیم نے اِس نشا نے کو17؍ ویں  اوور میں 2؍ وکٹس کے نقصان پر حاصل کر لیا ۔ کے ایل راہول  اور  سوریہ کمار یادو نے غیر مفتوح نصف سنچر یاں بنائی ۔ 3؍ وکٹس حاصل کرنے والے ارشدیپ سنگھ کو مین آ ف دی میچ قرار دیا گیا ۔ سیریز کا دوسرا مقابلہ اتور کو گو ہاٹی میں ہو گا ۔
***** ***** ***** 
مراٹھواڑہ کے چند علاقوں میں کَل بارش ہوئی ۔ اورنگ آ باد شہر  اور  نوا حی علاقوں میں دو پہر کو اوسط بارش ہوئی ۔ لاتور میں بھی کَل بجلیوں کی کڑک کے ساتھ بارش ہوئی ۔ ہنگولی ‘  ناندیڑ  اضلاع میں بھی کَل بارش ہوئی ۔ آئندہ2؍ یوم میں کو کن  ‘  وسطی مہاراشٹر  اور  مراٹھواڑہ کے چند مقا مات پر تاہم وِدربھ کے چند مقا مات پر بارش ہونے کا قیاس پو نا محکمہ موسمیات نے ظاہر کیا ہے ۔ چند مقامات پر بادلوں کی گھن گرج  اور  بجلیوں کی کڑ کے ساتھ بارش ہونے کا قیاس ظاہر کیاگیاہے۔
***** ***** ***** 
اورنگ آباد ڈویژن اساتذہ حلقہ انتخاب کے اساتذہ رائے دہندگان کے اندراج کا پروگرام یکم اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے ۔ اِس کی اطلاع ضلع کلکٹر سنیل چو ہان نے دی ۔ کَل اورنگ آباد میں اِس سلسلے میں ہوئی جائزہ میٹنگ کے بعد وہ صحا فتی کانفرنس سے مخاطب تھے ۔ یکم اکتوبر سے30؍ دسمبرتک رائے دہندگان فہرستوں کو از سر نو تشکیل دیا 
جائے گا ۔ اِس کی اطلاع سنیل چو ہان نے دی ۔
***** ***** ***** 
آخر میں چنداہم خبروں کی سر خیاں دوبارہ سماعت کیجیے ...
٭ پر دھان منتری غریب کلیان خوراک اسکیم کو 3؍ ماہ کے لیے اضا فی مدت دینے کا مرکزی کا بینہ کا فیصلہ 
٭ ممبئی کے چھتر پتی شیواجی مہاراج ٹرمِنس ریلوے اسٹیشن تعمیر نو کے لیے اجازت
٭ مرکزی ملازمین کے مہنگائی بھتّے میں4؍فیصد کا  اضا فہ
اور
٭ پہلےT-20؍ کر کٹ مقابلے میں بھارت کی جنوبی افریقہ سے 8؍ وِکٹس سے کامیابی
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
٭٭٭٭٭
0 notes
wannabewritersposts · 2 years
Text
حکمران ہیں یہ لوگ؟ مسلمان ہیں یہ لوگ؟
یہ لوگ اس شب کہاں تھے جب ماں کا سلیمان پیاس سے مر گیا
یہ لوگ اس شب کہاں تھے جب غریب خاندان زہر کی بھینٹ چڑھ گیا
یہ لوگ اس شب کہاں تھے جب ماؤں سے بیٹے، بیٹوں سے ان کا حق چھن گیا
نگہباں ہیں یہ لوگ؟ نگران ہیں یہ لوگ؟
یہ جو خالی پتیلوں کی دیواریں چاٹتے بچوں کی بددعاؤں سے ڈرتے نہیں
اپنی ہی اولاد کو بھوک سے بلکتا دیکھنے والی ماؤں سے ڈرتے نہیں
یہ وہ لوگ ہیں جو تم جیسے ہزاروں زمینی خداؤں سے ڈرتے نہیں
پریشان ہیں یہ لوگ؟ حکمران ہیں یہ لوگ؟
Hukmaraan hein ye log? Musalmaan hein ye log?
Ye log us shab kahan thy jab maa ka Sulemaan pyaas se mar gaya?
Ye log us waqt kahan thy jab ghareeb khandaan zeher ki bhaint charh gaya?
Ye log us waqt kahan thy jab maaon se unky bete, beto se unka haq chinn gaya?
Nigehbaan hein ye log? Nigraan hein ye log?
Ye jo khaali pateelo ki deewarein chaat'te bacho ki badduaon se darty nahi
Apni hi olaad ko bhook se bilakta dekhne wali maaon se darte nahi
Ye wo log hein jo tum jese hazaaro zameeni khudaon se darte nahi!
Pareshaan hein ye log? Hukmaraan hein ye log?
3 notes · View notes
onlyurdunovels · 3 years
Text
*..بیکن ھاؤس ..*؟؟؟؟؟؟ (نوٹ۔ اگر آپ کو تحریر کے غلط ہونے کے بارے معلومات ہیں تو آپ براہ مہربانی کامنٹس میں اپنے تجربات یا رائے ضرور لکھئیے) کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی "سکول" کسی ریاست کو شکست دے دے؟؟ حالیہ کچھ عرصہ میں ریاست پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے تمام بچوں کو خواہ امیر ہوں یا غریب انکو یکساں نصاب پڑھایا جائے گا..... اس فیصلے کو ہر باشعور پاکستانی کیطرف سے قابل تحسین قرار دیا گیا..... لیکن کل بیکن ھاؤس کے پرنسپل مائیکل تھامس نے اس فیصلہ کو ماننے سے انکار کیا..... بیکن ھاؤس کا نام سب سے پہلے سوشل میڈیا پر تب گردش میں آیا جب طلباء و طالبات کی مخلوط ڈانس محفلوں کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ پھر وہاں کے پڑھائے جانے والی نصابی کتب کے سکرین شاٹس شئیر ہوئے جن میں پاکستان کے ایسے نقشے تھے جہاں مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے علاوہ گلگت بلتستان کو بھی انڈیا کا حصہ دکھایا گیا تھا اور ان کتابوں میں ان کو " انڈین سٹیٹس" لکھا گیا تھا۔ اور یہ معاملہ کسی ایک کتاب تک محدود نہیں تھا بلکہ تقریباً تمام کلاسسز کی تمام کتابوں میں تھے جن کے خلاف سوشل میڈیا، میڈیا حتی کہ سپریم کورٹ کے احکامات بھی بے اثر ثابت ہوئے۔ بیکن ھاؤس کے خلاف سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے والے بیکن ھاؤس کے سابق ملازم ارمغان حلیم صاحب کو اس قسم کے مواد کے خلاف آواز اٹھانے پر شدید زدوکوب کیا گیا اور قتل تک کی دھمکیاں ملیں۔ بیکن ھاؤس میں انڈین سرمایہ کاری کا انکشاف بھی ہوا۔ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے " انٹرنیشنل فائنینس گروپ " نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔ بیکن ھاؤس پاکستان کا سب سے مہنگا سکول ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بیکن ھاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہ��۔ یہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی بیگم نسرین قصوری کی ملکیت ہے جن کو ان کا بیٹا قاسم قصوری چلاتا ہے۔ خورشید محمود قصوری وہی صاحب ہیں جس نے پندرویں آئینی ترمیم ( شریعہ بل ) کے خلاف احتجاجاً استعفی دیا تھا۔ ( شائد اسلام سے نفرت اس پورے خاندان کے خون میں شامل ہے ) لبرل ازم کا علمبرادار " بیکن ھاؤس ہر سال پاکستانی سوسائٹی میں اپنے تربیت یافتہ کم از کم 4 لاکھ طلبہ گھسیڑ رہا ہے۔ یہ طلبہ پاکستان کے اعلی ترین طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ (جو اسلام کے بعد پاکستان کو جوڑے رکھنے والا دوسرا اہم ترین جز ہے۔ 📷 ) پاکستان کے اعلی ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے ان طلباء کی اکثریت بڑی تیزی سے پاکستان میں اہم ترین پوزیشنیں سنبھال رہی ہے۔ اسی طبقے کا ایک بڑا حصہ فوج میں بھی جارہا ہے جو ظاہر ہے وہاں سپاہی بھرتی ہونے کے لیے نہیں جاتے مشہور زمانہ گرفتار شدہ ملعون آیاز نظامی کے الفاظ شائد آپ کو یاد ہوں کہ ۔۔ ۔۔ " ہم نے تمھارے کالجز اور یونیوسٹیز میں اپنے سلیپرز سیلز ( پروفیسرز اور لیکچررز ) گھسا دئیے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انہیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمھاری پوری تاریخ رد کردینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انہیں تمھارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوی نعرہ لگے گا اور وہ تمھارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمھارے رسول پر بھی بدگمان ہوجائینگے حتی کہ تمھارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے" بیکن ھاؤس نے " تعلیم " کے عنوان سے پاکستان کے خلاف جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اس کو روکنے میں میڈیا اور سپریم کورٹ دونوں ناکام نظر آرہے ہیں۔ اس " عفریت " کو اب عوام ہی زنجیر ڈال سکتے ہیں۔ یہ کام ہم سب نے ملکر کرنا ہے۔انکے خلاف آواز اٹھائیں اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیں اور اس مضمون کو کاپی کر کے اپنے اپنے پیجز اور ٹائم لائنز پر شیر کریں۔
3 notes · View notes
pakistantime · 3 years
Text
ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں
 اقوام متحدہ نے نکشاف کیا ہے کہ دنیا میں دو دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونسیف کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے جس میں گذشتہ چار سالوں میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں اضافے کا آغاز وبا سے پہلے ہو چکا تھا اور اس میں کمی کے رحجان میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے جس میں سنہ 2000 سے 2016 تک چائلڈ لیبر کی تعداد کم ہو کر نو کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔ 
جیسے جیسے کورونا بحران میں اضافہ ہوتا گیا پوری دنیا میں 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں پھنستا گیا، جس سے سب سے زیادہ افریقہ کا خطہ متاثر ہوا۔  دونوں ایجنسیوں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شرح سنہ 2016 جتنی ہی ہے لیکن آبادی میں اضافے کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور وبا کا خطرہ صورتحال کو بہت زیادہ خراب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تیزی سے بڑھتے غریب خاندانوں کی فوری امداد کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے دو سالوں میں تقریباً مزید پانچ کروڑ بچے چائلڈ لیبر کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔ اس صورتحال کے حوالے یونیسف کی چیف ہنریٹا فور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’کورونا بحران نے ایک خراب صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔‘ ’اب عالمی سطح پر لاک ڈاؤن، سکولوں کی بندش، معاشی رکاوٹوں اور سکڑتے ہوئے قومی بجٹ کے دوسرے سال میں خاندان دل توڑ دینے والا انتخاب پر مجبور ہیں۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وبا کے باعث غربت کے حالیہ تخمینوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سنہ 2022 کے آخر تک مزید 90 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جائیں گے۔ تاہم یونیسف کی شماریات کی ماہر کلاڈیا کیپا کے مطابق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد ممکنہ طور پر پانچ گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کفایت شعاری کے اقدامات اور دوسرے عوامل کی وجہ سے معاشرتی تحفظ موجودہ سطح سے نیچے آ جاتا ہے تو آئندہ آنے والے سال کے آخر تک چائلڈ لیبر کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ 60 لاکھ تک بڑھ سکتی ہے۔‘ ہر چار سال بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر کی مجموعی عالمی تعداد میں آدھے بچوں کی عمریں پانچ سے 11 سال تک ہے۔ 
بشکریہ اردو نیوز
1 note · View note
urdu-poetry-lover · 4 years
Text
مائنڈ سیٹ۔
’’پھرکوئی امید نہیں‘‘ اس کی آنکھوں میں غصہ اور ناامیدی دونوں تھیں۔ ’’نہیں کوئی امید نہیں‘‘ میرا جواب سن کر وہ غصے سے بولا ’’ تو کیا پھر اس ملک میں کبھی مہنگائی کم نہیں ہو گی‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ وہ کھڑا ہو گیا ’’کبھی غربت کم نہیں ہوگی‘‘ میں نے جواب دیا ’’نہیں ہو گی‘‘ وہ بولا ’’کبھی روزگار میں اضافہ نہیں ہو گا‘‘ میں نے کہا ’’نہیں ہو گا‘‘ وہ بولا ’’ہم لوگوں کو کبھی انصاف نہیں ملے گا‘ ہم کبھی صاف پانی نہیں پئیں گے‘ صاف ماحول میں سانس نہیں لیں گے‘ ہمارے بچوں کو اچھی تعلیم نہیں ملے گی‘ ہماری عزت نفس کبھی محفوظ نہیں ہو گی اور ہماری جان‘ مال اور عزت کو کبھی تحفظ نہیں ملے گا‘‘۔
میں نے ہنس کر جواب دیا ’’نہیں ہوگا‘ آپ کو یہ کبھی نہیں ملے گا‘‘ وہ مایوس ہو گیا اور اس نے مایوسی میں مجھ سے پوچھا ’’پھر اس ملک کا کیا فائدہ‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ میں اگر یہ کہوں دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی فائدہ نہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا‘‘ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا‘ ہم کتابوں کی دکان پر کھڑے تھے اور تمام گاہک ہماری گفتگو سن رہے تھے‘ میں بولنے کے کاروبار سے وابستہ ہوں چنانچہ مجھے جہاں مجمع لگانے کا موقع ملتا ہے میں وہاں لوگ اکٹھے کر کے کھڑا ہو جاتا ہوں اور خود ساختہ موٹی ویشنل اسپیکر بن کر ان کی مت مار نے لگتا ہوں۔
اس بے چارے نوجوان نے بھی کتابوں کے درمیان چلتے چلتے مجھ سے پوچھ لیا تھا ’’کیا ملک میں بہتری کی کوئی امید ہے‘‘ یہ سن کرمیں نے اسے اس طرح دیکھا جس طرح شکاری شکار کو دیکھتا ہے اور ہنس کر جواب دیا ’’کوئی نہیں ہے‘‘ اور پھر یہاں سے ہمارا مکالمہ شروع ہو گیا‘ نوجوان جذباتی تھا‘ سوال کرتے کرتے اس کی آواز اونچی ہونے لگی‘ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور وہ کتابوں کی تلاش چھوڑ کر ہمارے گرد جمع ہونے لگے‘ دکاندار بھی ہماری طرف متوجہ ہو گیا‘ مجمع تیار تھا اور میں موٹی ویشنل اسپیکر بن کر درمیان میں کھڑا تھا۔
نوجوان کے سوال اور میرے بدلحاظ جواب دونوں نے مجمعے کو گرما دیا تھا اور لوگ مجھے نفرت سے دیکھ رہے تھے‘ ان کا خیال تھا میں ایک بدتمیز اور بدلحاظ انسان ہوں‘ مجھے دوسروں کا دل رکھنا نہیں آتا‘ وہ بے چارہ مجھ سے پوچھ ہی بیٹھا تھا تو مجھے بدتمیزی سے جواب نہیں دینا چاہیے تھا‘ شائستگی اور تہذیب کا خیال رکھنا چاہیے تھا‘ میں نے ان کی آنکھوں میں نفرت کی آگ دیکھ لی اور مجھے محسوس ہوا میرے بولنے کا وقت ہو چکا ہے‘ میں اگر اب بھی چپ رہا تو یہ لوگ میرے اوپر حملہ کر دیں گے۔
میں نے پیار سے نوجوان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ہنس کر کہا ’’بیٹا دنیا کے آدھے بڑے مسئلے انسان کے ذاتی مسئلے ہوتے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی معاشرہ یہ مسئلے حل نہیں کر سکتا‘ یہ انسان نے خود حل کرنے ہوتے ہیں‘ دنیا میں آج تک کسی ملک میں مہنگائی کم نہیں ہو سکی‘ یہ ہر دور میں بڑھتی رہی اور یہ مستقبل میں بھی بڑھتی رہے گی چنانچہ اس کی کمی کا انتظار کرنے والے لوگ احمق ہیں۔
دنیا میں مہنگائی سرے سے کوئی ایشو ہی نہیں‘ ایشو انکم ہے‘ مہنگائی چٹان کی طرح ہوتی ہے‘ اس کا وزن کم نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں چٹان کا وزن کم کرنے کے بجائے اپنے بازوئوں کی طاقت بڑھانی پڑتی ہے‘ آپ اگر اپنی انکم بڑھا لیں گے تو مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی‘اسی طرح اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ کے لیے بوئنگ جہاز بھی سستا ہو گا اور آپ کی جیب اگر خالی ہے تو پھر سائیکل بھی مہنگی ہے اور انسان نے اپنی انکم خود بڑھانی ہوتی ہے‘ دنیا کا کوئی ملک‘ کوئی حکومت انسان کی انکم نہیں بڑھا سکتی۔
آپ کو امریکا اور چین میں بھی بھکاری نظر آتے ہیں جب کہ روانڈا جیسے ملکوں میں بھی لوگوں نے جہاز رکھے ہوئے ہیں چنانچہ مہنگائی باہر نہیں ہوتی‘ یہ آپ کے اندر ہوتی ہے‘ اسے آپ نے اپنے اندر سے ٹھیک کرنا ہوتا ہے‘‘ مجمعے کا غصہ کم ہو گیا اور وہ لوگ میری طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلانے لگے‘ میں نے عرض کیا ’’غربت بھی انفرادی مسئلہ ہوتا ہے‘ آپ اپنے بہن بھائیوں‘ دوستوں اور رشتے داروں کو دیکھیں۔
آپ اپنے محلے‘ اپنے شہر کے لوگوں کو دیکھیں‘ آپ کو ان میں ارب پتی بھی ملیں گے‘ کروڑپتی بھی‘ لاکھ پتی بھی اور روپے روپے کو ترستے لوگ بھی اور یہ سب ایک ہی ملک‘ ایک ہی شہر‘ ایک ہی محلے اور ایک ہی خاندان کے لوگ ہیں‘ گویا ملک‘ قبیلے یا خاندان کسی کو امیر یا غریب نہیں بنا سکتے‘ دنیا کے تمام لوگ برابر ہوتے ہیں‘ ہم اپنی مرضی سے غریب یا امیر بنتے ہیں‘ ہم کام کریں گے ‘ امیر ہو جائیں گے‘ نہیں کریں گے غریب رہ جائیں گے‘‘۔
میں نے لمبا سانس کھینچا اور عرض کیا ’’ملک کسی شخص کو روزگار بھی فراہم نہیں کرسکتے‘ ہم اگر پروفیشنل ہیں‘ ہم اگر محنتی اور ایمان دار ہیں تو پھر دنیا کا کوئی شخص ہمیں بے روزگار نہیں کر سکے گا اور ہم اگر نالائق ہیں‘ ہم بے ایمان‘ سست اور نکھٹو ہیں تو پھر ہم بل گیٹس کے گھرپیدا ہو کر بھی بیروزگار رہیں گے‘ دنیا ہمیں چپڑاسی تک نہیں رکھے گی‘ مہاتما گاندھی بھارت کے ’’فادر آف نیشن‘‘ ہیں لیکن ان کا بیٹا ہری لال اس انڈیا میں فٹ پاتھ پر مرا تھا اور 33 لاکھ مربع کلو میٹر تک پھیلے ملک میں اس کے لیے سر چھپانے کی کوئی جگہ نہیں تھی‘ کیوں؟
کیوں کہ وہ نالائق اور شرابی تھا‘ مجھے چند دن پہلے دنیا کے نامور لوگوں کے بچوں کے بارے میں ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے دنیا کے 99 فیصد کام یاب لوگوں کے بچوں نے عسرت اور بے چارگی میں زندگی گزاری‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ لائق والدین کے نالائق بچے تھے چنانچہ جب آپ کو باپ کی دولت بھی کام یاب نہیں بنا سکتی تو پھر ملک آپ کو روزگار کہاں سے دے گا؟
آپ کو روزگار اپنی اہلیت سے ملتا ہے اور یہ اہلیت بھی کمانا پ��تی ہے‘‘ مجمعے نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ میں نے مداری کی طرح جھک کر ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر عرض کیا ’’باقی رہ گیا صاف پانی‘ صاف ماحول‘ معیاری تعلیم‘ عزت نفس اور جان‘ مال اور عزت کا تحفظ تو میرا بیٹا‘دنیا میں نیوزی لینڈ اور سوئٹزر لینڈ دونوں صاف ترین ملک ہیں لیکن لوگ وہاں بھی پالوشن اور گندے پانی سے مرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ انسان اگر خود صاف پانی نہیں پیے گا‘ یہ اگر خود اپنا ماحول صاف نہیں رکھے گا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے پالوشن فری ماحول اور صاف پانی نہیں دے سکے گی۔
آپ کا پانی اگر گندا ہے تو آپ یہ گندا پانی کیوں پیتے ہیں؟ آپ اسے ٹیسٹ کرائیں‘ صاف کریں اور ابال کر پئیں‘ آپ کو کون روک رہا ہے؟ آپ گھر میں پودے اور درخت لگائیں‘ آپ کو کس نے روکا ہے اور آپ اپنا جسم اور گلی صاف رکھیں‘ آپ کو کس نے منع کیا ہے؟ یاد رکھیں دنیا کی کوئی حکومت آپ کو نہلا نہیں سکتی‘ آپ اگر گند ڈالنے کی علت میں مبتلا ہیں تو پھر فرشتے بھی آ کر اسے نہیں سمیٹ سکیں گے‘ یہ کام بھی آپ نے خود کرنا ہے‘ معیاری تعلیم کے لیے کوشش بھی خود کرنی پڑتی ہے‘ آپ محنت کریں‘ پیسے کمائیں اور بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں۔
امریکا اور یورپ میں بھی ہر سال لاکھوں بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں‘ یہ کس کے بچے ہیں‘ یہ نالائق اور بے حس لوگوں کے بچے ہیں جب کہ دنیا میں 428 ایسے ادارے ہیں جن کی فیسیں کروڑوں میں ہیں اور لوگوں کو وہاں داخلہ نہیں ملتا‘ ان اداروں میں کون داخلہ لیتے ہیں؟ وہ لوگ لیتے ہیں جو ایسے اداروں کے لیے پیسہ کماتے ہیں‘ آپ بھی کمائیں اور اپنے بچوں کو وہاں پڑھائیں‘ عزت نفس بھی ذاتی سرمایہ ہوتا ہے‘ آپ خود دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں‘ دوسروں کو عزت دیں‘ لوگوں اور اداروں کا احترام کریں‘ دائیں بائیں موجود لوگوں کو سپیس دیں‘ آپ کی عزت نفس محفوظ ہو جائے گی‘ یہ کیسے ممکن ہے آپ سڑک پر چلتے چلتے دوسروں کو گالی دے دیں اور آپ کی اپنی عزت نفس محفوظ رہ جائے۔
آپ اگر اپنی عزت نفس نہیں بچانا چاہتے تو پھر دنیا کا کوئی ملک آپ کی عزت نفس نہیں بچا سکے گا‘ جان بھی آپ کی اپنی ہوتی ہے‘ مال بھی اور عزت بھی اور ان کی حفاظت بھی آپ نے خود کرنی ہوتی ہے‘ آپ اگر اپنی عزت‘ مال اور جان کا پہرہ نہیں دیں گے تو پھر یہ یورپ سے لے کر امریکا تک دنیا کے کسی کونے میں محفوظ نہیں ہو گی‘ کیا امریکا میں لوگ قتل نہیں ہوتے‘ کیا وہاں ڈکیتیاں اور عزتیں پامال نہیں ہوتیں؟ ہوتی ہیں‘ اگر امریکا اپنے شہریوں کو عزت‘ مال اور جان کا تحفظ نہیں دے پا رہا تو پھر دنیا کا کوئی ملک نہیں دے سکے گا لہٰذا ہمارے سارے مسئلے انفرادی ہیں اور یہ ہم سب نے خود حل کرنے ہیں‘‘۔
میں خاموش ہو گیا‘ مجمع خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگا‘ اچانک کونے سے آواز آئی ’’اور انصاف‘‘ میں نے کہا ’’یہ بھی انسان نے خود تلاش کرنا ہوتا ہے‘ حشر کے میدان میں بھی انسان اپنا مقدمہ خود لڑے گا‘ جب ہمیں اللہ کے سامنے بھی خود کو خود ہی بے گناہ ثابت کرنا ہے تو پھر تو یہ دنیا ہے اور یہ دنیا ناانصافیوں کا گھر ہے‘‘ مجمعے کے ایک کونے سے تالی کی آواز آئی اور پھر سب تالیاں بجانے لگے‘ میں نے آخر میں عرض کیا‘ دنیا میں کوئی مسئلہ‘ مسئلہ نہیں‘ صرف مائینڈ سیٹ مسئلہ ہے‘ ہم اگر اپنا دماغ ٹھیک کر لیں تو دنیا کے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن ہم اپنے مسئلوں کے حل کے لیے حکومتوں اور ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ ہم کتنے بے وقوف ہیں؟
5 notes · View notes
zahidashz · 4 years
Text
فرقوں کے نام ۔۔۔
سب سے پہلے ہم فرقوں کے نام بارے بتائیں گے ۔۔ شاید آپ ان میں شامل نہیں ۔۔۔۔
قرآن کی آیت کا دلیل 👇
سورۃ نمبر 30 الروم
آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مِنَ الَّذِيۡنَ فَرَّقُوۡا دِيۡنَهُمۡ وَكَانُوۡا شِيَعًا ‌ؕ كُلُّ حِزۡبٍۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُوۡنَ ۞
وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر مگن ہے۔
حدیث کا دلیل :👇
نبی ﷺ نے امت کی گمراہی اور تباہی کا ذکر اس طرح فرمایا :
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا أبو داود الحفري عن سفيان الثوري عن عبد الرحمن بن زياد الأفريقي ع�� عبد الله بن يزيد عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ليأتين علی أمتي ما أتی علی بني إسرايل حذو النعل بالنعل حتی إن کان منهم من أتی أمه علانية لکان في أمتي من يصنع ذلک وإن بني إسرايل تفرقت علی ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي علی ثلاث وسبعين ملة کلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي قال أبو عيسی هذا حديث حسن غريب مفسر لا نعرفه مثل هذا إلا من هذا الوجه
'' میری امت پر ایک زمانہ ضرور آئے گا جیسا کہ نبی اسرائیل پر آیا تھا ، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے ، یہاں تک کہ اگر نبی اسرائیل میں سے کسنی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا تھا تو میری امت میں بھی کوئی ہو گا ، اور بے شک بنی اسرائیل 72 فرقوں میں تقسیم ہوئے تو میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی وہ سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک جماعت کے ۔ (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم )نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ وہ جماعت کون سے ہوگی ؟ فرمایا: جو میں ﷺ اور میرے اصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر ہوں گے ۔
''( ترمذی : باب الاعتصام بالکتاب و سنتہ)۔ ۔👇
۔ ۔ ( یہ روایت سندا غریب ہے لیکن صحیح روایات میں یہی بات کی گئی ہے لہذا اسے صرف تائید میں قبول کیا جا سکتا ہے
جیسا کہ :
معاوية بن أبي سفيان أنه قام فينا فقال ألا إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قام فينا فقال ألا إن من قبلکم من أهل الکتاب افترقوا علی ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الملة ستفترق علی ثلاث وسبعين ثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة زاد ابن يحيی وعمرو في حديثيهما وإنه سيخرج من أمتي أقوام تجاری بهم تلک الأهوا کما يتجاری الکلب لصاحبه وقال عمرو الکلب بصاحبه لا يبقی منه عرق ولا مفصل إلا دخله
’’ صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی طرح مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابوسفیان فرماتے ہیں کہ وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آگاہ رہو بیشک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ فرقہ جماعت کا ہوگا۔ محمد بن یحیی اور عمرو بن عثمان نے اپنی روایتوں میں یہ اضافہ کیا کہ
آپ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ہوں گی کہ گمراہیاں اور نفسانی خواہشات ان میں اس طرح دوڑیں گی جس طرح کتے کے کاٹنے سے بیماری دوڑ جاتی ہے کہ کوئی رگ اور جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔‘‘
( ابو داؤد ، سنت کا بیان ، باب:سنت کی تشریح)
آپ آئیے ۔۔۔
فرقوں کے نام:
👇سنی ( دو اور فرقے ہیں )
اہل سنّت اسلامی
دعوت اسلامی
👇بریلوی ( آٹھ اور فرقے ہیں)
نقش بندی سنی
قادری سنی
عطاری سنی
غوری توشاہی سنی
پرویزی سنی
پیری سنی
غوثیہ سنی
رضوی سنی
👇دیوبندی (نو فرقے اور ہیں )
تبلیغی دیوبندی
مماتی دیوبندی
حیاتی دیوبندی
پنج پیری دیوبندی
غلام خانی دیوبندی
جہادی دیوبندی
شاعتی دیوبندی
جھنگوی دیوبندی
فضلی دیوبندی
تھانوی دیوبندی
حنفی
شافعی
مالکی
حنبلی
شاففیوں
👇 صوفی ( ستائس اور فرقے ہیں )
سہروديہ صوفی
چشتیاں صوفی
بوہری صوفی
نصیری صوفی
باطنی صوفی
ظاہری صوفی
رابعہ بصری صوفی
سری سقطی بغدادی صوفی
با یزیدی سطامی صوفی
جنید بغداد صوفی
علی ہجویری صوفی
داتا گنج بخشش لاہوری صوفی
امام غزالی عبد القادر جیلانی صوفی
خواجہ نظام الدین چشتی صوفی
خواجہ فرید گنج شکری صوفی
جلال الدین رومی صوفی
خواجہ نظام الدین اولیاء صوفی
احمد سر ہندی المعروف بمجد والف صوفی
شاہ ولی اللہ صوفی
سید احمد شہیدی صوفی
عبدالله غزنوی صوفی
خاندان ولی اللہ کے خدام
بابی علمی
سر سید احمد خانیوی
👇 شیعہ ( بے شمار فرقے ہیں )
سباء یہ
مفضلیہ
بیزیدیہ
مغیر یہ
جناحیہ
بنانیہ
منصور یہ
غمامیہ
امو یہ
تفو یضیہ
خطا بیہ
معمر یہ
غرابیہ
ذبابیہ
ذمیہ
اثنینیہ
کیسانیہ ( چھ فرقے ہیں )
👇 زید یہ (نو فرقے اور ہیں )
جہمیہ
جعفر یہ
تونیہ
شمبر یہ
صالحیہ
تیمیہ
شبیلہ
غیلانیہ
نجار یہ
یونانیہ
اما میوں ( 46 اور فرقے ہیں ) (حسب نہیں )
اہل قرآن
اہل تشیع
علمی نوری
👇اہل حدیث (بائیس فرقے اور ہیں )
جماعت الدعوا اہل حدیث
يوتھ فورس اہل حدیث
كانفرنس اہل حدیث
سلفی اہل حدیث
امر نسری اہل حدیث
انتخاب مولوی محیدین اہل حدیث
شریفیہ اہل حدیث
گوندلوی اہل حدیث
بنارسی اہل حدیث
جمیعت اہل حدیث
علماء اہل حدیث
غرباء اہل حدیث
ثبائنبه اہل حدیث
غزنوی اہل حدیث
امیر شریف باہر اہل حدیث
محمدی اہل حدیث
نزریہ اہل حدیث
تبان اہل حدیث
توحیدی اہل حدیث
👇جماعت المسلمین اہل حدیث (چار اور فرقے ہیں )
غرباء اہل حدیث
جماعت الدعوا اہل حدیث
یوتھ فورس اہل حدیث
كانفرنس اہل حدیث
سلفی اہل حدیث
امر نرسری اہل حدیث
انتخاب مولوی محیدین اہل حدیث
شریفیہ اہل حدیث
گوندلوی اہل حدیث
بنارسی اہل حدیث
جمیعت اہل حدیث
علماء اہل حدیث
ثبائنبہ اہل حدیث
غزنوی اہل حدیث
امیر شریف بہار اہل حدیث
محمدی اہل حدیث
نزریہ اہل حدیث
ثبان اہل حدیث
توحیدی اہل حدیث
روپڑی اہل حدیث
کاندهوی اہل حدیث
👇جماعت المسلمین چار اور فرقے ہیں
جماعت المسلمین مسعود احمد بی ایس سی
جماعت المسلمین محمّد ہادی پشاوری
جماعت المسلمین ڈاکٹر بشیر احمدی
جماعت المسلمین محمّد ظفر
جماعت المسلمین حق نواز گھوٹوی ابو مزمل
جماعت اسلامی (6 اور فرقے ہیں )
جماعت درخواستی اسلامی
جماعت اشاعت السنتہ پنج اسلامی
جماعت انجم سیاہ صحابہ اسلامی
جماعت منہاجی اسلامی
👈ایک حق پر 👇
مسلمان کی جماعت
بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم
((حُذَیْفَۃَبْنَ الْیَمَانِ رضی ﷲ عنہ یَقُوْلُ,
کَانَ النَّاسُ یَسْاَلُوْنَ
رَسُولَ ﷲ ﷺ عَنِ الْخَیْرِ وَکُنْتُ اَسْاَلُہُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَۃَ اَنْ یُدْرِکَنِی.))
حذیفہ بن یمان ؓ کہتے ہیں,
لوگ رسول ﷲ ﷺ سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہ کہیں شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں،شر کے متعلق سوال کرتا تھا۔
((فَقُلْت))ُ ,
((یَا رَسُولَ ﷲ اِنَّا کُنَّا فِی جَاھَلَیَّۃٍ وَ شَرٍّ ، فَجَا ءَ نَا اللہُ بِھَذَا الْخَیْرِ فَھَلْ بَعْدَ ھَذَاالْخَیْرِ مِنْ شَرٍّ ۔۔؟))
میں نے پوچھا ,
اے ﷲ کے رسول ﷺ ہم جاہلیت و شر میں مبتلا تھے ، ﷲ نے اس خیر (یعنی دین اسلام) سے مشرف فرمایا تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے ؟
((قَال))َ (( نَعَمْ ))
رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا ۔(( ہاں ))۔
((قُلْت))ُ
ھَلْ بَعْدَ ذَ لِکَ الشَّرِّ مِنْ خَیْرِ؟))
میں نے پوچھا ,
کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہے ؟
((قَالَ)) : (( نَعَمْ وَ فِیہِ دَخَنٌ ))
رسول ﷲﷺ نے فرمایا
((ہاں لیکن اس میں کدورت ہوگی))
((قُلْت))ُ , وَمَا دَخَنُہُ؟))
میں نے پوچھا ,
کدورت کیا ہوگی ؟
((قَالَ))
قَوْمٌ یَھْدُونَ بِغَیْرِ ھَدْیِ، تَعْرِفُ مِنْھُمْ وَ تُنْکِرُ))
رسول ﷲﷺ نے فرمایا ,
((ایسے لوگ بھی ہونگے جو میرے طریقہ کے بجائے دوسرے طریقوں کی طرف راہ نمائی کریں گے، تم اُن کی بعض باتوں کو اچھا سمجھو گے اور بعض باتوں کو بُرا سمجھو گے ))
((قُلْتُ))
((فَھَلْ بَعْدَ ذَ لِکَ الْخَیْرِ مِنْ شَرِّ ؟))
میں نے کہا,
کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟
((قَال))َ
((نَعَمْ دُعَاۃٌ عَلَی اَبْوَابِ جَھَنَّمَ مَنْ اَجَا بَھُمْ إِلَیْھَا قَذَفُوہُ فِیھَا ))۔
رسول ﷲﷺ نے فرمایا !
((ہاں، لوگ (اس طرح گمراہی پھیلائیں گے)گویا (کہ وہ)جہنم کے دروازے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلا رہے ہوں گے، جو ان کی پکار پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے )).
((قُلْتُ))
((یَا رَسُولَ ﷲصِفْھُمْ لَنَا ؟))
میں نے عرض کیا,
اے ﷲ کے رسولﷺ کچھ ان کی صفات بیان فرما دیجیئے ؟
((قَالَ))
(( ھُمْ مِنْ جِلْدَ تِنَا وَ یَتَکَلَّمُونَ بِاَلْسِنَتِنَا ))۔
رسول ﷲﷺ نے فرمایا ,
((وہ ہماری ہی قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں باتیں کریں گے ))
((قُلْت))ُ
((فَمَاتَاْ مُرُنِیْ إِنْ اَدْرَکَنِی ذَ لِکَ ؟))
میں نے پوچھا ,
اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو مجھے آپ کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟
((قَالَ))
(( تَلْزَمُ جَمَاعَۃَالْمُسْلِمِیْنَ وَ
2 notes · View notes