Tumgik
#غریب خاندانوں
akksofficial · 2 years
Text
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بچوں کی تعلیم وصحت کیلئے وظائف دے رہا ہے، شازیہ مری
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بچوں کی تعلیم وصحت کیلئے وظائف دے رہا ہے، شازیہ مری
اسلام آ باد (نمائندہ عکس )وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ہزاروں غریب خاندانوں کو بچوں کی تعلیم و صحت کے لیے وظائف دے رہا ہے۔ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ مری نے اپنے جاری کردہ پیغام میں کہا کہ یہ وظائف بینظیر نشونما پروگرام اور بینظیر تعلیمی وظائف کے تحت دیئے جا رہا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دن ہم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 3 months
Text
چوہدری لطیف عرف ٹیپو اور انکی فیملی نے 700سے زائد مستحق خاندانوں میں راشن تقسیم کردیا
0 notes
risingpakistan · 3 months
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر آپ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 ��رس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
spitonews · 1 year
Text
مراکش کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے ساری تنخواہ غریبوں میں بانٹ دی
مراکش کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے ساری تنخواہ غریبوں میں بانٹ دی
فٹبالر تنخواہ ٹیم کے عملے اور اپنے آبائی علاقے مراکش میں غریب خاندانوں کو دے دیتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر) دوحا: مراکش کی ٹیم کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے فیفا ورلڈکپ میں ملنے والے 3 لاکھ 25 ہزار ڈالرز کو غریبوں میں تقسیم کردیا۔ امریکی خبررساں ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مراکش کے ایک صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ مراکشی ٹیم کے اسٹائیکر حکیم زیچ نے سال 2015 سے اب تک نیشنل ٹیم کیلئے کھیلتے ہوئے ایک پیسہ بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
moazdijkot · 1 year
Text
مراکش کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے ساری تنخواہ غریبوں میں بانٹ دی
مراکش کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے ساری تنخواہ غریبوں میں بانٹ دی
فٹبالر تنخواہ ٹیم کے عملے اور اپنے آبائی علاقے مراکش میں غریب خاندانوں کو دے دیتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر) دوحا: مراکش کی ٹیم کے اسٹار فٹبالر حکیم زیچ نے فیفا ورلڈکپ میں ملنے والے 3 لاکھ 25 ہزار ڈالرز کو غریبوں میں تقسیم کردیا۔ امریکی خبررساں ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مراکش کے ایک صحافی نے انکشاف کیا ہے کہ مراکشی ٹیم کے اسٹائیکر حکیم زیچ نے سال 2015 سے اب تک نیشنل ٹیم کیلئے کھیلتے ہوئے ایک پیسہ بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
یہاں لوگوں کے لئے کون سوچتا ہے
عجیب اتفاق ہے کہ ملک چلانے والے سب ارب پتی ہو گئے، ملک مقروض ہو گیا اور مجال ہے کسی نے ایک دھیلے، رتی یا پائی کی کرپشن کی ہو۔ پاکستان میں چند خاندان حکومتوں میں رہے، اب بھی نظام حکومت انہی کے ہاتھوں میں ہے، یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس مقروض ملک کا قرض وہ اتارتے ہیں جنہوں نے یہ قرض لیا ہی نہیں، قرضے ہڑپ کرنے والے اور لوگ ہیں اور قرضوں کا بوجھ سہنے والے لوگ حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ حکومتوں میں رہنے والے چند خاندانوں کو نظام پوری طرح سپورٹ کرتا ہے۔ ان خاندانوں کے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتا ہے، یہاں عام لوگوں کے لئے سوچنے والا غالباً کوئی نہیں۔ یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ جب میں حکمرانوں کو غیر پاکستانی لباس میں دیکھتا ہوں، ان کی چیزوں کو دیکھتا ہوں، ان کی بیگمات کے ہاتھوں میں مہنگے ترین غیر ملکی پرس دیکھتا ہوں تو یہ سوچ مجھے بار بار ڈستی ہے کہ آخر اس ملک کے عوام کا کیا قصور ہے؟ 
کیا یہ ملک مافیاز کے لئے بنا تھا؟ یہ ملک ان مقاصد سے دور کیسے چلا گیا جن کی تکمیل کے لئے اس کا قیام عمل میں آیا تھا؟ عام لوگوں اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر کیسے بڑھ گئے، لوگوں پر حکمرانی کرنے والوں کے طور طریقے تو عام لوگوں جیسے ہوتے ہیں۔ ایران میں کس طرح سادہ سا لباس پہننے والے امام خمینیؒ انقلاب کے رہبر بن گئے، چین میں انسان کی ترقی کا دارومدارمحنت پر ہے، وہاں خاندانی نظام ترقی کی وجہ نہیں بنتا اور پھر وہاں کا نظام کسی کی مدد نہیں کرتا، صرف لوگوں کی مدد کرتا ہے، چین نے اپنے پسماندہ علاقوں کی پسماندگی صرف دس پندرہ سال میں دور کی، افسوس ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا، ہم ساٹھ کی دہائی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے، آج ہمارا تذکرہ آخری صفوں میں ہوتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے ہاں لوگوں کی پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی کی ہی نہیں گئی، ہم نے نفرتوں میں آدھا ملک گنوا دیا، ہم ہنوز اس سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں، تیس چالیس برس پہلے جب ہم خطے میں آگے تھے، انہی تیس چالیس برسوں میں ہمارے ہاں ایسے خاندانوں کی حکومتیں رہیں جو بیرونی دنیا میں جائیدادیں بناتے رہے، اس دوران ملک کہیں پیچھے چلا گیا، اسی عرصے میں نظام بھی ان خاندانوں کے ہاتھوں یرغمال بن گیا۔ اس پورے کھیل نے کرپشن کے درخت اگائے، اب ان تناور درختوں نے دھرتی پر نفرت کا زہر گھول دیا ہے، نفرت اور دہشت سے نہ تو امن آتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوتی ہے، خوشحالی ایسے علاقوں کا راستہ بھول جاتی ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ حکمرانوں کے مہنگے سوٹ اور مہنگی گاڑیاں غریبوں کا استحصال کرکے حاصل کی جاتی ہیں، ہم عجیب قوم ہیں ہم نے اپنے محسنوں کو بھی دکھ دیئے، ایک ٹی وی اینکر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی شاعری کی تو جواباً قوم کے محسن نے اپنا ہی شعر سنا ڈالا۔ کہنے لگے کہ : گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیرؔ ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
شاید ہمارے پورے نظام کو ملک لٹنے کا دکھ نہیں، شاید بربادیوں کا کھیل اس نظام کو نظر نہیں آ رہا؟ قومیں بہت پہلے سوچتی ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا لیجئے۔ آگرہ میں پیدا ہونے والے موتی لال نہرو ہندوستان کے نامور وکیل تھے، انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بیٹے کو انگلستان سے قانون کی تعلیم دلوائی، موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی پرورش شہزادوں کی طرح کی، جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان لوٹا تو باپ نے اپنے بیٹے کو الہٰ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے۔ موتی لال نہرو نے دیکھا کہ اس کا بیٹا جواہر لال نہرو کمیونسٹ خیالات کا مالک ہے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے، موتی لال نے بیٹے کو بہت سمجھایا، جب دال نہ گلی تو پھر ایک دن موتی لال نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کی الماری سے قیمتی سوٹ، مہنگے جوتے اور سگار نکالے اور لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ 
ساتھ ہی الماری میں کھدر کے تین کرتے، دو پائجامے اور دیسی جوتی رکھوا دی، کمرے سے اعلیٰ فرنیچر اٹھوا کر دری اور موٹی چادر بچھوا دی اور پھر خانساماں کو حکم دیا کہ کل سے صاحبزادے کو جیل جیسا سادہ کھانا دینا شروع کرو، موتی لال نے بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا۔ جواہر لال نہرو شام کو گھر لوٹا تو اس نے اپنے کمرے کا عجیب و غریب حال دیکھا، یہ دیکھ کر مسکراتے ہوئے والد کے پاس گیا، والد اس وقت ٹالسٹائی کا شہرہ ٔ آفاق ناول وار اینڈ پیس پڑھ رہے تھے۔ جواہر لال نہرو نے اپنے باپ سے پوچھا، آپ مجھ سے خفا ہیں؟ موتی لال نہرو نے کتاب سے نظریں ہٹائیں اور مدھم سی آواز میں جواب دیا ...’’ میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا...‘‘ بیٹے نے پوچھا ،’’تو پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا؟‘‘ والد نے جواب دیا ...’’ بیٹا تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری ہے، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان چیزوں کے عادی ہو جائو، 
غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ ہوتا نہیں اس لئے اگر تم عام آدمی کی بات کرتے ہو تو تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہئے، تم انگلستان کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر بات کرو گے تو کون اعتبار کرے گا، میں نہیں چاہتا کہ دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چنانچہ آج سے تم وہی کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے، تم اتنے پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں...‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کی پیشانی چومی اور پھر مرتے دم تک کھدر کے کپڑے ��ور دیسی جوتے پہنے، کھانا بھی غریبوں جیسا کھایا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں لیڈر شپ اور عوام میں زمین آسمان کا تفاوت ہے اسی لئے حکمراں، عوام کا نہیں سوچتے، انہیں غریب لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔ بقول ڈاکٹر اطہر قسیم صدیقی:
کوئی تو ایسا جواں مرد ہو قبیلے میں جو روز حشر سے پہلے حساب دے ڈالے
مظہر برلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 3 years
Text
ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں
 اقوام متحدہ نے نکشاف کیا ہے کہ دنیا میں دو دہائیوں میں پہلی بار چائلڈ لیبر میں اضافہ ہوا ہے اور کورونا بحران کی وجہ سے مزید کروڑوں بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کی بچوں کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم یونسیف کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2020 کے آغاز میں چائلڈ لیبر کی تعداد 16 کروڑ ہو چکی ہے جس میں گذشتہ چار سالوں میں آٹھ کروڑ 40 لاکھ بچوں کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس تعداد میں اضافے کا آغاز وبا سے پہلے ہو چکا تھا اور اس میں کمی کے رحجان میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی آئی ہے جس میں سنہ 2000 سے 2016 تک چائلڈ لیبر کی تعداد کم ہو کر نو کروڑ 40 لاکھ ہو گئی تھی۔ 
جیسے جیسے کورونا بحران میں اضافہ ہوتا گیا پوری دنیا میں 10 میں سے ایک بچہ چائلڈ لیبر میں پھنستا گیا، جس سے سب سے زیادہ افریقہ کا خطہ متاثر ہوا۔  دونوں ایجنسیوں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کی شرح سنہ 2016 جتنی ہی ہے لیکن آبادی میں اضافے کا مطلب ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور وبا کا خطرہ صورتحال کو بہت زیادہ خراب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تیزی سے بڑھتے غریب خاندانوں کی فوری امداد کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو اگلے دو سالوں میں تقریباً مزید پانچ کروڑ بچے چائلڈ لیبر کے لیے مجبور ہو جائیں گے۔ اس صورتحال کے حوالے یونیسف کی چیف ہنریٹا فور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم چائلڈ لیبر کو ختم کرنے کی لڑائی میں ہار رہے ہیں۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’کورونا بحران نے ایک خراب صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔‘ ’اب عالمی سطح پر لاک ڈاؤن، سکولوں کی بندش، معاشی رکاوٹوں اور سکڑتے ہوئے قومی بجٹ کے دوسرے سال میں خاندان دل توڑ دینے والا انتخاب پر مجبور ہیں۔‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر وبا کے باعث غربت کے حالیہ تخمینوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سنہ 2022 کے آخر تک مزید 90 لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جائیں گے۔ تاہم یونیسف کی شماریات کی ماہر کلاڈیا کیپا کے مطابق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعداد ممکنہ طور پر پانچ گنا سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کفایت شعاری کے اقدامات اور دوسرے عوامل کی وجہ سے معاشرتی تحفظ موجودہ سطح سے نیچے آ جاتا ہے تو آئندہ آنے والے سال کے آخر تک چائلڈ لیبر کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ 60 لاکھ تک بڑھ سکتی ہے۔‘ ہر چار سال بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر کی مجموعی عالمی تعداد میں آدھے بچوں کی عمریں پانچ سے 11 سال تک ہے۔ 
بشکریہ اردو نیوز
1 note · View note
emergingpakistan · 5 years
Text
برکتیں اٹھ گئیں ۔ رحمتیں روٹھ گئیں
’’ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے O جو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہےO اور خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہو گا O ہر گز نہیں وہ ضرور حُطَمہ میں ڈالا جائے گا O اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہےO وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے O جو دلوں پر جا لپٹے گی O اور وہ اس میں بند کر دیے جائیں گےO یعنی (آگ کے) لمبے لمبے ستونوں میں O‘‘ (سورۃ الھمزہ)
آج اتوار ہے۔ میں تو بار بار یاد دلاتا ہوں۔ معلوم نہیں آپ کو یا آپ کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کو فرصت بھی ہوتی ہے ایک دوسرے سے باتیں کرنے کی۔ آپ نے تو ایک لمبی چپ سادھ رکھی ہے۔ بتاتے ہی نہیں کہ آپس میں کیا باتیں ہوئیں۔ ایک دو گھنٹے کے لئے مل بیٹھے۔ اسمارٹ فون کو ایک طرف رکھ دیا۔ ٹی وی کو بھی آف رکھا۔ ناشتے پر ملے یا دوپہر کے کھانے پر۔ کبھی فرصت ملے تو ضرور مطلع کیجئے گا۔ میں اس وقت سخت تشویش میں مبتلا ہوں۔ رشتے بکھر رہے ہیں۔ روایات خاک بسر ہیں۔ اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ خود غرضی زوروں پر ہے۔ ہوسِ زر نے ہم سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ماں باپ جیسی مقدس ہستیوں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سفاک بیٹے مائوں کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کر رہے ہیں، چند روپوں کی خاطر، یا کسی کچے مکان کے لئے۔ 
غریب طبقوں میں بھی یہ بھیانک المیے دیکھنے اور سننے میں آرہے ہیں۔ امراء کی پُرشکوہ بستیوں میں بھی یہ ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے محلات میں بوڑھے ماں باپ اکیلے اپنے ملازمین کے رحم و کرم پر ہیں۔ بیٹے ڈالر کی تلاش میں امریکہ جا بسے ہیں یا آسٹریلیا میں پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ سگے بھائیوں سے بدسلوکی کی جا رہی ہے۔ بہنوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سب سے بڑا روپیہ ہے۔ بعض افراد بہت زیادہ دولت مند ہو گئے ہیں۔ مملکت قلاش ہو رہی ہے۔ ادارے اربوں روپے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ بہنوں بیٹیوں کے سروں سے چادریں اتر رہی ہیں۔ ہم سسٹم نہیں بنا سکے۔ انگریز جو سسٹم دے گئے تھے وہ ہم نے بتدریج مال کے لالچ میں ختم کر دیا ہے۔ سب نان سسٹم کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ ذاتی فائدہ اسی میں ہے۔ وہ روایتی خاندان جو روپے اور روایت کے درمیان توازن رکھتے تھے، جنہوں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افراد کو روزگار اور مملکت کو زرمبادلہ فراہم کیا اب خودرو جھاڑیوں کی طرح اگتے نئے ارب پتی خاندانوں کے پیچھے کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔ 
رشوت خور انکم ٹیکس، کسٹم افسروں کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی کمپنیاں صنعتی اُفق پر غالب آگئی ہیں۔ سرمایہ دار، زمیندار، جاگیردار پیچھے رہ گئے ہیں۔ ٹھیکیداروں نے صنعت و تجارت کی ساری گدیاں سنبھال لی ہیں۔ مذہبی ادارے، بیورو کریسی، ادب۔ ثقافت، ڈرامے۔ موسیقی، کھیل سب ٹھیکے پر دیے جا رہے ہیں۔ شارٹ کٹ عروج پر ہے۔ جگاڑ سکہ رائج الوقت ہے۔ پرانے رئوسا اپنے متعلقین، ملازمین کا خیال رکھتے تھے۔ انہیں انسان سمجھتے تھے۔ ان کی ضروریات پوری کرنا اپنی ذمہ داری خیال کرتے تھے۔ اب تو برسوں نمک خواری کرنے والے کو پلک جھپکتے میں ایک ایس ایم ایس سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اب تمہاری خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کی ایک فیملی ہے، بچے ہیں، ان کی ضروریات ہیں، یہ سہارا ٹوٹ جائے گا تو وہ کیسے سانس لے سکے گا۔
محنت کشوں اور غربا کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی ٹریڈ یونینیں ختم ہو گئی ہیں۔ کارکنوں کے مقدمات مفت لڑنے والے قانونی ماہرین منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔ قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے۔ ناجائز طریقوں سے اشرفیوں اور ہیرے جواہرات میں کھیلنے والے قانون سے بالاتر ہیں۔ پولیس آفیسر انہیں سلام کرنے ان کے ڈیروں پر، حویلیوں پر حاضری دیتے ہیں۔ نیب، آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف ایکشن تو لے رہا ہے مگر اس کی کارروائیاں اقدار اور روایات واپس نہیں لا سکتی ہیں اور نہ ہی یہ اس کے مقاصد میں شامل ہے۔ ہم نے آزاد ہونے کے بعد روایات، اقدار، اصولوں اور انصاف سے بھی آزادی حاصل کر لی ہے۔ ایسا ماحول تشکیل دے دیا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر کاروبار کرنے والوں کے کام میں برکت نہیں ہوتی۔ غیر قانونی طریقِ کار اختیار کرنے والوں کا کاروبار خوب پھلتا پھولتا ہے۔ غیر دستاویزی معیشت باقاعدہ قانونی معیشت سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ افراتفری، طوائف الملوکی اس لئے تو نہیں ہے کہ بے گناہوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ کمزوروں کو ہلاک کیا گیا۔ مائوں کی آنکھ کے تارے لاپتا کیے گئے۔ دہشت گردی سے مارے جانے والے بھائی بہنوں بزرگوں کے لواحقین کی خبر گیری نہیں کی گئی۔ پاکستان میں اس وقت اکثر ملکوں سے زیادہ بیوائیں، یتیم، معذور اور اپاہج موجود ہیں۔ مملکت ان کی دیکھ بھال نہیں کرتی۔ اٹھتے بیٹھتے ان کے دلوں سے بددُعائیں نکلتی ہیں۔ مجبوروں، بے کسوں کی سسکیاں، آہیں فلک پر جا رہی ہیں۔ ہمارے بازاروں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ کھیتوں کھلیانوں سے رحمتیں روٹھ گئی ہیں۔ آفریں ہے ان افراد پر، خاندانوں پر، اداروں پر، جو اب بھی دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں۔ رزق حلال کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ مملکت کے محصولات بھی ادا کرتے ہیں۔ اپنے متعلقین اور ملازمین کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ ان کی بدولت ہی ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
Text
news about India fight between Kashmir
سئلہ کشمیر پر جعلی حکمران عوام کو گمراہ کررہے ہیں، یہ کشمیریوں کا سودا کرچکے:پرویز ملک
لاہور(17اگست2019ء)پاکستان مسلم لیگ ن لاہورکے صدراورممبر قومی اسمبلی پرویز ملک نے کہا ہے کہ حکومت کے جھوٹ  پر مبنی عوامی فلاح و بہبود کے تمام نعرے پانی پر لکیر ثابت ہوئے،عوام کوسہولیات فراہمی کی بجائے روٹی اور روزگار چھین لیا گیا، تبدیلی یہ ہے کہ عوام الناس غربت کی سطح سے نیچے اور حکمران امارت کی مزید بلند سطح پرپہنچ گئے ہیں،تبدیلی سرکار کی وجہ سے صنعتی ترقی کاپہہ رکنے سے ہزاروں بےروزگار خاندانوں کے چولہے بند ہو چکے ہیں، تبدیلی پروگرام کے تحت چھت چھین کر ہزاروں غریب لوگ بے آسرا کئے گئے ہیں ، کشمیر کے معاملہ میں جعلی حکمران عوام کو گمراہ کررہے ہیں یہ کشمیریوں کا سودا کرچکے ہیں
https://azadkashmirurdunews.blogspot.com
2 notes · View notes
akksofficial · 3 years
Text
غریب گھرانوں کی خدمت کرنا حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے ،ثانیہ نشتر
غریب گھرانوں کی خدمت کرنا حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے ،ثانیہ نشتر
ٹانک(عکس آن لائن)وزیراعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے تخفیف،غربت اور سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت پسماندہ علاقوں میں غربت کے خاتمہ کیلئے عملی طور پر کام کر رہی ہے، غریب گھرانوں کی خدمت کرنا حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے حکومتی سطح پر غریب خاندانوں کی کفالت کیلئے شروع کئے گئے احساس کفالت کے تینوں پروگراموں میں مستحق غریب خاندانوں کو شامل کرنے کیلئے ملک بھر میں سروے شروع…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 2 years
Text
2014میں 410 روپے تھی ایک سلنڈر کی قیمت آج دو کے برابرہے ایک کا ریٹ: راہل گاندھی کا مرکز پر نشانہ
2014میں 410 روپے تھی ایک سلنڈر کی قیمت آج دو کے برابرہے ایک کا ریٹ: راہل گاندھی کا مرکز پر نشانہ
2014میں 410 روپے تھی ایک سلنڈر کی قیمت آج دو کے برابرہے ایک کا ریٹ: راہل گاندھی کا مرکز پر نشانہ . نئی دہلی، 7 مئی (آئی این ایس انڈیا) . کانگریس لیڈر راہل گاندھی انے اتوار کو گھریلو ایل پی جی سلنڈر کی قیمتوں میں اضافے کو لے کر حکومت کو نشانہ بنایا۔ راہل نے کہا کہ کانگریس واحد پارٹی ہے جو غریب اور متوسط طبقے کے خاندانوں کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ غور طلب ہے کہ ہفتہ کو ایل پی جی کی قیمت میں 50…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 months
Text
بڑھتی بے روزگاری اور بنو قابل پروگرام
Tumblr media
پاکستان میں غربت کی شرح بلند ہے، 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ بے روزگاری ایک اور اہم معاشی چیلنج ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتیں تلاش کرنے سے قاصر ہے۔ بدعنوانی پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کوچیلنجز پر قابو پانے کیلئے بدعنوانی سے نمٹنا ہو گا۔ پاکستان کے 25 کروڑ عوام نے دیکھ لیا ہے کہ کیسے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ مہنگائی بے روزگاری اور دیگر معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن ہمارے قومی ادارے نااہلی اور بے حسی کا شکار ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ حکومتی کارکردگی سے لوگوں میں دن بدن مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ پلڈاٹ کے مطابق پاکستان کی گزشتہ 15ویں قومی اسمبلی کے 5 سال کے دوران قومی اسمبلی کے ایک دن کا اوسطاً خرچہ 6 کروڑ 65 لاکھ اور اجلاس کے ایک گھنٹے کا اوسطاً خرچہ 2 کروڑ 42 لاکھ روپے رہا جبکہ ارکان کی حاضری 61 فیصد رہی۔ غریب قوم ایسے شاہانہ اخراجات کو برداشت نہیں کرسکتی۔
رواں سال ہمارے قومی اداروں کا کل خسارہ 500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن، پاکستان اسٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جنھیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ طرفہ تما شا یہ ہے کہ پی آئی اے میں 7 ہزارافسران تنخواہوں اور دیگر مراعات کے نام پر ادارے کوبے دردی سے لو ٹ رہے ہیں۔ اس مایوس کن منظرنامے میں جماعت اسلامی اور الخدمت فاونڈیشن ملک میں امید کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ یہ کام کراچی میں حافظ نعیم الرحمن نے الخدمت کیساتھ ملکر بڑی کامیابی سے کیا اور ہزاروں نوجوانوں کو آئی ٹی کی ٹریننگ دیکر انھیں باعزت روزگار فراہم کیا۔ اب الخدمت فاونڈیشن لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں بڑی تعداد میں نوجوان طلبا و طالبات کو مفت آئی ٹی کورسز کرواکے عظیم کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔ 
Tumblr media
اسی تنا ظر میں گزشتہ دنوں الخدمت فاؤنڈیشن نے’’ بنوقابل پاکستان‘‘ پروگرام کے تحت کراچی کے بعد لاہور میں بھی نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ بنوقابل پروگرام اپنی نوعیت کو منفرد پروگرام ہے جس میں کراچی اور لاہور میں اب تک لاکھوں بچے رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ کراچی میں 10 ہزار بچے کورسز مکمل کر چکے ہیں جبکہ 15 ہزار کی تربیت کا عمل جاری ہے۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی لاہور ضیاء الدین انصاری، ملک کے نامور آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، دانشور اور صحافی حضرات سمیت ہزاروں طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ اس موقع پر ضیاء الدین انصاری کا کہنا تھا کہ لاہور کے لاکھوں نوجوان اپنے بہتر مستقبل کیلئے نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ ہم لاہور کو آئی ٹی سٹی بنائیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ آئی ٹی کے میدان میں بھارت اور بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ حکمرانوں نے ہمیشہ نوجوانوں کے مسائ�� کو نظر انداز کیا ہے۔ جب تک نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع نہیں فراہم کئے جائینگے اس وقت تک پاکستان اس شعبہ میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 
الحمدللہ پاکستان کے نوجوان با صلاحیت ہیں اور الخدمت فاونڈیشن ان نوجوانوں کو یہ مواقع فراہم کر رہی ہے، 171 اضلاع میں اس تنظیم کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے پاکستان کی کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر وہی سب سے زیادہ اِس وقت پریشان ہے۔ اس تقریب میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، اذکر اللہ مجاہد، اکرام الحق سبحانی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ الخدمت فاونڈیشن کے پلیٹ فارم سے شہر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو آئی ٹی کی مہارت کی تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں گے۔ اس انتہائی اہم پروگرام بنو قابل پاکستان کے ذریعے نوجوان چھ ماہ میں آئی ٹی کورسز میں مہارت حاصل کر کے باعزت طریقے سے روزگار کمانا شروع کر سکیں گے۔ آئی ٹی کورسز کیلئے امیدواروں کو منتخب کرنے کیلئے قابلیت جانچنے کے ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو ای کامرس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، سائبر سیکورٹی، گرافک اینڈ موشن ڈیزائن اور دیگر مہارتوں پر مبنی کورسز کروائے جا رہے ہیں۔ 
کوشش ہے کہ شہر کے قابل نوجوانوں کو ایسا بنا دیا جائے کہ نہ صرف وہ اپنی فیملی کو غربت کے اندھے کنویں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں بلکہ وطنِ عزیز کے لئے زرمبادلہ کما کر قومی خدمت بھی سرانجام دیں۔ اس پروگرام میں نوجوان خواب لے کر آئے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کیلئےہر ممکن کام کیا جائے گا، بنو قابل لاہور سے یقیناً مایوسی کا شکار نوجوان نہ صرف اپنے خاندانوں کیلئے بلکہ ملک و قوم کیلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ اس موقع پر شریک ہزاروں نوجوانوں نےاس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بنو قابل پاکستان پروگرام کے ذریعے اپنے لیے باعزت وسائل کمانے کے قابل ہو سکیں گے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ہیلتھ کارڈ کا اجرا ءاحسن مگر؟
ہیلتھ کارڈ کا اجرا ءاحسن مگر؟
ضمیر آفاقی عوام کی آواز وزیر اعظم پاکستان نے ملک کے غریب ترین ایک کروڑ ایسے خاندانوں کو جو غریب ترین افراد کا مجموعہ ہیں کو صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے ہیلتھ کارڈ کا اجراءکیا ہے، بادی النظر میں دیکھا جائے تو اسے ایک اچھا اقدام قرار دیا جانا چاہیے مگر کیا کیا جائے پاکستان کی سر زمین پر عام آدمی خصوصاً غریب ترین افراد کا اس ملک کے وسائل پر کوئی حق نظر نہیں آتا انصاف کا حصول ،…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
paknewsasia · 2 years
Text
نواز شریف لوٹے ہوئے پیسے سے لندن میں غربت کم کر رہے ہیں، شہباز گل
نواز شریف لوٹے ہوئے پیسے سے لندن میں غربت کم کر رہے ہیں، شہباز گل
شہباز گل نے کہا ہے کہ نواز شریف لوٹے ہوئے پیسے سے لندن میں غربت کم کر رہے ہیں۔ معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں کہا ہے کہ زرداری اور نواز ، ان دونوں خاندانوں نے جتنا غریب کے لئے کام کیا کسی نے دنیا میں نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ زرداری خاندان نے پاپڑ کی ریڑھی والے کو ارب پتی کیا تو شریف خاندان نے ملک مقصود چپڑاسی جیسے 9 ہزار تنخواہ والے کو ارب پتی…
View On WordPress
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
جب لیڈرز ٹیکس نہ دیں
ایف بی آر نے سال 2019 کے ٹیکس گوشواروں پر مشتمل ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کر دی ہے، جس کے مطابق پارلیمنٹ میں موجود بعض بڑے اور نامور سیاستدانوں نے بہت معمولی رقم ٹیکس کی مد میں ادا کی ہے۔ کچھ تو ایسے بڑے نام تھے جو کروڑوں، اربوں کے مالک ہیں، اُن کے سوٹ ہی لاکھوں میں آتے ہوں گے، اُنہوں نے تو ایک پیسہ بھی ٹیکس جمع نہیں کروایا۔ ایسے اربوں پتی بھی ہیں جن کا روز کا خرچہ لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتا ہے، اُنہوں نے ٹیکس میں صرف اتنے روپے جمع کرائے کہ میرے جیسے عام صحافی سے بھی پیچھے رہ گئے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مہربانی کی اور 2 ہزار روپے ٹیکس دیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان جو میری اطلاع کے مطابق بہت پیسے والی شخصیت ہیں، اُنہوں نے 66 ہزار روپے ٹیکس دیا، آصف علی زرداری جن کے اربوں کا بھی حساب نہیں۔ اُنہوں نے صرف 22 لاکھ روپے ٹیکس دیا، اُن کے بیٹے اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے پاکستانی قوم پر مہربانی کرتے ہوے تقریباً پانچ لاکھ رویے ٹیکس دیا۔ 
بلاول کو شاید خود بھی اندازہ نہیں کہ اُن کے پاس کتنا پیسہ ہے، اُن کی جائیدادیں ملک اور بیرونِ ملک میں بھی ہیں لیکن اس سب کے باوجود اُنہوں نے جو ٹیکس دیا اُس س�� زیادہ روزانہ کا خرچہ قومی خزانے سے اُن پر ہوتا ہو گا۔ کاش سندھ حکومت یہ بتا دے کہ بلاول کے پروٹوکول اور سیکورٹی پر کتنا سالانہ خرچہ ہوتا ہے؟ کم از کم بلاول صاحب ٹیکس کی مد میں اُتنا پیسہ تو دے دیں جو غریب عوام کے پیسہ سے اُن پر خرچ ہوتا ہے یا پھر وہ یہ اعلان ہی کر دیں کہ اُن کے پروٹوکول اور سیکورٹی پر جو خرچ آئے گا۔ وہ خود حکومت کو ادا کریں گے۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف بھی ارب پتی ہیں لیکن اُنہوں نے بھی ٹیکس کی مد میں جو پیسہ دیا (تقریباً 82 لاکھ روپے) وہ اُن کی مالی حیثیت سے بہت کم ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی پیسے والے آدمی ہیں لیکن ٹیکس صرف آٹھ لاکھ روپے دیا۔ فواد چوہدری نے دو لاکھ روپے سے بھی کم ٹیکس دیا۔ وزیراعظم عمران خان جو چند برس قبل تک صرف ایک دو لاکھ روپے ٹیکس دیا کرتے تھے، اُنہوں نے سال 2019 میں تقریباً 98 لاکھ روپے ٹیکس دیا، جو بہت اچھی بات ہے۔ 
وزیراعظم کے ٹیکس سے اگرچہ یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہے کہ خان صاحب نے وزیراعظم بننے کے بعد ایسا کون سا بزنس کیا ہے جس سے اُنہیں اتنا بڑا منافع ہوا کہ اپنے ماضی کے برعکس بہت زیادہ ٹیکس دیا۔ خان صاحب تین سو کنال کے گھر میں ضرور رہتے ہیں لیکن اُن کا مالی طور پر شریف خاندان اور زرداری خاندان سے کوئی موازنہ نہیں، جس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری ٹیکس دینے میں عمران خان سے کیوں پیچھے ہیں؟ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اِس سال کوئی 42 یا 45 لاکھ رویے ٹیکس دیا جو گزشتہ سال سے بہت کم ہے، کیوں کہ ایک سال قبل اُنہوں نے کوئی 22 کروڑ روپے ٹیکس دیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے متعلق بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اُن کا کیا بزنس تھا کہ 22 کروڑ ٹیکس دیا لیکن ایک سال بعد اُن کا ٹیکس بہت ہی کم ہو گیا؟ 
خسرو بختیار سمیت ایسے وفاقی وزیر بھی ہیں جو ارب پتی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ٹیکس اتنا کم جمع کراتے ہیں کہ کوئی یقین نہیں کر سکتا۔ جب عمومی طور پر حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ رجحان نظر آتا ہے کہ وہ ٹیکس کم بلکہ بہت ہی کم دیتے ہیں، وہیں کچھ ایسے ممبرانِ اسمبلی بھی ہیں جنہوں نے اچھا خاصا ٹیکس دیا۔ سب سے زیادہ ٹیکس پی ٹی آئی کے ایم این اے نجیب ہارون نے 14 کروڑ 7 لاکھ 49 ہزار 768 روپے جمع کرایا، اُن کی آمدن ایک ارب 87 کروڑ 66 لاکھ 3 ہزار 573 روپے تھی، طلحہ محمود نے 3 کروڑ 22 لاکھ 80 ہزار 549 روپے، شیخ فیاض الدین نے 2 کروڑ 81 لاکھ 70 ہزار 518 روپے، شیخ علائوالدین نے 2 کروڑ 8 لاکھ 73 ہزار 316 روپے، ممتاز علی نے دو کروڑ 96 لاکھ 78 ہزار697 روپے ٹیکس دیا۔ پارلیمنٹ کے ممبران کی ٹیکس ڈائریکٹری کو دیکھ کر اس امر کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ ایف بی آر کو ہر حال میں حکمرانوں اور ممبرانِ اسمبلی کے ٹیکس ریٹرنز کا آڈٹ کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ٹیکس چوری کا رجحان ختم ہو۔
جب حکمران، سیاسی لیڈر اور پارلیمنٹیرین ٹیکس کم دیں گے تو پھر عوام سوچیں گے کہ وہ کیوں ٹیکس دیں اور یہی پاکستان کا المیہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں ٹیکس دینے والوں کی شرح سب سے کم ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اس موقع پر زور دیا کہ ممبرانِ اسمبلی پورا ٹیکس دیں۔ حکومت اور وزیر خزانہ کو بیان بازی تک محدود رہنے کی بجائے عملی اقدامات اُٹھانے چاہئیں اور ٹیکس لینے کا سلسلہ حکمرانوں اور پالیمنٹیرینز سے شروع کرنا چاہیے تاکہ ایک مثبت پیغام عوام تک جائے اور ہماری تاجر برادی اور دولت مند طبقہ میں بھی ٹیکس دینے کا رجحان پیدا ہو۔ ہماری سیاسی قیادت اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ پاکستان میں اگر سب ٹیکس نہیں دیں گے تو ہمارا ادھار لے لے کر گزارا کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ حکومت پاکستان اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر روز تقریبا چودہ ارب روپے کا قرض لے رہی ہے۔ ایسے ملک نہیں چل سکتا۔
انصار عباسی 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
ضروری ادویات کی قیمتیں پہنچ سے باہر | ایکسپریس ٹریبیون
ضروری ادویات کی قیمتیں پہنچ سے باہر | ایکسپریس ٹریبیون
اسلام آباد: پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ نہ صرف معاشرے کے غریب طبقے کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ متوسط ​​آمدنی والے خاندانوں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ کم درمیانی آمدنی والی غربت کی شرح ($3.2 یومیہ) کا استعمال کرتے ہوئے، ورلڈ بینک کی ایک تحقیق نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کی غربت کی شرح 39.3 فیصد رہی، یعنی تقریباً 90 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ جب ورلڈ بینک…
View On WordPress
0 notes