Tumgik
#مصطفی زیدی
urdu-poetry-lover · 6 months
Text
وہ کوئی رقص کا انداز ہو، یا گیت کا بول
میرے دل میں تری آواز اُبھر آتی ہے
تیرے ہی بال بکھر جاتے ہیں دیواروں پر
تیری ہی شکل کتابوں میں نظر آتی ہے!
مصطفی زیدی
12 notes · View notes
shazi-1 · 2 years
Text
( آخری بار ملو )
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں
چاکِ وعدہ نہ سلے زخمِ تمنا نہ کِھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدیدِ وفا کا نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہو گا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دمِ رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
(مصطفی زیدی)
22 notes · View notes
my-urdu-soul · 6 years
Quote
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے - Inhi patharoon pay chal kar agar aa sako tou aao mere ghar k raaste mai koi kehkshaan nahi hai -
مصطفی زیدی
25 notes · View notes
struggling-gent · 4 years
Text
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے, زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے, شمع کی لو تک نہ ہلے
مصطفی زیدی
Meet me for the last time, so that the burning hearts could turn into ashes and be silent.
The broken promise should not heal, nor the wound of desire,
The breath should remain undisturbed, so also the candle flame.
6 notes · View notes
lahore2toronto · 5 years
Text
آخری بار ملو
آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہو جائیں کوئی اور تقاضہ نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آ کر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوحہ کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ملو
ماتمی ہیں دم رخصت در و دیوار ملو
پھر نہ ہم ہوں گے نہ اقرار نہ انکار ملو
آخری بار ملو
مصطفی زیدی
35 notes · View notes
risingpakistan · 5 years
Text
پی ٹی وی کے 55 سال : پاکستان کے شاندار اداروں میں سرفہرست
پی ٹی وی ایک ریاستی ادارہ ہے جو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت وجود میں آیا۔ پی ٹی وی کی کہانی چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ پی ٹی وی نے 30 سال سے زائد عرصے تک ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا ء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ دور اور باقی عرصہ نام نہاد جمہوری دور کے تابع گزرا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ، پاکستان کے ان شاندار اداروں میں سرفہرست ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد جنم لیا۔ یعنی یہ وہ ادارہ ہے جو نوآبادیاتی میراث نہیں رکھتا ، اس کو نئی قوم نے اپنے شاندار آغاز کے بعد جنم دیا…لیکن آمرانہ اور حاکمانہ مفادات کے ذریعے اس کے چہرے کومسخ کر دیا گیا۔
پی ٹی وی ایک ایسا قومی ادارہ ہے جسے پاکستان میں ٹیلی ویژن کی ’’ماں‘‘کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں جتنے بھی نجی ٹی وی چینلز چل رہے ہیں، ان کے لیے ابتدائی افرادی قوت، تیکنیکی صلاحیت اور پیشہ وارانہ رہنمائی پاکستان ٹیلی ویژن کے پروفیشنلز نے ہی فراہم کی ہے اور اس وقت بھی اکثر نجی چینلز کا انتظام و انصرام چلانے میں بھی پی ٹی وی کے پرانے اور تجربہ کار لوگ معاونت کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ جو 1964 میں ریڈیو پاکستان کے ایک گوشے (کینٹین کو پہلا ٹی وی اسٹوڈیو بنایا گیا) سے شروع ہوا، اب یہ ادارہ پھیل کر ایک سلطنت بن چکا ہے۔ کھرب ہا روپے کے عمارتی اثاثے، ارب ہا روپے کے تیکنیکی آثاثے اورکثیر تعداد میں پیشہ وارانہ مہارت کی حامل افرادی قوت نے اس ادارے کو ملک بھر میں ایک منفرد حیثیت کا حامل بنا دیا۔
پی ٹی وی کے پہلے ایم ڈی موسیٰ احمد کا تعلق پولیس سروس سے تھا۔ پی ٹی وی کے اندر سے صرف پانچ ڈائریکٹرز کو ایم ڈی بنایا گیا، ان میں اسلم اظہر، آغا ناصر، اختر وقار عظیم ، اشرف عظیم اور مصطفی کمال قاضی شامل ہیں۔ تیرہ ایم ڈی بیوروکریسی سے لیے گئے ،ان میں موسیٰ احمد ، روائیداد خان، سید منیر حسین، مسعود بنی نور، اجلال حیدر زیدی، ضیاء نثار احمد، انور زاہد، حمید قریشی، احمد حسن شیخ، شاہد رفیع، احسان الحق خلجی اعجاز رحیم اور احمد نواز سکھیرا ہیں۔ جب کچھ ایم ڈیز کا تعلق نہ تو بیورکریسی اور نہ ہی پی ٹی وی سے تھا۔ ان میں ہارون بخاری، فرہاد زیدی، ڈاکٹر شاہد مسعود، ارشد خان، یوسف بیگ مرزا اور عطا الحق قاسمی شامل ہیں۔
پی ٹی وی کی پہلی دہائی ہنی مون کا گولڈن پیریڈ تھا۔ دوسری دہائی میں پروفیشنل ازم اور ٹیکنالوجی متعارف ہوئی، تیسری دہائی میں گلیمر اور اشتہارات کی رہی۔ چوتھی دہائی میں اس کی مناپلی ختم ہوئی اور مسابقت کا دور آیا جو اب بھی ہے۔آج کے دور میں بھی پی ٹی وی پاکستان کا سب سے بڑا نشریاتی نیٹ ورک ہے۔ اس کے پاس سب سے بہتر تیکنیکی سہولتیں ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ کار، تربیت یافتہ پروفیشنلز کا گروپ موجود ہے۔ یہ ادارہ اب بھی ایک متحرک نیٹ ورک ہونے کی وجہ سے ملک کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی رویوں پر اثر انداز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سب کام تب ہی ہو سکتے ہیں جب حکومتی سطح پر پی ٹی وی کی اس صلاحیت کا ادراک ہو اور اسے ایک حکومتی کی بجائے قومی ادارے کے طور پر چلانا چاہیں ۔
پی ٹی وی ہی وہ ادارہ ہے جو میری پہچان بنا ،جس نے مجھے قومی افق پر متعارف کرایا، صحافی بننے کا ڈھب سکھایا، حکمرانوں کی قربت اور ان کے رویوں کو سمجھنے کا شعور دیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے میری وابستگی تین دہائیوں سے بھی زیادہ رہی ہے۔ میں نے پی ٹی وی کا وہ دور بھی دیکھا جب پی ٹی وی کا سگنل قومی نشریاتی رابطے پر نہ تھا ۔ لاہور ، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور راولپنڈی/اسلام آباد کی نشریات صرف ان ہی علاقوں تک محدود تھیں۔ ماضی میں پی ٹی وی کی شہرت اور اہمیت ہوتی تھی ، اب ویسی نہیں رہی۔ نجی چینلز آنے کے باعث صورتحال خاصی تبدیل ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی وی اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے لیکن محنت کی جائے تو اس پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ پی ٹی وی کی صورت حال تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریٹائرڈ افراد کو پنشن کے حصول میں بھی دقت کا سامنا ہے۔ پی ٹی وی اسپورٹس کو “کماو پوت” کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پی ٹی وی کو ٹی وی لائسنس فیس کی مد سے سالانہ ارب ہا روپے حاصل ہوتے ہیں جب کہ کمرشل اشتہارات سے بھی اچھی خاصی سالانہ آمدنی ہوتی ہے اس کے باوجود پی ٹی وی کا خسارے میں جانا نہ صرف قابل توجہ ہی نہیں بلکہ قابل تحقیق بھی ہے۔پی ٹی وی جیسے ادارے میں ابتداء سے قائم ٹیلی ویژن ٹریننگ اکیڈیمی کو بھی غیر موثر کر دیا گیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ٹیلی ویژن اکیڈیمی نہیں مجبوراً ہر چینل محدود وسائل اور حالات کی بناء پر جزو وقتی تربیت کا اہتمام کرتا ہے اسی بناء پر اکثر ٹی وی چینلز میں معیاری پروگرامنگ اور صحافتی اخلاقیات کے عمل میں کمی کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس امر کا بھی نوٹس لے کہ ٹیلی ویژن اکیڈیمی جیسے اہم شعبے کو غیر متحرک کیوں کیا گیا ۔
سرور منیر راؤ
بشکریہ ایکسپریس نیوز
2 notes · View notes
moizkhan1967 · 5 years
Text
مصطفی زیدی - گریباں
بزم میں باعثِ تاخیر ہوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عِناں گیر ہوا کرتے تھے
🌻
ہائے اب بھول گیا رنگِ حنا بھی تیرا
خط کبھی خون سے تحریر ہوا کرتے تھے
🌻
کوئی تو بھید ہے اس طور کی خاموشی میں
ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہوا کرتے تھے
🌻
ہجر کا لطف بھی باقی نہیں، اے موسِمِ عقل
اُن دنوں نالہِ شب گیر ہوا کرتے تھے
🌻
اُن دنوں دشت نوردی میں مزا آتا تھا
پاؤں میں حلقہٍ زنجیر ہوا کرتے تھے
🌻
خواب میں تجھ سے ملاقات رہا کرتی تھی
خواب شرمندہ ِتعبیر ہوا کرتے تھے
🌻
تیرے الطاف و عنایت کی نہ تھی حد ورنہ
ہم تو تقصیر ہی تقصیر ہوا کرتے تھے
🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻🌻
1 note · View note
notdoni · 3 years
Text
نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
نت دونی , نت تار , نت متوسط تار , نت تار عبدالحسین برازنده , notdoni , نت های تار عبدالحسین برازنده , نت های تار , تار , عبدالحسین برازنده , نت عبدالحسین برازنده , نت های عبدالحسین برازنده , نت های داود شیرزادخانی , نت های متوسط تار , نت تار متوسط
پیش نمایش نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
Tumblr media
نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
دانلود نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
خرید نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
جهت خرید نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار روی لینک زیر کلیک کنید
نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
نت آهنگ آتش دل تاج اصفهانی برای تار
نت تصنیف آتش دل،این تصنیف برای اولین بار با صدای زنده یاد جلال الدین تاج اصفهانی اجرا شد و سپس در برنامه گلهای رنگارنگ بانو پروین با کمی تغییر در شعر آن را اجرا کرد. 
علی اصغر شاه زیدی،علیرضا افتخاری،مصطفی محبی زاده و سیما بینا  نیز این آهنگ را اجرا کرده اند.
همچنین ایرج خواجه امیری در یک برنامه رادیویی همین تصنیف را ولی با شعری متفاوت(بلبل از فراق)به یاد تاج اصفهانی اجرا کرد.
کلمات کلیدی : نت دونی , نت تار , نت متوسط تار , نت تار عبدالحسین برازنده , notdoni , نت های تار عبدالحسین برازنده , نت های تار , تار , عبدالحسین برازنده , نت عبدالحسین برازنده , نت های عبدالحسین برازنده , نت های داود شیرزادخانی , نت های متوسط تار , نت تار متوسط
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
حکمران جماعت پی ٹی آئی 60 نشستوں کیساتھ سرفہرست  
حکمران جماعت پی ٹی آئی 60 نشستوں کیساتھ سرفہرست  
لاہور: کنٹونمنٹ بلدیاتی الیکشن کے تمام 212 وارڈز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آ گئے ہیں۔ حکمران جماعت تحریک اںصاف 60 نشستوں کیسارتھ سرفہرست ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے 59 جبکہ 55 آزاد امیدواروں نے میدان مارا۔
میڈیا ��پورٹس کے مطابق پیپلز پارٹی نے 17، متحدہ قومی موومنٹ 10، جماعت اسلامی نے 7، بلوچستان عوامی پارٹی نے 2 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تاہم جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کو کوئی سیٹ نہ مل سکی۔
لاہور کے 19 کنٹونمنٹ بورڈز میں سے 15 وارڈز پر مسلم لیگ (ن) کامیاب قرار پائی، راولپنڈی میں بھی ن لیگ نے میدان مارا۔ ملتان میں 10 میں سے 9 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب رہے لیکن تحریک انصاف کو کوئی سیٹ نہ مل سکی۔
گوجرانوالہ میں تحریک اںصاف 10 میں سے 6 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی، حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ جیتی، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے 18 نشستیں حاصل کیں جبکہ 7 سیٹوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔
لاہور کینٹ بورڈ اور والٹن کینٹ بورڈ کے 19 وارڈز میں 249 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق لاہور کینٹ بورڈ کے 10 میں سے 6 وارڈز پر (ن) لیگ جیتی۔ پی ٹی آئی صرف 3 وارڈز میں کامیابی حاصل کر سکی جبکہ ایک وارڈ میں آزاد امیدوار کو فتح ملی۔
لاہورکینٹ بورڈوارڈ نمبر ون میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار علی حسن 1312 ووٹ لے کر کامیاب، پی ٹی آئی کے صابر بٹ 189 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر آئے۔
وارڈ نمبر ٹو میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رضوان شفقت 5034 ووٹ حاصل کرکے فاتح رہے، پی ٹی آئی کے محمد عظیم 2842 ووٹ حاصل کر سکے۔
وارڈ نمبر تھری میں پی ٹی آئی کے امیدوار رشید احمد 2629 حاصل کرکے کامیاب قرار پائے۔ (ن) لیگ کے امیدوار راجا لیاقت علی نے 1751 ووٹ حاصل کئے اور ان کا دوسرا نمبر رہا۔
وارڈ نمبر فور میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار آصف علی 1594 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے شہزاد حسین 1379 ووٹ حاصل کر سکے۔
وارڈ نمبر فائیو میں آزاد امیدوار اکبر علی نے 559 ووٹ حاصل کرکے کامیابی سمیٹی، پی ٹی آئی کے امیدوار عرفان اکبر 385 ووٹ حاصل کرسکے۔
وارڈ نمبر 6 میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار چودھری محمد عمر 2150 ووٹ حاصل کرکے کامیاب رہے جبکہ (ن) لیگ کے امیدوار شہباز علی کے حصے میں 1380 ووٹ آئے۔
وارڈ نمبر 7 میں (ن) لیگ کے امیدوار بابر اشرف 2632 ووٹ لے کر فاتح رہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار محمد امتیاز 2226 ووٹ حاصل کرسکے۔
وارڈ نمبر آٹھ میں (ن) لیگ کے امیدوار نعیم شہزاد 3930 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ تحریک انصاف کے شاہ جہان کو 1472 ووٹ ڈالے گئے۔
وارڈ نمبر نائن میں تحریک انصاف کے محمد وقاص 3508 حاصل کرکے کامیاب قرار پائے جبکہ (ن) لیگ کے امیدوار اسد ایوب 3342 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔
وارڈ نمبر 10 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار محمد جعفر 2703 ووٹ حاصل کرکے فاتح رہے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار حافظ ابرار 2628 ووٹ حاصل کر سکے۔
لاہور والٹن کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ نمبر ون میں (ن) لیگ کے امیدوار اشفاق چودھری 4096 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار وحید ستار کو 2789 ووٹ ملے۔
وارڈ نمبر 2 میں (ن) لیگ کے امیدوار محمد حنیف 4331 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہو گئے جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد طارق صدیقی 3954 ووٹ لے کر دوسرے اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد صیام 3696 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔
وارڈ نمبر 3 میں (ن) لیگ کے چودھری شریف 5470 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل سعود بھٹی 4753 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
وارڈ نمبر 4 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار فقیر حسین 1877 ووٹ لے کر فاتح رہے۔ پی ٹی آئی کے امیدوار محمد اسلم 1850 ووٹ حاصل کر سکے۔
وارڈ نمبر 5 میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ نور سبحانی 1850 ووٹ حاصل کرکے کامیاب رہے۔ تحریک انصاف کے امیدوار جاوید ضمیر احمد کو 1838 ووٹ ملے۔
وارڈ نمبر 6 میں (ن) لیگ کے امیدوار نعمان نعیم 4376 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے جبکہ پی ٹی آئی امیدوار بشارت علی صرف 2604 ووٹ حاصل کر سکے۔
لاہور والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ نمبر 7 میں امیدوار کے انتقال کے باعث پولنگ ملتوی کر دی گئی تھی۔
وارڈ نمبر 8 میں (ن) لیگ کے امیدوار محمد عشارب سوہل 4249 ووٹ لے کر فاتح رہے، آزاد امیدوار عثمان علی 2175 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
وارڈ نمبر نائن میں (ن) لیگ کے امیدوار کرامت علی 5058 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار عظمت اللہ وڑائچ 2157 ووٹ حاصل کر سکے۔
وارڈ نمبر 10 میں (ن) لیگ کے امیدوار منیر حسین 5973 ووٹ حاصل کرکے کامیاب رہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار حافظ محمد سفیان 2490 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر آئے۔
غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کی 9 میں سے 7 نشستوں پر (ن) لیگ نے میدان مارا، دو سیٹوں پر آزاد امیدوار فاتح قرار پائے۔
چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ کی 10 میں سے پانچ وارڈوں پر (ن) لیگ، دو پر جماعت اسلامی، دو پر پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی جبکہ وارڈ نمبر ون میں آزاد امیدوار نے میدان مارا۔
واہ کنٹونمنٹ بورڈ کی 10 میں سے آٹھ سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) اور دو پر پی ٹی آئی کامیاب قرار پائی۔
ٹیکسلا کنٹونمنٹ بورڈ کی پانچ میں سے تین نشستوں پر پی ٹی آئی اور دو پر (ن) لیگ نے فتح حاصل کی۔
مری کنٹونمنٹ بورڈ کی دو وارڈوں میں سے ایک نشست پر (ن) لیگ اور ایک پر پی ٹی آئئی کامیاب قرار پائی۔
راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کی وارڈ نمبر ون میں آزاد امیدوار ملک محمد عثمان خان کامیاب رہے۔ وارڈ نمبر ٹو میں آزاد امیدوار ثمینہ کوثر کے انتقال کے باعث الیکشن ملتوی کر دیا گیا۔
وارڈ نمبر تھری میں (ن) لیگ کے امیدوار ارشد محمود قریشی، وارڈ نمبر فور میں (ن) لیگ کے امیدوار رشید احمد خان، وارڈ نمبر فائیو میں آزاد امیدوار حاجی ظفراقبال کامیاب رہے۔
وارڈ نمبر 6 میں (ن) لیگ کے امیدوار ملک منصور افسر، وارڈ نمبر سیون میں (ن) لیگ کے امیدوار ملک امجد حسین، وارڈ نمبر آٹھ میں (ن) لیگ کے امیدوار حافظ حسین احمد ملک، وارڈ نمبر نائن میں (ن) لیگ ن کے امیدوار چودھری عبدالشکور، وارڈ نمبر ٹین میں (ن) لیگ کے ملک محمد منیر احمد فاتح قرار پائے۔
چکلالہ کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ ون میں (ن) لیگ کے امیدوار راجا پرویز اختر، وارڈ نمبر ٹو میں جماعت اسلامی کے امیدوار یاسر خان، وارڈ تھری میں بھی جماعت اسلامی کے امیدوار خالد محمود مرزا، وارڈ نمبر فور میں (ن) لیگ کے امیدوار چودھری چنگیز خان، وارڈ نمبر فائیو میں آزاد امیدوار چودھری شہزاد، وارڈ نمبر سکس میں (ن) لیگ کے امیدوار ملک اظہر نعیم، وارڈ نمبر سیون میں (ن) لیگ کے امیدوار راجا عرفان امتیاز، وارڈ نمبر آٹھ میں پی ٹی آئی کے امیدوار چودھری نعمان شوکت، وارڈ نمبر نائن میں (ن) لیگ کے امیدوار محمد جمیل، وارڈ نمبر 10 میں پی ٹی آئی کے امیدوار اجمیر خان کامیاب قرار پائے۔
مری کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ نمبر ون سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد خلیل، وارڈ نمبر ٹو میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجا اکمل نواز، ٹیکسلا کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ ون سے (ن) لیگ کے امیدوار حاجی عابد، وارڈ نمبر ٹو سے غلام دستگیر بٹ، وارڈ نمبر تھری سے پی ٹی آئی کے امیدوار ساجد کیانی، وارڈ نمبر فور سے (ن) لیگ کے امیدوار سیف علی شاہ، وارڈ نمبر فائیو سے پی ٹی آئی کے امیدوار سعد علی خان، واہ کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ ون سے (ن) لیگ کے امیدوار ملک امیر سلطان، وارڈ نمبر ٹو سے (ن) لیگ کے راجا ایوب مسلم، وارڈ نمبر تھری سے (ن) لیگ کے ملک راشد محمود، وارڈ فور سے (ن) لیگ لیگ کے ملک عارف، وارڈ نمبر فائیو سے (ن) لیگ کے امیدوار راجہ عامر سعید، وارڈ نمبر سکس سے پی ٹی آئی کے امیدوار سجاد صفدر بٹ، وارڈ نمبر سیون سے (ن) لیگ کے امیدوار عبدالرحمان، وارڈ نمبر آٹھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار ملک فہد مسعود، وارڈ نمبر نائن سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار فرخ سلیم اور وارڈ نمبر 10 سے (ن) لیگ ن کے امیدوار چودھری احسن کو فتح نصیب ہوئی۔
کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد کی 10 وارڈز میں پی ٹی آئی 4 سیٹوں کیساتھ سرفہرست رہی، (ن) لیگ 3، پیپلز پارٹی ایک اور 2 آزاد امیدواروں نے فتح حاصل کی۔
وارڈ نمبر ون سے پی ٹی آئی کے امیدوار ناصر سلیمان عباسی، وارڈ نمبر ٹو سے آزاد امیدوار واجد خان جدون، وارڈ نمبر تھری سے (ن) لیگ کے امیدوار ذوالفقار علی بھٹو، وارڈ نمبر فور چار سے بھی (ن) لیگ کے امیدوار بیدار بخت خان ، وارڈ نمبر فائیو سے پیپلز پارٹی کے امیدوار فواد علی جدون، وارڈ نمبر سکس سے پی ٹی آئی کے امیدوار قاضی احتشام الحق، وارڈ نمبر سیون سے آزاد امیدوار دلاور خان، وارڈ نمبر 8 سے پی ٹی آئی کے امیدوار دانیال خان جدون، وارڈ نمبر نائن سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد ہارون اور وارڈ 10 سے (ن) لیگ کے امیدوار نبیل اشرف نے کامیابی حاصل کی۔
ملتان میں حکمران جماعت پاکستان تحریک اںصاف کا کوئی بھی امیدوار کامیابی نہ حاصل کر سکا، مسلم لیگ (ن) کے ایک امیدوار کو کامیابی حاصل ہو سکی۔ ملتان کینٹ کی 10 وارڈز میں سے نو پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے، یہاں 38 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا، تاہم ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا۔
بہاولپور کی پانچ سیٹوں میں سے تین مسلم لیگ (ن) اور 2 تحریک انصاف کے حصے میں آئیں۔
گوجرانوالہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے میدان مارا اور 10 میں سے چھ نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دو اور 2 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ 
سرگودھا کی 10 میں سے تین سیٹوں پر پاکستان تحریک انصاف، دو پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جبکہ پانچ نشستیں آزاد امیدوار لے گئے۔
کنٹونمنٹ بورڈ اوکاڑہ کے پانچ وارڈز میں سے چار میں آزاد امیدوار جیتے جبکہ ایک میں تحریک انصاف کے امیدوار نے فتح حاصل کی۔
کنٹونمنٹ بورڈ کھاریاں میں تحریک انصاف نے دونوں نشستیں حاصل کیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ واہ کینٹ میں مسلم لیگ (ن) 8 وارڈز میں کامیاب رہی۔
شورکوٹ چھاؤنی میں وارڈ نمبر ون میں آزاد امیدوار منیر احمد سندھیلہ نے کامیابی حاصل کی جبکہ وارڈ نمبر ٹو میں بھی آزاد امیدوار زاہد مصطفی جیت گئے۔
سیالکوٹ کی 5 نشستوں میں سے 3 پر مسلم لیگ(ن) نے کامیابی حاصل کی جبکہ 2 پر تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے۔
حویلیاں کی دو سیٹوں میں سے ایک تحریک انصاف اور اور دوسری مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی۔
کوہاٹ میں آزاد امیدواروں نے تین میں سے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کا صرف ایک امیدوار جیت سکا۔
کراچی کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ نمبر ون سے پیپلز پارٹی کے امیدوا�� محمد دانش، وارڈ نمبر ٹو سے آزاد امیدوار چودھری ناصر، وارڈ نمبر تھری سے آزاد امیدوار محمد ایوب خان، وارڈ نمبر فور سے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار منیر یاسین، وارڈ نمبر فائیو سے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار منور علی قریشی کامیاب قرار پائے۔
کورنگی کنٹونمنٹ بورڈ میں (ن) لیگ پانچ میں سے دو نشستیں حاصل کر کے کامیاب رہی پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کو ایک، ایک نشست ملی۔
منوڑا کنٹونمنٹ بورڈ وارڈ نمبر ون سے پی پی پی کے امیدوار محمد طیب، وارڈ نمبر ٹو سے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد فاضل خان کامیاب ہوئے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کی 10 میں سے چار سیٹوں پر پی ٹی آئی، تین پر پیپلز پارٹی، دو پر جماعت اسلامی اور ایک پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔
کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ سے چار پیپلز پارٹی، دو پی ٹی آئی، دو جماعت اسلامی اور دو نشستیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی ہیں۔
کراچی کنٹونمنٹ بورڈ فیصل کے وارڈ نمبر دو سے پیپلز پارٹی کے امیدوار جاوید خان، وارڈ نمبر ٹو سے جماعت اسلامی کے امیدوار سید ابن الحسن ہاشمی، وارڈ نمبر تھری سے آزاد امیدوار محمد رفیع چاولہ، وارڈ نمبر فور سے (ن) لیگ کے امیدوار علی عاشق، وارڈ نمبر فائیو سے پی ٹی آئی کے امیدوار سید کاشف زیدی، وارڈ نمبر چھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار حبیب الرحمان، وارڈ نمبر سیون سے پی ٹی آئی کے امیدوار ذیشان بشیر فاروقی، وارڈ نمبر آٹھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار سید محمد طارق اشرفی، وارڈ نمبر نائن سے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بلال احمد، وارڈ نمبر 10 سے پی ٹی آئی کے امیدوار شکیل احمد جیت گئے۔
حیدر آباد کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے 10 میں سے سات وارڈز میں کامیابی حاصل کی، پیپلز پارٹی کو صرف تین وارڈز میں کامیابی مل سکی۔
پشاور میں پیپلز پارٹی نے 2 نشستوں کے ساتھ برتری حاصل کی، وارڈ نمبر ون سے آزاد امیدوار نعمان فاروق، وارڈ ٹو سے پیپلز پارٹی کے نعیم بخش، وارڈ نمبر تھری سے اے این پی کے امیدوار فیضان ناظم، وارڈ نمبر چار سے پیپلز پارٹی کے امیدوار یداللہ بنگش، وارڈ نمبر فائیو سے تحریک انصاف کے امیدوارا سید سیٹھی کامیاب ہوئے۔
بنوں میں ایک سیٹ تحریک انصاف اور دوسری آزاد امیدوار کے حصے میں آئی۔
مردان وارڈ نمبر ٹو کے غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار وحید خان 126 ووٹ لے کر کامیاب رہے۔
کوئٹہ میں وارڈ نمبر ون سے آزاد امیدوار سیف اﷲ، وارڈ نمبر ٹو سے پی ٹی آئی کے امیدوار بشیر جان، وارڈ نمبر تھری سے پی ٹی آئی کے امیدوار منظور نظری، وارڈ نمبر فور سے آزاد امیدوار اختر قریشی، وارڈ نمبر فائیو سے آزاد امیدوار تنویر خان یوسف زئی کامیاب رہے۔
ژوب وارڈ نمبر 1 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار اختر گل جبکہ وارڈ نمبر 2 سے جمعہ خان کامیاب ہوئے۔
لورالائی سے آزاد امیدوار عبدالواحد جلال زئی کامیاب ہوئے جبکہ لورالائی وارڈ نمبر 2 سے نعیم عرف فیصل بلا مقابلہ کامیاب ہوئے۔
بنوں کینٹ آزاد امیدوار 1، پی ٹی آئی 1، پنوعاقل کینٹ آزاد امیدوار 1، جہلم کینٹ سے پی ٹی آئی 2 ، چراٹ کینٹ سے 2 آزاد، چکلالہ کینٹ سے مسلم لیگ (ن) 3، حویلیاں کینٹ سے مسلم لیگ (ن) 1، پی ٹی آئی 1، رسالپور کینٹ سے پی ٹی آئی 3، ژوب کینٹ سے بلوچستان عوامی پارٹی2 ، سنجوال کینٹ سے آزاد امیدوار 2، گلیات کالا باغ سے مسلم لیگ (ن) 1 ، پی ٹی آئی1 ، لورالائی کینٹ سے 2 آزاد امیدوار، مردان کینٹ سے اے این پی 1 اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔
منگلا کینٹ سے 1 آزاد امیدوار، (ن) لیگ 1، نوشہرہ کینٹ سے پی ٹی آئی 1، 2 آزاد امیدوار، واہ کینٹ سے پی ٹی آئی 2، پی ایم ایل این 8، ٹیکسلا کینٹ سے تحریک انصاف 2، پی ایم ایل این 3، ڈی آئی خان کینٹ سے پی ٹی آئی 2 ، کامرہ کینٹ سے ایک آزاد، کوہاٹ کینٹ سے ایک پی ٹی آئی، 2 آزاد امیدوار، کھاریاں کینٹ سے تحریک انصاف کے 2، خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف اٹھارہ 9 آزادامیدوار کامیاب رہے جبکہ (ن) لیگ 5 اور پیپلز پارٹی نے دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
urdu-poetry-lover · 3 years
Text
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
زوال عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ
بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے
اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ
غم حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا
نگار شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ
خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن
کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی رات تو دیکھ
عطا کیا دل مضطر تو سی دیئے میرے ہونٹ
خدائے کون و مکاں کے توہمات تو دیکھ
گناہ میں بھی بڑے معرفت کے موقعے ہیں
کبھی کبھی اسے بے خدشۂ نجات تو دیکھ
(مصطفی زیدی)
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 7 years
Text
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غم دل مرے رفیقو غم رائگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
کسی زلف کو صدا دو کسی آنکھ کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے ��استے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مصطفی زیدی
6 notes · View notes
umeednews · 5 years
Photo
Tumblr media
ملتان : چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر کچہری چوک پر احتجاج مظاہرہ ملتان : پاکستان پیپلزپارٹی ملتان سٹی و ضلع کی طرف سے بڑھتی ہوئی مہنگائی،بے روزگاری اور 18 ویں ترمیم و صوبائی خودمختاری پر کی جانے والی حکومتی سازشوں اور حالیہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور صدر جنوبی پنجاب مخدوم سید احمد محمود کی ہدایت پر سٹی صدر ملک نسیم لابر کے زیر اہتمام کچہری چوک پر احتجاج مظاہرہ کیا گیا مظاہرہ میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر خواجہ رضوان عالم نے خصوصی شرکت کی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ رصوان عالم، سیکرٹری تعلقات عامہ بابو جنوبی پنجاب نفیس انصاری، ڈویڑنل صدر خالد حنیف لودھی، سٹی صدر ملک نسیم لابر، ضلعی صدر میاں کامران عبداللہ مڑل، ضلعی جنرل سیکرٹری راو ساجد علی، سٹی جنرل سیکرٹری اے ڈی خان بلوچ، پی ایل ایف جنوبی پنجاب کے صدر شیخ غیاث الحق ایڈووکیٹ، سابق ایم پی اے عثمان بھٹی، ممبر پنجاب کونسل ملک ارشد اقبال بھٹہ، ممبر پنجاب کونسل سید غلام مصطفی گیلانی، ممبر پنجاب کونسل رانا نیک محمد زاہد، خواتین ونگ جنوبی پنجاب کی سینئر نائب صدر راضیہ رفیق، سینئر رہنما مرزا عزیز اکبر بیگ ایڈووکیٹ، ڈویڑنل سیکرٹری انفارمیشن ایم سلیم راجا، ضلعی سیکرٹری انفارمیشن چوہدری یاسین، صوبائی ٹکٹ ہولڈر حاجی شاہد رضا صدیقی، سیکرٹری انفارمیشن پی ایل ایف جنوبی پنجاب رانا جاوید اختر، پیپلز لیبر بیورو جنوبی پنجاب کے جنرل سیکرٹری ملک عاشق بھٹہ، ضلعی رابطہ سیکرٹری عبدالروف لودھی، سٹی ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن و انچارج میڈیا سیل خواجہ عمران، ضلعی ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن رئیس الدین قریشی، ڈپٹی جنرل سیکرٹری ملتان سٹی حاجی امین ساجد، نائب صدور ملتان سٹی ساجد بلوچ، سید فرحان زیدی، عمران انصاری ایڈووکیٹ، خواتین ونگ ملتان سٹی کی صدر عابدہ بخاری، سٹی صدر پی ایل ایف اشتیاق شاہ ایڈووکیٹ، ناصر حیدری ایڈووکیٹ، طارق سعید ایڈووکیٹ، پی وائی ملتان ضلع کے سیکرٹری انفارمیشن حسنین خان، صوبائی حلقہ 213 کے صدر ملک افتخار علی، جنرل سیکرٹری ملک رمضان کمبوہ، سیکرٹری انفارمیشن تحصیل ملتان رانا ذوالفقار، صوبائی سیکرٹری انفارمیشن عمران جاوید سمرا، جمال لابر، ملک ذوالفقار بھٹہ، عمران وینس، زاہد محمود صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 9 ماہ میں تبدیلی کے دعوے داروں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے آئے روز مہنگائی کی صورت میں معاشی بم گرا کر کر غریب عوام سے روٹی کا نوالہ چھینا جا رہا ہے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کی عوام دشمن پالیسی کو عیاں کرتا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فوری طور پر واپس لیا جائے عوام کا غربت و بے روزگاری کی وجہ سے جینا محال ہوچکا ہے لیکن موجودہ حکومت کو اس کی کوئی پروا نہیں اور وہ بجائے عوام کو ریلیف دینے کے اپنے سیاسی مخالفوں کو نیب گردی کیذریعئے سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر اپنی نااہلی و نالائقی کو چھپانے کی ناکام کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ہم آج کے دن سلیکٹڈ وزیراعظم عمران احمد نیازی کو یہ باور کرا دینا چاہتے ہیں کہ مہنگائی و بے روزگاری کے خاتمہ فوری طور پر کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے اور 18 ویں ترمیم و صوبائی خودمختاری کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں انکی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں اور اگر حکومت نے اپنی ان سازشوں کو ختم نہ کیا تو پھر نااہل و نالائق حکومت جان لے کہ بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکے گی کیونکہ پیپلزپارٹی کا ہر عہدیدار ہر کارکن اب اپنے قائد چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے قیادت میں تمھارے خلاف سراپا احتجاج بن چکا ہے اس لئے بہتر ہے کہ سلیکٹڈ وزیراعظم عمران احمد نیازی عوام سے کئے گئے جھوٹے وعدوں پر قوم سے معافی مانگو کیونکہ تمھاری غلط پالیسیوں کی بدولت آج عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے آئے روز عمران احمد نیازی کے 23 سالہ ڈرامے کی حقیقت عوام پر عیاں ہو رہی ہے اس 23 سالہ جھوٹی اور پروپیگنڈہ کی سیاست پر مبنی عوام کو بے وقوف بنانے کا جو کھیل تحریک انصاف نے کھیلا اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ تحریک انصاف نہیں بلکہ تحریک انتقام ہے جوکہ عوام دشمن پالیسیوں پر گامزن ہے اس لئے تحریک انصاف کو اپنا یوم تاسیس منانے کے بجائے یوم سیاہ منانا چاہیئے ہم آج کے احتجاجی مظاہرہ میں موجودہ سلیکٹڈ حکومت کے وزیراعظم عمران احمد نیازی اور اسکی نااہل کابینہ کو یہ بھی باور کرا دینا چاہتے ہیں کہ اگر تم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا عوام کو ریلیف دینے کیلئے فوری طور پر یعنی ہنگامی بنیادوں پر پالیسی مرتب نہ کی تو پھر احتجاج کا یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے ہم اپنے قائد چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہمہ وقت اس ملک کی عوام کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے تیار ہیں اور عمران احمد نیازی سن لو ہمارے قائدین چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، صدر آصف علی زرداری، ادی فریال تالپور، سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، آغا سراج درانی و دیگر پر جھوٹے و بے بنیاد نیب گردی کیذریعئے پیدا کردہ ریفرنسز پر مبنی سیاسی انتقام کا سلسلہ بند کرو 18 ویں ترمیم و صوبائی خودمختاری عوام کا جمہوری حق ہے اس لئے اس کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی سازشوں کو فوری طور ہر ختم کرو ورنہ دم دمہ دم مست قلندر ہو گا اور سلیکٹڈ وزیراعظم عمران احمد نیازی تمھیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی احتجاجی مظاہرے میں شبانہ گل، شمیم اختر، سمیرا، نوید ہاشمی ایڈووکیٹ، غضنفر عباس، اشفاق قریشی، سلیم اللہ، فرحان اشفاق، شیخ فرحان حیات، اسلم بھٹی، اکبر عاربی، محمد حسین کھوکھر، شبیر قریشی، ملک صفدر سیال، مطلوب بخاری، ممتاز احمد، شہروز شاکر ایڈووکیٹ، محمد علی بلوچ، بشیر انصاری ایڈووکیٹ، ملک امجد حسین، سلطان خان، خواجہ ارشد، سجاد حسین شاہ کونسلر موضع لوٹھر، غلام اسحاق، عبدالاحد کھگہ ایڈووکیٹ، اشفاق قریشی، سلیم اللہ، نوید اختر ایڈووکیٹ، حسنین شاہ ایڈوکیٹ، منظور بلوچ، مہر علی عدنان، ماسٹر اکرم، حسن شیرازی ایڈووکیٹ، یوسف نقوی ایڈووکیٹ،رانا شہزاد ایڈووکیٹ، تقی سید ایڈووکیٹ، شیخ خلیل حیدر ایڈووکیٹ، رانا عدنان علی ایڈووکیٹ، حیدر علی ایڈووکیٹ، ساجد رضوی ایڈووکیٹ، سجاد عظیم بھٹی، عدنان حیدری، حسن خان، رانا وقار، محمد عمران، صدام حسین، اشفاق بلا، عرفان احمد، شعیب آفتاب کھوکھر، ظاہر کھوکھر، حسین شاہ قریشی سمیت کافی تعداد میں پارٹی عہدیداران و کارکنان نے شرکت کی اور اس موقع پر موجودہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی گئی فضا مک گیا تیرا شو نیازی گو نیازی گو نیازی، گو عمران گو، ظلم کے ظابطے ہم نہیں مانتے، عوام کو ریلیف دو، پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ  نامنظور نامنطور، قدم بڑھاو بلاول بھٹو زرداری ہم تمھارے ساتھ ہیں، وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری، ایک زرداری سب ہر بھاری، شھید بے نظیر بھٹو زندہ باد، شھید ذوالفقار علی بھٹو زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی
0 notes
blog-brilliant · 5 years
Photo
Tumblr media
ساہیوال: حلف کی پاسداری میں پولیس کے 1416جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے عوام کو تحفظ کا احساس دیا ہے. شارق کمال صدیقی ، آر پی او. ساہیوال(خصوصی رپورٹ)ریجنل پولیس آفیسر شارق کمال صدیقی نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس کے ہر جوان نے عوام کی جان و مال کے تحفظ کا حلف لیا ہے اور اس حلف کی پاسداری میں پولیس کے 1416جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے عوام کو تحفظ کا احساس دیا ہے ۔پولیس کی نوکری صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو قربانی دینے کا جذبہ رکھتا ہو اور ہر جوان اسی جذبے سے سر شار ہو کر روزانہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچتا ہے ۔پولیس کے شہداء محکمے کے ماتھے کاجھومر ہیں جن کے لواحقین کی نگہداشت پنجاب پولیس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کی بنیادی ذمہ داری ہے جسے ہر صورت پورا کیا جائے گا ۔انہو ں نے یہ بات ساہیوال آرٹس کونسل میں مصطفی زیدی آرٹ گیلری میں ضلع ساہیوال کے 24شہداء کے پوٹریٹس کی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے کہی جس میں پولیس کے شہداء کے ورثاء نے بھی شرکت کی ۔اس موقع پر ڈپٹی کمشنر محمد زمان وٹو ،ڈی پی او کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء ،بارانی انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کے سی ای او میاں محمد ساجد ،ڈائریکٹر ساہیوال آرٹس کونسل ڈاکٹر سید ریاض ہمدانی اور معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز رضا بھی موجود تھے ۔انہو ں نے کہا کہ پولیس کا ہر سپاہی نوکری شروع کرنے سے پہلے ہی لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کا حلف لیتا ہے اور نوکری کے آخری دن تک اس حلف کی پاسداری کرتا ہے ۔انہی شہداء کی قربانیو ں سے ہی معاشرے میں امن ہے اور پولیس فورس کی عزت ہے ۔ڈی پی او کپیٹن (ر) محمد علی ضیاء نے کہا کہ شہداء کو یاد کرنے کا مقصد اس عزم کی تجدید ہے کہ فورس کا ہر جوان ہر روز اپنی جان کی قربانی کے لئے تیار ہے۔ساہیوال پولیس اپنے شہداء کے لواحقین کے تمام مسائل کو حل کرنا اپنا اولین مقصد سمجھتی ہے اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی ۔ڈپٹی کمشنر محمد زمان وٹو نے بھی شہداء کو خراج تحسین پیش کیا اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ریونیو سے متعلقہ مسائل کو فوری حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف سماجی شخصیت شیخ اعجاز رضا نے کہا کہ شہداء کی قربانیو ں سے ہی دہشت گردی کو شکست ہوئی اور ملک میں امن قائم ہوا جس سے شہریوں کے چہروں پر رونق دوبارہ لوٹ آئی ہے ۔بارانی انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کے سی ای او میاں محمد ساجد نے اپنے ادارے میں شہداء کے بچوں کو تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کیا ۔تقریب کے اختتام پر شہداء کے ورثاء کو پولیس کی طرف سے گفٹ اور نقد امدادی رقم بھی دی گئی ۔
0 notes
emergingkarachi · 7 years
Text
میں کراچی میں نہیں، کراچی مجھ میں رہتا ہے
ماضی میں کھو جانے یا پرانی یادوں کو تازہ کرنے سے متعلق انگریزی میں ’’ Nostalgia ‘ ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ گزرے ہوئے اچھے وقت کے ساتھ جذباتی یا نفسیاتی رشتہ ہوتا ہے ۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب بھی ماضی کو شاندار اور مثالی وقت ثابت کرنے کے لئے بات کی جاتی تو کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ ناسٹلجیا ‘‘ ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ ماضی کی ہر بات کا تذکرہ ’’ ناسٹلجیا‘‘ کا نتیجہ ہو ۔ ماضی سے متعلق کچھ باتیں مستقبل کی نسلیں بھی درست تسلیم کرتی ہیں ۔
آج میں ماضی کے کراچی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ، میں نے اپنے بچپن میں ، اپنی جوانی میں ، اپنی سیاسی جدوجہد کے دور میں اور اپنی سوچ کی پختگی میں وہ کراچی دیکھا ہے ۔ یہ ناسٹلجیا نہیں ہے ۔ آج بنیادی سوال یہ ہے کہ کراچی کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کراچی کے ماضی میں جانا پڑے گا۔ ہم نے کراچی کا اصل جوہر دیکھا ہے۔ کراچی کی شان (GLORY) کا مشاہدہ کیا ہے۔ کراچی اپنے اصلی جوہر کی طرف واپس جا سکتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی کراچی کا شمار دنیا کے جدید اور خوبصورت شہروں میں  ہوتا تھا۔ کراچی اس وقت سے ہی کاسموپولیٹن شہر تھا جہاں مختلف مذاہب ، قوموں، علاقوں، نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ تنوع اور روا دوری کراچی کی بنیادی خصوصیات تھیں۔ 
قیامِ پاکستان کے چند سالوں بعد یہ شہر اس خطے کا تجارتی مرکز بن گیا اور اس کا شمار جنوبی ایشیا کے امیر ترین شہروں میں ہونے لگا۔ اس شہر نے سب کو اپنے دامن میں سمویا۔ اس شہر نے کسی سے اس کی شناخت نہیں پوچھی کہ اس کا تعلق کس مذہب، ملک، قوم، قومیت، علاقے یا زبان سے ہے۔ کراچی نے سب کی شناخت کو اپنی رنگا رنگ اور متنوع شناخت کا حصہ بنایا اور ہر نئے رنگ کے ساتھ اپنے آپ کو نکھارا۔ ہم نے وہ کراچی دیکھا جس کی سڑکوں کو روزانہ دھویا جاتا تھا۔ جہاں کی شاہراہوں، مارکیٹوں اور تفریح گاہوں میں غیر ملکی سیاحوں کا رش ہوتا تھا۔ کراچی ایک ایسا شہر تھا جہاں روزانہ سفر کے دوران پاکستان کے ہر علاقے کے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی تھی بلکہ دنیا کے تقریبا ہر ملک کے لوگوں سے ٹاکرا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کراچی کے باسی وسعت قلبی کو اپنی شخصیت کا بنیادی جزو تصور کرتے تھے۔ یہ شہر نہ صرف پاکستان کی رنگا رنگ ثقافتوں کا امتزاج تھا بلکہ گلوبل کلچر کا بھی نمائندہ تھا۔
برداشت اور روا داری کے علاوہ کراچی کی ایک اور امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ یہ شہر اپنے مزاج میں ترقی پسند اور جمہوریت نواز تھا۔ یہ تمام بڑی جمہوری ، ترقی پسند، مظلوم اقوام اور طبقات اور محنت کشوں کی تحریکوں کا مرکز تھا۔ یہاں سب سے زیادہ نظریاتی اور تربیت یافتہ سیاسی کیڈر موجود تھا۔ یہاں سیاست اور ادب کے حوالے سے مباحثے جاری رہتے تھے۔ کراچی کے کافی اور ٹی ہاوسز میں اپنے عہد کے فلسفیانہ مسائل زیر ِبحث رہتے تھے۔ صدر اور ریگل کے کافی ہاوسز میں ان لوگوں سے ملاقات ہو جاتی تھی جنہیں آج بڑے لوگوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، گلو کاروں اور فن کاروں کے پنپنے کے لئےاس شہر کی فضا بہت ساز گار تھی۔ 
یہ شہر سید سبطِ حسن، شوکت صدیقی، انتظار حسین، ابنِ صفی، جوش ملیح آبادی، مصطفی زیدی ، زیڈ اے بخاری، رئیس امروہی، جون ایلیا، اسلم فرخی، دلاور نگار، مولوی عبد الحق، ابنِ انشا اور بیشمار لوگوں کا مسکن ہے۔ یہاں سب سے زیادہ لٹریچر شائع ہوتا تھا۔ یہاں ہم نے گھروں میں محافل ، مشاعرہ اور موسیقی کی روایات دیکھیں ۔ سڑکوں اور پارکوں میں مشاعرے ہوتے دیکھے۔ سب سے زیادہ سنیما ہال کراچی میں تھے۔ تھیٹرز کے حوالے سے بھی یہ شہر اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ ایک اور امتیازی وصف کراچی کا یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ فلاحی اور خیراتی ادارے اور مخیر حضرات ہیں۔ چیریٹی (charity) کے کاموں میں کراچی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں فوقیت رکھتا ہے۔
کراچی میں عظیم عبد الستار ایدھی پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ایدھی فاونڈیشن قائم کیا۔ اس شہر میں روتھ لیوئس Ruth Lewis، فاطمہ لودھی، حکیم سعید، نفیس صادق جیسے لوگوں نے جنم لیا۔ کراچی کو اس بات پر فخر ہے کہ یہاں ڈاکٹر ادیب رضوی جیسا فرشتہ انسان رہتا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ چیریٹی اس شہر میں ہوتی ہے۔ اسی شہر میں قائد اعظم محمد علی جناح جیسے سیاستدانوں نے جنم لیا جنہوں نے اس خطے کی تاریخ بدل دی۔ جمشید نسروانجی، ہر چنداری وشن داس، عبدالستار افغانی، بے نظیر بھٹو، سید منور حسن اور کئی بڑے سیاستدانوں کا تعلق اسی شہر سے ہے۔ آغا خان سوئم، مولانا تقی عثمانی، علامہ رشید ترابی اور کئی مذہبی رہنما اور اسکالرز کا مسکن کراچی ہے۔ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی، ڈاکٹرعبد القدیر خان، ڈاکٹر عطا الرحمن، پرویز ہود بھائی اور دیگر سائنسدان اور ماہر ینِ تعلیم کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔
فن، ادب، ثقافت، کھیل اور دیگر شعبوں کی کئی اہم شخصیات نے یہاں جنم لیا اور یہیں مدفن ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پورے ملک کو 60 فیصد سے زائد اور سندھ کو 80 فیصد سے زائد ریونیو کراچی دیتا ہے۔ کراچی میں تمام بڑے بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ہیڈ آفس ہیں، یہاں کثیر القومی کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔ ملک کی زیادہ تر صنعتیں کراچی میں ہیں۔ بندر گاہ کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے سب سے بڑے ادارے یہاں کام کرتے ہیں۔ نجی شعبے میں سب سے زیادہ روزگار کراچی فراہم کرتا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج یہاں ہے۔ کراچی پاکستان کی اقتصادی شہ رگ ہے۔
پاکستان کے لئے کراچی رول ماڈل تھا۔ جمہوری اور بنیادی حقوق کی تحریکوں میں کراچی ہراول دستے کا کردار ادا کرتا تھا۔ میں اس شہر سے نکالا بھی گیا اور شہر کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ایک متنوع، ترقی پسند ، خوشحال، پر امن اور روادار معاشرہ کراچی میں تشکیل پذیر ہو چکا تھا اور اس بات کو آگے بڑھاتا تھا لیکن اس عظمت اور شاندار روایت کے حامل کراچی کے خلاف بڑی سازشیں ہوئیں۔ یہ سازش صرف کراچی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے خلاف ہے۔ میں کراچی میں نہیں، کراچی مجھ میں رہتا ہے۔ میرے اندر برنس روڈ کی ثقافت، کھارادر کی روایات، ناظم آباد کی رونقیں نمایاں ہیں۔ تمام تر سازشوں کے باوجود کراچی کا اصل جوہر ختم نہیں کیا جا سکا ۔ کراچی کو اپنے اصل جوہر کی طرف واپس لایا جا سکتا ہے۔ یہ کام دیگر شعبوں کے لوگ بھی کر سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی۔ کراچی کو اس کیفیت سے نکالا جا سکتا ہے اور کراچی کے ذریعے پاکستان کا مستقبل تابناک بنایا جا سکتا ہے۔
نفیس صدیقی  
0 notes
moizkhan1967 · 6 years
Text
مصطفی زیدی💟
آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا وہ دوبارا نہیں ملا
💟
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
💟
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
💟
قدموں کو شوق آبلہ پائی تو مل گیا
لیکن بہ ظرف وسعت صحرا نہیں ملا
💟
کنعاں میں بھی نصیب ہوئی خود دریدگی
چاک قبا کو دست زلیخا نہیں ملا
💟
مہر و وفا کے دشت نوردو جواب دو
تم کو بھی وہ غزال ملا یا نہیں ملا
💟
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟
4 notes · View notes
urduclassic · 7 years
Text
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو : مصطفی زیدی کی شاعری
اردو ادب کی تاریخ میں بے شمار شعراء ایسے ملتے ہیں جن کی شاعری کے کئی رنگ ہیں۔ ان میں سے ایک نام مصطفیٰ زیدی بھی ہے جنہوں نے اپنی خوبصورت اور مؤثر شاعری سے لاکھوں قارئین کو متاثر کیا اور ان کی زندگی میں ہی ان کے مداحین کا ایک وسیع حلقہ پیدا ہو گیا۔ ان کی شاعری میں لطافت بھی ہے سلاست بھی‘ ندرت خیال بھی‘ رومانیت بھی اور اداسی بھی۔ اُداسی کی جو شکل مصطفی زیدی کے ہاں ہے اس کی مثال کم ملتی ہے۔ البتہ ان کے ہم عصر ناصر کاظمی کے ہاں ہمیں یاسیت اور اداسی کی بڑی واضح مثالیں مل جاتی ہیں کیونکہ ناصر کاظمی کے کئی شعر اداسیت کی چادر میں لپٹے ہوئے تھے اور ان اشعار کی اثر آفرینی اپنی جگہ مسلمہ حقیقت تھی۔ 
مصطفی زیدی اکتوبر 1930ء کو الہٰ آباد (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھارت میں مکمل ہوئی جہاں انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ پچاس کی دہائی کے آغاز میں پاکستان آ گئے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادیبات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اسلامیہ کالج کراچی اور پھر پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیئے۔ 1954ء میں انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا اور فوراً ہی اس نوکری سے وابستہ ہو گئے۔ وہ پاکستان کے مختلف حصوں میں سرکاری فرائض سرانجام دیتے رہے۔ وہ نوابشاہ‘ ساہیوال‘ جہلم‘ خانیوال اور لاہور کے ڈپٹی کمشنر رہے۔
انہوں نے ایک جرمن خاتون سے شادی کی تھی جس سے ان کے دو بچے تھے ان کی اہلیہ ویرا زیدی نے شادی کے بعد پاکستان کو ہی اپنا گھر سمجھا اور وہ یہیں مقیم ہو گئیں۔ مصطفی زیدی لاہور میں بنیادی جمہوریتوں کے ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں دسمبر 1969ء میں مارشل لاء کے ضابطوں کے تحت انہیں معطل کر دیا گیا اور پھر مئی 1970ء میں انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ وہ ان 303 سول افسروں میں شامل تھے جنہیں مختلف الزامات پر نوکری سے نکال دیا گیا۔ مصطفی زیدی نے اپنے آپ کو بے گناہ قرار دیا اور کہا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ 
بقول ان کے انہوں نے اس وقت کی ایک طاقتور سیاسی شخصیت کے رشتہ داروں سے رشوت نہیں لی تھی۔ مصطفی زیدی کو ایک جدید شاعر بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ ان کی شاعری میں اظہاریت (Expressionism) اتنی مؤثر تھی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اپنے شعری سفر کے ابتدا میں ہی وہ جوش ملیح آبادی سے وابستہ ہو گئے اور پھر ان کی یہ وابستگی تمام عمر قائم رہی۔ صرف انیس برس کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ بھارت میں شائع ہوا۔ اس شعری مجموعے کا نام ’’زنجیریں‘‘ تھا۔ پاکستان میں یہ مجموعہ ’’روشنی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں ان کے پانچ اور شعری مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ’’کوہ ندا‘‘ ان کا وہ شعری مجموعہ تھا جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔
مصطفی زیدی کی شاعری میں تنہائی کے بارے میں بھی خاصے اشعار ملتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی تنہا نہیں رہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ بنیادی طور پر مجلسی آدمی تھے اور تنہائی پسند نہیں تھے۔ پھر ان کی شاعری میں تنہائی کے بارے میں اشعار کیوں ملتے ہیں اور ان کو احساس تنہائی کیوں تھا ؟ اسی طرح ان کی شاعری میں خاموشی کو بھی ایک اشعار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’قبائے ساز‘‘ میں بھی بڑی خوبصورت غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ ان کی شاعری کے مختلف رنگوں کا کمال ہے کہ کبھی ان کی رومانیت غالب آ جاتی ہے اور کبھی اداسی اور یاسیت سب کچھ اڑا کر لے جاتی ہے۔ 
پھر ان کے خیال کی ندرت بھی قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے وہ اپنی بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں اور ان کی نکتہ آفرینی بھی کمال کی ہے۔ وہ بات کو الجھاتے نہیں بلکہ بڑے سادہ اور سلیس طریقہ سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ژولیدہ فکری نہیں بلکہ ہر بات کا واضح اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کو بہت مقبولیت ملی اور ان کے کئی شعر زبان زد عام ہوئے۔ ہم ذیل میں مصطفی زیدی کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ 
آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
 دل جس سے مل گیا وہ دوبارہ نہیں ملا
 آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
 خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
 بجھ گیا شام حرم باب کلیسا نہ کھلا
 گل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا
 چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
 ہم اُس کے پاس جاتے ہیں مگر آہستہ آہستہ
 گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا 
پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا
 دیوانے کو تکتی ہیں تیرے شہر کی گلیاں
 نکلا تو اِدھر لوٹ کے بدنام نہ آیا
 مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے
 یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا
 میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
 تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے 
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
 میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
 قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
 زوال عشق میں سوداگروں کا ہاتھ تو دیکھ
 12 اکتوبر 1970ء کو مصطفی زیدی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی موت بڑے پراسرار حالات میں ہوئی۔ ابھی تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خودکشی تھی یا قتل۔ ان کی موت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے ایک خاتون شہناز گل کا نام بھی لیا جاتا ہے لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ مصطفی زیدی کی موت کن حالات میں ہوئی۔ بلاشبہ ان کا یہ شعر ان کی موت پر ہی صادق آتا ہے میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے مصطفی زیدی کی شاعری کو بہرحال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے جدید طرز احساس کو شعری طرز احساس سے بڑی خوبصورتی سے ملایا اور نئے نئے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ اردو ادب کے سکہ بند نقاد بھی مصطفی زیدی کی شعری عظمت کے معترف ہیں۔ انہیں کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
عبدالحفیظ ظفر
0 notes