ویڈیو: 'سینیٹ کی نانی' کون ہے؟
ویڈیو: ‘سینیٹ کی نانی’ کون ہے؟
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سینیٹر شیری رحمٰن کی مزاحیہ گفتگو پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا
Source link
View On WordPress
1 note
·
View note
(7/54) ”In Shahnameh there’s one word that Rostam uses more than any other: 𝘋𝘢𝘢𝘥. Justice. 𝘋𝘢𝘢𝘥 is a simple concept. It means that everyone gets what they deserve: both good and bad. Everyone gets a fair share. The Nahavand of my childhood was very poor. People would come to our door each day asking for a single piece of bread. It seemed unjust to me. So I decided I would not eat more than that. My mother begged and begged, but I would not do it. I decided that if I became king, every child in Iran would be given their fair share. But until then I should participate in their suffering. I had no idea how I would become king. In Shahnameh it seemed so simple. Good kings glowed with light. Their wisdom was plain for all to see. I was an optimistic child. I felt that if I could use my voice, and speak about 𝘋𝘢𝘢𝘥 —then a path would open up before me. When I turned fifteen I went to boarding school in Tehran. It was nothing like Shahnameh. Half a million people lived there, and it was a time of great upheaval. A huge debate was being held over the nationalization of oil. The streets were filled with voices of every kind, and nobody could agree on the future of Iran. I realized that many people didn’t want the same things that I wanted, and for complicated reasons. At the end of each week I’d go to the house of a relative to pick up my allowance. His wife was the first person in Iran to have a cooking show on the radio, so sometimes I’d stay for dinner. They had a young daughter named Mitra. Her hair was cut short in the style of a famous American actor. One of her hands was crippled by polio. She was very shy about it, but it was never something I noticed. Back then most Iranian girls were modest and deferential, but not Mitra. And she argued with everyone: her friends, the help, her family, and me. One night over dinner I started speaking about the past greatness of Iran: who we were. Back in the days of Shahnameh. When I finished talking, Mitra was the first to speak. She said: ‘You talk about Iran like it’s a lion. But it’s a cat.” That was the year I discovered something new. There are love stories in Shahnameh too.”
واژهای که رستم بیش از همهی واژگان به کار میبرد: داد است. عدالت. مفهومیست ساده. بدین معنا که هر کس هر آنچه را شایستهاش هست، دریافت میکند. هم نیک و هم بد. رستم میگوید: جهان را همه سر به سر گشتهام / بسی شاه بیدادگر کُشتهام. فقر در نهاوند کودکیام زیاد بود. هر روز میشد تنی چند به خانهمان بیایند و تکه نانی درخواست کنند. غمگین بودم. بر آن شدم که برای همدردی با آنان تکه نانی بیش نخورم. مادرم بارها خواهش کرد، ولی من خودداری میکردم. میاندیشیدم که اگر شاه بودم هر کودکی در ایران به سهم عادلانهی خود میرسید. امروز تنها میتوانم در رنج آنها شریک باشم. هیچ اندیشهای دربارهی چگونگی پادشاه شدن نداشتم. در شاهنامه دنیا بسیار ساده به نظر میآمد. شاهان خوب در هالهای از نور میدرخشیدند. خردشان بر همه آشکار بود. من کودکی خوشبین بودم. بر آن بودم که اگر از عدالت بگویم، راهی پیش رویم باز خواهد شد. در پانزدهسالگی، راهی مدرسهی شبانهروزی البرز در تهران شدم. تهران شباهتی به شهرهای شاهنامه نداشت. نیم میلیون نفر در آنجا زندگی میکردند، و آن روزها هنگامهی دگرگونیهای بزرگ بود. کارزاری گسترده پیرامون ملی کردن نفت در سراسر کشور برپا بود. خیابانها پر بود از صداهای ملیها، ملیگراها و کمونیستها. روشنایی و تاریکی درهم آمیخته بودند. به دلایلی پیچیده بسیاری از مردم با آرمانهای من همراه نبودند. پایان هر هفته، به خانهی یکی از خویشان میرفتم تا کمک هزینهی هفتگیام را دریافت کنم. همسرش نخستین زنی بود که در ایران برنامهی آموزش آشپزی رادیویی داشت، گاهی برای شام میماندم. دختر نوجوانی داشتند به نام میترا. موهایش را مانند یک بازیگر مشهور آمریکایی کوتاه کرده بود. دست چپش به دلیل بیماری فلج اطفال اندکی ناکار بود. میکوشید آنرا بپوشاند. من آنرا نادیده میگرفتم، به نگاه من چیزی از ارزشهای او نمیکاست.در آن زمان بیشتر دختران ایرانی سربهزیر و خجالتی بودند، ولی میترا اینگونه نبود. او با همه بحث میکرد: با دوستانش، با خدمتکاران، خانوادهاش و من. شبی هنگام شام، از بزرگیهای ایران باستان گفتم. و اینکه در روزگار شاهنامه چه بودهایم. و چگونه میتوانیم دوباره آن بزرگیها را بازیابیم. پس از سخنانم، میترا پیش از همه چنین گفت: «تو از ایران به مانند شیری سخن میگویی. ولی ایران گربهای بیش نیست.» در همان سال بود که حس تازهای در من جان میگرفت. شاهنامه داستانهای عاشقانه هم دارد
242 notes
·
View notes
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
10 notes
·
View notes
مجھکو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے، چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب ‘ آؤ کھیلیں‘ ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں ساری بھولی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
-
3 notes
·
View notes
بھروسہ
قسط 02
جی اچھا" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا دیا ، سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو 32 سائز کے تو ہونگے۔
"تم تو کافی کمزور لگ رہی ہو، چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا ہوں۔" یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔ "چلو یہ کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا ہے" یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ جواب میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔
خیر وہ سین ختم ہوا تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حالات خراب ہو گئے ہنگامے شروع ہو گئے۔ میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر میں سوچنے لگا کہ ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں کے حالات خراب تھے۔میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حالات ٹھیک نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔ ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔ میں نے کہا تم زرینہ کی فکر نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ کو دوا دے دی۔
اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی میں اپنے دماغ میں پلان کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب حالات کی وجہ سے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی رات رنگین کر لوں۔میں نے ٹی وی لائونج والا ٹی وی آن کیا تو پتہ لگا شہر کے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔ میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔ اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔ میں نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا لو۔اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم پانی سے شاور لینا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا اور باتھ میں چلی گئی۔ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ذرا سا دروازہ کھولا جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھولا بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔وہ پوری ننگی میرے سامنے تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔
جاری ہے...
5 notes
·
View notes
اناالله وانا الیه راجعون
مری نانی بہت عزت دار اور محنت کی عورت تھیں۔ اللہ اسکو جنت کے دروازیں میں قبول فرمائیں
3 notes
·
View notes
صبح جمعه با گوشه ۲۸۴؛ برای تو که در آن گوشهٔ خاورمیانه، دیگر برگی برایت نمانده که بریزد
آهنگهای جمعهٔ ۲۸۴ام؛ دوبیتیهای باباطاهر عریان همدانی که در زمان زنده بودنش، نام و
نانی برای گفتن شعرش طلب نکرد.
باباطاهر، نصرالله پورجوادی
این دو بیتیها به او منسوب است و ممکن است کسی که به نام باباطاهر عریان میشناسیم، گویندهٔ این شعرها نباشد. در کتاب باباطاهر شرح احوال و نگاهی به آثار ابومحمّد طاهر جصّاص همدانی، در این باره تحقیق و توضیح داده شده است.
گویندهٔ این دوبیتیها هرکه باشد، راوی…
View On WordPress
2 notes
·
View notes
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام : اگر آنها به طور غیر منتظره به یک پیروزی کامل دست یافته بودند، کاملاً قادر به استفاده از آن نبودند. اگر قدرت سیاسی از دست دولت به دست کارکنان اصلی آن اعتصاب عمومی منتقل شده بود نتیجه یک سردرگمی وحشتناک خواهد بود.
رنگ مو : فرقی نمی کند که گردانندگان ماشین های خیابانی باشند یا توری سازان، خواه ایتالی ها یا لهستانی ها یا یهودی ها یا آمریکایی ها، چه اینجا یا در شیکاگو - مردم من هستند - افرادی در بندگی که برای سرزمین موعود شروع می کنند.» لحظه ای ایستاد و نگاه عجیبی روی صورتش آمد - نگاهی به ارتباط با روحی دور. وقتی او دوباره صحبت کرد.
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام : افراد زیادی هستند که با ما مهربان هستند. من حدس می زنم شاهزاده خانم تنها بانوی مصری نبود که با یهودیان مهربان بود. اما مهربانی این چیزی نیست که مردم در اسارت هستند. مهربانی هرگز ما را آزاد نمی کند. و خدا امروز دیگر پیامبری نفرستاد. خودمون باید فرار کنیم و وقتی در روزنامه ها می خوانید که اعتصابی در کار است.
لینک مفید : لایت و هایلایت مو
کلمات او برای اکثر حضار نامفهوم بود. برخی از جلیقه سازان یهودی فهمیدند. و کشیش دانهام دنینگ که یک محقق مشهور بود، فهمید. اما حتی کسانی که این کار را نکردند، طلسم این آهنگ نوسانی صدادار بودند. او ناگهان متوقف شد. او توضیح داد: "این عبری است." این همان چیزی است که پدرم وقتی دختر کوچکی بودم به من آموخت. این در مورد سرزمین موعود است.
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام : من نمی توانم آن را به انگلیسی خوب بگویم - I--" رئیس محترم گفت: «مگر اینکه عبری خود را فراموش نکرده باشم، خانم رایفسکی سخنان خدا را به موسی که در فصل سوم خروج ثبت شده است، تکرار کرده است. فکر کنم بیت هفتم باشد: «و خداوند گفت: من مصیبت قوم خود را که در مصر هستند، دیدهام، و فریاد ایشان را به سبب کارفرمایانشان شنیدم.
زیرا من غم و اندوه آنها را می دانم. «و من فرود آمدم تا آنها را از دست مصریان رهایی بخشم و آنها را از آن سرزمین به سرزمینی نیکو و بزرگ، به سرزمینی که شیر و عسل جاری است، بیاورم.» "آره. همین است.» یتا گفت. «خب، اعتصاب یعنی همین. ما برای وعدههای قدیمی میجنگیم.» زنان "جدید". نوشته الیو شراینر (به صفحه 240 مراجعه کنید ) ما جدید نیستیم!
اگر ما را درک می کنی، به دو هزار سال پیش برگرد و تبار ما را مطالعه کن. نژاد ما توضیح ماست. ما دختران پدران خود و همچنین مادران خود هستیم. در رویاهایمان هنوز صدای برخورد سپرهای اجدادمان را می شنویم که قبل از نبرد با هم برخورد کردند و فریاد "آزادی" را بلند کردند. در رویاهای ما هنوز با ماست و وقتی بیدار می شویم از لب های خودمان می شکند.
ما دختر این مردان هستیم. نان و گل رز نوشته جیمز اوپنهایم (در رژه اعتصاب کنندگان لورنس، ماساچوست، برخی از دختران جوان بنری را حمل می کردند که روی آن نوشته شده بود: «ما هم نان می خواهیم و هم گل رز!») همانطور که می آییم راهپیمایی می کنیم، راهپیمایی می کنیم، در زیبایی روز، یک میلیون آشپزخانه تاریک، هزار آسیاب خاکستری با تمام درخششی که یک خورشید ناگهانی آشکار می کند لمس شده اند.
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام : زیرا مردم آواز ما را می شنوند، «نان و گل سرخ، نان و گل سرخ». وقتی میآییم راهپیمایی میکنیم، راهپیمایی میکنیم، برای مردان هم میجنگیم. زیرا آنها فرزندان زنان هستند و ما دوباره آنها را مادر می کنیم. زندگی ما از بدو تولد عرق نخواهد کرد تا زمانی که زندگی بسته شود- قلب ها و بدن ها گرسنگی می کشند: به ما نان بدهید، اما به ما گل سرخ بدهید!
وقتی میآییم راهپیمایی میکنیم، زنان بیشماره مردهاند با آواز باستانی نان ما گریه کن. هنر کوچک و عشق و زیبایی را که روحهای سختگیرشان میدانست بله، این نانی است که برایش می جنگیم – اما برای رزها هم می جنگیم. همانطور که ما راهپیمایی می کنیم، راهپیمایی می کنیم، روزهای بزرگتر را به ارمغان می آوریم- قیام زنان به معنای قیام نژاد است.
دیگر از این بیکار و بیکار - ده زحمتی که آدم در آن آرام می گیرد- نیست. اما اشتراکی از افتخارات زندگی: نان و گل سرخ، نان و گل سرخ! اعتصاب بزرگ[پ] ( برگرفته از «انسانیت شاد» ) نویسنده: فردریک ون ایدن (پزشک، شاعر و رمان نویس هلندی در اینجا برای خوانندگان آمریکایی تجربه ای شخصی در مبارزات کارگری کشورش تعریف کرده است) حدود چهل نفر ما را به عنوان نماینده به شهرهای مختلف فرستادند تا اعتصاب کنندگان را رهبری و تشویق کنیم.
رمز عبور داده شد و تاریخ و ساعت مخفیانه تعیین شد. صبح روز دوشنبه، ششم آوریل 1903، هیچ قطاری نباید در هیچ راه آهنی در هلند حرکت کند. غروب یکشنبه من به عنوان یکی از چهل نماینده راهی مسیر جنگ شدم.
از خانواده ام مرخصی گرفتم، یک کت و شلوار پر کردمبا جزوهها و برگههای مگس، و نیمهشب به شهر کوچک آمرسفورت، یک تقاطع راهآهن مهم رسیدم.
تا پیام من را از ستاد برسانم که در آن شب در کل کشور اعتصاب اعلام خواهد شد. با این توقع که دولت بسیار فعال و پرانرژی باشد و بعید نیست مرا دستگیر کند، نامی فرضی برگزیدم و لباس کارگری پوشیدم... من یک هفته در آن شهر کوچک ماندم و در خانه های اعتصاب کنندگان زندگی می کردم و در وعده های غذایی آنها و ساعات تعلیق و اضطراب آنها با آنها صحبت می کردم.
رنگ موی هایلایت استخوانی در اینستاگرام : یک اتاق جلسه تاریک و کثیف وجود داشت که همه آنها ترجیح می دادند به جای ماندن در خانه در آنجا جمع شوند. زنان نیز مرتباً در این جلسات شرکت می کردند و گاه فرزندان خود را می آوردند و همگی به دنبال آسایش از حضور در جمع بودند، از امیدها و بیم ها صحبت می کردند، با آواز همدیگر را شاد می کردند و سعی می کردند در روزهای طولانی بی عملی روحیه یکدیگر را بالا ببرند.
روزی سه یا چهار بار به آنها خطاب میکردم و سعی میکردم نظرات درستی در مورد شرایط اجتماعی به آنها بدهم و آنها را برای شکستی که به زودی میدانستم اجتنابناپذیر است، آماده میکردم. با این حال، می توانم بگویم که، اگرچه من از بین چهل نماینده کمترین امید به موفقیت نهایی را داشتم، حزب کوچک من آخرین نفری بود که تسلیم شد و کمترین درصد فراری را نشان داد.
من در آن روزهای نزاع دیدم که از بین دو طرف متخاصم، طرف قویتر و پیروز، در نگرش و روشهای اخلاقی خود کمترین همدلی را داشت. مهاجمان به طرز رقت انگیزی احمق بودند و نسبت به قدرت حریف و ضعف خود ناآگاه بودند.
0 notes
من همه چیو ایگنور میکنم
من به چیزهای سخت توجه نمیکنم
من خوشحالیم رو از موفقیت میگیرم ن از چیز دیگه ای
من در به در لحظه به لحظه دنبال تایید بقیه ام
من همه کارهامو دارم عقب ميندازم
من اگه سرمرنتای ۵۰ نخورم اصلا خوشحال نیستم
من نمیخوام دیگه سرمنتا بخورم
من یادم نمیاد چه جوری نقاشی میکردم.
من یادم نمیاد چه جوری از کتاب میخوندم
من یادمه وقتی که از نقاشی اینقدر راضی نبودم که گریه کردم
من یادمه وقتی تصمیم گرفتم دوست پیدا نکنم و با تارا باشم
من یادمه وقتی شیر موز داشتم
من یادمه وقتی دستامو باز میکردم و میچرخیدم، الکی، و درجواب اینکه چیکار میکنی؟ دعا میکنی؟ گفتم آره.
من یادمه وقتی پلاک پراید رو حفظ کردم
من یادمه وقتی مرغ با فلفل دلمه ای خوردم
من یادمه سوپ دوست داشتم
من یادمه آش لبو خوردم و دوست نداشتم
من یادمه وقتی از پست اف اف سرم داد زدن
من یادمه شب قبل اینکه تارا به دنیا بیاد رک
من یادمه که با گوشی بابا پوکی( نمیدونم دقیقا چی بود) بازی میکردم
من یادمه وقتی بابا برای مامان گوشی خرید. و به نامش کرده بود. ( یا قرار بود بکنه؟)
من صدای جارو کشیدن رفتگر آخر شب ها رو یادمه
من خوردن گردو و پنیر رو تو آشپزخونه یادمه
من لباس پوشیدن جلوی بخاری رو یادمه
من خوردن های بای اون دختره رو یادمه. من گشنم نبود. فقط دلم میخواست بخورمش. و لذت میبردم از اینکه کسی قرار نیست بدونه من بودم. و اون ناراحت میشد. بدون اینکه بتونه ثابت کنه یا مقصری پیدا کنه ( با اینکه تهش اینجوری نشد)
من جشن تکلیف ام رو یادمه
من اینکه تو گروه سرود نرفتم رو یادمه
من مسابقه گروه سرودنون تو راهنمایی رو یادمه
من تمریناشو یادمه
من یادمه میخواستم بمیرم
من یادمه یه کانال دپ زده بودم با عسل
من عسل رو یادمه
من هستی رو یادمه
من یادمه قرار بود زنگ تفریح ها نرم تو حیاط و چه احساسی داشت
من یادمه موقعی که کلیپس گل دار بزرگ مد بود و نمیذاشتن تو مدرسه بزنیم
من یادمه روز اول دانشگاه حضوری رو
من روز اول کلاس داشنگاه غیر حضوری هم یادمه یادمه که تشکیل نشد
من یادمه که موهامو بافته بودم و ورزش کرده بودم قبل اینکه رتبه های کنکور بیاد
من یادمه که تخم مرغ تست غلات نون و پنیر و کاهو میخوردم
من یادمه هفته ای که قرار بود ۴۰۰ تا کالری بخورم
و نتونستم یک هفته اش کنم
من یادمه سرچ کردن کالری غذا هارو
من یادمه اونموقع ذهنم آرومتر بود
من یادمه وقتی دستامو زخم میکردم حالم بهتر میشد
من یادمه وقتی قرص تو آب حل کردم و خوردم
من یادمه وقتی یه عالمه قرص خوردم و رفتم بیمارستان
من یادمه اون احمقایی که اومده بودن بالاسرم اونجا
من یادمه وقتی از گرامری استفاده میکردم
من یادمه وقتی داشتم پایتون یاد میگرفتم
من اولین باری که ویدئو ساتسی رو دیدم رو یادمه
من یادمه وقتی تارا کوچیک بود و با دست ماکارانی میخورد
من یادمه وقتی با تارا کارتون میدیدیم
من یادمه وقتی با تارا تو ماشین چهارشنبه برگشتنی از مدرسه آهنگ های عمو پورنگ رو میخوندیم
من یادمه وقتی پینترست رو پیدا کردم
من یادمه وقتی کفش سنگم رو خریدم
من یادمه وقتی نانی خوردم و دندونم افتاد
من یادمه وقتی نون بربری با پنیر خوردم و کیف داد ولی نباید میخوردم
من یادمه شیشه در ساختمون مون اینه ای بود
من یادمه وقتی مامان از خونه بیرونم کرد
من یادمه وقتی کتاب علوم ترسناک گیاهان رو میخوندم و از روش با کاغذ پوستی شکل هاشو میکشیدم
من یادمه وقتی ویدئو گیاه گوشت خوار ر دیدم
من یادمه وقتی به آهنگ های حامد زمانی گوس میدادم
من یادمه وقتی اون پوستر خامنه ای رو گرفتم
من یادمه وقتی کسی جدیم نمیگرفت
من یادمه وقتی خونه مامان بزرگه میرفتیم
من یادمه روزی که مرد
من یادمه روزی که فهمیدیم مامانیی سرطان داره
و من آزمایشش خوندم
من یادمه وقتی اون کتابه رو خریدیم که راجع به این بود که آدمای مختلف چه جوری دعا به خدا میکنن بچه های آلمانی به زبان آلمانی...
من یادمه روزی که مامانی عمل کرد
من یادمه وقتی تو یازدهم حالم خوب نبود
من یادمه شبای کنکور چه روتین داشتم
و صبح هاش
من یادمه وقتی تو آزمون رانندگی قبول شدم
من یادمه وقتی سرم داد زد
من یادمه وقتی تارا داشت لبو میخورد
من یادمه وقتی خرگوشه مرد
من یادمه وقتی بابا ظرف شیکوتد
من یادمه وقتی مامان داشت تهدید میکرد این چاقو رو میکنم تو شیکمم
من یادمه وقتی مامان حالش بد سده بود
من یادمه وقتی اول بار پروپرانول رو خورد کردم
من یادمه وقتی اولین آهنگ تیلور رو گوش دادم
من یادمه وقتی اولین آهنگ هالزی رو گوش دادم
من یادمه وقتی گوشی سفیده رو خریدیم
وقتی گوشی سفیده رو از دیجی کالا خریدیم
وقتی این گوشیو خریدیم
وقتی ایربادهامو خریدم
من یادمه وقتی پلان هامونو رو زمین محوطه داشنگاه با گچ کشیدیم
من یادمه وفتی اولین ویدئو ساتسی رو دیدم
من یادمه وقتی پسوورد تامبلر ساتسی رو گیر اوردم و بازش کردم
0 notes
پیکرِ شرم و حیا
سلسلۂ نسب حضرت عثمان بن عفّانامتیازی شانرفیقِ رسول ﷺنور والےنبیﷺ کا ہاتھ، حضرت عثمان کا ہاتھجود و سخا میں سب سے بڑھ کرخلافتِ عثمان پر آقا ﷺ کی شہادتشہادتِ ذوالنورین
سلسلۂ نسب حضرت عثمان بن عفّان
آپ کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔ پانچویں پشت میں آپ کا سلسلۂ نسب آقا علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی نانی محترمہ ام حکیم البیضاء حضرت عبد المطلب کی صاحبزادی اور حضرت عبداللہ کی سگی جڑواں بہن…
View On WordPress
0 notes
کورد دەڵێت : کە بزن خوا غەزەبی لێگرت نانی شوان دەخوات
زاهیر باهیر
02/07/2023
چەند مەسەلێکی جوان و پڕ مانایە. کورد بە سەدەها مەسەلی ئاوایان هەیە و هەر هەمووشی بە سەدەها جار تاقی کراونەتەوە لەسەر ئاستی تاك و تیرە و کۆمەڵ و هەرە زۆرینەشیان ڕاست و دروست دەرچوون.
هۆکاری ڕاستی و دروستیشیان ئەوە بووە کە خەڵکە نەخوێندەوارەکە ژیان فێری کردوون، واتە ئەزموون و مامەڵە و تاقیکردنەوە ئەوەی پێگەیاندوون وەکو ئێمەی خوێنەوار نەبوون کە لە کتێبەکانەوە فێر…
View On WordPress
0 notes
(41/54) “Mitra couldn’t sleep without me. On the nights when I came home late, I’d always find her awake listening to tapes. We still read poetry together. Even in the midst of the chaos, even on the darkest nights, even if only for twenty minutes. It was my greatest comfort. The time when I felt most at peace. One of the most famous love stories in all of Shahnameh is the tale of Bijan and Manijeh. It’s a special story. Because it’s the one time in Shahnameh when Ferdowsi reveals a glimpse of his own life. He writes in the chapter’s opening that he has fallen into a great depression. He describes a night so dark that no birds sing. He calls for his wife to join him, and she brings him a candle. She offers to tell him a story, and Ferdowsi agrees to weave it into verse. She tells him the story of Bijan and Manijeh. Bijan is a champion of Iran. Manijeh is the daughter of an enemy king. By chance they meet in the forest, and Manijeh mistakes Bijan for an angel. She falls in love at first sight. She smuggles him back to her palace, and they spend several nights in each other’s arms. Until their love is discovered by the king. He grows so angry that he cries tears of blood. He banishes Manijeh from the palace. And he sentences Bijan to a fate worse than death. Total darkness. Bijan is chained to the bottom of the deepest pit, and a stone is rolled over the entrance. But Manijeh will not allow him to die. She roams the countryside, begging for food. She digs a hole beneath the stone, just large enough to fit her hand. And she keeps Bijan alive. One handful at a time.”
میترا بی من خوابش نمیبرد. شبها که دیر به خانه برمیگشتم، میترا را چشم به راه، گوش به آهنگها و ترانهها میدیدم. هنوز برای یکدیگر شعر میخواندیم. در میان آشوب، در تاریکی شب. اگر هم کوتاه، دمی پایدار و دلپذیر در زندگیما بود. یکی از پرآوازهترین داستانهای عاشقانهی شاهنامه، داستان بیژن و منیژه است. فردوسی تنها یکبار در شاهنامه گوشهای از زندگیاش را مینمایاند. در آغاز داستان، فردوسی سخن از افسردگی خود میگوید: شبی چون شبه روی شُسته به قیر / نه بهرام پیدا، نه کیوان، نه تیر / نه آوای مرغ و نه هرای دد / زمانه زبان بسته از نیک و بد / بدان تنگی اندر، بجَستم ز جای / یکی مهربان بودم اندر سرای / مِی آورد و نار و تُرنج و بِهی / زُدوده یکی جام شاهنشهی / دلم بر همه کار پیروز کرد / شب تیره همچون گه روز کرد. در چنین شبی همسرش برایش داستانی میگوید تا آنرا با زبان شیوایش بسراید. مرا گفت برخیز و دل شاد دار / روان را ز درد و غم آزاد دار / نگر تا که دل را نداری تباه / ز اندیشه و داد فریاد خواه / جهان، چون گذاری، همی بگذرد / خردمند مردم چرا غم خورد؟ همسرش داستان بیژن و منیژه را برایش بازمیگوید. بیژن سردار جوان ایرانی از دودهی پهلوانان بزرگ ایران و منیژه دخت افراسیاب، تورانشاه: شود کوه آهن چو دریای آب / اگر بشنود نام افراسیاب. یکدیگر را در جنگل اَرمان میبینند. بیژن به فرمان کِیخسرو به کشتن گرازان آمده است .منیژه بیژن را پریزادهای به زیبایی سیاوش میپندارد، بیژن میگوید: سیاوش نیاَم، نَز پریزادگان / از ایرانم، از شهر آزادگان. منیژه به او دل میبازد و او را پنهانی به کاخ خود میبرد و شبی چند را با شور و شادی میگذرانند. افراسیاب آگاه میشود، بیژن را در چاه و منیژه را در کوی و برزن رها میکند. منیژه، شاهدخت زیبای بیپروا، روزها لب نانی میجوید تا خود و بیژن زنده بمانند. او سوراخی زیر سنگ کَنده بود، به اندازهی یک مُشت
121 notes
·
View notes
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے نشانی پرانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گرتے سنبھلنا
وہ پیتل کے چھاؤں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کے مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوب صورت تھی وہ زندگانی
3 notes
·
View notes
به سوی وطن
همدیاران عزیز ضمن عرض سلام و تبریک به مناسبت فرارسیدن سال نو خورشیدی و نوروزِ باستانی شعر ( به سوی وطن ) تقدیم می گردد .
🚎گوش کن قصه و داستانم
🚎بشنو این ماجرا از زبانم
🚎تا که شعری برایت بخوانم
🔶من ز ابیانه ی باستانم
.
🚎می روم من بسوی ولایت
🚎میکنم بهر تو یک حکایت
🚎گوش کن لحظه ای با عنایت
🔶بشنو جانم کنون داستانم
.
🚎قصد رفتن به ابیانه دارم
🚎روستایی چو گلخانه دارم
🚎بهر می عزم میخانه دارم
🔶اهل ابیانه ی چون جنانم
.
🚎می روم من به سوی غیاثی
🚎تا که یابم ز تهران خلاصی
🚎از دم و دود و حرف سیاسی
🔶همره خویش و با دوستانم
.
🚎منتطر تا بیاید اتوبوس
🚎اکبری با همه هست مانوس
🚎بر رُخم صادقی میکند بوس
🔶شوفر خوب و شیرین زبانم
.
🚎عاقبت آمدند و نشستیم
🚎دل بر الطاف دادار بستیم
🚎گویی از بند و از حصر رستیم
🔶دوری از دِه بریده امانم
.
🚎می رود سم بپاشد ضیایی
🚎بر درختان بریزد دوایی
🚎گفتگو می کند با همایی
🔶عاشق مردم خوش لسانم
.
🚎یک طرف خاندان ظهیری
🚎هست تنها علی بصیری
🚎خانقاهی و دکتر کبیری
🔶مرد خوشرو و شیرین بیانم
.
🚎در جلو کاظمی و جلالی
🚎 بعد از آن عادلی و کمالی
🚎 یک زن و کودک خردسالی
🔶 بعد یزدانیِ مهربانم
.
🚎بعد حاجی رضا زارعی بود
🚎شیعه ی مخلص واقعی بود
🚎آن طرف اکبر صانعی بود
🔶بعد محمودی نوحه خوانم
.
🚎از طره آمده کامرانی
🚎آن طر�� ناظمی و جهانی
🚎پشت شان اهل بیت کیانی
🔶ای مجیدی تویی جان جانم
.
🚎کن دهان را به ذکری معطر
🚎بهر راننده صلوات دیگر
🚎سومی را بلند و جلی تر
🔶بیمه ی لطف صاحب زمانم
.
🚎حس و حالی به یکباره دارم
🚎حال کودک به گهواره دارم
🚎چُرت و خوابی که صد پاره دارم
🔶می دهد چاله چوله تکانم
.
🚎باز کرده زنی سفره نانی
🚎لقمه ای داده با مهربانی
🚎با پنیر میدهد طعم جانی
🔶مزه اش هست زیر زبانم
.
🚎جاده و راهِ ابیانه در پیش
🚎خانمی گفت این را به تشویش
🚎دارد این کودکم یک کمی جیش
🔶عاشق حجب این مادرانم
.
🚎قم رسیدیم و راوند و کاشان
🚎آفتاب است سوزان و تابان
🚎طفل ها از عطش گشته نالان
🔶خشک شد این زبان در دهانم
.
🚎گفت شخصی ، بده جرعه آبی
🚎با توام ، با تو که در رکابی
🚎جان من کن کمی هم شتابی
🔶تشنگی برده تاب و توانم
.
🚎هست شاگردش آنجا کنارش
🚎پارچ آبی و نقش و نگارش
🚎رنگ لیوان سرخ و نزارش
🔶بر لبم آمد این نیمه جانم
.
🚎هنجن و برز و یارند و کمجان
🚎عطر جنت در آن باغ و بستان
🚎می وزد باد خوش در گلستان
🔶تازه شد جان و روح و روانم
.
🚎تاردر با درخت چنارش
🚎آن قنات خوشش در کنارش
🚎عطر گلها به فصل بهارش
🔶عندلیبی در این بوستانم
.
🚎تخت مصلی ، مزار عزیزان
🚎فاتِحه بهر ارواح یاران
🚎یادی از جمله ی مهربانان
🔶مردم این دِه باستانم
.
🚎بوق ها اول ده مدام است
🚎حرف آقا مدام این کلام است
🚎یعنی من آمدم این سلام است
🔶از رسیدن به دِه شادمانم
.
🚎جنت اینجا بُوَد از برایم
🚎بر طرف شد همه دردهایم
🚎از خوشی شعرِ تَر می سرایم
🔶دوست دارم همینجا بمانم
.
🚎یاد دار قصه و شعر من را
🚎شعر محمود سوی وطن را
🚎شرح این شعر هفتاد من را
🔶تا که بعدا برایت بخوانم
.
محمود زمانپور ابیانه
0 notes
عید ملن پارٹی پر گروپ سیکس
قسط نمبر 01
میرا نام ثناء ہے میری فیملی میں ممی پاپا میرے دو بھائی اور میں ہے جو لوگ میری سٹوری پڑتے ہے وہ مجھے جانتے ہے تو بات یہ ہے کے عید پر میں نے بہت ٹائٹ شلوار اور کمیز پہنی جس سے میرے بڑے بڑے ممے اور بھاری گانڈ چلتے ہوئے ہلتے تھے اور صاف نظر آتے تھے اس لباس میں بہت سکسی لگ رہی تھی میں تو گھر کے سب مرد مجھے عید گلے لگا کر ملے اور اور خوب میرے ممے اور گانڈ پر ہاتھ پیرا سب نے اور انجوائے کیا ممی شام کو نانی کے گھر چلی گئی اور دونوں بھائی بھی چلے گئے اب گھر میں اور پاپا ہی تھے پاپا نے بتایا کے میرے دوست عید ملنے آنے والے ہے۔
ڈور بیل ہوئی پاپا نے دروازہ کھولا پاپا کے دو دوست فراز اور شکیل اندر آئے جن کو میں پہلے سے جانتی تھی جب بھی میرا ان دونوں سے آمنا سامنا ہوا تو دونوں میری مموں اور مجھے ہی تاڑتے رہتے تھے میں نے ان کو عید مبارک کہا اور ہاتھ ملایا اور ان کے ساتھ ساتھ میں اور پاپا روم میں چلے گے اور سب بیٹھ کے آپس میں گپ شپ کرنے لگے اور پاپا نے مجھے چائے بنا لانے کا کہا میں اٹھ کر بائر نکلی ابھی میں درواذے کے پاس ہی تھی کے فراز انکل کی آواز میرے کانوں میں پڑی وہ شکیل انکل سے بولے یار فہد کی بیٹی بھی کیا مال ہے کھڑا ہی کروا دیتی ہے شکیل انکل بولے میں تو ابھی بھی مشکل سے کنٹرول کر رہا تھا پاپا بولے شرم کو میری بیٹی ہے تو فراز انکل بولے تمھارے ساتھ ہم نے اپنے کتنے دوست کی بیٹیاں چھودی ہے وہ بھی تو دوست ہی تھے ہمارے اب اپنی بیٹی کا نمبر ہے تو ڈر کیوں رہے ہو پاپا بولے ایسی بات نہیں ہے بے شرموں اور سب کھل کے ہسنے لگے اور میں پھر چائے بنانے کچن میں چل پڑی میری پینٹی گیلی ہونے لگی تھی ان کی باتیں سن کے یہ ہی بات سوسچتے ہوئے میں نے چائے بنائی اور ان کے روم کی طرف چل پڑی چائے لے کے۔۔۔
میں روم میں آئی تو سب آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے میں نے سب کو چائے دی اور صوفے پر پاپا کے ساتھ بیٹھ گئی اور سب چائے پینے لگے اور ساتھ ساتھ باتے کرنے لگے اور پھر شکیل انکل بولے آج عید کا دن ہے تو کوئی گیم کھیلتے ہے فراز انکل بولے ہاں کیونکہ آج عید ہے تو سپیشل گیم کھیلتے ہے سب کو بہت مزا آئے گا پاپا بولے تیرے الٹے دماغ میں کون سی اسپیشل گیم ہے بتاؤ تو وہ مسکرا پڑا اور بولا اگر ثناء بیٹی کھیلنے کا وعدہ کرے تب میں بتاؤں گا...
جاری ہے۔۔۔
2 notes
·
View notes
آرٹس کونسل کراچی میں’ایک شام ماہرہ خان کے نام‘ سے تقریب
کراچی: آرٹس کونسل کراچی پاکستان کی معروف اداکارہ ماہرہ خان کے اعزاز میں خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ’ایک شام ماہرہ خان کے نام ‘ سے معنون نشست کی میزبانی معروف ادیب و دانشور انور مقصود نے کی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ماہرہ خان کا کہنا تھا کہ میری بچپن سے خواہش تھی کہ اداکارہ بنوں، میری نانی کو اس بات پر اعتراض تھا۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ جب مجھے شعیب منصور کی کال آئی تو…
View On WordPress
0 notes