Tumgik
#سینیٹ
urduchronicle · 5 months
Text
پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے، سینیٹ میں قرارداد منظور
سینیٹ نے آج پاک فوج اور سیکیورٹی افسران کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے پر سزا کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کر لی۔ قرارداد پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے پیش کی، قرارداد میں کہا گیا کہ پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کرنے والے کو سخت سزا دی جائے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پاک فوج کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ قرارداد میں دہشت گردی کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
مصطفی نواز کھوکھر سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ، استعفی چیئرمین سینیٹ کو پیش کر دیا
مصطفی نواز کھوکھر سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ، استعفی چیئرمین سینیٹ کو پیش کر دیا
اسلام آباد(نمائندہ عکس ) پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ مصطفی نواز کھوکھر نے اپنا استعفی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو پیش کیا جس کی تصویر انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکانٹ پر شیئر کی۔ مصطفی نواز کھرکھر نے اپنی پوسٹ میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کی قیاس آرائیوں کی تردید کی۔ استعفے کے متن میں کہا گیا ہے کہ میں سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی ہدایت پر اپنا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
ویڈیو: 'سینیٹ کی نانی' کون ہے��
ویڈیو: ‘سینیٹ کی نانی’ کون ہے؟
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور سینیٹر شیری رحمٰن کی مزاحیہ گفتگو پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا Source link
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
paknewsasia · 2 years
Text
امریکی سینیٹ نے گن سیفٹی بل منظور کرلیا
امریکی سینیٹ نے گن سیفٹی بل منظور کرلیا
امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ امریکیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دفاع کی غرض سے وہ عوامی مقامات پر بھی اسلحہ ساتھ لے کر جاسکتے ہیں۔ خبر ایجنسی کے مطابق تمام امریکی سینیٹ نے گن سیفٹی بل منظور کیا اس بل کی حمایت میں 65 اور مخالفت میں 33 ووٹ پڑے۔ امریکی سپریم کورٹ نے اسلحہ ساتھ لے کر عوام میں جانے کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ عوام میں اسلحہ اپنے ساتھ لے کر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 10 months
Text
پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی، سینیٹ میں بل آج پیش کیا جائیگا
اسلام آباد: سینیٹ میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل آج پیش کیا جائے گا جس سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی اور سیاسی معاملات یا فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا، طاقت کا استعمال اور تشدد کرنا، اکسانا یا ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پرتشدد انتہا پسند ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں دوسرے کو طاقت کے استعمال،…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کاشغر' گوادر ریلوے لائن
Tumblr media
28 اپریل 2023 کے اخبارات میں ایک بہت ہی اچھی خبر شایع ہوئی ہے‘ خبر کے مطابق ’’چین کے روڈ اور بیلٹ پروجیکٹ کے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے‘ جس میں گوادر سے سنکیانگ تک 58 ارب ڈالر کے نئے ریل منصوبے کی تجویز دی گئی ہے‘ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملا دے گا‘‘۔ انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کو جاتے ہوئے جو تحفے دیے‘ ان میں ریل سب سے بہترین ذریعہ سفر تھا۔ اب تو ہم ریلوے کے ساتھ ساتھ اس کی پٹڑیاں بھی کباڑ میں فروخت کر کے کھا چکے ہیں‘ معلوم نہیں ہمارا پیٹ کب بھرے گا؟ اب چین کے تعاون سے نئی ریلوے لائن اور موٹر وے کا چرچا ہے‘ جو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کو بحیرہ عرب کے دہانے پر واقع پاکستان کی بندر گاہ گوادر سے ملائے گی۔ چین سے آنے والی اس سڑک اور ریلوے لائن کا روٹ پاکستان میں کون سا ہونا چاہیے اس سلسلے میں مختلف فورموں پر بحث ہو رہی ہے‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے اور مختلف تجاویز پیش کی ہیں، اس سلسلے میں سب سے بہترین حل نواز شریف کے دور حکومت میں اس وقت کے چیئرمین ریلوے و چیئرمین واپڈا محترم شکیل درانی نے پیش کیا تھا، قارئین کی دلچسپی کے لیے یہ تجاویز پیش خدمت ہیں‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور شاہراہ‘ کی بہت زیادہ اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت ہو گی۔ 
Tumblr media
کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ ڈیرہ غازی خان اور اندرون بلوچستان کے علاقوں کی دوسرے علاقوں کی بہ نسبت پسماندگی کی بڑی وجہ ریلوے لائن کا نہ ہونا بھی ہے۔ ضروری ہے کہ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن اور سڑک کے روٹ کے لیے وہ علاقے منتخب کیے جائیں جو پسماندہ اور دور دراز واقع ہوں تاکہ ان علاقوں کو بھی ترقی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے۔ سنکیانگ کے شہر کاشغر سے آنے والا راستہ دو اطراف سے پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے‘ یہ کاشغر کے نزدیک درہ کلیک ور درہ منٹاکا سے گزرے گی چونکہ یہ درے کاشغر کے نزدیک ہیں یا پھر یہ درہ خنجراب سے ہوکر آ سکتی ہے‘ اول ذکر درّے پرانے قافلوں کے راستے ہیں اور شاید ان کے ذریعے گلگت تک ایک متبادل راستہ بذریعہ غذر مل جائے گا‘ یہ راستہ آگے ملک کے باقی علاقوں کے ساتھ مل جائے گا اور یہ موجودہ قراقرم ہائی وے کے علاوہ ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر انڈس ہائی وے نے پہلے سے ہی کراچی اور پشاور کے درمیان فاصلہ 300 میل کم کر دیا ہے‘ اس طرح نئی ریلوے لائن بھی پرانی کی نسبت چھوٹی ہو گی پرانی لائن کی مرمت اور سگنلنگ کے نظام کو بہتر کر کے اسپیڈ بڑھائی جا سکتی ہے‘ بجائے اس کے کہ نئی لائن بچھائی جائے‘ پرانی لائن کو لاہور سے پنڈی تک ڈبل کیا جائے اس سے اخراجات بھی کم ہوں گے‘ نئی ریلوے لائن کو کشمور سے آگے بلوچستان کے اندرونی علاقوں خضدار اور تربت وغیرہ سے گزار کر گوادر تک لایا جائے۔
کوئٹہ کے لیے موجودہ لائن بہتر رہے گی اور اس کو گوادر تک توسیع دی جائے تاکہ سیندک‘ریکوڈیک اور دوسرے علاقوں کی معدنیات کو برآمد کے لیے گوادر بندرگاہ تک لانے میں آسانی ہو ۔ تربت‘ پنچ گور‘ آواران‘ خاران اور خضدار کی پسماندگی کا اندازہ ان لوگوں کو ہو سکتا ہے جنھوں نے یہ علاقے خود دیکھے ہوں یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں اور ریاست کی طرف سے بہتر سلوک کے مستحق ہیں، دریائے سندھ کے داہنے کنارے پر واقع انڈس ہائی وے آج کل افغانستان کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بنوں میرعلی روڈ آگے سرحد پر واقع غلام خان کسٹم پوسٹ سے جا ملتی ہے۔ 2005 میں کی گئی انڈس ہائی وے کے ساتھ نئی ریلوے لائن کی فیزیبلٹی رپورٹ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، اس ریلوے لائن کو افغانستان تک توسیع دی جا سکتی ہے‘ کوئٹہ چمن لائن بھی بہت مناسب ہے‘ دادو سے گوادر تک ریلوے لائن صرف پیسوں کا ضیاع ہو گا، گوادر سے کراچی تک کوسٹل ہائی وے اس بندرگاہ کی فوری ضروریات کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں بہت سے علاقے حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندہ رہ گئے ہیں ’اس لیے مستقبل میں جو بھی منصوبہ بنے اس کا ہدف پسماندہ علاقوں کی ترقی ہونا چائے‘‘۔
جمیل مرغز  
بشکریہ ایکپریس نیوز
2 notes · View notes
ashraafaliali · 2 years
Text
*صرف عوام ہی کیوں؟*
اگر ملک اتنا ہی خسارے میں ہے تو ججز، فوجی افسران، بیوروکریٹس، وزیر، مشیر، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی و سینیٹ سب کے فری پیٹرول بجلی گیس اور دیگر مراعات بھی صرف چھ ماہ کے لیے آج رات بارہ بجے سے ختم کئے جائیں۔
صرف_عوام_ہی_کیوں؟ یہ بھی تو محب وطن ھیں۔
4 notes · View notes
shiningpakistan · 15 days
Text
معیشت کی بحالی کیلئے آخری موقع
Tumblr media
گزشتہ دنوں میری کراچی اور اسلام آباد میں ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نے معیشت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کئے جانے کو آخری موقع (Lifeline) قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ ان اقدامات کو مزید موخر کرسکے۔ میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت اب اس ڈگر پر آگئی ہے جہاں ہمیں سیاسی سمجھوتوں کے بجائے ملکی مفاد میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس مینوں کی ایک ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ اور اسلام آباد میں ’’لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ‘‘ میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، معاشی ماہرین اور میں نے ملکی معیشت پر اہم تجاویز دیں جس میں معیشت کی بہتری کیلئے اسٹیٹ بینک کے 22 فیصد ڈسکائونٹ ریٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں PIA، واپڈا، ریلویز، ڈسکوز جو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں، کی فوری نجکاری، صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی اور سستی توانائی کی فراہمی شامل ہے۔
دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہا۔ بینکوں کی 24 فیصد شرح سود پر کوئی سرمایہ کار نئی صنعت لگانے کو تیار نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں 80 فیصد کمی آئی ہے جس سے معاشی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کی وجہ سے ہمیں 8500 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی لاکر ہم بجٹ خسارے میں 2500 ارب روپے کی کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویزی سے ہم 3000 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں 2000 ارب روپے کی ٹیکس کی چوری ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ریونیو یعنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے نقصانات ہم بھگت چکے ہیں لہٰذا ہمیں روپے کی قدر اور ڈالر ریٹ کو مارکیٹ میکنزم کے حساب سے طلب اور سپلائی کے مطابق رکھنا ہو گا۔ 
Tumblr media
افراط زر یعنی مہنگائی 17.3 فیصد ہو چکی ہے جو مئی 2023 ء میں 38 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی تھی اور اسے بتدریج کم کر کے سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا تاکہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جاسکے۔ گوکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں رہتے ہوئے ان اقدامات پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان سے آئندہ 2 سال میں ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہونگی۔ پرانے IPPs معاہدوں کی تجدید ملک میں توانائی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلاتی آفر (Bidding) پر کی جائے تاکہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں حکومت کو کیپسٹی سرچارج کی ناقابل برداشت ادائیگی نہ کرنا پڑے جس کے باعث پاکستان کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 5500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ جس کا معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، بمشکل 1.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ٹریڈر جس کا ملکی جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے، بمشکل ایک فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، یہی حال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہے جبکہ صنعتی سیکٹر، جس کا ملکی معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، پر ٹیکسوں کا 65 فیصد بوجھ ہے۔ 
اسی طرح سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لہٰذا ہمیں ملکی معیشت کے ہر سیکٹر سے اس کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانا ہو گی جس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے جسے بڑھاکر ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی طرح 18 فیصد تک لے جانا ہو گا جو آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ، بینکوں کے شرح سود اور ٹیکس ریٹ ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہورہی ہیں لہٰذا حکومت کو سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان تینوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنہیں فروغ دیکر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کیساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ 
مجھے خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط پاکستان کو موصول ہو گئی ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سال یا زیادہ مدت کے قرض پروگرام کی درخواست کی ہے جس پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا مشن دو ہفتے کے دورے پر پاکستان آئے گا۔ آئی ایم ایف نے پنشن پر ٹیکس کا نفاذ اور پنشن ادائیگی کی مدت میں کمی پر زور دیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے بھی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرآمد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
dgpr-punjab-newsroom · 2 months
Text
وزیراعلی مریم نواز شریف کی عیدالفطر پر فول پروف سکیورٹی انتظامات کی ہدایت
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390 ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آراو ٹو سی ایم ہینڈ آؤٹ نمبر 465 وزیراعلی مریم نواز شریف کی یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ اور سیدال خان ناصر کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے پر مبارکباد یوسف رضا گیلانی اور سیدال خان ناصر کی رہنمائی میں سینیٹ جمہوری اصولوں کے مطابق تعمیری مکالمے اور مباحثے کے پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا رہے…
View On WordPress
0 notes
jhelumupdates · 2 months
Text
امریکا: عدیل عبداللہ منگی کی بطور پہلے مسلمان اپیلیٹ جج تعیناتی غیریقینی کا شکار
0 notes
pakistanpress · 4 months
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے ��س کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 6 months
Text
فوجی عدالتوں کے حق میں قرارداد منظوری کے خلاف سینیٹ میں ہنگامہ، اجلاس ملتوی
سینیٹ کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگیا۔اراکین نے گذشتہ روز فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں منظور کی گئی قرارداد پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا۔اس دوران کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیا گیا۔ سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت شروع ہوا تو نکتہ اعتراض پر سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ گزشتہ روز ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں قراداد منظور کی گئی۔قراداد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
akksofficial · 2 years
Text
سینیٹ میں حکومت کو بڑا دھچکا ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف حکومتی سینیٹرز بھی پھٹ پڑے
سینیٹ میں حکومت کو بڑا دھچکا ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف حکومتی سینیٹرز بھی پھٹ پڑے
اسلام آباد(نمائندہ عکس) سینیٹ میں حکومت کو بڑا دھچکا ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومتی سینیٹرز بھی پھٹ پڑے ، اپوزیشن ارکان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوام دشمنی ہے سنگ دلی ہے ، معاشی دہشت گردی ہے، اس سے عوام پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا ، یہ ثابت ہو گیاکہ پی ڈی ایم کی حکومت ناکام حکومت ہے، جب پیٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
الیکشن کمیشن نے ڈار کی سینیٹ رکنیت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
الیکشن کمیشن نے ڈار کی سینیٹ رکنیت کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار۔ — اے ایف پی/فائل اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پیر کو مسلم لیگ (ن) کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسحاق ڈار کا انتخابات کے 60 دنوں کے اندر سینیٹر کی حیثیت سے حلف نہ اٹھانے پر سینیٹ کی نشست “خالی”۔ آج کی سماعت کے آغاز پر ڈار کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل کی بطور سینیٹر جیت کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 4 months
Text
معاشیات میں اعلیٰ ڈگری رکھنے والے سرتاج عزیز
Tumblr media
ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں اعلیٰ ڈگری رکھنے والے سرتاج عزیز انتہائی زیرک سیاستداں اور ماہر اقتصادیات تھے۔ نیشنل پلاننگ کمیشن میں ملازمت کے دوران بھی انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 1971 میں، انہوں نے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے کموڈٹیز اینڈ ٹریڈ ڈویژن کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنے بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا۔ انہیں بین الاقوامی فنڈ فار ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ کے نائب صدر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا ۔ اپنے سیاسی سفر کا آغاز انہوں نے وزیر مملکت برائے خوراک و زراعت کے طور پر کیا، اس کے بعد بحیثیت وزیر خزانہ خدمات انجام دیں اور پھر وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 1985 سے 1999 تک پاکستان سینیٹ کے رکن رہے۔ 2004 سے 2013 تک بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد انہوں نے قومی سلامتی اور خارجہ امورکے مشیر کے طور پر اپنا سیاسی کیریئر دوبارہ شروع کیا۔  
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
apnabannu · 5 months
Text
الیکشن التوا پر سینیٹ کی قرارداد: ’کچھ قوتیں پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں‘
http://dlvr.it/T10cNR
0 notes