Tumgik
#پی سی ون
googlynewstv · 10 days
Text
وائٹ بال ہیڈ کوچ گری کرسٹن لاہورپہنچ گئے
وائٹ بال  ہیڈ کوچ پاکستان کرکٹ ٹیم گیری کرسٹن  لاہور پہنچ گئے۔ گیری کرسٹن  ساوتھ افریقہ سے براستہ دبئی لاہور پہنچے۔ گیری کرسٹن   چیمپئینز ون ڈے کپ کے میچز کے دوران فیصل آباد میں موجود ہوں گے۔ گیری کرسٹن کھلاڑیوں کی کارکردگی مانیٹر کریں گے اور مینٹورز سے مشاورت بھی کریں گے۔گیری کرسٹن کو  چیمپئینز ٹرافی سے قبل مضبوط  ون ڈے اسکواڈ ترتیب  دینے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ گیری کرسٹن  پی سی بی کے مستقبل کے …
0 notes
dpr-lahore-division · 1 month
Text
سندھ کے نیشنل سٹڈی ٹورپی ایم ایس افسران کی کمشنر لاہور آفس آمد/بریفنگ اجلاس
کمشنر لاہور زید بن مقصود کی زیر صدارت ڈسکشن و بریفنگ اجلاس۔لاہور کے محکموں نے بریفنگ دی
حکومت سندھ ایس اینڈ جی اے ڈی کے تحت 7ویں سی ایس ٹی پی پروگرام کے تربیتی افسران کی شرکت
ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ جاوید رشید چوہان۔ایڈیشنل کمشنر حامف ملہی۔ایڈیشنل کمشنر ریونیو عثمان غنی۔ سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی بابر صاحبدین۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر حافظ اقبال ۔آے ڈی جی ہیڈکوارٹر ایل ڈی اے ڈاکٹر مجتبی بھروانہ سمیت ایم سی ایل۔واسا افسران کی شرکت
کمشنر لاہور زید بن مقصود نے سندھ صوبائی افسران کو خوش آمدید کہا۔تعارفی سیشن منعقد ہوا
۔کمشنر لاہور نے لاہور سطح پر تمام محکموں کے درمیان رابطہ کار میکانزم و ورکنگ بارے صدارتی بریفنگ دی
۔کمشنرلاہور نے پنجاب حکومت کے شہری خدمات فراہمی کے نئے پروگرامز پر روشنی ڈالی
تربیتی افسران کو ستھرا پنجاب۔پرائس چیکنگ۔سموگ۔کےپی آئیز۔سوشو اکنامک رجسٹریشن۔مون سون انتظامات پر آگاہ کیا گیا
سی ای او ایل ڈبلیو ایم سی بابر صاحبدین نے صفائی کارکردگی و چیلنجز پر تفصیلا بریفنگ دی
ڈاکتر مجتبی مرتضی نے پرائیویٹ و ریگولر ہاوسنگ سوسائیٹیز اور ون ون ونڈو خدمات فراہمی بارے بریفنگ دی
لاہور موجودہ مون سون میں 360ایم ایم ریکارڈ بارش ہوئی۔بہترین انتظامات کے باعث کامیاب نکاسیئ آب آپریشن رہا۔کمشنر لاہور
۔کمشنر لاہور نے سندھ ایس اینڈ جی اے ڈی کے سینیر افسران کو شیلڈز بھی دیں۔
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
نواز شریف کی واپسی
Tumblr media
30 سال سے بھی زائد عرصے قبل، اقتدار سے اپنی پہلی بے دخلی کے بعد سے نواز شریف کی جب بھی وطن واپسی ہوئی ہے، ان میں ان کی تازہ ترین واپسی کے امکانات سب سے کم تھے۔ حالانکہ اس مرحلے پر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن 8 فروری کے انتخابات کے بعد نواز شریف کے اگلی حکومت بنانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر وہ خود وزیر اعظم نہیں بھی بنتے تو بھی امکانات یہی ہیں کہ جو بھی یہ عہدہ سنبھالے گا اسے ان کی آشیرباد حاصل ہو گی۔ کئی مہینوں سے حالات رفتہ رفتہ ان کے حق میں تبدیل ہو رہے ہیں لیکن آنے والے ہفتوں میں اس میں تیزی نظر آئے گی۔ اس کا آغاز تقریباً پانچ سال کی جلاوطنی کے بعد ان کی پاکستان واپسی کی تاریخ کے اعلان سے ہوا۔ اس کے بعد لاہور میں ان کی واپسی اور پہلی ریلی کا دن آیا، جس میں انہوں نے مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال ملک کو ترقی دینے کے لیے سب سے زیادہ موزوں وزیر اعظم کے طور پر خود کو پیش کیا۔ اس کے بعد پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم، انتخابی دوڑ میں شامل دیگر پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ، اور آنے والے انتخابی مقابلے کے لیے تیاری کا مختصر وقفہ آیا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے ان کے مرکزی حریف، پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان چھین لیا تو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آخری شکوک و شبہات بھی دور ہوگئے اور انتخابی مہم شروع ہو گئی۔
ان کی انتخابی مہم کی تقاریر سنیں تو آپ کو ایک حکمت عملی نظر آئے گی۔ وہ اپنے جلسوں میں دو کام کر رہے ہیں۔ پہلا کام ووٹروں کے ساتھ جڑنا اور دوسرا ان معروف افراد یا خاندانوں پر توجہ دینا جو دیہی یا نیم شہری حلقوں کو چلاتے ہیں جن پر نواز شریف نے اب تک اپنی مہم کو مرکوز کیا ہوا ہے۔ نواز شریف ووٹرز سے اس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں کہ ’2017ء میں جب میں نے اقتدار چھوڑا تو ایک روٹی کتنے کی تھی؟ بجلی کا ایک یونٹ کتنے کا تھا؟ آپ ایک کلو چینی کتنے میں خریدتے تھے؟ یوریا کھاد کا ایک تھیلے کتنے کا تھا؟‘ مصنوعات کی یہ فہرست شہری یا دیہی حلقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے اور ہر کی چیز کی ماضی کی قیمت پوچھنے کے بعد وہ حاضرین ��ے معلوم کرتے ہیں کہ وہ آج اس کی کتنی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ ’تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟‘، ’یہ ظلم کس نے کیا؟‘ ’تم جا کر اس سے پوچھو، جس نے بھی یہ کیا کہ اس نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘ یہ ایک مکروہ پیغام ہے۔ 2017ء سے اب تک ملک میں مہنگائی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 
Tumblr media
اس کی وجوہات پر بحث کی جاسکتی ہے، میں پہلے بھی متعدد بار اس پر اپنے خیالات لکھ چکا ہوں۔ انتخابی مہم کے مقاصد کے لیے ان وجوہات کو جاننا ضروری نہیں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ یہ ہوا ہے۔ 2017ء کو نقطہ آغاز بنا کر وہ اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتے ہیں کہ اس مہنگائی میں بڑا اضافہ اس دور میں ہوا جب شہباز شریف وزیراعظم تھے۔ بیانیے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم کی ایک تقریب میں کہا کہ ’میں نے آپ کو بہت یاد کیا، میں طویل عرصے تک آپ سے دور رہا اور مجھے وہ سب دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے جو آپ کو میرے دور رہتے ہوئے بھگتنا پڑا‘۔ ان کی مہم کا پیغام اس مشکل کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے جس سے ووٹر سب سے زیادہ متاثر ہیں یعنی اخراجات پورے کرنے میں دشواری۔ مثال کے طور پر ایک چھوٹے سے صنعتی شہر حافظ آباد میں جہاں محنت کش طبقے کی ایک تعداد رہتی ہے نواز شریف نے جلسے میں موجود لوگوں سے کہا کہ ’اگر مجھے 2017ء میں نہ ہٹایا جاتا تو آج حافظ آباد میں بے روزگاری نہ ہوتی!‘۔
سیالکوٹ میں انہوں نے عمران خان کے دور میں 2020ء میں ٹریفک کے لیے کھولی جانے والی موجودہ موٹروے میں موجود تمام خامیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس شہر کو لاہور سے ملانے والی ایک نئی موٹر وے بنانے کا وعدہ کیا۔ مانسہرہ میں، انہوں نے ��ی پیک ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریل روڈ کی بحالی مکمل ہونے کے بعد ایک ریلوے اسٹاپ کا وعدہ کیا، ایم ایل ون 8 ارب ڈالر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ وہاڑی میں انہوں نے یہ کہہ کر ایک میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا کہ تہمینہ دولتانہ نے اپنے حلقے کے لیے اس کا تقاضا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ٹھیک ہے، ہم تمہیں میڈیکل کالج دیں گے، لیکن پہلے ووٹ حاصل کرو اور جیتو‘۔ یہ بات ہمیں ان کی حکمت عملی کے دوسرے نکتے پر لے آتی ہے یعنی اس طاقت کا فائدہ اٹھانا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ ان کے ہاتھ آنے والی ہے اور پھر اس کا استعمال پنجاب کے بااثر افراد اور خاندانوں کو راغب کرنے کے لیے کرنا اور اس صوبے کے غالب سیاسی خاندانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ استوار کرنا۔ دیہی اور چھوٹے شہروں کے حلقوں میں سیاسی خاندان اہم ہوتے ہیں۔ 
نواز شریف یہ بات کسی اور سے بہتر جانتے ہیں اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اس بات کا تفصیلی علم ہے کہ کون، کہاں کتنی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ اب یہ پیغام دے رہے ہیں لوگ اب ان کی ٹرین میں سوار ہو جائیں۔ ان کے منشور میں بڑے بڑے معاشی وعدے کیے گئے ہیں، جیسے جی ڈی پی کی شرح نمو کو 6 فیصد تک بحال کرنا، گردشی قرضے کو ختم کرنا، وغیرہ۔ تاہم، ابھی کے لیے، انہوں نے خود کو انتخابی مہم کے وعدوں، ووٹروں اور سیاسی خاندانوں کے ساتھ جڑنے اور ان کی زندگیوں کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا وعدہ کرنے میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ آگے انتخابات ہوں گے، اس کے بعد نئی پارلیمنٹ کا اجلاس طلب ہو گا، صدر کی جانب سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کو اپنی اکثریت بنانے کی دعوت دی جائے گی، قائد ایوان کا انتخاب ہو گا اور وفاقی کابینہ کی تقرری ہو گی۔ نواز شریف کی جلاوطنی سے واپسی کی خبر آنے سے کابینہ کی تقرری تک نو ماہ کے قریب کا عرصہ گزر چکا ہو گا۔ عمران خان کی پریشانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی اور وہ مقدمات، سزاؤں، اپیلوں، نااہلی، انحراف، گرفتاریوں، لیکس وغیرہ کے تلے دب جائیں گی۔
آہستہ آہستہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ نواز شریف واپس آچکے ہیں اور اب اقتدار میں اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے وسائل تلاش کرپائیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کا نصف بھی پورا کرسکیں؟ ترقی اور نمو کی بحالی پر ان کی توجہ کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے ساتھ ان کی وابستگی کچھ پیچیدہ ہو جائے گی۔ نواز شریف شاید واپس آگئے ہوں، لیکن ترقی اور روزگار کے ساتھ شاید ایسا نہ ہو۔
خرم حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
emergingkarachi · 9 months
Text
کے فور منصوبہ ناگزیر
Tumblr media
تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل، ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کی پانی کی ضروریات بڑھتی آبادی کیساتھ ساتھ پوری کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم کے فورپراجیکٹ دو عشرے قبل سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور میں بنایا گیا تھا لیکن حکومتی لیت و لعل کے باعث مسلسل تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ تاہم گزشتہ روز چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی کے دورے کے موقع پر دی گئی بریفنگ میں متعلقہ حکام نے نوید سنائی ہے کہ منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل اکتوبر 2024ء میں طے ہے جس پر 40 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ منصوبے کی پی سی ون لاگت 126 ارب روپے ہے جبکہ 40 ارب خرچ ہو چکے۔ اس موقع پر سندھ حکومت کی جانب سے منصوبے کیلئے درکار بجلی کے نظام اور کراچی واٹراینڈ سیوریج کارپوریشن کی جانب سے پانی کی تقسیم کے نظام میں توسیع سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔ 
Tumblr media
کے فور آبی منصوبے سے کراچی کو کینجھر جھیل سے روزانہ 650 ملین گیلن پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ دو مراحل میں مکمل ہو گا۔ واپڈا اس وقت منصوبے کے پہلے مرحلے کو تعمیر کر رہا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کی بدولت کراچی کو روزانہ 260 ملین گیلن پانی میسر آئے گا۔ منصوبے میں اس قدر تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت پہلے ہی کئی گنا بڑھ چکی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اب مزید تاخیر کے بغیر اس کے دونوں مرحلے بروقت مکمل کیے جائیں جس کے لیے ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی چیئرمین واپڈا نے اپنے دورے کے موقع پر کرائی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا ایک بنیادی سبب عموماً کرپشن ہوتی ہے جس کا دروازہ بند کرنے کے لیے سرکاری مشینری کی تمام سرگرمیوں میں مکمل شفافیت کا اہتمام لازمی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
شاہین آفریدی آسٹریلیا سیریز میں ٹیسٹ سکواڈ کے نائب کپتان مقرر
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے بدھ کو فاسٹ باؤلر شاہین شاہ آفریدی کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا نائب کپتان مقرر کر دیا۔ پاکستان کے لیے 27 ٹیسٹ، 53 ون ڈے اور 52 ٹی ٹوئنٹی کھیلنے والے شاہین کو بابر اعظم کے آل فارمیٹ کی کپتانی سے سبکدوش ہونے کے بعد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ٹیم کا کپتان بھی مقرر کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کا دورہ ریڈ بال کرکٹ ٹیم کے کپتان اور نائب کپتان کے طور پر شان مسعود…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 10 months
Text
بابراعظم نمبر ون پلئیر ہیں، ذکا اشرف کا پنڈی اسٹیڈیم کا دورہ - ایکسپریس اردو
ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ اور چیف سلیکٹر وہاب ریاض سے بھی ملاقات (فوٹو: ایکسپریس ویب) پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کا کہنا ہے کہ بابراعظم نمبر ون پلئیر ہے بطور کھلاڑی ملک کا نام روشن کررہا ہے۔ دورہ آسٹریلیا کیلئے ٹریننگ سیشن کے دوسرے روز راولپنڈی اسٹیڈیم کا دورہ کیا، اس دوران میجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نے ٹیسٹ کپتان شان مسعود، فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی، ٹیم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
kiyarashsposts · 11 months
Text
سفر با اطمینان: فرودگاه ما در خدمت مسافران عزیز است
اجاره ون در فرودگاه امام خمینی
در بین بزرگراه تهران _ قم و در سی کیلومتری شهر تهران، فرودگاه بین المللی امام خمینی قرار دارد. این فرودگاه نقطه ی شروع سفر به سایر مناطق ایران و دیگر کشورهاست. برای رسیدن به این فرودگاه درصورتی که تعداد اعضای خانواده و یا دوستانی که شما را همراهی می کنند زیاد باشد، این امکان وجود دارد تا با اجاره ون در فرودگاه امام خمینی و با خیال آسوده و در ساعت مقرر به پرواز خود برسید. البته شرایط اجاره ون در فرودگاه امام خمینی، شرایط مخصوص به خود را دارد که ادامه توضیح خواهیم داد. همان طور که می دانید اگر جمعیت افراد بیش از 5 نفر باشد مقرون به صرفه نیست که با دو یا سه خودروی سواری مسافت منزل تا فرودگاه و یا بالعکس را طی نمایید. بی تردید یکی از ارزان ترین راه ها جهت رسیدن به فرودگاه امام خمینی برای جمعیت های بالا، استفاده از خودروهای اجاره ای ون خواهد بود.
اهمیت اجاره ون در فرودگاه امام خمینی
از خدمات حمل ونقل لوکس جهت استقبال از میهمانان مهم در فرودگاه امام خمینی، اجاره ون است که شرکت الوون به خوبی این خدمات را ارائه می نماید. همان طور که می دانید فرودگاه امام خمینی از پر پروازترین فرودگاه های بین المللی در ایران است. برای پروازهای داخلی نیز با اختلاف اندک در رتبه دوم بعد از فرودگاه مهرآباد قرار دارد. مدیران و رؤسای شرکت ها و افراد مهم سیاسی و همچنین میهمانان خارجی ازجمله افرادی هستند که از خدمات ون تشریفاتی استفاده می نمایند. همچنین با توجه به مطالبی که در قسمت های قبل گفته شد، افرادی که با جمعیت های بالا عازم سفر هستند می توانند از این خدمات بهره مند گردند. در جریان هستید که هر فرد برای سفر حتماً تعدادی چمدان و ساک همراه خود دارد که فضای زیادی را اشغال خواهد نمود؛ بنابراین در اینجا به اهمیت اجاره ون در فرودگاه امام خمینی پی خواهید برد. چون شما به طور مثال با کرایه یک ماشین لوکس ژاپنی، می توانید به آسانی و راحتی به سفر خود بپردازید و در سریع ترین زمان ممکن به مقصد برسید.
شرایط اجاره ون در فرودگاه امام خمینی
شرایط اجاره ون در فرودگاه امام خمینی در شرکت کافه رنت با توجه به نوع ون و نوع خدمات دریافتی مشخص گردیده و دریافت می شود. تابعیت و شرایط فرد اجاره کننده خودرو، ازجمله فاکتورهایی است که بر روند کار تأثیرگذار است.
• اجاره ون بدون مدرک
ون ها اغلب با راننده بوده و بنابراین برای اجاره کردن ون به مدرک خاصی نیاز نیست. نماینده شرکت به عنوان راننده در خودرو حضور دارد و همه مسئولیت های خودرو به عهده ایشان خواهد بود. پس شرایط اجاره ون در فرودگاه امام خمینی بسیار آسان بوده و کرایه خودرو به صورت کیلومتری و ساعتی محاسبه می گردد. در هنگام اجاره ون کارشناسان شرکت ما، عکس بلیت پرواز شما را تحویل می گیرند.
• تیم پشتیبان الوون
در کل هماهنگی های پرواز به عهده تیم ما کافه رنت بوده که با استعلام ساعت پرواز، راننده در گیت با یک پلاکارد که نام شما روی آن درج شده منتظر شما می ماند. سایت کافه رنت امکان جستجوی خودرو بر اساس نیاز شما را چه ازنظر نوع خودرو و چه ازنظر قیمت ارائه خواهد داد.
البته با توجه به این که ترانسفر را نمی توان روی بلیت هواپیما خرید بنابراین برای استفاده از خدمات ترانسفر لازم است که به مؤسسه اجاره خودرو رجوع نمایید.
Tumblr media
جهت کسب اطلاعات بیشتر و گرفتن مشاوره میتوانید با مشاوران ما تماس بگیرید.
شماره تماس: 09120959060
اجاره ون برای ترانسفر فرودگاهی در شرکت الوون
آشنا نبودن مسافران به مسیرها، خستگی مفرط و نیز وجود گردشگران و توریست های داخلی و خارجی که به شکل گروهی مسافرت می نمایند، موجب می شود که این افراد به محض رسیدن به فرودگاه به دنبال اجاره ون باشند.
• رانندگان مجرب
ون های اجاره ای در شرکت کافه رنت، رانندگان بسیار مجرب و دوره دیده دارد که همراهان بسیار خوبی برای شما در طی سفر خواهند بود و به شما این امکان را می دهند تا با خیالی آسوده و با استفاده از ظرفیت ها و امکانات داخلی ماشین به راحتی از فرودگاه به سایر نقاط سفر کنید.
• امکانات رفاهی
ون های اجاره ای شرکت ما مجهز به سیستم وای فای بوده و شما می توانید در طول سفر از اینترنت استفاده کنید. همچنین این ون ها مجهز به صندلی کودک هستند که موجب راحتی کودکان و والدین آن ها خواهد بود.
• بیمه های مسافرتی
از دیگر ویژگی های این ماشین ها می توان به بیمه مسافرتی آن ها اشاره کرد که همگی مسافران در طی سفر بیمه می گردند. وجود راننده های مجرب و کارآزموده و مسلط به زبان های مختلف همچون انگلیسی، فرانسوی، ترکی و غیره از شاخصه های دیگر این ون ها است. در ضمن این خودروها مجهز به سیستم گرمایشی و سرمایشی باکیفیت بالا هستند. رانندگان این ون ها آمادگی لازم جهت سفرهای طولانی را داشته و بنا به درخواست مسافران برای مقصد موردنظر حرکت می کنند.
مشکلات اجاره ون در فرودگاه امام خمینی
ون های شخصی ممکن است فاقد کیفیت لازم و امکانات رفاهی برای مسافران باشند. همچنین ازنظر بیمه نیز ممکن است مشکلاتی داشته باشند. این احتمال وجود دارد که رانندگان ون های شخصی مسلط به زبان های خارجی نباشند و این مسئله می تواند مشکلاتی را برای گردشگران و مسافران ناآشنا به مسیرها ایجاد نماید. قیمت ها نیز ممکن است به صورت سلیقه ای اعمال شود و این موضوع نیز می تواند موجب نارضایتی مسافران گردد. بنابراین در اینجا توصیه می کنیم که جهت اجاره ون در فرودگاه امام خمینی حتماً از سایت ها و شرکت های معتبر مانند کافه رنت استفاده نمایید.
معرفی ون های مناسب در فرودگاه امام خمینی و ویژگی های آن ها
در ادامه به معرفی شماری از انواع مختلف ون های اجاره ای الوون خواهیم پرداخت:
جهت اجاره ون برای فرودگاه امام خمینی، بایست چند روز قبل از عازم شدن با همکاران ما جزئیات زمان بندی، رزرو، قیمت و نیز کرایه ون را بررسی و چک نمایید.
• ون تویوتا هایس
این خودرو از کیفیت فنی بالایی برخوردار است و بر همین اساس جزء پرطرفدارترین ون ها محسوب می شود. این ماشین ازنظر طراحی فضای داخلی بسیار عالی بوده و امکانات رفاهی عالی دارد و همچنین مصرف سوخت بهینه و استهلاک پایین دارد. این خودرو ظرفیت حمل 15 نفر را داراست.
ون هیوندای
ون هیوندای ازجمله خودروهای لوکسی بوده که بسیار زیبا و برای انجام سفرهای بین شهری گزینه بسیار مناسبی است. این خودرو می تواند ترانسفور فرودگاهی و تشریفاتی مجالس باشد. ظرفیت حمل آن 16 نفر بوده و از سیستم پیشرفته ای برخوردار است.
• ون مکسوس
این نمونه خودرو سقفی بلند دارد و از امکانات خوبی مثل سیستم گرمایشی و سرمایشی مناسب، صندلی های راحت و نیز سیستم صوتی حرفه ای برخوردار است. توانایی جابه جایی 12 تا 14 نفر را داشته و برای سفرهای گروهی و خانوادگی گزینه ی بسیار مطلوبی خواهد بود.
• ون دلیکا
این خودرو چندمنظوره بوده و اغلب برای سرویس ها کاربرد دارد. توان جابجایی افراد در خودرو ون دلیکا 5 تا 14 نفر است.
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
مستقبل کا معاشی منظر نامہ کیا ہو گا ؟
Tumblr media
پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات میں گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو اتار چڑھائو آیا ہے اس نے ملک کے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے۔ تاہم اس دوران یہ حقیقت پوری طرح کھل کر عیاں ہو گئی ہے کہ معاشی معاملات کو مستقبل میں سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا ممکن نہیں رہے گا۔ اس حوالے سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کیلئے ناصرف حکومت کو بھرپور تعاون فراہم کیا ہے بلکہ مستقبل کیلئے بھی حکمت عملی مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے جو سب سے اہم قدم اٹھایا گیا ہے وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام ہے۔ اس کونسل کے قیام کا بنیادی مقصد مشرق وسطیٰ کے ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے سہولتیں فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں افسر شاہی کے روایتی طریقہ کار اور سرخ فیتے کی وجہ سے پیش آنے والی رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے سرمایہ کاروں کے سیکورٹی سے متعلق خدشات دور کرنے میں بھرپور مدد ملے گی علاوہ ازیں یہ اقدام دفاع، زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں خلیجی ممالک سے حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کے عمل کو بھی بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ 
یہ ادارہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے باوجود معیشت کو مستحکم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کونسل کی تشکیل سے پہلے ہی دوست ممالک پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کر چکے ہیں۔ یہ کونسل ون ونڈو آپریشن کی طرز پر کام کرے گی اور اس کے تحت وہ تمام ادارے جن کا کسی بھی طرح بیرونی سرمایہ کاری سے تعلق ہے وہ ایک چھت تلے اکھٹے کر دیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں تین اعلیٰ سطحی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جن میں سب سے اوپر ایپکس کمیٹی ہے جس کی سربراہی وزیر اعظم کریں گے جبکہ اس کے ممبرز میں کابینہ کے اراکین اور آرمی چیف شامل ہیں۔ اس کے بعد ایگزیکٹیو کمیٹی ہے جس میں وفاقی وزرا، صوبائی حکومتوں کے نمائندے اور وفاقی حکومت کے ادارے شامل ہیں جبکہ تیسری عمل درآمد کمیٹی ہے جو ہر ہفتے اجلاس کر کے بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے درپیش مشکلات کے ازالے کیلئے کئے جانے والے اقدامات پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی۔
Tumblr media
اس حوالے سےامید کی جا رہی ہے کہ اگلے پانچ سے سات سال میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی جس کیلئے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت دیگر دوست ممالک کا کردار اہم ہو گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان ممالک سے یہ بات پہلے سے طے ہو گئی ہے کہ وہ کن شعبوں میں سرمایہ کاری کریں گے۔ اس سلسلے میں جن شعبوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی ان میں زراعت، معدنیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرمایہ کاری کے یہ وعدے عملی شکل اختیار کر گئے تو 2035ء تک ملک کی جی ڈی پی ایک کھرب ڈالر ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کی آمدنی اور معیار زندگی میں بھی خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کی 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان کی پوزیشن کئی سال سے ایک ہی سطح پر برقرار ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان لانے کیلئے بڑی تندہی اور لگن سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں اگر اگلے چند مہینوں میں 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو ہی عملی شکل دے دی جائے تو عام انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کی تشکیل کیلئے مناسب ماحول میسر آ جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کو جن سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اس سے عہد برآہ ہونے کیلئے ایسی ہی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ضرورت تھی جو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے کسی اور اتھارٹی کی منظوری کی محتاج نہ ہو۔ تاہم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس کا بنیادی کام حکومتی سطح پر دوست ممالک سے سرمایہ کاری کا حصول ہے جبکہ نجی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے راغب کرنے کے حوالے سے اس کونسل کی کوئی حکمت عملی تاحال سامنے نہیں آ سکی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو معاشی خودمختاری سے ہمکنار کرنے کیلئے نجی شعبے سے آنے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے کیلئے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بننے والے ترجیحی اسپیشل اکنامک زونز میں ون ونڈو سنٹرز قائم کر کے اس سمت میں اقدامات کا آغاز کیا جا سکتا ہے جہاں تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور اتھارٹیوں کے نمائندے موجود ہوں تاکہ غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کو صنعتی منصوبے شروع کرنے کیلئے مختلف اداروں سے این او سی یا اجازت ناموں کے حصو ل کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے سے نجات مل سکے۔ اس سے عوام کو روزگار اور بہتر طرز زندگی کی فراہمی سے ملک کی معاشی بنیادوں کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
کاشف اشفاق 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
اس گھر کو آگ لگ گئی
Tumblr media
یہ آگ تو برسوں سے لگی ہوئی ہے صرف شعلے اب نظر آئے ہیں۔ تین صوبے تو یہ تپش بہت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے کچھ رہنمائوں نے بار بار خبردار بھی کیا تھا، چاہے وہ خان عبدالولی خان ہوں یا مولانا شاہ احمد نورانی۔ ’تختہ دار‘ پر جانے سے پہلے تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں آنے والے وقت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ آج ساری لڑائی کا مرکز ’پنجاب‘ ہے اور جھگڑا بھی بظاہر ’تخت پنجاب‘ کا ہے دیکھیں ’انجام گلستاں کیا ہو گا‘۔ اس بار آخر ایسا کیا مختلف ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی سیاست بے ربط ہی تھی اب بھی کچھ مختلف نہیں، پہلے بھی ملک میں ’سنسرشپ‘ تھی اب بھی ’زباں بندی‘ ہے۔ پہلے بھی سیاسی کارکن، صحافی غائب ہوتے تھے اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے بھی ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ الگ ہو رہا ہے وہ کچھ یوں ہے: پہلے وزیراعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا تو ’سہولت کار‘ عدلیہ اس عمل کو درست قرار دے دیتی، ملک میں آئین پامال ہوتا تو ’نظریہ ضرورت‘ آ جاتا، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا تو ایک نے ’جوڈیشل مرڈر‘ کیا دوسرے نے عمل کیا۔ دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کو چند افسران نے وزیراعظم ہائوس سے ’کان‘ پکڑ کر باہر نکالا تو اس اقدام کو درست قرار دیا اور کسی نے اف تک نہ کی۔ 
آج مختلف یہ ہے کہ عدلیہ منقسم ہی سہی بظاہر وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی اور سابق وزیراعظم کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو مانگا بھی نہیں۔ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گڈلک، بیسٹ آف لک کے ساتھ زمان پارک پہنچا دیا گیا۔ مگر یہ بات تاریخی طور پر جاننا بہت ضروری ہے کہ پہلے کسی وزیراعظم پر سو کے قریب مقدمات بھی نہیں بنائے گئے۔ جو کچھ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، کم و بیش ویسا ہی عمل 1992 میں پی پی پی کے رہنما مسرور احسن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں ہوا تھا جب چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ مگر جو قید مسرور نے کاٹی اس کے بارے میں صرف عمران جان ہی لیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ قید و بند کیا ہوتی ہے۔ آج مختلف یہ ہے کہ بادی النظر میں عدلیہ عمران کو ریلیف دینے میں لگی ہے اور اسٹیبلشمنٹ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہے مگر آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہو۔ اب وہ لڑائی کیسی لڑ رہا ہے کامیاب ہو گا یا ناکام اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر شاید عدلیہ سے ایسا ریلیف نہ ملتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ رہ گئی بات اس کے ’لاڈلے‘ ہونے کی تو یہاں تو لاڈلوں‘ کی فوج ظفر موج ہے۔ جو لاڈلا نہیں رہا وہ دوبارہ بننا چاہتا ہے مگر کوئی بنانے کو تیار نہیں۔
Tumblr media
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک زیادہ تر بڑے سیاست دان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں مگر شاید یہ بات اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان سے شروع ہوا۔ اس نے اس کا آغاز اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے کیا اور بقول قدرت اللہ شہاب ’’چند روز میں پریزیڈینٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا۔‘‘ پھر تو وہ کوئے یار سے نکلا اور سوئے دار تک گیا۔ میاں صاحب اور عمران خان کی تخلیق میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ دونوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ بھٹو نے اپنی عملی سیاست کا آغاز اسکندر مرزا کی کابینہ اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے پہلے ہی کر دیا تھا جب وہ 1954ء میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے تو اپنی سیاست کا آغاز برطانیہ میں زمانہ طالب علمی سے کیا اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد سے سیاست آگے بڑھائی۔ ہماری سیاست کو برا کہنے، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی تک دینے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ سارے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی دوست صرف ’تخت پنجاب‘ کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ 
ویسے تو یہ اصطلاح ’تخت لاہور‘ کی شریفوں کے دور میں آئی مگر اس کی اصل کہانی جاننے کیلئے سابق مشرقی پاکستان کی سیاست، ون یونٹ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں نے کہا نا کہ آگ تو بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے اب اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اب پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے۔ پی پی پی کو چار بار تقسیم کیا گیا کامیابی نہ ہوئی تو شریفوں کو تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے آنکھیں دکھائیں تو عمران خان کی تخلیق ہوئی۔ پہلے جنرل ضیاء نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا، دعوت دی پھر جنرل حمید گل سے لے کر دیگر جرنیلوں نے حمایت کی زیادہ تر کا مسئلہ عمران کی محبت نہیں شریفوں اور بھٹو سے نفرت تھی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور آخر کار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2018 میں اقتدار دلوانے میں مدد کی اور پھر جب وہ ناراض ہوئے تو بہت سے نئے پرانے لاڈلوں کو جمع کر کے اس لاڈلے سے نجات حاصل کی بس 13 لاڈلے اور تخلیق کار ایک غلطی کر گئے کہ ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے وزیراعظم کو مقبول ترین بنا دیا۔ دوسری غلطی یہ کر گئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کی کوئی کی ضد بن جائے تو وہاں وہ نقصانات اور انجام کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا، اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں اور ہفتوں میں جتنے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے، وہ تین چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جو کچھ 9 مئی کو کراچی تا خیبر ہوا وہ بظاہر اتفاقیہ یا قدرتی ردعمل نہیں تھا ایک خاص منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔ عمران کی لڑائی حکومت سے نہیں کہ وہ اس حکومت کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اس کی براہ راست لڑائی اور ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں وہ آج ’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی سیاسی صورت حال ہے اور لگتا ہے انجام بھی غیر معمولی ہو گا۔ جب تک شعلے چھوٹے صوبوں تک رہے کسی کو اس کی تپش کا احساس تک نہ ہوا اب یہ آگ بڑے صوبے تک آگئی ہے۔ ’تخت پنجاب‘ کی لڑائی تختہ تک آن پہنچی ہے۔ ولی خان نے کہا تھا کہ ہم جو کھیل افغانستان میں کھیل رہے ہیں اس کا اختتام ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں ہو۔ مولانا نورانی نے 1982ء میں کراچی پریس کلب میں کہا تھا ’’اگر یہ باربار کی مداخلت ختم نہ ہوئی تو اس آگ کو کوئی پھیلنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
مظہر عباس 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
gamekai · 2 years
Text
دنیا بھر میں اعلیٰ ترین کارکردگی کا صلہ، بابر اعظم کو آئی سی سی ٹرافیاں مل گئیں
دنیا بھر میں اعلیٰ ترین کارکردگی پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے قومی کپتان بابر اعظم کو آئی سی سی ون ڈے اور سر گیری فیلڈ سوبرز ٹرافیاں مل گئیں۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق اس حوالے سے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ایک خصوصی تقریب سجائی گئی جس میں پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کو آئی سی سی ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر اور سر گیری سوبرز ٹرافی دی۔ نجم…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
googlynewstv · 26 days
Text
چیمپئنز ون ڈے کپ کے شیڈول کا اعلان
پی سی بی نے چیمپئنز ون ڈے کپ کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ چیمپئنز ون ڈے کپ ٹورنامنٹ 12 سے 29 ستمبر تک اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں کھیلا جائے گا، پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز کپ ون ڈے ٹورنامنٹ کا اعلان کر دیا ہے ایونٹ بارہ ستمبر سے اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں کھیلا جائے گا ۔   ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی پانچوں ٹیموں کے 150 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان بھی کردیا ہے ۔  پی سی بی کے مطابق افتتاحی میچ…
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
ون ڈے رینکنگ، کیویز ٹاپ پوزیشن سے محروم، پاکستان کا پانچواں نمبر
پاکستان ٹیم106 پوائنٹس لے کر پانچویں پوزیشن پر براجمان ہے (فوٹو: پی سی بی) دبئی: ون ڈے انٹرنیشنل میں شکست پر نیوزی لینڈ نے رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن گنوا دی۔ بھارت سے سیریز کے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں شکست پر نیوزی لینڈ نے رینکنگ میں ٹاپ پوزیشن گنوا دی، انگلش ٹیم اب سرفہرست ہوگئی ہے، اس مقابلے سے قبل کیویز 115 ریٹنگ پوائنٹس کے ہمراہ نمبرون اور انگلینڈ 113 پوائنٹس لے کر دوسری پوزیشن پر موجود تھا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ikarachitimes · 2 years
Text
پی سی بی نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا شیڈول جاری کردیا۔مہمان ٹیم دو ٹیسٹ، آٹھ ون ڈے اور پانچ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے لیے دو مختلف مراحل میں پاکستان آئے گی۔ #̲C̲r̲i̲c̲k̲e̲t̲ https://t.co/Uv0csPWyhW
پی سی بی نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا شیڈول جاری کردیا۔مہمان ٹیم دو ٹیسٹ، آٹھ ون ڈے اور پانچ ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کھیلنے کے لیے دو مختلف مراحل میں پاکستان آئے گی۔ #̲C̲r̲i̲c̲k̲e̲t̲ https://t.co/Uv0csPWyhW
— Karachi_Times (@Karachi_Times) Oct 10, 2022
from Twitter https://twitter.com/Karachi_Times
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
انگلینڈ کے پروفیشنل کرکٹرز کی یونین نے ڈومیسٹک شیڈول کو نامناسب قرار دے دیا
پروفیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (پی سی اے) نے کہا کہ 2024 کے لیے انگلش مردوں کا ڈومیسٹک شیڈول نامناسب ہے اور اس سے کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کاؤنٹی چیمپئن شپ اپریل سے ستمبر تک ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ مقابلے اور ون ڈے کپ کے وقفے کے ساتھ چلے گی۔ ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کے 130 سے زائد میچز 30 مئی سے 19 جولائی تک ہوں گے، ٹیمیں دو میچز زیادہ تر جمعرات اور اتوار کے درمیان کھیلیں گی، بعض اوقات لگاتار دنوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspost · 4 years
Text
امپائرنگ کی خرابی نے حیدر علی کی پہلی ون ڈے اننگز کو مختصر کردیا
امپائرنگ کی خرابی نے حیدر علی کی پہلی ون ڈے اننگز کو مختصر کردیا
[ad_1]
امپائرنگ کی خرابی نے حیدر علی کی پہلی ون ڈے اننگز کو مختصر کردیا
نوجوان نے فورا the ہی اس فیصلے کا جائزہ لیا تاہم الٹرا ایج ٹکنالوجی نے کسی خاص نشوونما کا پتہ نہیں چلایا
Tumblr media
نی��ز ڈیسک کراچی میں
02 نومبر ، 2020
Tumblr media
فوٹو بشکریہ: پی سی بی
زمبابوے کے خلاف دوسرے ون ڈے کے دوران زمبابوے کے خلاف دوبارہ کھیلے جانے والے گیند کو جائزہ لینے کے دوران دستانے کو چھونے والے دکھا showingے کے باوجود ،…
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 3 years
Text
اپنے کرداروں کے ذریعے بولنے والے فاروق قیصر
پچھلے چند ماہ میں اس قدر احباب کے تعزیت نامے لکھے ہیں کہ کبھی کبھی سب کچھ ایک خواب کی طرح لگنے لگتا ہے کہ ابھی آنکھیں کھلیں گی اور یہ منحوس منظر ہمیشہ کے لیے ایک واہمہ بن کر بے نام و نشان ہو جائے گا۔ دوسری طرف اس دوران میں بار بار کورونا پر لعنت بھی بھیجی ہے کہ اس کی وجہ سے بعض ایسے جنازوں میں بھی شمولیت نہ ہو سکی جن کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ تھا اور جن میں سے کئی ایک کو رب کریم نے اپنی نوازشات کا سفیر بنا کر بھیجا تھا اور جن کی موجودگی سے زندگی پر ٹوٹتا ہوا اعتماد بحال ہو جاتا تھا۔ فاروق قیصر ایسا ہی ایک آکسیجن کا سلنڈر تھا جس کی وجہ سے معاشرے کی ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں اعتدال ، توازن ، حرارت اور زندگی پھر سے پائوں جمانے لگتے تھے اور جس کا لکھا اور بولا ہر ہر لفظ ایک اینٹی باڈی کی شکل اختیار کر جاتا تھا ۔ 
پی ٹی وی کی ابتداء یعنی 1964 سے لے کر اس کے کوما میں جانے تک کے درمیان تقریباً چالیس برسوں میں طنزو مزاح کے میدان میں یوں تو کئی لوگوں نے اپنا اپنا رنگ جمایا اور کمال کی تحریریں لکھیں مگر ان میں سے کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، فاروق قیصر اور انور مقصود چار ایسے غیر معمولی باکمال فنکار ہوئے ہیں جنھوں نے لکھنے کے ساتھ ساتھ پرفارمنس کی مختلف سطحوں اور صورتوں میں بھی اپنے جوہر دکھائے ان میں بھی فاروق قیصر کو یہ استثنا حاصل ہے کہ وہ بہت کم اپنی اصل صورت اور شخصیت کے ساتھ سامنے آئے اُن کا کمال انکل سرگم کے پپٹ کو وہ آواز دینا تھا جسے بیشتر لوگ اُس فنکار کی آواز سے ہی تعبیر کرتے تھے جس نے سرگم کا گیٹ اَپ کیا ہوتا تھا۔ پی این سی اے کی ڈی جی ڈاکٹر فوزیہ سے ایک طویل انٹرویو کے دوران فاروق قیصر نے تفصیل سے بتایا کہ اس کردار کا حُلیہ اور تحریک اُس کا رومانیہ کا ایک استاد تھا اور اس لائف سائز پپٹ کا کردار مختلف اوقات میں مختلف اداکار کرتے رہے ہیں۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں فاروق قیصر کی ابتدائی ٹریننگ بطور اداکار، مصنف اور گیت نگار شعیب ہاشمی صاحب کے ’’اَکڑبکڑ‘‘ سے ہوئی جب کہ پُتلیوں کے ساتھ اُس کے بے مثال تعلق کا آغاز انکل سرگم ہی کی معرفت بچوں کے ایک پروگرام ’’کلیاں‘‘ سے ہوا اور پھر نہ صرف یہ خود بڑا ہوتا گیا بلکہ اس میں ہیگا، رولا، ماسی مصیبتے اور بہت سے کردار آتے اور چھاتے چلے گئے طنز یعنی Satire ایک ا یسی صنفِ ادب ہے جس میں تندی، تیزی ، کاٹ اور بے ساختگی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص نوع کی کڑواہٹ ، غصہ اور ہرِخند بھی موجود ہوتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں فاروق قیصر واحد مزاح نگار ہے جس کے طنز میں اور تو سب کچھ ہوتا ہے مگر کڑواہٹ کو کبھی رستہ نہیں مل پاتا کہ وہ سخت سے سخت اور نوکیلی سے نوکیلی بات کو بھی ایک بے ساختہ قہقہے میں لپیٹنے کا حیرت انگیز گُر اور کمال جانتا تھا ایسے موقعوں پر وہ عام طور سے انگریزی کے Black اور Absurd مزاح کے ساتھ ساتھ پنجابی کی جُگت سے بھی کمال کام لیتا تھا۔
وہ چونکہ ایک باقاعدہ سند یافتہ پینٹر اور کارٹونسٹ بھی تھا اس لیے اُسے ون لائنر پر کمانڈ کے ساتھ Visual پر بھی غیر معمولی گرفت حاصل تھی اُس کے بقول اُس کے کرداروں کے چہروں پر موجود پپٹ کی آڑ نے اُسے سماجی، سیاسی اور بعض صورتوں میں بعض بہت سنجیدہ شعبوں کے مختلف کرداروں کو بھی Upside down کرنے کی جو رعایت ملی اُس سے اُس نے خوب خوب فائدہ اُٹھایا اور یوں اُس کے کردار پُتلیاں ہوتے ہوئے بھی عام زندہ کرداروں سے زندہ موثر ٹھہرے اس کا مشاہدہ بیک وقت گہرا بھی تھا اور وسیع اور انوکھا بھی یہی وجہ ہے کہ وہ جس بھی موضوع پر ہاتھ ڈالتا بہت جلد اس کا ’’پتلی تماشا‘‘ ’’انسانی تماشا‘‘ بن جاتا اور وہ اپنے کرداروں کے منہ سے ایسی باتیں بھی آسانی سے نکلوا دیتا جن کے ایک چوتھائی حصے کے لیے بھی ہمیں اپنے ڈراموں کے اسکرپٹس میں دس دس قلابازیاں کھانا پڑتی تھیں۔
ذاتی زندگی میں وہ مبالغے کی حد تک Down to Earth تھا میں نے اُسے ہمیشہ اپنے ہر ہم عصر کے اچھے کام کی تعریف کرتے ہی پایا، چاہے وہ اس انداز ہی میں کیوں نہ ہو کہ ’’یار ایک بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی کہ ایسا فضول اور تھرڈ کلاس شخص ایسے اچھے جملے کیسے لکھ لیتا ہے‘‘ جس باقاعدگی اکثریت، معیار اور تسلسل کے ساتھ اس نے اپنی پُتلیوں کے ساتھ ٹی وی اسکرین اور ناظرین کو فتح کیے رکھا ہے شائد صرف بھائی انور مقصور اور عزیزی یونس بٹ ہی اس کی صف اور کلاس میں آتے ہوں۔ اُس نے زندگی بھر جس قدر جی لگا کر سیکھا اس سے بھی زیادہ محبت اور ذمے داری سے سکھانے کا کام بھی کیا۔ پی ٹی وی پر ہم دونوں نے لکھنا کم کر دیا تھا اور ہماری باہمی ملاقاتوں میں بھی بوجوہ کچھ کمی آگئی تھی مگر وہ ہمیشہ مجھ سمیت اپنے تمام دوستوں سے رابطے میں رہا وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو ہمیشہ حق اور خیر کی بات کرتے تھے۔ 
اس نے اپنے کرداروں کے ذریعے لوگوں کے ہونٹوں پر تو ہنسی بکھیری مگر اس کے ساتھ ساتھ برداشت ، خوشدلی اور معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی اورزندگی کی مثبت اقدار کا پرچار بھی کیا بلاشبہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو عادتاً خیر بانٹتے ہیں اور یہ خیر عطا کرنے والے کے سوا کسی کی طرف بھی نہیں دیکھتے۔ ان ہی دنوں میں پشاور سے بیگم نسیم ولی خان اور سلیم رائو کی رحلت کی خبریں بھی ملیں جو یقیناً تکلیف دہ تھیں مگر جس خبر نے بالکل ہی ہلا کے رکھ دیا وہ پیارے بھائی اور دوست امتیاز پرویز صاحب کی شریک حیات اور ہماری غزالہ بھابھی کی رحلت کی خبر تھی کہ جو تین ہفتے کورونا سے لڑنے کے بعد ہار گئیں، اُن سے 25 برس قبل بحرین میں ہونے والی پہلی ملاقات سے اب تک ایک ایسا محبت کا رشتہ بن گیا تھا کہ اب وہ اور امتیاز بھائی ہمیں اپنے خونی رشتے داروں ہی کی طرح عزیز ہو گئے تھے۔ رب کریم سے دُعا ہے کہ وہ اُن تمام مرحومین کی روحوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور اُن کے لواحقین بالخصوص امتیاز پرویز بھائی کو اپنی تقدیر کے اس فیصلے پر صبر کی توفیق عطا فرمائے ۔ یہ جملہ لکھتے وقت پتا نہیں کیوں مجھے بار بار یہ خیال آرہا ہے کہ بعض اوقات کچھ الفاظ بغیر کچھ بتائے بھی اپنے معنی سے کٹ جاتے ہیں۔
امجد اسلام امجد  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
3 notes · View notes