Victoria:
"میں تمہارا موازنہ چاند اور سورج سے نہیں کرنا چاہتا! اس لیے کہ تم دور نہ جاؤ، اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔
"I don't want to compare you to the moon or the sun! For you not to go away, and leave me alone.
میں تمہیں یتیم کے غم سے تشبیہ دوں گا، یہ اسے کبھی نہیں چھوڑتا۔
I will liken you to the grief of an orphan, it never leaves him.
- A fragment from the invention of depression | by Ali Suleiman
48 notes
·
View notes
سعادت حسن منٹو کے اقوال
سعادت حسن منٹو ایک ادیب، شاعر اور صحافی تھے، جنہوں نے اپنے ادبی کاموں کو سماجی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی یوم پیدائش 11 مئ کی مناسبت سے ان کے کچھ اقوال ۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں میں اپنی آنکھیں بند کر بھی لو، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں؟
ہم عورت اُسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو۔ باقی ہمارے لئے کوئی عورت نہیں ہوتی، بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر نکی رہتی ہے۔
مسجد میں دیوبندی ، شیعہ، سُنی ،وہابی سنیما میں ایک ذات۔
میرے جانے کے بعد میری لکھی ہوئی ہر بات کو سراہا جائے گا میرا نام لیا جائے گا مجھے یاد کیا جائے گا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ہاتھ چھوڑ دینے والے کی اپنی اذیت ہے اور ہاتھ چھڑوا لینے والے کی اپنی کہانی ہے ، لیکن اس عمل میں محبت یتیم ہوجاتی ہے۔
میں ایسے عشق کا قائل نہیں جو مرد کی طرف سے شروع ہو۔
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان موجود ہے۔
دنیا میں جتنی لعنیتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
بیٹی کا پہلا حق جو ہم کھا جاتے ہیں وہ اُس کے پیدا ہونے کی خوشی ہے۔
غلط کار انسان نہیں وہ حالات ہیں جن کے کھیتوں میں انسان غلطیاں پیدا کرتا ہے اور پھر ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے۔
مرد بھی کیا عجیب شے ہے، بیوی میں طوائف جیسی ادائیں اور طوائف میں بیوی جیسی وفاداری تلاش کرتا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہنی ذات کے لئے وہ کام بھی کرتے ہیں، جو شیطان بھی کرنے سے گریز کرتا ہے۔
سچ بولنے والوں کو میٹھی باتیں کرنا نہیں آتیں۔
عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے، مرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے۔
میں اس کا ذمہ دار ہوں جو میں نے کہا ، لیکن اس کا ذمہ دار نہیں جو آپ نے سمجھا۔
مختصر الفاظ میں زندگی کے متعلق صرف یہ کہا جاسکتا ہے، کہ یہ ایک آہ ہے جو واہ میں لپیٹ کر پیش کی گئی ہے۔
میں نے محبت میں عورت سے بڑا بے وقوف نہیں دیکھا، اکثر ایسے لوگوں کو اپنا سمجھ بیٹھی ہے جو خود اپنے بھی نہیں ہوتے ۔
لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔
انسان کو مارنا کچھ نہیں ، لیکن اُس کی فطرت کو ہلاک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔
عشق جیومیٹری ہے نہ الجبرا۔ بس بکواس ہے۔ چونکہ اس بکواس ہے۔ اس لئے اس میں گرفتار ہونے والے کو بکواس ہی سے مدد لینی چاہئے۔
میرے شہر کے معززین کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔
کپڑوں کے بغیرآدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔
مذہبی محبوبہ، ان پڑھ بیوی اور دیہاتی دوست تینوں وفادار ہوتے ہیں۔
محبت تو جذبوں کی امانت ہے، فقط بستر کی سلوٹ زدہ چادر پر گزارے جانے والے چند بدبودار لمحے محبت نہیں کہلاتے ۔
چنگاری کو شعلوں میں تبدیل کردینا آسان ہے مگر چنگاری پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔
اگر آپ کی زندگی درد کے احساس کے بغیر گزری ہے تو شاید آپ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
یہ عیب مجھ میں شروع سے رہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کا سلیقہ نہیں۔
تم نے کبھی محبت کی ہو تو جانو محبت اُداسی کا دوسرا نام ہے ہر وقت آدمی کھویا کھویا سارہتا ہے اس لئے کہ اس کے دل ودماغ میں صرف خیال یار ہوتا ہے۔
مرد کے اعصاب پر عورت سوارنہ ہو تو کیا ہاتھی گھوڑے سوارہو؟
انسانوں سے حیوانوں کی دوستی اچھی میرے بھائی، انہیں کوئی ورغلا تو نہیں سکتا۔
جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اس طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے۔
جسم داغا جاسکتا ہے لیکن روح نہیں داغی جاسکت۔
میرا کام تو آئینہ دکھانا ہے اگر آپ کا چہرہ گرد آلود اور بدنما ہے تو وہ ویسا ہی نظر آئیگا۔
3 notes
·
View notes
جب کسی مفلس کے گھر کے چولے میں آگ روشن نہیں ہوتی ، میرے سینے سے دھوان اٹھنے لگتا ہے ۔ جب کسی یتیم کی پسلیاں نکلی نظر آتی ہیں، میرے بدن میں خود اپنی ہڑیاں چبھنے لگتی ہیں۔ جب کسی گوشے سے رونے کی آواز نکلتی ہے، میری کمبخت آنکھیں آنسو برسانے لگتی ہیں۔
جوش ملیح آبادی
0 notes
راهنمای بهینه سازی و حل مشکل صفحات یتیم (Orphan Pages)
صفحات یتیم (Orphan Pages) مانند جزیرههای دورافتادهای در وبسایت شما هستند که هیچ راهی به آنها وجود ندارد. این صفحات بدون لینک داخلی، نه توسط کاربران و نه توسط موتورهای جستجو به راحتی پیدا نمیشوند. اگرچه این صفحات در سایت شما وجود دارند، اما به دلیل نداشتن لینکها، در سایهها پنهان شدهاند و نمیتوانند به رشد سئو و تجربه کاربری کمک کنند. در وب آنجل، به بررسی اهمیت و راهکارهای رسیدگی به این صفحات میپردازم.
صفحات یتیم چی هستند؟
صفحات یتیم (Orphan Pages) به صفحات وبی اطلاق میشوند که در یک وبسایت وجود دارند، اما به هیچیک از صفحات دیگر سایت لینک نشدهاند. فقدان لینکهای داخلی باعث میشود که یافتن این صفحات برای کاربران و موتورهای جستجو بسیار دشوار (و در برخی موارد غیرممکن) شود.
از آنجایی که صفحات یتیم به ساختار اصلی ناوبری سایت متصل نیستند و در هیچ جای دیگر سایت به آنها لینک نشده است، معمولاً نادیده گرفته شده و ایندکس نمیشوند، که میتواند مشکلاتی را در زمینه سئو ایجاد کند.
چرا صفحات یتیم برای سئو مضر هستند؟
صفحات یتیم به دلایل مختلفی برای سئو مضر هستند. در این بخش به توضیح این دلایل میپردازیم...
👉 http://dlvr.it/TD0SgF
#صفحات_یتیم #رشد_سئو #راهکار_سئو #تجربه_کاربری #وب_سایت #جستجو #لینک_داخلی #بهینه_سازی #بازاریابی_دیجیتال #سئو
0 notes
🔰 سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ
🛒 گھر بیٹھے کتاب حاصل کرنے کیلئے کلک کریں۔
https://www.minhaj.biz/item/sirat-e-nabawi-ka-asal-khakah-be-0058
📄 صفحات: 220
🧾 زبان: اردو
📕 اعلیٰ پیپر اینڈ پرنٹنگ
🔖 قیمت: 450
🚚 ہوم ڈیلیوری
📖 کتاب کی خصوصیات و امتیازات
📗 رسول الله ﷺ کی سیرتِ طیبہ صرف عالمِ اِسلام کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اِنسانیت کے لیے عظیم نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرتِ طیبہ کا حقیقی خاکہ اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔
📗 رسول الله ﷺ خُلقِ عظيم كے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسنِ خُلق کی تمام صفات آپ ﷺ کی جبلّت اور طبیعت میں پیدائشی طور پر ودیعت فرما دی تھیں۔
📗 رسول الله ﷺ كى صفتِ رحمت سارى كائنات پر محیط اور غیر محدود طور پر وسیع ہے، جس سے مخلوق كا ہر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور قيامت تك ہوتا رہے گا؛ بلكہ اختتامِ قيامت تك تمام اُمتیں بھى اِس چشمۂ رحمت سے اپنی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔
📗 رسول الله ﷺ کے چہرۂ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اس لیے آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ طبعاً نرم جُو تھے۔ (گویا آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ اور عادتِ مبارکہ میں ہمیشہ نرمی اور لچک ہوتی تھی۔)
📗 رسول الله ﷺ نہ سخت مزاج تھے، اور نہ ہی سخت دل تھے۔ آپ ﷺ نہ تو سختی کے ساتھ اپنی آواز بلند فرماتے، اور نہ ہی کبھی (کسی سے) سخت کلامی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نہ تو عیب جُو تھے، اور نہ ہی بخیل تھے (یعنی طبیعت میں سخاوت، فراخی اور پردہ پوشی تھی)۔
📗 رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ ﷺ وہ عطا فرما دیتے۔ آپ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔
📗 رسول الله ﷺ بچوں، عورتوں اور کمزور و نادار اَفراد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
📗 رسول الله ﷺ کبھی اگلے دن کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سامانِ خور و نوش ذخیرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ آپ ﷺ کا ہاتھ برتن میں اِدھر اُدھر نہیں جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ صرف اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے)۔
📗 رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی عطا کر دیتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نرم برتاؤ کو پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی خوب ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس شخص کی طبیعت کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اُسے بھلائی کا بڑا حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا اُسے بھلائی کے حصہ سے محروم رکھا گیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! اپنے رب سے ڈرو، اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرو اور صلہ رحمی کرو، تمہاری عمر دراز ہوگی، تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی، تم تنگی و پریشانی سے محفوظ رہو گے اور تمہارے رزق میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیٹیوں پر بہت زیادہ رحم فرمانے والے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اُس کے لیے جنت ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ یتیموں کے والی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ راوی (مالک) نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کو وہ گھر سب سے زیادہ محبوب ہے جس میں یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیواؤں اور مساکین پر رحم فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ قیدیوں پر بھی رحمت و شفقت فرمانے والے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بھائی کے لیے اُس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ (اُس کے لیے دعا کرتا اور) کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (یعنی جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے وہ تجھے بھی نصیب ہو)۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اپنے برتن سے دوسرے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تم اس شخص سے رشتہ جوڑو جو تم سے تعلق توڑتا ہے، اُسے عطا کرو جو تجھے (ضرورت کے وقت) انکار کرتا ہے اور اُس سے درگزر کرو جو تجھے گالی دیتا ہے۔
📗 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے زیادہ حسین تھے۔
📗 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کی رحمت و رافت اور شفقت و عنایت کا اعجاز تھا کہ ہر کہ و مہ کو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اسی سے مخاطب ہیں۔ ہر شخص اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتا چلا جاتا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے کلمات کے آغاز اور اِختتام کا حسن و کمال اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو کسی کو خوشی و مسرت بہم پہنچانے کا موجب ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو (اُس کے) بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے (اِس دنیا میں) کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل رفع فرما دے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اَعلیٰ مقام تلاش کرو: جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے، تم اس سے بردباری سے پیش آؤ اور جو تمہیں محروم رکھے تم اُسے عطا کرو۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ اَمن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور قطع رحمی کا باعث بنتا ��ے)۔
💬 وٹس ایپ لنک / نمبر 👇
https://wa.me/9203224384066
0 notes
اصحاب قبور سے دعا کرنا کیسا ہے ؟
سوال ۷۰: اصحاب قبور سے دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب :دعا کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:
۱۔ دعائے عبادت: مثلاً: نماز، روزہ اور دیگر عبادات۔ چنانچہ انسان جب نماز پڑھتا یا روزہ رکھتا ہے، تو وہ زبان حال سے اپنے رب تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ وہ اسے معاف فرما دے، اسے عذاب سے بچالے اور اپنے رزق سے نواز دے۔ اس کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ، ﴾ (الغافر: ۶۰)
’’اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا۔ بلا شبہ جو لوگ میری عبادت سے سرکشی (تکبر) کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، لہٰذا جو شخص کسی قسم کی بھی عبادت غیر اللہ کے لیے سر انجام دے وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اگر انسان کسی چیز کے لیے رکوع یا سجدہ کرے اور رکوع وسجود میں اس کی ٹھیک اس طرح تعظیم بجا لائے جس طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی جاتی ہے تو وہ مشرک ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا، اسی لیے شرک کے سدباب کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بوقت ملاقات کسی کے آگے جھکنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ آپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے بھائی سے ملاقات کرتا ہے کہ کیا وہ اس کے آگے جھکے؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں۔‘‘[1]
اور بعض جاہل لوگ جو یہ کرتے ہیں کہ سلام کہتے ہوئے جھک جاتے ہیں، تو یہ غلطی ہے آپ کے لئے ضروری ہے کہ ایسا کرنے والے کو آپ صحیح بات بتائیں اور اسے اس فعل سے منع کریں۔
۲۔ سوال کے لیے پکارنا: اس کی ساری صورتیں شرک نہیں، بلکہ اس میں تفصیل ہے:
٭ جس کو پکارا جا رہا ہو، اگر وہ زندہ اور اس کام کے کرنے پر قادر ہو تو یہ شرک نہیں ہے، جیسا کہ جو شخص آپ کو پانی پلا سکتا ہو، اس سے یہ کہنا کہ مجھے پانی پلاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ دَعَا کُمْ فَاَجِیْبُوہُ)) (صحیح البخاری، بمعناہ، النکاح، باب اجابۃ الولیمۃ والدعوۃ، ح:۵۱۷۳ وصحیح مسلم، النکاح، باب الامر باجابۃ الداعی الی الدعوۃ، ح:۱۴۲۹ وسنن ابی داود، الزکاۃ، باب عطیۃ من سال باللّٰه عزوجل، ح: ۱۶۷۲ واللفظ لہ، ولفظ البخاری ومسلم: اذا دعی احدکم الی الولیمۃ فلیاتہا۔)
’’جو شخص تمہیں دعوت دے، اس کی دعوت قبول کر لو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُوْلُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْہُمْ مِّنْہُ﴾ (النساء: ۸)
’’اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار، یتیم اور محتاج آجائیں ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔‘‘
اگر فقیر اپنا ہاتھ پھیلائے اور کہے کہ مجھے بھی دو تو یہ جائز ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿فَارْزُقُوْہُمْ مِّنْہُ﴾ (النساء: ۸)
’’ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔‘‘
٭ جس کو پکارا جا رہا ہو اگر وہ مردہ ہو تو اسے پکارنا شرک ہے، جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔
افسوس کہ بعض اسلامی ممالک میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ فلاں قبر والا، جو اپنی قبر میں ایک بے جان لاشہ ہوتا ہے یا شاید اسے زمین نے کھا پی کر برابر کردیاہو اب اس کا وجودتک نہ ہو، نفع ونقصان کا مالک ہے یا بے اولاد کو اولاد دے سکتا ہے۔ (العیاذ باللّٰه ) یہ شرک ہے، جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا اقرار شراب نوشی، زنا اور لواطت کے اقرار سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ یہ محض فسق ہی نہیں بلکہ کفر کا اقرار ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اصلاح احوال کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال ۷۱: کسی غیر اللہ سے، جسے انسان ولی اللہ سمجھتا ہو، استغاثہ کے بارے میں کیا حکم ہے، نیز یہ فرمائیں کہ ولایت کی علامات کیا ہیں؟
جواب :علامات ولایت کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے:
﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ، الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ، ﴾ (یونس: ۶۲۔۶۳)
’’سن رکھو! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے۔ (یعنی) وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے۔‘‘
یہ ہیں ولایت کی علامات: (۱) اللہ کی ذات ایمان اور (۲)تقویٰ، بلاشبہ جو شخص مومن اور متقی وپرہیزگارہووہ اللہ کا ولی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست نہیں بلکہ اس کا دشمن ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّلّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ ٗوَ رُسُلِہٖ وَ جِبْرِیْلَ وَ مِیْکٰلَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَدُوٌّ لِّلْکٰفِرِیْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۹۸)
’’جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے پیغمبروں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو ایسے کافروں کا اللہ دشمن ہے۔‘‘
پس جو انسان بھی کسی غیر اللہ کو پکارے یا غیر اللہ سے کسی ایسے کام کے لیے فریاد کرے جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں قدرت نہ ہو، وہ مشرک اور کافر ہے، وہ اللہ کا ولی نہیں ،وہ شخص خواہ کتنے ہی دعوے کیوں نہ کرے۔ توحید، ایمان اور تقویٰ کے بغیر اس کے ولی ہونے کے دعوے جھوٹے اور ولایت کے منافی ہیں۔
ان امور کے بارے میں مسلمان بھائیوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے فریب خوردہ نہ ہوں بلکہ انہیں اس سلسلے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ ان کی امید، ان کا توکل اور ان کا اعتماد اللہ وحدہ کی ذات پاک پر قائم ودائم رہے ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات بابرکات پر ان کا ایمان ہو اور اسی سے انہیں استقرار واطمینان حاصل ہوتاہو تا کہ یہ لوگ ان لٹیروں کے ہاتھوں سے اپنے اموال کو بھی بچا سکیں جو یہ ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں کیونکہ ان امور میں کتاب وسنت کے ساتھ وابستگی کی بنیادپر ہی ان لوگوں کو فریب نفس میں مبتلا ہونے سے دور رکھا جا
سکتا ہے جو اپنے آپ کو کبھی سادات کہلاتے ہیں اور کبھی اولیاء۔ اگر آپ ان کا بغور جائزہ لیں تو انہیں سیادت و ولایت سے کوسوں دُور پائیں گے اور اس کے برعکس جو اللہ تعالیٰ کا سچا ولی ہوگا وہ کبھی اپنی ولایت کا دعویٰ کرے گا نہ تعظیم و توقیر کا ہالہ اس کا احاطہ کیے ہوئے ہوگا۔ وہ مومن ومتقی ہوگا، مخفی رہے گا اور اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرے گا۔ شہرت کو پسند کرے گا نہ اس بات کو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں، یا خوف اور امیدیں اس سے وابستہ ہوں۔ انسان کا یہ ارادہ وخواہش کہ لوگ اس کی تعظیم کریں، اس کا احترام بجا لائیں، اس کی عظمت کے گن گائیں اور وہ بذات خودلوگوں کا مرجع وماویٰ بن جائے، یہ تقویٰ اور ولایت کے منافی ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اس لیے علم حاصل کرے تاکہ وہ بے وقوفوں کے ساتھ جھگڑا کرے یا علماء کے ساتھ مناظرہ کرے یا لوگوں کے چہروں کو اپنی طرف متوجہ ��رے تو وہ فلاں فلاں وعید کا مستحق ہوگا۔ [1] اس حدیث میں ہمارا استدلال (أولَیَصْرِفَ وجوہ الناس الیہ) ’’تاکہ وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوزکرے۔‘‘ کے جملے سے ہے۔ چنانچہ جو لوگ ولایت کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگوں کے چہروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ولایت سے بہت دور ہیں۔
مسلمان بھائیوں سے میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اس قسم کے لوگوں سے فریب نہ کھائیں بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کریں اور اپنی تمام تر امیدیں اللہ وحدہ لا شریک کی ذات پاک ہی سے وابستہ رکھیں۔
فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۱۴۱، ۱۴۲، ۱۴۳، ۱۴۴ )
#FAI00063
ID: FAI00063 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Shan E Durre Yateem ke Takhliqi Raaz | Seerat Un Nabi | شان در یتیم کی حکمت #naqoosh_e_islam #islamicstatus #statusvideo #viralvideo #hadees #seeratunnabi #hadeesinurdu .
@everyone @islmicvideo
0 notes
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم کہنا کیسا ہے؟
?Huzoor Ko Yateem Kahna Kaisa Hai
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ . بعدہ عرض خدمت یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یتیم کہنا کیسا ہے؟۔مدلل جواب عنایت فرمائیںنوازش ہوگی۔
العارض: عبد الجبار امجدی پاکبڑا مرادآباد یوپی
وعلیکُم السّلام و رحمة اللہ و برکاتہ
باسمہ تعالیٰ جل و علا
الجواب اللّٰھم ھدایت الحق و الصواب
سید الانبیا، خاتمِ پیغمبراں، فخر الرسل، مالکِ کل، رحمتِ عالم، باعثِ ایجادِ عالم،…
View On WordPress
0 notes
HEADLINES OF THE DAY یتیم خانے سے 18 بچے لا پتہ
0 notes
یتیم خانه علاءالدین پس از بازگشت طالبان به مدرسه دینی تبدیل شد
یتیم خانه علاءالدین، بخشی از مؤسسه مسکن دولتی که عمدتاً برای اسکان دختران و کودکان یتیم طراحی شده است، پس از ظهور مجدد طالبان به یک مدرسه مذهبی تبدیل شده است.
سلما همچنین به خامه پرس گفت که پس از تعطیلی مدارس و به ویژه ممنوعیت تحصیل دختران، تنها محور آموزش برای دختران یتیم خانه، علوم دینی بوده است.
قبل از اینکه اداره طالبان کنترل را به دست بگیرد، این مؤسسه به دختران علوم مدرن و موضوعات درسی مکتب را آموزش می داد. دوره های تقویتی ارائه شد و دختران برای کنکور دانشگاه کنکور آماده شدند. اما تحولات اخیر حتی برنامه های این مرکز را مختل کرده است.
به گفته سلما،…
View On WordPress
0 notes
آدمی کی بیوی گزر جائے تو وہ رنڈوا کہلاتا ہے۔ بچہ ماں باپ کھو دے تو اسے یتیم کہا جاتا ہے۔ لیکن والدین اگر اولاد کو کھو دیں۔ تو پھر ان کیلئے کوئی لفظ ہی نہیں موجود! اور موجود ہونا بھی نہیں چاہیے۔
If a man's wife passes away, he is called Randwa. If a child loses his parents, he is called an orphan. But if parents lose their children. Then there is no word for them! And shouldn't even exist.
Chris Cooper
🎞️ Demolition 2015
7 notes
·
View notes
یتیم پر ظلم کرنامولانا طارق جمیل | opperesion on orphan #islamicvideo
0 notes
آنه از گرین گیبلز
اثر لوسی مود مونتگومری
ترجمه بیگانه
🌹🌹 🌹🌹
فصل سوم
ماریلا کاتبرت شگفتزده شده است
🌹🌹 🌹🌹
همینکه متیو در خانه را گشود؛ ماریلا با اشتیاق و عجله به سمت او شتافت. اما به محض آنکه نگاهش به آن موجود کوچک عجیب و غریب پیچیده شده در آن لباس شق و رق زشت، افتاد که دو دسته موی بلند قرمز بافته شده، از دو طرف سرش آویزان بود و با چشمهائی که از اشتیاق و امید میدرخشیدند به او زل زده بود؛ برای لحظاتی با حیرت، سر جایش میخکوب شد.
ماریلا به ناگاه فریاد زد: «متیو کاتبرت! این دیگه کیه؟ پسرک، کوش؟» متیو با ناراحتی گفت: «پسری در کار نبود! فقط این دختر اونجا بود.» و با سر به دخترک اشاره کرد درحالیکه تازه متوجه شده بود که اصلا نام دخترک را از او نپرسیده است. ماریلا پافشاری کرد: «یعنی چی پسری در کار نبود؟ باید یه پسر بچه اونجا میبود! ما به خانم اسپنسر نامه نوشتیم که یه پسر بیاره.»
- خب، نیاورده. خانم اسپنسر، این دخترک رو با خودش آورده. من از رئیس ایستگاه پرسیدم. باید این دختر رو با خودم به خونه میآوردم: مهم نیس چه اشتباهی رخ داده؛ نمیتونستم تنها اونجا ولش کنم.»
ماریلا ناگهان فریاد زد: «خب، این واقعا مشکل بزرگیه!» در تمام این مدت، دخترک ساکت مانده بود و تنها با نگاه، دو طرف مکالمه را یکی پس از دیگری، دنبال میکرد. ناگهان متوجه شد چه اتفاقی افتاده است و این خواهر و برادر در مورد چه چیزی صحبت میکنند و تمام شور و اشتیاقی که در چهرهاش موج میزد به ناگاه محو و ناپدید شد. ساک مسافرتی گرانبهایش، از دستش افتاد و یک قدم به سمت جلو پرید و دست ماریلا را محکم در دست گرفت. دخترک فریاد زد: «شما من رو نمیخواین! ... من رو نمیخواین چون پسر نیستم! باید میدونستم. هیچکس تا حالا من رو نخواسته. باید میدونستم همهی اینا بیش از اندازه خوب و قشنگه که بتونه ادامه پیدا کنه. باید میدونستم که هیچکس واقعا من رو نمیخواد. اوه! حالا باید چکار کنم؟ الانه که بزنم زیر گریه!» دخترک شروع به گریه کردن کرد. همانجا بر روی یک صندلی کنار میز نشست و دستشهایش را به شدت بر روی میز پرتاب کرد و صورتش را بر روی دستهایش گذارد و در میان آنها پنهان کرد و به طرز دردناکی، به گریهاش ادامه داد. ماریلا و متیو، درحالیکه از اینکار دخترک، خوششان نیامده بود، از بالای اجاق گاز، به یکدیگر نگاهی انداختند. هیچیک نمیدانست در آن لحظه، چه باید بگوید یا چکار باید بکند. سرانجام، ماریلا با تردید سعی کرد پیشقدم شود و مسئله را حل کند.
- خب، خب! لازم نیس بهخاطر این مسئله، اینطور گریه کنی.
دخترک، سرش را به سرعت بلند کرد؛ چهرهی خیس از اشکش را آشکار کرد و لب برچید: «چرا! لازمه! اگه شما هم یه بچه یتیم بودین و به یه خونه میرفتین و فکر میکردین که از این به بعد قراره این خونه، خونهی شما باشه و بعد میفهمیدین که اعضای اون خانواده شما رو نمیخوان فقط چون پسر نیستین، شما هم گریه میکردین. اوه! این غمانگیزترین چیزیه که تا حالا برای من اتفاق افتاده!» چیزی چون لبخندی بیاختیار، که به دلیل استفاده نکردن، ناشیانه به نظر میآمد؛ چهرهی بیش از حد، جدی ماریلا را مهربانتر کرد: «خب، دیگه گریه نکن. ما که امشب از در خونه، بیرون نمیندازیمت. تا زمانیکه ما ببینیم شرایط چیه و باید چکار کنیم میتونی اینجا بمونی. اسمت چیه؟» دخترک برای لحظهای در جواب دادن تردید کرد و بعد با اشتیاق گفت: «میشه خواهش کنم من رو کُردِلیا صدا کنین؟»
- کُردِلیا صدات کنیم؟ این اسمته؟
- نههه! این واقعا اسمم نیس؛ اما عاشق اینم که کُردِلیا صدام کنن. این یه اسم بیعیب و نقص و باشکوهه.
- نمیفهمم چی میگی. اگه اسمت کُردِلیا نیس، پس چیه؟
دخترک با بیرغبتی گفت: «آنه شرلی.» هنگام گفتن این اسم چنان صدایش رو به ضعف و آهستگی گذاشته بود انگار اعتماد بهنفسی که «کُردلیا» با خودش برای او به ارمغان میآورد را «آنه» با خودش میبرد.
- اما ... اوه ... لطفا من رو کُردِلیا صدا کنین. اگه قرار باشه من فقط برای یه مدت کوتاه اینجا باشم؛ اینکه من رو چی صدا کنین نباید خیلی براتون مهم باشه؛ مگه نه؟ تازه، آنه یه اسم خیلی غیررومانتیکه.
ماریلا ذرهای احساس همدلی و همدردی با دخترک نمیکرد: «چه حرفا!: غیررمانتیک! آنه یه اسم سادهی خوب و معقوله. تو نباید از اسمت شرمنده باشی.» آنه توضیح داد: «اوه! من از اسمم شرمنده نیستم. فقط کُردِلیا رو بیشتر دوست دارم. من همیشه توی تخیلاتم، تصور کردم که اسمم کُردِلیاس. حداقل چند سالیه که دارم اینجوری خیالپردازی میکنم. وقتی بچهتر بودم؛ توی تصوراتم، فکر میکردم که اسمم جِرالدینه؛ اما الان کُردِلیا رو بیشتر دوست دارم. اما اگه میخواین بهم بگین آنه، لطفا جوری صدام کنین که اِ ی آخرش هم تلفظ شه!» ماریلا درحالیکه قوری را برمیداشت؛ یک لبخند ناشیانهی دیگر، بر گوشهی لبش نقش بسته بود: «چه فرقی میکنه که اسمت چه جوری تلفظ بشه؟»
- اوه! خیلی فرق میکنه. آنه خیلی قشنگتر به نظر میآد.وقتی که یه اسم رو میشنوین، همونموقع تو ذهنتون نمیبینین که چه جوری نوشته میشه؟ من میبینمش. و اسم «آن» خیلی وحشتناک و ناخوشاینده. اما «آنه» جوریه که مردم خیلی بیشتر ستایشش میکنن و به نظر میآد صاحبش موفقتره. اگه من رو «آنه» صدا کنین منم خودم رو متقاعد میکنم که کُردِلیا صدام نکنین.
- خیل خب، «آنه با یه اِ»، میتونی بهمون بگی چطور این اشتباه رخ داده؟ ما برای خانم اسپنسر نامه نوشتیم که یه پسر برامون بفرسته. توی پرورشگاه، هیچ پسری نبود؟
- اوه! چرا! یه عالمه پسر، توی پرورشگاه هست! اما خانم اسپنسر کاملا واضح گفت که شما یه دختر میخواین که حدودا یازده سالش باشه. و مدیر پرورشگاه گفت که من برای اینکار مناسبم. نمیدونین من اونموقع چقد خوشحال شدم. از بس خوشحال بودم دیشب نتونستم حتی پلک رو هم بذارم. اوه! ...
دخترک به سمت متیو برگشت و با لحن سرزنشآمیزی از او پرسید: «چرا توی ایستگاه بهم نگفتی که من رو نمیخواین و من رو همونجا نذاشتی و بری؟ همهچیز اینقد برام سخت و ناگوار نمیشد اگه هیچوقت، «مسیر شکوفههای برفی خوشبختی» و «دریاچهی آبهای درخشان» رو نمیدیدم.» ماریلا به متیو خیره شد؛ صلابت در صدایش موج میزد: «این بچه در مورد چی حرف میزنه؟» متیو با دستپاچگی جوابش داد: «من و این بچه، تو جاده، در مورد بعضی چیزا حرف میزدیم ... داره در مورد اونا میگه ... من میرم بیرون که مادیان رو ببرم به اسطبل. ماریلا! چایی رو آماده کن تا من برمیگردم.» زمانیکه متیو از اتاق خارج شد؛ ماریلا پرسید: «خانم اسپنسر، هیچکس غیر از تو رو با خودش نیاورد؟»
- چرا! لیلی جونز رو همراهمون آورد که برای خودش، برش داره. لیلی، فقط پنج سالشه و خیلی خوشگله و موهاش قهوهای شاهبلوطیه. اگه منم خیلی خوشگل بودم و موهام شاهبلوطی رنگ بود؛ من رو نگه میداشتین؟
- نه. ما یه پسر میخوایم که تو کارای مزرعه به متیو کمک کنه. دختر، به هیچ درد ما نمیخوره. کلاهت رو دربیار. من کلاه و کیفت رو برات میذارم روی میز توی راهرو.
آنه با متانت و فروتنی، کلاهش را از سر برداشت. در همان زمان، متیو از راه رسید و آنها دور میز نشستند تا عصرانه بخورند. اما آنه نمیتوانست چیزی بخورد. او سعی کرد که گاز کوچکی به لقمهی نان و کرهاش بزند و به مربای سیبصحرائی درون ظرف شیشهای کوچک کنگرهدار کنار بشقابش نوکی بزند؛ اما بیفایده بود: او در خوردن، کاملا ناموفق بود. ماریلا درحالیکه با دقت بهگونهای آنه را زیر نظر داشت انگار که مشکل شخصیتی جدیای را در او یافته بود با جدیت ناگهان گفت: «چرا هیچی نمیخوری؟» آنه، آه کشید: «نمیتونم. من با همهی وجودم ناامیدم. شما وقتی با همهی وجودتون ناامیدین، میتونین چیزی بخورین؟» ماریلا جواب داد: «من هیچوقت با همهی وجودم، ناامید نبودم؛ برای همینم نمیدونم که میتونم یا نه.»
- نبودی؟ خب، ... پس ... هیچوقت سعی کردی تصور کنی که با همهی وجودت ناامید شدی؟
- نه! هیچوقت اینکار رو نکردم.
- خب، ... پس فکر نمیکنم بتونی درک کنی که چه حسی به آدم دست میده وقتی با همهی وجودش، ناامید میشه. مطمئنا احساس ناراحتکنندهایه. وقتی سعی میکنی یه لقمه غذا بخوری، یه چیزی راه گلوت رو میبنده و نمیتونی هیچی قورت بدی؛ هیچی ... حتی یه تیکه شکلات کاراملی. دو سال پیش، من یه شکلات کاراملی داشتم و خیلی خوشمزه بود. از اونموقع به بعد اغلب اوقات، تو خواب میبینم که یه عالمه شکلات کاراملی دارم اما درست وقتی که میخوام بخورمشون؛ یه دفعه از خواب میپرم. امیدوارم حس نکنی که دارم بهت بیاحترامی میکنم چون نمیتونم چیزی بخورم. همهچیز فوقالعاده عالیه ... ولی با اینحال من نمیتونم چیزی بخورم.» متیو که از زمانیکه از اسطبل برگشته بود سخنی بر زبان نرانده بود گفت: «به نظرم خستهس. بهتره که ببریش بخوابه، ماریلا.» ماریلا قبلا نزد خودش، به این فکر کرده بود که چه زمانی بهتر است که آنه را به تختخواب ببرد و بخواباند. او یک مبل راحتی را در اتاق آشپزخانه برای خواب بچهای که قرار بود نزد آنها بماند؛ آماده کرده بود؛ چرا که ماریلا، از قبل، انتظار یک پسر را داشت و مایل بود که با یک پسربچه روبهرو شود. اما اگرچه این مبل راحتی، تمیز و مرتب بود ولی ماریلا احساس میکرد به طریقی، خوابیدن یک دختربچه بر روی مبل، کار درستی نیست. اما در عینحال، اتاق اضافی آنها نیز بیش از اندازه برای این موجود بیخانمان لاغرمردنی، خوب بود، بنابراین تنها گزینهی موجود، اتاق زیرشیروانی قسمت شرقی ساختمان بود. ماریلا، شمعی روشن کرد و به آنه گفت که به دنبال او برود؛ آنه بدون هیچگونه شور و اشتیاقی، این وظیفه را به خوبی به سرانجام رساند. زمانیکه آنها از راهرو عبور میکردند، آنه، کلاه و ساک مسافرتیاش را نیز از روی میز برداشت و ماریلا را دنبال کرد. راهرو آنقدر تمیز بود که او را ترساند.
به اتاق کوچک زیرشیروانی که قدم گذاشتند؛ کمی حس بدی که راهرو بر آنه گذاشته بود برطرف شد و این احساس که او از اشیاء کثیفتر است و نباید به چیزی دست بزند از وجود او رخت بربست. ماریلا، شمع را بر روی میز سهپایهی سهگوش گذاشت و ملافههای روی تخت را پائین کشید: «لباسخواب داری؟» آنه با سر، جواب مثبت داد: «بله! دو تا دارم. مدیر پرورشگاه، اونا رو برام درست کرده. اونا به طرز وحشتناکی برام کوچیکن. هیچوقت هیچچیزی به اندازهی کافی توی یه پرورشگاه، پیدا نمیشه؛ برای همین هم همهچیز، همیشه کوچیکه و اندازهت نیس ... حداقل پرورشگاههای فقیری مثل پرورشگاه ما، این وضعیت رو دارن. من از لباسخوابای کوتاه و کوچیک، متنفرم؛ ولی، خب ... تو میتونی با اونا همونقدر خوابای خوب ببینی که اگه یه لباسخواب دوستداشتنی بلند پوشیده باشی که دور یقهش رو با روبانهای زیبا، چین داده باشن. یه لباس که بهت احساس بهتری میده و ناراحتی رو از وجودت دور میکنه.»
- خب، تا جائیکه میتونی زود لباست رو دربیار و برو تو تخت. من چند دقیقهی دیگه برمیگردم که شمع رو ببرم. اینقد بهت اعتماد ندارم که اجازه بدم خودت بذاریش بیرون. احتمال اینکه کل خونه رو به آتیش بکشی، هست.
زمانیکه ماریلا از در بیرون رفت، آنه با حسرت به اطراف نگاه کرد. اینجا اتاقی بود که او تا قبل از اینکه به این خانه برسد، تصور میکرد به او تعلق خواهد داشت و اکنون میدانست که نه او، به آنجا تعلق دارد و نه آنجا به او. دیوارهای دوغابزدهی سفیدرنگش، به طرز ناراحتکنندهای لخت و عریان بودند و چنان به او زل زده بودند که او اندیشید که احتمالا این دیوارها، از اینهمه برهنگی در حال عذاب و درد کشیدن هستند. زمین نیز برهنه و خالی از هرگونه دکوراسیونی بود؛ البته به غیر از یک قالی گرد که در وسط اتاق قرار داشت و آنه تا کنون نظیر آن را جای دیگری ندیده بود. تخت، که در گوشهای از اتاق قرار داشت؛ موجودی بلند و از مد افتاده بود که چهار، پایهی تیرهی کوتاه داشت. در گوشهی دیگر، همان میز سهگوشی قرار داشت که ماریلا شمع را بر روی آن قرار داده بود. میز، با یک جاسنجاقی چاق مخمل قرمز رنگ، مزین شده بود که آنقدر سفت بود که بیشتر سنجاقهای ماجراجوئی که هوس نفوذ به دل او را میکردند را کج میکرد. بالای میز، یک آینهی کوچک شش در هشت، آویزان کرده بودند. پنجرهای مابین میز و تخت، تعبیه شده بود که پارچهی چیت پرچینی، به رنگ سفیدیخی، آن را میپوشاند و در مقابل آن میز مخصوص شست و شوی صورت وجود داشت. آنه، احساس میکرد که هر کدام از اثاثیهی اتاق، با چنان صلابت و انعطافناپذیریای به او خیره شدهاند که او نمیتوانست حتی با کلمات، آن را توصیف کند اما این حس، تا مغز استخوان او را میلرزاند. آنه درحالیکه غم و اندوه درونش را با صدایی چون هق هق گریه بیرون میداد به سرعت لباسش را درآورد و لباس خواب بیش از اندازه کوچکش را به تن کشید و به درون تختخواب پرید و صورتش را درون بالشت فرو کرد و ملافهها را تا روی سرش بالا کشید.
زمانیکه ماریلا به اتاق برگشت تا شمع را با خودش ببرد؛ لباسهای بیش از اندازه کوچک آنه، در نامرتبترین شکل ممکن، بر روی زمین اتاق، پخش بودند و تنها چیزی که نشان از حضور خود آنه در آن اتاق داشت، ظاهر طوفانزده و بههمریختهی ملافههای روی تختخواب بود. ماریلا، عمدا لباسهای آنه را از روی زمین برداشت و آنها را مرتب کرد و به صورت رسمی و مرتبی آنها را بر روی صندلی زرد رنگ درون اتاق چید. سپس شمع را برداشت و به بالای تخت آنه رفت. ماریلا کمی ناشیانه اما مهربانانه گفت: «شب بخیر.» صورت سفید و چشمهای درشت آنه ناگهان با سرعتی شگفتانگیز از زیر ملافهها بیرون آمد؛ صدایش، سرزنش را به سر و روی ماریلا پاشید: «چطور میتونین به امشب بگین شبی «خیر» درحالیکه میدونین امشب، بدترین شب زندگی من تا به الانه؟» و دوباره به درون موقعیت نامرئی بودنش، شیرجه زد.
ماریلا، به آهستگی از پلهها پائین رفت تا به آشپزخانه برگردد و ظرفهای عصرانه را بشوید. متیو درحال پیپ کشیدن بود؛ این کار او یکی از نشانههای آشکار نگرانیهای ذهنی و فکری او بود. از آنجائیکه ماریلا به اینکار او عکسالعمل نشان میداد و چنان از او روبرمیگرداند که انگار در حال انجام کار کثیفی است؛ متیو به ندرت پیپ میکشید؛ اما بعضی شرایط خاص یا فصول مشخصی از سال، متیو را به سمت پیپ کشیدن، هل میداد. و ماریلا که به این نتیجه رسیده بود که مردهای معمولی، باید راهی برای تخلیهی هیجانات و احساساتشان داشته باشند؛ این عمل او را بهگونهای نادیده میگرفت که گوئی متوجه آن نشده است. ماریلا با عصبانیت گفت: «خب، ما چی میخواستیم؛ خانم اسپنسر چکار کرد! این نتیجهی اینه که خودمون، کاری رو انجام ندیم و از یکی دیگه بخوایم برامون انجامش بده. فامیلای ریچارد اسپنسر، اون وسطا، یه جوری، پیغام ما رو عوض کردن. معلومه که فردا یکی از ما دو تا باید بره تا خانم اسپنسر رو ببینه. این بچه باید به پرورشگاه، پس فرستاده بشه.» متیو با بیمیلی جواب داد: «به گمونم باید همینکار رو بکنیم.»
- به گمونت باید اینکار رو بکنیم؟ یعنی مطمئن نیستی؟
- خب راستش، ماریلا! این بچه، یه موجود کوچولوی خیلی مهربونه. یه جورائی جای تاسف داره که پس بفرستیمش وقتی اینقد دلش میخواد اینجا بمونه.
- متیو کاتبرت! منظورت این نیس که ما باید نگهش داریم!
اگر متیو به ماریلا گفته بود که دلش میخواد بالانس بزند و بر روی سرش، بایستد؛ احساس تعجب ماریلا نمیتوانست از آنچه که اکنون با شنیدن این حرفها، احساس میکرد فراتر رود. متیو با ناراحتی و لکنتزبان گفت: «خب، راستش ... نه ... نه به گمونم ... نه دقیقا ...» انگار لکنت زبانش، برای او وقت میخرید تا منظور دقیقش را ��یدا و بیان کند: «به گمونم ... ما نمیتونیم انتظار داشته باشیم که نگهش داریم.»
- معلومه که نه! این بچه چه فایدهای برای ما داره؟
حرف متیو ناگهانی بود و ماریلا را غافلگیر کرد: « ممکنه ما بتونیم برای این بچه فایده داشته باشیم.»
- متیو کاتبرت! انگار این بچه، جادوت کرده! دارم واضح تو حرفا و کارات میبینم که میخوای نگهش داریم.
متیو پافشاری کرد: «خب راستش ... این دخترک، یه موجود کوچولوی واقعا جالبه. باید حرفائی که تو راه میزد وقتی از ایستگاه میآوردمش رو میشنیدی.»
- اوه! این دخترک به اندازه کافی پشت سر هم، حرف میزنه. منم این رو دیدم. و اصلا از اینکارش خوشم نمیآد.
من از بچههایی که اینهمه پرحرفی میکنن خوشم نمیآد. من یه دختربچهی یتیم نمیخوام؛ اگر هم میخواستم این بچه، از اون مدل بچههایی نیس که من انتخابشون میکردم. یه چیزی دربارهی این بچه هس که من نمیتونم بفهممش. نه! این بچه باید بلافاصله به جائی که ازش اومده پس فرستاده بشه.»
- من میتونم یه پسر فرانسوی رو استخدام کنم و این دخترک هم همدم تو بشه.
ماریلا با عصبانیت و بیحوصلگی جوابش داد: «من به همدم نیاز ندارم. و این بچه رو هم نگه نمیدارم.» متیو درحالیکه پیپش را بلند میکرد و آن را کنار میگذاشت گفت: «خب پس ... مشخصه که حرف، حرف توئه. من دارم میرم بخوابم.» و به اتاق خوابش رفت. ماریلا نیز زمانیکه ظرفهای شسته شده را کنار گذاشت، به تختخواب رفت. اخمی که در میان دو ابروی ماریلا نشسته بود نشان از عزم راسخ و تصمیم جدی او داشت. و در طبقهی بالا، در اتاق زیرشیروانی قسمت شرقی ساختمان گرین گیبلز، دختر بچهای تنها و بیکس، که به شدت تشنهی عشق و محبت بود و هیچ دوستی در این جهان نداشت، آنقدر گریست تا به خواب رفت.
0 notes
کبیرہ گناہوں کا بیان
کفر و شرک اور بدعت کے علاوہ اور بہت سے بڑے گناہ ہیں جن کو کبیرہ گناہ کہتے ہیں۔ کبیرہ گناہ شرع میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کو شرع شریف میں حرام کہا گیا ہو اور اس پر کوئی عذاب مقرر کیا ہو یا اور طرح سے اس کی مذمت کی ہو اور یہ وعید حرمت و مذمت قرآن پاک یا کسی حدیث سے ثابت ہو، :کبیرہ گناہ بہت سے ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے
کچھ کبائر یہ ہیں غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا، جھوٹ بولنا، بہتان یعنی کسی کے ذمہ جھوٹی بات لگانا، غیر عورت کو شہوت سے دیکھنا، شہوت سے غیر عورت کی آواز سننا یا کلام کرنا یا اس کی طرف چلنا اور چھونا وغیرہ، مالداروں کی خوشامد کرنا اور دنیا دار کی طرف دنیا کے لئے چلنا، خلاف شرع باتوں کا سننا، مردے پر یا کسی مصیبت پر چلا کریا بین کر کے رونا اور سر و سینہ پیٹنا کپڑے پھاڑنا، بآ جا وغیرہ ساز بجانا ناچ کرنا اور اس کو دیکھنا یا سننا، کسی کی پوشیدہ باتیں چھپ کر سننا، نماز نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، زکوٰۃ نہ دینا، مال اور طاقت ہونے کے باوجود حج نہ کرنا، شراب پینا، چوری کرنا، زنا کرنا، جھوٹی گواہی دینا، کسی کو ناحق مارنا یا ستانا، چغلی کھانا، دھوکہ دینا، ماں باپ یا استاد کی نافرمانی کرنا، اپنے گھروں اور کمرے میں جاندار کی تصویر لگانا، امانت میں خیانت کرنا، لوگوں کے حقیر و ذلیل سمجھنا، گالی دینا، سود لینا اور دینا، رشوت لینا و دینا، داڑھی منڈھوانا اور مونچھیں بڑھانا، گٹوں سے نیچے پآ جامہ پہننا، فضول خرچی کرنا، کھیل تماشا ناٹکوں تھیٹروں اور سینماؤں میں جانا، ٹونے ٹوٹکے کرانا، جانوروں کو ساتھ جمع کرنا یا اغلام کرنا، راستہ لوٹنا، یتیم کا مال ناحق کھانا، جھوٹے فیصلے کرنا، بدعہدی کرنا، شرکیہ منتر یا جادو کرنا، مسئلہ کا جواب بے تحقیق دینا، نفع دینے والے علم کو چھپانا، عورت کا اپنے خاوند کی نافرمانی کرنا، عورتوں کا بے پردہ باہر آنا اور بلا ضرورت پردہ کے ساتھ بھی باہر آنا، دکھانے یا سُنانے کے لئے عبادت و نیکی کرنا، مسلمانوں کو کافر کہنا، اپنی عبادت یا تقویٰ کا دعویٰ کرنا، یہ قسم کھانا کہ مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہو یا ایمان پر خاتمہ نہ ہو، کسی مسلمان کو بے ایمان یا اللہ کی مار یا پھٹکار یا اللہ کا دشمن کہنا وغیرہ
0 notes
🔰 سیرت نبوی ﷺ کا اصل خاکہ
اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا اصل خاکہ (Real Sketch) شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتب اور اِفادات و ملفوظات سے مرتب کیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شخصیت، حسن و جمال، سیرت و کردار، اخلاق و اوصاف، رحمت و رافت، جود و سخا، عدل و انصاف، انسانی ہمدردی، محبت و الفت اور عظمت و شان کا اَصل خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کے ورق ورق اور سطر سطر میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات بخش، فیض رساں اور انسان دوست سیرت کی نورانی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں گی۔ یہ ایمان افروز کتاب سیرت طیبہ پر لکھی جانے والی کتب میں اَہمیت و مؤثریت اور جامعیت کے اِعتبار سے بہت عشق آمیز، روح پرور اور فقید المثال ہے۔
یہ کتاب دراصل فروری 2021ء میں طبع ہونے والی کتاب A Real Sketch of the Prophet Muhammad ﷺ کا اُردو ترجمہ ہے۔
📖 کتاب کی خصوصیات و امتیازات
📗 رسول الله ﷺ کی سیرتِ طیبہ صرف عالمِ اِسلام کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اِنسانیت کے لیے عظیم نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرتِ طیبہ کا حقیقی خاکہ اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔
📗 رسول الله ﷺ خُلقِ عظيم كے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسنِ خُلق کی تمام صفات آپ ﷺ کی جبلّت اور طبیعت میں پیدائشی طور پر ودیعت فرما دی تھیں۔
📗 رسول الله ﷺ كى صفتِ رحمت سارى كائنات پر محیط اور غیر محدود طور پر وسیع ہے، جس سے مخلوق كا ہر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور قيامت تك ہوتا رہے گا؛ بلكہ اختتامِ قيامت تك تمام اُمتیں بھى اِس چشمۂ رحمت سے اپنی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔
📗 رسول الله ﷺ کے چہرۂ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اس لیے آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ طبعاً نرم جُو تھے۔ (گویا آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ اور عادتِ مبارکہ میں ہمیشہ نرمی اور لچک ہوتی تھی۔)
📗 رسول الله ﷺ نہ سخت مزاج تھے، اور نہ ہی سخت دل تھے۔ آپ ﷺ نہ تو سختی کے ساتھ اپنی آواز بلند فرماتے، اور نہ ہی کبھی (کسی سے) سخت کلامی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نہ تو عیب جُو تھے، اور نہ ہی بخیل تھے (یعنی طبیعت میں سخاوت، فراخی اور پردہ پوشی تھی)۔
📗 رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ ﷺ وہ عطا فرما دیتے۔ آپ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔
📗 رسول الله ﷺ بچوں، عورتوں اور کمزور و نادار اَفراد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
📗 رسول الله ﷺ کبھی اگلے دن کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سامانِ خور و نوش ذخیرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ آپ ﷺ کا ہاتھ برتن میں اِدھر اُدھر نہیں جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ صرف اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے)۔
📗 رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی عطا کر دیتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نرم برتاؤ کو پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی خوب ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس شخص کی طبیعت کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اُسے بھلائی کا بڑا حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا اُسے بھلائی کے حصہ سے محروم رکھا گیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! اپنے رب سے ڈرو، اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرو اور صلہ رحمی کرو، تمہاری عمر دراز ہوگی، تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی، تم تنگی و پریشانی سے محفوظ رہو گے اور تمہارے رزق میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیٹیوں پر بہت زیادہ رحم فرمانے والے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اُس کے لیے جنت ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ یتیموں کے والی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ راوی (مالک) نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کو وہ گھر سب سے زیادہ محبوب ہے جس میں یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیواؤں اور مساکین پر رحم فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ قیدیوں پر بھی رحمت و شفقت فرمانے والے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بھائی کے لیے اُس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ (اُس کے لیے دعا کرتا اور) کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (یعنی جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے وہ تجھے بھی نصیب ہو)۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اپنے برتن سے دوسرے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے گا، قیامت ک�� دن اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تم اس شخص سے رشتہ جوڑو جو تم سے تعلق توڑتا ہے، اُسے عطا کرو جو تجھے (ضرورت کے وقت) انکار کرتا ہے اور اُس سے درگزر کرو جو تجھے گالی دیتا ہے۔
📗 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے زیادہ حسین تھے۔
📗 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کی رحمت و رافت اور شفقت و عنایت کا اعجاز تھا کہ ہر کہ و مہ کو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اسی سے مخاطب ہیں۔ ہر شخص اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتا چلا جاتا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے کلمات کے آغاز اور اِختتام کا حسن و کمال اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو کسی کو خوشی و مسرت بہم پہنچانے کا موجب ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو (اُس کے) بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے (اِس دنیا میں) کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل رفع فرما دے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اَعلیٰ مقام تلاش کرو: جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے، تم اس سے بردباری سے پیش آؤ اور جو تمہیں محروم رکھے تم اُسے عطا کرو۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ اَمن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے)۔
📧 کتاب حاصل کرنے کیلئے رابطہ کریں
https://wa.me/p/6916217205118025/923097417163
🔗 https://www.minhajbooks.com/english/book/688/Sirat-e-Nabawi-ka-Asal-Khakah-Real-Sketch
🔗 https://www.google.com/search?q=milad+un+nabi+books+minhajbooks.com
0 notes
عمران خان کے مخالفین
عمران خان کی اننگز ختم ہو گئی ہے، کھیل ابھی باقی ہے۔ قید کی تنہائی میں اگر وہ اپنے حقیقی دشمن کو پہچان پائیں تو وقت کا موسم بدل بھی سکتا ہے۔ یہ دشمن کون ہے؟ یہ سوال ایک انگارہ ہے۔ عمران خان اسے اٹھا کر ہتھیلی پر رکھ لیں تو یہ بجھ جائے گا ورنہ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ تحریک انصاف کے بچے کھچے خیموں کو بھی جلا کر راکھ کر دے۔ انتخابی حریف عمران کے اصل دشمن نہیں، نہ ہی مقدمات اور جیلیں ان کا حقیقی چیلنج۔ ان کے دشمن وہ ’عمران خور‘ ہیں جو اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک عرصے سے عمران کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور انہیں لمحہ لمحہ نوچ رہے ہیں۔ عمران خوروں کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ عمران کے ہمراہ امکانات دیکھ کر یہ اسے نوچنے چلے آئے۔ موسم ناسازگار ہوا تو کچھ اس کی منڈیر سے اٹھ گئے، کچھ ابھی بھی اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کپتان کے انگور کی کچھ بیلوں کا رس ابھی باقی ہے۔ عمران خور کون ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ ان کی مختلف شکلیں ہیں اور مختلف روپ، طریقہ واردات مگر سب کا ایک جیسا ہے۔ ان میں سے کچھ سیاسی یتیم تھے، معاشرے کے شعور اجتماعی نے جنہیں رد کر دیا تھا اور جنہیں میر کی طرح کوئی پوچھتا تک نہ تھا۔ عمران کی صورت انہیں اپنے لیے امکان نظر آیا تو اس کے ساتھ جا ملے۔
انہوں نے وہ بدزبانی شعار کی کہ ابلیس بھی پناہ مانگتا ہو گا۔ یہ اپنی اور دوسروں کی عزت سے یکسر بے نیاز تھے۔ ان کی زبانیں گویا جہنم کا الاؤ تھیں۔ عمران اور تحریک انصاف کے دامن میں انہوں نے نفرت کے سوا کچھ نہیں ڈالا۔ مراعات لیں، وزارتیں ہتھیائیں، مزے کیے اور پھر جیسے ہی وقت کا موسم ذرا سا بدلا، یہ عمران کی منڈیر سے اڑ گئے۔ ان کی بدزبانی کا نشانہ اب خود عمران ہیں۔ یہ اب کسی نئی منڈیر پر بیٹھ کر کسی اور کو نوچنے کی تلاش میں ہیں۔ عمران مخالفوں میں سے کچھ وکیل تھے۔ حلقہ انتخاب سے محروم سیاسی یتیم جن کی سیاست کا کل دارومدار اسی بات پر ہوتا ہے کہ پارٹی قائد مقدموں میں الجھا رہے اور ان کی اہمیت برقرار رہے۔ یہ عمران کا ذکر آنے پر اس کا تسمخر اڑایا کرتے تھے، لیکن ایک وقت آیا یہ عمران کے خیر خواہ بن کر اس کی منڈیر پر جا بیٹھے۔ اس کی مقبولیت کو خوب نوچا۔ مزے کیے۔ ان کی قانون مشاورت کا حال بھی وہی تھا کہ ’بجھ لیا چودھری جی چھولیاں دی دال اے۔‘ یہ حامد خان کی طرح قیادت کی غلطی کو غلطی کہنے کی جرات سے محروم تھے۔ ان کی کل مہارت یہ تھی کہ قیادت کی ہر غلطی کو قانونی جواز دے کر قیادت کی نظر میں معتبر ہو جایا جائے۔
عمران خوروں میں کچھ یو ٹیوبر تھے۔ ان کا عمران کے کاز سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ یہ عمران کی مقبولیت نوچ کر ریٹنگ اور ویوز کے متلاشی تھے۔ انہوں نے عمران کی ہر غلطی کا انسانی تاریخ کی پہلی دانش مندی بنا کر پیش کیا۔ اس کی مقبولیت کو نوچا، نفرت کو ہوا دی، معاشرے میں زہر بھرا اور کپتان کی سیاست کھائی میں پھینک آئے۔ عمران خوروں میں کچھ کالم نگار اور اینکر بھی تھے۔ انہیں بھی ریٹنگ چاہیے تھی۔ یہ روز تلے بیٹھے ہوتے تھے کہ عمران کوئی غلطی کرے اور یہ اس کو ماسٹر سٹروک اور انسانی شعور اور بصیرت کا کمال قرار دیں اور واہ واہ کریں۔ استعفوں سے اسمبلیاں توڑنے تک عمران کے ہرغیر سیاسی فیصلے کے ان عمران خوروں نے قصیدے لکھے۔ ان کے نزدیک حق اور باطل کا معیار یہ تھا کہ جو عمران کہہ دے حق باقی سب باطل۔ انہوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے غلط ناقص اور بدنیتی پر مبنی تجزیے پیش کیے اور جب اس ہیجان کے نتائج سامنے آ گئے تو آرام سے لاتعلق ہو کر بے نیاز ہو گئے۔ ایسا نہیں کہ یہ ’عمران خور‘ ہی اس سب کے اکیلے ذمہ دار تھے، عمران خان خود اس عمران خوری کے سہولت کار تھے۔ انہیں صرف خوشامد اچھی لگتی تھی۔ وہ کوئی معقول بات سننے کو تیار نہ تھے۔
عمران نے 70 سالہ زندگی میں سے 50 سال ایک ہیرو کے طور پر گزارے۔ اس نے ان میں نرگسیت بھر دی اور یہ عارضہ فطری تھا۔ واہ واہ کے علاوہ وہ کچھ سننے کو تیار نہ تھے۔ دنیا کی ساری دانش گویا ان میں تھی اور ان کے علاوہ سب اس دھرتی کا بوجھ تھے۔ تند خو اور بدتمیز عناصر کی حوصلہ افزائی کی گئی اور نجیب اور شریف لوگ اجنبی ہوتے چلے گئے۔ انجام سامنے ہے۔ عمران کے سیاسی زاد راہ میں جتنی مقبولیت تھی اس سے آدھی معقولیت بھی ہوتی تو انجام مختلف ہوتا۔ قید کی تنہائی میں عمران اگر اپنے مزاج کی تہذیب کر سکیں، اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں سے سیکھ سکیں اور عمران خوروں کے طریقہ واردات کو سمجھ کر ان کی جگہ مخلص کارکنان کو ترجیح دینے کا عہد کر لیں تو اگلی اننگز مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ قید اور مقدموں سے سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوتیں، یہ قیادت کی اپنی غلطیاں ہوتی ہیں جو سیاسی جماعتوں کو تباہ کرتی ہیں۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes