Tumgik
#Cipher Case
chickpeamcb · 12 days
Text
Tumblr media
⚠️ PLAY TO WIN ⚠️
A big thanks to the wonderful @mushroomstairs for coding & lettering the instruction panels! Here are some closeups and the the pinball design flats-
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
10K notes · View notes
risingpakistan · 8 months
Text
اچھا جج بشیر، بُرا جج بشیر
Tumblr media
احتساب عدالت کے جج بشیر نے نیب کے مقدمہ میں سال 2018 میں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوے دس سال اور سات سال کی قید بامشقت کی سزا دی۔ اُس موقع پر عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماوں اور ووٹروں، سپوٹروں نے خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور اسے انصاف اور احتساب کے نام پر سراہا اور اس فیصلہ کا ہر جگہ دفاع کیا۔ آج تقریباً کوئی پانچ چھ سال کے بعد اُسی احتساب عدالت کے اُسی جج بشیر نے اُسی نیب کے توشہ خانہ کیس میں عمران خان اور اُنکی اہلیہ کو 14,14 سال کی قید بامشقت ��ور کوئی ڈیڑھ ارب کے جرمانے کی سزا سنا دی۔ آج تحریک انصاف جج بشیر کے فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دے رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مٹھائیاں تو نہیں بانٹیں لیکن دونوں سیاسی جماعتیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف فیصلہ کو انصاف کی عملداری کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ یاد رہے کہ انہی جج بشیر کی اسی عدالت کے سامنے اسی نیب کا توشہ خانہ ریفرنس کا مقدمہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف درج ہے۔ 
نواز، زرداری اور گیلانی کے خلاف نیب نے توشہ خانہ ریفرنس چند سال پہلے دائر کیا تھا۔ عمران خان اور اُنکی اہلیہ کے خلاف توشہ خانہ کا کیس چند ماہ پہلے جج بشیر کی عدالت کے سامنے دائر کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا کیس چند ماہ پہلے دائر ہوا، اُس کا نیب نے خوب پیچھا کیا اور آج جج بشیر کی عدالت نےاس مقدمہ میں فیصلہ بھی سنا دیا۔ جو توشہ خانہ کیس جج بشیر کی عدالت کے سامنے بہت پہلے دائر کیا گیا تھا وہ کہاں گم ہے، اُسکے حوالے سے نیب کیوں سویا ہوا ہے اور اُس کیس میں جج بشیر کیوں روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ نہیں چلا رہے۔ جج بشیر کو ایک فرد کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ ایک ایسے نظام کا نام ہے جس نے احتساب کے نام پر گزشتہ 25 سال کے دوران ہماری سیاست، ہماری ریاست، ہمارے نظام احتساب اور عدالتی سسٹم کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا لیکن اسکے باوجود جاری و ساری ہے۔ جج بشیر نے ماضی میں جو فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دیا اُس میں اُنکی بریت ہو چکی۔ 
Tumblr media
نیب اور عدلیہ کی آنکھیں نواز شریف کے حوالے سے بالکل بدل چکیں اور اب عمران خان جس نظام احتساب کو ماضی میں احتساب کے نام پر انصاف کا نام دیتے تھے، خوشی مناتے تھے، دوسروں کو مٹھائیاں کھلاتے تھے اُن کو آج سود سمیت وہی نظام 14 سال قید بامشقت واپس لوٹا رہا ہے اور آج وہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے ساتھ نانصافی ہو گئی اور احتساب کے نام پر اُن کو سیاسی وجہ پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کے بعد پریس کانفرنس کی گئی اوراس فیصلے کو Justify کیا گیا۔ یاد رہے کہ جج بشیر کی طرف سے نیب کے توشہ خانہ کیس میں فیصلہ کو سراہنے والی ن لیگ نے اپنے حالیہ الیکشن منشور میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نیب کے ادارہ کو ختم کر دے گی، جس سے نیب کی عدالتیں بھی ختم ہو جائیں گی کیوں کہ ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ نیب کے ادارے نے کبھی احتساب کیا ہی نہیں بلکہ احتساب کے نام پر سیاسی انجینئرنگ کی، غلط طریقہ سے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو جیلوں میں ڈالا، اُن کو خلاف جھوٹے سچے مقدمات میں سزائیں دیں۔ 
وہ نیب جو بُرا تھا اور جسے ختم کیا جانا چاہیے اُس کے عمران خان کے خلاف فیصلے پر ن لیگ مطمئن کیوں ہے؟ دوسری طرف اس فیصلہ کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے پاکستان کے عدالتی نظام پر سوالاٹ اُٹھا دیے۔ علیمہ خان اور ان کے بھائی نے یہی سوالات ماضی میں کیوں نہیں اُٹھائے جب اُن کے سیاسی مخالفین کو احتساب کے نام پر نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسا نہیں کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان کرپشن ، بدعنوانی یا غیر قانونی عمل میں شریک نہیں ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا نظام احتساب اور نظام عدل ایک آنکھ سے دیکھنے کا عادی بن چکا ہے۔ اُن کو ایک آنکھ سے جو دکھایا جاتا ہے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور جب اُن کی ایک آنکھ بند کر کے دوسری آنکھ کھولنے کو کہا جاتا ہے تو وہ دوسری آنکھ سے بالکل اُس کے برعکس دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو کچھ اُنہیں پہلے دکھایا جاتا ہے۔ ہماری سیاست، نواز شریف اورعمران خان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے اس ناقص نظام کے ہاتھوں ڈسے جانے پر خوشی مناتے ہیں اور جب خود ڈسے جاتے ہیں تو ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ سیاستدانوں کی یہ ناکامی رہی کہ وہ اس ملک کو ایک با اعتبار، آزاد اور انصاف پسند احتساب کا نظام دینے میں ناکام رہے۔ وہ کبھی اقتدار اور کبھی سزا اور جیل کی قید کاٹنے کے دائرہ کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ نیب اورجج بشیر والا نظام احتساب اپنی جگہ قائم ہے۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
سائفر کیس ہماری سیاسی، سفارتی اور قانونی تاریخ کا تلخ باب
Tumblr media
گزشتہ روز آنے والے فیصلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور یہ سزا ایسے موقع پر سنائی گئی جب ایک ہفتے بعد ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ اڈیالہ جیل کے اندر اس مقدمے کی سماعت کرنے والے خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ اس دوران ملزمان، جو اب سزا یافتہ مجرم ہیں، ٹرائل سے متعلق اپنے حقوق سے انکار پر احتجاج کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دو مواقع پر اسی کیس کی دوبارہ سماعت کا حکم دیا تھا اور ہر بار کیس کو چلانے میں طریقہ کار کی بے ضابطگیوں کو نوٹ کیا گیا تھا۔ ایسا نہیں لگتا کہ تیسری مرتبہ یہ مقدمہ مختلف طریقے سے چلا ہے اور بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی اس فیصلے پر اپیل ہو گی تو شاید اعلیٰ عدالتیں خصوصی عدالت کے فیصلے کی توثیق نہ کریں۔
Tumblr media
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ماضی میں ہونے والی سرزنش کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بنتا ہے کہ خصوصی عدالت اس معاملے کو اتنی عجلت میں ختم کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ دونوں سیاستدانوں کے خلاف سزائے موت مانگی گئی تھی، صورتحال کئی زیادہ تحمل کی متقاضی تھی۔ اس کے بجائے گزشتہ ہفتے کے آخر میں کچھ عجیب و غریب پیش رفت ہوئی۔ جج نے مدعا علیہان کے لیے ان کی رضامندی کے بغیر سرکاری وکیل مقرر کیا اور بعد میں مبینہ طور پر مدعا علیہان کو استغاثہ کے گواہوں سے جرح کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ اسی دوران دونوں ملزمان کی جانب سے مقرر کردہ قانونی ٹیموں نے شکایت کی کہ انہیں بار بار کارروائی تک رسائی سے روکا گیا۔ مقدمہ نمٹانے کے لیے پیر کے روز ایک تیز رفتار اور طویل سماعت ہوئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ ہر چیز سے ایسا محسو�� ہورہا تھا جیسے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے اور فیصلہ سنانے کے لیے کسی قسم کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی گئی ہو۔
کبھی عمران خان نے ایک بڑے جلسے میں خطاب کے دوران پوڈیم سے کاغذ لہراتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف ایک سازش کا پردہ فاش کیا ہے، اس دن سے لے کر ریاستی راز افشا کرنے میں انہیں مجرم ٹھہرائے جانے تک سائفر کا معاملہ ہماری سفارتی، قانونی اور سیاسی تاریخ کے ایک تلخ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس تنازع کے فوری نتائج کے طور پر ہم نے دیکھا کہ امریکا کے ساتھ پہلے سے ہی خستہ حال تعلقات بغیر کسی وجہ کے مزید بگڑ گئے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے عوامی ہمدردی حاصل کرنے میں سازش کے بیانیے سے زیادہ فائدہ مند تو معاشی معاملات سنبھالنے میں ان کے مخالفین کی ناکامی ثابت ہوئی۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف جو بھی مقدمہ ہو، اسے جلد بازی میں نمٹا کر ناقابل تلافی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ اس ڈرامے میں تمام کرداروں کی طرف سے دکھائی جانے والے کم نظری پر حیرانی ہی ہوتی ہے۔
یہ اداریہ 31 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
0 notes
mistxmood · 2 months
Text
Tumblr media
this is the funniest outcome ever
[Image description: digital art of Bill Cipher, tangled up in electrical wires. He has a nervous expression, as he holds up a ripped wire and says: "Oops!" There's a glitchy effect behind him. End ID.]
5K notes · View notes
aesthetinkie · 16 days
Text
Tumblr media
Did that trend where people drew their human bill designs in those valentines day cards in the book of bill! And yes, I put an In Case I Make It reference there ;]
Tumblr media
The og post is by @bitzzoxl ! On twt ! I might rename this human bill design as Will Cipher
3K notes · View notes
candycatfalls · 25 days
Text
Tumblr media
^^ guy stuck for all eternity inside a TV-Y7 disney channel show
3K notes · View notes
dawninsightexplorer · 11 months
Text
Imran Khan and Shah Mahmood Qureshi's Legal Battle
0 notes
arttsuka · 20 days
Text
Tumblr media
Mind games
964 notes · View notes
millenianthemums · 5 months
Text
“all my comfort characters have killed someone at least once” is actually a statistical error. most of my comfort characters have never killed anyone. Murders Bill, who lives in the nightmare realm and has killed like 7 trillion people, is an outlier adn
1K notes · View notes
lightning-girl · 2 months
Text
I've seen so much "Bill Cipher's arms and legs are black because he's wearing thigh highs and gloves"
and not enough "Bill Cipher's arms and legs are black because they're burn scars from destroying his home dimension"
587 notes · View notes
Text
Tumblr media Tumblr media
what if bill tried the sympathy card instead?
bonus:
Tumblr media
407 notes · View notes
cactuupng · 2 months
Text
Tumblr media
Book Of Bill save me, please get released faster
522 notes · View notes
risingpakistan · 8 months
Text
عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں
Tumblr media
دو دن میں دو فیصلے۔ پہلے ’ریاستی راز افشا کرنے پر‘ 10 سال کی سزا اور پھر ’بدعنوانی‘ پر 14 سال کی سزا۔ پہلے ان کے قریب ترین ساتھی اور اب ان کی شریک حیات کو بھی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ ریاست اپنی دشمنی ظاہر کرنے میں کس حد تک جائے گی؟ 8 فروری کے انتخابات تک مزید ’سرپرائز‘ آسکتے ہیں۔ فی الحال ہم صرف بیٹھ کر تماشہ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح حقائق، ضابطہ کار، قوانین اور ادارے ان لوگوں کی مرضی کے سامنے جھکتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک وہ نہ چاہیں ک��ئی بھی منتخب رہنما آزادی کا حق نہیں رکھتا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران تحفے کے طور پر ملنے والے زیورات کے سیٹ کی قیمت کم بتانے پر سزا سنائی گئی ہے۔ یہ فیصلہ احتساب عدالت کے جج کے ذریعے سنایا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ عام انتخابات سے چند روز قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 2024ء کے انتخابات کی دوڑ میں سب سے آگے نظر آنے والے رہنما کو سزا سنائی تھی۔ 
Tumblr media
اس فیصلے کو گزشتہ سال نومبر میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کی سزا کا فیصلہ بھی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہے گا۔ اتفاق سے یا شاید جانتے بوجھتے ہوئے ان ہی جج صاحب کو اسی طرح کے ایک اور کیس کی سماعت کرنی ہے جو توشہ خانہ سے حاصل کی گئی اشیا سے متعلق ہے۔ اس مقدمے میں متعدد گاڑیاں شامل ہیں جو مبینہ طور پر نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری نے توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پاس رکھی تھیں۔ تاہم، یہ دیکھتے ہوئے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جج کی توجہ اور توانائیاں عمران خان اور ان کی شریک حیات کو ’احتساب‘ برانڈ کا انصاف فراہم کرنے کے لیے وقف کر دی گئی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس زیر التوا دیگر معاملات کے لیے بہت کم وقت بچا ہے۔ وہ 11 سال نیب کی احتساب عدالتوں میں رہنے کے بعد مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ احتساب عدالتوں کے زیادہ تر جج تین سال کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں۔ 
اپنی توسیعی مدت کے دوران انہوں نے 4 سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کا فیصلہ کیا ہے، یہ سبھی اس وقت ان کے سامنے لائے گئے جب ان کو دی گئی چھوٹ اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہاں کچھ ذکر نیب کا بھی کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ادارہ صرف طاقتوروں کی خواہشات کی بنیاد پر سیاسی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہے۔ سیاست دان کو ملی چھوٹ ختم ہونے پر نیب اس پر پِل پڑتا ہے اور ہدف بنائے گئے سیاست دانوں کے خلاف ہر طرح کے ’بدعنوانی‘ کے مقدمات قائم کرکے انہیں قانونی چارہ جوئی میں پھنسا دیتا ہے۔ بعض اوقات، ضابطے کی پروا کیے بغیر کمزور شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے ذریعے ایک یا دو سزائیں سنادی جاتی ہیں۔ حیرت کی بات نہیں کہ زیادہ تر مقدمات اور سزائیں چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتی ہیں اور جن پر کبھی سنگین بددیانتی کا الزام لگایا جاتا ہے وہ آخرکار سیاسی شہید بن کر واپس آجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس نے دھیرے دھیرے احتساب کے خیال کو کسی بھی قانونی جواز سے محروم کر دیا ہے۔ اس تازہ ترین سزا سے بھی یہ لگتا ہے کہ کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
emergingpakistan · 8 months
Text
انتخابات سے قبل سنایا گیا فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی یاد تازہ کررہا ہے
Tumblr media
خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر دس سال قید کی سزا سنائی ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک اس فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا۔ عام انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل سنایا گیا یہ عدالتی فیصلہ سابق وزرائے اعظم کے مقدمات اور سزاؤں کی یاد تازہ کررہا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مختلف مقدمات کے ذریعے منظر سے ہٹانے کی شرمناک سیاسی روایت کے تحت عمران خان نے اپنے بہت سے پیشروؤں جیسا ہی انجام پایا ہے۔ ان پر اور شاہ محمود قریشی پر جیل کے اندر سائفر سے متعلق مقدمہ چل رہا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی رہنما کو سرکاری راز افشا کرنے پر سزا سنائی گئی ہے۔ عمران خان پر ایک سفارتی دستاویز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور خفیہ مواصلات کو گم کردینے کا الزام ہے عمران خان کا یہ کہنا تھا کہ وہ دستاویز امریکا کی جانب سے درپیش ایک خطرے کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ان کی حکومت کو واشنگٹن اور اس وقت کی فوجی قیادت کی سازش کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اس وقت واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر کو غلط طریقے سے استعمال کیا تھا اور یہ بیانیہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے نام نہاد دستاویز کو ایک سیاسی جلسے میں لہرایا، جس سے ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹائے جانے سے کچھ ہفتوں پہلے عوامی جذبات کو بھڑکایا گیا۔ اس بیانیے نے کام دکھایا اور عمران خان کے حامیوں کو پرجوش کر دیا۔ یہ واضح ہے کہ سازش کا الزام انہیں عسکری قیادت کے ساتھ بھی محاذ آرائی پر لے آیا، وہی عسکری قیادت جس نے کبھی ان کی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم کے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن یہ بھی ظاہر ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کے پیچھے بدلہ لینے کی خواہش کارفرما تھی۔ جیل کے اندر عدالتی کارروائی جس طریقے سے چلی اس سے مس ٹرائل کے الزامات کو تقویت ملی۔ پھر انتخابات سے چند روز قبل فیصلہ سنایا جانا بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔
Tumblr media
 یہ سابق وزیر اعظم کی دوسری سزا ہے کیونکہ وہ اس سے پہلے بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے۔ انہیں گزشتہ سال اگست میں توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی، جس نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا۔ دریں اثنا، پی ٹی آئی کے خلاف سخت کریک ڈاؤن نے پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے۔ اس کا مقصد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان یعنی کرکٹ بیٹ واپس لے لیا اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے انتخابی امکانات کو سب سے بڑا دھچکا پہنچا۔ پھر بھی تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بنی ہوئی ہے، جس نے آنے والے انتخابات، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں مینیج کر لیا گیا ہے، میں اپنے حریفوں کو چیلنج کیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کو سزا سنانے کا مقصد پارٹی کے حامیوں کے حوصلے پست کرنا لگتا ہے، لیکن اس کا نتیجہ اس کے برعکس بھی نکل سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں۔ ایسی صورتحال میں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس لہر کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔ 
پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما کی سزا پورے سیاسی ماحول کو بدل سکتی ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو مقبول سیاسی رہنماؤں کو الگ تھلگ کرنے کی ایسی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ درحقیقت، اس بات کے قوی اشارے ہیں کہ سزا سے سابق وزیر اعظم کی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانوں میں جو کہ کل ووٹروں کی اکثریت ہیں۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت سے کھیلے جانے والے طاقت کے کھیل کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ انتخابی عمل میں عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظاہرہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمزور انتخابی مہم سے ہوتا ہے۔پی ٹی آئی اور کچھ دوسرے گروہوں پر جاری جبر نے پہلے ہی ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال پیدا کر دی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عمران خان کی سزا ملک میں موجودہ سیاسی پولرائزیشن اور عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے، جس سے پورے جمہوری عمل کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات کی ساکھ پہلے ہی مشکوک ہونے کے باعث ملک کے استحکام کی طرف بڑھنے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ 
مشکوک انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی ایک کمزور سویلین حکومت کے لیے بہتر حکومت کرنے اور اقتصادی اور قومی سلامتی کے محاذوں پر کچھ ڈیلیور کرنے کا امکان نہیں ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے کمزور ہونے کے نتیجے میں طاقت کے ڈھانچے پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا سایہ پہلے ہی طویل ہو چکا ہے۔ ایک عوامی اجتماع میں آرمی چیف کے حالیہ تبصروں سے متعلق سامنے آنے والی کچھ خبریں موجودہ سیاسی نظام کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کے تنقیدی جائزے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ملک میں آرمی چیف کا اسٹیبلشمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر کے موضوعات پر بات کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی جب موجودہ آرمی چیف نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے سیاست سے لے کر معیشت، خارجہ پالیسی اور مذہب تک کے مسائل پر بات کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اپنا وژن تھا کہ ملک کس طرح اپنی تقدیر بدل سکتا ہے، کچھ لوگ اسے ’جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن‘ کہتے ہیں،۔ یہ یقینی طور پر پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کے ریمارکس فوجی سربراہوں سے منسوب کیے گئے ہوں۔ 
سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملک کو درست سمت میں لے جانے کے لیے اپنی ایک ’ڈاکٹرائن‘ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبہ کے ساتھ یہ عوامی تعامل انتخابات کے قریب ہی ہوا تھا۔ ایسا عمران خان کی تازہ ترین سزا سے چند دن پہلے ہونا اتفاق نہیں ہو سکتا۔ یہ یقینی طور پر کوئی غیر سیاسی گفتگو نہیں تھی اور اس کے ملک کے مستقبل پر اثرات ہوں گے۔ اگرچہ سیاست کے بارے میں آرمی چیف کے خیالات زیادہ تر سویلین سیاسی رہنماؤں پر ادارہ جاتی عدم اعتماد کی عکاسی کرتے تھے تاہم سماجی اور ثقافتی مسائل پر ان کا نقطہ نظر زیادہ اہم لگا۔ اگرچہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ فوج زمام اقتدار سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ سویلینز کو بھی کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتی ہے۔ سیاست دانوں کا عدم اعتماد اب بھی واضح ہے، حالانکہ انتخابات کے انعقاد پر شک کی اب کوئی وجہ نہیں ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان کی سزا کے بعد سیاسی منظر نامہ کیسا بنتا ہے۔
زاہد حسین  
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
99redragons · 22 days
Text
Tumblr media
Saw the Bill mugshot and immediately thought of this, had to do it. A scenario where they'd be arrested together is so funny. Ford's a bit beat up and dirty because he resisted arrest. Bill... is Bill.
401 notes · View notes
rainbow-beanie · 2 months
Text
OH JESUS CHRIST!! XD
Tumblr media
My first thought after seeing this
Tumblr media
426 notes · View notes