Tumgik
#آرمی ایکٹ ترمیمی بل
urduchronicle · 10 months
Text
فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ،فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر کردی گئیں ۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ 13 دسمبر کو سماعت کرے گا۔۔جسٹس امین الدین،جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس عرفان سعادت لارجر بینچ کا حصہ ہونگے۔ تئیس اکتوبر کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year
Text
صدر پاکستان کا حیران کن ٹویٹ
Tumblr media
آئین کا آرٹیکل 75 صدر مملکت کے بلوں کے حوالے سے اختیارات سے متعلق ہے۔ صدر آئین کے آرٹیکل 75 شق (1) کے تحت پارلیمان سے بھیجے گئے بل کی منظوری دیتے ہیں۔ دستخط نہ کرنے پر صدر پاکستان بل کی شق پر اعتراض تحریری طور پر 10 دن کے اندر واپس پارلیمان کو بھجوانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ آئین پاکستان آرٹیکل 75 کے مطابق صدر مملکت کوئی بھی پارلیمان سے پاس کردہ بل پارلیمان کو بھیجتے ہیں تو اس کے پاس دو اختیار ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اس پر دستخط کر دیں، دوسرا آئینی اختیار یہ ہے کہ وہ 10 دن کے اندر مشاہدات، اعتراضات لگا کر اپنے دستخط کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں۔ لیکن اب صدر مملکت نے دستخط سے انکار اور معافی کا ذکر کر کے آئین پاکستان کی تاریخ میں حیران کن طور پر رات گئے ایک ٹویٹ کر دیا کہ انہوں نے تو پارلیمنٹ سے آئے بل کو دستخط کیے بغیر سٹاف کو واپس کر دیا تھا اور یہ کہ وہ اس بل سے متفق نہیں تھے۔ یہ آئین پاکستان کے مطابق ایک غیر آئینی عمل ہے اور کچھ سنجیدہ سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ وہ یہ ہیں کہ صدر مملکت وضاحت کریں کس اسٹاف کو انہوں نے کب اور کیسے بلز واپس کیے تھے؟
کیا صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 75 کے تقاضوں کو پورا کیا ؟ اور اگر ایسا کیا تو کیسے انہوں نے بغیر دستخط کیے بلز سٹاف کو واپس کر دیے تھے اور کس قانون کے مطابق انہوں نے یہ عمل کیا؟ ملک کے صدر نے اپنے سٹاف پر ان کی بات نہ ماننے کا الزام لگایا ہے تو صدر مملکت اپنا سرکاری بیان تحریری ثبوت کے ساتھ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کریں۔ انہوں نے دیگر باقی بلز اعتراضات کے ساتھ واپس کیے ویسے ہی یہ بل بھی واپس کیے تھے۔ آفیشل ایکٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر صدر مملکت کے دستخط جس کے بعد یہ دونوں بل باقاعدہ قانون کی حیثیت سے نافذ ہو گئے ہیں اور سائفر کے حوالے سے سرکاری رازوں کے افشا کے الزام میں تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری گذشتہ روز پیش آنے والے دو ایسے واقعات ہیں جو ملک کے سیاسی ماحول کو بہت متاثر کریں گے۔ دوسری جانب بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صدر نے ان فائلوں پر دستخط ہی نہیں کیے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں قوانین منظور ہی نہیں ہوئے۔ 
Tumblr media
آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق اگر صدر کے پاس دس دن کا وقت ہوتا ہے، اس کے دوران کسی بل کو واپس بھیج دیں تو اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کے حق میں اکثریتی ووٹ آ جائے تو یہ قانون بن جاتا ہے۔ لیکن موجودہ صورت میں چونکہ قومی اسمبلی ہی نہیں ہے اس لیے مشترکہ اجلاس بلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ان قوانین کے منظور ہونے کا معاملہ مشتبہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کے ٹویٹ نے ایک آئینی بحران پیدا کر دیا ہے۔ بات صرف یہی نہیں ہے بلکہ سائفر کے معاملے نے بھی صورتِ حال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کا سائفر بیانیہ بھی اعترافِ جرم ہی ہے کیوں کہ خفیہ خط کا متن اور اس کا مفہوم یعنی معلومات پبلک کرنا بھی سیکرٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہوتا ہے کہ اس کو پڑھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ یہ حساس معلومات اپنے عہدے تک ہی رکھیں۔ سائفر خفیہ پیغام ہوتا ہے جس کو خفیہ رکھنا ضروری ہے۔ عمران خان نے سائفر کو ’لیک‘ کر کے اس کے کوڈ کو خفیہ رکھنے کی سرکاری رازداری کو نقصان پہنچایا۔
وزارت خارجہ کے رولز آف بزنس کے تحت سائفر صرف وزارت خارجہ کے پاس رہتا ہے اور جو وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف کے پاس جاتا ہے وہ سائفر نہیں جاتا بلکہ جو سائفر ہوتا ہے وہ اپنے لفظوں میں لکھ کر اس کا مفہوم وزارت خارجہ بھجواتا ہے۔ سائفر کو وزیراعظم سمیت کوئی نہیں دیکھ سکتا کیوں کہ یہ سائفر سکیورٹی کا قانون ہے۔ اب سائفر کیس کے حوالے سے جو اہم گرفتاریاں ہو رہی ہیں تو تمام حساس نوعیت کے معاملات عدالت کے روبرو پیش ہو جائیں گے۔ ایف آئی اے نے سائفر کے راز افشا کرنے پر ہی شاہ محمود قریشی کو حراست میں لیا ہے اور ان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات 5 اور 9 کے علاوہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ممکن نہیں کیوں کہ 14 دسمبر کو حلقہ بندیوں کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے بعد الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 23 اور 36 کے تحت انتخابی فہرستوں کو ازسر نو غلطیوں سے پاک کیا جایے گا اور حلقہ بندیوں کے مطابق ترتیب دیا جائے گا اور ماضی کے اہم فیصلے جو سپریم کورٹ نے اس حوالے سے نافذ کیے تھے ان فیصلوں کی روشنی میں انتخابی فہرستیں ازسرنو مکمل کرنے میں تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا جس میں نئی انتخابی فہرستوں کی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ لہٰذا قانون کے مطابق تمام مراحل مکمل ہونے پر ہی الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 57 کے تحت الیکشن شیڈول جاری کرے گا اور اس کے لیے ابھی خاص تاریخ کا تعین کرنا قبل از وقت ہے۔
کنور دلشاد  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
صدر محترم کا ٹویٹ : چند اہم سوالات
Tumblr media
صدر محترم جناب عارف علوی کا ٹویٹ پڑھا تو منیر نیازی یادآ گئے 
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستانیوں کا معاملہ بھی منیر نیازی جیسا ہے، ایک دریا کے پار اترتے ہیں تو دوسرے دریا کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک بحران سے نکلتے ہیں تو دوسرا بحران دامن سے لپٹ چکا ہو تا ہے۔ معلوم نہیں یہ سب اتفاق ہے یا اسے اہتمام قرار دیا جائے۔ اب صدر محترم کے ٹویٹ سے جو بحران پیدا ہوا ہے، اس کی سنگینی خاصی پریشان کن ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر صرف قانون کی روشنی میں صدر محترم کے موقف کا جائزہ لیا جائے۔ جناب عارف علوی کے ٹویٹ کے اہم نکات کی تلخیص کی جائے تو وہ یہ ہیں  1۔ انہوں نے ٓفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔ کیوں کہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔ 2۔ انہوں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ دستخطوں کے بغیر بلوں کو واپس بھیج دیں تا کہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ 3۔ انہوں نے عملے سے پوچھا کیا بل دستخطوں کے بغیر واپس بھجوائے جا چکے ہیں اور عملے نے ان سے جھوٹ بلا کہ بل واپس بھجوا دیے گئے۔ یوں عملے نے ان سے جھوٹ بولا۔ 4۔ ان کا کہنا ہے اللہ سب جانتا ہے وہ معاف کر دے گا تاہم وہ ان لوگوں سے معافی مانگتے ہیں جو اس سے متاثر ہوں گے۔
یہ موقف کسی معمولی آدمی کا نہیں، یہ ریاست کے سربراہ کا موقف ہے۔ اس سے ایک خوفناک بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ رویہ مناسب نہیں کہ سیاسی وابستگی نفرت اور عصبیت کی بنیاد پر اس موقف کو درست مان لیا جائے یا غلط قرار دے دیا جائے۔ مناسب طرز عمل یہی ہو گا کہ جب تک چیزیں کھل کر سامنے نہیں آ جاتیں ہم اس موقف کی صحت کو آئین کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کریں کہ کیا صدر محترم درست کہہ رہے ہیں یا یہ واقعاتی شہادتیں ان کے موقف کی تائید نہیں کرتیں۔ اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلے دستور پاکستان کے آرٹیکل 75 کو دیکھنا ہو گا۔ اسی مطالعے سے پہلا سوال پیدا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صدر مملکت جب کسی بل پر دستخط نہ کریں تو اس بل کو واپس بھجوانے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ وہی طریقہ کار ہوتا ہے جو صدر محترم بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے سٹاف سے کہا ان بلوں کو واپس بھجوا دیجیے اور سٹاف نے آ کر بتا دیا کہ ہم نے بل واپس بھجوا دیے؟
Tumblr media
آرٹیکل 75 کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 75 ون (بی) کے تحت صدر مملکت کسی بل کو اس طرح واپس بھیج ہی نہیں سکتے جیسے وہ بیان کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 75 ون (بی) میں واضح طور پر ایک طریق کار دیا گیا ہے یعنی چند شرائط عائد کی گئی ہیں اور صدر نے بل پر دستخط نہ کرنا ہوں تو واپس بھیجنے کے لیے ان شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ صدر جب کسی بل کو واپس بھیجے تو ساتھ لکھ کر بتائے گا کہ اسے اس بل کی کس شق پر اعتراض ہے۔ یعنی اگر ایک شق پر اعتراض ہے تو اس کا بتائے گا اور اگر ایک سے زیادہ شقوں پر اعتراض ہے تو ان سب کا ذکر گا کہ اسے فلاں فلاں شق پر اعتراض ہے اور لکھے گا کہ اس کے اعتراض کی نوعیت کیا ہے۔ ساتھ ہی اگر وہ چاہے تو پارلیمان کو اس بل میں ترامیم بھی تجویز کر سکتا ہے۔ گویا آئین صدر کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ زبانی حکم پر بل واپس کر دے۔ نہ ہی صدر کے سٹاف کو یہ اختیار ہے کہ وہ صدر کے زبانی حکم پر بل پارلیمان کو واپس بھیج دے۔
سوال اب یہ ہے کہ جب عارف علوی صاحب نے یہ دونوں بل واپس بھجوانے کا فیصلہ کیا تو کیا انہوں نے آئین کے آرٹیکل 75 پر عمل کیا ؟ کیا انہوں نے بل واپس بھجواتے ہوئے وہ شرائط پوری کیں جو آئین نے ان پر عائد کی تھیں؟ کیا انہوں نے کہیں لکھ کر بتایا کہ انہیں ان دونوں بلوں کی کس کس شق پر اعتراض تھا اور اس اعتراض کی نوعیت کیا تھی؟ نیز یہ کہ کیا انہوں نے ان بلوں میں کوئی ترمیم تجویز کی تھی۔ یاد رہے کہ ترمیم تجویز کرنا یا نہ کرنا صدر محترم کا اختیار تھا۔ چاہیں تو وہ ترمیم تجویز کر دیں اور چاہیں تو نہ کریں۔ لیکن بل کی واپسی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک صدر محترم واضح طور پر لکھ کر نہ بتائیں کہ انہیں اس بل کی کس شق پر اعتراض ہے اور اس اعتراض کی نوعیت کیا ہے۔ جناب عارف علوی کے ٹویٹ میں، بادی النظر میں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف بل واپس بھجوائے جانے کا حکم دینے کی بات کر رہے ہیں۔ 
بظاہر یہ زبانی حکم لگتا ہے۔ یہ تاثر بھی آ رہا ہے کہ انہوں نے ان دونوں بلوں کو واپس بھیجتے وقت ان کی متعلقہ شقوں کی نشاندہی نہیں کی جن پر انہیں اعتراض تھا۔ اگر ایسا ہی ہے تو صدر محترم غیر آئینی کام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر صدر محترم نے متعلقہ شقوں کی نشاندہی کی تھی تو اس کا ذکر ٹویٹ میں کیوں نہیں؟ ان کا ٹویٹ اس معاملے میں مبہم کیوں ہے؟ یہ کسی سیاسی جلسہ عام سے خطاب نہیں، یہ سربراہ ریاست کا ٹویٹ ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر ان کے حکم کو پامال کیا گیا ہے تو وہ ایک بے بس شہری کے طور پر سوشل میڈیا کا سہارا کیوں لے رہے ہیں، انہوں نے اب تک متعلقہ حکام کے خلاف کاررووائی کیوں نہیں کی؟ وہ آج بھی صدر ہیں اور ایوان صدر کے متعلقہ سٹاف کے خلاف کارروائی کرنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ریاست کا سربراہ اپنے اختیارات کے استعمال کی بجائے سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ وہ معافی مانگنے اور اللہ پر چھوڑنے کی بجائے اپنا فرض کیوں نہیں ادا کر رہے؟ اگر ان کا موقف درست ہے تو ان کا سٹاف غیر آئینی کام کا مرتکب ہوا ہے، ایسے میں صدر محترم کو کارروائی کرنی چاہیے یا سوشل میڈیا پر شور مچانا چاہیے؟ اگر وہ یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ وہ تو بے بس ہو چکے ہیں اور وہ تو عملا کوئی حکم جاری کرنے کے قابل ہی نہیں تو یہ تاثر بھی نہیں بن پا رہا، ایسا ہی ہوتا تو پھر صدر محترم ٹویٹ بھی نہ فرما رہے ہوتے۔ اگر وہ ٹویٹ فرما کر پورے ملک کی جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرنے میں آ زاد ہیں تو کیا وجہ ہے وہ متعلقہ سٹاف کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے؟ صدر صاحب کو اگر ان بلوں کی کچھ شقوں یا بہت سی شقوں پر اعتراض تھا تو یہ اعتراض اب تک سامنے کیوں نہ آ سکا؟ کوئی پریس نوٹ یا کوئی ٹویٹ؟ بہت سے راستے موجود تھے؟
آصف محمود
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
0 notes
nowpakistan · 5 years
Photo
Tumblr media
صدر نے سروسز ایکٹ میں ترامیم کی توثیق کردی
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
قائمہ کمیٹی دفاع نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دیدی اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ و قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل کی منظوری دیدی۔ تفصیلات کے مطابق جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہوا جس کے 13 نکاتی ایجنڈے میں آرمی ترمیمی ایکٹ شامل نہیں تھا تاہم ایکٹ کو سپلیمنٹری ایجنڈے کے طور پر پیش کیا گیا۔وزیرمملکت علی محمد خان کی وقفہ سوالات معطل کرنے کیلئے رولزمعطلی کی تحریک منظور کی گئی
0 notes
qaumisafeer · 5 years
Photo
Tumblr media
خواجہ آصف: لندن میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر صرف فیصلے سے آگاہ کیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ لندن پہنچنے پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت سے متعلق پارٹی فیصلے سے آگاہ کردیا تھا۔
0 notes
urduchronicle · 11 months
Text
فوجی عدالتوں کے حق میں قرارداد منظوری کے خلاف سینیٹ میں ہنگامہ، اجلاس ملتوی
سینیٹ کا اجلاس ہنگامہ آرائی کی نظر ہوگیا۔اراکین نے گذشتہ روز فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں منظور کی گئی قرارداد پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج کیا۔اس دوران کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیا گیا۔ سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت شروع ہوا تو نکتہ اعتراض پر سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ گزشتہ روز ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں قراداد منظور کی گئی۔قراداد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Photo
Tumblr media
سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کو سینیٹ میں بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینٹ کا اجلاس ہوا جس میں سنیٹر ولید اقبال نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان ائیر فورس 1953 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1961 ترمیمی بلز پر قائمہ کمیٹی دفاع کی رپورٹس ایوان میں پیش کیں جس کے بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے سروسز ایکٹ ترمیمی بلز کو ایوان میں شق وار منظوری کے لیے پیش کیا جس کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
0 notes
saraikinewss · 5 years
Photo
Tumblr media
آرمی چیف دی مدت ملازمت طے کرݨ کیتے پارلیمنٹ ءچ قانون سازی دا عمل شروع کر ݙیتا اسلام آباد ( سرائیکی نیوز ) وفاقی حکومت نے ھک پاسے سپریم کورٹ آف پاکستان دے حکم دی روشنی ءچ آرمی چیف دی مدت ملازمت طے کرݨ کیتے پارلیمنٹ ءچ قانون سازی دا عمل شروع کر ݙیتا ھِ وزیر قانون فروغ نسیم نے میڈیا نال گالھ مہاڑ ءچ ݙسایا کہ ایں سلسلے ءچ وفاقی حکومت سپریم کورٹ ءچ دائر ریونیوپٹیشن واپس گھنݨ دا کوئی ارادہ نی رکھیندی باوجود ایندے کہ پاکستانی آرمی ترامیم ایکٹ ٢٠٢٠ پارلیمنٹ ءچ منظور کر گھیدا گئیا ھِ تاہم انہاں دا آکھݨ ھا کہ ایں ریویوپٹیشن دے نال ملحقہ دیگر درخواستیں واپس گھیدیاں ونج سکدیاں ھن ، فروغ نسیم دے بیان دے بعد ویاسی تے قانونی حلقیان ءچ ھک نویں بحث چھڑ گئی ھِ کہ بل دی منظوری دے بعد ایں ریویو پٹیشن دا کیا تھیسی ، جبکہ کجھ قانون داناں دا آکھݨ ھِ کہ ترمیمی بل دی منظوری دے بعد ریویو پٹیشن کود بخود غیر موثر تھئی ویسی کیونکہ عدالتی احکام دی روشنی ءچ حکومت قانونی عمل پورا کر گھینسی۔
0 notes
dailyswail · 5 years
Photo
Tumblr media
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کل قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا آرمی ایکٹ ترمیمی بل کل قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا قومی اسمبلی کے کل کے اجلاس کا ایجنڈا جاری کردیا گیاہے۔ 
0 notes
45newshd · 5 years
Photo
Tumblr media
حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں حکومت کا نہیں بلکہ کس کا ساتھ دیں گے، سراج الحق نے دھماکہ خیز اعلان کر دیا اسلام آباد (این این آئی)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی آرمی ایکٹ میں حکومت کا نہیں اصولوں کا ساتھ دے گی، حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں،وزیراعظم کسی بھی وقت پسند اور ناپسند کی بنیاد پرفیصلہ کریگا جس کی بنیاد پر ادارے کمزور ہونگے، حکومت 15نومبر سے قبل یہی قانون سازی کرتی تو وہ ادارے کے مفاد ہوتی۔
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
تو کیا نواز شریف لینن ہیں؟
اہم یہ نہیں کہ مسلح افواج کی تینوں شاخوں کے سربراہوں کی ریٹائرمنٹ عمر اور عہدے میں توسیع کی مدت ک�� باضابطہ قانونی شکل نہیں ملنی چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ دو ایوانی پارلیمان اس بابت جن ترامیم کی منظوری دینے والی ہے انھیں پاکستان کی کسی بھی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر کسی کو بھی چیلنج کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ کیا کمال بات ہے کہ جس سپریم کورٹ میں صدر اور وزیرِ اعظم کے اختیارات و اقدامات سمیت پورا آئین چیلنج ہو سکتا ہے اسی سپریم کورٹ کے دائرہِ اختیار سے آرمی ایکٹ کی مجوزہ ترامیم خارج کرنے کی تجویز ہے اور حزبِ اختلاف بھی مجوزہ بل کی اس شق کو چیلنج کرنے کے موڈ میں نہیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو چھ ماہ کے اندر سیدھا کرنے کی جو قانونی مہلت دی ہے وہ آرمی ایکٹ میں اس سقم کو چیلنج کرنے والے ایک شہری کی درخواست پر ہی دی۔
اس پر طرہ یہ ہے کہ جس حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس بابت قانون سازی کا بیڑہ اٹھایا ہے اسی حکومت نے اسی فیصلے کے خلاف اسی سپریم کورٹ میں نظرِثانی کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے اور پھر اس نظرِثانی کی درخواست پر فیصلے کا انتظار کیے بغیر گولی کی رفتار سے قانون میں ترامیم پر بھی کمر بستہ ہے۔ اور حزبِ اختلاف کی سرکردہ جماعتیں بھی اس نکتے کو خاطر میں لائے بغیر سرکاری ترمیمی بل کو اسی ہفتے دو ایوانی پارلیمان سے چند گھنٹے کی رسمی بحث کے بعد منظور کروانے کے لیے حکومت کی ہمنوا ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز نے مجوزہ بل کی مخالفت کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
مگر فراست کا تقاضا تو یہی ہو گا کہ یکسر مخالفت یا واک آؤٹ کا آسان راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس بل کو زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور جمہوری روح سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ٹھوس متبادل تجاویز سیر حاصل بحث کے ذریعے بل میں شامل کروانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ حزبِ اختلاف کو یہ شکایت تو ہے کہ اتنے اہم معاملے پر حکومت نے انھیں پیشگی اعتماد میں نہیں لیا مگر خود حزبِ اختلاف کے اندر باہمی ہم آہنگی کا عالم یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی متفقہ پارلیمانی لائحہ عمل اختیار کرنے یا بل پر تفصیلی غور و غوض کے لیے اب تک کسی نے کل جماعتی اپوزیشن اجلاس طلب کرنے کی بات نہیں کی۔
سب سے آسان تو یہ ہوتا کہ جیسے سپریم کورٹ میں سینیئر ترین جج کا چیف جسٹس بننے کا استحقاق تسلیم کیا جاتا ہے یہی فارمولا مسلح افواج کی سربراہی پر بھی لاگو کر کے مدتِ ملازمت کو باضابطہ بنانے کا فرض انجام پا جاتا۔ مگر ہم چونکہ ہمیشہ سے ہر اہم معاملے میں مشکل پسندی کی پگڈنڈی سے گزر کے کسی سہل سرائے میں بستر بچھانے کے عادی ہیں لہذا سیدھے، آسان اور کامن سینس والے راستے پر چلنے میں لطف نہیں آتا۔ ہمیں تو کسی کو سجدہِ تعظیمی بھی کرنا ہو تو اس کی تصویر بنوانے کی علت ہے۔ رہی بات عوامی اور سوشل میڈیا کے واویلے کی کہ ہائے ہائے نواز شریف کیسے مان گیا یا بلاول کی کیا مجبوری تھی۔ ان قومی جماعتوں نے اپنے جمہوری انقلابی موقف سے تیز رفتار یو ٹرن کیوں لے لیا، چند ذاتی مفادات و سہولتوں کے لیے جمہوری روح کو ایک بار پھر نیلامی کے ٹھیکے پر کیوں چڑھا دیا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کو چھ ماہ کے اندر سیدھا کرنے کی قانونی مہلت دی ہے ایسے معصومانہ عوامی ردِعمل پر صرف پیار ہی آ سکتا ہے۔ مجھے ہمدردی ہے ان سب سے جو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بانی نواز شریف میں کوئی لینن، انگشتِ شہادت کو آواز کی رفتار سے ہلانے والے شہباز شریف میں کوئی منڈیلا، سلیکٹڈ پرائم منسٹر کے گردانی بلاول میں کوئی کاسترو، اسفند یار ولی میں کوئی ولی، مولانا فضل الرحمان میں کوئی ماؤزے تنگ، عمران خان میں کوئی آیت الله خمینی، اینکروں میں کوئی ڈیوڈ فراسٹ و رویش کمار اور کالم بازوں میں کوئی محمد علی جوہر تلاش کر رہے ہیں۔ ان سب سادہ لوحوں سے زیادہ حقیقت پسند تو اپنے شیخ رشید احمد ہیں۔ فرق ہے تو بس یہ کہ اگر شیخ رشید نیوز پرنٹ پر شائع ہونے والی پیش گوئی ہیں تو باقی مرغِ راہ نما چکنے کاغذ پر چھپے ہوئے شیخ رشید ہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
nowpakistan · 5 years
Text
مسلم لیگ ن نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کردی
مسلم لیگ ن نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کردی
لندن میں موجود پارٹی قیادت نے بل کی اتفاق رائے سے منظوری کی ہدایت دیدی۔ مسلم لیگ ن کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کا راجہ ظفرالحق کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں حکومتی وفد سے ہونیوالی ملاقات ہر بریفنگ دی گئی۔
اس سے قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قانون سازی کے لیے حکومتی وفد نے مسلم لیگ ن سے ملاقات میں حمایت مانگی تھی۔ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے آج ہی مشاورت مکمل ہونے کی خوشخبری سنا دی تھی۔
آ…
View On WordPress
0 notes
gcn-news · 5 years
Text
آرمی ایکٹ ترمیم پر پرویز رشید خاموش کیوں؟
ترمیمی بل میں وو ٹ نہ دینے پر ذمہ داری قبول کرتا ہوں، رہن اسلام آباد(جی سی این رپورٹ) آرمی ایکٹ ترمیم کے معاملے پر ووٹ نہ دینےکی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ ن پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ووٹ نہ دینے کا فیصلہ میرا ذاتی تھا۔ میں نے اس بارے میں کسی سے کوئی بات نہیں کی تھی۔آخری لمحے تک میرا فیصلہ صرف مجھے پتہ تھا۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرویودیتے ہوئے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اگر میں نے آرمی ایکٹ ترمیم پر بات کی تو پارٹی کو نقصان ہو گا اور مخالفین کو خوشی۔ ان کا کہنا تھا کہ میری پارٹی نے ابھی تک مجھ سے اس پر سوال نہیں کیا،جب پارٹی سوال کرے گی تو میں ان کو جواب دوں گا، اس سے پہلے میں کسی سے کچھ نہیں کہا آرمی ایکٹ پر بولا تو پارٹی کو نقصان اور مخالفین کو خوشی ہوگی۔میں ووٹ نہ دینے کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ نواز شریف خاموش ہےتوسیاست اسکے گرد کیوں گھوم رہی ہے۔ عمران خان جاچکے ہیں۔ کلینکل موت ہو چکی ہے۔ صرف سرٹیفیکیٹ دینا باقی ہے کو اتحادی بدبو سے بچنے کیلیے دیں گے۔ پرویز رشید نوازشریف کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ا ن کا کہنا تھا اس وقت پاکستان کی سیاست نوازشریف کے گرد اس لئے گھو م رہی ہے کیونکہ وہ خاموش ہیں۔ جبکہ نوازشریف خاموش نہیں ہیں، ان کی سیاست بول رہی ہے اور وہ واپس آئیں گے۔ واضح رہے کہ پرویز رشید نے آرمی ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹ نہیں دیا تھا۔ اسی پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ میرا ذاتی فیصلہ تھا، لیکن میں اس بارے میں ابھی تک بات نہیں کروں گا۔ اگر میں بات کروں گا تو اس کا نقصان پارٹی کو ہو گا اور مخالفین خوش ہو جائیں گے۔عمران خان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران ��ان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ وہ جا چکے ہیں۔ان کا برا وقت تب آجائے گا جب ان کے اتحادی ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور ان پر یہ وقت بہت جلدی آنے والا ہے۔یاد رہے کہ رہنما ن لیگ نے یہ بات انٹرویو میں آرمی ایکٹ ترمیم کی مخالفت کرنے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نیااپنی مرضی سے مخالفت کی ہے اور ابھی میں اس پر کوئی بات نہیں کروں گا۔مجھ س جب میری پارٹی سوال کرے گی تو میں اسے جواب دوں گا Read the full article
0 notes
urduchronicle · 11 months
Text
سینیٹ میں آرمی ایکٹ ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور
سینیٹ نے آرمی ایکٹ میں ترامیم سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد سینیٹر دلاور خان نے ایوان میں پیش کی، پی پی سینیٹر رضا ربانی اور جماعات اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے قراراد کی مخالفت کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ جب تک لارجر بینچ اس کا جائزہ نہ لے فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بینچ کا فیصلہ اتفاق رائے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Photo
Tumblr media
آرمی چیف سمیت تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری آرمی چیف سمیت تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کی منظوری وفاقی کابینہ نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری دے دی۔
0 notes