Tumgik
#اردو زبان سیل
اردو زبان کی مٹھاس سبھی زبانوں کے شائقین کو اپنی کشش سے متاثر کرتی ہے : اے ڈی ایم پورنیہ
Tumblr media
پورنیہ: محکمہ کابینہ سیکر ٹریٹ اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار کی جانب سے ضلع انتظامیہ پورینہ اور ضلع اردو زبان سیل پورنیہ کی کاوشوں سے آج بتاریخ28/ نومبر 2023 کو آرٹ گلیری پورنیہ میں یک روزہ فروغ اردو سیمنار اور مشاعرے کا انعقاد کیاگیا۔ پروگرام کاآغاز اے ڈی ایم پورنیہ محترم جناب کے ڈی پر وجیل کے بدست شمع افروزی کے ذریعے عمل میں آیا ۔ اس محفل میں پورنیہ ضلع کے اہل علم و دانش اور اردو مترجمین اور ضلع کے اندر مختلف اسکولوں میں برسر روزگار اردو اساتذہ نےبڑی تعداد میں شرکت کی ۔
نظامت کی ذمہ داری جناب صدام صاحب اردو مترجم بائسی نے بحسن و خوبی انجام دی۔
افتتاحی کلمات میں اے ڈی ایم صاحب نے حاضرین کا شکر یہ ادا کیا اور فرمایا کہ اردو زبان کی مٹھاس سبھی زبانوں کے شائقین کو اپنی کشش سے متاثر کرتی ہے ۔ عالی جناب پروگرام میں مہمان خصوص کے طور پر شرکت فرما رہے تھے ۔ ان کے علاوہ ضلع تعلیم افسر پورنیہ بھی اس محفل میں شریک ہوئے ۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں حکومت کی جانب سے اردو اساتذہ کی بڑی تعداد میں بحالی کا ذکر کیا اور حکومت کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے نو مقرر اردو اساتذہ کو تعلیمی میدان میں کمر کسنے کی ہدایت دی۔ پروگرام کی روح رواں ضلع اردو زبان سیل پورنیہ کی انچارج افسر محترمہ ڈیزی رانی صاحبہ نے تمام مند و بین کا شکریہ ادا کیا اور سامعین سے اردو کے تئیں مزید بیداری کا ثبوت دینے کی اپیل کی ۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ خود بھی اردو سے بے حد محبت کرتی ہیں اور بی پارڈ ڈ پٹنہ کی تربیت کے دوران انہوں اپنے لیے اردو زبان کا انتخاب کیا تھا ۔
Tumblr media Tumblr media
پروگرام کی اگلی اہم کڑی کے طور پر سمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پورنیہ کالج کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمد مجاهد حسین، ڈی ایس کالج کٹیہار کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر انور حسین ایرج نیز ارریہ کالج ارریہ کے صدر شعبہ ڈاکٹر تنزیل اطہر نے اپنے گراں قدر مقالات پیش کیے۔
مشاعرے کے آغاز سے قبل اردو طلبہ و طالبات کے لیے علمی مباحثے کا انعقاد عمل میں آیاجس میں ضلع پورنیہ کے مختلف اداروں کے طلبہ نے اردو زبان و ادب پر اپنی طالب علمانہ مباحثے سے محفل میں جان پھونک دی ۔
Tumblr media
دن کے دوسرے پہر میں مشاعرے کا آغاز ہوا جس کی صدارت کی ذمہ داری پورنیہ یونیورسٹی ، صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر محمد صادق حسین نے انجام دی ۔ مشاعرے میں ضلع پورنیہ کے نامور شعرا کو مدعو کیا گیا جن میں نمائندہ شعرا عمر فاروق کا شف محمد ناظم ، محمد دانش اقبال، رضوان فردوسی کے نام قابل ذکر ہیں ۔ پروگرام کا اختتام علمی مباحثے میں کامیاب طلبہ و طالبات کے درمیان اسناد کی تقسیم سے ہوا۔
1 note · View note
amiasfitaccw · 19 days
Text
دسمبر Night
میرا نام سونیا ھے یہ کہانی کرسمس والی رات میرے ساتھ پیش آ نے والے واقعے کی ھے میرا تعلق ایک عیسائی فیملی سے ھے اور میری عمر بیس سال ھے میرا فگر بہت اچھا ھے میرا بوبز سائز بتیس ھے میری منگنی پچھلے سال میرے کزن پطرس سے ھوگئ تھی پطرس میری خالہ کا بیٹا ھے جو ایک ادارے میں جاب کرتا ھے آ ج چوبیس دسمبر تھی تو پطرس نے مجھے فون کیا کہ سونیا آ ج آپ ھمارے گھر ھی سو جانا میں چوبیس کی رات مہندی لگاتی چوڑیاں لینے جاتی پطرس کی بہن اور پطرس کیساتھ عید کے ایک دن پہلے کی رات ھم خوب مستی کرتے تھے آ ج پطرس جب گھر چھٹی لیکر شہر سے گاؤں آیا تو اس کیساتھ اسکا ایک دوست بھی تھا پطرس نے بتایا کہ یہ میرا دوست شاھدنذیر ھے مسلمان ھے میں اسکو اپنا گاؤں دکھانے لے آیا ھوں یہ بے چارا اداس ھے اسکا ابھی گرل فرینڈ سے بریک اپ ھوا ھےشاھد ایک خوبرو جوان تھا کلین شیو اور سمارٹ جسم کا مالک تھا
اپ سیٹ ھے جسکی وجہ سے میں اسکو لے آیا اپنا گاؤں دکھانے اور اپنی کرسمس کی رونقیں دکھانے تو ھم سارے بازار گۓ اور وھاں سے چوڑیاں مہندی خریدی باقی شاپنگ تو مکمل تھی ھماری تو میں پطرس سے بولی پطرس آ ج شراب مت پینا پلیز آ ج آپکا دوست#شاھد بھی آیا ھوا ھے تو پلیز شراب مت پیا کرو چھوڑ دو اب تو پطرس بولا کہ سونیا اگر آپ رات کو آؤگی تو تھوڑی کم پیؤنگا پر آپ پرامس کرو کہ رات کو لازمی آؤ گی تو میں نے وعدہ کر لیا
کہ پطرس میں رات کو لازمی آؤں گی اور پھر ھم سب کھانا کھانے بیٹھ گئے شاھد بہت شرمیلا تھا شرما شرما کر کھانا کھا رھا تھا کھانے کھانے کے بعد ھم لو گ آپس میں باتیں کرنے لگے سردیوں کی رات تھی گاؤں میں سردی ویسے ھی بہت زیادہ ھوتی ھے تو ھم لوگ کمبل میں بیٹھے گپ شپ کر رھے تھے کہ پطرس نے اور میرے بھائی ارسل نے ایک بوتل نکالی شراب کی اور اسکے پیگ بنانے لگے میں نے اور آنٹی نے انکو بہت روکا اور بوتل چھیں لی پر وہ پینے لگے میں نے کہا کہ شاھد آپ سمجھاؤ اسکو تو شاھد بولا جب یہ اپنی ماں کی نہیں مان رھا تو میری کیا مانے گا شاھد پطرس اور ارسل بیٹھے پیگ بنا رھے تھے
Tumblr media
ارسل نے شاھد کو بولا بھائی لگاؤ پیگ تو شاھد بولا کہ نہیں یار میں شراب نہیں پیتا اور ھمارے مذھب میں شراب منع ھے تو پطرس بولا دو پیگ لگا لو سارے غم بھول جاؤگے تو شاھد گلاس کو پرے کرتا ھوا چپ سا ھوگیا مجھے شاھد پر ترس آ رھا تھا کہ کس کمینی نے شاھد کا دل توڑا ھوگا اور پھر پطرس اور ارسل پی پی کر نشے سے دھت ھو گئے ارسل تو گھر چلا گیا اور پطرس الٹیاں کرنے لگا وہ بہت زیادہ پی چکا تھا جسکی وجہ سے اسکی حالت یہ تھی کہ چلتا اور گر پڑتا اور پھر آنٹی نے ھمکو بولا کہ آؤ سونے چلیں اور ھم سونے کے لیئے گھر کے پچھلے کمرے میں چلے گئے اور شاھد اور پطرس فرنٹ پر جو روم تھا اسمیں سو گئے تھے تھکاوٹ بہت زیادہ ھونے کی وجہ سے میں سو گئ اور باقی سارے بھی سو گئے اچانک آدھی رات کو میری آنکھ کھلی اور میرا دل کیا کہ جاکر پطرس کو دیکھوں میں اور پطرس بہت پیارکرتے تھے اور متعدد بار سیکس کر چکے تھے پر میں ابھی سیل پیک تھی پطرس نے جب بھی سیکس کیا تھا اوپر اوپر ھی کرتا تھا
اردو اور پشتو کی خاص کہانیاں پڑھیں اور سر چ کریں اپنی کہانیاں اور اپنے دوست گروپ
اسکو اندر کرنے سے میں نے روکا تھا کہ آپ پہلی رات ھی میری سیل توڑنا جس پر پطرس نے اپنا وعدہ نبھاتے ھوئے جب بھی کیا تو اوپر اوپر ھی کیا تھا اندر تک نہیں کیا تھا میں سوچتی رھی کہ جاؤں پطرس کے پاس کہ نہ جاؤں اور سو چتے سوچتے میں اپنا ھاتھ اپنی چوت پر پھیرنے لگی اور اپنی شلوار میں ھاتھ ڈال کر اپنی چوت کا دانہ مسلنا شرو ع کر دیا شہوت مجھ پر حاوی ھوچکی تھی اور میں دبے پاؤں اٹھ کر اندھیرے میں پطرس کے پاس جانے لگی پطرس دروازے کے پاس ھی سویا تھا روم میں اندھیرا تھا میں چپ کرکے پطرس کے بسترمیں اسکے ساتھ لیٹ گئ اور اسکے ھونٹ چوسنے لگی پطرس بھی میرے ھونٹ چوسنے لگا پطرس جاگ رھا تھا اور وہ میرے ممے مسل رھا تھا پطرس کے ھاتھ میری چھاتی پر حرکت کر رھے تھے
میں نے ھاتھ پطرس کی شلوار کے اندر لے جاکر پطرس کی لن پکڑ لیا جو کہ کھڑا تھا اور تیار تھا میں نے کمبل میں نیچے جاکر اسکا ناڑا کھولا اور اسکے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اچانک میں چونک گئ کیونکہ لن کا ٹاپ بغیر ‏Cover k tha lan par cover nahi tha‏ لن ایک بڑے سے ٹاپ والا تھا اور لن پطرس کا نہیں تھا تو میں نے سوچا کیا کروں کیونکہ یہ لن تو اس مسلمان لڑکے شاھد کا تھا شہوت کے آ گے میں ھار گئ اور سو چا غلطی میں ھی سہی چلو ایک نیا لن ملے گا وہ بھی مسلمان کا دیکھوں تو سہی کیسا ھوگا تو میں پھر شاھد کا لن چوسنے لگی اور شاھد کا لن بہت لمبا اور موٹا تھا میں شاھد کے لن کے ٹاپ پر اپنی زبان پھیر رھی تھی اور شاھد کا پانی نکل گیا جسے میں پی گئ ایک نیا احساس تھا نئ شروعات تھی بہت جوش چڑھا ھوا تھا میں اب شاھد کے نیچے لیٹ گئ اور شاھد میرے ممے چوسنے لگا بہت مزہ آ رھا تھا اچانک شاھد نے میری شلوار نیچے کی جو تھوڑی سی ھوئی اور میں نے شاھد کو محسوس نہ ھونے دیا کہ مجھے پتا ھے کہ میرے اوپر پطرس نہیں شاھد ھے تو میں نے اپنی کمر اوپر کی اور اپنی شلوار نیچے کی اور شاھد کے نیچے لیٹ گئ اور شاھد کا لن پکڑ کی اپنی چوت پر رگڑنے لگی میری چوت گیلی تھی
Tumblr media
میں نے شاھد کا لن اپنے ھاتھ میں پکڑ کر رگڑنا اس لئیے جاری رکھا تاکہ شاھد میرے اندر نہ کرسکے شاھد مجھے کس کر رھا تھا میں نے سو چا بھی نہیں تھا کہ میں ایک مسلمان کے نیچے آؤنگی اور اسکو اپنا جسم سونپ دونگی ��اھد کی زبان اب میرے منہ میں تھی میں اسے چوس رھی تھی شاھد کی چھاتی میری چھاتی میں پیوست ھوگئ تھی ھمارے جسم سردی میں بھی بہت گرم ھو چکے تھے شاھد کا لن اب میں اپنی چوت کے سوراخ پر رگڑنے لگی تھی شہوت سے بہت برا حال تھا میں نے کہا شاھد کے کان میں کہ پطرس اندر مت کرنا اوپر اوپر ھی کر لو تو وہ بولا سونیا میں پطرس نہیں شاھد ھوں سونیا میں نے کہا اف اترو آپ میرے اوپر سے سوری مجھ سے غلطی ھو گئ
میں تو پطرس کے بستر پر آئی تھی اندھیرا ھونے کی وجہ سے تمہارے بستر پر آ گئ مجھے معاف کر نا تو شاھد بولا کتنی خوبصورت ھو آپ اگر اتنا کچھ کر چکیھو تو اب باقی گیا رہ گیا ھے اور غلطی کی وجہ ھوا پر جو ھوا اس کا ایک الگ سا مزہ ھے سچ بولو سونیا آپکو بھی مزہ آیا کہ نہیں تو میں بولی آپ کے جسم کیساتھ لگ کر میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا پر میں آپکو سیکس کا مو قع نہیں دے سکتی آپ میری سیل تو ڑ دوگے تو شاھد بولا نہیں توڑتا میری جان صرف پیار کروں گا تو میں بولی #شاھد ٹھیک ھے پر کسی کو بتانا مت اور صرف اوپر اوپر سے ھی لن رگڑ کر مجھے اور خود کو فارغ کرلو تو شاھد بولا کہ سونیا آپ بے فکرھو جاؤ اور چلو اپنی ٹانگیں کھول دو تو میں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور اپنی زبان شاھد کے منہ میں ڈال دی شاھد نے میری زبان چوستے ھوۓ اپنا لن میری چوت پر رگڑنا شروع کر دیا تھا
Tumblr media
شاھد اپنا لن میری #گیلی چوت کے منہ پر رگڑ رھا تھا اور ھم کس کر رھے تھے شاھد نے اپنے ھاتھ میرے ھاتھوں میں دیکر لن کو چوت پر دبانا شرو ع کردیا ھر جھٹکے پر لن چوت کے سوراخ پر لگتا اور میں ھل جاتی اور شاھد کا نشانہ چوک جاتا اس طرح چلتا رھا اور پھر شاھد نے اپنا ھاتھ نیچےلے کر لن چوت پر سیٹ کیا اور ایک زور کا جھٹکا مارا اف آہ شاھد کا لن میری چوت کے لب کھول کر تھوڑا سا اندر جا چکا تھا میں نے نکلنا چاھا پر میں پھنس چکی تھی شاھد نے ایک جھٹکا اور مارا اور اسکا لن میری سیل توڑتا ھو میرے اندر تک چلا گیا تھا
میری درد کی وجہ سے ایک چیخ نکلی جو شاھد کے منہ میں ھی دب گئ شاھد کے ھاتھ اب میرے مموں کو مسل رھے تھے اس طر ح کچھ ھی دیر میں شاھد نے اپنا لن میری چوت کے اندر باھر کرنا شرو ع کر دیا میں نے سوچا اگر شورکیا تو بدنامی ھوگی اور اگر چپ رھی شاھد میری پھاڑ دیگا تو میں چپ ھی رھی اور شاھد کا ساتھ دینے لگی اور شاھد اپنا لن اندر باھر کرنے لگا اور پھر میری چوت نے پانی چھوڑ دیا میری ساری گرمی نکل گئ شاھد نے میرا پانی اور خون ایک پرانی شرٹ کیساتھ صاف کیا شکر ھے بستر کو زیادہ خون نہیں لگا اور پھر شاھد نے اپنا لن میری چوت پر رکھا اور میری چدائی سٹارٹ کر دی میری چوت کے سارے ٹشوز شاھد کے لن پر گرفت بناۓ ھوۓ تھےشاھد اب مجھ پر ایک شاہ سوار کی طر ح ھو چکا تھا نئے جسم اور لن کا احساس اپنی چوت پر بہت اچھا محسوس ھو رہا تھا شاھد اب تیز سپیڈ سے لن میری چوت میں اندر باھر کر رھا تھا میں نے اپنی ٹانگیں کھول دیں تھیں
تاکہ شاھد ھر جھٹکے کا بھرپور مزہ دے میری چوت کی گرفت شاھد کے لن پر اب تنگ ھورھی تھی میں نے سوچا شاھد کیساتھ دو تین راؤنڈ لگا لوں اور میری #سیل توڑنے کا الزام پطرس پر ڈال دونگی کیونکہ وہ اب نشے میں ھے اسی پلان نے میرا حوصلہ بڑھایا اور شاھد کو خوب چودنے کا موقع دیا میں نے اب میری بھی ٹانگیں کانپنے لگیں تھیں
مزے میں نے اپنی ٹانگیں شاھد کی کمر کے گرد لپیٹ دیں اور مجھے اب پھر مزہ آنے لگا تھا اور شاھد کے جھٹکے بھی تیز ھو گئے تھے اور کچھ ھی دیر بعد شاھد نے اپنا پانی میری چوت میں ھی چھوڑ دیا
بہت گرم احساس تھا اس رات شاھد نے دو بار مجھکو چودا اور پھر شاھد کو سو جانے کا ناٹک کرنے کا بول کر میں پطرس کے بستر پر چلی گئ اس سے بھی ایک راؤنڈ لگوایا اور سیل توڑنے کا سارا ملبہ پطرس پر ڈال دیا کیونکہ وہ نشے میں تھا تو پطرس نے صبح مجھ سے نشے میں اس حرکت پرمعافی مانگی اور اگلی رات میں نے پطرس کو خود کہا کہ لگا لو چار پیگ عید ھے ‏‎ ‎‏ ‏‎#Cellebrationتو ھونی چاھئیے تو
پطرس نے خوب پی اس رات اور پھر بے سود ھوکر لیٹ گیا اور میں یہی تو چاھتی تھی کہ آ ج پھر شاھد کے پاس جاؤں کیونکہ پہلی رات بہت مزہ آیا تھا
میں اس نئے پنچھی کو اپنی جوانی کے جال میں پھنسا کر چار دن مزہ لینا چاھتی تھی جو کچھ پورن مووی میں دیکھا تھا آ ج وہ سب کرنے کو دل کر رھا تھا دل کر رھا تھا کہ اس نئے گھوڑے کی گھوڑی بن جاؤں آج رات پر پہل تو شاھد نے ہی کرنی تھی کہانی میری آپ بیتی ھے اس پر اپنی#راۓ لازمی دینا شکریہ.
ختم شد
Tumblr media
0 notes
bornlady · 4 months
Text
اتو مو نانو کراتین بدون مواد : او بهترین اسب و تیزترین شمشیر را خواست و به مبارزه با دشمنی که قبلاً در آن سوی رودخانه که در فاصله اندکی به سمت شرق شهر می گذرد اردو زده بود، روانه شد. پادشاه اسبی بسیار سرکش داشت که هرگز در آن شکسته نشده بود، و این را به داماد خود داد. رنگ مو : و با دادن شمشیر تیز به او از او خواست که شروع کند. سپس برهمان از خادمان پادشاه خواست که او را با نخ‌های نخی محکم به زین ببندند و راهی سفر شدند. اسب که تا آن زمان هرگز مردی را بر پشت خود احساس نکرده بود. اتو مو نانو کراتین بدون مواد اتو مو نانو کراتین بدون مواد : او تمام تلاشش را کرد تا اسبش را مهار کند، اما هر چه بیشتر می‌کشید، سریع‌تر تاخت، تا اینکه تمام امیدهای زندگی را از دست داد. لینک مفید : نانو کراتین باز هم برهمان فقیر نمی توانست امتناع کند، زیرا اگر این کار را می کرد، تمام شهرت سابقش از بین می رفت. بنابراین او تصمیم گرفت که این ماجراجویی را نیز انجام دهد و به جای دست کشیدن از تلاش، به ثروت اعتماد کند. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : با عصبانیت شروع به تاختن کرد و چنان سریع به جلو پرواز کرد که همه کسانی که آن را دیدند فکر کردند سوار باید جان خود را از دست بدهد، و او نیز از ترس تقریباً مرده بود. لینک مفید : رنگ مو شرابی بدون دکلره اجازه داد مسیر خود را طی کند. به داخل آب پرید و تا آن سوی رودخانه شنا کرد و طناب‌های پنبه‌ای را که برهمان به وسیله آن به زین بسته شده بود خیس کرد و باعث متورم شدن آن‌ها شد و دردناک‌ترین درد را به او تحمیل کرد. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : با این حال، او آن را با تمام صبر تحمل کرد [ 116 ]قابل تصور اسب در حال حاضر به آن طرف رودخانه رسید، جایی که درخت نخل بزرگی وجود داشت که سیل اخیر آن را تقریباً کنده کرده بود و با کوچکترین تماسی آماده سقوط بود. برهمان که نمی‌توانست مسیر اسب را متوقف کند. لینک مفید : انواع مواد بوتاکس صورت محکم به درخت چسبید، به این امید که بتواند زندگی وحشی خود را بررسی کند. اما متأسفانه برای او درخت جای خود را داد و اسب چنان خشمگین تاخت که او نمی دانست کدام امن تر است - ترک درخت یا نگه داشتن آن. در همین حال، طناب های نخی خیس او را آزار می داد. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : به طوری که او در ناامیدی از ناامیدی، آپا را به صدا درآورد ! ایا ! 2 اسب او رفت و همچنان به درخت پالمیرا چسبید. با وجود اینکه اکنون برای جان خود می جنگد، مردمی که از فاصله دور او را تماشا می کردند، تصور می کردند که او با یک درخت نخل مسلح به میدان جنگ پرواز می کند! لینک مفید : بوتاکس مو با مواد گیاهی فریاد ناله ی آپا آیه که او بر زبان آورد، دشمن او را با چالش اشتباه گرفت، زیرا همانطور که می دانیم اتفاقاً نام او آپایا بود. با دیدن یک جنگجو که به درختی بزرگ مسلح بود، وحشت زده شد، دشمن او برگشت و فرار کرد. «همانطور که پادشاه است، رعایا نیز هستند» - و بر این اساس پیروان او نیز فرار کردند. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : جنگجوی برهمان (!) با دیدن اتفاقات خوش شانسی دوباره به تعقیب افتاد.[ 117 ]دشمن، یا بهتر است بگوییم اجازه دهید که کورس او راه خشمگین خود را داشته باشد. لینک مفید : نانو كراتين مو بدين ترتيب دشمن و سپاه وسيعش در يك چشم به هم زدن ذوب شدند و اسب نيز چون خسته شد به طرف قصر بازگشت. پادشاه پیر از بلندترین اتاق‌های قصرش تمام آنچه را که از آن سوی رودخانه می‌گذشت تماشا می‌کرد و معتقد بود که دامادش با قدرت خودش دشمن را بیرون کرده است و با شکوه تمام به او نزدیک شد. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : دستان مشتاق به سرعت گره هایی را که برهمان پیروز (!) را در زین خود محکم گرفته بود، بریدند و پدر شوهر پیرش با اشک شوق او را در پیروزی در آغوش گرفت و گفت که تمام پادشاهی مدیون اوست. راهپیمایی باشکوه پیروزی برگزار شد که در آن چشمان تمام شهر به سمت قهرمان پیروز ما معطوف شد. لینک مفید : نانو بوتاکس مو چیست بدین ترتیب، در سه موقعیت مختلف و در سه ماجراجویی مختلف، اقبال برهمان فقیر را مورد لطف قرار داد و او را به شهرت رساند. سپس به دنبال دو همسر سابق خود فرستاد و آنها را به کاخ خود برد. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : همسر دوم او که باردار بود برای اولین بار با کیک های آپوپا برای دیدن او باردار بود، فرزند پسری به دنیا آورده بود که وقتی نزد او برگشت بیش از یک سال داشت. زن اول به گناه خود در دادن کیک های مسموم به شوهرش اعتراف کرد و خواستار عفو او شد. لینک مفید : آموزش ایرتاچ و تنها حالا بود که فهمید که[ 118 ]صد دزدی که او در اولین ماجراجویی خود کشته بود، همه واقعاً مرده بودند، و اینکه آنها باید در اثر سم موجود در کیک ها مرده باشند، و از آنجایی که خیانت او شروع جدیدی در زندگی به او داده بود، او را بخشید.
اتو مو نانو کراتین بدون مواد : او نیز از دشمنی خود با شرکای تخت شوهرش دست کشید و هر چهار نفر پس از آن روزهای طولانی در آرامش و فراوانی زندگی کردند.بافنده دلیر، عتیقه هندی ، جلد. یازدهم، که در تامیل تعجب های نوحه است، یعنی آه! افسوس! [ فهرست ] ایکس. دختر برامین که با ببر ازدواج کرد. در روستایی پیر براهمی زندگی می کرد که سه پسر و یک دختر داشت. لینک مفید : بوتاکس مو بعد از کراتین دختری که از همه کوچکتر بود با مهربانی بزرگ شد و لوس شد، بنابراین هرگاه پسر زیبایی را می دید به پدر و مادرش می گفت که باید با او ازدواج کند. بنابراین، والدین او به دنبال یافتن بهانه‌هایی برای دور کردن او از دوستداران جوانش بودند. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : به این ترتیب چند سال گذشت تا اینکه دختر تقریباً بزرگ شد و سپس والدین از ترس اینکه اگر قبل از رسیدن به سن بلوغ دست از ازدواج او بردارند، از خانواده خود رانده شوند، شروع کردند. لینک مفید : هزینه نانو کراتین مو مشتاق بودن برای یافتن داماد برای او. اکنون در نزدیکی روستای آنها یک ببر خشن زندگی می کرد که در هنر جادوگری مهارت زیادی کسب کرده بود و قدرت به خود گرفتن اشکال مختلف را داشت. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : داشتن طعم عالی برای غذای برامین،[ 120 ]ببر گهگاهی به معابد و سایر مکان‌های تفریحی عمومی به شکل یک براهمینی قدیمی گرسنه رفت و آمد می‌کرد تا غذای آماده شده برای براهمی‌ها را تقسیم کند. لینک مفید : بوتاکس مو بدون اتو کشی ببر همچنین می‌خواست، در صورت امکان، یک همسر براهمین به جنگل برود و او را وادار کند که غذای او را مطابق مد روز بپزد. اتو مو نانو کراتین بدون مواد : یک روز، هنگامی که او در یک ساترا 1 به شکل براهمین غذا می خورد ، صحبت درباره دختر براهمینی را شنید که همیشه عاشق هر پسر زیبای براهمینی بود.
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
ایک تھی ایم کیو ایم...ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی کہانی
سوچتا ہوں آغاز کہاں سے کروں اور اختتام کہاں۔ ان چالیس سالوں میں مہاجر قومی موومنٹ کا عروج بھی دیکھا اور متحدہ قومی موومنٹ کا زوال بھی۔ سیاست میں تشدد غالب آجائے تو نہ سیاست رہتی ہے نہ نظریات۔ پہلے تالیاں نہ بجانے اور نعرہ کا جواب نہ دینے پر ناراضی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ آج کل تالیاں بجانے اور نعرے کا جواب دینے کے مقدمات کا سامنا ہے۔ شہری سندھ کی سیاست 70 کے بعد کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ اقتدار (1972-1977) وہ وقت تھا جب مذہبی جماعتوں کا زور تھا، ’’مہاجر کارڈ‘‘ ان کے پاس تھا۔ سندھی زبان کا بل اور اس پر لسانی فسادات۔ کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں داخلے میں دشواریاں، نوکریوں میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے لوگوں پر پابندی۔ بھٹو اور اردو بولنے والے دانشوروں کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات اور معاملہ 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری کوٹہ پر حل ہو گیا۔ بدقسمتی سے یہ فارمولہ سیاست کی نذر ہو گیا۔
سن 1976 میں الیکشن ہوئے، نتائج تسلیم نہیں کئے گئے۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور شہری سندھ گڑھ بنا۔ جولائی 1977 مارشل لا کا نفاذ، شہروں میں مٹھائی تقسیم، 90 روز کےوعدے پر الیکشن ملتوی۔ 1978 اردو بولنے والے نوجوانوں کا مہاجر سیاست، مہاجر کے نام سے کرنے کا فیصلہ۔ کہتے ہیں APMSO سے ایم کیو ایم تک کے سفر میں بنیادی لوگوں میں بانی متحدہ کے علاوہ اختر رضوی مرحوم، عظیم احمد طارق مرحوم، ڈاکٹر عمران فاروق مرحوم، سلیم شہزاد مرحوم، ڈاکٹر سلیم حیدر، ماسٹر علی حیدر، احمد سلیم صدیقی، طارق مہاجر، کشور زہرہ، زرین مجید اور کچھ لوگ شامل تھے۔ 1984 طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ مگر سندھی، مہاجر، اتحاد قائم کرنا جس میں رضوی صاحب کا اہم کردار رہا جس کی ایک وجہ ان کا بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق۔ 1986 میں نشتر پارک میں پہلا جلسہ، سفید کرتا پاجامہ کو مہاجر شناخت کے طور پر متعارف کرانا۔
سن 1978 سے 1986 تک شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں بدترین فرقہ وارانہ اور پھر لسانی فسادات، نئی نئی تنظیمیں اور گروپ تشکیل پاتے گئے۔ 1987 بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے سندھ میں ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی جسے بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ ایسے ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچے جنہیں پتا بھی نہیں تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کی عمارت کدھر ہے اور حلف کیسے لیتے ہیں۔ 1988 الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے حیدر آباد میں دو سو افراد منٹوں میں قتل کر دیئے گئے۔ جواب میں کراچی میں خونیں ردعمل سامنے آیا اور سو سے زائد افراد مار دیئے گئے۔ انتخابات ہوئے تو ایسا لگا جیسے سندھ کو انتخابی طور پر دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کر دیا گیا ہو پھر پی پی پی اور ایم کیو ایم حکومتی اتحاد بنا۔ 1989 بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ایم کیو ایم کا خفیہ طور پر حکومتی اتحاد ی ہوتے ہوئے مخالفت میں ووٹ۔ دونوں جماعتوں میں بد اعتمادی کی ابتدا ہوئی جو شاید آج تک قائم ہے۔ 
ایم کیو ایم کے نعروں میں شدت آگئی، الگ صوبے سے لے کر محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی، شہروں میں فسادات اور 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ۔ 1990کے الیکشن اور متحدہ کی کامیابی مگر اس بار زور زبردستی کا الزام، جام صادق کی حکومت قائم، نواز شریف اتحادی، 1992 ڈاکوئوں اور کرمنل کے خلاف فوجی آپریشن۔ کراچی میں ایم کیو ایم میں پہلی تقسیم، حقیقی کا قیام اور آفاق اور عامر خان الگ، بانی متحدہ جام صادق کے مشورے پر جنوری 92ء میں لندن روانہ جہاں سے آج تک واپسی نہیں ہوئی۔ 1994 میں پولیس آپریشن میں متحدہ کے کئی سو مبینہ کرمنل مارے گئے مگر بڑی تعداد میں لوگ ماورائے عدالت بھی قتل کئے گئے۔ 1993 میں بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل الزام متحدہ پر، وجہ بانی سے اختلاف۔ 
اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہ سکا مگر ان تمام سالوں میں کچھ خفیہ ہاتھ بھی نمایاں رہے اور ان کی سیاست بھی۔ 2002 سے 2007 تک ایم کیو ایم کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ پہلی بار شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے مگر جس چیز نے ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ علاقہ کنٹرول، زور زبردستی، بھتہ خوری اور پرتشدد واقعات تھے۔ 2013 الیکشن میں متحدہ کامیاب مگر بانی پارٹی سے ناراض۔ تحریک انصاف کو 8 لاکھ ووٹ کیسے پڑ گئے۔ یہیں سے جماعت کے خاتمہ کا آغاز ہوا۔ اس بار ہونے والے آپریشن کو وہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ کچھ عرصے بعد قابل اعتراض تقاریر کرنے پر لاہور ہائی کورٹ نے اس کی کوریج پر پابندی لگا دی جو اب تک برقرار ہے۔ 22؍ اگست 2016 کو رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔ متحدہ کا مرکز، دفتر سیل ہوا بلکہ اس کے اطراف تمام سیاسی سرگرمیاں بھی۔ 
کچھ رہنمائوں نے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں مگر اب یہ اندر کی لڑائی زیادہ نظر آتی ہے۔ چالیس سال کا سفر بے نتیجہ ہی رہا مگر آج بھی مطالبات وہی ہیں نوکریاں، داخلے نہیں تو الگ صوبہ۔ تقسیم نہیں اتحاد میں اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ ناانصافیاں بہرحال ختم کرنا ہوں گی۔ کراچی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنا چھوڑیں یہ سندھ کا دارالحکومت بھی اور پاکستان کا معاشی حب بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھیں۔ حقیقت یہ کہ آپ کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار بھی ہو اور آپ شریک اقتدار بھی ہوں۔ یہ مواقع ملے مگر آپ کے لوگ چمک کا شکار ہو گئے اور آپ کسی اور جانب نکل گئے۔ تشدد اور سیاست، جرائم اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ استعمال ہونے والوں کو بھی سوچنا ہے اور استعمال کرنے والوں کو بھی۔ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ان کے لئے بھی سبق ہے اور جنہوں نے ہتھیار دینے میں سہولت کاری کی ہے، پھر کبھی سہی۔ اگر موقع ملے تو حسن جاوید کا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ پڑھ لیجئے گا۔
مظہر عباس بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
urdunewspedia · 2 years
Text
بھارت کی سکھ کمیونٹی کا کنگنا رناوت کو دماغی اسپتال بھجوانے کا مطالبہ - اردو نیوز پیڈیا
بھارت کی سکھ کمیونٹی کا کنگنا رناوت کو دماغی اسپتال بھجوانے کا مطالبہ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین نئی دہلی: بھارت کی سکھ کمیونٹی نے اداکارہ کنگنا رناوت کو جیل یا پھر دماغی امراض کے اسپتال بھجوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی کے سکھ گوردوارہ  مینجمنٹ کمیٹی نے سکھ برادری کے خلاف انسٹا گرام پر توہین آمیز زبان استعمال کرنے کے لیے ہفتے کے روز اداکارہ کنگنا رناوت کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی ہے۔ یہ شکایت مندر مارگ پولیس اسٹیشن کے سائبر سیل میں درج…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
khargosht · 3 years
Photo
Tumblr media
‏‎سیل سیل سیل سیل سیل کتاب کا نام *خرگوش بانی* *مصنف: عرفان عاجز* صفحات کی تعداد: *160* کوالٹی: *مکمل 4کلر رنگین کتاب* صفحات: *آرٹ پیپر 80گرام* جلد: *ہارڈ بائنڈنگ* پہلی بار *ریبٹ فارمنگ* پر ہماری قومی زبان اردو میں لکھی جانے والی پہلی جامع اور مکمل کتاب شائع ہو چکی اور آپ کے آرڈر کی دوری پر ہے. اس کتاب میں جو جو چیزیں آپ کو پڑھنے کو ملیں گی ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: 1. خرگوش کا تعارف 2. خرگوش فارمنگ کی پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اہمیت 3. خرگوش کی پیداوار کے فوائد اور وجوہات 4. خرگوش کی اقسام (گوشت, اون اور فینسی کے حوالے سے) 5. خرگوش پالنے کے مقاصد 6. خرگوش کی رہائش کی اقسام ( ڈیپ لٹر, کالونی اور پنجروں کا نظام) 7. پنجروں کی تعمیر 8. خوراک, پانی اور گھونسلے کا سازوسامان 9. خرگوش کی خوراک, اس کو کیا کھلائیں اور کیا نہیں, ونڈا بنانے کے لیے فارمولے 10. خرگوش کی شناخت کرنا اور خرگوشوں کا ریکارڈ رکھنا 11. خرگوش کی افزائش نسل کا طریقہ اور اس کے مسائل, خرگوش کی جنس کا تعین کرنا 12. خرگوش کو صحت مند رکھنا اور اس کی بیماریوں کی علامات اور علاج, انتظامیہ کا دستورالعمل 13. خرگوش کی حرکات اور رویے یعنی خرگوش کیا محسوس کرتا ہے. 14. فزیبلٹی رپورٹس ( دیسی اور نیوزی لینڈ وائٹ کی) 15. خرگوش کو ذبح کرنا اس کی کھال کو محفوظ کرنا اور اس کے گوشت سے مختلف ڈشیں بنانے کے طریقے اور ان پوائنٹس کے اندر مزید پوائنٹس جو کہ تمام خرگوش فارمرز کے لیے جاننا نہایت ضروری ہیں. *فی کتاب کی قیمت: 1500 روپے* جس پر دس جنوری تک سیل لگائی گئی اور اس وقت تک اس کی قیمت صرف "499" روپے ہے۔ اس لیے دیر مت کریں اور جلدی سے آرڈر کریں. آرڈر کرنے کے لیے ہمارے آنلائن ریبٹ سٹور کا وزٹ کریں۔ https://khargosht.com/ecomm/index.php?route=product/product&path=59&product_id=50 مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں. *0322-6566905* www.facebook.com/khargoosht #Khargosht #KhargoshBani #SALE #70percentOff #OnlineRabbitStore #DuniyaKoChakhaaDo #RabbitUrduBook #1stRabbitBook #RabbitShop #1stOnlineRabbitStore #PakistansNo1RabbitBrand #خرگوش_بانی #خرگوشت #خرگوش_بانی_پاکستان #خرگوش_فارمرز‎‏ (میں ‏‎Pakistan‎‏) https://www.instagram.com/p/CJs2QjvFN_g/?igshid=qcik8f1n2o13
0 notes
dailyshahbaz · 4 years
Photo
Tumblr media
باچا خان ٹرسٹ کے شب و روز باچاخان ٹرسٹ باچاخان مرکز کا ایک اہم حصہ ہے جو مختلف شعبوں میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ یہ ٹرسٹ 2003 سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، آجکل یہ اپنے موجودہ ڈائریکٹر ایمل ولی خان کی قیادت میں درجہ ذیل شعبوں میں اپنے فرائض اپنے قومی جذبے کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔ وییسے تو بظاہر باچا خان مرکز عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا مرکزی دفتر اور مرکز ہے مگر بات یہیں تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس باچا خان مرکزکا یہ شعبہ (باچا خان ٹرسٹ) ایک وقت پر ایک علمی، تحقیقی اور صحافتی ادارہ ہے جس کے کارکنان کے علاوہ پارٹی کے دیگر قائدین، خاص طور پر سردارحسین بابک اور میاں افتخار حسین اور اس کے منتظم جناب اعجاز یوسفزئی بھی اس کے سربراہ کے ساتھ اس علمی اور ادبی سفر میں ایک ٹیم کی حیثیت سے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں۔ ٹرسٹ کے مختلف شعبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے میں پشتون میگزین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ٹرسٹ کا ایک اہم اور قابل ذکر کام پشتو رسالے کا دوبارہ اجرا اور اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ہے کیونکہ یہ رسالہ (پشتون) پشتونوں کے عظیم رہبر اور ان کے مصلح کی یادگار بھی ہے اور پشتو زبان و ادب کا ایک بڑا سرمایہ بھی۔ 2006 میں جب ٹرسٹ نے یہ رسالہ دوبارہ شروع کیا تو پشتونوں کے قومی شاعر رحمت شاہ سائل نے اس کے چیف ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور پھر وہ تواتر کے ساتھ کئی سال تک اس کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ آج کل ہمارے جواں، پرعزم شاعر اور ادیب حیات روغانے اس رسالے کو ایک نئے جذبے اور ملی جنون کے ساتھ چلا رہے ہیں جس میں مشاورتی بورڈ کے علاوہ سجاد ژوندون اور نائلہ شمال بھی معاونین کی حیثیت سے اُن کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ اپنے موجودہ چیف ایڈیٹر کی سربراہی میں اس رسالے نے کئی ایک معرکے سر کئے، خاص طور پر افغانستان کا خصوصی استقلال نمبر سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پشتون کا ہر نمبر کئی حوالوں سے خاص نمبر ہوتا ہے کہ اس کے مدیر اعلیٰ ایک باخبر اور فعال لکھاری ہیں۔ انہوں نے اپنے رسالے کیلئے قلمکاروں کی ایک خصوصی ٹیم بھی تیار کی ہوئی ہے جس میں کچھ بزرگ لکھاری بھی شامل ہیں اور کچھ ایسے نوجوان بھی جو آج کل پشتوادب، تنقید، تحقیق اور علم و دانش کی دنیا میں اپنا ایک نام پیدا کئے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم یہ دعویٰ بجا طور پر کرسکتے ہیں کہ آج کا پشتون اپنی درخشندہ روایات اور شاندار ماضی کے ساتھ بین الاقوامی معیار قائم رکھے ہوئے ہے۔ باچاخان ٹرسٹ کا دوسرا اہم اور بنیادی حصہ اس کا تحقیقی اور علمی مرکز ہے جو اپنے قیام سے اب تک کئی تحقیقی اور علمی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا چکا ہے۔ ان بڑے بڑے تحقیقی منصوبوں میں باچا خان اور خان عبدالولی خان کی کتابوں کی چھپائی کے علاوہ دیگر خدائی خدمتگار رہنماؤں کی کتابوں کی چھپائی، خدائی خدمتگار میوزیم کا قیام اور تسلسل کے ساتھ علمی، ادبی مذاکرے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال باچا خان اور خان عبدالولی خان کے ’’ہفتہ‘‘ کے موقع پر ریسرچ سنٹر کی طرف سے 11تحقیقی، ادبی اور علمی کتب چھاپی گئیں اور یہ سلسلہ اب بھی دوام رکھتا ہے۔ ان کتب میں باچا خان کی کتاب ’’زما ژوند او جدوجہد‘‘، اس کا اردو ورژن’’میری زندگی اور جدوجہد‘‘ خان عبدالولی خان کی کتاب ’’Facts are facts‘‘ غنی خان کے حوالے سے تحقیق و تنقید کے سلسلے کا نقطہ آغاز ’’غنیات‘‘ اور ماسٹر کریم اور ناظم سرفراز خان کے حوالے سے کتابوں کی چھپائی قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ ریسرچ سنٹر کی طرف سے ابھی حال ہی میں خدائی خدمتگار ’’زمرود بابا کی ڈائری‘‘ بھی چھاپی گئی ہے جو برصغیر کی تاریخ اور اُس تاریخ میں پشتونوں کے فعال کردار کے حوالے سے ایک مستند دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتب کے علاوہ باچا خان مرکز اور پارٹی قائدین کے ایماء پر ٹرسٹ نے صوبے کے تمام شعراء (خواتین و حضرات) کیلئے مرکز کے دونوں ’’ہال‘‘ مختص کئے ہوئے ہیں اور صوبے کا ہر شاعر اور ادیب ان ’’ہالوں‘‘ میں کوئی بھی ادبی، ثقافتی سرگرمی کا انعقاد کر سکتا ہے۔ اس جذبے کے تحت گزشتہ دو تین سالوں میں مرکز میں کئی ایک شعراء کی کتب کی رونمائی کی تقاریب بھی منعقد ہوئیں اور کئی ایک اہم موضوعات پر سیمنارز بھی منعقد کئے گئے۔ اس کے علاوہ کئی ایک تاریخی ڈرامے بھی سٹیج کئے گئے اور ہر تقریب میں پارٹی قائدین اور ریسرچ سنٹر کے انچارج نے یہ اعلان کیا کہ باچا خان مرکز کے ان دونوں ’’ہالوں‘‘ کے دروازے صوبے کے تمام شعراء ، ادباء کیلئے کھلے ہیں جو بھی ان ’’ہالوں‘‘ میں کوئی تقریب کرنا چاہتا ہے، مرکز یہ ہال اُن کو مفت میں دے گا اور ساتھ میں شرکاء کی خاطر مدارت بھی کرے گا۔ باچا خان مرکز کے ٹرسٹ کا ایک قابل فخر حصہ اس کا کتب خانہ بھی ہے جس میں مختلف موضوعات پر ہزاروں کی تعداد میں کتب موجود ہیں اور صوبہ بھر کے طلباء اور ریسرچ سکالر اس کتب خانے سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے اس سنٹر نے ایک اکیڈمی کی حیثیت اختیار کی ہوئی ہے کیونکہ آئے دن ایک نہ ایک ریسرچ سکالر (ایم فل ، پی ایچ ڈی) خواہ اس کا تعلق تاریخ سے ہو، پشتو ادب سے ہو، سیاسیات کے مضمون سے یا کسی اور مضمون سے ریسرچ سنٹر کا عملہ اُن کے ساتھ مکمل تعاون بھی کرتا ہے اور اگر ضرورت پڑتی ہے تو اپنے پارٹی قائدین سے اُن کی ملاقاتیں بھی کرواتا ہے۔ باچاخان ٹرسٹ کے ریسرچ سنٹر کے ساتھ کتابوں کی ایک دوکان (کتاب پلورنزے) بھی ہے جس میں ہر طرح کی کتابیں ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں خاص طور پر تحریک سے وابستہ وہ تمام اہم کتب جو باہر کھلے مارکیٹ میں 600 اور 800 روپے میں ملتی ہیں یہاں 100اور 200 روپے میں حاصل کی جاسکتی ہیں کیونکہ یہاں مقصد تجارت نہیں علم و ادب کی ترویج ہے۔ باچا خان مرکز اور ٹرسٹ کا ایک اور فعال ادارہ اس کا اپنا میڈیا سیل ہے جس میں امن ٹی وی اور ریڈیو کے علاوہ تاریخی اخبار شہباز کا دوبارہ اجراء خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ٹرسٹ کے میڈیا سیل سے جو بھی خبر ٹیلی ویژن یا پھر اخبار میں دی جاتی ہے اس کا انتخاب میرٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جب شہباز کا دوبارہ اجراء ہوا تو اس کے موجودہ ایڈیٹر عامر عالم اور دیگر عملے کے ساتھ ایک اجلاس میں پارٹی قیادت کی طرف سے سردارحسین بابک صاحب نے بات چیت کی اور نہایت کھلے الفاظ میں یہ کہا کہ ہمارا اخبار حقیقت میں اخبار ہوگا، اس میں تمام خبریں میرٹ پر شائع کی جائیں گی تاکہ لوگوں کا خبر اور اخبار پر اعتماد بحال ہوجائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا اپنا اداریہ ہمارے پارٹی موقف کا علمبردار ہوگا اور ایڈیٹوریل صفحے پر وہ تمام مضامین اور کالم چھاپے جائیں گے جو سچ اور حقیقت پر مبنی ہوں اور جن کے چھاپنے سے دیگر اخبارات قاصر ہوں تاکہ اس ملک میں سچ لکھنے والوں کو space مل سکے۔ اپنے اسی جذبے کے ساتھ شہباز آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے اور شہباز میں شائع ہونے والے مضامین اور کالم اس بات کے واضح ثبوت ہیں۔
0 notes
urdubbcus-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
نواز شریف کی 11 میں سے 10 ٹیسٹ رپورٹس نارمل ہیں،وزیر اطلاعات پنجاب  لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ نواز شریف کی 11 ٹیسٹ رپورٹوں میں سے 10 مکمل نارمل ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراطلاعات پنجاب نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کا میڈیا سیل نواز شریف کی صحت کے حوالے سے شور مچا رہا ہے حالانکہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ بالکل نارمل ہے۔ آل شریف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، آپ نے سپریم کورٹ اور عوام کے سامنے جھوٹ بولا۔ حمزہ شہباز نے کل ایوان میں تقریر کی لیکن اوپر نظر تک نہیں اٹھائی، ان کی آنکھیں اور زبان سانحہ ساہیوال پر بات کرتے ہوئے ساتھ نہیں دے رہی تھی، شرمندگی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ نواز شریف ہائی پروفائل مجرم ہیں، وہ قانون کے مہمان ہیں، جیل میں انہیں 100 فیصد پروٹوکول دیا جاتا ہے، پنجاب اور وفاقی حکومت کی جانب سے نواز شریف پر کوئی بندش نہیں، ان کے لیے گھر سے کھانا بھی آتا ہے، نواز شریف کو ان کی ایک مرغوب غذا لندن سے منگوا کردی گئی۔ وزیراطلاعات پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایوان کو ان کیمرا بریفنگ دی گئی، یہی وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا نیا پاکستان ہے۔ وزیراعظم نے کہہ دیا ہے سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنا دیا جائے گا، آصف زرداری، مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو سن لیں، سب سے پیارا پاکستان ہے، عوام پاکستان کے خلاف بات کرنے والے کی زبان گدی سے پکڑ کر کھینچ لیں گے۔ The post نواز شریف کی 11 میں سے 10 ٹیسٹ رپورٹس نارمل ہیں،وزیر اطلاعات پنجاب appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
latestnewsvideos · 5 years
Photo
Tumblr media
ملک ایمرجنسی کے دہانے پر ہمیں بات آگے بڑھانے سے قبل یہ ماننا ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ملک کی واحد لبرل پارٹی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے ملک رجعت پسند جماعتوں اور گروپوں کی وجہ سے ٹوٹ تو سکتے ہیں‘ چل نہیں سکتے‘ہم بھی اگر ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں لبرل پارٹیاں چاہئیں اور یہ اس وقت واحد لبرل پارٹی ہے‘ دوسری وجہ یہ ملک کی واحد جماعت ہے جس کی جڑیں پورے ملک میں موجود ہیں‘ یہ درست ہے پیپلزپارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا ہو چکا ہے اور پانچ دریاؤں کی سرزمین اب پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کا میدان جنگ بن چکی ہے لیکن جیالے آج بھی زندہ ہیں اور جس دن پارٹی کو ایک اچھی اور مخلص قیادت مل گئی یہ جیالے پارٹی کوپنجاب میں ایک بار پھر زندہ کر دیں گے۔ میں دل سے سمجھتا ہوں اگر پیپلز پارٹی ختم ہو گئی تو ملک میں پھر کوئی سینٹرل پارٹی نہیں بچے گی‘سیاست علاقائی‘ مذہبی اور نسل پرست جماعتوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی‘ یہ جماعتیں مل کر وفاق میں حکومتیں بنائیں گی‘ وہ حکومتیں بہت کمزور ہوں گی اور وہ کمزور حکومتیں ملک کو مزید کمزور کر دیں گی چنانچہ ہمیں ہر صورتحال میں سینٹرل پارٹیاں چاہئیں اور تیسری وجہ آج بھی پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس میں سب سے زیادہ تجربہ کارلوگ موجود ہیں‘ یہ لوگ 1960 اور 1970 کی دہائی میں سیاست میں آئے اور یہ اب پوری طرح پک چکے ہیں‘ ان لوگوں کو اگر ایک ایماندار اور سمجھ دار قیادت مل جائے تو یہ لوگ آج بھی ملک چلا سکتے ہیں۔ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں کیا بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا حصہ تھے‘ میرا خیال ہے نہیں‘ ہم مراد علی شاہ سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ ایک پڑھے لکھے‘ متحرک اور مخلص وزیراعلیٰ ہیں‘ یہ اپنے صوبے کو ترقی یافتہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے اسپیڈ بریکر ہیں‘یہ اسپیڈ بریکرز ان کی رفتار کو بڑھنے نہیں دے رہے‘ یہ جس دن ہٹ گئے مراد علی شاہ اس دن سندھ کے لیے میاں شہباز شریف ثابت ہوں گے اور جہاں تک بلاول بھٹو کا معاملہ ہے یہ اپنے والد اور پھوپھی کی فصل کاٹ رہے ہیں‘ یہ جب بھی اڑنے لگتے ہیں تو ماضی ان کے دونوں پروں کا بوجھ بن جاتا ہے اور یہ نیچے جا گرتے ہیں۔ یہ نیا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو ثابت ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ اپنے بزرگوں کے سائے سے باہر نہیں آ پا رہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا یہ پنجاب کی طرح سندھ سے بھی مکمل فارغ ہو جائے یا پھر یہ بلاول بھٹو کو مکمل آزاد اور خود مختار چیئرمین بنا دے‘ پارٹی کے تمام فیصلے ان کے ہاتھ میں ہوں اور یہ آزادی کے ساتھ فیصلے کریں‘ حکومت نے ان کا نام ای سی ایل پر ڈال کر اور جے آئی ٹی نے ان کو جعلی اکاؤنٹس میں ملوث کر کے زیادتی کی‘ یہ زیادتی اب بلاول کی زبان اور سوچ دونوں میں ظاہر ہو رہی ہے تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کا نام جے آئی ٹی اور ای سی ایل سے نکال کر بہت اچھا کیا‘ والد کی غلطیوں کی سزا بیٹے کو نہیں ملنی چاہیے‘ یہ اگر والد کے ساتھ بریکٹ رہتے تو یہ اینٹی پاکستان اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہو جاتے اور یہ بلاول اور ملک دونوں کے ساتھ زیادتی ہوتی‘ ہم اب موجودہ سیاسی صورتحال کے حل کی طرف آتے ہیں۔ پہلا حل جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق ہے‘ ہمیں یہ ماننا ہوگا ہم ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لیں تو ریاست بیس سال میں جعلی اکاؤنٹس کیس نہیں نبٹا سکے گی‘ آپ کو اس کے لیے سیکڑوں ایکسپرٹس پر مشتمل ٹیم بھی چاہیے ‘ نجف مرزا‘ بشیر میمن اور احسان صادق جیسے مخلص اور نڈر افسر بھی اور جسٹس ثاقب نثار جیسا چیف جسٹس بھی اور ہم ایسے کتنے لوگ اکٹھے کر لیں گے اور یہ کب تک تحقیقات کر لیں گے اور اگر تحقیقات ہو بھی گئیں تو ہمیں مجرموں کو سزا دینے کے لیے قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی اور ترمیم کے لیے موجودہ حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں مطلوبہ ارکان ہیں اور نہ کیپسٹی‘ اپوزیشن حکومت کونیا قانون بنانے اور پرانے قانون میں ترمیم کی اجازت نہیں دے گی اور اگر یہ ہو گیا تو بھی جعلی اکاؤنٹس کا پیسہ ملک سے باہر جا چکا ہے۔ ہمیں یہ پیسہ واپس لانے کے لیے ان ملکوں کا قانون تبدیل کرانا پڑے گا اور یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہو گی‘ ایران 1978سے برطانیہ‘ یورپ اور امریکا سے شاہ ایران کا پیسہ واپس مانگ رہا ہے‘ ایران کو آج تک ایک دھیلا نہیں ملا‘ فلپائن کے فرڈی نینڈ مارکوس نے 16بلین ڈالر لوٹے تھے‘ یہ بھی آج تک فلپائن واپس نہیں آئے‘ مصر کے حسنی مبارک‘ لیبیا کے کرنل قذافی‘ تیونس کے زین العابدین بن علی اور عراق کے صدام حسین کے اربوں ڈالر بھی یورپ‘ امریکا اور برطانیہ کے مگرمچھ کھا گئے‘یہ رقمیں بھی واپس نہیں آئیں‘ ہمیں بھی یہ رقم واپس نہیں ملے گی اور ہم الٹا تحقیقات‘ مقدمات اور جیلوں پر مزید اربوں روپے ضایع کر دیں گے‘ اومنی گروپ اس وقت ظاہری اور خفیہ 14شوگر ملوں کا مالک ہے‘ یہ شوگر ملیں اس وقت تک ورکنگ پوزیشن میں ہیں‘ یہ آنے والے چند مہینوں میں کاٹھ کباڑ بن جائیں گی۔ اسکینڈل کی زد میں آنے والے بینک بھی تباہ ہو جائیں گے‘ ان بینکوں کے لاکھوں کھاتہ دار بھی سڑکوں پر آ جائیں گے اور اسکینڈل میں ملوث زیادہ تر لوگ بوڑھے اور بیمار ہیں‘ یہ اس دوران انتقال کر جائیں گے اور یوں ان کا مال جس جس شخص کے پاس ہے وہ ڈکار مار جائے گا چنانچہ ہمیں آخر میں اس احتساب کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘ ہم ہرطرف سے خسارے میں رہیں گے لہٰذا میری حکومت سے درخواست ہے آپ ایک مثبت اور بڑا یوٹرن لیں‘ آپ ایک بڑی ایمنسٹی اسکیم لانچ کریں اور آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سمیت تمام لوگوں کو این آر او دے دیں‘یہ لوگ اپنی جائیدادیں‘ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کی رقمیں خزانے میں جمع کرا دیں‘ پارٹی کی قیادت اور سیاست چھوڑ دیں اور دنیا میں جہاں جانا چاہیں چلے جائیں‘ حکومت اومنی گروپ کی شوگر ملیں‘ زمینیں اور کمرشل پراپرٹیز بھی نیلام کر دے اور یہ سارا سرمایہ ڈیم فنڈ میںجمع کرا دے یوں ریاست کو اربوں روپے بھی مل جائیں گے اور یہ تحقیقات اور مقدمات کی خواری سے بھی بچ جائے گی ورنہ دوسری صورت میں ہم مزید دو چار ارب روپے ضایع کر بیٹھیں گے۔ دوسرا حل کرپشن سے متعلق ہے‘ حکومت مستقبل میں کرپشن کے خاتمے کے لیے خفیہ اداروں کا ایک خفیہ سیل بنا دے‘ یہ سیل کرپشن کے خلاف خفیہ تحقیقات کرے اور جوں ہی کوئی شخص‘ کوئی عہدیدار کرپٹ ثابت ہو جائے حکومت دہشت گردوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی طرح اس شخص کے خلاف خفیہ مقدمہ چلائے‘ رقم وصول کرے‘ اسے جیل میں ڈالے یا پھر اسے ملک بدر کر دے‘ اس سے قوم کا وقت اور سرمایہ بھی بچ جائے گا اور ریاست کو لوٹا ہوا مال بھی واپس مل جائے گا‘ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی نیب کی کھلی کارروائیوں سے ملک میں خوف پیدا ہورہا ہے اور یہ خوف ملک اور معیشت کونقصان پہنچارہا ہے‘ بیورو کریٹس کام نہیں کررہے اور سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں‘ کرپشن کے خلاف خفیہ تحقیقات‘ خفیہ خصوصی عدالتوں اور خصوصی قوانین کی وجہ سے معاشرے میں خوف بھی پیدا نہیں ہوگا۔ لوٹی ہوئی دولت بھی واپس مل جائے گی اور خفیہ آنکھ کی دہشت کی وجہ سے کرپشن بھی رک جائے گی‘ ہم اگر دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں اور خصوصی قوانین بنا سکتے ہیں تو کرپشن کے خلاف خصوصی قوانین‘ خصوصی خفیہ سی�� اور خصوصی عدالتیں بنانے میں کوئی حرج نہیں‘ یہ ملک کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوں گی اور آخری حل ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو اب اپنی اپنی قیادت تبدیل کر لینی چاہیے‘ ملک کی فیصلہ ساز قوتیں ماضی میں ان دونوں پارٹیوں کو قیادت تبدیل کرنے کا بار بار موقع دیتی رہیں‘ جنرل راحیل شریف کے دور میں آصف علی زرداری کی جگہ بلاول بھٹو‘ میاں نواز شریف کی جگہ میاں شہباز شریف اور الطاف حسین کی جگہ فاروق ستار کو بٹھانے کی سنجیدہ کوششیں ہوئیں۔ آصف علی زرداری اور جنرل راحیل شریف کے درمیان وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں خفیہ ملاقات کا بندوبست بھی کیاگیا‘ آصف علی زرداری آ گئے لیکن جنرل راحیل شریف نہیں آ سکے تاہم دونوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا‘ جنرل راحیل شریف نے آصف علی زرداری کو مشورہ دیاآپ بلاول بھٹو پر اعتماد کریں‘ یہ پارٹی کو سنبھال لیں گے‘ ملک پیپلز پارٹی جیسی لبرل جماعت کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا‘ زرداری صاحب نے وعدہ کر لیا لیکن یہ وعدہ بعد ازاں نبھایا نہیں گیا‘ میاں نواز شریف 22مئی 2016 کو دل کے آپریشن کے لیے لندن گئے ‘ آپریشن سے ایک دن پہلے انھوں نے مارک اینڈ اسپنسر کی کافی شاپ میں بیٹھ کر میاں شہباز شریف کو پارٹی اور سیاست سنبھالنے کی آفر کی‘ میاں شہباز شریف نے صاف انکار کر دیا‘ آپریشن کے بعد میاں نواز شریف نے دوبارہ شہباز شریف کو بلایا اور اڑھائی گھنٹے کی گفتگو کے بعد انھیںقائل کر لیا‘ طے ہو گیا میاں نواز شریف اگلے دن اسپتال سے تقریر کریں گے اور سیاست اور پارٹی دونوں سے دستبردار ہو جائیں گے۔ عرفان صدیقی کو تقریر لکھنے کے لیے طلب کیا گیا لیکن عرفان صدیقی نے میاں نواز شریف کو یوٹرن لینے پر مجبور کر دیا‘ اس کے بعد جو ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا‘میاں نواز شریف اگر اس وقت چند قدم پیچھے ہٹ جاتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے‘ اسی طرح اگر الطاف حسین بھی 2016 میں اپنی انا کی قربانی دے دیتے‘ یہ فاروق ستار جیسی آفر قبول کر لیتے تو آج ایم کیو ایم بھی چار ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہوتی‘ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ ملک کی تینوں پارٹیوں کو اب ہوش کے ناخن لے لینے چاہئیں‘ان تینوں کو بلاول بھٹو‘ میاں شہباز شریف اور فاروق ستار کو تسلیم کر لینا چاہیے‘ یہ لوگ آئیں‘ پارٹیوں کی قیادت سنبھالیں اور حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں تاکہ ملک ٹریک پر آ سکے اور اس کے لیے عمران خان کو اپنی انا کی قربانی دینی ہو گی‘ یہ آخری یوٹرن لیں‘ ایمنسٹی کی شکل میں این آر او دیں اور اس جھنجٹ سے ملک اور اپنی دونوں کی جان چھڑا لیں‘ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی باعزت آپشن نہیں بچا اور اگر عمران خان یہ فیصلہ نہیں کرتے تو پھر یہ فیصلہ ایمرجنسی کرے گی‘ ملک میں ایمرجنسی لگے گی اور یہ سارے فیصلے اس ایمرجنسی میں ہوں گے اور ہم بڑی تیزی سے اس ایمرجنسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ The post ملک ایمرجنسی کے دہانے پر appeared first on ایکسپریس اردو. Source link
0 notes
zoyajehanbeen-blog · 5 years
Photo
Tumblr media
بالی وڈ کی رجحان ساز فلم ثابت ہوپائے گی؟ کوئی وقت تھا، جب آرٹسٹ اور موسیقی شوبز کی جان تھے، ان سے بڑھ کر کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی تھی، لیکن پھر تیزی سے بدلتے رجحانات نے ان کی افادیت کو جیسے دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ آج یہ کہنا شائد غلط نہ ہو گا کہ شوبز کی دنیا میں جتنی اہمیت پیسے کی ہے، اتنی کسی فنکار کی ہے نہ موسیقی کی۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شوبز میں پیسے کے بہتات نے اس انڈسٹری کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ کبھی فلم چند لاکھ روپے میں بن جاتی تھی، لیکن آج کروڑ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے اور اس کا عملی نمونہ ہمیں ہندی فلم انڈسٹری سے ملتا ہے، جہاں اربوں روپے میں فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ آج بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے والا ملک ہے، جہاں تقریباً 16 سو فلمیں ہر سال بنائی جاتی ہیں اور ان پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔ دنیا کی دوسری قدیم فلم انڈسٹری ہونے کا اعزاز رکھنے والے ملک بھارت کی فلم انڈسٹری کئی زبانوں پر مشتمل ہے، یعنی یہاں صرف ہندی ہی نہیں بلکہ آسامی، بنگالی، گجراتی، کنڑا، ملیالم، مراٹھی، پنجابی، تیلگو اور تمل زبانوں میں بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ انہی زبانوں میں سے ایک تمل زبان ہے، جس کو ہندوستان کی فلمی دنیا میں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس زبان میں حال ہی میں اب تک کی مہنگی ترین فلم بنائی گئی ہے، جس کا نام 2.0 ہے۔ 543 کروڑ بھارتی روپیہ کے بجٹ کے ساتھ 29 نومبر 2018ء میں ریلیز ہونے والی اس سائنس فکشن فلم کے ہدایت کار اور مصنف ایس شنکر جبکہ پروڈیوسر اے شوبھاسکرن ہیں۔ لائیکا پروڈکشن کے بینر تلے بننے والی یہ فلم دراصل 2010ء کی بلاک باسٹر فلم اینتھیرن (ربورٹ) کا سیکوئل ہیں، جس نے 3 سو کروڑ روپے کے قریب کمائی کی۔ عام شائقین کے نزدیک روبو 2.0 کی سب سے خاص بات اس فلم کے ستارے ہیں، جن میں جنوبی ہندوستان فلم انڈسٹری کے میگاسٹار رجنی کانت اور بالی وڈ کے کھلاڑی اکشے کمار کے ساتھ بدیشی حسینہ ایمی جیکسن ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری کی پہلی تھری ڈی فلم میں رجنی کانت اور اکشے کمار بھی پہلی بار اکٹھے جلوہ گر ہوئے ہیں۔ فلم کی کاسٹ کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں، ہدایت کار اور مصنف ایس شنکر نے فلم میں کام کے لئے سب سے پہلے عامر خان، کمال حسن اور وکرم سے بات کی، تاہم ان تینوں اداکاروں کے انکار کے بعد معروف امریکی اداکار آرنلڈ شوارتزنگر کے سامنے فلم کا سکرپٹ رکھا گیا تو انہوں نے سخت شرائط کے بعد کام کرنے کی حامی بھر لی، لیکن یہ حامی فلم میکروں کی سکت سے زیادہ تھی۔ لہذا وہ بھی اس پراجیکٹ کا حصہ نہ بن سکے، تاہم بعدازاں آرنلڈ شوارتزنگر کا کردار اکشے کمار نے نبھایا۔ برطانوی اداکارہ ایمی جیکسن نے اکتوبر 2015ء جبکہ رجنی کانت نے نومبر 2015ء کے اواخر میں فلم کو سائن کیا، جس کے بعد 16 دسمبر 2015ء کو چنائی میں 2.0 کی شوٹنگ کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہ فلم تمل، ہندی، تیلگو، جاپانی، کورین اور چائنیز سمیت 15 زبانوں کے ساتھ بھارت میں 6ہزار 9 سو جبکہ دنیا بھر میں 2 ہزار سے زائد سینماؤں میں پیش کی گئی۔ پہلے دن کی کمائی 80 کروڑ بھارتی روپے کے ساتھ یہ فلم تادمِ تحریر (تقریباً ایک ماہ) 750 کروڑ روپے سے زائد کما کر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ مرتب کر رہی ہے۔ فلم کے لئے عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گائیک اے آر رحمان نے میوزک کمپوز کیا جبکہ فلم کے گانے تمل، ہندی اور تیلگو میں جاری کیے گئے۔ میگاسٹار رجنی کانت کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کی ہر فلم کا موضوع اپنے اندر کوئی نہ کوئی سبق سموئے ہوتا ہے، ان کی فلموں میں معاشرتی برائیوں کو اجاگر کرکے ان کی اصلاح کا پرچار کیا جاتا ہے اور یہی کچھ 2.0 میں بھی کیا گیا۔ اس فلم میں معاشرے کے اس منفی پہلو پر زور دیا گیا ہے، جس کے بارے میں شائد جلدی بات تک نہیں کی جاتی کہ اس سے کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری اور بزنس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلم میں موبائل ٹاورز کے سگنلز کی فریکوئنسی مقررہ حد سے تجاوز کرنے کے باعث پیدا ہونے والی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے کہ اس فریکوئنسی سے پرندوں کی اموات ہو رہی ہیں، جن کی بروقت روک تھام نہایت ضروری ہے۔ فلم کی کہانی کی بات کی جائے تو اس کا پہلا سین اپنے موضوع کے عین مطابق کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک آدمی سیل فون ٹاور پر چڑھ کر خودکشی کر لیتا ہے اور پرندے اس کی نعش کے اردگرد منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر وسیگرن (رجنی کانت) اپنی لیب میں طالب علموں کو اپنی نئی ایجاد ایک انسانی روبوٹ نیلا (ایمی جیکسن)کو دکھاتا ہے۔ ان طالب علموں میں سے ایک موٹر سائیکل پر واپس جاتے ہوئے فون پر گفتگو کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا موبائل فون چھوٹ جاتا ہے اور وہ بائیک سمیت پھسل جاتا ہے۔ وہ طالب علم جب پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس کا سیل فون ہوا میں معلق ہے، جو جلد ہی آسمان کی طرف اڑان بھر لیتا ہے اور اسی طرح شہر بھر میں تمام لوگوں کے موبائل فون ایک ایک کرکے تیزی کے ساتھ پرواز کر جاتے ہیں۔ اس افراتفری کے دوران تمل ناڈو کا ہوم منسٹر (عادل حسین) سائنسدانوں اور دیگر افراد کے درمیان ایک اجلاس میں اس واقعہ کی وجہ پوچھتا ہے تو ڈاکٹر وسیگرن بتاتا ہے کہ یہ سب روایتی سائنس سے باہر ہے، جس سے نمٹنے کے لیے اس سے بھی زیادہ طاقت ور چیز کی ضرورت ہے، جس کے لئے وہ منسٹر سے چِٹّی روبوٹ (رجنی کانت) دوبارہ واپس لانے کی اپیل کرتا ہے، لیکن یہ درخواست مسترد کر دی جاتی ہے، تاہم بعدازاں حالات زیادہ خراب ہونے اور کسی طرف سے کوئی مدد نہ مل پانے پر چٹّی روبوٹ کو دوبارہ بنانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر وسیگرن اپنی اسسٹنٹ روبوٹ نیلا کی مدد سے چٹّی کے پارٹس حاصل کرکے اسے دوبارہ تیار کرتا ہے، اب شہر میں چٹّی روبوٹ اور موبائلز سے بنے پراسرار پرندے پکشی راجن کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوتی ہے، جس میں چٹّی کو کامیابی حاصل ہوتی ہے اور پُراسرار پرندے کے اندر کا انسان پکشی راجن باہر نکل آتا ہے۔ پکشی راجن چٹّی کو اپنی زندگی کی کہانی بتاتا ہے کہ وہ وہی شخص ہے، جس نے فلم کے آغاز میں خود کو پھانسی دی تھی۔ پکشی راجن پرندوں سے محبت کرنے والا اور ان پر تحقیق کرنے والا ایک ریسرچر ڈاکٹر رچرڈ/کرومین (اکشے کمار) تھا، لیکن موبائل فونز کمپنی کے چند عہدے داروں کی طرف سے موبائل ٹاورز کے سگنلز کی فریکوئنسی مقررہ مقدار سے بڑھانے کی وجہ سے پرندوں کی اموات ہونے لگیں تو اس نے اعلیٰ افسران اور عدالت تک رسائی حاصل کی مگر کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔ چٹّی کے کہانی سننے کے دوران ہی ڈاکٹر وسیگرن اور نیلا پکشی راجن کو ایک ڈیوائس میں قید کر لیتے ہیں۔ تاہم بعدازاں فلم کے منفی کردار بوہرا کا بیٹا دہیندرا بوہرا حسد کی آگ جلتے ہوئے رات کی تاریکی میں پکشی راجن کو آزاد کردیتا ہے۔ بعدازاں پکشی راجن ڈاکٹر وسیگرن کے جسم پر قبضہ کر کے لوگوں کو سیل فون کے استعمال سے روکتا اور پیٹتا ہے۔ چٹی روبوٹ وہاں پہنچتا ہے لیکن پکشی راجن کو مارنے سے ہچکچاتا ہے کیوں کہ وہ ڈاکٹر وسیگرن کے جسم میں ہے، اس بات کا کا فائدہ اٹھا کر پکشی راجن چٹی کے پارٹس الگ کر دیتا ہے، لیکن نیلا اسے لیب لے جاکر دوبارہ بناتی ہے اور اسے ڈاکٹر وسیگرن کے نئے پراجیکٹ روبوٹ 2.0 کا نام دیتی ہے۔ اس دوران پکشی راجن ہزاروں لوگوں سے بھرے ایک فٹ بال اسٹیڈیم کو گھیر لیتا ہے اور سارے موبائل ٹاورز کی فریکوئنسی وہاں لاکر لوگوں کو بھسم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو چٹّی ناکام بناتے ہوئے اسے ہی ختم کر دیتا ہے۔ فلم کے اختتام میں ڈاکٹر وسیگرن فلم کے موضوع کی روشنی میں ہوم منسٹر سے اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پکشی راجن کا طریقہ غلط تھا مگر بات صحیح تھی، چنانچہ اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ موبائل ٹاورز سے کسی بھی حیات کو نقصان نہ پہنچے۔ 2.0 کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور بزنس کو سامنے رکھتے ہوئے مجموعی طور پر اسے ایک کامیاب فلم قرار دیا جا رہا ہے، لیکن فلمی ناقدین کے تجزیے میں اسے کسی نہ 5 میں سے 5 تو کسی نے 3 سٹارز دیئے ہیں، کیوں کہ پرفیکشن انسان کے بس کی بات نہیں۔ ناقدین کے مطابق اگرچہ یہ فلم ویژوال افیکٹس اور تھری ڈی کے باعث تفریح کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن سائنس فکشن کی وجہ سے کچھ چیزیں بہت ہی غیرحقیقی پیش کی گئی ہیں اور فلم کے پہلے ہاف میں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ یہاں کچھ بالکل الگ ہونے والا ہے، یعنی سپنس کا فقدان اور فلم سست روئی کا شکار رہی۔ امریکن فلم ریویو ویب سائٹ روجرای برٹ نے 2.0 کو 5 میں سے ساڑھے تین سٹارز دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 2.0 کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اس میں بہت ساری چیزیں غیر حقیقت پسندانہ ہیں، جو عقل سلیم سے ماورا ہیں۔ عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کی ایک لکھاری شلپا جمکھاندیکر کے مطابق عمومی نظر میں یہ ایک بڑی فلم ہے، جسے شائقین میں پذیرائی مل رہی ہے۔ ایک اور امریکن ویب سائٹ پولی جون کے رائٹر رافیل موٹمیئر فلم کو 5 میں سے 5 سٹارز دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2.0 میں اگر کوئی خامی ہے تو وہ اس کی ویژوال افیکٹس کا بہترین استعمال ہے، یعنی اس میں انہیں کوئی کمزوری نظر نہیں آئی۔ رافیل کا کہنا ہے کہ یہ فلم 2 سو ملین امریکن ڈالر کلب میں شامل ہونے کی تمام تر صلاحیتیں رکھتی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے معروف فلمی ناقد جنانی کے نے اس فلم کو 5 میں سے 3 نمبر دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فلم کا موضوع بہت اچھا ہے، لیکن اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا، موبائل ٹاور کی فریکوئنسی سے پیدا ہونے والے مسائل جیسے بہترین موضوع کو خودنمائی یا نمائشی کے بجائے دلچسپ بنایا جانا چاہیے تھا۔ انڈین ایکسپریس کے معروف رائٹر شوبھارا گپتا نے 2.0کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے 5 میں سے صرف 2 سٹارز دیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم کا پہلا ہاف دلچسپی اور سپنس سے عاری تھا، تاہم دوسرے ہاف میں رجنی کانت اور اکشے کمار کی اداکاری نے اسے کچھ بہتر بنا دیا۔ اگرچہ سائنس فکشن پر مبنی اس فلم میں کہانی، ڈائیلاگ، منظر کشی، کرداروں اور تکنیکس کے اعتبار سے کچھ خامیاں موجود ہیں، جن کا فلمی ناقدین نے برملا اظہار بھی کیا ہے، لیکن فلم کے موضوع کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، جو بلاشبہ جدید ٹیکنالوجی کی بھرمار کے دور میں ایک اہم معاشرتی مسئلہ ہے۔ The post بالی وڈ کی رجحان ساز فلم ثابت ہوپائے گی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
emergingkarachi · 8 years
Text
شطانیت اور رحمانیت دونوں عروج پر
کچھ عرصے سے کراچی کی شناخت بدامنی اور بد انتظامی بن چکی ہے لیکن ماضی میں اسی کراچی کو روشنیوں کا شہر، عروس البلاد اور غریب پرور شہر کے نام سے پکارا جاتا ہے، لیکن یہ شہر ایک حیرت کدہ بھی نظر آتا ہے۔ شہر پر منگل کی شب جب بادل برس رہے تھے تو ساڑہ آٹھ بجے کے قریب میں بائیک پر دفتر سے گھر کے لیے روانہ ہوا، شاہراہ فیصل پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے گلیوں سے جانے کو ترجیج دی لیکن طارق روڈ کے قریب پانی کے بہاؤ کے سامنے بائیک نے مزید چلنے سے انکار کر دیا۔
ایک فٹ سے زائد پانی میں جب میں بائیک کو دھکیلتا ہوا چند قدم ہی آگے بڑھا تو سامنے چار نوجوان نظر آئے، جو بغیر کچھ بولے آگے بڑھے اور بائیک کو اٹھاکر فٹ پاتھ پر کھڑا کردیا اور ون وے پر لاکر خود ہی اس کا پلگ صاف کرنے لگے ، انھوں نے مجھے تسلی دی کہ پریشان نہ ہوں وہ ابھی بائیک ٹھیک کر دیں گے۔
جس شہر میں گن پوائنٹ پر لٹنے کے واقعات عام ہوں اور ٹارگٹڈ آپریشن بھی اس میں کمی نہیں لا سکا ہو اس صورتحال میں اگر آپ چار نوجوانوں کے درمیان میں ہوں تو ڈر و خوف طاری ہونا قدرتی امر ہے۔ میں بھی تھوڑا گھبرایا ضرور لیکن چند منٹوں بعد میر اعتماد بحال ہوگیا۔
ان نوجوانوں نے اپنے طور پر پوری کوشش کی لیکن بائیک ٹس سے مس نہیں ہوئی، میں ان نوجوانوں کے شکریہ کے ساتھ پھر بائیک کو دھکیلتا آگے بڑھا، آگے چوک پر کئی لوگ خراب بائیکوں کے ساتھ موجود تھے لیکن ہر بائیک کے قریب ایک نوجوان بھی نظر آتا جو اس کی مرمت میں مصروف تھا۔ یہ کراچی کی ایک بلکل مختلف پہچان تھی جس کا مجھے پہلے تجربہ نہ تھا۔ اس بھیڑ سے جیسے آگے پہنچا تو ایک بائیک پر نوجوان آکر رکا اور مشورہ دیا کہ دھکے سے گاڑی اسٹارٹ ہو جائیگی جس کے بعد اس نے ایک پاؤں میری بائیک پر رکھا اور سپیڈ سے اپنی بائیک چلائی مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی جس کے بعد میں نے اس کو جانے کے لیے کہا۔
 اس طرح کئی لوگ راستے میں رکتے اور مدد کی پیشکش کرتے رہے بالاخر دو نوجوانوں کی محنت رنگ لائی اور میری بائیک اسٹارٹ ہوگئی میں گھر کی طرف روانہ ہوا۔ یقیناً باقی لوگ بھی ان مددگاروں کی محنت سے گھر پہنچے ہوں گے اور میری طرح انھیں بھی پریشان حال اہل خانہ کے مسلسل فون آ رہے ہوں گے۔
کراچی کے بارے میں نامور سماجی رضاکار عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم کا شہر ہے، یہاں ہر چیز تقسیم ہو چکی ہے، میں نے بھی اس شہر میں دس سال کی صحافت کے دوران لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم دیکھی ہے، کہیں فرقہ تو کہیں زبان و نسل خطرہ بن جاتی ہے، اس صورتحال میں صحافت بھی صرف مخصوص علاقوں تک محدود ہے۔
اس شہر میں پریشانی و خوف کی وجہ سے اگر کسی کو نیند نہ آئ�� تو دوسری بات ہے لیکن یہاں کم از کم کوئی بھوک کی وجہ سے نہیں جاگتا، ہر علاقے میں ایسے دستر خوان اور ہوٹل موجود ہیں جہاں غریبوں اور فقیروں کو دو وقت کا کھانا دستیاب ہوتا ہے، یہاں کوئی کسی سے فرقہ یا زبان کا سوال نہیں کرتا ہے۔
شہر کی ہول سیل مارکیٹوں میں سیٹھ ایک روپیہ رعایت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن ماہ رمضان میں یہ ہی سیٹھ ہزاروں لوگوں میں مفت راشن تقسیم کرتے ہیں۔
 یہاں کچھ لوگ کسی تنازعے یا اختلاف پر قتل کرکے لاش سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور اسی شہر کا عبدالستار ایدھی کسی تفریق سے بالاتر ہوکر ان لاشوں کو غسل و کفن کے بعد دفن کر دیتا ہے۔ یہاں گرفتار ہونے والے بعض شدت پسندوں کی جیب سے نکلنے والی ہٹ لسٹ میں ڈاکٹر ادیب رضوی کا نام بھی شامل ہوتا ہے لیکن یہ ہی ادیب رضوی شیعہ اور سنی دونوں کے گردوں کا علاج ایک ہی جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک ساتھی کے چچا کے بقول کراچی میں شیطانیت اور رحمانیت دونوں ہی اپنے عروج پر ہے۔ یہاں سیاہ اور سفید دونوں کے مزاج کا امتزاج موجود ہے۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 notes
emergingpakistan · 7 years
Text
یورپ میں آزادی کی تحریکیں
یورپ کے مختلف ممالک میں آزادی کے حصول کی جدوجہد جاری ہے۔ اسکاٹ لینڈ، باسک اور اسپین کے خطے کاتالونیا کے باسی ایک خود مختار ریاست چاہتے ہیں۔ بیلجیئم میں زبان کی بنیاد پر تنازعہ موجود ہے۔ سلطنت برطانیہ کے ساتھ 300 سال رہنے کے بعد اب اسکاٹ لینڈ کے باسیوں کو ایک عوامی ریفرنڈم کے ذریعے خود مختاری حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ یورپ میں دفتر شماریات کے مطابق یورپی ممالک میں اقتصادی طور پر مستحکم علاقے اپنے اپنے وطنوں سے الگ ہونا چاہتے ۔ ’’برطانیہ پر حکومت کرو ، ہم پر نہیں‘‘ اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی تحریک کا نعرہ بھی اس سے کچھ ملتا جلتا ہو گا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور اسکاٹ لینڈ کی صوبائی حکومت کے سربراہ الیکس سیل منڈ ’ Alex Salmond ‘ کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق اسکاٹ لینڈ میں آزادی کا ریفرنڈم 2014ء میں منعقد کرایا جائے گا۔
لیکن اسکاٹ لینڈ اپنے اس نعرے کے ساتھ یورپ میں تنہا نہیں ہے۔ اسپین میں بھی باسک علیحدگی پسند خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ باسک علاقے رقبے کے لحاظ سے اسپین کا دس فیصد بنتے ہیں تاہم مجموعی قومی پیداوار میں ان علاقوں کا حصہ ایک چوتھائی بنتا ہے۔ اسی طرح اب اگر شمالی اٹلی اور میلان کے ارد گرد کے علاقوں کی بات کی جائے تو وہ ملک کے معاشی اعتبار سے کمزور جنوبی حصے کی مزید مدد نہیں کرنا چاہتے۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ بھی تیل کی پیدوار سے ہونے والی آمدنی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن بیلجیئم میں صورتحال بہت ہی نازک ہے، جہاں ولندیزی اور فرانسیسی بولنے والوں یعنی فلیمش اور والونیہ آبادیوں کے مابین شدید اختلاف پائے جاتے ہیں۔ ولندیزی اکثریت والے علاقوں کا ملک کے دیگر حصے سے الگ ہونے کا مطالبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں بھی اقتصادی پہلو نمایاں ہے کیونکہ بیلجیئم کی مجموعی قومی پیداوار میں ولندیزی علاقوں کا حصہ ساٹھ فیصد بنتا ہے۔ اس تناظر میں جرمنی کی یونیورسٹی کیل کی پروفیسر زلکے گوچ کہتی ہیں کہ علیحدہ ہونے کے مطالبے کے پیچھے صرف معاشی ہی نہیں ہیں بلکہ اور بھی کئی پہلو ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ مطالبہ ایک زبان اور ایک ثقافت کے علاوہ یکساں ماضی ہونے کی وجہ سے بھی جنم لیتا ہے۔ ان کے بقول اس تناظر میں مذہب اور کسی ملک کا جغرافیہ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین کہتے کہ اسپین اور آئرلینڈ کو علیحدگی پسندوں کی جانب سے بم دھماکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن یورپ کی ان تحریکوں کا دنیا کے دوسرے خطوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اریٹیریا، سوڈان یا مشرقی تیمور میں چلنے والی تحریکیں بہت زیادہ خونریز ہیں۔ ماہرین کے بقول باسک، فلیمش اور اسکاٹ لینڈ سب ہی خود مختار بننے کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن یہ راستہ خطرات سے خالی نہیں ہے۔
 بشکریہ DW اردو  
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
مرچ کو تیز ذائقہ دینے والا کیمیکل اب شمسی سیل کو بہتر بنانے میں بھی معاون - اردو نیوز پیڈیا
مرچ کو تیز ذائقہ دینے والا کیمیکل اب شمسی سیل کو بہتر بنانے میں بھی معاون – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین بیجنگ: آپ کے منہ اور زبان کو بے آرام بنا دینے والا مرچوں کا کیمیکل ’’کیسپیسیئن‘‘ اب شمسی سیل کی کارکردگی کو بہتر بناسکتا ہے۔ اس اختراع کے بعد دھوپ سے بجلی بنانے میں مزید کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ماہرین نے پہلے سورج کی روشنی کو بجلی میں بدلنے کے لیے شمسی سیل کو نہایت ہلکا پھلکا اور باریک بنایا۔ یہ سیل سلیکون سے بنے تھے۔ اب بھی ہم شمسی سیلوں سے بجلی کی مناسب مقدار نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduwebsite-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
زنک آپ کے لیے کتنا ضروری؟ کمی سے کتنا نقصان آپ کے جسم میں زنک کی کیا اہمیت ہے جانیے..؟ زنک (zinc) جسے اردو زبان میں جست کہا جاتا ہے اصل میں ایک قسم کی دھات ہے جو کہ جسم کا ایک لازمی عنصر ہے. تاہم، صحت کو برقرار رکھنے اور ہر روز اہم افعال انجام دینے کے لئے روزانہ کم مقدار میں زنک کی ضرورت ہوتی ہے. زنک بہت سے طریقوں سے جسم کو فائدہ دیتا ہے: ہارمون کی پیداوار، ترقی اور مرمت کے ساتھ مدد کرتا ہے٬ بیماری کو بہتر بنانے اور ہضم کی سہولیات کو سہولت فراہم کرتا ہے. زنک کے فوائد میں انسداد سوزش ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت بھی شامل ہے، لہذا زنک کئی عام، دائمی بیماریوں جیسے کینسر سے لڑنے یا دل کی بیماری کو تبدیل کرنے کے لئے اہم علاج کے فوائد حاصل کرسکتے ہیں. زنک اصل میں جسمانی ٹشو کے اندر موجود ہے اور صحت مند سیل ڈویژن کے لئے ضروری ہے. یہ جسم کے اندر ایک اینٹی آکسائڈنٹ کی طرح کام کرتا ہے، آزاد بنیاد پرست نقصان سے لڑتا ہے اور عمر بڑھنے کے عمل کو سست کرتا ہے. زنک کا ہارمون توازن پر ایک بڑا اثر ہے، تو اس کی وجہ سے، یہاں تک کہ تھوڑی سی زنک کی کمی بانجھ پن یا ذیابیطس کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے- عورتوں میں زنک کی کمی کی علامات:- حاملہ عورتوں میں زنک کی کمی بچے کی نشونما پر بہت برے اثرات مرتب کرتی ہے بچے کی دماغی نشوونما اور ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوتا ہے دانتوں کی شکل پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایسی عورتوں میں جن میں زنک کی کمی ہوتی ہے اسقاط حمل بہت دیکھنے میں آتا ہے اس طرح لڑکیاں پیدا کرنے والی عورتوں میں زنک کی کمی ہوتی ہے بچوں میں زنک کی کمی کی علامات:- 1)بچوں کے قد چھوٹے رہ جاتے ہیں 2)جنسی عوامل دیر سے شروع ہوتے ہیں 3)نظام انہظام اکثر خراب رہتا ہے 4)بالوں میں پلازما میں زنک کی کمی واقع ہو جاتی ہے یعنی گنجا پن ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے 5)جسم میں طرح طرح کے نشانات ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں 6)بچوں میں پیشاب زیادہ آتا ہے عام افراد میں زنک کی کمی کی علامات:- 1)وہ لوگ جن کے زخم ٹھیک ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہو ان میں زنک کی کمی ہوتی ہے 2)ناخنوں پر سفید دھبے یا متعدی بیماری میں مریض کے ذائقے کی حس ختم ہو جاتی ہے ایسا عموماً برون کائیٹس کے مریضوں میں دیکھا جاتا ہے کن افراد کو زنک کی ضرورت ہوتی ہے:- 1)ایسے افراد جو ایلوپیتھی ادویات بکثرت استعمال کرتے ہوں 2)حاملہ عورتوں کے لیے دوران حمل , بچے کی پیدائش کے بعد جتنا عرصہ بچے کو دودھ پلاتی ہے 3)ایسے بچے جن کو ماں کا دودھ میسر نہیں آتا 4)ایسے بچے جن میں جنسی حصوں کی نشوونما نارمل نہ ہو رہی ہو 5)چہرے پر کیل مہاسوں کے مریضوں کو 6)بیماری کے دوران زنک کا استعمال بیماری کے عرصہ کو کم کر دیتا ہے زنک کی یومیہ مقدار:- چھوٹے بچے: 0-6 ماہ: 2 ملی گرام / دن 7-12 ماہ: 3 ملی گرام / دن بڑے بچے: 1-3 سال: 3 ملی گرام / دن 4-8 سال: 5 ملی گرام / دن 9 -13 سال: 8 ملی گرام / دن بالغوں: مرد عمر 14 اور اس سے زیادہ: 11 ملی گرام / دن خواتین کی عمر 14 سے 18 سال: 9 ملی گرام / دن خواتین کی عمر 19 اور اس سے زیادہ: 8 ملی گرام / دن زنک کے ماخذ:- اناج ،مغز اور روغنی بیج زنک حاصل کرنے کے اچھے ذریعے ہیں۔جبکہ سبزیوں اور پھلوں میں اس کی موجودگی قلیل مقدار میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ…. زنک چوسنیاں، سیرپ، جیل اور کیپسول سمیت مختلف شکلوں میں، عام طور پر دستیاب ہے. زنک زیادہ ملٹی وٹامن اور معدنی سپلیمنٹ میں بھی پایا جاتا ہے. یہ سپلائیز زن زن گلوکونیٹ، زنک سلفیٹ یا زنک ایسیٹیٹ کی شکل میں زنک شامل ہوسکتا ہے زنک آپ کے لیے کتنا ضروری؟ کمی سے کتنا نقصان .
0 notes
delhi-net2-blog · 7 years
Text
سفر به دهلی
سفر به دهلی
در مقایسه با بیشتر شهرهای هندوستان به جز بمبئی، دهلی جایی نسبتا گران است. در این شهر می‌توان فرهنگ‌ها، مذاهب و عقاید مختلف زیادی را مشاهده کرد که در ابتدا ممکن است گیج کننده باشد. دهلی پایتخت هند محسوب می‌شود که تراکم جمعیتی زیادی هم دارد. این مطلب بیشتر در مورد دهلی نو است که به آن دهلی می‌گوییم. اطلاعات ضروری
اختلاف زمانی با تهران: ۲:۰۰+ زبان رسمی و رایج: انگلیسی، اردو، هندی واحد پول رسمی: روپیه هند (INR) نرخ تبدیل ارز: ۱۰۰ روپیه=۱.۵۱ دلار جهت رانندگی: چپ
وضعیت آب و هوایی:
آب و هوای دهلی به نظر بسیار شگف‌انگیز است. با وجود اینکه در طی زمستان کاملا سرد است، هنوز هم ماه‌های نوامبر تا مارس با روزهای گرم که سردی شب‌ها را مقداری جبران می کند، بهترین زمان برای سفر به این شهر به شمار می‌روند. از ماه‌ آوریل تا ژوئن درجه حرارت هوا به صورت موشک وار بالا می رود و گاهی می تواند غیر قابل تحمل شود. و این شرایط زمانی بدتر می‌شود که بدانید تهویه هوا در خارج از هتل‌ها و رستوران‌های توریستی کاملا کمیاب است. در شروع ماه جولای فصل گردباد و بارش مکرر باران‌های سنگین آغاز می‌شود که لذت بردن از سرگرمی‌های این شهر را تحت شعاع قرار می دهد. همچنین می توانند باعث جریان سیل و مختل کردن زندگی در این شهر بشوند. بنابراین، این موقع از سال زمان مناسبی برای سفر نیست. بهترین زمان برای رزرو هتل:
هتل‌ها در دهلی دو فصل عمده دارند. فصل‌های پرگردشگر یا به اصطلاح High-Season عموما از اکتبر تا مارس و فصل های کم گردشگر یا به اصطلاح off-season از ماه‌های آوریل تا سپتامبر به طول می انجامند. در اغلب هتل‌ها و هاستل‌های ارزان این شهر، قیمت ها در سراسر طول سال تغیر چندانی ندارند. اما در هتل‌های رنج متوسط و بالاتر اگر در طول فصول کم گردشگر سفری به دهلی داشته باشید می توانید با قیمت های کمتری اتاق رزرو کنید. انواع هزینه‌ها: هزینه‌ی هاستل:
نکته‌ی جالب در رابطه با هاستل‌های دهلی این است که قیمت‌ها خیلی وابسته به موقعیت مکانی نیستند، بطور مثال ممکن است هاستلی در نزدیکی مرکز شهر، از هاستلی که چند کیلومتر دور از مرکز قرار دارد، قیمتی به مراتب پایین‌تر داشته باشد. در هر صورت برای یک شب اقامت در اتاقی اشتراکی باید انتظار پرداخت ۵۵۰ تا ۸۲۰ روپیه را داشته باشید. اگر تمایل دارید در اتاقی خصوصی توقف کنید، باید بین ۴۰۰ تا ۱۵۰۰ روپیه هزینه کنید. البته توجه داشته باشید با کمی جستجو حتی در نزدیکی مرکز شهر می توان اتاق های ارزان‌تری هم پیدا کرد. هزینه‌ی اقامت در هتل:
هتل‌ها در این شهر خیلی ارزان نیستند مگر اینکه در محله‌ی یهودی نشین Paharganj اتاق اجاره کنید. اگر بخواهیم قیمت انواع هتل را بر اساس کیفیت و تعداد ستاره دسته بندی کنیم، نتیجه به شرح زیر خواهد بود:
۱ ستاره ۵۷۰ تا ۱,۲۰۰ روپیه ۲ ستاره ۶۲۹ تا ۴,۵۳۸ روپیه ۳ ستاره ۶۷۳ تا ۷,۹۵۵ روپیه ۴ ستاره ۲,۰۷۹ تا ۱۲,۰۰۰ روپیه ۵ ستاره ۳,۹۵۲ تا ۱۹,۹۶۱ روپیه متوسط قیمت مواد غذایی:
غذا در دهلی ارزان است به شرطی که از دکه‌های خیابانی غذا تهیه کنید. مسلم است که اگر بخواهید در رستوران‌های توریستی غذا میل کنید بودجه‌ی شما سریع تر تمام خواهد شد.
صبحانه: معمولا هتل‌ها به همراه اجاره‌ی اتاق وعده‌ی صبحانه را هم ارایه می دهند، اما اگر اینگونه نبود می توانید در دکه‌های خیابانی و رستوران های معمولی غذای ارزان میل کنید. یادتان باشد قیمت رستوران های غربی گران‌تر است. (۸۰ تا ۱۵۰ روپیه)
ناهار: شما می توانید با هر نوع بودجه ای در این شهر غذا میل کنید. اما حقیقت امر این است که رستوران‌ها هرچقدر بهتر باشند هزینه‌های بالاتری را از شما کسر خواهند کرد. پس اگر محدودیت زیادی در بودجه دارید کمی قانع باشید و در غذافروشی‌های محلی روزگار را سر کنید. (۱۰۰ تا ۲۵۰ روپیه)
شام: اگر نشستن در رستوران‌های خوب را برای صرف شام انتخاب کنید، باز هم می توانید وعده‌های غذایی ارزان پیدا کنید، اما نسبت به وعده های دیگر باید کمی بیشتر هزینه کنید. (۲۰۰ تا ۴۰۰ روپیه)
مک دونالد: در دهلی هزینه‌ی یک وعده غذای مک دونالدی! در بهترین حالت خود معمولا بیش از ۹۵ روپیه نمی‌شود. اگر دوست دارید خودتان آشپزی کنید، بسته به اینکه به کدام سبک از غذای غربی یا آسیایی علاقمند باشید، می‌توانید مواد غذایی مورد نیاز یک هفته‌تان را با پرداخت به ترتیب حدود۱۶۲۲ و۱۲۶۸ روپیه تهیه کنید. به یاد داشته باشید محاسبه قیمت‌ها بر اساس میزان کالری استاندارد و مواد غذایی مورد نیاز یک انسان سالم و بالغ تنظیم شده است که اقلامی چون نان تازه، برنج سفید، تخم مرغ، شیر (سبک غربی)، سینه‌ی مرغ (پوست کنده و بدون استخوان)، پنیر محلی (سبک غربی)، سیب درختی، پرتقال، گوجه فرنگی، سیب زمینی و کاهو می‌شود. مسلم است که اگر مواد بیشتری نیاز دارید، باید هزینه‌ی بیشتری بپردازید. هزینه‌ی حمل و نقل
چهار انتخاب اصلی برای استفاده از سیستم حمل و نقل عمومی در دهلی عبارتند از اتوبوس، مترو، تاکسی و تاکسی‌های ۳ چرخ. بیش از ۲,۰۰۰ اتوبوس عمومی در این شهر مشغول خدمت رسانی هستند اما متاسفانه اغلب آن ها راحتی و استاندارد اتوبوس های غربی را ندارند. البته تعدادی از آن ها دارای سیستم تهویه مناسب هستند که با رنگ قرمز مشخص شده‌اند. سیستم متروی این شهر جدیدترین وسیله‌ی نقلیه‌ای است که اضافه شده است و به صورت مکرر اقدام به جابجایی مسافران می کند. در حال حاضر ۶ خط مترو در ااطراف شهر تعداد زیادی ایستگاه را پوشش می دهند. با این وجود راحت‌ترین راه برای دسترسی به بیشترین نقاط شهر استفاده از تاکسی است، اگرچه، گرانترین انتخاب هم محسوب می‌شود. هزینه‌های استفاده از انواع ذوسیله‌ی نقلیه در دهلی به شرح زیر است:
تاکسی از فرودگاه تا مرکز شهر ۲۰۰ تا ۳۰۰ روپیه مترو از فرودگاه تا مرکز شهر ۱۰۰ روپیه هر ۳ کیلومتر جابجایی توسط تاکسی در دهلی/دهلی نو ۵۳ تا ۸۰ روپیه ۳ کیلومتر جابجایی توسط تاکسی ۳ چرخ ۴۰ تا ۶۰ روپیه مترو در دهلی ۸ تا ۳۰ روپیه کرایه ماشین و راننده برای ۱ روز کامل ۱,۵۰۰ تا۲,۰۰۰ روپیه قطار اکسپرس به آگرا ۲۶۳ تا ۷۰۰ روپیه
0 notes
delhi-net1-blog · 7 years
Text
راهنمای سفر به دهلی
راهنمای سفر به دهلی
در مقایسه با بیشتر شهرهای هندوستان به جز بمبئی، دهلی جایی نسبتا گران است. در این شهر می‌توان فرهنگ‌ها، مذاهب و عقاید مختلف زیادی را مشاهده کرد که در ابتدا ممکن است گیج کننده باشد. دهلی پایتخت هند محسوب می‌شود که تراکم جمعیتی زیادی هم دارد. این مطلب بیشتر در مورد دهلی نو است که به آن دهلی می‌گوییم. اطلاعات ضروری
اختلاف زمانی با تهران: ۲:۰۰+ زبان رسمی و رایج: انگلیسی، اردو، هندی واحد پول رسمی: روپیه هند (INR) نرخ تبدیل ارز: ۱۰۰ روپیه=۱.۵۱ دلار جهت رانندگی: چپ
وضعیت آب و هوایی:
آب و هوای دهلی به نظر بسیار شگف‌انگیز است. با وجود اینکه در طی زمستان کاملا سرد است، هنوز هم ماه‌های نوامبر تا مارس با روزهای گرم که سردی شب‌ها را مقداری جبران می کند، بهترین زمان برای سفر به این شهر به شمار می‌روند. از ماه‌ آوریل تا ژوئن درجه حرارت هوا به صورت موشک وار بالا می رود و گاهی می تواند غیر قابل تحمل شود. و این شرایط زمانی بدتر می‌شود که بدانید تهویه هوا در خارج از هتل‌ها و رستوران‌های توریستی کاملا کمیاب است. در شروع ماه جولای فصل گردباد و بارش مکرر باران‌های سنگین آغاز می‌شود که لذت بردن از سرگرمی‌های این شهر را تحت شعاع قرار می دهد. همچنین می توانند باعث جریان سیل و مختل کردن زندگی در این شهر بشوند. بنابراین، این موقع از سال زمان مناسبی برای سفر نیست. بهترین زمان برای رزرو هتل:
هتل‌ها در دهلی دو فصل عمده دارند. فصل‌های پرگردشگر یا به اصطلاح High-Season عموما از اکتبر تا مارس و فصل های کم گردشگر یا به اصطلاح off-season از ماه‌های آوریل تا سپتامبر به طول می انجامند. در اغلب هتل‌ها و هاستل‌های ارزان این شهر، قیمت ها در سراسر طول سال تغیر چندانی ندارند. اما در هتل‌های رنج متوسط و بالاتر اگر در طول فصول کم گردشگر سفری به دهلی داشته باشید می توانید با قیمت های کمتری اتاق رزرو کنید. انواع هزینه‌ها: هزینه‌ی هاستل:
نکته‌ی جالب در رابطه با هاستل‌های دهلی این است که قیمت‌ها خیلی وابسته به موقعیت مکانی نیستند، بطور مثال ممکن است هاستلی در نزدیکی مرکز شهر، از هاستلی که چند کیلومتر دور از مرکز قرار دارد، قیمتی به مراتب پایین‌تر داشته باشد. در هر صورت برای یک شب اقامت در اتاقی اشتراکی باید انتظار پرداخت ۵۵۰ تا ۸۲۰ روپیه را داشته باشید. اگر تمایل دارید در اتاقی خصوصی توقف کنید، باید بین ۴۰۰ تا ۱۵۰۰ روپیه هزینه کنید. البته توجه داشته باشید با کمی جستجو حتی در نزدیکی مرکز شهر می توان اتاق های ارزان‌تری هم پیدا کرد. هزینه‌ی اقامت در هتل:
هتل‌ها در این شهر خیلی ارزان نیستند مگر اینکه در محله‌ی یهودی نشین Paharganj اتاق اجاره کنید. اگر بخواهیم قیمت انواع هتل را بر اساس کیفیت و تعداد ستاره دسته بندی کنیم، نتیجه به شرح زیر خواهد بود:
۱ ستاره ۵۷۰ تا ۱,۲۰۰ روپیه ۲ ستاره ۶۲۹ تا ۴,۵۳۸ روپیه ۳ ستاره ۶۷۳ تا ۷,۹۵۵ روپیه ۴ ستاره ۲,۰۷۹ تا ۱۲,۰۰۰ روپیه ۵ ستاره ۳,۹۵۲ تا ۱۹,۹۶۱ روپیه متوسط قیمت مواد غذایی:
غذا در دهلی ارزان است به شرطی که از دکه‌های خیابانی غذا تهیه کنید. مسلم است که اگر بخواهید در رستوران‌های توریستی غذا میل کنید بودجه‌ی شما سریع تر تمام خواهد شد.
صبحانه: معمولا هتل‌ها به همراه اجاره‌ی اتاق وعده‌ی صبحانه را هم ارایه می دهند، اما اگر اینگونه نبود می توانید در دکه‌های خیابانی و رستوران های معمولی غذای ارزان میل کنید. یادتان باشد قیمت رستوران های غربی گران‌تر است. (۸۰ تا ۱۵۰ روپیه)
ناهار: شما می توانید با هر نوع بودجه ای در این شهر غذا میل کنید. اما حقیقت امر این است که رستوران‌ها هرچقدر بهتر باشند هزینه‌های بالاتری را از شما کسر خواهند کرد. پس اگر محدودیت زیادی در بودجه دارید کمی قانع باشید و در غذافروشی‌های محلی روزگار را سر کنید. (۱۰۰ تا ۲۵۰ روپیه)
شام: اگر نشستن در رستوران‌های خوب را برای صرف شام انتخاب کنید، باز هم می توانید وعده‌های غذایی ارزان پیدا کنید، اما نسبت به وعده های دیگر باید کمی بیشتر هزینه کنید. (۲۰۰ تا ۴۰۰ روپیه)
مک دونالد: در دهلی هزینه‌ی یک وعده غذای مک دونالدی! در بهترین حالت خود معمولا بیش از ۹۵ روپیه نمی‌شود. اگر دوست دارید خودتان آشپزی کنید، بسته به اینکه به کدام سبک از غذای غربی یا آسیایی علاقمند باشید، می‌توانید مواد غذایی مورد نیاز یک هفته‌تان را با پرداخت به ترتیب حدود۱۶۲۲ و۱۲۶۸ روپیه تهیه کنید. به یاد داشته باشید محاسبه قیمت‌ها بر اساس میزان کالری استاندارد و مواد غذایی مورد نیاز یک انسان سالم و بالغ تنظیم شده است که اقلامی چون نان تازه، برنج سفید، تخم مرغ، شیر (سبک غربی)، سینه‌ی مرغ (پوست کنده و بدون استخوان)، پنیر محلی (سبک غربی)، سیب درختی، پرتقال، گوجه فرنگی، سیب زمینی و کاهو می‌شود. مسلم است که اگر مواد بیشتری نیاز دارید، باید هزینه‌ی بیشتری بپردازید. هزینه‌ی حمل و نقل
چهار انتخاب اصلی برای استفاده از سیستم حمل و نقل عمومی در دهلی عبارتند از اتوبوس، مترو، تاکسی و تاکسی‌های ۳ چرخ. بیش از ۲,۰۰۰ اتوبوس عمومی در این شهر مشغول خدمت رسانی هستند اما متاسفانه اغلب آن ها راحتی و استاندارد اتوبوس های غربی را ندارند. البته تعدادی از آن ها دارای سیستم تهویه مناسب هستند که با رنگ قرمز مشخص شده‌اند. سیستم متروی این شهر جدیدترین وسیله‌ی نقلیه‌ای است که اضافه شده است و به صورت مکرر اقدام به جابجایی مسافران می کند. در حال حاضر ۶ خط مترو در ااطراف شهر تعداد زیادی ایستگاه را پوشش می دهند. با این وجود راحت‌ترین راه برای دسترسی به بیشترین نقاط شهر استفاده از تاکسی است، اگرچه، گرانترین انتخاب هم محسوب می‌شود. هزینه‌های استفاده از انواع ذوسیله‌ی نقلیه در دهلی به شرح زیر است:
تاکسی از فرودگاه تا مرکز شهر ۲۰۰ تا ۳۰۰ روپیه مترو از فرودگاه تا مرکز شهر ۱۰۰ روپیه هر ۳ کیلومتر جابجایی توسط تاکسی در دهلی/دهلی نو ۵۳ تا ۸۰ روپیه ۳ کیلومتر جابجایی توسط تاکسی ۳ چرخ ۴۰ تا ۶۰ روپیه مترو در دهلی ۸ تا ۳۰ روپیه کرایه ماشین و راننده برای ۱ روز کامل ۱,۵۰۰ تا۲,۰۰۰ روپیه قطار اکسپرس به آگرا ۲۶۳ تا ۷۰۰ روپیه
0 notes