Tumgik
#اٹھا
apnibaattv · 1 year
Text
پاکستان کے سب سے بڑے حقوق گروپ نے مذہبی آزادی پر 'خطرہ' اٹھا دیا | انسانی حقوق کی خبریں۔
اسلام آباد، پاکستان – پاکستان میں حقوق کے ایک ممتاز گروپ نے ملک میں مذہبی آزادی کی حالت پر “کافی خطرے کی گھنٹی” کا اظہار کیا ہے۔ منگل کو جاری کردہ عقیدے کی خلاف ورزی: ​​مذہب کی آزادی یا عقیدے کی آزادی 2021-22 کے عنوان سے جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں، پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے کہا کہ ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے واقعات جولائی 2021 اور جون 2022 کے درمیان…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
harf-e-kun · 2 months
Text
خزاں کی رت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khizan ki rut mein gulab lahja bana ke rakhna kamal ye hai
Hawa ki zad pe diya jalana jala ke rakhna kamal ye hai
ذرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Zara si laghzish pe tod dete hain sab talluq zamane wale
So aise waison se bhi talluq bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ko dena ye mashwara ki wo dukh bichhadne ka bhool jaaye
Aur aise lamhe mein apne aansu chhupa ke rakhna kamal ye hai
خیال اپنا مزاج اپنا پسند اپنی کمال کیا ہے
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
Khayal apna mizaj apna pasand apni kamal kya hai
Jo yaar chahe wo haal apna bana ke rakhna kamal ye hai
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے
Kisi ki rah se Khuda ki Khatir utha ke kante hata ke patthar
Phir us ke aage nigah apni jhuka ke rakhna kamal ye hai
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا کمال یہ ہے
Wo jis ko dekhe to dukh ka lashkar bhi ladkhadaye shikast khaye
Labon pe apne wo muskurahat saja ke rakhna kamal ye hai
45 notes · View notes
amiasfitaccw · 6 months
Text
Tumblr media
خرچہ نہیں اٹھا سکتے تو ٹانگیں اٹھانے کا بھی کوئی حق نہیں
55 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
Muhammad Al-Maghout wrote on the grave of his wife Saniya Saleh:
"یہ دنیا کا آخری بچہ ہے"
"Here lies the last child in the world"
تیس سال اور وہ مجھے ایک زخمی سپاہی کی طرح اٹھا کر لے گئی اور میں اسے چند قدم بھی اس کی قبر تک نہ لے جا سکا۔
Thirty years and she carried me like a wounded soldier, and I could not carry her to her grave for a few steps
اس نے یہ بھی لکھا: اس کے بعد تمام عورتیں ستارے ہیں، گزرنے والی اور بجھنے والی ہیں اور وہ اکیلی آسمان ہے۔
He also wrote: All women after her are stars, passing and extinguishing, and she alone is the sky.
58 notes · View notes
my-urdu-soul · 8 months
Text
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
-احمد سلمان
18 notes · View notes
mazahbigay · 1 year
Text
شادی پر باجی کی ممے کو دیکھ کر بھائی گرم ہو کر مٹھ لگاتا اور بہن غیر مرد کے نیچے لیٹ کر ٹانگیں اٹھا کر پورا اندر لیتی۔ بھائی کو بھی پتہ ہوتا کہ بہن شادی سے پہلے ہی کئی مردوں کے أگے گھوڑی بنی ہے۔ باہر کے جوان مرد جب بہن سے محبت کرتے تو أگے پیچھے سے پوری کھول دیتے۔
Tumblr media
48 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 25 days
Text
قید زنداں میں اسیرانِ محبت جو ہوئے
مغلِ اعظم تیرا دربار اٹھا لائے ہیں
چھپ گئی یار کی تصویر کسی اور کے ساتھ
دل جلانے کو وہ اخبار اٹھا لائے ہیں
اب تو مشکل سے بچئے گا یہ تعلق جامؔی
بیچ دونوں کے وہ دیوار اٹھا لائے ہیں
5 notes · View notes
urduu · 8 months
Text
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار ملازم ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔
اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزنس منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،
اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے
Harvard University Business Review
اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،
اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.
یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔
آپ خود بھی یقیناً ایک ڈگری ہولڈر ہوں گے ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔
ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی
آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔
اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے م��لب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*
*مسلسل نالج*
آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں
*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔
نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔
آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ
دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری کا حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔
دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔
یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ
دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے
9 notes · View notes
hasnain-90 · 3 months
Text
‏پھول کب تک سبھی کانٹوں کو چھپا کر رکھیں؟
‏رنگ کب تک کسی چہرے کو سجا کر رکھیں؟
‏خواب کب تک ہمیں کاندھے پہ اٹھا کر رکھیں؟ 🥀
4 notes · View notes
sdkhsblog · 7 days
Text
باهر سے جا ملا میرے اندر کا انتشار
اپنے خلاف میں نے بھی پتھر اٹھا لیئے
2 notes · View notes
apnibaattv · 2 years
Text
اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
صدر مملکت عارف علوی نے سینیٹر اسحاق ڈار سے حلف لیا۔ اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما… سینیٹر اسحاق ڈار سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے ایک دن بعد بدھ کو وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں صدر مملکت عارف علوی نے اسحاق ڈار سے حلف لیا جس میں وزیر اعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور کابینہ کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ مفتاح اسماعیل کے استعفیٰ کے بعد ڈار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
purplebonkthingclod · 1 month
Text
Tumblr media
ھمارا پھر سے جھگڑا ہوا اور میں ہمیشہ کی طرح اپنا بچہ اٹھا کر اپنے میکے چلی ائی دو دن بعد مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر ہسپتال میں ہیں میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انہیں دیکھنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ میری بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے تمہیں ایموشنلی بلیک میل کرنے کیلئے وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رھے نہ میں ملنے گئی اور نہ ہی کال کی کچھ دنوں کی بعد مجھے طلاق کا سامان ملا مجھے طلاق نہیں چاہیے تھی مجھے اپنے شوہر سے محبت تھی میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میری انا اڑے ا رہی تھی مجھے لگا کہ طلاق معنہ کر کے میں نیچی ھو جاو گی میں نے انہیں کال کی کہ جب چاہیں طلاق لے لیں میں بھی اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتی کورٹ نے ہمارا کیس اسانی سے نمٹ گیا میرے شوہر نے میری ساری ڈیمانڈز بچے کی کسٹڈی اور خرچہ دینا قبول کر لیا ان کا کہنا تھا کہ وہ میری سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں آنھیں صرف طلاق چاہیے اس طرح میری طلاق ہو گئی میرے شوہر نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کر لی آنکے بچے بھی ہو گئے لیکن میرے بچے سے ملنے اکثر اتے ہیں اس کی ہر ضرورت کا خیال کرتے ہیں بچے کا خرچہ بھی مجھے پابندی سے ملتا ہےبلکہ میرا گزارا بھی انہیں پیسوں سے ہوتا ہے میں اپنے بچے کے ساتھ میکے میں رہتی ہوں میرے تمام بہن بھائیوں اپنی اپنی زندگی میں خوش میری وہ بہنیں ہے جو فون کر کے میرے شوہر کو باتیں سنایا کرتی تھی وہ اب مجھے غلط الزام ٹھہراتی ہیں مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی شادی بچا سکتی تھی اگر میں نے ہر بات میں دوسروں کو نہ انوالو کیا ہوتا کبھی کبھی ہمارے خیر خواہ ہی ہمیں ڈبوتے ہیں میں ابھی بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ میرے شوہر یا میری غلط ہی نہیں تھی لیکن ہمارے جھگڑے اتنے بڑے نہیں تھے جن کی وجہ سے طلاق لے جاتی یہ میری درخواست سارے کپل سے کہ جہاں تک ہو سکے اپنے معاملے خود نمٹائیں اپ کا خود سے بڑھ کر کوئی خیر خوا نہیں
3 notes · View notes
aiklahori · 10 months
Text
مجھے نہیں پتہ، یہ تحریر سچی ہے یا فسانہ؛ بس شرط ہے کہ آنکھیں نم نہ ہونے پائیں۔ آپ دوستوں کے ذوق کی نظر:
۔۔۔
میں ان دنوں جوہر شادی ہال کے اندر کو یوٹرن مارتی ہوئی سڑک کے اُس طرف اک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے ہیں۔
اس چوک کے دائیں طرف اک نکڑ تھی جس پر اک ریڑھی کھڑی ہوتی تھی، رمضان کے دن تھے، شام کو فروٹ خریدنے نکل کھڑا ہوتا تھا. مجھے وہ دور سے ہی اس ریڑھی پہ رکھے تروتازہ پھلوں کی طرف جیسے کسی ندیدہ قوت نے گریبان سے پکڑ کر کھینچا ہو. میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ہوا اس آخری اور نکڑ پہ ذرہ ہٹ کے لگی ریڑھی کو جا پہنچا. اک نگاہ پھلوں پہ ڈالی اور ماتھے پہ شکن نے آ لیا کہ یہ فروٹ والا چاچا کدھر ہے؟ ادھر اُدھر دیکھا کوئی نہیِں تھا. رمضان کی اس نقاہت و سستی کی کیفیت میں ہر کسی کو جلدی ہوتی ہے، اس شش و پنج میں اک گیارہ بارہ سال کا بچہ گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا؟ میں نے سر اوپر نیچے مارا، ہاں، وہ چہکا، تو لے لو، چاچا ریڑھی پہ نہیں آتا، یہ دیکھو بورڈ لکھا ہوا ہے. میں نے گھوم کے آگے آکر دیکھا، تو واقعی اک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پہ اک موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا:
''گھر میں کوئی نہیں، میری اسی سال کی ماں فالج زدہ ہے، مجھے ہر آدھے گھنٹے میں تین مرتبہ خوراک اور اتنے ہی مرتبہ اسے حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی نہیں ہے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول کر اس ریگزین گتے کے نیچے پیسے رکھ دیجیے، اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، میری طرف سے اٹھا لینا اجازت ہے. وللہ خیرالرازقین!"
بچہ جا چکا تھا، اور میں بھونچکا کھڑا ریڑھی اور اس نوٹ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پیسے نکالے، دو کلو سیب تولے، درجن کیلے الگ کیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس کی نقدی پڑی تھی، اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی اتاولے بچے کی طرح بھائی سے سارا ماجرا کہہ مارا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا، افطار کے بعد ہم نے کک لگائی اور بھائی کے ساتھ وہیں جا پہنچے. دیکھا اک باریش بندہ، آدھی داڑھی سفید ہے، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا ہے، کہ ہم اس کے سر پر تھے. اس نے سر اٹھا کر دیکھا، مسکرا کر بولا صاحب ''پھل ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے لگا مسکرانے اور اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ جیسے ابھی ہم کہیں گے، ہاں! اک کلو پیسے دے دو اور وہ جھٹ سے نکال کر پکڑا دے گا.
بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو. نام پوچھا تو کہنے لگا، خادم حسین نام ہے، اس نوٹ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. لگتا ہے آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں، پھر وہ ہنسا، پوچھا چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے، اور پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.
چائے آئی، کہنے لگا تین سال سے اماں بستر پہ ہے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو مفلوج بھی ہوگئی ہے، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں، بال بچہ بھی نہیں ہے، بیوی مر گئی ہے، کُل بچا کے اماں اور اماں کے پاس میں ہوں. میں نے اک دن اماں سے کہا، اماں تیری تیمار داری کا تو بڑا جی کرتا ہے. میں نے کان کی لو پکڑ کر قسم لی، پر ہاتھ جیب دسترس میں بھی کچھ نہ ہے کہ تری شایان ترے طعام اور رہن سہن کا بندوبست بھی کروں، ہے کہ نہیں؟ تو مجھے کمرے سے بھی ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی کہہ کیا کروں؟ اب کیا غیب سے اترے گا بھاجی روٹی؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو کچھ موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں؟ چل بتا، میں نے پاؤں دابتے ہوئے نرمی اور اس لجاجت سے کہا جیسے ایسا کہنے سے واقعی وہ ان پڑھ ضعیف کچھ جاودانی سی بکھیر دے گی. ہانپتی کانپتی ہوئی اٹھی، میں نے جھٹ سے تکیہ اونچا کر کے اس کی ٹیک لگوائی، اور وہ ریشے دار گردن سے چچرتی آواز میں دونوں ہاتھوں کا پیالا بنا کر، اس نے خدا جانے کائنات کے رب سے کیا بات کری، ہاتھ گرا کر کہنے لگی، تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا، میں نے کہا کیا بات کرتی ہے اماں؟ وہاں چھوڑ آؤں تو اچکا سو چوری کے دور دورے ہیں، کون لحاظ کرے گا؟ بنا مالک کے کون آئے گا؟ کہنے لگی تو فجر کو چھوڑ کر آیا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، تیرا روپیہ جو گیا تو اللہ سے پائی پائی میں خالدہ ثریا وصول دوں گی.
ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی، صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتا، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کوئی پڑھی لکھی بچی پرسوں پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھ گئی "اماں کے لیے". اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. "انکل اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا" کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل جو ہے نا، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، وہ بیچ باچ جاتا ہے، بھائی اک تو رازق، اوپر سے ریٹلر بھی، اللہ اللہ!
اس نے کان لو کی چٍٹی پکڑی، چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی، بھنیچ کے گلو گیر ہوئے. میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا. میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ''خادم'' کی ماں کو جا ملوں اور کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نیئں پڑی جیسے زبان لقوہ مار گئی ہو۔۔
---
ذریعہ : فیسبک
8 notes · View notes
amiasfitaccw · 14 days
Text
داماد کی خواہش
شازیہ میرے سامنے بیٹھی تھی. اور میں پریشانی کے عالم میں اسکی شکل تک رہی تھی. میری بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے. اور میں جانتی تھی کہ اسکا دل بہت چھوٹا سا ہے
زرا سی کوئی اونچ نیچ ہو اور اسکا دل ہول جاتا تھا.
اور آج وہ جس مصیبت سے دوچار ہوئی تھی. تو اس پر تو بڑے بڑے گھبرا جاتے ہیں. میری اکلوتی بیٹی تو میرے پاس بڑے ناز ونعم میں پلی تھی.
شازیہ کی شادی کو تین ہی مہینے ہوئے تھے. وسیم کا رشتہ شازیہ کیلیے آیا. اور میں نے جب وسیم کو دیکھا. تو وسیم مجھے پہلی ہی نظر میں بھاگیا. باقی دیکھ پرکھ میرے میاں اور دیوروں نے کرلی تھی. اور وہ بھی ہر طرح سے مطمئن تھے. اور یوں صرف تین ماہ کے عرصے میں ہی شازیہ کی شادی وسیم سے کردی گئی.
شادی کے دن شروع شروع کے تو بہت ہی پیار سے گزررہے تھے
بچی میکے آتی. تو اسکے چہرے پر جیسے قوس قزح بکھری ہوتی. خوشی اور مسرت اسکے انگ انگ سے پھوٹ پڑ رہی ہوتی تھی.
لیکن........ آہستہ آہستہ وسیم کے روئیے میں تبدیلی آتی گئی.
اور اسکا رویہ شازیہ سے سرد ہوتا گیا. پہلے پہل تو میں نے اسکو کوئی اہمیت نہ دی. لیکن اب معاملہ آگے بڑھ چکا تھا.
میں بیٹی کی آنکھ میں آنسو برداشت نہیں کرسکتی تھی.
سو میں نے وسیم سے بات کرنیکا فیصلہ کرلیا.
اور آج دوپہر کو میں نے وسیم کو گھر بلوایا تھا. کیونکہ بوقت دوپیر میرے میاں جوکہ بیمار رہتے ہیں. سورہے ہوتے ہیں. اور میرے دونوں بیٹے رضوان اور عمران اپنے اپنے آفسز میں ہوتے ہیں .
اور تقریبا تین بجے دروازے کی بیل بجی. میں وسیم کو ڈرائینگ روم میں لے آئی. اسکو بٹھایا اور اسکے لیے کچھ ناشتے کا سامان میز پر سجادیا. وسیم کیا بات ہے.؟ تمہارا رویہ شازیہ سے کچھ سرد ہے . کیا کوئی بات ہوئی ہے.؟ میں نے اسکے بلکل قریب ہوکر رازداری سے دریافت کیا. اور اسکے جواب میں وسیم نے جو کچھ کہا. مجھے سن کر یقین نہیں آرہا تھا. میں حیرت اور تعجب کے مارے ہونقوں کی طرح اس کی شکل تک رہی تھی. وسیم کہہ رہا تھا کہ بات یہ ہے میں نے یہ شادی صرف اور صرف آپکی وجہ سے کی ہے. کیونکہ مجھے تو آپ اچھی لگی تھیں. ظاہر ہے کہ میں تو وسیم سے شادی کر نہیں سکتی تھی. میرے میاں موجود تھے . اور میرے تو بچے جوان تھے. یعنی .......مجھ تک پہنچنے کیلیے میری بیٹی کو چارہ بنایا گیا تھا. میں آپکو پانا چاہتا ہوں عشرت بیگم. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وسیم کے مسکراتے ہوئے کہے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے. اور میں گم سم بیٹھی تھی. کہ جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہ نکلے. وسیم......یہ کیسے ممکن ہے.؟ میں تمہاری ساس ہوں. تمہاری بیوی کی ماں ہوں میں.......میں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا.
Tumblr media
جانتا ہوں آپ میری ساس ہیں. لیکن آپ ایک عورت بھی ہیں اور میری طلب ہر رشتے ناطے سے آزاد ہے. اور میں نے آپکو صاف الفاظ میں بتادیا ہے کہ میں نے یہ شادی ہی صرف آپکو حاصل کرنے کیلیے کی ہے.
وسیم نے میرا ہاتھ تھام کر کہا. اور اسکے ساتھ ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں بھرلیا. سرعت کے ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے پیوست کرلیے.
بری بات.......وسیم یہ کیا کررہے ہو......؟
میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے الگ کیے.
اگر آپ مجھے نہ ملیں. تو یاد رکھئے گا. کہ میرا اور شازیہ کا تعلق ایسا ہی نام کا رہیگا.....بس.....!
اور گویا اس نے دوٹوک الفاظ دھمکی دیدی.
وسیم.......بات کو سمجھنے کی کوشش کرو.......میری گھگھی بندھ گئی تھی. مجھے اندازہ ہورہا تھا. کہ اگر داماد کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو بیٹی کو طلاق بھی ہوسکتی ہے.
مجھ کو جو بتانا تھا میں نے آپکو بتادیا آگے آپکی مرضی.
اور اتنا کہکر وہ اٹھا. اور بےنیازی سے چلا گیا.
اور میں سوچوں کے سمندر میں گھری رہ گئی تھی. ایک طرف داماد کی خواہش تھی. اسمیں جتنی شدت میں دیکھ چکی تھی. اسکے بعد کچھ پوچھنا گچھنا بیکار ہی تھا. دوسری طرف بیٹی تھی. اگر وسیم کی خواہش پوری نہ ہوئی. تو اسکا گھر برباد ہونا یقینی تھا.
میں ایک خوبصورت اور جاذب نظر عورت تھی. شوہر بیمار رہتے تھے. اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنسی زندگی میں ایک مرد کی کمی شدت سے محسوس کرتی تھی. میرا بھی دل تھا. جو چاہتا تھا. کہ مجھے کوئی خوب شدت سے چودے.
اور میری قسمت .....کہ یہ مرد میرے سامنے آچکا تھا.
لیکن......کس روپ میں سامنے آیا تھا..........داماد کے........؟
میں شش و پنج میں تھی. بات ایسی تھی. کہ کسی سے مشورہ بھی نہیں کرسکتی تھی. کوئی سنتا تو کیا کہتا.....؟
لہذا....یہ فیصلہ مجھے ہی کرنا تھا. اور بالاآخر میں نے بیٹی کا گھر بچانے کا فیصلہ کرلیا.
وسیم......مجھے اپنی بچی کا گھر بچانے کیلیے تمہاری یہ شرط منظور ہے. ��یکن مجھے اس بات کی ضمانت دو . کہ تمہارا رویہ شازیہ کیساتھ پہلے جیسا ہی ہوجائے گا.........؟؟؟
جی بلکل....آپ اسکی فکر نہ کریں....جب وجہ ہی نہیں رہیگی سردمہری کی تو موڈ تو اپنے آپ ہی اپنے آپ صحیح ہونا ہی ہے نہ.....!
وہ اپنی فتح پر مسکرا رہا تھا.....اور میں گم سم تھی.
لیکن.......میری ایک شرط ہے وسیم......اس بار میں نے دل کڑا کر کہا.
جی کہیے.....اس کی آواز گونجی.
وسیم تمکو جو کرنا ہے کرلو....میں وہ سب کچھ کروائونگی جو تم چاہتے ہو.......لیکن صرف ایک بار......تمہاری خواہش پوری کرنے کی خاطر.....اپنی بیٹی کی خاطر......بس....دیکھو میں تمہاری بات رکھ رہی ہوں نہ.....اب تم بھی میری بات یہ بات مانو.........!
اور اتنا ہی کہ کر رسیور فون پر رکھ کر میں صوفے کی پشت پر سر ٹکا آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئ. آنسو میری آنکھوں میں ڈبڈبانے لگے.......!
Tumblr media
دو دن گزر چکے تھے...... مجھ کو وسیم سے حامی بھرے ہوئے.
اور میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ جو کام کرنا ہے..وہ تو کرنا ہی ہے......سو داماد سے دریافت کیا جائے. کہ وہ کب اپنی ساس کو نوش فرمانا پسند کرینگے,,,؟
وسیم کو فون لگا چکی تھی میں....تیسری بیل پر اس نے فون ریسیو کیا.
جی جناب.......کہئیے.....اس کی شوخ آواز ابھری.
وسیم میں چاہتی ہوں کہ جلد از جلد تمہاری خواہش پوری کردی جائے......میں چاہتی ہوں تم مجھکو بتادو . کب اور کہاں.....؟
میں نے صاف اور سپاٹ لب و لہجے میں کہا.
آپ دوپہر کو فارغ ہوتی ہیں نہ..... آپ یہ کریں گھر آجائیں میرے پاس....ٹھیک ہے...؟.....وہ خوش خوش بولے.
لیکن گھر میں شازیہ موجود ہوگی. اسکی موجودگی میں یہ سب کروگے میرے ساتھ.....میں نے جل کر کہا.
جی نہیں......بات یہ ہے. کہ شازیہ کل گیارہ بجے ہی پڑوس والوں کے ساتھ فارم ہاؤس جارہی ہیں. اور میں گھر پر بلکل اکیلا ہی ہونگا....!
اس نے پوری بات بتائی.
اوہ.......اچھا ٹھیک ہے. شازیہ کے نکلتے ہی مجھے کال کرکے بتادینا.....میں تمہارے پاس پہنچ جاؤنگی.
اور اتنا کہہ کر میں نے فون بند کردیا.
اور دوسرے دن دوپہر کے وقت میں تیار تھی. نہا کر کپڑے بدل کر میں ہلکا سا میک اپ کرکے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی. میں بلکل ٹھیک نظر آرہی تھی.ظاہر ہے کہ میں جو کام کرنے کیلیے جارہی تھی. وہ غلط تھا. مگر میں مجبور تھی. اگر اجاڑ ویران حالت میں جاتی تو شائد وسیم آپے سے باہر ہی نہ ہوجاتا.
اور آدھے گھنٹے بعد ہی میں وسیم کے سامنے تھی.
بیٹی پڑوس کے لوگوں کیساتھ پکنک پر جاچکی تھی. اور ساتھ ہی وسیم بھی نہا دھو کر تیار تھا. وہ مجھ کو اپنے ساتھ اپنے بیڈروم میں ہی لیکر آگیا. میں اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی تھی.
وسیم میرے لیے سوفٹ ڈرنک لے آیا. جو میں نے اس سے لیکر فورا ہی اپنے لبوں سے لگالیا اور گلاس خالی کردیا.
اب میں بہت بہتر محسوس کررہی تھی. میں نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھا. کہ وہ کیا چاہتے ہیں.؟
اور غالبا وہ میرا مطلب جان گیا تھا. یہی وجہ ہے کہ وہ میرے پاس ہی نیم دراز تھا. اور اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مجھے اپنے سے چپکالیا. اور اس کے لب میرے لبوں سے پیوست ہوگئے. اب وہ میری زبان کو اپنے لبوں سے چوس رہا تھا.
وسیم......تم کو میری بات یاد ہے نہ....میں نے ایک لمحے کیلیے اس کو روک کر کہا.
جی.....مجھے آپکی شرط اور اپنا وعدہ یاد ہے...انھوں نے فورا ہی جوابا کہا.....اور فورا ہی اس نے پھر میری زبان کو چوسنا لگا.
Tumblr media
اور اسی دوران اس کے ہاتھ میرے جسم پر حرکت میں آگئے.
انھوں نے میری قمیض اوہر کرنی شروع کی. میں نے بھی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے اپنی قمیض اتروانے میں اس کی مدد کی......اور دوسرے ہی لمحے میری قمیض اتر کر فرش پر گر چکی تھی.......اب اس کا ہاتھ میری شلوار پر تھا.
انھوں نے ایک ہی جھٹکے میں میرا ازاربند کھینچا. اور میری شلوار بھی کھولدی.
اور یوں اب میں صرف ایک Bra میں رہ گئی تھی.
کالے رنگ کا نیٹ کا Braجس میں سے میرے ممے صاف نظر آرہے تھے....... وسیم مجھے ننگا دیکھکر بہت ہی جذباتی ہورہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس نے فورا ہی اپنے کپڑے بھی اتار پھینکے. اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میرے بدن کو اپنے بازووں میں جکڑا. اور میرے ہونٹوں اور گالوں کو دیوانہ وار چوسنے اور چاٹنے لگا. اور مجھے ایسا لگنے لگا. کہ جیسے پیاسی زمین پر بارش کے قطرے ٹپ ٹپ کرکے گررہے ہوں.
اس کی زبان اور ہونٹ بہت ہی گرم ہورہے تھے. ہونٹوں سے سانس اگ کیطرح نکل رہی تھی. اور میں بستر پر بلکل چت لیٹی یہ سب کروارہی تھی.
اوووووہ.........اوووووف........اوووووووف.
میں اپنے جذبات پر بند باندھنے کی کوشش کررہی تھی.
یہ جتانا چاہ رہی تھی. کہ یہ سب میں مجبورا کررہی ہوں.
وسیم کے ہاتھ میرے بدن کو سہلارہا تھا. ہونٹ میرے ہونٹوں اور گالوں کو چوم رہا تھا. وہ مجھ سے لپٹے ہوئے تھے. اس طرح کہ جیسے وہ میرے اندر اتر چکے ہوں.
اور میری اپنی یہ کیفیت ہورہی تھی. کہ میرے اندر کی عورت اس پہلے ہی مرحلے پر مستی بھری انگڑائیاں لینے لگی تھی. دل پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ عشرت بیگم مزے کرلو. جو کام کرنا ہی کرنا ہے. تو پھر اس کو بھرپور مزے لیکر کیا جائے تو کیا حرج ہے.؟
میں گو مگوں کی کیفیت میں وسیم کے نیچے تھی.
اور اب وسیم نیچے ہوتے ہوتے میرے گلے کو چومنے لگا تھا.
اوووف......گلے کو چومنے اور چوسنے میں مزہ ہونٹوں کو چوسنے سے بھی زیادہ مل رہا تھا.
میں بے اختیار ہی سسک پڑی........ہااااااااااااہ............!
اور میں نے اپنے ہاتھ پھیلا لئے. اور مجھ کو محسوس ہونے لگا. کہ میں کسی بھی وقت یہ سب خوشی سے کرواسکتی ہوں.
وسیم چند ہی لمحوں میں گلے سے ہوتے ہوتے مزید نیچے آرہا تھا. اب وہ Bra اتار کر میرے مموں کو چوس رہا تھا. وہ کبھی ایک دودھ اپنے منھ میں لیکر اس کو چوستا اور دوسرے والے کو اپنی انگلیوں سے دباتا. تو کبھی دوسرے والے کو چوستا
اور پہلے والے کو دباتا.........!
اور ادھر میری حالت غیر ہورہی تھی......!
Tumblr media
جسم چوسے اور چاٹے جانے سے گرم ہوچکا تھا. دل کی دھڑکن تیز ہوچکی تھی. انگ انگ میں میں بجلیاں سی دوڑتی محسوس ہورہی تھیں. مجھ کو لگ رہا تھا. کہ وسیم کا لورا میری چوت میں گھسنے سے پہلے ہی میں اپنی شرم کو بالائے طاق رکھکر وسیم کو اپنے سے لپٹا کر اس کا برابر کا ساتھ دینے لگوں گی.
میں ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی. تین بچوں کی ماں تھی. لیکن میرے میاں نے مجھ کو بلکل واجبی انداز میں ہی چودا تھا. اور آج میں جس طرح چدوانے کے عمل سے گزر رہی تھی. اسطرح کا میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا......!
اور اب وہ میری چھاتیاں خوب چوس چوس کر میرے پیٹ پر گہرےگہرے بوسے لے رہا تھا. اور اس کے بوسے لینے سے مجھے اپنا پیٹ لرزتا ہوا محسوس ہورہا تھا.
میں "ہاں. اور. ناں " کی اضطرابی کیفیت میں الجھی ہوئی تھی.
اور جب وہ پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میری چؤت پر آیا اور میری ٹانگیں چیریں. اور اپنے ہونٹ چؤت پر گاڑ کر اس کو چوسنے لگا......وہ کبھی چؤت کو اوپر سے چوستا تو کبھی اس کے اندر زبان ڈال کر اسکا اندرونی حصہ چاٹنے لگتا.
اور مجھ کو اب احساس ہورہا تھا. کہ میرے ضبط کا بندھن اب ٹوٹا ........اور جب ٹوٹا..........کیونکہ مجھے اچانک ہی احساس ہوا کہ میری چؤت نے لذت اور جوش میں آن کر اپنے اندر سے پانی چھوڑنا شروع کردیا ہے. جو اس بات کی دلیل تھی. کہ یہ بھرپور چؤدائی چاہتی ہے. ہر رشتہ ناطہ کو بالائے طاق رکھکر...........!
وسیم میری ٹانگوں کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے میری چؤت پر جھکا ہوا اس کو اپنی زبان سے گرم دہکتا ہوا انگارہ بنارہا تھا. میرے بدن پر لرزہ طاری تھا.
اور پھر بالاآخر..........میں نے بھی اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ کر دوٹوک فیصلہ لیلیا.
میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے وسیم کے سر کو پکڑا. اور مزے کے مارے اس کے سر کو اپنی چؤت کے اور اندر کرنے کی کوشش کرنے لگی....اور ساتھ ہی میرے ہونٹوں سے پرکیف آہیں نکلنے لگیں. اور وہ بھی ایسی کہ کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا. اور میں نے وسیم سے اپنے رشتے ناطے کا لحاظ ایک طرف رکھ کر اپنا آپ اس کے حوالے کردیا.
وسیم......وسیم........اوووہ جانوں .....یہ کیا کررہے ہو تم...
میری جان میں تو ساس ہوں تمہاری.........یہ کیا کردیا تم نے مجھے.....میرا دم نکال دیا تم نے تو مزے کے مارے..........
اور دوسری طرف وسیم میری غیر متوقع رضامندی اور اپنی کامیابی پر پھولے نہیں سمارہا تھا.
وہ دوزانو ہوکر بیٹھا. میرے بھاری چوتڑوں کو اوپر اٹھایا. اور اپنی گرفت میں میری کمر کو لے کر زبان پھر سے میری چؤت میں گھسائی اور اس کو چاٹنے لگا.
میرا دھڑ بستر پر لگا ہوا تھا. اور ٹانگیں فضاء میں معلق اور ٹانگوں کے درمیان میں اس نے اپنا سر پھنسایا ہوا. اور دیوانہ وار میری چؤت کو چوس چوس کر پاگل کررہا تھا.
میں جو کچھ دیر پہلے یہ سوچ کر وسیم کے نیچے لیٹی تھی.
کہ اپنے تاثرات سے یہی ظاہر کرونگی. کہ میں مجبور ہوکر یہ سب کروارہی ہوں. اب مزے میں ڈوب چکی تھی. بند آنکھوں میں لطف کے رنگ اتررہے تھے. اور لبوں سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھیں . چہرے پر ماتمی تاثرات کی جگہ شرمیلی سی مسکراہٹ نے لے لی تھی. کہ اب داماد جی میری چوت میں اپنا تنا لؤڑا چڑھائیں گے تو کتنا مزہ آئیگا.
میں یہ سوچکر ہی شرمائے جارہی تھی.
Tumblr media
میری چوت کو چوس چوس کر بھرپور طریقے سے وسیم نے اسکو گرم بھی کیا. گیلا بھی کیا. وہ اس قابل ہوگئی تھی. کہ باآسانی لؤڑا اپنے اندر سمو سکے.
وسیم نے میری چؤت چسائی روکی . اور میرے چہرے کے پاس آن کر اپنا لؤڑا میرے سامنے کردیا.
وسیم چودو نہ آپ مجھے...میں نے شرمائے ہوئے لہجے میں کہا.
پہلے آپ کو میرا لؤڑا چوسنا ہوگا.....اس نے خمار آلود لہجے میں کہا.
وسیم.....نہیں نہ.......میں نے تمہارے سسر کا بھی کبھی نہیں چوسا.......میں نے انھیں دھیرے سے سمجھایا.
تو داماد کا چوس لیں.....کیا آپ کو میرے ساتھ مزہ نہیں آرہا.
اس کے لہجے میں پتہ نہیں کیا تھا. کہ میں انکار نہ کرسکی. میں نے اپنے لبوں کو کھول لیا.اور اس نے اپنا لؤڑا میرے منھ میں داخل کردیا.
میں زندگی میں پہلی بار لؤڑا چوس رہی تھی. لیکن پہلی ہی بار میں مجھے لؤڑا چوسنا بہت ہی اچھا لگ رہا تھا. میں بلکل لولی پوپ کی طرح اس کو چوس رہی تھی.
دھیرے دھیرے میرے ہونٹ اس کو اپنے منھ میں اوپر نیچے کررہے تھے. اس کو چوس کر مجھے یہ بھی معلوم ہوا. کہ پورے بدن میں سب سے زیادہ چکنی جلد لؤڑے کی ہی ہوتی ہے. .......میری پوری کوشش تھی کہ صرف میرے ہونٹ ہی لؤڑے کو چھوتے رہیں. میرے دانت ہرگز اس پر نہ لگیں. ایسا نہ ہو کہ دانتوں کی رگڑ لگنے سے اس کو خراش وغیرہ نہ آجائے.
وسیم بہت ہی خوش لگ رہا تھا . وہ میرے لؤڑا چوسنے سے آہیں بھررہا تھا. جو بہت ہی پرکیف اور لذت بھری تھیں. اس کی ان آہوں اور پیار بھری سسکیوں سے مجھے حوصلہ مل رہا تھا. ہاں یہ ضرور تھا کہ لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے مجھ کو اپنا منھ بلکل پورا کھولنا پڑ رہا تھا. لیکن اب میں بھی ڈٹ چکی تھی.
کیونکہ وسیم جب اپنا لؤڑا میرے منھ سے نکالنے لگے. تو میں نے انکو روک دیا.
اور پھر میں اسکو پورا ہی اپنے منھ میں سمونے کی کوشش کرنے لگی. میں نے زور لگا کر لؤڑے کو اندر اور اندر لیا. اور آہستہ آہستہ لؤڑا میرے حلق کے اندر تک آگیا.
میں وہیں رک گئی. اور اپنے منھ سے باہر کیطرف سانس خارج کرنے لگی. اور نتیجہ ہی ہوا. کہ اس عمل سے وسیم کے لؤڑے کو گرمائی ملنے لگی. وہ مزے کے مارے بہکنے لگا.
اووووووہ... ممی...ممی.....یہ کیا کررہیں ہیں آپ... ممی میں تو یہیں پر ہی خالی ہوجاؤنگا.
وہ مزے کے مارے بول پڑا تھا.
اس کی یہ بات سنکر میں نے اس کے لؤڑے کو چھوڑ دیا.
وسیم .....چلو چؤدو مجھے.....میں نے اس کو گرین سگنل دیدیا
اور وسیم میرے اوپر لیٹا. اپنا لؤڑا میری چؤت پر رکھا. اور ساتھ ہی زور کا دھکا مارا.
حالانکہ میری چؤت چوسنے کی وجہ سے بلکل گیلی تھی.
لؤڑا اس میں ایک دم پھسلتا ہوا گیا تھا. مگر دھکا تو پھر دھکا ہی تھا. وہ پھر بھی اسقدر تگڑا محسوس ہوا تھا مجھکو. کہ لؤڑا اندر لینے کے نتیجے میں میری چوت لرز کر رہ گئی.
میں زور کی آہ بھر کر رہ گئی.
Tumblr media
وسیم .......پلیز.....رسانی سے زرا....پلیز.....میں نے اس کو سمجھایا.
فکر نہ کریں...... چؤدائی مزے اور لذت کا نام ہے. آپ کو صرف مزہ ملے گا......اور اس کی بات سن کر میں بے فکر ہوگئی.
اب اس نے اپنا لؤڑا ہولے ہولے آگے پیچھے چلانا شروع کیا .
اور میں مزے میں ڈولنے لگی. لؤڑا اندر سے میری چؤت کو رگڑ رہا تھا. لگ رہا تھا جیسے چؤت اندر سے حرارت خارج کررہی ہے. دھواں چھوڑ رہی ہے. میرے چہرے پر مسکراہٹ آچکی تھی. جو اس بات کا کھلا اظہار تھی. کہ میں اپنے داماد کی ممنون و مشکور تھی.
میں داماد کے نیچے لیٹی چدوارہی تھی.وہ پورے پیار کیساتھ اپنا لؤڑا میری چؤت میں دھکم دھکا چلا رہا تھا.
میں اس کو اپنی بانہوں میں لیے ہوئے تھی.
وسیم.....ڈارلنگ کیا شازیہ کو بھی ایسے ہی چودتے ہو.
میں مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھی.
جی نہیں.....آپکو دیکھ کر یہ سب کرنے کا دل چاہتا ہے. مجھ کو آپکی بیٹی میں کوئ کشش محسوس نہیں ہوتی.
اس نے صاف الفاظ میں کہا.
اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے دھکے لگانے کی رفتار تیز کردی.
مجھ کو لگا کہ کوئی لوہے کا گرم گرم ڈنڈا میری چؤت میں اوپر نیچے کسی پسٹن پمپ کی طرح آنا جانا کررہا ہو.
میں نے مضبوطی سے وسیم کی کمر میں بانہیں ڈال دیں تھیں. لؤڑا میری چوت کی آخری حد تک جاکر ٹکرا ریا تھا. جس سے مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوتا. لیکن مجھے اسقدر لطف اور مزہ مل رہا تھا. کہ اس کے آگے اس درد کی کوئی اوقات نہیں تھی.
وسیم چؤد رہا تھا ....آہیں بھر رہا تھا مزے کے مارے.
میں چدوارہی تھی. اور مزے کے مارے سسک رہی تھی.
وسیم..... وسیم......اووووہ.....اووووووووہ.......
نڈھال کردیا تم نے تو مجھے......
میں مکمل طور پر اب اس کے قابو میں آچکی تھی.
مجھے معلوم تھا....آپ جیسی خوبصورت اور گرم عورت پہلی ہی چدائی میں میری ہوجائیگی.
وہ مجھے چؤدتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہا تھا.
تم نے چؤدا بھی تو اسطرح ہے. مجھے میرے میاں نے کبھی اس طرح نہیں چؤدا.
میں بھی پوری طرح مزے میں آچکی تھی.
اور میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ اچانک ہی مجھے اپنی چؤت میں شدید قسم کی مستی بھری گدگدی محسوس ہوئی. مجھ کو احساس ہوگیا کہ میں جانے والی ہوں. مارے جوش کے میرے منھ سے زور دار چیخ نکلی.
اووووووووووو.........اوووووووووووووو.......!
میرا پورا جسم اکڑ گیا . میں نے وسیم کو اپنی بانہوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا. میرا ہورا بدن بری طرح لرزا ....اور
ساتھ ہی میری چؤت نے اپنے اندر سے لیس دار پانی باہر نکال دیا.
اور فورا ہی میں بے دم ہوکر بستر پر ڈھیلی پڑگئ.
لیکن وسیم مجھے برابر کے دھکے مار رہا تھا.
میں اپنے خالی ہونے سے پہلے جس طرح اس کا جم کے ساتھ دے رہی تھی. اب مجھے اس کا چؤدنا بوجھ لگ رہا تھا.
لگ رہا تھا کہ میرے ہوش و حواس جواب دے جائینگے.
وسیم پلیز بس ......بس کرو......بس کرو .......میں منمنائی.
آپ فارغ ہوئیں ہیں میں تو نہیں ہوا نہ....وہ مسلسل مجھے چودے ہی جارہا تھا..
رحم کرو.......وسیم میرا دم نکل جائیگا.....اووووہ....
کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑدو...
اور ساتھ ہی میرا سانس ہانپنے لگا. اور میں بلکل ہی بے سدھ ہوگئی.
اور وسیم جو کسی طور نہیں مان رہا تھا. میری اس بات پر خوشی سے پاگل ہوگیا کہ کچھ دوسری دفعہ کیلیے بھی چھوڑ دو.
Tumblr media
اس نے اپنا لؤڑا میری چوت سے نکالا. اورمجھے سیدھا کرکے لٹایا. اور اپنا لوڑا میرے چہرے کے عین سامنے لاکر اس کی مٹھ مارنے لگا.
اور بمشکل....ڈیڑھ دو منٹ ہی اسے رگڑا تھا کہ اس کے لؤڑے نے زور کی گرم گرم دھار منی اگل دی. جو بلکل سیدھی میرے چہرے پر آئی. میں اس کو کچھ بھی نہ کہہ پائی. کیونکہ اس کو اس محبت بھرے کھیل کا انجام یادگار بھی تو کرنا تھا.
اس کے لؤڑے نے اپنی ساری آگ میرے چہرے پر اگل دی تھی. اور وہ بھی خالی ہوکر میرے ہونٹوں سے چوم رہا تھا. اور میں آنکھیں بند کرکے سکون سے لیٹی ہوئی تھی.مجھ کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں تھی. کہ میرا چہرہ اس کی منی سے چپک رہا ہے.
وسیم مجھ پر جھکا اس نے میرے لبوں پر ایک گہرا بوسہ لیا. اور مجھ سے بولا.
آپ میری ساس ہیں. میں نے آپکو چؤدا ہے. مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے. میں آپ کو چود کر بے انتہا خوش ہوں. اور اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور باتھ روم کی طرف نہانے چلدیا. جبکہ میں نے بستر پر ہی لیٹے رہنے کو ترجیح دی. شام 6 بجے تک وسیم مجھے میرے گھر وآپس لا چکا تھا. آج تیسرا دن تھا. میں گھر کے کام نمٹا کر تیار ہورہی تھی.
میں نے وسیم کو فون لگایا. جی.....اس کی شوخ چنچل آواز آئی. آجاؤ وسیم تمہاری دعوت ہے....میں خوشی سے بے حال ہورہی تھی . جی میں آرہا ہوں....وہ بھی خوشی سے بولا.
میری قربانی کے نتیجے میں بیٹی خوش ہے ......! داماد بھی بہت خوش ہیں. لیکن میں سب سے زیادہ خوش ہوں. کیونکہ میری ویران زندگی میں بھی بہار آگئی ہے ۔
ختم شد
Tumblr media
8 notes · View notes
0rdinarythoughts · 1 year
Text
Tumblr media
لوگوں کے ساتھ گھل مل جانا ایک بھاری بوجھ ہے جسے ہر کوئی اٹھا نہیں سکتا۔
Mingling with people is a heavy burden that not everyone can carry.
Tarkovsky
31 notes · View notes
my-urdu-soul · 5 months
Text
زخم رہیں ہرے بھرے، درد بھی کچھ سِوا رہے
آب و ہوائے شہرِ غم اتنی تو پُر فضا رہے
زخم کی کائنات کیا، اتنی کہ دل دُکھا رہے
غم کی بساط بس یہی، ایک ملال سا رہے
وہ جو ہمی کو بزم میں دیکھے تو دیکھتا رہے
اُس کے حضور حرفِ شوق یاد ہمیں بھی کیا رہے
سوچ رہا ہُوں، کب تلک ہجر کی آگ میں جلوں
دیکھ رہا ہُوں، تابکے ضبط کا حوصلہ رہے
کون تمام زندگی ایک ہی داستاں لکھے
کون تمام عمر یُوں راتوں کو جاگتا رہے
دیکھ، مری طرف بھی دیکھ، میں بھی ہُوں تیری بزم میں
سوچ ، مرے لیے بھی سوچ، کوئی تو رابطہ رہے
تیرے مزاج آشنا بزم سے اُٹھ گئے سبھی
مجھ کو تو مل گئی خبر تجھ کو بھی کچھ پتہ رہے
اپنے ہی آپ سے لڑوں کس سے شکایتیں کروں
کون ہے مجھ سے خوش یہاں، تُو بھی اگر خفا رہے
میرے الم ہیں بے شمار، میری شکایتیں ہزار
تو بھی نہیں مرا قرار، تجھ سے بھی کیوں گِلہ رہے
موسم ابر و باد میں دل کا گلاب کِھل اٹھا
رنگوں میں کھو گئی فضا، آج تو رتجگا رہے
-اطہر نفیس
9 notes · View notes