بھارت نے راوی میں پانی چھوڑ دیا، نچلے درجے کا سیلاب متوقع، ریسکیو ٹیموں کو الرٹ رہنے کی ہدایت
بھارت نے دریائے راوی میں پانی چھوڑ دیا، پی ڈی ایم اے نے ہائی الرٹ جاری کر دیا۔
ہنگامی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم صوبائی محکمے پی ڈی ایم اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت نے ایک لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی اجھ بیراج سے دریائے راوی میں چھوڑا ہے، ریکارڈ کے مطابق پچھلے سال بھی بھارت نے ایک لاکھ 73ہزار کیوسک چھوڑا تھاْ۔
ترجمان پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ چھوڑے گئے پانی کا تقریباً ایک تہائی یعنی 60ہزار کیوسک…
[Image description: A piece of digital art with the word ਪੰਜਾਬੀ (the word Punjabi written in Punjabi) in the center of a red circle. The circle is decorated wih cultural symbols. /End ID]
What is the language called in English and the language itself?
– The language is called Punjabi in English and the language itself. It the Shahmukhi and Gurmukhi scripts, it is written پن٘جابی and ਪੰਜਾਬੀ, respectively. Punjabi may also be spelled Panjabi.
– There are 3 main dialects of Punjabi: Majhi, Eastern, and Western. Majhi is considered the standard dialect.
Where is the language spoken?
– It is spoken in India and Pakistan, especially around the Punjab region.
How many people speak the language?
– Roughly 113 million people speak Punjabi.
Which language family does it belong to? What are some of its relative languages?
– It is classified as Indo-European > Indo-Iranian > Indo-Aryan > Northwestern Indo-Aryan > Eastern Punjabi > Punjabi. Its closest relative languages are Doabi, Majhi, Malwai, Puadhi, and Sansi.
What writing system does the language use?
– Punjabi uses the Shahmukhi and Gurmukhi scripts. Shahmukhi is a modified perso-arabic alphabet used in Pakistan, and Gurmukhi is an abugida used in India.
– Sample texts from wikipedia:
– ਲਹੌਰ ਪਾਕਿਸਤਾਨੀ ਪੰਜਾਬ ਦੀ ਰਾਜਧਾਨੀ ਹੈ। ਲੋਕ ਗਿਣਤੀ ਦੇ ਨਾਲ ਕਰਾਚੀ ਤੋਂ ਬਾਅਦ ਲਹੌਰ ਦੂਜਾ ਸਭ ਤੋਂ ਵੱਡਾ ਸ਼ਹਿਰ ਹੈ। ਲਹੌਰ ਪਾਕਿਸਤਾਨ ਦਾ ਸਿਆਸੀ, ਰਹਤਲੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਈ ਦਾ ਗੜ੍ਹ ਹੈ ਅਤੇ ਇਸੇ ਲਈ ਇਹਨੂੰ ਪਾਕਿਸਤਾਨ ਦਾ ਦਿਲ ਵੀ ਕਿਹਾ ਜਾਂਦਾ ਹੈ। ਲਹੌਰ ਰਾਵੀ ਦਰਿਆ ਦੇ ਕੰਢੇ 'ਤੇ ਵਸਦਾ ਹੈ। ਇਸਦੀ ਲੋਕ ਗਿਣਤੀ ਇੱਕ ਕਰੋੜ ਦੇ ਨੇੜੇ ਹੈ।
– لہور پاکستانی پن٘جاب دا دارالحکومت ہے۔ لوک گݨتی دے نال کراچی توں بعد لہور دوجا سبھ توں وڈا شہر ہے۔ لہور پاکستان دا سیاسی، رہتلی اتے پڑھائی دا گڑھ ہے اتے، اسے لئی ایہہ نوں پاکستان دا دل وی کہا جاندا اے۔ لہور راوی دریا دے کنڈھے تے وسدا اے۔ ایسدی لوک گݨتی اک کروڑ دے نیڑے اے۔
What kind of grammatical features does the language have?
– Punjabi is an SOV tonal language with 3 tones (high-falling, low-rising, and level), 2 numbers, 3 persons, 2 tenses (remote and nonremote**), 2 aspects (perfect and imperfect), 5 moods (indicative, presumptive, subjunctive, contrafactual, and imperative), 2 voices (active and passive), 2 genders, and 5 cases (direct, oblique, vocative, ablative, and locative). There are 2 types of nouns (extended and nonextended) and 3 types of adjectives (declinable and indeclinable). There are also many Persian and Arabic loanwords.
** This is a distinction between present and nonpresent, showing relation to how close something is happening to now. For example, one minute in the past and one minute in the future would both be nonremote (in theory).
What does the language sound like?
undefined
youtube
What do you personally find interesting about the language?
– Once again, the tenses. Also this language is just really pretty when written and spoken ^_^
صبح جمعه با گوشه ۲۸۴؛ برای تو که در آن گوشهٔ خاورمیانه، دیگر برگی برایت نمانده که بریزد
آهنگهای جمعهٔ ۲۸۴ام؛ دوبیتیهای باباطاهر عریان همدانی که در زمان زنده بودنش، نام و
نانی برای گفتن شعرش طلب نکرد.
باباطاهر، نصرالله پورجوادی
این دو بیتیها به او منسوب است و ممکن است کسی که به نام باباطاهر عریان میشناسیم، گویندهٔ این شعرها نباشد. در کتاب باباطاهر شرح احوال و نگاهی به آثار ابومحمّد طاهر جصّاص همدانی، در این باره تحقیق و توضیح داده شده است.
گویندهٔ این دوبیتیها هرکه باشد، راوی…
کمشنر لاہور زید بن مقصود کا نیو راوی برج۔ کنٹرولڈ ایکسس کوریڈور بند روڈ۔بابو صابو کا دورہ
کمشنر لاہورزید بن مقصود نے ٹریفک فلو۔صفائی ۔عارضی تجاوزات آپریشن ۔ٹریفک ریگولیشن پلان کا جائزہ لیا
کمشنر لاہور کو کنٹرول ایکسیس کوریڈور بند روڈ اور سب لینز پر رنگ روڈ پولیس و ٹریفک پولیس پٹرولنگ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی
کمشنر لاہور نے کنٹرولڈ ایکیسیس بندروڈ و کوریڈور سب لینز۔نیو راوی برج پر ٹریفک فلو کا جائزہ لیا
۔ایم سی ایل کنٹرولڈ ایکسیس کوریڈور بند روڈ کے اطراف میں کسی قسم کی تجاوزات کو صفر سطح پر لائے۔کمشنر لاہور
کوریڈور کے اطراف سب لینز میں ٹریفک سائنیج لگا کر ٹریفک کو منظم کنٹرول کیا جائے۔کمشنر لاہور زید بن مقصود
چیئرمین پنجاب رنگ روڈ اتھارٹی سہیل شہزاد۔ڈی جی ایل ڈی اے طاہر فاروق۔ڈی سی لاہور سید موسی رضا۔سی ٹی او لاہور عمارہ اطہر۔ایم ڈی واسا غفران احمد و دیگر افسران بھی ہمراہ تھے
📗 رسول الله ﷺ کی سیرتِ طیبہ صرف عالمِ اِسلام کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اِنسانیت کے لیے عظیم نمونۂ حیات ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرتِ طیبہ کا حقیقی خاکہ اِس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔
📗 رسول الله ﷺ خُلقِ عظيم كے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حسنِ خُلق کی تمام صفات آپ ﷺ کی جبلّت اور طبیعت میں پیدائشی طور پر ودیعت فرما دی تھیں۔
📗 رسول الله ﷺ كى صفتِ رحمت سارى كائنات پر محیط اور غیر محدود طور پر وسیع ہے، جس سے مخلوق كا ہر طبقہ فیض یاب ہوتا رہا ہے اور قيامت تك ہوتا رہے گا؛ بلكہ اختتامِ قيامت تك تمام اُمتیں بھى اِس چشمۂ رحمت سے اپنی تشنگی مٹاتی رہیں گی۔
📗 رسول الله ﷺ کے چہرۂ اَقدس پر ہمیشہ کُشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اس لیے آپ ﷺ سے معاملہ کرنا نہایت آسان ہوتا تھا۔ آپ ﷺ طبعاً نرم جُو تھے۔ (گویا آپ ﷺ کی طبیعتِ مقدسہ اور عادتِ مبارکہ میں ہمیشہ نرمی اور لچک ہوتی تھی۔)
📗 رسول الله ﷺ نہ سخت مزاج تھے، اور نہ ہی سخت دل تھے۔ آپ ﷺ نہ تو سختی کے ساتھ اپنی آواز بلند فرماتے، اور نہ ہی کبھی (کسی سے) سخت کلامی فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نہ تو عیب جُو تھے، اور نہ ہی بخیل تھے (یعنی طبیعت میں سخاوت، فراخی اور پردہ پوشی تھی)۔
📗 رسول اللہ ﷺ بہت زیادہ حیا دار تھے۔ آپ ﷺ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا جاتا تو آپ ﷺ وہ عطا فرما دیتے۔ آپ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔
📗 رسول الله ﷺ بچوں، عورتوں اور کمزور و نادار اَفراد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
📗 رسول الله ﷺ کبھی اگلے دن کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی سامانِ خور و نوش ذخیرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو اپنے سامنے سے تناول فرماتے۔ آپ ﷺ کا ہاتھ برتن میں اِدھر اُدھر نہیں جاتا تھا (یعنی آپ ﷺ صرف اپنے سامنے سے تناول فرماتے تھے)۔
📗 رسول اللہ ﷺ تحفہ قبول فرما لیتے اور اس کا بدلہ بھی عطا کر دیتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں کی عیادت اور اُن کی صحت یابی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نرم برتاؤ کو پسند فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی خوب ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس شخص کی طبیعت کو نرمی میں سے حصۂ وافر دیا گیا اُسے بھلائی کا بڑا حصہ دیا گیا اور جسے نرمی کے حصہ سے محروم رکھا گیا اُسے بھلائی کے حصہ سے محروم رکھا گیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اے ابن آدم! اپنے رب سے ڈرو، اپنے والدین سے حسنِ سلوک کرو اور صلہ رحمی کرو، تمہاری عمر دراز ہوگی، تمہیں آسانیاں نصیب ہوں گی، تم تنگی و پریشانی سے محفوظ رہو گے اور تمہارے رزق میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیٹیوں پر بہت زیادہ رحم فرمانے والے تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، وہ اُن سے اچھا سلوک کرے اور اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اُس کے لیے جنت ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ یتیموں کے والی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کی پرورش کرنے والا، اگرچہ وہ اُس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ راوی (مالک) نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی ملا کر اشارہ کیا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کو وہ گھر سب سے زیادہ محبوب ہے جس میں یتیم باعزت (زندگی گزار رہا) ہو۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ بیواؤں اور مساکین پر رحم فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لیے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ قیدیوں پر بھی رحمت و شفقت فرمانے والے تھے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراؤ۔
📗 رسول اللہ ﷺ مریضوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک مسلسل جنت کے باغ میں رہتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بھائی کے لیے اُس کی عدم موجودگی میں دعا کرتا ہے تو ایک فرشتہ (اُس کے لیے دعا کرتا اور) کہتا ہے: تیرے لیے بھی اِس کی مثل ہو (یعنی جس چیز کی دعا تو نے اپنے بھائی کے لیے کی ہے وہ تجھے بھی نصیب ہو)۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے، بھٹکے ہوئے کو راستہ بتانا صدقہ ہے، کسی اندھے کو راستہ دکھانا بھی صدقہ ہے، راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی (وغیرہ) ہٹانا بھی صدقہ ہے، اپنے برتن سے دوسرے بھائی کے برتن میں پانی ڈالنا بھی صدقہ ہے۔
📗 حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دنیا میں کسی کے عیب کا پردہ رکھے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس کے عیب کا پردہ رکھے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے اعلیٰ فضیلت یہ ہے کہ تم اس شخص سے رشتہ جوڑو جو تم سے تعلق توڑتا ہے، اُسے عطا کرو جو تجھے (ضرورت کے وقت) انکار کرتا ہے اور اُس سے درگزر کرو جو تجھے گالی دیتا ہے۔
📗 حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بلحاظِ صورت و خِلقت انسانوں میں سب سے زیادہ حسین تھے۔
📗 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول الله ﷺ کا چہرۂ انور سب سے حسین و جمیل تھا اور رنگت و نگہت سب سے زیادہ (براق اور) روشن تھی۔ جس نے بھی آپ ﷺ کا وصف بیان کیا ہے اورجو ہم تک پہنچا ہے ہر ایک نے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو چودھویں کے چاند سے تشبیہ دی ہے۔ اُن میں سے کوئی کہنے والا یہ کہتا ہے: شاید ہم نے چودھویں رات کا چاند دیکھا۔ کوئی کہتا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ ہماری نظروں میں چودھویں رات کے چاند سے بھی بڑھ کر حسین تھے۔ آپ ﷺ کی رنگت و نزہت بہت روشن، اور چہرہ نہایت دل کش اور نورانی تھا۔ یہ روئے انور (زمین پر) یوں جگمگاتا تھا جیسے چودھویں رات کا چاند (آسمان پر) چمکتا ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کی رحمت و رافت اور شفقت و عنایت کا اعجاز تھا کہ ہر کہ و مہ کو محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ اسی سے مخاطب ہیں۔ ہر شخص اپنی سماعتوں کے دامن اور قلب و نظر کے سفینے میں حکمت و بصیرت، ذکاوت و ذہانت اور دین و دانش کے انمول اور نادر و نایاب موتیوں کو سمیٹتا چلا جاتا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مجھے کلمات کے آغاز اور اِختتام کا حسن و کمال اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو کسی کو خوشی و مسرت بہم پہنچانے کا موجب ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو (اُس کے) بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جس نے (اِس دنیا میں) کسی مومن کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اُس سے قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل رفع فرما دے گا۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اَعلیٰ مقام تلاش کرو: جو تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے، تم اس سے بردباری سے پیش آؤ اور جو تمہیں محروم رکھے تم اُسے عطا کرو۔
📗 رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہ شخص محبوب ہے جو اس کے کنبہ کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔
📗 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں جو درجے میں نماز، روزہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل ہے؟ لوگ عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) کیوں نہیں! (ضرور بتائیے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے درمیان صلح کرانا، (کیونکہ) باہمی تعلقات کا بگاڑ اَمن و سلامتی کو تباہ کرنے (اور ظلم و زیادتی کو فروغ دینے) والا عمل ہے (اور قطع رحمی کا باعث بنتا ہے)۔
سجدہ کوجاتےوقت کی کیفیت کیاہونی چاہیے؟
سوال ۲۴۷: سجدہ کو جاتے وقت کیا کیفیت ہونی چاہیے؟
جواب :سجدہ پہلے گھٹنوں پر اور پھر دونوں ہاتھوں پر ہونا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کو پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر سجدہ کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے:
((اِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ، وَلْیَضَعْ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، ح: ۸۴۰ وسنن النسائی، الصلاۃ، باب اول ما یصل الی الارض من الانسان فی سجودہ، ح: ۱۰۹۲ ومسند احمد: ۲/ ۳۸۱۔)
’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو وہ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں سے پہلے رکھے۔‘‘
یہ حدیث کے الفاظ ہیں، اب ہم ان کی وضاحت کریں گے۔ ان میں سے پہلے جملے: (اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے) میں
سجدہ کی کیفیت کی ممانعت ہے کیونکہ یہاں کاف حرف تشبیہ استعمال ہوا ہے، لہٰذا یہاں اس عضو کی ممانعت نہیں ہے جس پر سجدہ کرنا ہے کیونکہ اگر عضو کی ممانعت ہوتی تو پھر الفاظ یہ ہوتے ’’فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ‘‘ تو تب ہم کہتے کہ سجدہ کو جاتے وقت اپنے دونوں گھٹنوں پر نہ بیٹھو کیونکہ اونٹ اپنے دونوں گھٹنوں پر بیٹھتا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’لَا یَبْرُکْ عَلٰی مَا یَبْرُکُ عَلَیْہِ‘‘ بلکہ آپ نے یہ فرمایا ہے: ’’لَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ‘‘ یعنی ممانعت کیفیت وصفت کی ہے، اس عضو کی نہیں ہے جس پر سجدہ کیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں پورے وثوق سے لکھا ہے کہ حدیث کے آخری الفاظ راوی سے تبدیل ہوگئے ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’وَلْیَضَعْ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ‘‘ جب کہ یہ الفاظ صحیح اس طرح ہیں: ’’وَلْیَضَعْ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ‘‘ اس لیے کہ اگر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھ دے تو وہ اونٹ ہی کی طرح بیٹھا کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو اپنے دونوں ہاتھوں (اگلے پاؤں) کو زمین پر پہلے رکھتا ہے۔ جس نے اونٹ کو بیٹھتے دیکھا ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہے۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ حدیث کے ابتدائی اور آخری الفاظ میں مطابقت ہو تو پھر الفاظ اس طرح ہونے چاہئیں: ’’وَلْیَضَعْ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ‘‘ کیونکہ اگر اس نے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھ دیا تو وہ اونٹ ہی کی طرح بیٹھا اور اس طرح حدیث کے ابتدائی اور آخری حصے میں آپس میں تناقض بھی ہوا۔ ایک بھائی نے اس مسئلہ کے بارے میں ’’فتح المعبود فی وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود‘‘ کے نام سے ایک اچھا اور مفید رسالہ بھی لکھا ہے۔ گویا سنت یہ ہے، جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کو جاتے وقت حکم دیا ہے کہ انسان اپنے دونوں گھٹنوں کو زمین پر دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھے۔[1]
فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۲۷۸، ۲۷۹ )
#FAI00190
ID: FAI00190 #Salafi #Fatwa #Urdu
8 سے 10 جولائی دریائے جہلم، ستلج، راوی اور چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ
پی ڈی ایم نے پنجاب میں ممکنہ سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا۔ 8سے 10 جولائی دریائے جہلم، ستلج ،راوی اور چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کا خدشہ ہے۔
ترجمان پی ڈی ایم اے پنجاب کے مطابق بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑے جانے کا امکان ہے۔ تمام ڈپٹی کمشنرز اور متعلقہ محکموں کو آگاہ کر دیا گیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے پانی چھوڑے جانے سے سیلاب کے خطرات بڑھنے کا خدشہ ہے۔
پی ڈی ایم اے نے…
(اے شاہ حسین اٹھ کے دیکھ لے، ہم نے اپنے طور طریقے بدل لیے، تبھی تو ہماری جان بےسکون ہے اور ہم پردیس (دنیا) میں دھکے کھا رہے ہیں)
ساڈا ہر دم جی کُرلاوندا، ساڈی نِیر وگاوے اَکّھ-
اساں جیوندی جانے مرگئے، ساڈا مادھو ہویا وَکھ
(ہم ہروقت روتے رہتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری، ایسا لگتا ہے کہ مادھو (محبوب) کے بچھڑ جانے سے ہم جیتے جی مر گئے ہیں)
سانوں سپّ سمے دا ڈنّگدا، سانوں پَل پَل چَڑھدا زہر
ساڈے اندر بیلے خوف دے، ساڈے جنگݪ بݨ گئے شہر
(وقت کے زہریلے سانپ نے ہمیں ڈس لیا ہے تو زہر لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے اندر خوف نے ڈیرے ڈال لیے ہیں ہمارے شہر جنگل بن گئے ہیں)
اساں شوہ غماں وِچ ڈُبدے، ساڈی رُڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈے بولݨ تے پابندیاں، ساڈے سِر لٹکے تلوار
(ہم ایسے غموں میں ڈوبے کہ ہماری کشتی بھی پانی کے ساتھ بہہ گئی، ایسا دور آگیا ہے کہ سچ بولنے بلکہ کچھ بھی بولنے پر پابندی ہے اور کہیں سے حکم کی اک تلوار ہر وقت ہمارے سروں پر لٹکتی رہتی ہے)
اساں نیناں دے کھوہ گیڑ کے کِیتی وتّر دل دی بھوں
ایہ بنجر رہ نماننڑی، سانوں سجّݨ تیری سَونھ
(ہم نے آنکھوں کے کنویں چلا کر دل کی زمین کو وتر یعنی نم کیا (مطلب رو رو کر ہمارا دل نرم ہوگیا) لیکن اے میرے محبوب تیری قسم! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود راہیں ویران اور بنجر ہی رہیں)
اساں اُتوں شانت جاپدے، ساڈے اندر لگی جنگ
سانوں چُپ چپیتا ویکھ کے، پئے آکھݨ لوک ملنگ
(ایسا لگتا ہے ہم باہر سے پرسکون ہیں لیکن ہمارے اندر جنگ لگی ہوئی ہے (موجودہ ملکی حالات کی عکاسی)، ہمیں خاموش دیکھ کے لوگ ہمیں ملنگ (بیوقوف) کہتے ہیں (لیکن وقت سب کچھ بتائے گا ان شاءاللہ)
اساں کُھبھے غم دے کھوبڑے، ساڈے لمے ہو گئے کیس
پا تاݨے باݨے سوچدے، اساں بُݨدے رہندے کھیس
(ہم غموں میں ایسے کھو گئے کہ ہمارے بال (زلفیں) لمبے ہوگئے، ہم تانے بانے بنتے رہتے ہیں کہ کھیس چادریں بنانے سے شاید کوئی بہتری ہو جائے)
ہُݨ چھیتی دوڑیں بُلھیا، ساڈی سوݪی ٹنگی جان
تینوں واسطہ شاہ عنایت دا، نہ توڑیں ساڈا ماݨ
(اے بابا بلھے شاہ جلدی آجائیے ہماری جان سولی پر لٹکی ہے، آپ کو شاہ حسین کا واسطہ ہمارا مان اور بھروسا نہ توڑنا)
اساں پیریں پا لئے کُعھنگرو، ساڈی پاوے جِند دھمال
ساڈی جان لباں تے اپّڑی، ہُݨ چھیتی مُکھ وِکھاݪ
(ہم نے پیروں میں گھنگھرو باندھ لیے ہیں اور ہم دھمالیں اور لڈیاں ڈال رہے ہیں، ہماری جان، جان بلب ہے، جلدی جلدی اپنا منہ دکھا دیجیے)
ساڈے سر تے سورج ہاڑھ دا، ساڈے اندر سِیت سیال
بَݨ چھاں ہُݨ چیتر رُکھ دی، ساڈے اندر بھانبڑ باݪ
(ہمارے سر پر گرم سورج ہے لیکن ہمارا اندر ٹھنڈا ٹھار ہے، چیت یعنی بہار کی چھاؤں بن کے ہمارے ٹھنڈے جسم گرم کر دیجیے)
اساں مچ مچایا عشق دا، ساڈا لُوسیا اِک اِک لُوں
اساں خُود نوں بُھلّے سانوݪا، اساں ہر دم جپیا توں
(ہمارے اندر اتنا عشق (محبت) ہے کہ ہمارا لوم لوم جل رہا ہے، اور ہم نے آپ کا اتنا نام پکارا ہے کہ خود کو بھول گئے ہیں)
سانوں چِنتا چِخا چڑھاوݨ دی، ساڈے تِڑکݨ لَگے ہَڈّ
پَھڑ لیکھاں برچھی دُکھ دی ساڈے سینے دتی گَڈ
(غموں نے ہمیں بہت دکھ دیئے ہیں اور ہماری ہڈیاں بولنے لگ گئی ہیں، قسمت نے دکھوں کی درانتی ہمارے سینے میں گاڑھ دی ہے)
اساں دُھر تُوں دُکھڑے چاکدے ساڈے لیکھیں لکھیا سوگ
ساڈی واٹ لمیری دُکھ دی، ساڈے عُمروں لمے روگ
(ہم ہمیشہ سے دکھ ہی دیکھتے آ رہے ہیں اور ہمارے مقدر میں سوگ اور غم لکھا گیا ہے، ہماری دکھ بھری زندگی کے روگ بہت لمبے ہیں)
ساڈے ویہڑے پھوہڑی دُکھ دی، ساڈا رو رو چویا نور
ایہ اوکڑ ساڈی ٹاݪ دے، تیرا جیوے شہر قصور
(ہمارے اندر اتنا دکھ ہے کہ رو رو کر آنکھوں کا نور ختم ہوگیا ہے، ہماری یہ مشکلات اللہ کرے ختم ہو جائیں اور آپ کا شہر قصور ہنستا بستا رہے)
آ ویکھ سُخن دیا وارثا، تیرے جنڈیالے دی خیر
اَج پُتر بولی ماں دے پئے ماں ناݪ رکھݨ وَیر
(اے دانش و سخن کی باتیں کرنے والے بابا وارث شاہ آپ کے جنڈیالہ شہر کی خیر ہو، آ کے دیکھ لے کہ ماں بولی (پنجابی) کے بیٹے ہی اپنی ماں کے دشمن ہیں)
اَج ہیر تیری پئی سہکدی، اَج کَیدو چڑھیا رنگ
اَج تخت ہزارے ڈھے گئے، اَج اُجڑیا تیرا جَھنگ
(اس دور میں آپ کی ہیر (عورت ذات) سسکیاں بھر رہی ہے اور کیدو (برے لوگوں) پر رنگ چڑھا ہوا ہے، اب تو کئی تخت ہزارے (جھنگ جیسے ہمارے شہر) بھی برباد ہو رہے ہیں)
اَج بیلے ہو گئے سُنجڑے، اَج سُکیا ویکھ چنھا
اَج پِھرن آزُردہ رانجھڑے، اَج کھیڑے کر دے چاء
(اب بیلے اور ڈیرے ویران ہیں اور راوی و چناب سوکھے پڑے ہیں، اب رانجھے (دوسروں کا خیال رکھنے والے لوگ) غمزدہ پھرتے ہیں اور کھیڑے (برے لوگ) خوشیاں منا رہے ہیں)
اَج ٹُٹی ونجݪی پریت دی، اَج مُکے سُکھ دے گِیت
بَݨ جوگی دَر دَر ٹوݪھیا، سانوں کوئی نہ مِݪیا مِیت
(اب تو پیار کی بانسری بجانے والا بھی کوئی نہیں، سب بانسریاں اور سکون بھرے گیت ختم ہوگئے، ہم نے جگہ جگہ اچھا ساتھی ڈھونڈنے کی کوشش لیکن ہمیں ہمارا محبوب نہ ملا)