Tumgik
#شعرو شاعری
Text
مولانا الطاف حسین حالی
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑہائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
2 notes · View notes
mubashirnews · 2 years
Text
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد گرامی سید ثاقب حسین خود بھی بہت کمال کے شاعر تھے اور ’’شاکر‘‘ تخلص کرتے تھے اسی نسبت پروین شاکر بھی اپنے نام کیساتھ ’’شاکر‘‘ تخلص کرتیں۔ انھیں شعرو شاعری کا شوق وذوق بچپن سے ہی تھا۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نسوانی جذبات کی بہترین عکاسی کی ہے۔ جس میں انھوں نے نہ صرف اپنے جذبات کو پیش کیا بلکہ دوسروں کے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 3 years
Text
الطاف حسین حالی وفات 31 دسمبر
الطاف حسین حالی وفات 31 دسمبر
خواجہ الطاف حسین حاؔلی ، ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کے نامورشاعراورنقاد گذرے ہیں۔ حالی 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزؔو بخش تھا – ابھی 9 سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا، اور کچھ عرصہ بعد ہی اُن کی والدہ کا دماغ ماؤف ہو گیا تو حالی کے بڑے بھائی امدؔاد حسین نے پرورش کی۔ اسلامی دستور کے مطابق پہلے قرآن مجید حفظ کیا۔ بعد ازاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ 17 برس کی عمر میں ان کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bazmeurdu · 4 years
Text
پروفیسرعنایت علی خان : مزاحیہ شاعری ان کی پہچان تھی
عنایت علی خان نے قیامِ پاکستان سے پہلے بھارتی ریاست ٹونک میں 1935 میں پیدا ہوئے تھے۔ پروفیسر عنایت علی خان کے اہلخانہ نے 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار اور اپنی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ مرحوم نے حیدر آباد میں ہی درس و تدریس، شعرو سخن اور سیاست میں حصہ لیا۔ انہوں نے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے لیے کئی کتب تحریر کیں۔ طنز و مزاح کے علاوہ عنایت علی خان نے سنجیدہ شاعری میں منفرد اسلوب اپنایا تھا۔ علاوہ ازیں تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتب پر انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ سن 1962 میں انہوں نے ماسٹرز میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ پروفیسر عنایت علی خان کا قلمی نام “عنایت” تھا۔ ان کی شعری و علمی مجموعات کے نام ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا، نہایات، نصابِ کتابِ اردو، نصابِ کتبِ اسلامیات، کچھ اور ہیں۔
پروفیسر عنایت علی خان کا مشہور شعر یہ ہے 
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پروفیسر عنایت علی خان نے بچوں کے لیے بھی شاعری کی۔ کاٹ دار الفاظ پر مشتمل مزاحیہ شاعری ان کی پہچان تھی۔
5 notes · View notes
urduclassic · 6 years
Text
اردو تنقید کا پس منظر
اردو تنقید کا آغاز الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ سے ہوتا ہے۔ دراصل ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ دیوانِ حالی کا مقدمہ ہے جو انہوں نے اپنی شاعری کے جواز کے لیے قلم بند کیا تھا۔ لیکن یہ نئی شاعری کا جواز بن گیا۔ حالی کے تنقیدی خیالات ان کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں اورمقالاتِ حالی میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن ’’مقدمۂ شاعرو شاعری‘‘ میں انہوں نے مرتب ��ریقے سے اپنے تصورات نقد کا اظہار کیا ہے۔ اس تصنیف کے دو بڑے حصے ہیں: 
۱۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے نظریہ قائم کیا ہے۔ ۲۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف پر اپنے قائم کردہ نظریے کا اطلاق کیا ہے۔ حالی نے جن امور پر خصوصی طور پر اصرار کیا، وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ شاعری کا مقصد کیا ہے۔ ۲۔ اس کا معاشرتی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ ۳۔ معاشرتی زندگی اور اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۴۔ معاشرے کے اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۵۔ شاعری کی شرائط کیا ہیں۔ ۶۔ شاعری میں کمال کیسے حاصل کیا جائے۔ ۷۔ شاعری کی اصلاح کیوں ضروری ہے۔ ۸۔ تقلید کی وجہ سے شاعری کا دائرہ تنگ کیوں ہو جاتا ہے؟ 
حالی کے نزدیک شاعری محض مرصع کاری نہیں ہے بلکہ اس کی بہت بڑی خوبی اس کی افادیت میں چھپی ہوئی ہے۔ قوموں کی زندگی کو بدلنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ بامقصد شاعری سوسائٹی کے اخلاق کو سدھارتی اور اجتماعی زندگی کو ایک لائحہ عمل مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے حالی شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے تخیل، مطالعۂ کائنات اور الفاظ کی اہمیت جتلائی اور یہ بتایا کہ شاعری کے لیے اصلیت یعنی حقیقت پسندی، سادگی یعنی سلاستِ اسلوب و سلاست خیال اور جوش یعنی اثر آفرینی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ حالی کے علاوہ محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب میں جو لیکچر دیے تھے ان میں بھی گہری ناقدانہ بصیرت ملتی ہے جیسے فرسودہ خیالات اور تقلیدی خیالات کے برخلاف نئے خیالات کی طرف انہوں نے توجہ دلائی۔ 
انہوں نے شاعری کے منصب کی طرف بھی واضح اشارے کیے اور شاعری کی ماہیت کو بھی موضوع بحث بنایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شاعری کب عروج حاصل کرتی ہے اور کن وجوہ سے اسے زوال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالی کی طرح آزاد بھی شاعری کی اثر آفرینی کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری اگر نیچرل ہے تو اس میں شائستگی، پاکیزگی اور تاثیر بھی ہو گی۔ آزاد نے لسانیاتی بحثیں بھی کی ہیں۔ انہوں نے زبان کی ابتدا کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار یوں کیا: ’’زبان وہ اظہارِ خیال کا وسیلہ ہے کہ ان متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلۂ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں۔ یہ بیان یا عبارت ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے۔‘‘
آزاد نے حروف، اصوات، الفاظ اور ان کے اثر پر بھی اظہار خیال کیا اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زبانیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور ان اثرات کی بنا پر قوموں میں کس کس قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک اصلی زبان عوام کی زبان ہوتی ہے، خواص کی نہیں۔ آزاد کو ہم حالی کی طرح باقاعدہ نقاد نہیں کہہ سکتے۔ وہ تذکرہ نگار اور مؤرخ تھے لیکن بکھری ہوئی شکل میں اور ’’آبِ حیات‘‘ میں جگہ جگہ ان کے خیالات میں جو تازگی ملتی ہے اس سے ان کی تنقیدی جودت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ حالی کے علاوہ شبلی کے تنقید تصورات بھی اردو تنقید کی تاریخ میں ایک اہم درجہ رکھتے ہیں۔ شبلی ایک مفکر اسلام، ایک مؤرخ، ایک سوانح نگار، ایک شاعر اور ایک نقاد کی حیثیت سے بھی اہم درجہ رکھتے ہیں۔
عتیق اللہ
3 notes · View notes
maqsoodyamani · 4 years
Text
عالمی یوم ِ خواتین پر خصوصی : مشہور عرب شاعر ابو نواس کی شاعری کے پیچھے 60 خواتین کا ہاتھ تھا
عالمی یوم ِ خواتین پر خصوصی : مشہور عرب شاعر ابو نواس کی شاعری کے پیچھے 60 خواتین کا ہاتھ تھا
عالمی یوم ِ خواتین پر خصوصی : مشہور عرب شاعر ابو نواس کی شاعری کے پیچھے 60 خواتین کا ہاتھ تھا ریاض، 9مارچ ( آئی این ایس انڈیا ) عربی زبان وادب کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو قواعد وانشا، صرف ونحو اور لغت کی دنیا میں ہمیں مردوں کا مکمل غلبہ دکھائی دیتا ہے اور اس میدان میں بہت کم خواتین نظرآتی ہیں مگرآج ایک ایسی حقیقت آشکار ہوئی ہے جس نے حیران کردیا ہے کہ شعرو سخن کا ذوق رکھنے میں قدیم عرب…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
s1200 · 6 years
Photo
Tumblr media
اردو تنقید کا پس منظر — بزم اردو اردو تنقید کا آغاز الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ سے ہوتا ہے۔ دراصل ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ دیوانِ حالی کا مقدمہ ہے جو انہوں نے اپنی شاعری کے جواز کے لیے قلم بند کیا تھا۔ لیکن یہ نئی شاعری کا جواز بن گیا۔ حالی کے تنقیدی خیالات ان کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں اورمقالاتِ […] via اردو تنقید کا پس منظر — بزم اردو
0 notes
mypakistan · 11 years
Text
گمشدہ نسلیں اور ان کی بازیابی کا مسئلہ By Shenawaz Farooqi
پوپ فرانسس نے یورپ کی موجودہ نسل کو گمشدہ نسل یا Lost Generation قرار دیا ہے مگر انہوں نے پوپ ہونے کے باوجود ’’گمشدگی‘‘ کی بنیاد ’’معاشیات‘‘ پر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یورپ کی موجودہ نسل کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔ یورپ کا معاشی بحران وقت گزرنے کے ساتھ سنگین ہورہا ہے اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیروزگاری کی شرح پچاس ساٹھ فیصد تک جاپہنچی ہے، اس کے نتیجے میں یورپ کے کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ پوپ نے کہا ہے کہ کام انسانی زندگی میں ایک وقار پیدا کرتا ہے۔ اور پوپ کی بات غلط نہیں ہے۔ مذہب بالخصوص اسلام انسان کے معاشی مسئلے کو نظرانداز نہیں کرتا، اور وہ معاشی جدوجہد کو بھی عبادت میں ڈھال دیتا ہے۔ مگر کام کا وقار خود زندگی کی بنیادی معنویت سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ معنویت مذہب کے سوا کہیں سے آنہیں سکتی۔ لیکن عیسائی دنیا، یہاں تک کہ عیسائی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت بھی معاشی مسئلے کو اس کے وسیع تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ورنہ یورپ کی موجودہ نسل کا مسئلہ معاشی گمشدگی کا نہیں، مذہبی اور تہذیبی گمشدگی کا ہے۔ لندن کے ہفت روزہ The Economist کے ایک نسبتاً پرانے سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فیصد اور مشرقی یورپ کے تقریباً80 فیصد لوگ کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پورا براعظم یورپ ہی ایک گمشدہ براعظم ہے۔ چنانچہ اس براعظم میں برسر روزگار لوگ بھی زندگی کی حقیقی معنویت سے ناواقف ہیں اور وہ روحانی اعتبار سے خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن گمشدہ نسل کا مسئلہ صرف یورپ یا امریکہ تک محدود نہیں۔  یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اسلامی معاشرے بھی ایک حد تک اس مسئلے کا شکارہیں، اس لیے کہ اسلامی معاشروں میں بھی انسانوں کا تناظر زیادہ سے زیادہ معاشی ہوتا جارہا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مگر اچھی مثال کراچی سے نمودار ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں بی کام کے نصاب سے اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے خارج کردیا گیا ہے اور اب کراچی میں بی کام کے طلبہ کو اردو پڑھنے کے ’’بوجھ‘‘ سے ’’نجات‘‘ مل گئی ہے۔ کراچی کے بعض اہلِ علم کہلانے والے لوگوں نے اس صورت حال پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اردو کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ فیصلہ یقینا اردو کے خلاف ایک سازش ہوگا لیکن اس مسئلے کا ایک افادی اور نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ ہم نے انٹر کامرس کے مضامین میں کیا، اور جب ہم کامرس کالج کے طالب علم تھے تو ہماری کلاس کے اکثر طلبہ کہا کرتے تھے کہ بھائی ہم تو کامرس کے طالب علم ہیں بھلا ہمارا ادب اور شعر و شاعری سے کیا تعلق؟ آخر ہم پر یہ اردو کیوں ٹھونسی گئی ہے؟ اس کی جگہ اگر ہمیں کامرس کا کوئی مضمون پڑھایا جاتا تو اس سے ہماری پیشہ وارانہ ذہانت و اہلیت میں اضافہ ہوتا، ہمیں بہتر روزگار حاصل کرنے میں مدد ملتی۔ بھلا شعرو شاعری پڑھ کر ہمارے کیا ہاتھ آئے گا! کیا ہم بینکوں اور دیگر معاشی اداروں میں بیٹھ کر شاعری ’’ڈرافٹ‘‘ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ محض ایک کالج کے طلبہ کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ زندگی کے بارے میں ایک زاویہ اور نقطۂ نظر ہے جو گزشتہ بیس برسوں میں پروان چڑھ کر اتنا مضبوط ہوگیا کہ اس کی گونج نے ملک کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر میں اردو کو نصاب سے خارج کرادیا۔ ممکن ہے اس فیصلے کی پشت پر کوئی سازش ہو، مگر معاشی نقطہ نظر کی سازش کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ بظاہر اس واقعے اور پوپ فرانسس کے بیان میں کوئی مماثلت نہیں، لیکن تھوڑا سا گہرائی میں دیکھا جائے تو ان دونوں واقعات میں گہرا معنوی اشتراک موجود ہے۔ اگر ان واقعات میں کوئی فرق ہے تو وہ مسئلے کی سنگینی کا ہے۔ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت کو یہ معلوم نہیں کہ زندگی کے معنی اور اس کا سارا وقار مذہب سے آتا ہے، ورنہ معاشی جدوجہد نے ساری دنیا میں اربوں معاشی حیوان اور اقتصادی روبوٹس پیدا کردیے ہیں۔ کراچی میں اردو کو بی کام کے نصاب سے نکلوانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ اسلامی تہذیب میں ادب مذہب کے بعد انسان کے باطن پر اثرانداز ہونے والی دوسری بڑی قوت ہے، اور مذہب و ادب کے مطالعے کے بغیر انسان کو مہذب بنانے کا تصور محال ہے، چنانچہ ادب کا مطالعہ بی کام ہی نہیں ایم بی اے اور سی اے کے طلبہ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف کراچی کے بی کام کے طلبہ تک محدود نہیں۔ زندگی کے بارے میں معاشی تناظر کے استحکام نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ملک کی جامعات میں زبانوں اور فلسفے کی تعلیم کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ آرٹس کے مضامین کا ذکر حقارت سے کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں آرٹس کے مضامین کی تعلیم فضول اور محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آرٹس کے مضامین کے فہم اور ان میں کمال حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامرس اور سائنس میں دوسرے درجے کی ذہانت سے کام چل سکتا ہے، مگر آرٹس کے مضامین کے لیے اعلیٰ درجے کی ذہانت ہی کفایت کرتی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ صورت حال مذہب سے دوری ہی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ایک ایسی تہذیب جس میں انسانوں کی بڑی تعداد کی ذہانت اور علم صرف دو شعبوں یعنی مذہب اور ادب پر صرف ہوا ہو، اس کے دائرے میں سماجی علوم کے لیے حقارت پیدا ہوہی نہیں سکتی تھی۔
ہمارے مذہبی طبقات اس بات پر ناراض رہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں کی نذر ہوگئی ہے، لیکن انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں میں بھی معیار کے تصور سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فلم اور ڈرامے کی طویل روایت میں اچھی فلم اور اچھا ڈراما کس کو کہتے ہیں؟ ہمیں جامعہ کراچی میں چند ماہ ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے کا موقع ملا تو طلبہ نے چند روز بعد شکایت کی کہ آپ ہم سے بہت مشکل موضوعات پر مضامین لکھوا رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ: اور آسان موضوع کون سا ہے؟ کہنے لگے: آپ ہم سے فلموں پر مضامین لکھوا لیجیے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ پانچ منٹ میں سوچ کر طے کرلیجیے کہ آپ کی پسندیدہ فلم کون سی ہے، اور پھر چالیس منٹ میں اپنی پسندیدہ فلم پر ایک ایسا تبصرہ لکھ کر دکھایئے جو ایک جانب فلم کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہو اور دوسری جانب اسے پڑھ کر کوئی قاری آپ کی پسندیدہ فلم دیکھنے کی خواہش کرے۔ طلبہ و طالبات نے ہمارے مشورے کی روشنی میں اپنے تبصرے لکھے، اور انہیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ ہماری نئی نسل تو غور سے فلم بھی نہیں دیکھ رہی اور اسے فلم کی مبادیات تک کا شعور نہیں۔ یہ صورت حال بھی مقامی نہیں عالمگیر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں کس حد تک معنی کا فقدان پیدا ہوچکا ہے۔ بھارت کے ممتاز اداکار دلیپ کمار سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ اب ہندوستان کیا مغرب میں بھی اچھی فلمیں کیوں نہیں بن رہیں اور ماضی میں وہاں اچھی فلمیں کیوں بنی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں دلیپ کمار نے کہا کہ مغرب میں پچاس ساٹھ بڑے ناول اور ڈھائی  تین سو بڑے افسانے لکھے گئے تھے، اور جب تک فلم والے ادب کو خام مواد کے طور پر استعمال کررہے تھے اُس وقت تک اچھی فلمیں تخلیق ہورہی تھیں، لیکن چونکہ اب بڑا ادب بالخصوص بڑا فکشن تخلیق نہیں ہورہا اس لیے اب اچھی فلمیں بھی نہیں بن رہیں۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اس نسل کے المیے اور گمشدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو اچھی فلمیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان گمشدہ نسلوں کی ب��زیابی کا کوئی امکان ہے؟ اگر ہے تو کس صورت میں؟
انسانی زندگی میں معنی، مقصد، گہرائی و گیرائی اور حسن و جمال کا مرکز اللہ ہے۔ مغرب کا سیکولر تو خدا کے تصور سے بیگانہ ہوچکا ہے اور عیسائیت تثلیث کے پھندے اور سیکولرازم کے رعب اور اس کی اتھارٹی کے لرزے میں مبتلا ہے۔ چنانچہ مغرب کو جب تک ان مسائل سے نجات نہیں ملے گی اُس وقت تک مغرب اپنی نسلوں کو کھوتا رہے گا۔ اسلامی معاشرے خدا کے تصور کے حامل ہیں مگر ہمارے مذہبی علم کلام کا بڑا حصہ اور ہمارے علماء کی تقریروں کے بہتے ہوئے دریا نئی نسل کو خدا سے محبت کرنا نہیں سکھا رہے، بلکہ وہ اپنے زورِبیان کا بڑا حصہ خدا کو خوفناک بناکر پیش کرنے پر صرف کررہے ہیں، اور ان کی تقریروں کا باقی ماندہ حصہ فرقے‘ مسلک‘ مکتب اور فروعی معاملات کے بیان پر صرف ہورہا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قوموں کے ہیروز نئی نسلوں کے لیے نمونۂ عمل ہوا کرتے تھے اور یہ ہیروز تاریخ سے آتے تھے۔ لیکن مغرب نے مذہب کو مسترد کیا تو اپنی تاریخ کے بڑے حصے سے بھی لاتعلق ہوگیا، چنانچہ اہلِ مغرب کی نئی نسلوں کے سامنے حقیقی ہیرو موجود ہی نہیں۔  یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا کی نئی نسلیں اداکاروں‘ گلوکاروں اور کھلاڑیوں میں ہیروز یا Icons تلاش کررہی ہیں مگر ان شعبوں کی نمایاں شخصیات حقیقی ہیروز کا سایہ بھی نہیں ہوتیں۔ مسلم دنیا میں اس حوالے سے صورت حال قدرے بہتر ہے، لیکن مسلمانوں کا تاریخی شعور بھی کمزور پڑا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی بالشتیے دیوقیامت لوگوں کی جگہ لیتے جارہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی تاریخ میں حقیقی ہیروز کی اتنی فراوانی ہے کہ مسلمانوں کا تاریخی اُفق ستاروں سے بھرا ہوا ہے اور ضرورت اس افق سے ایک زندہ رشتہ استوار کرنے کی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی ترجیحات کے درست تعین سے زندگی بنتی ہے۔ معاشیات زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے لیکن وہ معنی کا سرچشمہ نہیں ہے۔ معنی مذہب کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مشرق ہو یا مغرب، جب تک انسانوں کی زندگی میں حقیقی اور سچا مذہب ترجیح اوّل بن کر نہیں ابھرے گا، دنیا بالخصوص نئی نسل کو معنی کے بحران سے نہیں نکالا جاسکے گا۔
شاہنواز فاروقی
0 notes
risingpakistan · 11 years
Text
گمشدہ نسلیں اور ان کی بازیابی کا مسئلہ By Shenawaz Farooqi
پوپ فرانسس نے یورپ کی موجودہ نسل کو گمشدہ نسل یا Lost Generation قرار دیا ہے مگر انہوں نے پوپ ہونے کے باوجود ’’گمشدگی‘‘ کی بنیاد ’’معاشیات‘‘ پر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یورپ کی موجودہ نسل کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں ہے۔ یورپ کا معاشی بحران وقت گزرنے کے ساتھ سنگین ہورہا ہے اور یورپ کے بعض ملکوں میں بیروزگاری کی شرح پچاس ساٹھ فیصد تک جاپہنچی ہے، اس کے نتیجے میں یورپ کے کروڑوں نوجوان بیروزگار ہیں۔ پوپ نے کہا ہے کہ کام انسانی زندگی میں ایک وقار پیدا کرتا ہے۔ اور پوپ کی بات غلط نہیں ہے۔ مذہب بالخصوص اسلام انسان کے معاشی مسئلے کو نظرانداز نہیں کرتا، اور وہ معاشی جدوجہد کو بھی عبادت میں ڈھال دیتا ہے۔ مگر کام کا وقار خود زندگی کی بنیادی معنویت سے پیدا ہوتا ہے، اور یہ معنویت مذہب کے سوا کہیں سے آنہیں سکتی۔ لیکن عیسائی دنیا، یہاں تک کہ عیسائی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی شخصیت بھی معاشی مسئلے کو اس کے وسیع تناظر میں دیکھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ورنہ یورپ کی موجودہ نسل کا مسئلہ معاشی گمشدگی کا نہیں، مذہبی اور تہذیبی گمشدگی کا ہے۔ لندن کے ہفت روزہ The Economist کے ایک نسبتاً پرانے سروے کے مطابق مغربی یورپ کے 75 فیصد اور مشرقی یورپ کے تقریباً80 فیصد لوگ کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پورا براعظم یورپ ہی ایک گمشدہ براعظم ہے۔ چنانچہ اس براعظم میں برسر روزگار لوگ بھی زندگی کی حقیقی معنویت سے ناواقف ہیں اور وہ روحانی اعتبار سے خطِ غربت سے کہیں نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن گمشدہ نسل کا مسئلہ صرف یورپ یا امریکہ تک محدود نہیں۔  یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور اسلامی معاشرے بھی ایک حد تک اس مسئلے کا شکارہیں، اس لیے کہ اسلامی معاشروں میں بھی انسانوں کا تناظر زیادہ سے زیادہ معاشی ہوتا جارہا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی سی مگر اچھی مثال کراچی سے نمودار ہوئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں بی کام کے نصاب سے اردو کو لازمی مضمون کی حیثیت سے خارج کردیا گیا ہے اور اب کراچی میں بی کام کے طلبہ کو اردو پڑھنے کے ’’بوجھ‘‘ سے ’’نجات‘‘ مل گئی ہے۔ کراچی کے بعض اہلِ علم کہلانے والے لوگوں نے اس صورت حال پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اردو کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ فیصلہ یقینا اردو کے خلاف ایک سازش ہوگا لیکن اس مسئلے کا ایک افادی اور نفسیاتی پہلو بھی ہے۔ ہم نے انٹر کامرس کے مضامین میں کیا، اور جب ہم کامرس کالج کے طالب علم تھے تو ہماری کلاس کے اکثر طلبہ کہا کرتے تھے کہ بھائی ہم تو کامرس کے طالب علم ہیں بھلا ہمارا ادب اور شعر و شاعری سے کیا تعلق؟ آخر ہم پر یہ اردو کیوں ٹھونسی گئی ہے؟ اس کی جگہ اگر ہمیں کامرس کا کوئی مضمون پڑھایا جاتا تو اس سے ہماری پیشہ وارانہ ذہانت و اہلیت میں اضافہ ہوتا، ہمیں بہتر روزگار حاصل کرنے میں مدد ملتی۔ بھلا شعرو شاعری پڑھ کر ہمارے کیا ہاتھ آئے گا! کیا ہم بینکوں اور دیگر معاشی اداروں میں بیٹھ کر شاعری ’’ڈرافٹ‘‘ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ یہ محض ایک کالج کے طلبہ کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ زندگی کے بارے میں ایک زاویہ اور نقطۂ نظر ہے جو گزشتہ بیس برسوں میں پروان چڑھ کر اتنا مضبوط ہوگیا کہ اس کی گونج نے ملک کے سب سے بڑے اور تعلیم یافتہ شہر میں اردو کو نصاب سے خارج کرادیا۔ ممکن ہے اس فیصلے کی پشت پر کوئی سازش ہو، مگر معاشی نقطہ نظر کی سازش کا معاملہ تو بالکل واضح ہے۔ بظاہر اس واقعے اور پوپ فرانسس کے بیان میں کوئی مماثلت نہیں، لیکن تھوڑا سا گہرائی میں دیکھا جائے تو ان دونوں واقعات میں گہرا معنوی اشتراک موجود ہے۔ اگر ان واقعات میں کوئی فرق ہے تو وہ مسئلے کی سنگینی کا ہے۔ عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت کو یہ معلوم نہیں کہ زندگی کے معنی اور اس کا سارا وقار مذہب سے آتا ہے، ورنہ معاشی جدوجہد نے ساری دنیا میں اربوں معاشی حیوان اور اقتصادی روبوٹس پیدا کردیے ہیں۔ کراچی میں اردو کو بی کام کے نصاب سے نکلوانے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ اسلامی تہذیب میں ادب مذہب کے بعد انسان کے باطن پر اثرانداز ہونے والی دوسری بڑی قوت ہے، اور مذہب و ادب کے مطالعے کے بغیر انسان کو مہذب بنانے کا تصور محال ہے، چنانچہ ادب کا مطالعہ بی کام ہی نہیں ایم بی اے اور سی اے کے طلبہ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف کراچی کے بی کام کے طلبہ تک محدود نہیں۔ زندگی کے بارے میں معاشی تناظر کے استحکام نے ایک ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ملک کی جامعات میں زبانوں اور فلسفے کی تعلیم کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ لوگ آرٹس کے مضامین کا ذکر حقارت سے کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں آرٹس کے مضامین کی تعلیم فضول اور محض ڈگری کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آرٹس کے مضامین کے فہم اور ان میں کمال حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامرس اور سائنس میں دوسرے درجے کی ذہانت سے کام چل سکتا ہے، مگر آرٹس کے مضامین کے لیے اعلیٰ درجے کی ذہانت ہی کفایت کرتی ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ صورت حال مذہب سے دوری ہی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ایک ایسی تہذیب جس میں انسانوں کی بڑی تعداد کی ذہانت اور علم صرف دو شعبوں یعنی مذہب اور ادب پر صرف ہوا ہو، اس کے دائرے میں سماجی علوم کے لیے حقارت پیدا ہوہی نہیں سکتی تھی۔
ہمارے مذہبی طبقات اس بات پر ناراض رہتے ہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں کی نذر ہوگئی ہے، لیکن انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ ہماری نئی نسل فلموں اور ڈراموں میں بھی معیار کے تصور سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ فلم اور ڈرامے کی طویل روایت میں اچھی فلم اور اچھا ڈراما کس کو کہتے ہیں؟ ہمیں جامعہ کراچی میں چند ماہ ایم اے کے طلبہ کو پڑھانے کا موقع ملا تو طلبہ نے چند روز بعد شکایت کی کہ آپ ہم سے بہت مشکل موضوعات پر مضامین لکھوا رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ: اور آسان موضوع کون سا ہے؟ کہنے لگے: آپ ہم سے فلموں پر مضامین لکھوا لیجیے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ پانچ منٹ میں سوچ کر طے کرلیجیے کہ آپ کی پسندیدہ فلم کون سی ہے، اور پھر چالیس منٹ میں اپنی پسندیدہ فلم پر ایک ایسا تبصرہ لکھ کر دکھایئے جو ایک جانب فلم کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہو اور دوسری جانب اسے پڑھ کر کوئی قاری آپ کی پسندیدہ فلم دیکھنے کی خواہش کرے۔ طلبہ و طالبات نے ہمارے مشورے کی روشنی میں اپنے تبصرے لکھے، اور انہیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ ہماری نئی نسل تو غور سے فلم بھی نہیں دیکھ رہی اور اسے فلم کی مبادیات تک کا شعور نہیں۔ یہ صورت حال بھی مقامی نہیں عالمگیر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں کس حد تک معنی کا فقدان پیدا ہوچکا ہے۔ بھارت کے ممتاز اداکار دلیپ کمار سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا تھا کہ اب ہندوستان کیا مغرب میں بھی اچھی فلمیں کیوں نہیں بن رہیں اور ماضی میں وہاں اچھی فلمیں کیوں بنی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں دلیپ کمار نے کہا کہ مغرب میں پچاس ساٹھ بڑے ناول اور ڈھائی  تین سو بڑے افسانے لکھے گئے تھے، اور جب تک فلم والے ادب کو خام مواد کے طور پر استعمال کررہے تھے اُس وقت تک اچھی فلمیں تخلیق ہورہی تھیں، لیکن چونکہ اب بڑا ادب بالخصوص بڑا فکشن تخلیق نہیں ہورہا اس لیے اب اچھی فلمیں بھی نہیں بن رہیں۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو اس نسل کے المیے اور گمشدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو اچھی فلمیں دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان گمشدہ نسلوں کی بازیابی کا کوئی امکان ہے؟ اگر ہے تو کس صورت میں؟
انسانی زندگی میں معنی، مقصد، گہرائی و گیرائی اور حسن و جمال کا مرکز اللہ ہے۔ مغرب کا سیکولر تو خدا کے تصور سے بیگانہ ہوچکا ہے اور عیسائیت تثلیث کے پھندے اور سیکولرازم کے رعب اور اس کی اتھارٹی کے لرزے میں مبتلا ہے۔ چنانچہ مغرب کو جب تک ان مسائل سے نجات نہیں ملے گی اُس وقت تک مغرب اپنی نسلوں کو کھوتا رہے گا۔ اسلامی معاشرے خدا کے تصور کے حامل ہیں مگر ہمارے مذہبی علم کلام کا بڑا حصہ اور ہمارے علماء کی تقریروں کے بہتے ہوئے دریا نئی نسل کو خدا سے محبت کرنا نہیں سکھا رہے، بلکہ وہ اپنے زورِبیان کا بڑا حصہ خدا کو خوفناک بناکر پیش کرنے پر صرف کررہے ہیں، اور ان کی تقریروں کا باقی ماندہ حصہ فرقے‘ مسلک‘ مکتب اور فروعی معاملات کے بیان پر صرف ہورہا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ قوموں کے ہیروز نئی نسلوں کے لیے نمونۂ عمل ہوا کرتے تھے اور یہ ہیروز تاریخ سے آتے تھے۔ لیکن مغرب نے مذہب کو مسترد کیا تو اپنی تاریخ کے بڑے حصے سے بھی لاتعلق ہوگیا، چنانچہ اہلِ مغرب کی نئی نسلوں کے سامنے حقیقی ہیرو موجود ہی نہیں۔  یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا کی نئی نسلیں اداکاروں‘ گلوکاروں اور کھلاڑیوں میں ہیروز یا Icons تلاش کررہی ہیں مگر ان شعبوں کی نمایاں شخصیات حقیقی ہیروز کا سایہ بھی نہیں ہوتیں۔ مسلم دنیا میں اس حوالے سے صورت حال قدرے بہتر ہے، لیکن مسلمانوں کا تاریخی شعور بھی کمزور پڑا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی بالشتیے دیوقیامت لوگوں کی جگہ لیتے جارہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی تاریخ میں حقیقی ہیروز کی اتنی فراوانی ہے کہ مسلمانوں کا تاریخی اُفق ستاروں سے بھرا ہوا ہے اور ضرورت اس افق سے ایک زندہ رشتہ استوار کرنے کی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی ترجیحات کے درست تعین سے زندگی بنتی ہے۔ معاشیات زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے لیکن وہ معنی کا سرچشمہ نہیں ہے۔ معنی مذہب کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتے۔ چنانچہ مشرق ہو یا مغرب، جب تک انسانوں کی زندگی میں حقیقی اور سچا مذہب ترجیح اوّل بن کر نہیں ابھرے گا، دنیا بالخصوص نئی نسل کو معنی کے بحران سے نہیں نکالا جاسکے گا۔
شاہنواز فاروقی
0 notes
Text
کوئی تو تمنائے زر و مال میں خوش ہے
اور کوئی تماشائے خدوخال میں خوش ہے
پر ہم سے پوچھو تو نہیں کوئی بھی خوشحال
خوشحال وہی ہے جو ہر حال میں خوش ہے
1 note · View note
emergingkarachi · 11 years
Text
Karachi University memories
جامعہ کراچی ایسی درسگاہ ہے،جہاں سے فارغ التحصیل طلبا نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کااظہارکرکے دنیا کو حیران کیا۔اس جامعہ میں متوسط طبقے کے طالب علم حصول علم کے لیے آئے اورخوابوں کی تعبیر لے کر دنیا میں چھاگئے۔میں اگر ان میں سے چند نام یادکروں، تومیرے حافظے پر جن شخصیات کاتصور ابھرتاہے ،ان میںابوالخیر کشفی،جمیل الدین عالی،اسلم فرخی، عطاالرحمن،فرمان فتح پوری،حسینہ معین،ابن انشا،جمیل جالبی،منظور احمد،محمد علی صدیقی،پروین شاکر،سحر انصاری اور زاہدہ حنا جیسی شخصیات شامل ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہے، میں نے تو صرف شعرو ادب سے وابستہ چند نام درج کیے ہیں۔اسی طرح جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے منصب کی فہرست بھی کئی بڑے ناموں سے سجی ہوئی ہے،ان ناموں میں شعبہ تاریخ کے اشتیاق حسین قریشی،انگریزی کے شعبے سے محمود حسین اورشعبہ اردوکے جمیل جالبی سمیت1951سے لے کر 2013تک 16شخصیات نے اس منصب کی ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ ہزاروں کی تعداد میں اس جامعہ سے فارغ التحصیل طلبا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ابھی تک جامعہ کراچی کی نسبت سے جتنے نام یہاں درج کیے گئے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ 64برس میں اس ادارے سے تعلیم حاصل کرکے جانے والوں نے علم کے چراغ روشن کیے۔تخیل کی سنہری دھوپ سے خیال کی فصلوں کو پکایا۔ باذوق تحریروں سے معنویت کی داستانیں رقم کیں۔افکار کے جگنو اور بیان کی تتلیاں ان کے اذہان سے اڑان بھر کر ساری دنیا میں محو پرواز رہیں۔
جامعہ کراچی سے منسوب یہ تصور اتنا خوبصورت ہے، جس کا یہاں مکمل طور پر بیان کرنا ممکن نہیں۔یہ وہ ہی سمجھ سکتا ہے، جو کبھی اس جامعہ کا طالب علم رہا ہو۔جس نے اس کی راہداریوں میں بیٹھ کر اساتذہ کو آتے جاتے دیکھا ہو۔جس نے محمود حسن لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر چائے پی ہو۔حبس زدہ دوپہروں میں جامعہ کے مرکزی دروازے تک آنے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل مسافت طے کی ہو۔وہ ان ناموں اوراحساسات کی گہرائی کو زیادہ بہترطورپر سمجھ سکتاہے اورجو تصور کے اس درجے کو سمجھ سکتا ہے،وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اسی جامعہ کے ساتھ کئی طرح کی تلخ حقیقتیں بھی پیوستہ ہیں،جن سے ہر طالب علم کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشرے جب زوال پذیر ہوتے ہیں، تو ان کو بنانے والے شعبوں پر بھی زوال آتا ہے۔یہی زوال جامعہ کراچی پر بھی آیا۔ طلبا کی اکثریت بھی ایسی آئی ،جنھیں صرف سند حاصل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے یا پھر وقت گزاری میں۔ جب معاشرے،ادارے اورافراد ایسے رویوں کے عادی ہو جائیں ،تو زوال کس دروازے سے آپ کے آنگن میں داخل ہوتا ہے،اس کا بھی احساس نہیں ہوتا۔
جامعہ کراچی کی روشن اور تخلیقی روایت کے ایسے ہی چار افراد کو میں جانتا ہوں،جنہوں نے خاموشی سے خود کو علم بانٹنے میں مصروف رکھا ہوا ہے،اس پر لطف یہ ہے کہ وہ صرف طالب علموں کو سیراب ہی نہیں کر رہے ،بلکہ خود کو بھی تخلیقی کیفیات سے جوڑ رکھا ہے۔ایک طرف تخلیق کار پیدا کر رہے ہیں ،تو دوسری طرف خود تخلیق کے کینوس پر اپنے اظہار کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔یہ چار نام پروفیسر مسعود امجدعلی،ڈاکٹر افتخار شفیع ،ڈاکٹر رؤف پاریکھ اورڈاکٹر طاہر مسعود ہیں۔ایسے لوگوں کے دم سے ابھی علم کا چراغ جامعہ کراچی میں روشن ہے۔ان چاروں شخصیات کو آپ کسی ادبی میلے میں نہیں دیکھیں گے،شاید یہ میلے ٹھیلے کے لوگ بھی نہیں ہیں اور میلے کی انتظامیہ کو دکھائی بھی نہیں دیتے،لیکن یہی وہ لوگ ہیں، جنھیں ہم تخلیق کی آبرو اور خیال کی زینت کہتے ہیں۔جن کے احساس سے تخلیقات میں معنویت دھڑکتی ہے۔
ان میں سے پہلی شخصیت ’’پروفیسر مسعود امجد علی‘‘کا تعلق انگریزی کے شعبے سے ہے۔ساٹھ کی دہائی سے پڑھانے والے اس استاد سے ہزاروں طلبا فیض یاب ہوچکے ہیں۔ یہ 1994سے 1997تک اسی شعبے کے چیئرمین بھی رہے۔ یہ انگریزی زبان میں شاعری کرتے ہیں ۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’’Chrysanthemum Blossoms‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوچکا ہے مگر اہل شہر اس بات سے بے خبر ہیں اور انگریزی اخبارات کو بھی عام ڈگر سے ہٹ کر ایک معیاری نظمیں تخلیق کرنے والے اس شاعر کو دریافت کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑی،ایک ایسا شاعر جو مدرس بھی ہے اورجس کے لہجے اور تکنیک سے طلبا انگریزی زبان کی بُنت سیکھتے ہیں۔پروفیسر مسعودامجد علی اپنے شعبے کے بارے میں کس انداز میں رائے دیتے ہیں،یہی ان کی تخلیقی اُپچ کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ان کے خیال میں ’’جامعہ کراچی کا شعبۂ انگریزی ایک آرٹسٹ کے اسٹوڈیو کی طرح ہے،جہاں آپ فن اوررنگوں کا ذائقہ چکھتے ہیں۔‘‘
دوسری شخصیت کا تعلق بھی انگریزی کے شعبے سے ہے،انھیں ’’ڈاکٹر افتخار شفیع ‘‘کہاجاتاہے۔یہ فقیر منش استاد ہے،جس نے اپنی تہذیبی حساسیت کو تھام کر اورایک دوسری زبان کے شعروادب کو طلبا کے ذہنوں میں اتارا۔کم عمری میں پی ایچ ڈی کرنے والے اس مدرس کی بنیاد مولانا رومی کی شاعری تھی،جس کی عملی صورت ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔عام سے لباس میں ایسی خاص باتیں کرتے ہیں،لفظوں کے معنی اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں کہ سننے والا اپنے آس پاس کا ہوش کھو بیٹھے، بے شک اہل شعور ایسے ہی لوگ ہوا کرتے ہیں۔کئی برس سے انگریزی ادب پڑھانے والے اس استاد نے اپنا دامن جھاڑا تو اردو شاعری کاخوبصورت مجموعہ ’’انگارہ‘‘ قارئین کومیسر آیا۔جس کا ایک شعر بہت سی ان کہی باتوں کا بیان ہے۔ لکھتے ہیں ’’جب بجھی شمع سخن گرمیٔ محفل کے لیے، آ گئے ہم بھی ہتھیلی پہ لیے انگارہ‘‘پروفیسر افتخار شفیع کی کتاب ’’انگارہ‘‘ کے دو سو تیراسی صفحات ان کے جذبات، وجدان، شعور اور مشاہدے کی اتھاہ گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں اور بیان بھی ایسے شاعرانہ انداز میں، جیسے نرم وملائم بادصبا چھوکر گزر جائے ،وہ دکھائی نہ دے مگر اس کے ہونے کا احساس موجود ہو۔
تیسری شخصیت کا نام ڈاکٹر رؤف پاریکھ ہے۔یوں تو یہ کسی تعارف کے محتاج نہیں،لیکن میں رسم نبھانے کو اگر ان کے بارے میں کچھ بتاناچاہوں تومختصراً یہ ہے کہ ان کا تعلق شعبۂ اردو سے ہے،صرف جامعہ کے طلبا ہی ان کے علم سے فیض یاب نہیں ہوتے،بلکہ مجھ جیسے ناچیز بھی ان سے اکثر مواقعے پر رہنمائی لیتے ہیں۔یہ اردو ڈکشنری بورڈ،کراچی سے وابستہ رہے۔اردوکے شعبے میں پڑھانے کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شعبہ لغت سے بھی وابستہ ہیں۔ایک موقر انگریزی روزنامے میں ہفتہ وار ادبی کالم بھی لکھتے ہیں۔انجمن ترقی اردو اور غالب لائبریری سے بھی وابستہ ہیں۔تصنیف وتالیف کاکام بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں اوراب تک ان کی تقریباً20کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔یہ بھی دل کے صاف،سچے اوراپنے کام سے محبت کرنیوالے وہ شخص ہیں، جن پر کسی بھی ہم عصر کو رشک آتاہے۔چوتھی شخصیت کا تعلق شعبۂ ابلاغ عامہ سے ہے۔ان کا نام ڈاکٹر طاہر مسعودہے اور یہ اس شعبے کے موجودہ چیئرمین ہیں۔یہ ان چند اساتذہ میں سے ہیں،جو تخلیق کار ہیں اور ’’صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ان کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔اس کے علاوہ یہ افسانے ،ادبی مضامین اور اخباری کالم لکھتے ہیں۔ان کے افسانوں کی کتاب کا نام ’’گمشدہ ستارے‘‘تھا،جس میں کئی رنگ ایک دوسرے میں گھل مل گئے ہیں۔ان کے ہم عصر تخلیق کاراورمعروف شاعر فراست رضوی ان کے بارے میں اس کتاب کے دیباچے میں کچھ اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’ان کی کہانیوں کے کردار عام لوگ ہیں۔تقدیر کے جبر اور معاشرتی استحصال کے مارے ہوئے۔ان کے حالات زندگی بہت الجھے ہوئے ہیں۔یہ سب کسی نہ کسی دُکھ کا پہاڑ اٹھائے ہوئے زندگی کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔طاہر کی کہانیوں کے کردار خوش وخرم لوگ نہیں ہیںیہ سب زندگی کے ناکام افراد ہیں۔ ناآسودگی میں مبتلا کسی ادھورے پن کاشکار۔طاہر مسعود کی کہانیوں کے کردار ایسے کیوں ہیں؟ ’’وارڈ نمبر گیارہ کا معذور بوڑھا ’’منزل آخرفنا‘‘ کا عمر رسیدہ ریٹائرڈ کرنل، اکیلاپن جس کی روح میں اترگیا یاس زدہ گھرانے کی خاموش غم زدہ ماں۔’’خواب اورآنسو‘‘کاخواب گزیدہ ادیب۔ تنہائی کی ماری مسز رخشندہ کریم۔ادھوری بینائی کامالک صفدر علی اور حافظے کی قید سے آزاد ہو جانے والا کردار۔میں نے اس بارے میں سوچا تو مجھے ایسا لگا کہ طاہر مسعود انسان کے باطن میں اتر کر اس کی داخلیت کے نامعلوم گوشوں کو قاری پر منکشف کرنا چاہتے ہیں اورپھر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ عہد جدید کاآدمی اتنا ہی دکھی اور ژولیدہ ہے جتنا طاہر نے اپنی کہانیوں میں دکھایا ہے‘‘
پروفیسر مسعود کی انگریزی شاعری،ڈاکٹر افتخار شفیع کی اردو شاعری اورانگریزی ادب کا فہم،ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی علمی سخاوت اورڈاکٹر طاہر مسعود کی اداس بھری تخلیق سے بھرپور کہانیاں اورکردارسب کے درمیان ایک نکتہ یکساں ہے اوروہ ہے ’’خاموشی‘‘ان تخلیقی ستونوں کے دروازے سچی فکر کے لیے کھلے ہوئے ہیں،مگر سیراب کی اس منزل کو پانے کے لیے آپ کو ان کی طرف جانا ہوگا۔
خرم سہیل
Karachi University
0 notes
asraghauri · 4 years
Text
طارق عزیز کا سلام اور نیلام گھر - بنت مناظر
طارق عزیز کا سلام اور نیلام گھر – بنت مناظر
“دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہچے………”، یہ جملے ہمارے بچپن سے لڑکپن تک کانوں میں گھونجتے رہے۔ ریکارڈ پروگرام رہا ……. جس کا نام تھا ” نیلام گھر” صاف ستھرا پروگرام ۔ سوالات ، معلوماتی دلچسپ پہلییاں ، کوئز ،حالات حاضرہ ، شعرو شاعری ، نامور شخصیات کے انٹرویو ، یعنی کوزے کو دریا میں بند کر نے کا سہرا صیحح معنوں میں طارق عزیز صاحب کو جاتا ہے۔
ان کے اس پروگرام کا مقابلہ موجودہ…
View On WordPress
0 notes
dailyswail · 5 years
Text
عزیزشاہد: ملوک، ریشمی تےملائم جذبیاں دا رومانوی شاعر
عزیزشاہد: ملوک، ریشمی تےملائم جذبیاں دا رومانوی شاعر
سئیں عزیز شاہد، ضلع ڈیرہ غازیخان دے شمال مشرق، وستی ”ڈوم” وچ پیدا تھئے۔ اُنہاں دے آباؤ اجداد، باغبانی دے پیشے نال وابستہ ہَن۔ عزیز شاہد دے والد نور محمد سائل، باغبانی دے نال شعرو شاعری کریندے رہین، سرائیکی زبان دے اگوانْ شاعراں وچ اُنہاں ناں شمار تھیندے۔ عزیز شاہد ١٩٦٤ء وچ محکمہ تعلیم نال وابستہ تھئے تے دوران ملازمت انہاں ایف اے تے بی اے تک تعلیم مکمل کیتی۔ اتے ١٩٩٥ء کوں محکمہ تعلیم توں ریٹائر…
View On WordPress
0 notes
urduclassic · 7 years
Text
فراق گھورکھپوری : ان کی غزل اور رباعی کا انداز سب سے الگ ہے
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری (اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ گھر میں شعرو شاعری کا چرچا عام تھا۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت بھی مشہور شاعر تھے۔ فراق نے تعلیم الٰہ آباد میں حاصل کی اور اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی میں بھی اعلیٰ لیاقت حاصل کی۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو گئے۔ کچھ مدت تک جواہر لعل نہرو کے ساتھ کام کیا۔ جیل بھی گئے۔ انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد ہو گئے۔ 
یہیں سے 1959ء میں ریٹائر ہوئے۔ فراق گورکھپوری کے کلام کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں ’’روح کائنات‘‘ ،’’رمز و کنایات‘‘،’’غزلستان‘‘، ’’شبنمستان‘‘ اور ’’گلِ نغمہ‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’اندازے‘‘ اور ان کی کتاب ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ شاعری میں فراق کی غزل اور ان کی رباعی کا انداز سب سے الگ ہے۔
شمس الدین
1 note · View note
party-hard-or-die · 6 years
Text
پولیس افسر کی ’’ریسرچ لائبریری‘‘
تحریر وتحقیق :اکرام اللہ مومند، پشاور
عکّاسی : تنزیل الرحمٰن بیگ
ڈاکٹر فصیح الدین نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے
بلاشبہ کُتب خانے معاشرتی ترقّی اور علمی آب یاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت میں تو کلام ہی نہیں کہ جس مُلک میں کتب خانے زیادہ ہوں، وہاں ادبی کلچر بھی زیادہ فروغ پاتا ہے، جس کے نتیجے میں اچھے اسکالرز پیدا ہوتے ہیں اور مجموعی طور معاشرے میں بھی سدھار آتا ہے۔ یہ کُتب خانے ہی تو ہیں، جو عام افراد کو اسکالرز، سائنس دانوں اور دیگر اہلِ علم سے ملاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مُلک کی ترقّی کا اندازہ وہاں قائم کُتب خانوں کی تعداد سے بھی لگایا جاتا ہے۔ امریکا میں لائبریریز کی تعداد 119448 ہے، جب کہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری،’’ دی لائبریری آف کانگریس‘‘ کا اعزاز بھی اسی مُلک کو حاصل ہے۔ اس لائبریری میں 3 کروڑ 40 لاکھ کتابیں، 30 لاکھ ریکارڈنگز، ایک کروڑ، تیس لاکھ تصاویر، پچاس لاکھ نقشے، 6کروڑ 60 لاکھ قلمی نسخے اور 7 لاکھ نایاب کتابیں ہیں۔’’ دی انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز‘‘ (IFLA) کے مطابق، پوری دنیا میں 350000 لائبریریز ہیں، جن میں سے 50،50 ہزار بھارت، روس اور چین میں ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی کُتب خانے ہیں، جن میں سے بعض تو عالمی شہرت کے بھی حامل ہیں۔ تمام یونی ورسٹیز اور کالجز کے علاوہ، لاہور، کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں’’ قائدِ اعظم پبلک لائبریریز‘‘ قائم ہیں، جب کہ پشاور میں’’ آرکائیوز لائبریری‘‘ کام کر رہی ہے۔اس کے علاوہ، مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے بھی سیکڑوں کُتب خانے شائقینِ مطالعہ کی پیاس بجھانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، تو ایسے کُتب خانوں کی بھی کمی نہیں، جو مختلف افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیے ہیں۔
گو کہ نت نئی ایجادات نے دنیا بھر میں عوام کا کتاب سے تعلق کم زور کیا ہے، مگر ترقّی یافتہ مُمالک میں کتاب کلچر اب بھی بہت حد تک زندہ ہے اور وہاں لائبریریز سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بلامبالغہ کروڑوں میں ہے۔ کتابیں50 ، 50 کروڑ کی تعداد میں چَھپتی ہیں اور بِک بھی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان جیسے 20 کروڑ آبادی کے مُلک میں بیش تر کتابیں1000 کی تعداد میں چھاپی جاتی ہیں اور وہ بھی مدّتوں خریداروں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب وطنِ عزیزمیں جا بہ جا’’ آنہ لائبریریاں‘‘ ہوا کرتی تھیں، جہاں سے لوگ اپنی پسند کی کتاب گھر لے جاتے اور پڑھ کر واپس کردیتے، لیکن اب ایسے کُتب خانے اپنا وجود کھو چکے ہیں۔یوں تو کتاب سے دُوری کے کئی اسباب ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق، کتاب کلچر کو سب سے زیادہ نقصان سوشل میڈیا نے پہنچایا ہے، کیوں کہ نوجوان سارا دن سماجی رابطوں کی مختلف ایپس ہی میں مگن رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ الیکٹرانک میڈیا بھی عوام کو کتابوں سے دُور کرنے کا سبب بنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ دنیا کو ہماری انگلیوں کی پوروں پر لے آیا ہے اور اس کے ذریعے بھی علم کے بے کنارسمندر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ ترقّی یافتہ ممالک میں ایسا ہو بھی رہا ہے، مگر ہمارے نوجوان زیادہ تر اس کا منفی استعمال ہی کر رہے ہیں، جس سے اُنھیں انٹرنیٹ سے کوئی علمی فائدہ حاصل نہیں ہو پا رہا۔سو، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی کتاب بے زار اور غیر علمی معاشرے میں ریسرچ لائبریری قائم کرنا کس قدر دل گُردے کا کام ہے، مگر اب بھی ایسے’’ سَر پھروں‘‘ کی کمی نہیں، جو اس طرح کے کاموں کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فصیح الدّین بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں، جنھیں کتاب سے جنون کی حد تک محبّت ہے۔
ریسرچ لائبریری قائم کرنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فصیح الدّین نے بتایا’’ مجھے بچپن ہی سے کتابوں سے شغف تھا۔ شبلی اور دیگر نام وَر لکھاریوں کی کُتب کی اس خیال اور عزم کے ساتھ فہرست بناتا رہتا کہ بڑا ہو کر وہ سب کتابیں خریدوں اور پڑھوں گا۔ جب تیسری جماعت میں تھا، تو دیوانِ داغ خریدا۔ پانچویں کلاس میں پشتو کے عظیم لکھاری، سیّد رسول رسا کی کتاب’’ارمغانی خوش حال‘‘ خریدی۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر یہ کہ کتاب پر تاریخِ خرید بھی ضرور لکھا کرتا تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی تقریباً تمام کُتب پڑھ چکا تھا۔ نیز، ادب اور شعرو شاعری کی طرف رجحان کو مہمیز، پروفیسر پیر ظاہرشاہ کی صحبت کی وجہ سے ملی۔ وہ میرے بڑے بھائی، میجر ڈاکٹراسحاق (مرحوم) کو’’ گل نغمہ‘‘ پڑھانے ہمارے گھر آتے، تو مجھے بھی روزانہ ایک شعر سِکھاتے اور اگلے روز اُس کے بارے میں پوچھتے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایڈورڈ کالج، پشاور میں داخلہ لیا، تو کتابوں تک رسائی آسان ہوگئی۔ اپنے جیب خرچ اور اسکالر شپ سے مذہبی، تاریخی، اُردو، پشتو لٹریچر کی کتابیں خریدنے کا سلسلہ مزید بڑھا دیا۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا’’ پروفیسر اسحاق وردگ نے خصوصی طور پر لائبریری کے قیام کی طرف مائل کیا اور لائبریری قائم کرنے میں بھرپور معاونت بھی کی۔ یوں نومبر2013 ء میں ریسرچ لائبریری قائم کرنے میں کام یابی ملی۔ ابتدا میں میری ذاتی کُتب کی تعداد 7000 تھی، پھر معروف کالم نگار، س��داللہ جان برق، ڈاکٹر محمّد شفیق، عبداللہ ثانی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر حمایت اللہ یعقوبی، سلیم راز، ہمیش خلیل، پروفیسر حنیف خلیل، ڈاکٹر قبلہ ایاز، محمّد شاہد حنیف، احمد زین الدّین، مولانا ابو حامد، فضل ربی، پروفیسر عبدالرؤف،’’ اعراف‘‘ کے سربراہ، ایاز اللہ ترکزئی نے فراخ دِلی کے ساتھ کتابیں دیں۔ نیز،’’ یونی ورسٹی بُک ایجینسی‘‘ نے بھی اپنی مطبوعہ کُتب عطیہ کیں۔ اس کے علاوہ، جدید علوم پر نظر رکھنے والے معروف محقّق اور’’جی‘‘ کے مدیر، محمّد دین جوہر نے الیکٹرانک ورژن میں2 لاکھ کتابوں پر مشتمل یو ایس بی دی، جس میں ایسے علمی، تحقیقی مجلّے ہیں، جو پورے صوبے میں کہیں بھی موجود نہیں۔ پھر ہم نے کوشش کرکے اہم کتابوں کو فوٹو اسٹیٹ کی شکل میں بھی مرتّب کیا ہے۔‘‘
کتابوں کے معیار کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ مقتدرہ قومی زبان، سنگِ میل، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، مجلس ترقّیٔ ادب، لاہور، مجلس ترقّی اُردو، کراچی، اکیڈمی ادبیات، اقبال اکیڈمی، آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی اہم کتابیں لائبریری میں رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ نایاب کتابیں بھی، جو وہ مختلف مُمالک کے دَوروں کے دوران جمع کیں، لائبریری کی زینت ہیں۔ ہمارے کتب خانے میں ادبی مشاہیر کی نایاب کتب بھی موجود ہیں، جب کہ فارسی کے بہت ہی پرانے قلمی نسخے بھی ہیں، تو بین الاقوامی رسائل، جیسے فارن افیئرز، دی اکنامک، نیوز ویک اور ٹائم کے علاوہ ادبی شمارے بھی آتے ہیں۔ نیز، سی ایس ایس نصاب کی تمام کتابیں بھی یہاں ملتی ہیں، جب کہ لائبریری، پاکستان سوسائٹی آف کریمنالوجی کا سہ ماہی’’ پاکستان جرنل آف کریمنالوجی‘‘ بھی شایع کرتی ہے، جو ایچ ای سی سے منظور شدہ ہے۔ ‘‘ لائبریری میں موجود15 ہزار سے زاید کُتب کی موضوعات کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے، تو اس میں تاریخِ اسلام، تاریخِ عالم، تاریخِ ہندوستان، سوشیالوجی، کریمنالوجی، پولیٹیکل سائنس، بین الاقوامی امور، تصوّف، قرآن و حدیث، فارسی، اُردو، پشتو، انگریزی ادب، نظم ونثر، سوانح عُمری، تنقید، اقبالیات، غالبیات، فلسفہ، نفسیات، تاریخِ افغانستان اور دیگر موضوعات پر اُردو، پشتو، انگریزی اور فارسی کُتب موجود ہیں، جن سے ایم فِل، پی ایچ ڈی اسکالرز کے علاوہ، سی ایس ایس کے امیدوار استفادہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فصیح الدّین نے بتایا کہ’’ ریسرچ لائبریری ہر مہینے مختلف سماجی، معاشی، ادبی موضوعات پر پروگرامز کا بھی انعقاد کرتی ہے، جن میں بحث مباحثہ اور مکالمہ ہوتا ہے اور جن سے سوچ کی نئی راہیں کُھلتی ہیں۔ اس قسم کے پروگرامز کے لیے لائبریری میں’’ سلیم راز ہال‘‘ مختص کیا گیا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ معروف دانش وَر، سلیم راز لائبریری کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں۔’’ کیا حکومت بھی کوئی مدد کر رہی ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ نہیں، کوئی سرپرستی نہیں کی جارہی۔ سابق وزیرِ خزانہ نے بیس لاکھ کا اعلان کیا تھا، جس میں سے صرف7 لاکھ ہی ملے۔ پچھلے چند برسوں میں لائبریری کے لیے 11 لاکھ کی کتابیں خریدی گئیں، جب کہ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم، ادیبوں، شعرا اور دیگر اہلِ علم نے بہت ساتھ دیا ہے۔ شکیل نایاب، ابراہیم رومان، ڈاکٹر عمران، احمد ساجد، پروفیسر ڈاکٹر سمیع رضا، پروفیسر فرحت اللہ، پروفیسر ظفر بخشالی، پروفیسر ضیاء اللہ اور پروفیسر اشفاق نے لائبریری کے قیام و انتظام میں معاونت کی اور اب بھی کررہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فصیح الدّین کی قائم کردہ لائبریری تشنگانِ علم کے لیے بالکل مفت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اُردو میں بھی ایک ریسرچ جرنل نکالنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے، جانے مانے ادیبوں، لکھاریوں اور محقّقین، جیسے سلیم راز ،ناصر علی سیّد، مشتاق شباب، سعداللہ جان بر��، ابراہیم رومان، شکیل نایاب اور ڈاکٹر تاج الدّین تاجور کی رائے ہے کہ’’ ڈاکٹر فصیح الدّین نے ایک عظیم کام کی بنیاد ڈالی ہے۔ اب حکومت کی باری ہے کہ وہ اس لائبریری کے لیے کسی مرکزی مقام پر اراضی مختص کرے اور اس کے لیے سالانہ خطیر گرانٹ بھی مقرّر کرے تاکہ عوام کو مزید اچھی اور معیاری کتابیں مہیا کی جا سکیں‘‘۔ خیبر پختون خوا، بالخصوص پشاور میں مخیّر افراد کی کمی نہیں۔ اُن میں سے کئی ایک تو باقاعدہ اسپتال بھی چلارہے ہیں۔ اُن سے بھی گزارش کی جاسکتی ہے کہ فکری مفلسی بھی کسی بڑی بیماری سے کم نہیں، لہٰذا اُنھیں اس مشن میں بھی ہاتھ بٹانا چاہیے۔ نیز، جن لوگوں کے گھروں میں پڑی کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے، وہ بھی کتابیں عطیہ کرکے لائبریری میں اپنے لیے گوشہ قائم کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ میونسپل کارپوریشن، پشاور کی بھی، جس کی عمارت میں اب گرلز کالج قائم ہے، ایک لائبریری تھی، جس میں بیش قیمت اور نایاب کتب تھیں، وہ لائبریری یہاں سے گور گٹھڑی منتقل کی گئی، پھر وہاں سے کہیں اور۔ اور اب شاید بند ہے۔ اگر اس لائبریری کی کتابیں، فصیح الدّین ریسرچ لائبریری کو دے دی جائیں، تو یہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیمی نظام میں خامیوں کے باعث بھی نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل میں علمی اور فکری مفلسی بھی شامل ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اگر والدین ابتدا ہی سے بچّوں میں مطالعے کی عادت ڈالیں، تو نئی نسل میں برداشت اور رواداری کے رویّے فروغ پاسکتے ہیں۔ سرکاری اسکولز اور کالجز میں تو چھوٹی موٹی لائبریریز موجود ہوتی ہیں، تاہم نجی اسکولز کو کتب خانے قائم کرنے کا بھی پابند بنایا جائے۔نیز، اسکولز میں ہفتے میں ایک، دو پیریڈز لائبریری کے لیے بھی رکھے جائیں تاکہ بچّوں میں ابتدا ہی سے کتاب پڑھنے کی عادت پروان چڑھے۔
ڈاکٹر فصیح الدّین تخت بھائی میں پیدا ہوئے۔ ایڈورڈز کالج سے ایف ایس سی اور ایم بی بی ایس خیبر میڈیکل کالج، پشاور سے کیا۔1994ء میں سی ایس ایس میں کام یابی کے بعد بلوچستان سے ملازمت کا آغاز کیا۔ 2000ءمیں ایس پی، 2009ء میں ایس ایس پی اور 2018ءمیں گریڈ 20 میں ترقّی ملی۔ آئی بی، ایف سی اور ای�� آئی اے میں بھی خدمات سرانجام دیں، جب کہ کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج، ہنگو اور کمانڈنٹ پی ٹی سی، کوئٹہ بھی رہے۔ آج کل ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، خیبر پختون خوا ہیں۔ نیز، چین کی’’ پولیس یونی ورسٹی‘‘ میں ریسرچ فیلو اور’’ شنگھائی یونی ورسٹی‘‘ میں وزیٹنگ پروفیسر بھی ہیں۔ ضلع دیر کے مشہور روحانی پیشوا، حضرت تور باباؒ کی اولاد میں سے ہیں اور اتمان خیل قبیلے کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں۔ ایل ایل بی کے علاوہ، ایم اے پولٹیکل سائنس میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اِن دنوں اپنا سفرنامہ ترتیب دے رہے ہیں، جب کہ’’خامہ بہ جوش‘‘،’’ صحرا میں اذان‘‘،’’ سفر کی دھول‘‘ اُردو مضامین اور کالمز کے مجموعے ہیں۔ شخصیات پر بھی ایک کتاب زیرِ ترتیب ہے۔علاوہ ازیں،’’ درجنون چپے‘‘ پشتو شاعری کا مجموعہ ہے۔ ’’Expanding Criminology to Pakistan ‘‘ کے نام سے انگریزی میں کریمنالوجی پر پاکستان میں پہلی کتاب اور نصاب بھی ترتیب دے چکے ہیں۔ پاکستان جرنل آف کریمنالوجی(سہ ماہی) گزشتہ دس سال سے نکال رہے ہیں، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا تسلیم شدہ تحقیقی جریدہ ہے۔
The post پولیس افسر کی ’’ریسرچ لائبریری‘‘ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NUMD69 via Daily Khabrain
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
پولیس افسر کی ’’ریسرچ لائبریری‘‘
تحریر وتحقیق :اکرام اللہ مومند، پشاور
عکّاسی : تنزیل الرحمٰن بیگ
ڈاکٹر فصیح الدین نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے
بلاشبہ کُتب خانے معاشرتی ترقّی اور علمی آب یاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت میں تو کلام ہی نہیں کہ جس مُلک میں کتب خانے زیادہ ہوں، وہاں ادبی کلچر بھی زیادہ فروغ پاتا ہے، جس کے نتیجے میں اچھے اسکالرز پیدا ہوتے ہیں اور مجموعی طور معاشرے میں بھی سدھار آتا ہے۔ یہ کُتب خانے ہی تو ہیں، جو عام افراد کو اسکالرز، سائنس دانوں اور دیگر اہلِ علم سے ملاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مُلک کی ترقّی کا اندازہ وہاں قائم کُتب خانوں کی تعداد سے بھی لگایا جاتا ہے۔ امریکا میں لائبریریز کی تعداد 119448 ہے، جب کہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری،’’ دی لائبریری آف کانگریس‘‘ کا اعزاز بھی اسی مُلک کو حاصل ہے۔ اس لائبریری میں 3 کروڑ 40 لاکھ کتابیں، 30 لاکھ ریکارڈنگز، ایک کروڑ، تیس لاکھ تصاویر، پچاس لاکھ نقشے، 6کروڑ 60 لاکھ قلمی نسخے اور 7 لاکھ نایاب کتابیں ہیں۔’’ دی انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز‘‘ (IFLA) کے مطابق، پوری دنیا میں 350000 لائبریریز ہیں، جن میں سے 50،50 ہزار بھارت، روس اور چین میں ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی کُتب خانے ہیں، جن میں سے بعض تو عالمی شہرت کے بھی حامل ہیں۔ تمام یونی ورسٹیز اور کالجز کے علاوہ، لاہور، کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں’’ قائدِ اعظم پبلک لائبریریز‘‘ قائم ہیں، جب کہ پشاور میں’’ آرکائیوز لائبریری‘‘ کام کر رہی ہے۔اس کے علاوہ، مختلف تنظیموں اور اداروں کی جانب سے بھی سیکڑوں کُتب خانے شائقینِ مطالعہ کی پیاس بجھانے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، تو ایسے کُتب خانوں کی بھی کمی نہیں، جو مختلف افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیے ہیں۔
گو کہ نت نئی ایجادات نے دنیا بھر میں عوام کا کتاب سے تعلق کم زور کیا ہے، مگر ترقّی یافتہ مُمالک میں کتاب کلچر اب بھی بہت حد تک زندہ ہے اور وہاں لائبریریز سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بلامبالغہ کروڑوں میں ہے۔ کتابیں50 ، 50 کروڑ کی تعداد میں چَھپتی ہیں اور بِک بھی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان جیسے 20 کروڑ آبادی کے مُلک میں بیش تر کتابیں1000 کی تعداد میں چھاپی جاتی ہیں اور وہ بھی مدّتوں خریداروں کی راہ تکتی رہتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب وطنِ عزیزمیں جا بہ جا’’ آنہ لائبریریاں‘‘ ہوا کرتی تھیں، جہاں سے لوگ اپنی پسند کی کتاب گھر لے جاتے اور پڑھ کر واپس کردیتے، لیکن اب ایسے کُتب خانے اپنا وجود کھو چکے ہیں۔یوں تو کتاب سے دُوری کے کئی اسباب ہیں، تاہم ماہرین کے مطابق، کتاب کلچر کو سب سے زیادہ نقصان سوشل میڈیا نے پہنچایا ہے، کیوں کہ نوجوان سارا دن سماجی رابطوں کی مختلف ایپس ہی میں مگن رہتے ہیں۔ پھر یہ کہ الیکٹرانک میڈیا بھی عوام کو کتابوں سے دُور کرنے کا سبب بنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ دنیا کو ہماری انگلیوں کی پوروں پر لے آیا ہے اور اس کے ذریعے بھی علم کے بے کنارسمندر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔ ترقّی یافتہ ممالک میں ایسا ہو بھی رہا ہے، مگر ہمارے نوجوان زیادہ تر اس کا منفی استعمال ہی کر رہے ہیں، جس سے اُنھیں انٹرنیٹ سے کوئی علمی فائدہ حاصل نہیں ہو پا رہا۔سو، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کسی کتاب بے زار اور غیر علمی معاشرے میں ریسرچ لائبریری قائم کرنا کس قدر دل گُردے کا کام ہے، مگر اب بھی ایسے’’ سَر پھروں‘‘ کی کمی نہیں، جو اس طرح کے کاموں کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فصیح الدّین بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں، جنھیں کتاب سے جنون کی حد تک محبّت ہے۔
ریسرچ لائبریری قائم کرنے کا خیال کیسے آیا؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فصیح الدّین نے بتایا’’ مجھے بچپن ہی سے کتابوں سے شغف تھا۔ شبلی اور دیگر نام وَر لکھاریوں کی کُتب کی اس خیال اور عزم کے ساتھ فہرست بناتا رہتا کہ بڑا ہو کر وہ سب کتابیں خریدوں اور پڑھوں گا۔ جب تیسری جماعت میں تھا، تو دیوانِ داغ خریدا۔ پانچویں کلاس میں پشتو کے عظیم لکھاری، سیّد رسول رسا کی کتاب’’ارمغانی خوش حال‘‘ خریدی۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا۔ پھر یہ کہ کتاب پر تاریخِ خرید بھی ضرور لکھا کرتا تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کی تقریباً تمام کُتب پڑھ چکا تھا۔ نیز، ادب اور شعرو شاعری کی طرف رجحان کو مہمیز، پروفیسر پیر ظاہرشاہ کی صحبت کی وجہ سے ملی۔ وہ میرے بڑے بھائی، میجر ڈاکٹراسحاق (مرحوم) کو’’ گل نغمہ‘‘ پڑھانے ہمارے گھر آتے، تو مجھے بھی روزانہ ایک شعر سِکھاتے اور اگلے روز اُس کے بارے میں پوچھتے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ایڈورڈ کالج، پشاور میں داخلہ لیا، تو کتابوں تک رسائی آسان ہوگئی۔ اپنے جیب خرچ اور اسکالر شپ سے مذہبی، تاریخی، اُردو، پشتو لٹریچر کی کتابیں خریدنے کا سلسلہ مزید بڑھا دیا۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا’’ پروفیسر اسحاق وردگ نے خصوصی طور پر لائبریری کے قیام کی طرف مائل کیا اور لائبریری قائم کرنے میں بھرپور معاونت بھی کی۔ یوں نومبر2013 ء میں ریسرچ لائبریری قائم کرنے میں کام یابی ملی۔ ابتدا میں میری ذاتی کُتب کی تعداد 7000 تھی، پھر معروف کالم نگار، سعداللہ جان برق، ڈاکٹر محمّد شفیق، عبداللہ ثانی ایڈووکیٹ، ڈاکٹر حمایت اللہ یعقوبی، سلیم راز، ہمیش خلیل، پروفیسر حنیف خلیل، ڈاکٹر قبلہ ایاز، محمّد شاہد حنیف، احمد زین الدّین، مولانا ابو حامد، فضل ربی، پروفیسر عبدالرؤف،’’ اعراف‘‘ کے سربراہ، ایاز اللہ ترکزئی نے فراخ دِلی کے ساتھ کتابیں دیں۔ نیز،’’ یونی ورسٹی بُک ایجینسی‘‘ نے بھی اپنی مطبوعہ کُتب عطیہ کیں۔ اس کے علاوہ، جدید علوم پر نظر رکھنے والے معروف محقّق اور’’جی‘‘ کے مدیر، محمّد دین جوہر نے الیکٹرانک ورژن میں2 لاکھ کتابوں پر مشتمل یو ایس بی دی، جس میں ایسے علمی، تحقیقی مجلّے ہیں، جو پورے صوبے میں کہیں بھی موجود نہیں۔ پھر ہم نے کوشش کرکے اہم کتابوں کو فوٹو اسٹیٹ کی شکل میں بھی مرتّب کیا ہے۔‘‘
کتابوں کے معیار کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ’’ مقتدرہ قومی زبان، سنگِ میل، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، مجلس ترقّیٔ ادب، لاہور، مجلس ترقّی اُردو، کراچی، اکیڈمی ادبیات، اقبال اکیڈمی، آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی اہم کتابیں لائبریری میں رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ نایاب کتابیں بھی، جو وہ مختلف مُمالک کے دَوروں کے دوران جمع کیں، لائبریری کی زینت ہیں۔ ہمارے کتب خانے میں ادبی مشاہیر کی نایاب کتب بھی موجود ہیں، جب کہ فارسی کے بہت ہی پرانے قلمی نسخے بھی ہیں، تو بین الاقوامی رسائل، جیسے فارن افیئرز، دی اکنامک، نیوز ویک اور ٹائم کے علاوہ ادبی شمارے بھی آتے ہیں۔ نیز، سی ایس ایس نصاب کی تمام کتابیں بھی یہاں ملتی ہیں، جب کہ لائبریری، پاکستان سوسائٹی آف کریمنالوجی کا سہ ماہی’’ پاکستان جرنل آف کریمنالوجی‘‘ بھی شایع کرتی ہے، جو ایچ ای سی سے منظور شدہ ہے۔ ‘‘ لائبریری میں موجود15 ہزار سے زاید کُتب کی موضوعات کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے، تو اس میں تاریخِ اسلام، تاریخِ عالم، تاریخِ ہندوستان، سوشیالوجی، کریمنالوجی، پولیٹیکل سائنس، بین الاقوامی امور، تصوّف، قرآن و حدیث، فارسی، اُردو، پشتو، انگریزی ادب، نظم ونثر، سوانح عُمری، تنقید، اقبالیات، غالبیات، فلسفہ، نفسیات، تاریخِ افغانستان اور دیگر موضوعات پر اُردو، پشتو، انگریزی اور فارسی کُتب موجود ہیں، جن سے ایم فِل، پی ایچ ڈی اسکالرز کے علاوہ، سی ایس ایس کے امیدوار استفادہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فصیح الدّین نے بتایا کہ’’ ریسرچ لائبریری ہر مہینے مختلف سماجی، معاشی، ادبی موضوعات پر پروگرامز کا بھی انعقاد کرتی ہے، جن میں بحث مباحثہ اور مکالمہ ہوتا ہے اور جن سے سوچ کی نئی راہیں کُھلتی ہیں۔ اس قسم کے پروگرامز کے لیے لائبریری میں’’ سلیم راز ہال‘‘ مختص کیا گیا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ معروف دانش وَر، سلیم راز لائبریری کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں۔’’ کیا حکومت بھی کوئی مدد کر رہی ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ نہیں، کوئی سرپرستی نہیں کی جارہی۔ سابق وزیرِ خزانہ نے بیس لاکھ کا اعلان کیا تھا، جس میں سے صرف7 لاکھ ہی ملے۔ پچھلے چند برسوں میں لائبریری کے لیے 11 لاکھ کی کتابیں خریدی گئیں، جب کہ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ تاہم، ادیبوں، شعرا اور دیگر اہلِ علم نے بہت ساتھ دیا ہے۔ شکیل نایاب، ابراہیم رومان، ڈاکٹر عمران، احمد ساجد، پروفیسر ڈاکٹر سمیع رضا، پروفیسر فرحت اللہ، پروفیسر ظفر بخشالی، پروفیسر ضیاء اللہ اور پروفیسر اشفاق نے لائبریری کے قیام و انتظام میں معاونت کی اور اب بھی کررہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فصیح الدّین کی قائم کردہ لائبریری تشنگانِ علم کے لیے بالکل مفت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اُردو میں بھی ایک ریسرچ جرنل نکالنے کے خواہش مند ہیں ، لیکن وسائل کی کمی آڑے آرہی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے، جانے مانے ادیبوں، لکھاریوں اور محقّقین، جیسے سلیم راز ،ناصر علی سیّد، مشتاق شباب، سعداللہ جان برق، ابراہیم رومان، شکیل نایاب اور ڈاکٹر تاج الدّین تاجور کی رائے ہے کہ’’ ڈاکٹر فصیح الدّین نے ایک عظیم کام کی بنیاد ڈالی ہے۔ اب حکومت کی باری ہے کہ وہ اس لائبریری کے لیے کسی مرکزی مقام پر اراضی مختص کرے اور اس کے لیے سالانہ خطیر گرانٹ بھی مقرّر کرے تاکہ عوام کو مزید اچھی اور معیاری کتابیں مہیا کی جا سکیں‘‘۔ خیبر پختون خوا، بالخصوص پشاور میں مخیّر افراد کی کمی نہیں۔ اُن میں سے کئی ایک تو باقاعدہ اسپتال بھی چلارہے ہیں۔ اُن سے بھی گزارش کی جاسکتی ہے کہ فکری مفلسی بھی کسی بڑی بیماری سے کم نہیں، لہٰذا اُنھیں اس مشن میں بھی ہاتھ بٹانا چاہیے۔ نیز، جن لوگوں کے گھروں میں پڑی کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے، وہ بھی کتابیں عطیہ کرکے لائبریری میں اپنے لیے گوشہ قائم کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ میونسپل کارپوریشن، پشاور کی بھی، جس کی عمارت میں اب گرلز کالج قائم ہے، ایک لائبریری تھی، جس میں بیش قیمت اور نایاب کتب تھیں، وہ لائبریری یہاں سے گور گٹھڑی منتقل کی گئی، پھر وہاں سے کہیں اور۔ اور اب شاید بند ہے۔ اگر اس لائبریری کی کتابیں، فصیح الدّین ریسرچ لائبریری کو دے دی جائیں، تو یہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیمی نظام میں خامیوں کے باعث بھی نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل میں علمی اور فکری مفلسی بھی شامل ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اگر والدین ابتدا ہی سے بچّوں میں مطالعے کی عادت ڈالیں، تو نئی نسل میں برداشت اور رواداری کے رویّے فروغ پاسکتے ہیں۔ سرکاری اسکولز اور کالجز میں تو چھوٹی موٹی لائبریریز موجود ہوتی ہیں، تاہم نجی اسکولز کو کتب خانے قائم کرنے کا بھی پابند بنایا جائے۔نیز، اسکولز میں ہفتے میں ایک، دو پیریڈز لائبریری کے لیے بھی رکھے جائیں تاکہ بچّوں میں ابتدا ہی سے کتاب پڑھنے کی عادت پروان چڑھے۔
ڈاکٹر فصیح الدّین تخت بھائی میں پیدا ہوئے۔ ایڈورڈز کالج سے ایف ایس سی اور ایم بی بی ایس خیبر میڈیکل کالج، پشاور سے کیا۔1994ء میں سی ایس ایس میں کام یابی کے بعد بلوچستان سے ملازمت کا آغاز کیا۔ 2000ءمیں ایس پی، 2009ء میں ایس ایس پی اور 2018ءمیں گریڈ 20 میں ترقّی ملی۔ آئی بی، ایف سی اور ایف آئی اے میں بھی خدمات سرانجام دیں، جب کہ کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج، ہنگو اور کمانڈنٹ پی ٹی سی، کوئٹہ بھی رہے۔ آج کل ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، خیبر پختون خوا ہیں۔ نیز، چین کی’’ پولیس یونی ورسٹی‘‘ میں ریسرچ فیلو اور’’ شنگھائی یونی ورسٹی‘‘ میں وزیٹنگ پروفیسر بھی ہیں۔ ضلع دیر کے مشہور روحانی پیشوا، حضرت تور باباؒ کی اولاد میں سے ہیں اور اتمان خیل قبیلے کے سرپرستِ اعلیٰ بھی ہیں۔ ایل ایل بی کے علاوہ، ایم اے پولٹیکل سائنس میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اِن دنوں اپنا سفرنامہ ترتیب دے رہے ہیں، جب کہ’’خامہ بہ جوش‘‘،’’ صحرا میں اذان‘‘،’’ سفر کی دھول‘‘ اُردو مضامین اور کالمز کے مجموعے ہیں۔ شخصیات پر بھی ایک کتاب زیرِ ترتیب ہے۔علاوہ ازیں،’’ درجنون چپے‘‘ پشتو شاعری کا مجموعہ ہے۔ ’’Expanding Criminology to Pakistan ‘‘ کے نام سے انگریزی میں کریمنالوجی پر پاکستان میں پہلی کتاب اور نصاب بھی ترتیب دے چکے ہیں۔ پاکستان جرنل آف کریمنالوجی(سہ ماہی) گزشتہ دس سال سے نکال رہے ہیں، جو ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کا تسلیم شدہ تحقیقی جریدہ ہے۔
The post پولیس افسر کی ’’ریسرچ لائبریری‘‘ appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2NUMD69 via Urdu News
0 notes