Tumgik
#Altaf Hussain Hali
Text
مولانا الطاف حسین حالی
کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑہائیں شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
2 notes · View notes
pakistanwink · 9 days
Text
Woh Nabion Main Rehmat - A Heartfelt Naat by Altaf Hussain Hali
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
bazm-e-ishq · 3 years
Text
Tumblr media
—"Munajat-e-bewa", Altaf Hussain Hali
50 notes · View notes
bazmeurdu · 3 years
Text
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
الطاف حسین حالی
6 notes · View notes
urduclassic · 5 years
Text
الطاف حسین حالیؔ بحیثیت شاعر
مولانا الطاف حسین حالیؔ کو ابتدا ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ اگرچہ ان کی باضابطہ تعلیم نہیں ہو سکی تھی لیکن شادی کے بعد جب وہ دہلی گئے اور وہاں نواب مصطفی خاں شیفتہؔ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے تو ان کے شعری ذوق کو جِلا ملی۔ وہیں شیفتہؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لینے لگے۔ شیفتہؔ نے ان کا تخلص خستہؔ رکھا لیکن غالبؔ کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہونے کے بعد اپنا تخلص حالیؔ اختیار کیا۔ ابتدا میں وہ روایتی انداز کی غزلیں لکھتے رہے مگر جب سرسید احمد خاں سے ملاقات ہوئی تو حالیؔ کے شعری رویہ میں تبدیلی آئی۔ ’’مسدس‘‘ میں ان تبدیلیوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے، بعد میں جب انجمن پنجاب لاہور سے وابستہ ہوئے تو کرنل ہالرائیڈ کے مشورے سے نظموں اور قومی اور وطنی شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ 
حالیؔ نے اگرچہ بحیثیت نظم نگار نام کمایا ہے لیکن ان کے سرمایہ سخن میں غزل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی غزلیں روایتی موضوعات سے قریب ہوتے ہوئے بھی توازن اور اعتدال کی کیفیت رکھتی ہیں، ان کی آواز اور لہجہ میں دھیما پن ہے۔ حالیؔ نے نظم نگاری میں صرف نیچرل شاعری کی بنیاد ہی نہیں رکھی بلکہ شاعری کی مختلف روایتی اصناف کو جدید انداز سے استعمال کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا۔ انہوں نے مثنوی میں عشقیہ، رزمیہ اور متصوفانہ موضوعات کے بجائے عصری مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔ 
انہوں نے پہلی مرتبہ ’’چپ کی داد‘‘، ’’بیوہ کی مناجات‘‘میں عورتوں کے اور خصوصیت سے بیوہ عورت کے ناگفتہ بہ حالات کی ایسی سچی اور حقیقی تصویر پیش کی جس سے اردو ادب اس وقت تک خالی تھا۔ حالیؔ نے حُبِ وطن، فطرت پرستی اور ملک کے سیاسی اور معاشرتی حالات پر شاندار نظمیں تخلیق کیں، ان نظموں کی زبان سادہ ہے اور ضرب الامثال سے ان کو جگمگا دیا ہے۔ حالیؔ نے نظم نگاری کے میدان میں شخصی مرثیہ کی بنیاد ڈالی اور غالب، مومن، ملکہ وکٹوریہ اور محسن الملک پر مرثیے لکھے۔ ان میں جن پر مرثیے لکھے ہیں ان اشخاص کے اخلاق اور بہترین اوصاف کو شعر کے پیکر میں ڈھالا۔ ساتھ ہی ان کی خدمات کا ذکر بھی کیا ہے۔ 
ڈاکٹر اقبال مسعود
3 notes · View notes
hamzahiznog0ud · 3 years
Text
Vo ummeed kya jis ki ho intiha,
Vo vaadaah nahin jo vafa ho gaya.
- Altaf Hussain Hali
0 notes
urdutahzeeb · 5 years
Text
غزل : بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
Tumblr media
الطاف حسین حالی بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ مبادا کے ہو جائے نفرت زیادہ تکلف علامت ہے بیگانگی کی
0 notes
Text
حاؔلی‎
خدا نے اُنھین کو بِگاڑا ہے اب تک
جو بِگڑا نہین آپ دُنیا مین جب تک
2 notes · View notes
adeelzaidi · 3 years
Text
Urdu Poetry | Best Urdu Poetry | Famous Urdu Poets
URDU POETRY Urdu poetry reached is peak in the 19th century. The most well-developed vessel of poetry has turned out to be the ghazal, which has by far exceeded all other forms of Urdu poetry by its quality and quantity within the cosmos of Urdu.Best Urdu Poetry Poets 13th-century:
Amir Khusro 16th century:
Muhammad Quli Qutub Shah – wrote poetry primarily in Persian, but also in Hindavi 17th century:
Wali Mohammed Wali Deccani Mirza Mazhar Jan-e-Janaan 18th century:
Faaiz Dehlvi Khan Arzu Mubarak Abru Mir Taqi Mir Nazeer Akbarabadi Khwaja Mir Dard 19th century:
Mirza Salaamat Ali Dabeer Mir Babar Ali Anis Bahadur Shah II Mirza Sauda Mirza Ghalib Mohammad Ibrahim Zauq Dagh Dehlvi 20th century:
Altaf Hussain Maulana Hali Akbar Allahabadi Muhammad Iqbal Hasrat Mohani Amjad Hyderabadi Fani Badayuni Yagana Changezi Akhtar Shirani Miraji Seemab Akbarabadi Aarzoo Lakhnawi Jigar Moradabadi Firaq Gorakhpuri Hafeez Jalandhari Josh Malihabadi Ahsan Danish Saghar Nizami Mehr Lal Soni Zia Fatehabadi Noon Meem Rashid Majeed Amjad Faiz Ahmad Faiz Jan Nisar Akhtar Nasir Kazmi Sahir Ludhianvi Jagan Nath Azad Majrooh Sultanpuri Asrarul Haq Majaz Syed Mahmood Khundmiri Ibn-e-Insha Munir Niyazi Ada Jaffery Zafar Iqbal 21st century:
Jaun Elia Ahmad Faraz Raees Warsi Akhlaque Bandvi Rahat Indori Waseem Barelvi Ishrat Afreen Manzar Bhopali Adeel Zaidi
Famouse Urdu Poetry
11 notes · View notes
kbr8 · 4 years
Video
youtube
Maulana Altaf Hussain Hali - Us Ke Jate Hi Ye Kya Ho Gai Ghar Ki Soorat - Best Urdu Poetry
1 note · View note
safdarrizvi · 5 years
Text
Ham Jis Pe Mar Rahe Hain Wo Hai Baat Hi Kuchh Aur,
Aalam Mein Tujh Se Laakh Sahi Tu Magar Kahan
~ Altaf Hussain Hali
27 notes · View notes
bazmeurdu · 4 years
Text
مولانا حالیؔ : ایک ہمہ جہت شخصیت
شعر و ادب سے شغف رکھنا یا شاعری میں نام پیدا کرنا کسی طبقے یا ذات سے مخصوص نہیں۔ اسی طرح کسی ہمہ جہت شخصیت کو عرصہ ہنر میں داخل ہونے یا بحیثیت نثر نگار مختلف اصناف نثر میں کمالات دکھانے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس ہنر کی بدولت آدمی کا اعتبار بڑھتا ہے اور وہ عصری تقاضوں سے بہرہ ور ہونے کے نتیجے میں تعمیری سوچ اور لفظ کی قوت کا ادراک رکھنے کا ثبوت اس طرح فراہم کرتا ہے کہ وہ بحیثیت شاعر‘ نقاد‘ سوانح نگار یا مصلح معاشرتی ضرورت بن کر ابھرتا ہے۔ وہ پاکیزہ جذبوں اور خوابوں کو مروجہ اصناف میں بے کم و کاست اپنے عہد سے عہد مستقبل کے قاری تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کے زمانے کا مسلمان بے یقینی کی اذیت میں مبتلا ہو چکا تھا‘ اس کرۂ ارض پر جسے جنوبی ایشیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ مسلمان کی مثال ایک نو گرفتار پرندے کی سی تھی جو سات سمندر پار سے آئے سفید فام شکاری کے ہاتھوں زیردام آیا‘ یہ پرندہ اسیر قفس ہوا۔
غالبؔ نے اپنے شاگرد عزیز مولانا حالیؔ کو مشورہ دیا کہ شعر نہیں کہو گے تو خود پر ظلم کروں گے۔ یہ مشورہ حالیؔ کی شخصیت اور فن میں ایسا نکھار پیدا کرنے کا سبب بنا کہ ''مدوجزر اسلام‘‘ کی تخلیق میں تاریخی شواہد کے ساتھ سادگی اور پرکاری کا معجزہ دلوں کو تسخیر کرنے لگا‘ بظاہر مسدس حالیؔ جیسا کارنامہ سرسید کی فرمائش پر انجام پایا اور سرسید نے اپنی بخشش کا جواز ڈھونڈ لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ حالیؔ کے دل میں ایک ایسا گھائو تھا جو مسدس کی تخلیق میں کام آیا۔ مسدس حالیؔ کی اشاعت سے اشاعتی اداروں نے لاکھوں کمایا مگر مولانا حالی نے قناعت پسندی کو شعار زندگی بنا کر یہ ثابت کیا کہ ضروریات زندگی سے زیادہ اعلیٰ مقصد زندگی کو عزیز رکھنا چاہیے۔ مولانا میں قناعت کے ساتھ عجز و انکسار کا جذبہ ان کی شخصیت کی دلکشی میں نمایاں اضافہ کرنے کا موجب ٹھہرا‘ ان کی خاکساری دوسرے ہم عصر اہل قلم کو سربلند کرنے میں صرف ہو گئی۔
حالیؔ کو بحیثیت نقاد اپنی اصلاح پسندی اور معتبر حوالوں کے باعث اردو زبان و ادب میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ تنقیدی سرمائے میں اب تک جتنا اضافہ ہو اس کا نقطہ آغاز مولانا حالیؔ کے مقدمے کی صورت میں ہمیشہ ہمارے سامنے رہے گا۔ حالیؔ انگریزی زبان سیکھنے میں اپنے ہم عصر یا بعد میں آنے والے اہل قلم سے پیچھے رہے لیکن لاہور میں قیام کے دوران میں انہوں نے تراجم سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور بالواسطہ انگریزی ادب سے روشناس ہوئے۔ ان کی وضع داری کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ ان کی تحریر کتابت کے لیے بھیجی گئی جس میں منبر کی بجائے حالیؔ نے ممبر (Member) لکھا ہوا تھا۔ کاتب قدرے پریشان ہوا اور صحیح لفظ‘ م۔ن۔ب۔ر کتابت کی۔ مولانا سے ایک مجلس میں ملاقات ہوئی‘ کاتب نے رازدارانہ انداز میں اپنی یہ بات ان کے گوش گزار کی‘ مولانا حالیؔ نے کاتب کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے اور کاتب کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کاتب جب اور جہاں ملتا مولانا حالیؔ دوستوں کو بتاتے کہ یہ میرے محسن ہیں‘ انہوں نے مجھے میری غلطی پر نا صرف آگاہ کیا بلکہ اسے درست بھی کیا۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ''حیات جاوید‘ یادگار غالب‘ حیات سعدی اور مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے جو شہرت پائی اس سے کہیں زیادہ ''مسدس حالی‘‘ ان کی شہرت کا سبب قرار پائی‘ ان کی غزلیں اور نظمیں بھی بلند پایہ اور آفاقی سچائیوں کی مظہر ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ شعر و ادب تو انسانی زندگی کا ایک ایسا سرچشمہ ہے جو انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے انسان کی چند بنیادی ضرورتوں کی اسی طرح سیرابی کرتا ہے جس طرح علوم نافعہ اور فنون مفیدہ اجتماع کے چند عملی شعبہ ہائے زندگی کو سیراب و شاداب کرتے ہیں‘ ادب تخیل کی بیکار جولانی کا نام نہیں بلکہ اس کا صحیح عمل انسانی شخصیت کی تکمیل اور انسانی اجتماع کی خدمت ہے۔ اس اعتبار سے مولانا حالیؔ نے برصغیر پاک وہند کے مسلم معاشرے کے افراد کی خدمت کی ہے۔ 
وہ نہایت مخلص‘ پروقار اور دیدہ بیدار صاحب قلم تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی مضمحل قوت کا علاج کرنا تھا وہ ایک کامیاب چارہ گر ثابت ہوئے۔ مسلمانوں کے لیے بیداری کا سامان حالیؔ نے کیا اور بعد میں شاعر مشرق نے اس پیغام بیداری کو عام کیا۔ مولانا حالیؔ کی بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا اور یہ جاننا کہ معیاری معتبر اور اعلیٰ پائے کے ادب میں تاثیر کا وصف خلوص اور صداقت کی بدولت پیدا ہوتا ہے یقینا مولانا حالیؔ کے ہاں خلوص اور صداقت بدرجہ اتم موجود ہے یہ تمام عناصر ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور جدید رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا حالی کی تخلیقات جدید رجحانات اور نئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ صحت مند ادبی روایات کی بازیافت کا وسیلہ بھی ثابت ہوئیں۔ موجودہ عہد میں دینی مابعد الطبیعیات کا سب سے زیادہ متحرک اور فعال ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی بنیاد پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ 
کسی قوم کی تہذیب‘ تہذیبی اقدار اور روایات ادبی سرمائے کی صورت میں محفوظ رہتی ہیں‘ آج بھی سرسید‘ غالبؔ‘ شبلی اور محمد حسین آزادؔ وہ ارکان خمسہ ہیں جن کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ادھورا اور ناقص کہلائے گا‘ ان میں مولانا حالیؔ کی نثر اور نظم کی بدولت مستقبل کا ادب پروان چڑھا اور جدید دور میں حالیؔ اپنی فکر اور زبان دونوں اعتبار سے صالح تہذیبی اقدار کے تحفظ اور تسلسل کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوت متخیلہ یا قوت مدرکہ کے علاوہ قوت ممیزہ کی بدولت اپنے فن اور مقصدیت میں حسین امتزاج کو برقرار اور اپنی تخلیق کو قاری کے معیار فکرونظر سے ہم آہنگ رکھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اصلاح شعر کی تحریک سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے اہمیت نہ دینا اور ان کی بات کو مذاق میں اڑا دینا اپنے اندر کے خلا کا اقرار کرنا ہے۔
حسن عسکری کاظمی
2 notes · View notes
Photo
Tumblr media
Altaf Hussein Ki Funny Remix Video Altaf Hussein Ki Funny Remix Video ֎Watch More: ֎Click link for Sports News ❤ ֎Click link for Breaking News ❤https:...
0 notes
urduclassic · 6 years
Text
اردو تنقید کا پس منظر
اردو تنقید کا آغاز الطاف حسین حالی کی تصنیف ’’مقدمۂ شعرو شاعری‘‘ سے ہوتا ہے۔ دراصل ’’مقدمۂ شعروشاعری‘‘ دیوانِ حالی کا مقدمہ ہے جو انہوں نے اپنی شاعری کے جواز کے لیے قلم بند کیا تھا۔ لیکن یہ نئی شاعری کا جواز بن گیا۔ حالی کے تنقیدی خیالات ان کی لکھی ہوئی سوانح عمریوں اورمقالاتِ حالی میں بھی ملتے ہیں۔ لیکن ’’مقدمۂ شاعرو شاعری‘‘ میں انہوں نے مرتب طریقے سے اپنے تصورات نقد کا اظہار کیا ہے۔ اس تصنیف کے دو بڑے حصے ہیں: 
۱۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے نظریہ قائم کیا ہے۔ ۲۔ وہ حصہ جس میں انہوں نے اردو شاعری کی مختلف اصناف پر اپنے قائم کردہ نظریے کا اطلاق کیا ہے۔ حالی نے جن امور پر خصوصی طور پر اصرار کیا، وہ درج ذیل ہیں: ۱۔ شاعری کا مقصد کیا ہے۔ ۲۔ اس کا معاشرتی زندگی سے کیا تعلق ہے۔ ۳۔ معاشرتی زندگی اور اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۴۔ معاشرے کے اخلاق کا شاعری پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ۵۔ شاعری کی شرائط کیا ہیں۔ ۶۔ شاعری میں کمال کیسے حاصل کیا جائے۔ ۷۔ شاعری کی اصلاح کیوں ضروری ہے۔ ۸۔ تقلید کی وجہ سے شاعری کا دائرہ تنگ کیوں ہو جاتا ہے؟ 
حالی کے نزدیک شاعری محض مرصع کاری نہیں ہے بلکہ اس کی بہت بڑی خوبی اس کی افادیت میں چھپی ہوئی ہے۔ قوموں کی زندگی کو بدلنے کی اس میں صلاحیت ہوتی ہے۔ بامقصد شاعری سوسائٹی کے اخلاق کو سدھارتی اور اجتماعی زندگی کو ایک لائحہ عمل مہیا کرتی ہے۔ اسی لیے حالی شاعری کو سوسائٹی کے تابع قرار دیتے ہیں۔ حالی وہ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے تخیل، مطالعۂ کائنات اور الفاظ کی اہمیت جتلائی اور یہ بتایا کہ شاعری کے لیے اصلیت یعنی حقیقت پسندی، سادگی یعنی سلاستِ اسلوب و سلاست خیال اور جوش یعنی اثر آفرینی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ حالی کے علاوہ محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب میں جو لیکچر دیے تھے ان میں بھی گہری ناقدانہ بصیرت ملتی ہے جیسے فرسودہ خیالات اور تقلیدی خیالات کے برخلاف نئے خیالات کی طرف انہوں نے توجہ دلائی۔ 
انہوں نے شاعری کے منصب کی طرف بھی واضح اشارے کیے اور شاعری کی ماہیت کو بھی موضوع بحث بنایا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شاعری کب عروج حاصل کرتی ہے اور کن وجوہ سے اسے زوال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ حالی کی طرح آزاد بھی شاعری کی اثر آفرینی کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاعری اگر نیچرل ہے تو اس میں شائستگی، پاکیزگی اور تاثیر بھی ہو گی۔ آزاد نے لسانیاتی بحثیں بھی کی ہیں۔ انہوں نے زبان کی ابتدا کے بارے میں اپنے خیال کا اظہار یوں کیا: ’’زبان وہ اظہارِ خیال کا وسیلہ ہے کہ ان متواتر آوازوں کے سلسلے میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں تقریر یا سلسلۂ الفاظ یا بیان یا عبارت کہتے ہیں۔ یہ بیان یا عبارت ہمارے خیالات کی زبانی تصویر ہے۔‘‘
آزاد نے حروف، اصوات، الفاظ اور ان کے اثر پر بھی اظہار خیال کیا اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح زبانیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور ان اثرات کی بنا پر قوموں میں کس کس قسم کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک اصلی زبان عوام کی زبان ہوتی ہے، خواص کی نہیں۔ آزاد کو ہم حالی کی طرح باقاعدہ نقاد نہیں کہہ سکتے۔ وہ تذکرہ نگار اور مؤرخ تھے لیکن بکھری ہوئی شکل میں اور ’’آبِ حیات‘‘ میں جگہ جگہ ان کے خیالات میں جو تازگی ملتی ہے اس سے ان کی تنقیدی جودت کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ حالی کے علاوہ شبلی کے تنقید تصورات بھی اردو تنقید کی تاریخ میں ایک اہم درجہ رکھتے ہیں۔ شبلی ایک مفکر اسلام، ایک مؤرخ، ایک سوانح نگار، ایک شاعر اور ایک نقاد کی حیثیت سے بھی اہم درجہ رکھتے ہیں۔
عتیق اللہ
3 notes · View notes
hamzahiznog0ud · 3 years
Text
Hoti nahin qubul dua tark-e-ishq ki,
Dil chahta na ho to zubaan mein asar kahan..
- Altaf Hussain Hali
0 notes
Tumblr media
Maulana Altaf Hussain Hali, the famous Urdu📜 poet 📝and author 📰of the Masnavi🗞️ Mad-e-Jazr-e-Islam, passed away☠️ in Safar,Thirteen hundred and thirty three Hijri 1️⃣3️⃣3️⃣3️⃣🏨/ December,ninteen hundred and fourteen Anno Domini1️⃣9️⃣1️⃣4️⃣🅰️D. صفر،تیرہ سو تینتیس ہجری 1️⃣3️⃣3️⃣3️⃣ ھ/ دسمبر انیس سو چودہ عیسوی1️⃣9️⃣1️⃣4️⃣ء میں اُردو📜 کے مشہور شاعر 📰اور مثنوی🗞️ مدّ و جزر اسلام کے مصنف📝 مولانا الطاف حسین حالی فوت☠️ ہوئے۔ #ALLAH #Muhammad(PBUH) #DailyStatuses #IslamicHistoryEvents #IslamicInfo #Instagram #Whatsapp #Twitter #Facebook #Tumbler #Okru #Ameba #IMO #Telegram #MSKGB #Pakistan #Punjab #Bahawalpur #Khan #Gopang #Baloch #Urdu #halli #altafhussain #Safar #1333 hijri #december #1914 AD #Death #masnawi (at India) https://www.instagram.com/p/CUADFVqojdo/?utm_medium=tumblr
0 notes