Tumgik
#مافیا پیش
shiningpakistan · 5 months
Text
پاکستانی بھکاریوں کے دنیا میں چرچے
Tumblr media
بیرون ملک پاکستانی بھکاریوں کے بارے میں حالیہ خبر نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں کہ ’’خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔‘‘ یہ ہوشربا انکشاف گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس میں سامنے آیا اور سیکریٹری اوورسیز ذوالفقار حیدر نے اجلاس میں شریک حکام کو مزید حیرت زدہ کر دیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔ سیکریٹری اوورسیز کے مطابق صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کر کے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرہ کے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستانی پیشہ ور بھکاریوں کی سرگرمیاں صرف سعودی عرب تک محدود نہیں بلکہ یو اے ای بھی پھیل گئی ہیں۔ صرف رمضان المبارک کے دوران یو اے ای میں پہلے دو عشروں میں 200 سے زیادہ پیشہ ور پاکستانی بھکاری پکڑے اور 5 ہزار درہم جرمانہ کی ادائیگی کے بعد ڈی پورٹ کئے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ 
یہ بھکاری یو اے ای کی نرم ویزا پالیسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئے تھے تاکہ لوگوں کی رحمدلی کا فائدہ اٹھا کر بھاری رقم بٹوری جاسکے۔ سعودی عرب اور یو اے ای حکام نے پاکستانی حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے اور اور درخواست کی ہے کہ گداگروں کو ان ممالک میں آنے سے روکا جائے کیونکہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں سے بھری ہوئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ پکڑے جانے والے بھکاریوں کو اب پاکستانی قونصلیٹ اور سفارتخانوں کے حوالے کیا جارہا ہے جبکہ یو اے ای حکومت نے پاکستانیوں کیلئے ویزے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح ایران اور عراق سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان ممالک میں بھی زیارت کے نام پر وہاں جا کر گداگری کا پیشہ اختیار کرنے والے پاکستانیوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور ان ممالک کی حکومتوں نے بھی حکومت ِپاکستان سے شکایت کی ہے۔ گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے حوالے سے یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ملتان ائیرپورٹ پر عمرے کی آڑ میں سعودی عرب جانے والے بھکاریوں کے ایک گروہ کو آف لوڈ کر دیا گیا۔ ایف آئی اے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان مسافروں سے امیگریشن حکام کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ افراد بھیک مانگنے کیلئے سعودی عرب جارہے تھے جہاں ایجنٹ ان کا منتظر تھا اور بھیک کی آدھی رقم اس ایجنٹ کو دینی تھی۔ 
Tumblr media
اطلاعات ہیں کہ یہ ایجنٹ ان افراد سے بیرون ملک بھیجنے کیلئے بھاری رقم وصول کرتے ہیں اور یہ ایجنٹ ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اسی طرح یو اے ای سے ڈی پورٹ کئے جانے والے پاکستانی بھکاریوں نے فی کس 5 ہزار درہم جو تقریباً 4 لاکھ روپے بنتے ہیں، جرمانہ یو اے ای حکومت کو ادا کیا۔ اس طرح اگر ٹکٹ، ویزا، رہائش اور ٹرانسپورٹ اخراجات بھی شامل کر لئے جائیں تو ایک بھکاری پر 10 لاکھ روپے بنتے ہیں جو معمولی رقم نہیں اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک میں پکڑے جانے والے غریب افراد نہیں بلکہ فیملی سمیت عرب ممالک جا کر پیشہ ور بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں اور صاحب حیثیت لوگوں کو دیکھ کر انہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے اور بھاری رقم بٹورتے ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی پاکستانی بھکاریوں کے حوالے سے منظر عام پر آنے والی خبروں کوخوب مرچ مسالہ لگا کر پیش کر رہا ہے اور مختلف وی لاگ میں تضحیک آمیز تبصرے کئے جارہے کہ پاکستان دنیا کو بھکاری (Beggars) ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ 
اس طرح کے تبصرے پاکستان کی تضحیک کا سبب بن رہے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی ساکھ مجروح ہو رہی ہے بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ان واقعات کے بعد وہاں مقیم پاکستانی ورکرز کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بھیک مانگنے پر 3 سال قید کی سزا ہے مگر وکلاء اور پولیس حکام کے بقول ان پیشہ ور بھکاریوں کو یہ سزا کم ہی ملتی ہے اور وہ معمولی جرمانہ ادا کر کے دوبارہ اپنا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پیشہ ور بھکاریوں اور اس دھندے میں ملوث مافیا سے سختی سے نمٹا جائے اور سخت قوانین مرتب کئے جائیں تاکہ یہ افراد ملک کی بدنامی کا سبب نہ بن سکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں، جو وبا کی صورت اختیار کر گئے ہیں، کے خاتمے کیلئے بھی موثر اقدامات کیے جائیں اور ان ایجنٹس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو لوگوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر انہیں گداگری کیلئے اکسا رہے ہیں۔ اسی طرح خلیجی ممالک سے ڈی پورٹ کئے جانے والے بھکاریوں کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے تاکہ یہ افراد دوبارہ ان ممالک کا سفر نہ کر سکیں۔
مرزا اشتیاق بیگ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
اقتدار میں آ کر ��راچی سے ٹینکر مافیا کا خاتمہ کردیں گے، شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اقتدار میں شہر قائد سے ٹینکر مافیا کا خاتمہ کریں گے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ کراچی روشنیوں کا شہرہے، یہاں کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، کراچی ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، پاکستان بھر سے لاکھوں لوگ روزگار کے لیے یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی گیٹ وے ہے، نواز شریف نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
mafiapish · 4 years
Text
https://mafiapish.com/2020/04/25/%d9%85%d8%b9%d8%b1%d9%81%db%8c-%d8%b3%d8%a7%db%8c%d8%aa-%d8%b1%d9%88%d9%85%d8%a7%d8%a8%d8%aa/
1 note · View note
pakistantime · 3 years
Text
ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری
نوجوانوں سے التماس ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال کر اِس تحریر کو ذرا غور سے ضرور پڑھیے اور خود سے سوال کیجیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ کیسا لیڈر آپ کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھر سکتا ہے؟ آپ جن لیڈروں کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، ایسی نفرتوں کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، احتجاج بھی ایسا کرتے ہیں کہ لاشیں گرتیں اور ماؤں کی گودیں اُجڑ جاتی ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان دنیا بھر میں تہذیب یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہو۔ نفرتوں سے پاک پاکستان میری بھی خواہش ہے اور آپ کی بھی تو کیوں نہ ماضی سے سبق حاصل کر کے آگے بڑھیں۔ میری عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایک تو ایسا ہو جو اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے حق سچ کی بات کہے اور میدانِ عمل میں آئے، جو ہم جیسا ہو، ہمارے دکھ درد سمجھنے والا، جسے ایک مثالی رول ماڈل لیڈر کے طور پر پیش کیا جا سکے کہ ایسا ہوتا ہے ایک سلجھا ہوا رہنما جو دلیل سے آپ کی بات حکمرانوں تک پہنچا سکے اور اس کی بات پر لاکھوں لوگ صدقِ دل سے آمین کہیں۔ 
سو ایک ملا ہے ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری۔ ذرا پڑھیے وہ کیا چاہتا ہے۔ ”ہم سی پیک کی مد میں کوئی موٹروے نہیں مانگ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ گوادر، مکران کی سڑکوں پر سنگِ مر مر کی ٹائلیں لگا دیں۔ ہمارے بلاک سونے کے بنا دیں۔ ہمیں محلات، ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جو قدرت کی طرف سے ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحل ہے جس سے ہزاروں سال سے ہمارے آباؤ اجداد روزگار حاصل کرتے تھے، خوش حالی کی زندگی گزار رہے تھے، بدقسمتی سے چند برسوں سے وفاقی و صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں ٹرالر مافیا سمندری حیات کی نسل کشی کر رہا ہے۔ غیرقانونی ماہی گیری کے لیے ممنوعہ جال استعمال کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں نایاب ہو گئی ہیں اُن کی نسلیں ختم کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ہم سمندر میں مزدوری کرتے ہیں، حکمران ٹیکس مانگتے ہیں تو ہم ٹیکس دیں گے، پیسے مانگتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ حکومت ہمیں پیسے نہ دے، ہم حکومت کو پیسے دے دیتے ہیں لیکن خدارا ہمارا روزگار ہم سے نہ چھینا جائے۔ 
دوسرا یہ کہ بلوچستان کے 5اضلاع ایران کے بارڈر پر ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ایران سے اشیائے خورونوش آتی ہیں۔ ان اضلاع کو ایران بجلی، گیس اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرتا ہے۔ ایرانی بارڈر کی بندش کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اگر سیکورٹی ضروری ہے تو ضرور فراہم کریں۔ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن آزادانہ باعزت روزگار کی فراہمی بھی سرکار اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ تیسرا چیک پوسٹوں کا مسئلہ ہے۔ ہم تو سی پیک سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ گوادر پورٹ، سی پیک روڈ سے ہمیں روزگار ملے گا، تعلیم ملے گی، اسپتال ملیں گے، ہماری زندگی اچھی ہو جائے گی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ ہمیں یہ تمام سہولتیں یہاں ملیں گی لیکن سی پیک سے ہمیں صرف چیک پوسٹیں ملیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں لیکن ایک پتھر بھی نہیں ہلا، پاکستان کے حکمران دیکھ لیں ہماری ریلی ناراض بلوچوں کی ریلی ہے جو حکمرانوں اور نظام کے خلاف ہے۔ 
ہم ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں۔ ہم آئینِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں، ہم سی پیک اور ترقی کے خلاف بھی نہیں لیکن ہمیں اس سے کیا ملا؟ علاج معالجے کے لیے ایک بھی اسپتال نہیں ملا، ہماری عزتِ نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کو تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کے لیے ٹیچر مانگنا جرم بن گیا ہے۔ حق کی بات کرتے ہیں تو غداری کے سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا ہے۔ بتایا جائے کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کہاں سے ملیں گے؟ اہلِ بلوچستان اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ ریاستِ پاکستان میں اگر حق مانگنا جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے۔ ہم محبِ وطن شہری ہیں، ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ اس پُرامن احتجاج کو دیکھ کر ذرا بتائیے کہ یہ حب الوطنی ہے ی�� غداری ؟ ہمارا نوجوان غدار نہیں، ہمارے مطالبات میں ایسا کیا ہے جو ہمیں غدار کہا جارہا ہے؟ ایک شہری کے جو حقوق ہیں، ہم وہی مانگ رہے ہیں۔ کیا بارڈر مافیا کو لگام دینا کوئی جرم ہے۔ ہمارے دس ہزار نوجوان منشیات میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا انہیں سیدھا راستہ دکھانا جرم ہے؟ 
منشیات فروش محبِ وطن، ہمارے ماہی گیر دہشت گرد، کلبھوشن کے دہشت گرد ہونے کے باوجود اس کی رہائی کے لیے تو راستے تلاش کیے جاتے ہیں لیکن غداری کے الزامات ہم محب وطنوں کے لیے ہیں؟ ہم اس رویے کے خلاف ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے، کوئی کالونی نہیں۔ حق بات نہ کریں، انصاف نہ مانگیں تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟“۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ماہی گیر نے مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایسی پُرامن ”حق دو“ تحریک چلائی جس میں لاکھوں ماہی گیر، مزدور، طلبہ و طالبات، بلوچ خواتین سمیت تمام شہریوں نے گزشتہ ایک ماہ سے دھرنا دیا ہوا ہے، کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ جلاؤ گھیراؤ، یہ لوگ اقتدار مانگتے ہیں نہ ہی اعلیٰ سیاسی عہدہ تو پھر انہیں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جارہا؟ ریاست اگر ماں کے جیسی ہے تو پھر ان کو جائز حق کیوں نہیں دیتی؟ آج گوادر ہی نہیں پورا پاکستان اس آواز میں اپنی آواز شامل کر رہا ہے۔
عرفان اطہر قاضی
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
digitarapk · 3 years
Text
اعلیٰ تعلیم، مشاورت کا فقدان اور چیئرمین ایچ ای سی کی برطرفی
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان
چیئرمین ایپ سپ
دنیا کی کسی بھی قوم کا مستقبل جاننا ہو تواس کے معیارتعلیم کوجانچ لیں۔ تعلیم کو ترجیح بنانے والی اقوام نے زمانے میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جہاں جہاں تعلیم کو پس پشت ڈالا گیا وہاں وہاں زوال ان قوموں کامقدر ہوتا چلا گیا اور ہمارے ہاں بقول حکیم الامت کچھ یوں ہوا کہ "وائے ناکامی، متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا"۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ کسی بھی قوم کے مستقبل اورملک کی معیشت کی مضبوطی کی حقیقی بنیاد ہوتا ہے لیکن جب بھی اس شعبے کو تجربات اورمفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ صرف یہ شعبہ ڈوبا بلکہ اچھے مستقبل کی امید بھی ڈوبی اوراُس ملک کی معیشت بھی دریابرد ہو گئی۔ وطن عزیز میں بھی ایک عرصے سے اعلیٰ تعلیم کا شعبہ حکومتی و غیرحکومتی رویوں کی وجہ سے آزمائشوں کے نرغے میں ہے۔ 2002 سے 2008 کے چھ سال وہ ہیں جب پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اپنے عروج پر تھا۔ یہ وہ دورتھا جب 2002 میں یونیورسٹی گرانٹ کمیشن سے ہائرایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور ڈاکٹرعطاءالرحمان اس کے پہلے بانی چیئرمین تعینات کئے گئے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کے ملکی سیاست میں کردار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یو جی سی سے ایچ ای سی کا قیام ایک ایسا درست فیصلہ تھا جس کے ذریعے ہم اپنی نوجوان نسل کے لوہے کو بہترین تعلیم کے مواقع کے ساتھ چاندی، تحقیق و جستجو کی لگن کے فروغ سے سونا بنا سکتے تھے، اوراب بھی بنا سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے شرط صرف ایک تھی کہ ایچ ای سی کو اسی طرح چلایا جاتا جس طرح بانی چئیرمین اور اس وقت کی حکومت نے لگن، انصاف اورمیرٹ کے ساتھ چلایا۔ ڈاکٹرعطاءالرحمان کے دورمیں یونیورسٹیوں کے بجٹ میں گرانقدراضافہ ہوا، بہت سی نجی جامعات قائم ہوئیں اوران میں تعلیم وتحقیق کی ثقافت نے قابل فخر،پرشکوہ اورشاندار اندازمیں جنم لیا۔ سرکاری جامعات ہوں یا نجی سب کے لئے ایک معیار قائم کیا گیا، اعلیٰ تعلیم کے فروغ کےلئے نئے نئے مواقع پیدا کئے گئے۔
وقت گزرا حکومت بدلی یا شائد ”غیرجمہوری“ حکومت بدلی تو پیپلزپارٹی کا دورآیا، صوبوں کو خود مختاری ملی ،18 ویں ترمیم کی منظوری ہوئی اور ہائرایجوکیشن کے معاملات میں وفاق اور صوبوں میں کھینچاتانی شروع ہوگئی۔ صوبوں کے ہائرایجوکیشن کو دیکھنے والے محکمہ جات اور ان کے کلرک مافیا نے یونیورسٹیوں کو سونے کی چڑیا سمجھتے ہوئے دیہاڑیاں لگانے کی روش شروع کر دی۔ نہ صرف نجی اداروں بلکہ سرکاری یونیورسٹیوں کے سربراہان اور افسران کو بھی اپنے لامحدود اختیارات کے ذریعے بلیک میل کرکے لمبا مال بنایا جاتا رہا جس کی اعلی تعلیم کی تاریخ گواہ اوررکی ہوئی ہزاروں فائلیں ثبوت ہیں۔ علت کسی بھی چیزکی ہواسے اچھا نہیں کہا جا سکتا اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنا بھی آسان نہیں۔ رشوت خوری کی علت نے بھی ادارے تباہ کئے اور تاحال یہ تباہی جاری ہے۔ ملک بھرکی نجی یونیورسٹیاں اس عذاب کا کچھ زیادہ ہی شکار رہی ہیں حالانکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نجی یونیورسٹیاں پچاس فیصد سے بھی زائد کی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو پچاس فیصد پاکستانی نوجوان ان پڑھ رہ جائے جس کے ملکی معیشت پر کتنے بھیانک اثرات پڑ سکتے ہیں شائد اس کا سوچ کربھی ایک محب وطن پاکستانی کانپ جائے، آپ آج کے پاکستان میں خدمات اور پیداوار کے شعبے کی گراس نیشنل پراڈکٹ میں ان نوجوانوں کا کردار کس طرح نظرانداز کرسکتے ہیں جو ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر میدان عمل میں آیا مگر ملک و قوم کی ترقی کی نقیب یہی نجی یونیورسٹیاں بارہ بارہ سال تک اپنے کیسز کی منظوری کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتی ہیں لیکن انکے کیسز کی فائلیں کبھی ایک دفترتوکبھی دوسرے دفتر، اس دوران اگر فائل کو پہیے نہ لگوائیں اورمیرٹ کی پاسداری کا بھرم لئے یہ امید لگائے بیٹھے رہیں کہ آج نہیں تو کل ان کو منظوری مل جائے گی تو یہ امید کبھی پوری نہیں ہوتی۔
نجی یونیورسٹیوں کے مسائل جب حد سے بڑھ گئے اور دوردور تک ان کا حل نظر نہ آیا تو 2020 کے شروع میں ملک بھر کی نجی جامعات نے ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز پاکستان (ایپ سپ) کے پلیٹ فارم سے ایک فورم تشکیل دیا تا کہ اپنے جائز مسائل کے حل کےلئے مشترکہ جدو جہد کی جائے۔ راقم الحروف کے کندھوں پر اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہائیرایجوکیشن کمیشن کی منظورشدہ 86 جامعات ( اور ان کے 31 سب کیمپسز) کی ذمہ داری ڈالی گئی۔ ذمہ داری سنبھالتے ہی 'ایپ سپ' نے اپنا چارٹرآف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے پیش کیا جس کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ پچاس فیصد کے سٹیک ہولڈر نجی سیکٹرسے اس کی زندگی اور موت کے فیصلوں میں مشاورت کی جائے، اس شعبے کو بھیڑبکریوں کا ریوڑ نہ سمجھا جائے جس نے اربوں اورکھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررکھی ہے اور قوم کے شاندار مسقبل کے خواب اور تعمیر میں ریاست کا برابر کا شریک کار اور حصے دار بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت سے یہ اپیل کی گئی کہ سالہاسال مختلف محکموں اور دفاترمیں چکر کاٹنے والے کیسز کو ایک چھت فراہم کی جائے یعنی ایک بے معنی، فضول اور بے کار مشق جیسے میکانزم کی بجائے ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کی جائے۔ ایسی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے جس سے تحقیق کا کلچر فروغ پانے کی بجائے زوال پذیر ہورہا ہے۔ مستحق طلباء کے لئے خصوصی گرانٹ نجی یونیورسٹیوں کو بھی دی جائے تا کہ وہ اگر کسی نجی یونیورسٹی میں پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ سکیں۔ نجی یونیورسٹیوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت انکی سرپرستی کرے، تعلیم کےفروغ کے مقدس مشن میں اپنا ساتھی ، دوست اور مددگار سمجھے نہ کہ مد مقابل۔ منظوریوں کے کیسز سالہا سال سے سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوں اور اس تاخیرکی سزا بھی نجی یونیورسٹیوں کو دی جائے یہ کہاں کا انصاف ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ سرکاری کی طرح نجی یونیورسٹیوں کی خود مختاری کا خیال بھی رکھا جائے،انہیں ملک کی بہتری کے لئے فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے، ایچ ای سی نجی جامعات کو ریسرچ، ٹریول، کانفرنس، ورکشاپس اور گرانٹس میں یکساں اورمساوی مواقع فراہم کرے۔ کئی کئی سال سے حل طلب مسائل نمٹانے کےلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جن میں سٹیک ہولڈرز کو بھی شامل کیا جائے۔
حکومتی سطح پہ ایپ سپ کی اپیل پر فوری طور پر بہت اچھا رسپانس موصول ہوا اور پنجاب کے وزیر ہائر ایجوکیشن راجا یاسر ہمایوں نے ہر ایشو پرمعاونت کی یقین دہانی کرائی اورمشاورتی کمیٹیاں بھی بنا دی گئیں.گورنرپنجاب چوہدری محمد سرورکا رویہ بھی مشفقانہ اورہمدردانہ رہا،انہوں نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مسائل کو سمجھا اور حکم دیا کہ کوئی بھی فائل ایک ہفتے سے زیادہ نہ روکی جائے مگرایک لمبا سانس لینے کے بعد اور افسوس کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ان تمام کے باوجود پرائیویٹ سیکٹراسی کلرک مافیا کے نرغے میں ہے جو مافیا اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے اوائل میں نیا نیا پنپا تھا۔ مافیا کی جرات اور ہمت دیکھئے کہ وہ نیک جذبات اور مثبت ہدایات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئیں یوں ہمیں نئے پاکستان میں بھی ان رویوں، حربوں اورمشکلات کا سامنا ہے جنہیں جدید ریاستیں صدیوں نہیں توعشروں پہلے ضرور متروک قرار دے چکی ہیں، خیرباد کہہ چکی ہیں۔
حالیہ دنوں ہائرایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کو تبدیل کیا گیا ہے، ان کی تبدیلی کے پیچھے کیاعوامل کارفرما ہیں ان سے درکنارحکومت سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو بھی نیا چیئرمین لگایا جائے اسے وطن عزیز کی تعلیمی ضروریات، مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اس وقت درپیش تلخ زمینی حقائق کا علم ضرور ہو، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ ون مین شو کی بجائے مشاورت پریقین رکھنے والا ہو۔ مطلق العنان بننے کی بجائے سب کو ساتھ لے کر چلنے والا ہو۔ ڈاکٹر طارق بنوری صاحب بھی اگر مشاورت سے فیصلے کرتے تو انکی کارکردگی کم ازکم اتنی تسلی بخش ضرور ہوتی کہ اگر حکومت انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ بھی کرتی تو اس طرح کبھی نہ کرتی جس سے رسوائی اٹھانا پڑتی۔
Tumblr media
3 notes · View notes
tajescaperoom · 3 years
Text
بهترین اتاق فرارهای تهران + راه های ارتباط
منبع: اتاق فرارهای تهران.
اتاق فرارهای تهران  که برای اولین بار فعالیت خود را از سال ۱۳۹۴ آغاز نموده اند، در حال حاضر بسیار متنوع بوده و شرایط ایده آلی را برای تجربه شور و هیجان فراهم می کنند. با توجه به تعداد زیاد اسکیپ روم های تهران و تفاوت هایی که از نظر سناریو، امکانات و شرایط، ژانر بازی و همچنین موقعیت مکانی آنها وجود دارد، در ادامه لیستی کامل از بهترین اتاق فرار ها را ارائه خواهیم داد.
تاج اسکیپ روم
تاج اسکیپ روم یکی از اتاق فرارهای تهران می باشد که فعالیت خود را از اول اسفند ۱۳۹۸ آغاز نمود و در حال حاضر فرصت تجربه دو بازی بسیار مهیج به نام های ویروس و خونه جنی را فراهم کرده است.
بازی ها اتاق فرار ویروس سناریو اتاق فرار این مجموعه بر اساس فراگیر شدن ویروس ناشناخته در تمام دنیا پیاده سازی شده است که شباهت زیادی با شیوع کرونا و چالش های پیش روی آن دارد. سناریو طراحی شده برای این بازی بسیار مهیج بوده و از نظر میزان ترس در سطح متوسط قرار گرفته است.
اتاق فرار خونه جنی افرادی که علاقه زیادی به ترس و تجربه قرار گرفتن در خانه های قدیمی و جنی دارند، قطعا باید سناریوی خونه جنی را در مجموعه تاج اسکیپ تجربه کنند. این سناریو خونه جنی بسیار معروف در شمال ایران را پیاده سازی نموده و گذر از معماهای آن کمی سخت و همراه با هیجان بالا می باشد. برای تجربه این بازی ۴ تا ۶ نفر می توانید همراه هم باشید.
تهران، خیابان ستارخان، سه راه باقرخان، جنب سفره خانه باغ فردوس، پلاک ۱۶۸، طبقه همکف
۰۹۰۱۹۹۰۰۱۰۹
اسکیپ روم دات آی آر
اسکیپ روم دات آی آر اولین اتاق فرار تهران می باشد که از تابستان ۱۳۹۴ طراحی سناریوها آغاز و در نهایت از بهار ۹۵ اولین اسکیپ روم را در ایران راه اندازی نمود. این مجموعه سناریوهای بسیار متنوعی را ارائه داده و علاوه بر تهران، در سایر استان ها نیز شعبه های متعددی دارد.
بازی ها سناریوها و بازی های این مجموعه بر اساس ژانر در گروه های مختلفی قرار دارند که از نظر شرایط و قوانین بازی نیز تفاوت هایی در آنها به چشم میخورد. اصلی ترین گروه های بازی در مجموعه اسکیپ روم دات آی آر عبارتند از:
اتاق فرارهای کلاسیک: بازی هایی از قبیل سرقت، طهران ۱۳۴۶، نجات شهر، شام آخر، محاکمه با آتش و سامورایی در این گروه قرر دارند. اتاق فرار آنلاین: این بازی ها به صورت آنلاین ارائه شده و شامل سه سنارو ناصر الدین شاخ، اتاق ۴۴ و شیوع场景 می باشد. اتاق فرارهای ویژه: طاعون، شب سیزدهم، کابوس، شبح بازارچه و احضار لوکیشن
تهران، خیابان نوفل لوشاتو، بن بست مسعود سعد،پردیس علم و فناوری، طبقه سوم، واحد ۳۱۶
تلفن
۰۲۱۲۶۱۱۳۳۸۹
اتاق فرار وست روم
از دیگر اتاق فرارهای تهران که ترس و اضطراب و هیجان را با هم تلفیق می کند می توان به مجموعه وست روم اشاره نمود. این مجموعه فعالیت خود را از زمستان ۱۳۹۷ آغاز نموده است و در حال حاضر با سه سناریو شرایط ایده آلی را برای گروه سنی های مختلف و یک ساعت لذت از زندگی را فراهم نموده است.
بازی ها سناریوهای این مجموعه شامل اتاق فرار سوئینی تاد آرایشگر دیوانه خیابان فلیت، اتاق فرار قربانی و انتقام دیویدُف (مافیا باز) می باشد. لازم به ذکر است که لوکیشن سناریو انتقام دیویدُف با دو مورد قبل متفاوت بوده که در ادامه آدرس هر یک را ذکر می کنیم.
لوکیشن سناریو قربانی و سوئینی تاد
صادقیه، بلوار فردوس شرق، بین خ ابراهیمی و خ علی حسینی، پلاک ۳۶۸
تلفن
۰۹۰۱۹۸۸۳۵۳۱
لوکیشن سناریو مافیا باز
فردوس غرب، باکری شمال، ابتدای حکیم شرق، جنب املاک بارمان، پلاک ۱۰
تلفن
۰۹۱۲۶۴۴۲۵۷۳
اتاق فرار تهرومز
مجموعه تهرومز توسط گروهی از جوانان عاشق ترس و هیجان راه اندازی شده و شرایط ایده آلی را برای بازی گروه های سنی مختلف فراهم کرده است.
بازی ها در این مجموعه دو سناریو پیاده سازی شده است که شامل فرار از سلول انفرادی و عمارت تسخیر شده می باشد.
لوکیشن
تهران، امیریه، خیابان برادران جوادیان (قلمستان)، خیابان مسعود مدرس، پلاک ۱۱۷
تلفن
۰۹۱۲۲۷۸۹۶۳۲
اسکیپ ویژن از دیگر اتاق فرارهای تهران که با استقبال خوبی مواجه شده است می توان به اسکیپ ویژن اشاره نمود. این مجموعه فعالیت خود را از سال ۱۳۹۸ آغاز نموده و سه سناریو مهیج و ترسناک را در محیطی دوستانه فراهم کرده اند.
بازی ها اتاق فرار نفرین گنج مردگان اتاق فرارIT لوکیشن
شهرک گلستان، بلوار کاشان جنوب، میلاد دوم، میلاد چهارم، میثاق یکم، پلاک۳
تلفن
۰۹۳۷۱۷۴۴۱۵۱
1 note · View note
urduclassic · 4 years
Text
راحت اندوری کے پانچ شعر جو ہمیشہ زندہ رہیں گے
بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر راحت اندوری کرونا کی شاعری کی سب سے بڑی خاصیت عوام سے جڑ کر رہنا تھا۔ ایک قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ شعر کسی کی سمجھ میں مشکل سے آئے اور لوگ چراغ لے کر اس میں معنی ڈھونڈتے رہیں۔ کئی بڑی محنت کر کے اپنی شاعری کو حالاتِ حاضرہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں تاکہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ شاعر پر موجودہ سیاسی، سماجی یا معاشرتی صورتِ حال کا کوئی اثر پڑ رہا ہے۔  دوسری قسم کے شاعر وہ ہوتے ہیں جنہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پانچ سو سال بعد کا ادب انہیں کس طرح یاد رکھے گا۔ وہ لمحۂ موجود میں جیتے ہیں اور اپنی شاعری کے موضوعات آس پاس کے واقعات سے اٹھاتے ہیں۔
راحت اندوری دوسرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے شاعر تھے۔ حالات حاضرہ پہ کہنا ہو یا مزاحیہ شاعری کے ذریعے لوگوں کو محظوظ کرنا ہو، ان کے الفاظ پر پورا مجمع ایک دم واہ واہ کی صداؤں سے گونج اٹھتا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’آج کل دو ٹکے کے لوگ بھی خود کو بڑا شاعر بنا کے پیش کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں بڑا شاعر ہوں، کوشش ہے کہ زندگی میں کوئی ایک شعر اچھا کہہ لوں۔‘ یہ بات وہ ہر مشاعرے میں دہراتے تھے۔  یہی بات راحت اندوری کی بھی تھی۔ بے شک اندوری صاحب نے بھی کروڑوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔ ویسے تو ان کے سینکڑوں شعر ایسے ہیں جو لوگوں کے دلوں اور زبانوں پر زندہ ہیں، میری نظر میں راحت اندوری کے مندرجہ ذیل پانچ اشعار کا نقش آسانی سے نہیں مٹے گا۔
سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟ کچھ پتہ تو کرو چناؤ ہے کیا؟
پلوامہ حملے کے بعد اور بالخصوص پارلیمانی انتخابات برائے 2019 کے دوران یہ شعر بہت ہٹ رہا گو کہ راحت اندوری نے یہ شعر اس سے بہت پہلے کہا تھا۔ بدقسمتی سے ہندوستان و پاکستان دونوں کی اندرونی سیاست ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنے پر مبنی ہے۔ مذہبی اقلیتیں دونوں ممالک میں محفوظ نہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ دونوں اپنے ملکوں میں انہیں حقوق و تحفظ دینے کے بجائے ان کے استحصال پر ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔ چناؤ کے دوران ایک دوسرے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ راحت اندوری کا یہ شعر بہت دیر تک ہندوستان و پاکستان کی سیاسی منظر کشی پیش کرتا رہے گا-
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا
شعر کے لفظ سادہ ہیں لیکن مطلب رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ شعر سامراجیت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ ک�� طرح سے سامراجی نظام مزدوروں و محنت کشوں کا لہو پیتا ہے یہ اس کی بھر پور ترجمانی کر رہا ہے۔ یہ شعر پڑھنے کے بعد میرا ذہن ہمیشہ پریم چند کے شہرہ آفاق ناول گئودان پر چلا جاتا ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار ہوری کی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں ایک گائے آئے لیکن عمر بھر شب وروز کی مشقت کے باوجود اس کی یہ تمنا پوری نہیں ہوتی۔ وہ مزدور جس سے خوب کام لیا جاتا ہے اور اس کی محنت کا سر پلس سیدھا زمیندار و سرمایہ دار کی جیب میں جاتا ہے - کرائے کے گھر یا جونپڑی میں رہ کر مشقت کرنے والا مزدور جس کو زندگی بھر اپنا گھر بھی میسر نہیں آتا، مرنے کے بعد دو گز کا مستقل مالک بن جاتا ہے۔ اب مرنے کے بعد اس مکان سے کوئی اسے بےدخل نہیں کر سکتا۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
ویسے یہ پوری غزل ہی کمال کی ہے اور اس کا ایک ایک شعر اپنے اندر ایک معنویت رکھتا ہے لیکن یہ شعر اپنی مثال آپ ہے۔ 73 سالہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور دلتوں کی کھلے عام تضحیک کے اوپر اس شعر سے بڑا جواب ہو نہیں سکتا۔ اس شعر کو ایک طرح سے آئین ہند کے دیباچے کا شعری روپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اس شعر کا پہلا حصہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی پر مرثیہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں مسلمانوں کی عظیم تاریخ پر قصیدہ خوانی کی ہے۔
سب کی پگڑی کو ہواؤں میں اچھالا جائے سوچتا ہوں کوئی اخبار نکالا جائے
موجودہ دور کے میڈیا پر کارپوریٹ مافیا کا کنٹرول اور میڈیا سنسر شپ پر یہ شعر سو فی صد صادق آتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی آئے دن ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح مخصوص لوگوں کو بلا کر دوسروں پر بے بنیاد الزام لگائے جاتے ہیں اور پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ میڈیا جس کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کرتا نظر آتا ہے - ڈاکٹر راحت اندوری یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے اور عالمی شہرت یافتہ اردو شاعر تھے۔ آپ سات کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ 40 سے 45 سالوں تک اردو مشاعروں کی دنیا پر راج کرنے والا اندوری کل دنیا کو الوداع کہہ گیا۔
محمد ارشد چوہان (کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں ریسرچ سکالر ہیں)
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
5 notes · View notes
historicallahore · 4 years
Text
لاہور شہر میں صفائی ستھرائی کا مسئلہ
صفائی نصف ایمان کی حدیث مبارکہ کی تکذیب دیکھنی ہو تو ہمارے میگا سٹی کراچی کی حالت دیکھ سکتے ہیں۔ حالیہ بارشوں نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کراچی کے شہری جس مشکل اور اعصاب شکن حالات سے گزرے‘ ان سے پورا ملک آگاہ ہے۔ کراچی شہر کا سیوریج سسٹم مفلوج ہو گیا‘ گندے نالے اوور فلو ہو گئے‘ سڑکیں اور گلیاں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں‘ حتیٰ کہ شہر کے پوش ایریاز کے شہری بھی اتنے تنگ اور پریشان ہوئے کہ وہ مظاہروں پر مجبور ہو گئے۔ گھروں میں بارشوں کا پانی داخل ہو گیا اور لوگوں کا بے پناہ مالی نقصان ہوا۔ کراچی کا یہ حال ایک دن میں یا ایک سال میں نہیں ہوا بلکہ کئی دہائیوں کی بدانتظامی‘ کرپشن‘ سستی اور کاہلی اور سیاسی چپقلش نے شہری اداروں کو مفلوج کر دیا۔ 
شہر کسی باقاعدہ ٹاؤن پلاننگ کے بجائے خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنا شروع ہوا اور آخر کار وہ وقت آ گیا جب اس شہر کو صاف رکھنا نا ممکن ہو گیا۔ کوڑوں کے ڈھیر لگ گئے ‘گندے نالوں کو صاف کرنے والا عملہ صرف تنخواہیں وصول کرنے تک رہ گیا‘ شہری اداروں کی افسر شاہی لینڈ مافیا کے ساتھ مل کر اپنے فرائض کو نظر انداز کرنے لگی اور اس کا آخری نظارہ حالیہ بارشوں نے دیکھ لیا۔  لاہور کے بارے میں ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ اس شہر کا انفرا اسٹرکچر بہتر حالت میں ہے‘ یہاں بلدیاتی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں‘ سیوریج سسٹم کو اپ ڈیٹ رکھا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مون سون کی بارشوں میں لاہور شہرکا وہ حشر نہیں ہوتا جو کراچی کا ہوا ہے۔ یہ تاثر کسی حد تک درست بھی ہے لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں کہ لاہور شہر میں بھی صفائی ستھرائی اور سیوریج کا انفرا اسٹرکچر زوال کی طرف جاتا نظر آ رہا ہے۔ لاہورمیں کوڑا کرکٹ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اسے اٹھانے والا عملہ کم ہی نظر آتا ہے۔
ایک خبر کے مطابق شہر میں 12 ہزار ٹن سے زائد کوڑا کرکٹ مزید پھیل گیا ہے۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے چئیر ��ین ایل ڈبلیو ایم سی لاہور نے سی ای او اور دیگر عملے کے ہمراہ لاہور شہر کے بیشتر مقامات کا ہنگامی دورہ کیا اور صفائی انتظامات کا جائزہ لیا اور سرکاری مشینری سے شہر میں صفائی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں افسران و عملہ کی اتوار کی چھٹی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔ سرکاری مشینری سے کوڑا اٹھانا شروع کر دیا ہے جب کہ زیادہ کوڑا ہونے کی وجہ سے ایمر جنسی نافذ کرنے پر غور شروع کیا جا رہا ہے۔ جب ادارے سست روی کا شکار ہو جائیں ‘ افسر اور نچلے عملے کو جواب دہی کا خوف نہ رہے یا صوبائی حکومت شہری اداروں کو کم فنڈز دینا شروع کر دے تو پھر شہر کا انفرا اسٹرکچر خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ غفلت مسلسل جاری رہے تو بلاآخر بڑے شہر اس حالت تک پہنچ جاتے ہیں جس حالت میں کراچی پہنچ چکا ہے۔
پنجاب حکومت کو بھی اس حوالے سے مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ محض باتوں سے کام نہیں چلے گا ‘اس کے لیے فنڈز مہیا کرنے انتہائی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری عملے کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ضروری ہے تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کر سکیں ۔ اس کے ساتھ سرکاری افسروں اور عملے کی جوابدہی کا میکنزم بھی ایسا ہونا چاہیے کہ جو کوئی بھی بدعنوانی یا غفلت کا مرتکب ہو، وہ بچ کر نہ نکل سکے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس  
1 note · View note
emergingpakistan · 4 years
Text
مافیا جیت گیا یا عمران خان
کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے، بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔ الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ ’’مافیا‘‘ کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو! بقول شاعر
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیا گیا، پھر یکمشت 25 روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب ، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔ چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کر کے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا و گندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی ، تو 200 والا چکن 300 میں سیل ہونے لگا۔
یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے، آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں ’’مافیا‘‘ کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔ خان صاحب ! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا ، پٹرولیم مافیا ، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو ’’نتھ ‘‘ ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہو گا ۔ میرے خیال میں حکومت قائم کر لینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہار رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری، امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔ 
لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت تو آئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تو اُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔ اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ
عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں
بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصر رہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس، آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کر دیں۔
اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے ’’ایلیٹ کارٹل ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔ منافع خوروں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس عوام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا ، کپتان ہار گیا۔ یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔ لہٰذا ان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیں اُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے ��حرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!
علی احمد ڈھلوں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
1 note · View note
risingpakistan · 4 years
Text
قومی سیاسی جماعتیں بھی لاک ڈاؤن ہیں؟
آج اتوار ہے۔ میری خانۂ محصوری کا 45واں دن۔ میں اتوار بچوں کے ساتھ گزارنے کا کہا کرتا تھا۔ اب تو ہر دن ہی اتوار ہے۔ آپ ساتوں دن بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ عالمگیر وبا نے دن رات، اتوار، ویک اینڈ سب کا فرق مٹا دیا ہے۔ اس کے خوف میں یا اس سے نبرد آزمائی میں ہم اپنے بچوں کی معمول کی ویکسی نیشن بھول گئے ہیں۔ آپ بھی بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں والے ہیں۔ ذرا دیکھ لیں کہ خسرے اور دوسری بیماریوں کے جو ٹیکے لگنے ہیں وہ لگوا لیے ہیں یا نہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز بھی سب مصروف ہیں۔ اگلے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ یہ سطریں پڑھتے ہی بیٹوں بیٹیوں سے پوچھ لیں۔ ہو سکے تو پڑوس میں بھی جائزہ لے لیں۔ پاکستان میں اگرچہ ایک بڑی لہر کا خدشہ ہے مگر یورپ میں جہاں بچھڑنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے وہاں بہار کے کچھ امکاں پیدا ہوئے ہیں۔ بنی نوع انسان نے صدیوں کی ریاضت اور فکر کے بعد جمہوریت میں اپنے درد کا درماں تلاش کیا۔ 
جمہوریت کا سب سے بڑا ستون قومی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ جو ہر چار پانچ سال بعد آپ کے گھروں میں اپنے کارکنوں کے ذریعے پرچیاں بھیجتی ہیں کہ آپ کا ووٹ نمبر کیا ہے۔ اور پولنگ اسٹیشن کہاں ہے۔ انتخابی دنوں میں آپ کے در پر دستکیں ہوتی ہیں۔ امیدوار آپ سے ملنے بھی آتے ہیں۔ اب جب ہم سب گھروں میں بند ہیں۔ کورونا کے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ ہیں۔ ایک بڑی اکثریت بےروزگار ہو چکی ہے۔ روزانہ اجرت پر گھر چلانے والے گھروں میں پریشان بیٹھے ہیں۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہماری قیادت کی دعویدار سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما ہمارا درد بانٹنے آتے۔ چاہے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے یا آن لائن رابطہ کرتے۔ واٹس ایپ گروپ میں شامل ہو جاتے۔ ٹی وی چینلوں پر اپنے کارکنوں کے لیے ان کی ہدایات سننے میں آتیں۔ وہ اپنا نیٹ ورک تشکیل دیتے۔ مجھے تو ان 45 دنوں میں نہ اپنے انتخابی حلقے میں کوئی ایم این اے، ایم پی اے نظر آیا، نہ کسی نے آن لائن میرا درد بانٹا۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں ہیں، دفاتر ہیں، سیکرٹریٹ ہیں، میں نے تو کوئی اعلان پڑھا نہ سنا کہ لاک ڈائون کے دنوں میں کسی پارٹی کے سیکرٹریٹ یا دفاتر کب کھلیں گے، کب بند ہوں گے۔
میں تو پورے خلوص سے سمجھتا ہوں کہ خطرناک مہلک عالمی وبا کے دن ہی ہیں جن میں جمہوریت کو باقی رکھنے کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کی فعالیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ملک گیر موقع ہے نوکر شاہی اور غیرسیاسی قوتوں کی سیاسی امور میں مداخلت ہمیشہ کیلئے روکنے کا۔ سیاسی رہنما، قومی سیاسی جماعتیں اپنے لوگوں کے دل جیت سکتی تھیں اور اب بھی موقع ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک سیاسی مذہبی جماعت ہر مشکل وقت کی طرح اب بھی سرگرم عمل ہے، وہ ہے جماعت اسلامی۔ اس کے عہدیدار کارکن خود بھی فعال ہیں اور جماعت بھی۔ کراچی کے ایک ایم پی اے اور اِن کے اہلِ خانہ کورونا سے متاثر بھی ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اب تک کروڑوں روپے کی امداد اور راشن بانٹ چکی ہے۔ مگر جب ووٹ دینے کا موسم آتا ہے تو خدمت کام نہیں آتی۔ غلبہ، مافیا، روابط کام آتے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ کورونا کے بعد جینے کے انداز بدل جائیں گے۔ سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے معزز ووٹر ووٹ دیتے وقت خدمت کو پیش نظر رکھیں گے۔
ہمارے زیادہ تر ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر صاحبِ ثروت ہیں۔ اپنا موروثی بھی بہت کچھ ہے۔ ہر الیکشن کے بعد حکومت میں آنے سے بھی اثاثے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے اپنے حلقوں میں خود غریبوں، بےروزگاروں کو راشن اور امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ وفاق، پنجاب اور کے پی میں حکمراں پارٹی بھی کہیں بطور پارٹی متحرک نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت ایکشن میں ہے۔ ساری مدد سرکاری خزانے سے کی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی طرف سے ایسی کسی مہم کی خبر نہیں آرہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی 50 سال سے زیادہ عمر کی ہے۔ پورے ملک میں اس کی جڑیں ہیں۔ حکومت اگرچہ صرف سندھ میں ہے۔ یہاں بھی وہ حکومت کی حیثیت سے نظر آرہی ہے۔ پارٹی کے سیکرٹریٹوں، دفاتر سے عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ برطانیہ سے تعلیم یافتہ، جواں سال، تازہ دم بلاول بھٹو زرداری، صرف ردّعمل کی سیاست کرتے ہیں۔
کوئی بڑی تجویز یا نیا آئیڈیا اس میڈیکل بحران میں ان کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ آصف علی زرداری سابق صدر مملکت ہیں۔ ان کی طرف سے کوئی بیان یا ذاتی طور پر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔ پارٹی کارکنوں کے لیے کوئی ہدایت نہیں آئی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر آخری پرواز سے واپس وطن آئے تو امید تھی کہ (ن) لیگ اس وبا کا مقابلہ کرتے اپنے ووٹر کی دامے، درمے، سخنے مدد کرے گی۔ پارٹی سطح سے کوئی امدادی سلسلے اپنے انتخابی حلقوں میں راشن، امداد کی کوششیں، پارٹی کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف کی طرف سے ایک بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے بھی اپنے حلقے ہیں، اپنی مساجد ہیں، مدارس ہیں، دھرنے کے دنوں میں ان کی فورس بھی نظر آئی تھی، اب یہ سب کہاں ہیں۔ بلوچستان میں نوزائیدہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کی شفقت سے بلوچ پشتون محروم ہیں۔ 
سرداروں کے پاس بھی بےحساب وسائل ہیں۔ کچھ ان میں سے خرچ کریں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سرخ پوشی کی روایات ان علاقوں کے لوگوں کو یاد ہیں۔ اب کچھ ہورہا ہے تو معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کسی زمانے میں بہت سرگرم ہوتی تھی مگر اب اندرونی ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا ہے۔ پھر بھی خدمتِ خلق فائونڈیشن سے کچھ سرگرمی نظر آئی مگر وہ پہلے والی بات نہیں۔ فلاحی تنظیمیں بہت سرگرم ہیں۔ ایدھی، چھیپا، سیلانی، اخوت، عالمگیر اور بہت سی۔ انہوں نے بہت سہارا دیا ہے۔ پوری دنیا کا سماجی ڈھانچہ، ملکوں کے باہمی تعلقات، مذہبی عقائد اقتصادی رشتے بدلنے والے ہیں۔ مرکزیت کو غلبہ حاصل ہو گا۔ صوبائی خود مختاری کمزور پڑنے والی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اپنی اپنی جماعت کی تنظیم مکمل کریں۔ نوشتۂ دیوار پڑھیں ورنہ، تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
mafiapish · 4 years
Video
youtube
sharkbet | شارک بت برسی توسط مافیا پیش
2 notes · View notes
maqsoodyamani · 3 years
Text
بی جے پی کی جیت ہندوتوا کی ہار
بی جے پی کی جیت ہندوتوا کی ہار
بی جے پی کی جیت ہندوتوا کی ہار ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان بی جے پی نے اپنی مدت کار میں وکاس دوبے جیسے نہ جانے کتنے برہمن مافیا کا انکاونٹر کیا مگر انتخاب کے وقت برہمنوں کا ووٹ حاصل کرنے کی خاطر انہیں بھلا کر مختار انصاری کا نام خوب اچھالا گیا۔ پنجاب سے ان کو اترپردیش لانے کی کہانی اس طرح پیش کی گئی گویا داود ابراہیم کو پاکستان سے لے آیا گیا ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ سے لے کر امیت شاہ تک بلواسطہ اور مودی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
karachitimes · 3 years
Text
قبرستانوں کی داستان
روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر کراچی میں بلدیہ عظمیٰ کے زیر نگرانی 39 قبرستان ہیں جن میں سے 6 کو تدفین کے لیے بند کر دیا گیا ہے جب کہ فلاحی اداروں کے تعاون سے دو نئے قبرستانوں کی تعمیر کر کے تدفین کا عمل شروع کیا جاچکا ہے۔ بلدیہ کے ڈائریکٹر انفارمیشن اورکنوینر قبرستان کمیٹی کے مطابق کراچی کے قبرستانوں میں مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی خرید و فروخت اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری تھیں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے یہ قبرستان محفوظ پناہ گاہیں بن چکی تھیں۔ ایک مضبوط مافیا پورے نیٹ ورک کے پیچھے کام کر رہا تھا۔ ان تمام مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کے لیے سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ نے موثر اقدام کیے تھے۔ قبرستان میں گورکنوں سمیت تمام عملے کو رجسٹرڈ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ بچیوں کی آمد و رفت کو ممنوع قرار دیا گیا۔ قبروں پر پانی ڈالنے والوں کے لیے 18 سال سے زائد عمر کی شرط لگائی گئی۔
بلدیہ حکام نے ایک سینٹرل کمیٹی قبرستان قائم کی جس کے اراکین میں سرکاری افسران، سماجی و فلاحی اداروں کے نمایندے شامل ہیں یہ کمیٹی اب قبرستانوں کے تمام امور پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے غیر اخلاقی سرگرمیوں پر قابو پایا جاچکا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کا کوئی ادارہ اپنی ذمے داریاں محسوس کرتا ہے نہ ہی انھیں نبھانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں البتہ بیانات، سیمینارز اور تقریبات میں خوش کن باتوں اور دعوؤں کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے کا فن انھیں خوب آتا ہے۔ مشہور گلوکار مہدی حسن کے انتقال پر جب ان کی میت پر ملک اور بیرون ملک سے ان کے مداحوں اور بڑے فنکاروں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا تو حکومت اور بلدیہ عظمیٰ نے ان کا عظیم الشان مزار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ 
مزار کے لیے زمین کا ایک بڑا حصہ بھی مختص کیا گیا تھا، مگر بعد میں کسی نے مڑ کر بھی نہیں دیکھا آج وہاں خاک اڑتی ہے درمیان میں مہدی حسن اور ان کے بیٹے کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ گورکنوں کے مطابق آج بھی وہاں پڑوسی ملک کے نام ور گائیک اور اداکار اپنے رسک پر باقاعدگی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ قبرستانوں میں فاتحہ و تدفین کے لیے آنے والے افراد کو لوٹا بھی جاتا ہے۔ خاص طور پر جس وقت پولیس والوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں اور تمام نفری تھانوں میں موجود ہوتی ہے اس وقت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ قبرستانوں میں تدفین کے لیے کسی ترتیب و نظم کا کوئی طریقہ کار و اصول نہیں ہوتا جو قبرستان بھر چکے ہیں ان پر تدفین پر پابندی کے بورڈ آویزاں ہونے کے باوجود بڑی رقمیں لے کر قبر کے لیے جگہ نکال دی جاتی ہے۔ قبرستانوں میں ٹھیکیداری نظام ہے ایک قبرستان میں کئی کئی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ 
غربت اور لالچ کی بنا پر گورکن پرانی قبریں کھود کر نئی قبریں تیار کر دیتے ہیں بعض مرتبہ لواحقین بھی دھونس، دھمکی اور خوف کے ذریعے ان گورکنوں کو اس بات پر مجبورکرتے ہیں کہ ان کی میت کے لیے ان کی پسندیدہ جگہ پر کسی پرانی قبر کو کھود کر نئی قبر تیار کر کے دی جائے جس کی وجہ سے گورکنوں سے مارپیٹ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یہ گورکن اندرون ملک سے اپنے بچوں کے ہمراہ ان قبرستانوں میں قبریں کھودنے، قبریں تعمیر کرنے اور پانی ڈالنے کے فرائض انجام دیتے ہیں، انھی قبرستانوں یا ان کے مضافات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جن میں سے کچھ بچے اور عورتیں قبرستانوں کے اندر گدا گری بھی کرتے ہیں۔ ان کی حالت قابل رحم اور اصلاح طلب ہے البتہ قبرستانوں کے ٹھیکیدار اور متولی کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں 200 کے قریب قبرستان ہیں جن میں بلدیہ کے علاوہ فلاحی اداروں اور صنعتی اداروں کے قبرستان بھی شامل ہیں جب کہ کئی غیر رجسٹرڈ قبرستان بھی ہیں جن میں لوگ خود تدفین کرتے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ کسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہوتا۔
قبرستانوں کے اندر مذہب، فرقہ اور برادریوں کے حوالے سے بھی کئی قبرستان آباد ہیں جن کی اپنی اپنی چار دیواریاں اور تجہیز و تدفین کا اپنا نظام اور اصول و ضوابط ہیں۔ ایک برادری کے قبرستان کے گیٹ پر نصب قواعد و ضوابط میں تحریر ہے کہ اگر برادری کے کسی مرد نے برادری سے باہر شادی کی تو اس کی تدفین کی اجازت ہو گی مگر اس کے بیوی بچوں کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر برادری کی کسی عورت نے برادری سے باہر شادی کی تو ا��ے اور اس کی اولاد کو اس قبرستان میں تدفین کی اجازت نہیں ہو گی۔ قبروں پر مرحوم کی شان میں قصیدے لکھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک قبر پر تحریر ہے لیجنڈ اداکار چاکلیٹی ہیرو وحید مراد ولد نثار مراد۔ حیدرآباد کے قبرستان میں ایک ایسی قبر بھی موجود ہے جس میں مرنے والے کی شبیہ (تصویر) کنندہ ہے قبروں کی تعمیر پر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کا رجحان بھی روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے۔ قبرستانوں میں مزارات کے لیے بھی بڑی بڑی جگہیں گھیری گئی ہیں جنھیں تعمیر کر کے کافی سرمایہ لگایا گیا ہے۔
قبرستانوں میں آپ کو بڑے بڑے مزارات تو جابجا نظر آئیں گے لیکن اگر نماز پڑھنے کے لیے مسجد تلاش کریں تو شاید اس کے احاطے میں آپ کو ایک بھی مسجد نہ مل پائے۔ قبرستانوں میں جگہ جگہ آپ کو ایسی باؤنڈری والز نظر آئیں گی جن میں کوئی قبر موجود نہیں ہو گی تمام جگہ مستقبل کے مردوں کے لیے مختص ہو گی، یہ مہربانیاں بلدیہ کے ذمے داران اثر و رسوخ کے حامل اپنے کرم فرماؤں پر کرتے ہیں اور چند ہزار روپے کا چالان بھر کر ان کو مستقبل میں اس قطعہ اراضی پر تصرف کا اختیار تفویض کر دیتے ہیں ایسی چہار دیواریوں پر ایک نوٹس کنندہ ہوتا ہے کہ یہ جگہ بہ عوض بلدیہ چالان نمبر فلاں فلاں، فلاں کی ملکیت ہے۔ ماضی میں 22 لاکھ کے وی وی آئی پی حج کی طرح لاہور میں لگژری گریویارڈ کی خبر بھی آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ قبرستان میں جرمنی سے درآمد شدہ فریزرز میں مردوں کو رکھا جاسکے گا۔ درجنوں کیمروں کے ذریعے تدفین کی کوریج ہو گی جس سے رشتہ دار براہ راست تدفین کے تمام مراحل دیکھ سکیں گے۔ تدفین کے شرکا کے سروں پر ہوا کے لیے پنکھے لٹکے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ان رویوں سے لگتا ہے کہ ہمارے ادارے ہی نہیں ہم خود بھی مذہب و اخلاقیات سے عاری خودنمائی، خودپرستی اور نفس گزاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں ہمیں ارباب اختیار، سماجی اور مذہبی حلقوں کی محدود تعداد کی سرپرستی و پذیرائی ضرور حاصل ہے اور بہ حیثیت مجموعی ان کی خاموش تائید بھی حاصل ہے۔
عدنان اشرف ایڈووکیٹ  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 4 years
Text
چینی، آٹا چوروں کے بعد پیٹرول چور
گزشتہ 30 سال میں لندن میں بڑے بڑے سیاستدانو ں کے محلات کا چرچا رہا ہے، سب سے پہلے متحدہ کے بانی الطاف حسین کے 10 ملین کے اجویئر میں مکان کا انکشاف ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مکان مجھے میرے چاہنے والوں نے چندہ دے کر دلایا ہے۔ بات مہاجروں کی تھی جو لندن میں آباد تھے سب نے مان لی۔ پھر سرے محل کا ذکر آیا تو بینظیر صاحبہ نے ماننے سے انکار کر دیا۔ میڈیا نیا نیا آزاد ہو رہا تھا، کچھ دل جلے لندن جا پہنچے اوربڑی بڑی تصاویر شائع کر دیں مگر کسی نے OWN نہیں کیا، صرف خبروں تک معاملہ کھلتا اور دبتا رہا اور پھر قوم نے دیکھا وہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ قوم خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی اور پی پی پی والے تردیدیں کر تے رہے۔ 
حالات چلتے چلتے مسلم لیگ (ن) کے دور میں داخل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا، محترم نواز شریف کے لندن میں فلیٹوں کا ذکر شروع ہوا پہلے انکار پھر قطریوں کے خطوط، پھر قومی اسمبلی میں سعودیہ میں جلا وطنی کے دوران ملنے والے اسٹیل کے کارخانہ کو فروخت کر کے پیسہ لندن بھیجنے کا اعتراف، پھر صاحبزادے کا ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا ہامی بھرنا، پھر دوسرے صاحبزادے کا انکار، پھر صاحبزادی مریم نواز کا نیب کو انکاری بیان، پھر نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تو مجھے کیوں نکالا کی تکرار سننے میں آئی۔ آج کل یہ خاندان مع اہل و عیال ایون فیلڈ کے فلیٹوں میں غربت کی زندگی گزار رہا ہے۔ نیب حسن نواز اور شہباز شریف کے ایک صاحبزادے سلمان شہباز کو عدالت میں لانے میں لگا ہوا ہے، بظاہر لندن کے قوانین کے مطابق شاید ہی نیب والے کامیاب ہو سکیں کیونکہ نوازشریف کو بھی چپ لگ چکی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے صرف ایک وعدہ پورا کر دکھایا، وہ یہ کہ بڑے بڑوں کو جیل میں ڈالا، پھر نکالا اور پھر ڈالا اور اب سب ایک ایک کر کے نکل چکے ہیں۔کچھ گھروں میں اور کچھ لندن میں مقیم ہیں اور سب چپ شاہ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں وقت نے کروٹ لی اوردیکھتے ہی دیکھتے آٹا چور، چینی چور، خود پی ٹی آئی میں پیدا ہوئے میڈیا کو موقع ملا لوگ ماضی کے اربوں، کھربوں کے گھپلا بازوں کو بھولنے لگے۔ نیب اب نئے گھپلے بازوں کی طرف لگ گیا سب پر ہاتھ ڈالا گیا مگر کسی ایک کو جیل جانے کی زحمت نہیں دی گئی۔ اب گھبرانا نہیں سے کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا نعرۂ تبدیلی اپنی موت آپ مر گیا۔ 
سب ایک ایک کر کے چھوٹنے لگے کیونکہ حکومت ہلنے کا ڈر لگنے لگا تھا اور جو صاحب کرامت تھے وہ اپنا جہاز پکڑ کر آج کل لندن میں اپنے دس پندرہ ایکڑ کے مکان میں سستانے اور معروف بہانہ‘ چیک اپ کروانے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ اوپری آسمانی، سلطانی آفتیں ٹھہر جائیں تو وہ آئندہ کا لا ئحہ عمل سوچیں۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کسی کو نہیں چھوڑوں گا کہنے والے محترم وزیر اعظم سچ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ابھی اپنے ان ہونہاروں کو پکڑا بھی کب ہے، جو وہ چھوڑیں گے۔ چوہدری برادران اور سابقہ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان بھی نیب میں مطلوب ہیں مگر ابھی تک ان پر بھی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ اب ایک اور نئے فتنے نے جنم لیا ہے یعنی پیٹرول حکومت نے عالمی منڈی کے گرتے داموں کی وجہ سے دام کم کیے تو پیٹرول مافیا نے فوراً اپنا کام دکھا کر پیٹرول غائب کر دیا۔
اب لوگ چینی چور، آٹا چور، حتیٰ کہ کورونا کو بھول کر پیٹرول پمپوں کی لائنوں میں بغیر ماسک پہنے لگے ہوئے ہیں۔ ایک آدھ کو جرمانہ ہو گیا جو آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ یہ پہلی مافیا ہے جس میں ماضی، حال اور مستقبل کے سیاست دان ملوث نہیں ہیں۔ یہ بھی کورونا کی مانند آئے اور پورے ملک میں چھا گئے ہیں، بے چاری حکومت کس کس سے نمٹے وہ خود اسکینڈلوں سے نڈھال ہو چکی ہے۔ اب اسی مصیبت میں بجٹ بھی پیش ہوا۔ کہتے ہیں کوئی ٹیکس نہیں لگایا مگر حزب اختلاف جو ماضی میں اس سے زیادہ بُرے بجٹ پیش کرتی رہی ہے۔ جب کہنے کو کوئی مثبت با ت نہیں ملی تو سارا غصہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے پر اتار رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن البتہ اپنے نیزے اور تلواروں کے زنگ اتارنے میں لگ گئے ہیں جنہیں 2 سال سے زنگ لگا ہوا ہے۔ قوم کورونا کی واپسی سے پریشان ہے۔ سیاست دان اپنے بقایا تیروں کو آزمانے کیلئے بجٹ کا سہارا تلاش کر رہے ہیں۔حکومت کے عا قبت نا اندیش وزرا اپنی نا اہلیوں سے اپنے اتحادیوں سے ناروا سلوک بھی جا ری رکھے ہوئے ہوں۔ حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اختر مینگل 2 سال سے اپنے کئے گئے معاہدوں پر عمل در آمد کرانے کا واویلا کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جب پانی سر سے اوپر جانے لگتا ہے تو وہ پھر بھاگتے ہیں اور منا کر لے آتے ہیں۔ بس یہی کام رہ گیا ہے ان کے وزرا کا، اسی کا نام تبدیلی ہے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
risingpakistan · 5 years
Text
افغان باقی، کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ
پاکستان کے ہمسایہ برادر اسلامی ملک افغانستان میں 19 سال کی طویل جنگ اور خانہ جنگی کے بعد بالآخر امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا میں امن معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس کے مطابق طالبان افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، 135 دن میں 8 ہزار امریکی فوجی ہی رہ جائیں گے جو 9 ماہ میں نکل جائیں گے۔ حاصلِ جنگ اس کا یہ رہا کہ اب یہ حقیقت پوری دنیا پر عیاں ہو گئی کہ طالبان ہی افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی اور کسی بیرونی حملے اور مداخلت کے خلاف غالب مزاحمتی قوت ہیں۔ معاہدے میں دستخط شدہ مندرجات کے مطابق اب اس امر کا کوئی امکان نہیں کہ افغان سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی نوعیت کی لمبی موجودگی، ماسوائے سفارتی مشن کے ہو گی۔ امریکہ کی موجودگی نہیں ہو گی تو پھر نیٹو کے رُکن ممالک کی بھی ایسی ہی موجودگی کا نہ ہونا طویل جنگ اور خانہ جنگی کا ایک اور منطقی انجام ہے۔ رہی افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے والے بھارت کی موجودگی، اس کا خاتمہ معاہدہ دوحا کا حصہ تو نہیں لیکن ایک اور بڑا انجام ہو گا۔ 
بھارتی سفارتخانہ اور ’’سرمایہ کاری فقط سرمایہ کاری‘‘ آنے والی افغان حکومت کی تجارتی اور سرمایہ کاری کی پالیسی کے تابع ہو گی۔ یہ بھی کہ بھارت کی سفارتی موجودگی کا حجم کتنا ہونا چاہئے اور نئی دہلی میں افغان سفارتی مشن کتنا ہو، یہ کچھ خود مختار ملکوں کی قومی مفادات کے پیش نظر ہونے والے بیرونی اثر سے آزاد فیصلوں کے ماتحت ہی ہو گا، جو افغانستان میں تو ہو گا لیکن بھارت نے افغان عوام اور اب انہی کی فلاح اور افغانستان میں امن کو یقینی بنانے میں سرگرم ہونے والی حکومت کے خلاف اگر ذرا سا بھی تجاوز کیا تو یقیناً افغان بطور قوم ملک اور حکومت کا جواب اپنے ملک میں نہیں، وہیں دیں گے جہاں سے ایسا شر اٹھے گا۔ ایک تو اب کوئی طاقتور سے طاقتور ملک بھی افغانستان میں معمول کی سفارتی اور تجارتی، عالمی قبولیت کی حامل ہونے والی سرگرمی کے علاوہ کسی اور نوعیت کی مداخلت، سرگرمی یا خفیہ ایجنڈے کی پیروی کرنے کے شر پر ہزار بار سوچے گا کہ یہ پیغام پوری دنیا کو امریکہ نے طالبان سے معاہدے کیلئے اختیار کیے گئے رویے، اقدامات اور پالیسی سے دیدیا کیونکہ امریکہ اور اس کی موجود قیادت کا یہی رویہ خود پچھلی سب امریکی حکومتوں کے بہت جذباتی غلط فیصلوں اور غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے تحت اقدامات کا ازالہ ثابت ہوا۔ 
اسی راہ سے امریکہ، افغان سرزمین کی سخت گیر غالب سیاسی و عسکری قوت کے لپٹے کمبل کو اُتارنے میں کامیاب ہوا ہے۔ واشنگٹن کیلئے لازم ہو گیا ہے کہ وہاں کوئی بھی حکومت ہو، مسئلہ فلسطین و کشمیر کے حوالے سے امریکہ کو ہر دو عالمی مسائل پر جس میں اب بھارت اور میانمار میں مذہبی آزادی کی بدترین کیفیت بھی شامل ہو گئی ہے، اپنی جاری پالیسی پر نظر ثانی کرے اور طاقتور امریکہ کے روایتی پاور بروکرز سے آزادی حاصل کر کے اسٹیچو آف لبرٹی کے بےاثر ہو جانے والے پیغام کو پھر سے بااثر بنائے۔ رہا معاملہ بعد از معاہدۂ دوحا کے امکانی فارن فری افغانستان کا تو 20 سال سے طرح طرح کے جنگ و جدل اور اس سے قبل گیارہ سالہ افغان جہاد سے سوویت جارحیت اور قبضے کا خاتمہ کرنیوالی امن کی شدید پیاسی افغان قوم نے اپنے لئے امن و آتشی کے جام اور استحکام و خوشحالی کے سبھی ذرائع، خود باہمی اتحاد و یکجہتی سے کرنی ہے جو اب افغان قوم کی اتنی ہی بڑی ضرورت بن گئی ہے، جیسے عشروں سے ان کی امن و استحکام کی ضرورت سے بڑھ کر افغان آزادی و خود مختاری بنی رہی اور بن کر بڑھتی ہی گئی۔ 
اس اضافے نے ان خصوصاً طالبان کی ورطہ حیرت میں ڈالنے والی مزاحمت کو ممکن بنایا، جس کا ذریعہ محویت افغان قوم کیلئے ہمیشہ ہی اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کیلئے جان سے بےنیاز رہا۔ تبھی تو اللہ تبارک تعالیٰ نے وہ حالات پیدا کیے کہ ہمسایہ ملک پاکستان میں عمران خان کی ’’حکومت کی صلح جوئی اور جنگ نہیں امن میں اشتراک کی پالیسی‘‘ پر عملدرآمد کے تعاون سے امریکیوں اور خود طالبان قیادت کو وہ باہمی اعتماد مل گیا کہ حقیقی آزادی اور محفوظ راستے کے متلاشی دونوں ہی فریق میز پر آمنے سامنے فقط بیٹھے ہی نہیں بلکہ بیٹھ کر اپنی اپنی ضرورت، عزت اور وقار کے مطابق معاہدۂ دوحا کرنے کے قابل بھی ہو گئے۔ اللہ اکبر! بلاشبہ معاہدۂ دوحا نے افغانستان سے قابض روسی افواج کے مکمل انخلا 1989-90 کے بعد پھر ایک بار آج کی دنیا پر واضح کیا کہ اب قبضے، قبضہ گروپ، مافیا کا زمانہ بیت گیا، جو نہیں مانے گا اور اپنی طاقت اور اہداف کی مغل��ب حیثیت و کیفیت کو ہی اپنی سپرمیسی اور شیطانی اقدامات کی کامیابی سے تعبیر کرتا ہے اسے بالآخر طالبان والی مزاحمت کا سامنا ہو گا۔
اتنے بڑے سبق کے باوجود بھارت اور اسرائیل، زمانے کے برعکس الٹ چلتے ہوئے اپنے قرب میں کیا، اندر ہی افغانستان اور پاکستان خود ہی تشکیل دے رہے ہیں اور دنیا اور خود کو بھی تشویش میں رکھے ہوئے ہیں۔ طالبان کا حاصل کوئی افغانستان کی آخری کامیابی نہیں، یہ ساری دنیا کو سبق ہے جو عالمی امن و استحکام کیلئے دنیا کو پڑھنا، سمجھنا اور سمجھ کر اس پر چلنا بھی ہے۔ افغانیوں کا یہ معرکہ بےپناہ نتائج کا حامل اتنا عظیم سبق ہے کہ غلبے کے نشے میں من گھڑت قومی مفاد اور منڈی کتنی بھی بڑی ہو، انسان کے پیدائشی حق اور حق کی حقیقت کو دنیا میں کچلا نہیں جا سکتا۔ اب دنیا کو سمجھ آئے گی کہ اقبال نے یہ کیوں کہا تھا، افغان باقی، کہسار باقی، الحکم للہ، الملک للہ!
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
1 note · View note
umeednews · 3 years
Text
عوام کو مہنگائی مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، وزیراعلیٰ پنجاب
عوام کو مہنگائی مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، وزیراعلیٰ پنجاب
لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ عوام کو کسی صورت مہنگائی مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کی جگہ جیل ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیرِ صدارت سرینا ہوٹل میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو فیصل آباد کے ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ وزیراعلیٰ کو مہنگائی کنٹرول کرنے کے حوالے سے کیے گئے اقدامات…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes