Tumgik
#پریتم
urdu-e24bollywood · 2 years
Text
پریتم کی دھن 'آواتانی نیار نیا سال میں' لانچ ہوئی۔
پریتم کی دھن ‘آواتانی نیار نیا سال میں’ لانچ ہوئی۔
بھوجپوری دھن: بھوجپوری فلموں کی تجارت کے ابھرتے ہوئے گلوکار پریتم اوجھا نے اپنے گانوں کے ذریعے دھوم مچا رکھی ہے۔ لوگ بھی اس کے نئے گانوں کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔ اس ایپی سوڈ پر، نئے 12 ماہ کے ایونٹ پر، پریتم اوجھا کی نئی ٹیون لانچ ہوئی ہے، جس نے یوٹیوب پر دھوم مچا دی ہے۔ ان کی اس نئی دھن کو لوگ بہت زیادہ سن رہے ہیں۔ نئے 12 ماہ پر پریتم اوجھا کا دھماکہ (پریتم اوجھا نیو 12 ماہ ٹیون…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 1 year
Text
اج آکھاں وارث شاہ نوں
امرتا پریتم
اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی، تُوں لکھ لکھ مارے بین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دتا اے زہر ملا
تے اونہاں پانیاں دھرت نوں دتا زہر پلا
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیاں چون
اج پریت دیاں شہزادیاں ، وچ مزاراں رون
اج سبھے قیدی بن گئے، حسن عشق دے چور
اج کتھوں لیائیے لب کے، وارث شاہ اک ہور
۔۔۔۔۔امرتا پریتم
1 note · View note
urduchronicle · 10 months
Text
پنجابی میں ادب شعوری طور پر لکھا گیا، نیلم احمد بشیر
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 16ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ”پنجابی زبان و ادب کے مشاہیر“ کے عنوان پر سیشن کا انعقاد کیاگیا۔ اس سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے میزبان توقیر چغتائی نے کہا کہ امرتا پریتم کے حوالے سے بہت ساری باتیں فرضی کہی گئی ہیں جن لوگوں نے ان سے ملاقات نہیں کی اس کی زندگی پر پڑھا نہیں لکھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے امرتا پریتم کے ساتھ 14 ملاقاتیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
qalbtalk · 26 days
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
زندگی آپ سے اُس وصف کا امتحان لیتی ہے جو آپکے اندر موجود ہو اور میرے اندر محبت تھی-
‏امرتا پریتم
‏ (جنم دن 31 اگست، 1919)
zindagi aapse uss wasf ka imtehaan leti hai jo aapke andar maujood ho aur mere andar mohabbat thi.
amrita pritam (date of birth: 31 August, 1919)
11 notes · View notes
moizkhan1967 · 10 months
Text
‏پریتم ایسی پریت نا کریو
‏جیسی کرے کھجور
‏دھوپ لگے تو سایہ ناہی
‏بھوک لگے پھل دور
‏پریت کبیرا! ایسی کریو
‏جیسی کرے کپاس
‏جیو تو تن کو ڈھانکے
‏مرو، نہ چھوڑے ساتھ
‏پریت نہ کیجیٔو پنچھی جیسی
‏جَل سوکھے اُڑ جائے
‏پریت تو کیجیٔو مچھلی جیسی
‏جَل سوکھے مر جائے
‏بھگت کبیر
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years
Text
سہیلی بوجھ پہیلی
"وہ" دریا پار اتر گئے
مِرے سب موتی مر گئے
مِری قسمت میں کھائی
اجل مُکلاوا لائی
یہ میرا اپنا سایہ
لگے کیوں آج پرایا؟
چٹخ گئی آج ہتھیلی
کہاں ہیں سارے بیلی؟
سہیلی بوجھ پہیلی
وہ اُن آنکھوں میں حسرت
کسی دلہن کی میت
پیے ہیں زہر پیالے
نی اپنے بین نرالے
مِرا کیوں جیون کُوڑا؟
تُو خود ہی باندھے جُوڑا !
جمی گالوں پر کائی
مِرا پریتم ہر جائی
دنوں کی کالی باتیں
شبوں میں زرد حویلی
سہیلی بوجھ پہیلی
سمندر دل والوں سے
قلندر دل والوں سے
الجھنے والا روئے
دبی ہیں جو قبروں میں
پرانی اُن باتوں سے
بہلنے والا روئے
قدم جب ڈر جاتے ہیں
تو رستے مر جاتے ہیں
ہمارے چار اشکوں سے
سمندر بھر جاتے ہیں
جو "ہو" کر بھی نہیں ہوتے
وہ کیونکر مر جاتے ہیں؟
کہاں رونے بیٹھے ہو؟
"نہیں" ہو کر بھی پاگل
یہاں "ہونے" بیٹھے ہو؟
اٹھو اب گھر جاتے ہیں
خدا ہے ایک اکیلا
یہاں میں ایک اکیلا
وہاں ہے کون اکیلی ؟
سہیلی بوجھ پہیلی
یہی امروز کا نغمہ
فقط فردا کا صدمہ
اگر من شاد نہ ہو تو؟
سکوں آباد نہ ہو تو؟
اسے دیوار کہیں گے؟
اگر غمخوار نہ ہو تو
یہ دنیا رسموں والی
اداسی کرموں والی
نہایت جھوٹی کیوں ہے؟
حکایت قَسموں والی؟
جدا ہو کر بھی اُن سے
جدائی راس ہی کیوں ہے؟
بہت بے حِس ہو کر بھی
یہ اک احساس ہی کیوں ہے؟
جو کھیل آتا تھا اِس کو
محبت کیوں نہیں کھیلی؟
سہیلی بوجھ پہیلی
- زین شکیل
3 notes · View notes
synexdoche · 2 years
Text
تیرا ملنا ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی ہتھیلی پر اک وقت کی روزی رکھ دے-
امریتا پریتم-
9 notes · View notes
bazmeurdu · 3 years
Text
خیال اور احساس کی شاعرہ امرتا پریتم
راولپنڈی کے گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد میں نے ملازمت کا آغاز گورنمنٹ کالج منڈی بہاؤالدین سے کیا۔ وہ ایک خاموش سا قصبہ تھا جہاں کی زندگی سادہ اور لوگ بہت ملنسار تھے۔ یہ آج سے چار دہائیاں پہلے کی بات ہے۔ اس بظاہر عام سے قصبے کی غیر معمولی تاریخ ہے اس کے ایک طرف مونگ کا وہ تاریخی ٹیلہ واقع ہے جہاں سکندرِ اعظم اور گجرات کے راجہ پورس کی لڑائی ہوئی تھی اور دوسری طرف چلیانوالہ کا تاریخی مقام ہے جہاں 1848ء میں انگریزوں کی فوج کو پنجابی فوج نے منہ توڑ جواب دیا تھا اور ��س کے نتیجے میں فرنگی فوج کے سپہ سالار کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ منڈی بہاؤالدین کے گردونواح میں ابھی تک پرانی عمارتیں اور مندر اس زمانے کی یاد دلاتے ہیں جب یہاں ہندو‘ سکھ اور مسلمان رہتے تھے۔ جن کی اپنی اپنی عبادت گاہیں تھیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ 
منڈی بہاؤالدین میں ایک سکھ فیملی رہتی تھی راج بی بی اور اس کا خاوند کرتار سنگھ جو سکھ مذہب کا پرچارک تھا ۔ وہ کتابوں کا رسیا تھا اور شاعری بھی کرتا تھا۔ یہ 1919ء کی بات ہے ۔ یہ سال ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اس سال جلیانوالہ باغ کا خونیں واقعہ پیش آیا تھا جس میں جنرل ڈائرکے حکم پر ہزاروں نہتے اور معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا۔ اسی سال منڈی بہاؤ الدین کے چھوٹے سے قصبے میں راج بی بی اور کرتار سنگھ کے گھر میں ایک بچی نے جنم لیا۔ والدین نے اس کا نام امرتا کور رکھا تھا۔ امرتا شروع سے ہی ایک مختلف بچی تھی۔ جو چیزوں کو اپنے زاویے سے دیکھتی اور ناانصافی پر چپ رہنے کے بجائے آواز بلند کرتی تھی۔ پنجاب کے اکثر گاؤں کے گھروں میں ایک کارنس ہوا کرتی تھی جہاں برتن‘ پلیٹیں اور گلاس ایک قطار میں سجا کر رکھے جاتے تھے۔ ننھی امرتا نے دیکھا کہ اس کے گھر کی کارنس پر تین گلاس باقی سب برتنوں سے الگ ایک کونے میں رکھے ہیں۔ 
اس کی نانی نے اسے بتایا کہ یہ گلاس مسلمان مہمانوں کو پانی پلانے کے لیے ہیں کیوں کہ ہم انہیں ان گلاسوں میں پانی نہیں پلا سکتے جن میں ہم خود پانی پیتے ہیں۔ امرتا پریتم نے دل میں سوچا یہ تو ان گلاسوں سے ناانصافی ہے اس نے نانی سے کہا : میں انہی گلاسوں میں پانی پیوں گی جو الگ رکھے ہیں۔ جب یہ جھگڑا بڑھا اور والد کو خبر ہوئی تو اس نے امرتا کی بات سے اتفاق کیا اور پھر اس دن کے بعد سے سب گلاس اور برتن اکٹھے ہو گئے۔ امرتا کی عمر ابھی دس سال کی تھی کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اسے یوں لگا کہ وہ زندگی کی تپتی ہوئی دوپہر میں اکیلی ہے۔ اس کے سر سے والدہ کی شفقت کا سائبان چھن گیا ہے۔ والدہ کی وفات کے بعد وہ لاہور آگئے۔ لاہور ایک بڑا شہر تھا۔ زندگی سے بھر پور۔ اب امرتا کی عمر سولہ برس کی تھی‘ اس زمانے میں لڑکیوں کی شادی جلدی کر دی جاتی تھی۔ امرتا کی شادی پریتم سنگھ سے کر دی گئی ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ منگنی اس وقت ہوئی تھی جب امرتا کی عمر صرف چار برس تھی۔ 
اب امرتا کور امرتا پریتم بن گئی تھی۔ اسی سال امرتا کی شاعری کی پہلی کتاب ''امرت لہراں‘‘منظرِ عام پر آئی ۔ یہ پنجابی نظموں کی کتاب تھی۔ سولہ برس کی عمر میں کسی لڑکی کی کتاب کا منظرِ عام پر آنا ایک انوکھی بات تھی۔ امرتا اور پریتم سنگھ کے گھر ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے بیٹے کا نام نوراج اور بیٹی کا نام کندلا رکھا گیا۔ پھر 1947ء کا سال آیا جب ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں بہت سے خاندان بے گھر ہو گئے۔ امرتا پریتم بھی اپنے خاندان کے ساتھ پہلے ڈیرہ دون اور پھر دہلی چلی گئی۔ تقسیم کے دوران کتنے ہی لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور کتنے ہی بے گھر ہو گئے۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک روز امرتا دہلی سے واپس ڈیرہ دون جا رہی تھی‘ رات کا وقت تھا‘ ٹرین کی کھڑکی سے باہر مناظر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔ کہیں درخت‘ کہیں میدان۔ رات کی تاریکی میں ہوا کا شور مل گیا تھا۔ اچانک امرتا کو معروف پنجابی شاعر وارث شاہ کا ایک مصرع یاد آ گیا۔ ''بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے‘‘
یہ مصرع وارث شاہ کی لافانی تحریر ''ہیر رانجھا ‘‘ سے تھا جس میں وارث شاہ نے ہیر کے غم کو محسوس کر کے مجسم کر دیا تھا۔ امرتا پریتم کے ذہن میں فسادات کے دوران موت کے گھاٹ اُترنے والے کئی چہرے آ گئے ۔ ٹرین تیز رفتاری سے چل رہی تھی ۔ باہر تاریکی اور ہوا کا شور تھا اور امرتا کے ذہن میں وہ نظم اُتر رہی تھی۔ جس نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچانا تھا۔ اس نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے۔
اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ کتوں قبراں وچوں بول تے اَج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وین اَج لکھاں دھیاں روندیاں‘ تینوں وارث شاہ نوں کَیہن
اُٹھ درد منداں دیا دردیا اُٹھ تک اپنا پنجاب اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
یہ نظم سرحد کے دونوں طرف بسنے والے دلوں کی آواز تھی جس نے امرتا پریتم کی شہرت کو چار چاند لگا دیے ۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ سکھوں کے ایک حلقے کی طرف سے اعتراض کیا گیا کہ امرتانے نظم میں وارث شاہ کے بجائے گورونانک کو کیوں مخاطب نہیں کیا۔
کہتے ہیں شہرت کے ساتھ ساتھ مخالفت کے محاذ بھی کھل جاتے ہیں۔ امرتا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے کردار پر سوال اُٹھائے گئے۔ اور اس کی نظموں کو غیر اخلاقی کہا گیا۔ یہی زمانہ تھا جب پنجابی کے معروف شاعر موہن سنگھ اور امرتا پریتم کے تعلق کی باتیں ہونے لگیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ موہن سنگھ نے امرتا پر کئی نظمیں لکھی تھیں۔ اگر یہ محبت تھی بھی تو یک طرفہ۔ موہن سنگھ کی طرف سے۔ امرتاپریتم اپنی سوانح عمری ''رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں لکھتی ہیں کہ آخر ایک روز میں نے صاف صا ف موہن سنگھ کو بتا دیا۔ ''موہن سنگھ جی! میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ کا احترام کرتی ہوں۔ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ موہن سنگھ نے جواب میں کچھ نہیں کہا‘ اور بعد میں ایک مختلف نظم لکھی جس میں میرے الفاظ دہرائے گئے تھے ''میں آپ کی دوست ہوں‘ میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اور ساتھ ہی اگلی سطر میں اُداس بھرے لہجے میں لکھا: ''میں اور کیا چاہتا ہوں‘‘ زندگی بھی عجیب تماشا ہے دیکھتے ہی دیکھتے کیسے کردار بدل جاتے ہیں ۔ امرتا کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 
ساحر سے اس کی محبت بھی یک طرفہ رہی ۔ یہ ایک شدت بھری محبت تھی۔ جس کا بیان امرتا کی سوانح عمری ''رسیدی ٹکٹ ‘‘ میں جا بجا ملتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ساحر کی شاعری کی شہرت ہر طرف تھی۔ خاص کر اس کی نظم ''تاج محل‘‘ نوجوانوں میں بہت مقبول تھی۔ امرتا کی قیمتی چیزوں میں ''تاج محل ‘‘نظم بھی تھی جو ساحر نے فریم کرا کے اسے دی تھی اور لاہور سے جاتے وقت امرتا دوسری قیمتی چیزوں کے ہمراہ اسے اپنے ساتھ لے کر لاہور سے ہجرت کر کے ڈیرہ دون چلی گئی تھی۔ محبت میں کیسے ہم بچے بن جاتے ہیں۔ امرتا پریتم نے اپنے پاس وہ بیج سنبھال کر رکھا تھا جس کے ایک طرف ایشین رائٹرز کانفرنس اور دوسری طرف ساحر لدھیانوی لکھا تھا۔ اس کانفرنس میں ساحر نے اپنا بیج اُتار کر امرتا کے کوٹ اور امرتا کا بیج اُتار کر اپنے کوٹ پر لگا لیا تھا ۔ کانفرنس ختم ہو گئی لیکن وہ بیج امرتا نے اپنی قیمتی چیزوں کے ہمراہ رکھ لیا۔ تنہائی کے لمحوں میں امرتا جب بھی اس بیج کو دیکھتی اسے وہ روشن اور مہربان دن یاد آ جاتا اور اس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔
 امرتا پریتم کی زندگی پُر شور پہاڑی جھرنے کی طرح تھی جس میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک روز اس نے سوچا‘ کیوں نہ اپنی زندگی کا احوال لکھا جائے۔ صاف صاف، لگی لپٹی کے بغیر۔ اس کا اظہار اس نے اپنے دوستوں سے بھی کیا۔ اس پر خوشونت سنگھ نے کہا: تمھاری زندگی کی کہانی تو رسیدی ٹکٹ پر لکھی جا سکتی ہے۔ اس جملے کی کاٹ کو امرتا نے بھی محسوس کیا۔ رسیدی ٹکٹ کا سائز عام ٹکٹ سے کم ہوتا ہے۔ لیکن امرتا دُھن کی پکی تھی اس طرح کے جُملے اسے اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتے تھے‘ اور رہی رسیدی ٹکٹ کی بات تو امرتا کو معلوم تھا کہ رسیدی ٹکٹ کا سائز کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو یہ کسی بھی دستاویز کو قیمتی بنا دیتا ہے۔ اس نے پنجابی ادب کو لا فانی تحریریں دی تھیں۔ وہ پنجابی اور ہندی میں یکساں سہولت سے لکھتی تھی۔ اس کے اندر تخلیقی وفور نے اپنے اظہار کے لیے کبھی نثر اور کبھی شاعری کا سہارا لیا۔ وہ بیک وقت ایک ناول نگار‘ ایک شاعر اور ایک مضمون نویس تھی۔ لکھنا اس کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ اس کی کتا بوں کی تعداد تقریباً سو کے لگ بھگ ہو گی۔ 
شاعری کی متعدد کتابوں کے علاوہ اس نے کئی مقبول ناول لکھے۔ انھی میں سے ایک ناول ''پنجر‘‘ بھی ہے‘ جس پر فلم بنی اور نیشنل ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ اس کی کتابوں کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے اور اسے کئی ممالک میں کانفرنسوں میں بُلایا گیا۔ اس کی تحریروں پر اسے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ بھارت کے اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ اس کے حصے میں آئے‘ اور پھر دہلی یونیورسٹی نے اسے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری کا مستحق قرار دیا۔ امرتا کی شاعری کا کینوس وسیع تھا۔ وہ خیال اور احساس کی شاعرہ تھی‘ جس نے غمِ جاناں کو غمِ دوراں میں بدل دیا تھا۔ اس کی نظموں میں ایک عورت کا دُکھ دیکھا جا سکتا تھا‘ جو ایک پدر سری (Patriarchate) معاشرے میں ساری عمر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امرتا ماڈرن پنجابی شاعری کا سب سے اہم نام ہے جس نے شاعری کو اپنی ذات کے دُکھوں سے بلند ہو کر زمانے کے مسائل کا آئینہ بنا دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دولت اور شہرت اس کے گھر کی چوکھٹ کی باندیاں تھیں‘ لیکن امرتا کا اندر ایک خالی پن سے بھرا ہوا تھا۔ 
پریتم سنگھ سے اس کی شادی صرف سمجھوتے کی شادی تھی۔ دونوں میں ایک فکری بعد تھا۔ اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی۔ وہ چیز کیا تھی خود امرتا کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ پھر ایک روز اچانک اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ یہ 1944ء کی بات ہے‘ لاہور اور دہلی کے درمیان ایک جگہ مشاعرہ تھا‘ جس میں ساحر بھی شریک تھا۔ یہیں امرتا کی ملاقات ساحر سے ہوئی‘ نجانے اسے ساحر کی آنکھوں میں کیا نظر آیا۔ اسے یوں لگا‘ جیسے اس کے دل کی دھڑکنیں رُک گئی ہوں۔ پہلی ملاقات کا یہ منظر امرتا کی زندگی میں ٹھہر گیا۔ پھر ساری عمر وہ اسی منظر کی اسیر رہی۔ وہ ساحر کی محبت میں لمحہ لمحہ پگھل رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ پریتم سنگھ کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھی ہے‘ لیکن محبت میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔ عشق کا غبار ارد گرد کی حقیقتوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتا ہے۔ امرتا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پریتم سنگھ سے اس کی شادی یوں بھی کوئی آئیڈیل شادی نہیں تھی‘ اور ساحر کے ساتھ امرتا کے تعلق کی کہانیوں نے پریتم سنگھ اور امرتا کے درمیان دیوار کھڑی کر دی۔ 1960ء میں انھوں نے خاموشی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
ساحر کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھتا اور پھر دو قدم پیچھے ہٹ جاتا۔ کہتے ہیں‘ ساحر پر اپنی ماں کا گہرا اثر تھا۔ ساحر تمام عمر اپنے ہر عمل کی تصدیق اپنی ماں سے چاہتا تھا۔ کہتے ہیں‘ ماں سے اس کا پیار ایک obsession بن گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی دنیا میں کسی اور عورت کا مستقل طور پر آنا ممکن نہیں تھا۔ ادھر امرتا اپنے سارے خوابوں کا محور ساحر کو بنا چکی تھی۔ساحر اس کے گھر آتا تو دونوں پہروں خاموش ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رہتے۔ ساحر ایک کے بعد دوسرا سگر یٹ سُلگاتا حتیٰ کہ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر جاتی۔ کہتے ہیں‘ تعلق کا ایک مقام ایسا بھی ہے‘ جہاں خاموشی باتیں کرتی ہے‘ اور ابلاغ کے لیے لفظوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گھنٹوں بیٹھ کر ساحر تو رُخصت ہو جاتا لیکن امرتا ساحر کی موجودگی تا دیر محسوس کرتی۔ ایش ٹرے میں پڑے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو سُلگاتی اور ساحر کے انداز میں سگریٹ پینے کی اداکاری کرتی۔ وہ سگریٹ کے ان ٹکڑوں کو پھینکتی نہیں تھی بلکہ اپنی الماری میں محفوظ کر لیتی تھی۔ یہیں سے اسے سگریٹ پینے کا شوق چُرایا اور پھر سگریٹ نوشی آخر دم تک اس کی عادتوں کا حصہ رہی۔ 
کبھی کبھی امرتا سوچتی‘ ساحر کا خیال کیوں اس کی یادوں کی زنجیر بن گیا ہے۔ تب اسے وہ دن یاد آ جاتا جب ساحر ایک مشاعرے کے بعد سٹیج سے نیچے اُتر کر پنڈال سے باہر آرہا تھا‘ اور اس کے مداحوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ سب آٹو گراف بُک پر اس سے آٹو گراف لے رہے تھے۔ امرتا بھی اس ہجوم کا حصہ تھی‘ لیکن اس کے پاس نہ تو آٹو گراف بک تھی اور نہ ہی کوئی کاغذ جس پر وہ آٹو گراف لیتی۔ اس نے بے ساختہ اپنی ہتھیلی ساحر کے سامنے کر دی اور ہنستے ہوئے بولی ''آٹو گراف پلیز‘‘۔ ساحر نے نگاہ اُٹھا کر امرتا کو دیکھا‘ جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں محبت اور عقیدت کے رنگ گھل مِل گئے تھے۔ ساحر نے اپنے انگوٹھے پر پین کی روشنائی لگائی اور امرتا کی کلائی پکڑ کر اس کی ہتھیلی پر انگوٹھے کا نشان لگا دیا۔ انگوٹھے کا یہ نشان امرتا کے خیالوں میں امر ہو گیا تھا۔ پریتم سنگھ سے علیحدگی کے بعد امرتا کا پہلا خیال ساحر کی طرف گیا۔ وہ اسے فون کر کے بتانا چاہتی تھی کہ وہ شادی کے بندھن سے آزاد ہو گئی ہے‘ اور اب اس کے اور ساحر کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہ فون کرنے کے لیے بڑھی تو اچانک اس کی نظر اخبار پر پڑی‘ جہاں ایک ایسی خبر اس کی منتظر تھی جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔
اخبار میں ساحر لدھیانوی اور گلوکارہ سدھا ملہوترا کی محبت کی داستان چھپی تھی۔ امرتا کے جسم سے جیسے جان نکل گئی تھی۔ اس نے ٹیلی فون کا ارادہ ترک کر دیا۔ زندگی کے اس دو راہے پر اسے امروز کی شکل میں ایک ساتھی مل گیا۔ امروز ایک آرٹسٹ تھا‘ جس نے امرتا کی کتابوں کے ٹائٹل بنائے تھے۔ اس مشکل وقت میں امروز نے اسے سہارا دیا اور یہ عمر بھر کا ساتھ رہا جو چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ امروز کا کردار بھی ایک غیر معمولی شخص کا کردار تھا جس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا دل و جان سے ساحر کی محبت کی اسیر ہے‘ ساری زندگی امرتا کے ساتھ گزار دی۔ امرتا کاغذ پر اپنے خیالات تحریر کرتی اور امروز کینوس پر تصورات کے گُل بوٹے بناتا۔ امرتا اپنی زندگی میں شہرت کے بلند ترین درجوں پر پہنچی۔ اس کے چاہنے والے پاکستان اور ہندوستان میں موجود تھے لیکن پھر بھی اس کی زندگی میں ایک کمی تھی۔ اس کمی کا نام ساحر تھا۔ یہ کمی اس وقت تک اس کے ساتھ رہی جب 31 اکتوبر 2005ء کو اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ وہ اکثر سوچا کرتی‘ اگر امروز اس کے سر کی چھت ہے تو ساحر اس کا آسمان ہے۔ وہ آسمان جس کا نیلگوں رنگ اس کے رگ و پے میں اُتر گیا تھا۔ ہر دم رنگ بدلتا آسمان جسے ساری عمر وہ حیرت، عقیدت اور حسرت سے تکتی رہی لیکن اسے کبھی چھو نہ سکی۔ 
شاہد صدیقی
بشکریہ دنیا نیوز
2 notes · View notes
penslipsmagazine · 3 years
Text
پنج ورھے لمی سڑک ۔۔۔ امرتا پریتم
پنج ورھے لمی سڑک ۔۔۔ امرتا پریتم
پنج ورھے لمی سڑک ( امرتا پریتم ) التھا: راشد جاوید احمد الماری دا شیشہ بہت لما سی۔ اوہدے قد جڈھا اوہ اپنے کوٹ دے بٹن کھولن لگا سی۔ اوہدا ہتھ بٹن اتے ہی رک گیا۔ جیویں شیشیے وچلے ہتھ نے اوہدا ہتھ پھڑ لیا سی۔ ” کپڑے نہیں بدلو گے ؟ ” عورت دی آواز آئی مرد ہس جیہا پیا، شیشے وچ وی کجھ ہل جیہا گیا ” توں پورٹریٹ آف ڈورین گرے پڑھی اے ؟ ” مرد پچھیا ” پورٹریٹ آف ڈورین گرے ؟ “ آسکر وائلڈ دی سب توں مشہور…
Tumblr media
View On WordPress
3 notes · View notes
0rdinarythoughts · 3 years
Text
Tumblr media
تم سوچو!!
اگر واقعی کوئی ایسا آدمی ھم سے بچھڑ جائے ، جس کے ساتھ زندگی گزارنے کو جی چاھتا تھا ، تو اُس کے فراق کی دیوانگی ھمیں کیا کچھ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی ؟؟
”اَمرتا پریتم“
1 note · View note
annoyeds-world · 4 years
Text
‏پریتم ایسی پریت نا کریو
جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ نا ہی
بھو ک لگے پھل دور
پریت کبیرا!! ایسی کریو
جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے
مرو، نہ چھوڑے ساتھ
پریت نہ کیجیٔو پنچھی جیسی
جَل سوکھے اُڑ جائے
پریت تو کیجیٔو مچھلی جیسی
جَل سوکھے مر جائے ....
بھگت کبیر
2 notes · View notes
urdu-shayri-adab · 4 years
Text
‏من کی مانگ ہی کیا تھی مولا!
پریتم ، پیڑ ، پرندے، پانی
4 notes · View notes
hameed-jarwar · 5 years
Text
تیرا ملنا ایسا ہوتا ہے جیسے کوئی
ہتھیلی پر ایک وقت کی روٹی رکھ دے
امرتا پریتم
3 notes · View notes
my-urdu-soul · 2 years
Text
Tumblr media
روزی
تیرا ملنا ایسا ہوتا ہے
جیسے کوئی ہتھیلی پر
اک وقت کی روزی رکھ دے
- امرتا پریتم
43 notes · View notes
warraichh · 2 years
Text
‏ساحر لدھیانوی نے یہ غزل امرتا پریتم کے لیے لکھی اور خود ہی گایئ بھی تھی..!!!
0 notes
penslipsmagazine · 4 years
Text
نظم ۔۔۔ امرتا پریتم
نظم ۔۔۔ امرتا پریتم
نظم امرتا پریتم میری جِیبھ تےـــــ تیرا لُون اے تیرا ناںــــــ میرے باپ دے ہوٹھاں تے تے میرے ایس بُت وچ میرے باپ دا خُون اے! میں کویں بولاں! میرے بولن توں پہلاں بول پیندا اے تیرا اَن کجھ کُو بول سن،پر اسیں ان دے کِیڑے تے اَن بھار ہیٹھاں ــــ اوہ د بے گئے ہن اَن داتا ! کامے ماں باپ دتےکامے نیں جم ، کامے دا کم ہے صرف کم باقی وی تاں کم کردے ایہو ہی چم اوہ وی اک کم اے ایہ وی اک کم اَن داتا ! میں چم…
Tumblr media
View On WordPress
3 notes · View notes