Tumgik
#پیرزادہ سلمان
urduchronicle · 10 months
Text
اردو ادب کے فروغ میں جتنا حصہ غزل کا ہے، کسی اور صنف کا نہیں، افتخار عارف
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو غزل کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیاگیا، جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف اور افضال احمد سید نے کی۔ جن مشاہیر پر گفتگو کی گئی ان میں منیر نیازی ، جگر مرادآبادی، ادا جعفری، پروین شاکر، ناصر کاظمی، احمد فراز ، اطہر نفیس، جون ایلیا، شکیل جلالی اور عرفان صدیقی شامل تھے۔ غزل کے ان مشاہیر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 6 years
Text
پہلی بار آمنے سامنے
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/101330/
پہلی بار آمنے سامنے
Tumblr media
اداکار میکال ذوالفقاراور ثناجاوید نئے سیریل کی ریکارڈنگ میں مصروف ہیں جسے سکس سگما پروڈیوس کررہا ہے ۔اس ڈرامے میں میکال کیپٹن سلمان جبکہ ثنا جاویدڈاکٹرثمینہ کا کردار کررہے ہیں جو ایک دوسرے کی محبت میں گم ہیں لیکن انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سیریل کی ڈائریکٹر روبینہ اشرف ہیں۔اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میکال ذوالفقار نے بتایا کہ میں پہلی بار کسی ڈرامے میں کمرشل پائلٹ کا کردار کررہا ہوں۔میں اور ثنا جاوید پہلی بار ایک ساتھ کام کررہے ہیں۔ڈرامے کی دیگر کاسٹ میں عثمان پیرزادہ ،محمد احمد،سیمی راحیل اور ارسہ غزل شامل ہیں۔یہ ڈرامے عنقریب اے آروائی سے نشر کیا جائے گا۔
Tumblr media Tumblr media
0 notes
belgiumtimes-blog · 6 years
Text
مانی سے شادی کرنے کیلئے منگیتر کو دھوکادیتی رہی، اداکارہ حرا کا اعتراف
مانی سے شادی کرنے کیلئے منگیتر کو دھوکادیتی رہی، اداکارہ حرا کا اعتراف
کراچی:
پاکستان کے نامور اداکار اور آرجے سلمان ثاقب عرف مانی کی اہلیہ اور پاکستان ٹی وی کی نامور اداکارہ حرا نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مانی سے شادی کرنے کے لیے مہینوں تک اپنے منگیتر کو دھوکادیتی رہیں۔
ڈراماسیریل ’’یقین کاسفر‘‘ سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ حرا نے حال ہی میں ثمینہ پیرزادہ کے مقبول ترین شو ’’اسپیک یور ہارٹ‘‘ میں شرکت کی اور وہاں اپنی  نجی زندگی سے متعلق ایسے انکشافات کیے…
View On WordPress
0 notes
dani-qrt · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Urdu News
0 notes
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر س��تا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Urdu News
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Urdu News
0 notes
cleopatrarps · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ ��ونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Today Urdu News
0 notes
dragnews · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Today Pakistan
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
جاوید شیخ، عثمان پیرزادہ سمیت کئی فنکاروں نے مصطفیٰ کمال کو ووٹ دینے کی اپیل کردی
عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے امیدوار مصطفی کمال کی حمایت میں اداکار بھی میدان میں آگئے۔ معروف اداکار جاوید شیخ ،عثمان پیرزادہ،علی سلمان،نعمان حبیب،شاہ میرخان اورثاقب سمیر نے مصطفی کمال کے حق میں وڈیو پیغام جاری کئے ہیں۔ اداکار جاوید شیخ نے کہا کہ ماضی میں مصطفی کمال نے شہر کی تعمیر و ترقی کے لئے جو کیا وہ سب کے سامنے ہے ، انتخابات میں انہیں ووٹ دے کر کامیاب بنائیں۔ سینئر اداکار عثمان پیر زادہ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
khouj-blog1 · 6 years
Text
ماضی کی مشہوراداکارہ روحی بانو انتقال کرگئیں
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/101673/
ماضی کی مشہوراداکارہ روحی بانو انتقال کرگئیں
 ماضی کی مشہور اداکارہ روحی بانو شدید علالت کے بعد آج مداحوں سے بچھڑ گئیں۔
اداکارہ کی بہن روبینہ یاسمین کے مطابق روحی بانو  استنبول کے ایک اسپتال میں زیر علاج اور گذشتہ 10 روز سے وینٹی لیٹر پر تھیں، رات گئے ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور وہ دنیائے فانی سے چل بسیں۔انہوں نے بتایا کہ روحی بانو گردوں کے عارضے میں مبتلا اور طویل عرصے سے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار تھیں۔ واضح رہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی حاصل کرنے والی روحی بانو کئی برسوں سے نفسیاتی مرض شیزوفرینیا اور مالی مسائل کا شکار تھیں۔گذشتہ برس نومبر میں روحی بانو کے لاپتہ ہونے کی بھی رپورٹس سامنے آئی تھیں، تاہم ان کی بہن نے سابق اداکارہ کے لاپتہ ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اہلخانہ کے ساتھ ہیں۔روحی بانو نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بہت سی تکلیفیں جھیلیں۔ ازواجی زندگی میں بے سکونی کے ساتھ ساتھ اکلوتے بیٹے علی کے قتل کے بعد سے گویا زندگی کی تمام رعنائیاں اُن سے چھِن گئیں اور لاہور میں واقع نفسیاتی اسپتال ‘فاؤنٹین ہاؤس’ ان کا مسکن بن گیا۔
لاہور کے علاقے گلبرک تھری میں روحی بانو کا اپنا گھر بھی ہے، جو اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ان کا شمار اعلیٰ تعلیم یافتی فنکاروں میں ہوتا تھا انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کیا ہواتھا۔وہ برصغیر کے مشہور طبلہ نوازاستاد اللہ رکھا کی صاحبزادی تھیں۔انہیں پی ٹی وی لاہور مرکز کے پروڈیوسر یاورحیات نے اپنے ایک کھیل کے ذریعے متعارف کرایا تھا جس کے بعد انہوں نے کئی ڈراموں میں یادگار کردار کئے جن میں لانگ پلے کانچ کا پل،قلعہ کہانی،زردگلاب،حیرت کدہ اور کرن کہانی شامل ہیں۔ان کی زندگی کا آخری ڈرامہ’ ایک اور عورت‘ تھا جس کے رائٹرفصیح باری خا ن اور ڈائریکٹرمظہر معین تھے اور یہ ڈرامہ ہم ٹی وی سے نشر کیا گیا تھا جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں میں اسماعباس،سلمان شاہداور نروان ندیم شامل ہیں۔ ٹیلی ویژن سے تعلق رکھنے والے افراد نے روحی بانو کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے جن میں توقیر ناصر،منظورقریشی،طارق جمیل،جاوید شیخ،عرفان کھوسٹ،سہیل اصغر،ماریہ واسطی،احسن خان ،امین اقبال،اسماعباس ،ثمینہ پیرزادہ ،قوی خان اور بشریٰ انصاری سمیت بہت سے دیگر لوگ شامل ہیں۔ یہ امرقابل ذکر ہے کہ جب روحی بانو کو ان کے تمام رشتہ داروں نے فراموش کردیا تو اداکارہ اسماعباس نے انہیں دس سال تک اپنے پاس رکھا۔ اسی حوالے اسماعباس کا کہنا تھا کہ میرا ان سے بہت گہرا تعلق رہا ہے اور شاید اسی لئے مجھے ان کی موت کا دکھ بہت زیادہ ہے۔اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات ہے کہ کافی عرصے سے میری ملاقات بھی ان سے نہیں ہوسکی البتہ انہوں نے اپنی زندگی کا آخری ڈرامہ ’ایک اور عورت‘ میرے ساتھ ہی کیا تھا۔
0 notes
alltimeoverthinking · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Daily Khabrain
0 notes
thebestmealintown · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری ک��م کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via India Pakistan News
0 notes
katarinadreams92 · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے عاری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Hindi Khabrain
0 notes
summermkelley · 6 years
Text
ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں
ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں۔ تاریخ اس حوالے سے کچھ نہیں بتاتی کہ پہلا ڈرامہ کب سٹیج کیا گیا اور تھیٹر کا آغاز کب ہوالیکن یہ ضروربتاتی ہے کہ دنیا کی تمام ہی تہذیبوں میں، چاہے وہ رومی تہذیب ہو، یونانی، چینی ، جاپانی یا افریقی، تھیٹر کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے۔
1855ء میں اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ نے اپنے محل کے صحن میں آغا حسن امانت کا تحریر شدہ ڈرامہ ”اندر سبھا“ سٹیج کیا۔جو شہزادہ گلفام کی کہانی پر مبنی ڈرامہ تھا۔ پس منظر میں موسیقی دی جاتی تھی۔ بعد ازاں اردو تھیٹر کی اس روایت نے بتدریج پارسی تھیٹر کی صورت اختیار کی۔ تقریباً ایک صدی تک برصغیر پر پارسی تھیٹر کا راج رہا۔ پارسی تھیٹر میں داستانوں اور سماجی کہانیوں کا امتزاج پیش کیا گیا۔ پھربرٹش راج کے دَور میں تھیٹر داستانوںسے نکل کر عام حقائق اور غریبوں کی محرومیوں و مصائب کا عکاس بنا۔
لاہور میں سٹیج ڈرامے کی روایت بہت پرانی ہے اور یہاں سٹیج ڈرامے کے آغاز کا سہرا گورنمنٹ کالج لاہور کے سر ہے جہاں ڈرامیٹک کلب کے زیراہتمام 1876ء میں پہلا ڈرامہ سٹیج ہوا۔بعد میں جب سٹیج ڈرامہ تعلیمی اداروں سے نکل کر باقاعدہ تھیٹر کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تو امتیاز علی تاج، رفیع پیر، خواجہ معین الدین اور کمال احمد رضوی نے اردو سٹیج ڈرامے کے فروغ کے لئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں۔ اردو تھیٹر نے پارسی تھیٹر سے زیادہ عروج حاصل کیا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں عوام الناس کو ایک نئے پاکستان کا تصور دیا۔ تھیٹر کا یہ زمانہ عوامی کلچر پر مبنی تھا۔ تازہ سیاسی حالات نے تھیٹر، فنون اور موسیقی میں عوامی تحریک کو جنم دیا۔ اس عرصے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ثقافتی اور ادبی ادارے قائم کئے گئے۔ الحمرا آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی۔ تھیٹر میں غیر ملکی ادب سے ڈرامے ماخوذ کئے گئے۔ سٹوڈنٹ تھیٹر کو فروغ ملا۔ بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا کر پاکستانی تاریخ کے تاریک ترین دور کا آغاز کیا۔ ہر قسم کی ثقافتی اور تھیٹر سرگرمی حتیٰ کہ سٹوڈنٹ تھیٹر پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
لاہور میں کمرشل تھیٹر کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا۔ شروع شروع میں اوپن ائیر تھیٹر باغِ جناح میں جگتوں سے بھرپور ڈرامے سٹیج کیے گئے اور بعد میں الحمراء ہال میں ان کا فیشن چل نکلا۔ الحمراء ہال میں کمرشل ڈراموں کی کامیابی سے حوصلہ پا کر پرائیویٹ پارٹیوں نے تھیٹر ہالز قائم کرنا شروع کر دیئے۔ فلم انڈسٹری کے بحران کے ساتھ ہی سنیما مالکوں نے سنیما گھروں کو تھیٹر ہالوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیا۔شروع میں کمرشل تھیٹر طنز و مزاح اور جگتوں کے بل بوتے پر چلتا رہا جس سے لطف اندوز ہونے کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے۔ اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس جمال،ڈاکٹر انور سجاد ، امان اللہ، عاصم بخاری، عمر شریف، سہیل احمداور مسعود اختر جیسے فنکار شامل تھےجو اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے۔ ان ڈراموں کا باقاعدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئےجگتوں کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کے پابند ہوتے تھے ۔ لیکن آنے والے برسوں میں کمرشل تھیٹر اس طرح سے اخلاقیات سے ��اری کلچر کو فروغ دے گا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر دیئے جن میں جگتوں کی جگہ بولڈ رقص نے لے لی اور ڈانس کو کمرشل ڈرامے کا لازم و ملزوم حصہ سمجھا جانے لگا جس کی وجہ سے فیملیز نے ڈرامہ دیکھنا چھوڑ دیا۔ اگر غلطی سے کوئی فیملی آبھی جائے تو ڈرامہ کے شروع میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس میں وہی جگت بازی اور غیر اخلاقی رقص دکھایا جاتا ہے۔اس چیز کو تھیٹر کے چلنے کا کامیاب ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ معیاری کام سے ہی سٹیج ڈراموں کے شائقین کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈرامہ، معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اور عوام کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جو ڈرامے پیش کیئے جا رہے ہیں ان میں کوئی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے۔ ایسے تھیٹر سے ہم اپنی نوجوان نسل کو کس بے راہ روی کی طرف گامزن کر رہے ہیں۔ جب تمام فنکار اس بات کا فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے معیاری کام کرنا ہے تو پھرڈراموں میںغیر اخلاقیات کی عکاسی کاتصوربھی نہیں رہے گا۔
کمرشل تھیٹر سے اختلاف رکھنے والےکچھ تھیٹر فنکاروں نے 1980ء کی دہائی میں ایک متوازی راستہ اختیار کیا۔ جن میں اجوکا تھیٹر اور رفیع پیر گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ انہوں نے گھروں اور سڑکوں پر تھیٹر ڈرامے سٹیج کرنے شروع کر دئیے اور ان کے ذریعے سیاسی و تھیٹریکل انتظامیہ اور آمریت کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجوکا تھیٹر ایک ایسا نمایاں گروپ تھا جس نے اپنا پہلا کھیل ”جلوس“ 1984ء میں ایک گھر کے لان میں سٹیج کیا۔ ابتدائی طور پر یہ گروپ یونیورسٹی طلبا پر مشتمل تھا، جس کے ڈراموں کے موضوعات سماجی تبدیلی اور انسانی حقوق ہیں۔ ٹی وی اداکارہ اور ہدایت کارہ مدیحہ گوہر کی سربراہی میں شروع ہونے والایہ تھیٹر آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ گروپ نہ صرف پرفارم کرتا ہے بلکہ دوسروں کو تربیت بھی دیتا ہے۔رفیع پیر گروپ بھی نظریاتی پابندیوں سے آزاد ایساگروپ ہے جس کی بنیاد 1974ء میں سلمان پیرزادہ اور ان کے دیگر بھائیوں نے رکھی۔ رفیع پیر برصغیر میں جدید اردو پنجابی ڈرامہ کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس گروپ نے ہم عصر حالات کے مطابق اوریجنل ڈرامے کی تخلیق کی کوشش کی اور پاکستان میں پتلی تماشا کو بھی متعارف کروایا۔ یہ گروپ تھیٹر، موسیقی اورپتلی تماشے کے فیسٹیولز کا انعقاد بھی کرواتا ہے جہاں عوام اور فنکار بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سینئر فنکاروں میں نعیم طاہر، ثانیہ سعید، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری جیسے فنکاروں نے تھیٹر کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ملک میں بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کرکمرشل تھیٹر بھی ایسے ڈرامے پیش کر سکتا ہے جس میں عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان ڈراموں کے لئے ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا۔ جو ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں، ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری نوجوان نسل کو غلط راہ کی طرف گامزن کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ لیکن دیکھا جائےتواس میں بھی ہمارا اپنا ہی قصور ہے۔ اتنے پڑے پیمانے پر اگر ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں تو عوام کی ہی وجہ سے۔ اگر ہم آج ان کمرشل ڈراموں کا بائیکاٹ کردیں تو تھیٹر انڈسٹری بھی ایسے ڈرامے بنانا بند کردے۔
برائی کے خاتمے کے لئے برائی کو جڑ سے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس لئے اب ہمیں اور حکومتوں کو برائی کی جڑوں تک جانا ہو گا اور معا شرے میں پھیلی تمام ایسی برائیوں کا دیرپا حکمت عملی سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ میڈیا،اداکاروں، پروڈیوسرز اور رائٹرز کو بھی تعمیری ذہن سازی والا مواد سامنے لانا ہو گاجس سے تہذیب یا فتہ معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے۔ لہٰذا حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان ڈراموں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت بالکل نہ دی جائے۔جو بھی اس میں ملوث نظر آئے، اسے سزا دی جائے۔تمام سٹیج ڈراموں کی مانیٹرنگ کی جائے، جو پروڈیوسر ،فنکار یا انڈسٹری سے منسلک لوگ غیر اخلاقی حرکات کو فروغ دینے میں کوئی کردار ادا کریں تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچےاور تمام ڈی سی حضرات اپنی ر پوٹس ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان تمام پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تاکہ معاشرے کو ایک مثبت سبق مل سکے۔ اگر ان ہدایات پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے، تو ہی لوگوں کو صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے ساتھ سٹیج ڈرامے کا رخ دوبارہ کر سکیں گے۔ سٹیج کی بہتری کےلئے بہترین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کو واپس لانا ہو گا اور اس کےساتھ ساتھ فنکاروں کو بھی اسکرپٹ کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ جب یہ ساری چیزیں عملی طور پر ہونگی تو کوئی وجہ نہیں کہ ڈرامے ہٹ نہ ہوں۔ مانیٹرنگ کی سخت ضرورت ہے۔مانیٹرنگ نہ ہونے کی صورت میں سٹیج بھی فلم انڈسٹری کی طرح زوال کا شکار ہوجائے گا۔ حکومت کواس حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
The post ایسے ڈرامے تخلیق کرے جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2M9kNx7 via Roznama Urdu
0 notes
Text
فواد رانا کا وہ عظیم الشان کارنامہ جس نے پوری پاکستانی قوم کو ان پر فخر کرنے پر مجبور کر دیا ۔۔ آپ بھی جانیں
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگاریاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم ’’اندھا عشق اور کرکٹ ‘‘میں رانا فواد کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہاایسے وقت میں جب نوجوانوں کے ہاتھ میں بلے کے بجائے موبائل آ گیا اور کرکٹ گراؤنڈ کی جگہ مکان بن گئے۔
تب لاہور قلندر کے رانا عاطف اور رانا فواد نے ایک ایسا کام کیا جو ناقابل یقین تھا۔ ان بھائیوں کی جوڑی نے عاقب جاوید کی سربراہی میں پنجاب کے آٹھ اضلاع میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرا م شروع کیا۔وہاں ہر اُس لڑکے کا ٹرائل ہوا جو میدان میں پہنچا اور یوں انہوں نے کُل ایک لاکھ ساٹھ ہزار ٹرائلز لئے۔ ان میں سے چونتیس ہزار ٹرائلز مظفر آباد ،کشمیر میں لئے جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ اسی کشمیر سے قلندرز نے سلمان ارشاد کو دریافت کیا۔ یہ لڑکا 90میل کی رفتار سے گیند پھینکتا ہے۔ رانا برادرز نے اِن آٹھ اضلاع میں سے بہترین کھلاڑی چُن کر ایک ایک ٹیم بنائی اور پھر اِن ٹیموں کا ٹورنامنٹ کروایا۔ اس ٹورنامنٹ کا فائنل سرگودھااور لیہ کے درمیان قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا گیا جسے دیکھنے کے لئے چوبیس ہزار لوگ اسٹیڈیم میںآئے۔سب گلی محلوں سے چنے گئے لڑکے تھے جنہیں دیکھنے کے لئے چوبیس ہزار تماشائی آ گئے۔
اس فائنل کے مین آف دی میچ کا اعزاز جس لڑکے کو ملا وہ چنگ چی رکشا چلاتا ہے۔ان آٹھ ٹیموں کے بہترین چار لڑکوں کو آسٹریلیا کی مقامی کرکٹ گریڈ ٹو کا کنٹرکٹ دیا گیا جوایک معجزہ تھا۔یہ وہ بچے تھے جنہو ں نے کبھی لاہور نہیں دیکھا تھا۔ اِن کا پاسپورٹ نہیں بنا تھا اور اب وہ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیل چکے ہیں.
The post فواد رانا کا وہ عظیم الشان کارنامہ جس نے پوری پاکستانی قوم کو ان پر فخر کرنے پر مجبور کر دیا ۔۔ آپ بھی جانیں appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://ift.tt/2p9pM7x via Urdu News
0 notes
themeanblog-blog1 · 7 years
Text
سعودی ولی عہد نے بادشاہت پر گرفت مضبوط کرلی : برطانوی اخبار
سعودی ولی عہد نے بادشاہت پر گرفت مضبوط کرلی : برطانوی اخبار
سعودی ولی عہد نے بادشاہت پر گرفت مضبوط کرلی : برطانوی اخبار
لندن(این این آئی)سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان نے بادشاہت کے 4 ستونوں پر گرفت مضبوط کرلی ہے ۔
رابی پیرزادہ کا اپنے لاکھوں روپے مالیت کے قیمتی پرندے آزاد کرنے کا فیصلہ برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ نے سعودی عرب کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کیااور لکھا ہے کہ حالیہ اقدامات کے بعد حکمران خاندان…
View On WordPress
0 notes