Tumgik
#افتخار عارف
urduchronicle · 10 months
Text
اردو کانفرنس میں جوش ملیح آبادی پر سیشن، دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”جوش ملیح آبادی۔ایک یاد“ (دستاویزی فلم۔اقبال حیدر) رونمائی محمل و جرس (آخری مجموعہ کلام) پر سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم 2 میں کیاگیا۔ اس سیشن میں افتخارعارف اورہلال نقوی نے کی ،گفتگو کرنے والوں میں فراست رضوی، عقیل جعفری، عدیل زیدی اور حوری نورانی شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض محبوب ظفر نے انجام دیے۔ مقررین…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
aashufta-sar · 8 months
Text
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
Mitti ki mohabbat mein hum ashufta saron nay Woh qarz utaare hain ke waajib bhi nahi thay
Iftikhar Aarif / افتخار عارف
10 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 10 days
Text
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
ستارۂ سحری ڈوبنے کو آیا ہے
ذرا کوئی مرے سورج کو با خبر کر دے
قبیلہ وار کمانیں کڑکنے والی ہیں
مرے لہو کی گواہی مجھے نڈر کر دے
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے
مری زمین مرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بارور کر دے
افتخار عارف
2 notes · View notes
qalbtalk · 23 days
Text
ستمبر کی یاد
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی
اُس نے پوچھا
”افتخار! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو”
اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں
اور ادھورے خواب
یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں
پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہو جاتا ہے
پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
اُڑنے والے پرندے کے پِر اس کا تابوت بن گئے
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آ گئی تھی
—افتخار عارف
september ki yaad
aur tou kuch yaad nahi bas itna yaad hai
iss saal bahar september k maheene tak aa gayi thi
uss ne pucha
“iftikhaar! yeh tum nazmain adhoori kyun chor dete ho?”
ab usse kon batata k adhoore nazmain aur adhoori kahaniyaan
aur adhoore khwaab
yehi tou shayar ka sarmaya hoti hain
poore ho jayen tou dil andar se khaali ho jata hai
phir dhoop hi dhoop main itni barf pari k bohat ooncha
urne wale parinde k par uska taboot ban gaye
aur tou kuch yaad nahi bas itna yaad hai
iss saal bahar september k maheene tak aa gayi thi
—iftikhaar arif
2 notes · View notes
my-urdu-soul · 1 year
Text
خواب دیکھنے والی آنکھیں پتھر ہوں گی تب سوچیں گے
سندر کومل دھیان تتلیاں بے پر ہوں گی تب سوچیں گے
رس برسانے والے بادل اور طرف کیوں اڑ جاتے ہیں
ہری بھری شاداب کھیتیاں بنجر ہوں گی تب سوچیں گے
بستی کی دیوار پہ کس نے ان ہونی باتیں لکھ دی ہیں
اس ان جانے ڈر کی باتیں گھر گھر ہوں گی تب سوچیں گے
مانگے کے پھولوں سے کب تک روپ سروپ کا مان بڑھے گا
اپنے آنگن کی مہکاریں بے گھر ہوں گی تب سوچیں گے
بیتی رت کی سب پہچانیں بھول گئے تو پھر کیا ہوگا
گئے دنوں کی یادیں جب بے منظر ہوں گی تب سوچیں گے
آنے والے کل کا سواگت کیسے ہوگا کون کرے گا
جلتے ہوئے سورج کی کرنیں سر پر ہوں گی تب سوچیں گے
- افتخار عارف
8 notes · View notes
moizkhan1967 · 5 months
Text
جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ طبل و علم کی دھوم
ذکرِ زوالِ لوح و قلم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہورہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خمِ وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو ، ہم اور کتنی دیر
افتخار عارف
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کن چیلنجز کا سامنا ہو گا
Tumblr media
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک کے 29 ویں چیف جسٹس بن گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب تک اس عہدہ پر فائز ہونے والے چیف جسٹس صاحبان سے اس بناء پر مختلف ہیں کہ انھیں عدلیہ سے باہر کرنے کی مسلسل کوشش ہوئی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بہادری، ان کی اہلیہ کی مشکل حالات برداشت کرنے کی صلاحیت اور ان وکلاء اور سول سوسائٹی کی جدوجہد سے طالع آزما قوتوں کی سازش ناکام ہوئی۔ گزشتہ دس برسوں کی عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق کوئٹہ سے ہے مگر انھوں نے زیادہ تر وکالت کا وقت کراچی میں گزارا۔ وکلاء تحریک کے جلوسوں کو کور کرنے والے صحافی گواہی دیتے ہیں کہ فائز عیسیٰ ان جلوسوں میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے، جب سابق صدر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت مقرر ہونے والے بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان بشمول چیف جسٹس رخصت کر دیے گئے تو فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے براہِ راست بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا۔
انھوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اخبارات میں کالعدم تنظیموں کی خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کو مرکزی شاہراہ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کانسی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا تو بلال انور کانسی کی میت سول اسپتال لے جائی گئی تو کوئٹہ کے وکیل سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ دہشت گردوں نے سول اسپتال کوئٹہ پر خودکش حملہ کیا۔ اس حملہ میں 70 کے قریب وکلاء شہید ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل ٹریبونل اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے قائم کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس خودکش دھماکے کے تمام محرکات کا گہرائی سے جائزہ لیا تھا اور رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ افغانستان کی سرحد عبور کر کے خودکش حملہ آور کس طرح کوئٹہ میں اپنا ہدف پورا کرتے ہیں؟ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثارکو جسٹس فائز عیسیٰ کی اس رپورٹ سے شدید صدمہ ہوا تھا۔ انھوں نے اس رپورٹ پر عملدرآمد میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ذرایع ابلاغ پر رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
Tumblr media
2018 میں ایک مذہبی تنظیم نے انتخابی قوانین میں ہونے والی ترمیم کے خلاف راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد چوک پر دھرنا دیا، یہ دھرنا کئی ہفتوں جاری رہا۔ اس دھرنا کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ ایک معاہدہ کے بعد دھرنے کے شرکاء منتشر ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس غیر قانونی اجتماع کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے مقرر کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 6 فروری 2019 کو ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ میں دھرنے کے ذمے داروں کا تعین کیا تھا۔ اس رپورٹ میں آزادئ صحافت اور آئین کے آرٹیکل 19 پر لگنے والی پابندیوں کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ان معرکتہ الآراء فیصلوں پر سپریم کورٹ نے عملدرآمد پیدا کرنے میں کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ صدر عارف علوی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کیا۔ ان پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے گوشوارے انکم ٹیکس میں جمع نہ کرانے کا الزام لگایا گیا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کر دیا مگر ان کی اہلیہ کے خلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا لیکن ان پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف تحریک انصاف کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر حقائق کے منافی بہت سی وڈیوز وائرل کیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسیٰ کیس میں صدر عارف علوی کے خلاف یہ فیصلہ تحریر کیا کہ انھوں نے ریفرنس بھیجتے وقت اپنا ذہن استعمال نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دیا اور اس کی ذمے داری سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم پر عائد کی۔ بہر حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بحال تو ہوئے مگر چیف جسٹس، ریٹائرڈ عمر عطاء بندیال نے کسی بھی اہم مقدمہ میں انھیں بنچ میں شامل نہیں کیا۔ جسٹس عطاء بندیال نے عدالتی تاریخ کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ ایک متنازعہ جج کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن گئے۔
جسٹس عطاء بندیال نے تو اپنی ساس اور سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی گفتگو کے آڈیو اور دیگر رہنماؤں کی گفتگو پر مشتمل آڈیوز کی تحقیقات کے لیے جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن کو تحقیقات سے روک دیا تھا۔ بہرحال اب جسٹس عطاء بندیال کا دور تو ختم ہوا اور قاضی فائز عیسیٰ صاحب کا امتحان شروع ہورہا ہے۔ انھوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو ساتھ کھڑا کر کے صنفی مساوات کی ایک نئی مثال قائم کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں 50 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التواء ہیں۔ گزشتہ دنوں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھروں پر حملے ہوئے۔ ان کے گھر جلائے گئے۔ اس برادری کے اکثر افراد کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کے ساتھ مسیحی برادری کے ساتھ یکجہتی کے لیے جڑانوالہ گئے، یوں مظلوم طبقات سے یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی مگر معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک معرکتہ الآراء فیصلہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن نے اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کرنے کے لیے اہم تجاویز پیش کی تھیں مگر ان تجاویز پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں گے۔ گزشتہ 23 برسوں سے لاپتہ افراد کا معاملہ کسی صورت حل نہیں ہو پایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ یہ کمیشن اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ کسی اور غیر جانبدار اور بہادر جج کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduclassic · 1 year
Text
دن گزارا ہے سزا کی صورت
Tumblr media
دن گزارا ہے سزا کی صورت رات آئی شبِ یلدا کی طرح
صحن کی آگ میں جلتے ہوئے شعلوں کی تپش منجمد ہوتے ہوئے خون میں در آئی ہے
یادیں یخ بستہ ہواؤں کی طرح آتی ہیں آتشِ رفتہ و آئندہ میں رخشاں چہرے
برف پاروں کی طرح دل کے آئینے میں لو دیتے ہیں، بجھ جاتے ہیں
پسِ دیوار ہے خورشیدِ تمنا کا قیام ختم یہ سلسلۂ رقصِ شرر ہونا ہے
شبِ یلدا کا مقدر ہے سحر ہونا ہے
افتخار عارف
1 note · View note
marketingstrategy1 · 2 years
Text
پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں امجد اسلام امجد کیلئے تعزیتی ریفرنس  
امجد اسلام امجد (فائل فوٹو) لاہور: پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے آخری روز معروف شاعر امجد اسلام امجد کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ معروف شاعر افتخار عارف نے کہا کہ آج کے معاشرے میں چالیس سال تک ادب کے ساتھ جڑے رہنا بہت مشکل کام ہے لیکن امجد اسلام امجد نے یہ مشکل کام کیا، بہت سارے شاعر ادیب درباری ہوتے ہیں لیکن امجد اسلام امجد کو کبھی ایسا نہیں دیکھا، نوجوان اس کی کتاب ’نئے پرانے چراغ‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 2 years
Text
عبید اللہ بیگ پیدائش 1 اکتوبر
عبید اللہ بیگ پیدائش 1 اکتوبر
عبید اللہ بیگ ، پاکستان کے صوبے سندھ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف دانشور، اردو ادیب، ناول نگار اور کالم نگار تھے۔ آپ 1936ء میں پیدا ہوئے، اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت کے علاقے رام پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ عبید اللہ بیگ نے 1970ء کی دہائی میں افتخار عارف اور بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں غازی صلاح الدین کے ہمراہ پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور پروگرام “کسوٹی“…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 10 months
Text
اردو ادب کے فروغ میں جتنا حصہ غزل کا ہے، کسی اور صنف کا نہیں، افتخار عارف
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو غزل کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیاگیا، جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف اور افضال احمد سید نے کی۔ جن مشاہیر پر گفتگو کی گئی ان میں منیر نیازی ، جگر مرادآبادی، ادا جعفری، پروین شاکر، ناصر کاظمی، احمد فراز ، اطہر نفیس، جون ایلیا، شکیل جلالی اور عرفان صدیقی شامل تھے۔ غزل کے ان مشاہیر پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
iloveurdu · 6 years
Text
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کہ رہے
میں گر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو مجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھ کو دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
وہ خواب دیکھے تو دیکھے میرے حوالے سے
مرے خیال کے سب منظروں کا ساتھی ہو
26 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 2 months
Text
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
افتخار عارف​
2 notes · View notes
bazmeurdu · 2 years
Text
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
Tumblr media
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت کسی کو ہم نے مدد کی لئے پکارا نہیں جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار جو کہہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نِسبتوں کے امیں ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں افتخار عارف
5 notes · View notes
my-urdu-soul · 5 years
Quote
ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا ایسی نیند اُڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا لہو رُلاتے، خاک اُڑاتے موسم کی سفّاکی دیکھتے ہیں کب تک یہ شہرِ گُلاب نہیں دیکھے گا بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی کوئی گھر، کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصّہ سب تعبیریں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا
افتخار عارف
7 notes · View notes
moizkhan1967 · 1 year
Text
جاہ و جلال دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبارِ عہدِ ستم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ طبل و علم کی دھوم
ذکرِ زوالِ لوح و قلم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہورہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خمِ وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو ، ہم اور کتنی دیر
افتخار عارف
1 note · View note