Tumgik
#Ghibat
discoverislam · 8 months
Text
غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم
Tumblr media
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں اور اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔ گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین، گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً ’’اللہ تمہیں ہدایت دیں، اللہ تجھے نیک بخت کرے، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
Tumblr media
( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ 
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔ میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔ اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔ 
غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔ اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان در��ز ہے، بہت پیٹو ہے۔ سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔
اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔ اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی  
0 notes
sufism786-blog · 2 years
Photo
Tumblr media
""""" Jab Doa Loag Apas Me Milte Hai.... Sirf 5 Ya 10 Mint Kafi Hote Hain.... EK Dusre Ki Khair Wa Khairiyat Jaan Ne Ke Liye,,,, Phir Bhi Agar Wo Dono 1 Se 2 Ghante Baat Karte Hain Toh Wahan Zaroor Teesre Ki Baat Ho Rahi Hai...., Zaroor Waha Ghibat, Chugli, Tohmate, Ladayi, Jhagde Ya Toh Phir Zindagi, Mout, Hayat, Khushi, Gham Yahin Sab Hota Hain ..., Haqeeqat Me Dekha Jaye Toh inn Layini Baton Se Kuch Hasil Nahin Hota Siwaye Waqt Ke Zaya Hone Ke Siwa. Ek Ache Insan Ko Chahiye Ke Bekar Ki Guftagu Se Apne Aapko Bachaye Rakhe, Sirf Zuban Khule Toh Haq Bayan Karne Ke Liye Hi Khule. Dekha Jaye Toh Jitna Insan Bekaar Baate Karta Hai Utni Hi Musibaton Me Phas Jata Hain. ( Admin ✍️ #amjadnazeeri #nazeeri ) Share your views in comments. TAG someone 💞 ___________________ Turn on your post notification 👉@khudi.ki.pehchan 👈 ___________________ Follow ☑️ @khudi.ki.pehchan Like 👌 #nazeeri Share 👍 Spred #sufism #khudi #khudikipahchan #haqkipehchan #kamilpeer #hazratmohammadﷺ #hazratali_کرم_اللہ_تعالی_وجھہ_کریم #khwaja_gareeb_nawaz_786 #urdu_quote #urdupoetryworld #urdupoetryworld #urdushayeri #urdushayari #urdushairy #urdushayris #jalaludinrumiquotes #moulaabbasع #alimoula #alimoulaع #allama_iqbal #allamaiqbalshayari #allamaiqbal #spritualgrowth #sprituality #spiritualawakening (at BE A GOOD PERSON) https://www.instagram.com/p/CoJ7z1cO1NG/?igshid=NGJjMDIxMWI=
1 note · View note
islamiclife · 4 years
Text
فساداتِ غیبت
امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ آدمی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے، خواہ اس کا تعلق اس کی شخصیت سے ہو یا اس کی ذات سے، دین و دنیا سے ہو یا مال و اولاد سے، ماں باپ سے ہو یا زوجہ و خادمہ سے، حرکات و سکنات سے ہو یا خوشی و غمی سے، گفت گُو سے ہو یا اشارہ و کنایہ سے غیبت ہی شمار ہو گی۔ اسی کا نام غیبت ہے۔ غیبت ایک ایسا مرض ہے کہ لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملوث نظر آتی ہے۔ بہ ظاہر خُوش نما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر صراط مستقیم سے لوگ ایسے دُور ہٹتے ہیں کہ پھر گناہ و ثواب اور جزا و سزا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے اور جب کوئی غیبت میں مبتلا حضرات کو ﷲ کا خوف دلا کر اس سے منع کرتا ہے تو چالاکی و عیاری کے پردے میں چُھپا ہوا معصومیت بھرا ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ لو بھائی! اس میں کون سی غیبت والی بات ہے، یہ عیب اس میں موجود تو ہے۔ 
جب کہ اسی کا نام غیبت ہے۔ غیبت کے عظیم خطرات کے پیش نظر علماء نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے ، اگر وہ اس سے توبہ نہیں کرتا۔ ابن حجر الہیثمی کہتے ہیں کہ بہت سارے صحیح اور واضح دلائل اس کے بڑا گناہ ہونے کی دلیل ہیں۔ لیکن اس کے مفاسد میں اختلاف ہونے کی وجہ سے اس کے بڑا اور چھوٹا ہونے میں اختلاف ہے اور رسول کریم ﷺ نے اسے مال غصب کرنے اور کسی کو قتل کرنے کی قبیل میں شمار کیا ہے جو بالاجماع کبیرہ گناہ ہیں کہ آپؐ کا فرمان ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت حرام ہے۔
غیبت اور الزام میں فرق معلم انسانیت ﷺ نے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے تو انہوں نے کہا ﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا اپنے مسلمان بھائی کے متعلق ایسی بات ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔ تو صحابہؓ نے کہا: اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہے جو میں ذکر کرتا ہوں۔ تو آپؐ نے فرمایا: اگر اس میں موجود بات کو تُو کرے گا تو تُو نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس میں موجود نہیں ہے تو تُونے اس پر الزام لگایا۔ (رواہ مسلم ) رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہرے اور سینے کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبریلؑ سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ تو اس نے بتایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے تھے۔ یعنی لوگوں کی غیبت کیا کرتے تھے۔ غیبت کا سب سے بڑا نقصان تو یہی ہے کہ غیبت کرنے والے کی معنوی وجودی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ جو لوگ غیبت کے عادی ہو گئے ہیں انہوں نے اپنی عزت و اخلاق کو کھو دیا ہے کیوں کہ یہ لوگ عیوب کو اور رازوں کو ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں کو زخمی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ خود بھی اخلاق کی بلندی کو نہیں پہنچ سکتے اور عزت کا مقام حاصل نہیں کر سکتے۔ غیبت بزرگ ترین محل فضیلت کو ویران کر دیتی ہے اور انسان کے پاک وصاف خصائل کو بہت جلد کم زور کر دیتی ہے۔ بلکہ یہ غیبت خود غیبت کرنے والے کے دل میں فضیلتوں کی رگوں کو جلا دیتی اور ناپید کر دیتی ہے۔ غیبت نے معاشرے کے اندر کینہ و دشمنی کو بڑھا دیا ہے۔ جس قوم کے اندر یہ صفت راسخ ہوئی ہے اس نے قوم کی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے، اس کی شہرت کو داغ دار بنا دیا ہے اور اس ملت کے اندر ایسا شگاف ڈال دیا ہے جو بھرنے والا نہیں ہے۔ آج غیبت کا بازار ہر جگہ گرم ہے اور اس نے ہر طبقے کے اندر رخنہ پیدا کر دیا ہے۔ پیار، بھائی چارہ اور اخوت ختم ہو چکی ہے، سلام کا جواب دینا تو دُور کی بات سلام کرنا مُشکل ہو چکا ہے، ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھنے میں بھی غیبت ہی کارِ فرما ہے۔ 
اسی کی وجہ سے آپس کا اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ غیبت ایک عملی بیماری ہے مگر اس کا تعلق انسان کی روح سے ہے اور یہ ایک خطرناک روحانی بحران کی علامت و نشانی ہے۔ غیبت کے اسباب میں اہم ترین حسد، غصہ، خود خواہی اور بدگمانی ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے انسان غیبت کی محفل کو سجاتا ہے اور اپنے من کو لطف پہنچانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ یحییٰ بن معاذؒ فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان کو اپنے اندر تین اوصاف و خوبیاں رکھنا چاہییں۔ اگر آپ اپنے بھائی کو نفع نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں ۔ اگر اسے خوشی نہیں دے سکتے تو مغموم بھی نہ کریں ۔ اگر اس کی تعریف نہیں کر سکتے تو مذمت بھی نہ کریں ۔ 
آج ہماری اکثریت ان اوصاف سے محروم نظر آتی ہے، جن اوصاف سے متصف ہونا چاہیے وہ تو کہیں نظر نہیں آتے مگر دوسرے بہ درجہ اتم موجود ہیں۔ جہاں پر غیبت کی محفل سجتی ہے وہاں لوگوں کی کثیر تعداد دکھائی دیتی ہے اور جہاں اصلاحی مجالس ہوں وہاں سے راہِ فرار اختیار کی جاتی ہے۔ یاد رکھیے! یہ ہمارے وجود میں ایمان کی کمزوری ہے، ہمیں اپنی محافل و مجالس میں غیبت سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی کر رہا ہو تو اسے سمجھانا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائیوں و بہنوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس میں بھی اجر و ثواب ہے۔ ﷲ پاک ہمیں غیبت اور اسبابِ غیبت سے محفوظ فرمائے۔ آمین
مولانا محمد طارق نعمان 
1 note · View note
islami-reflections · 5 years
Text
مقام حسرت و افسوس
Tumblr media
0 notes
sweetness-of-faith · 4 years
Video
youtube
Jealousy is not only a sin in Islam but it is considered as the most discouraged and destructive emotion in any religion. In psychologically also, it is one of the major illnesses to human health that destroys a person’s mental peace and happiness. 
Jealous person can cross any limit just to make people unhappy and to make people lose what Allah endowed upon them. Jealousy is a kind of feeling that leaves the heart of a jealous person impure and empty of faith. 
In regard to the purity of heart, Prophet Mohammad (P.B.U.H) was asked, who are the best people? He (P.B.U.H) replied “the one with a clean heart and truthful tongue”. He (P.B.U.H) was then again asked that a truthful tongue is understandable but what does a clean heart mean? Prophet Mohammad (P.B.U.H) answered, “It is the heart of one that is pious, pure, and is free of sin, transgressions, hatred and Hasad." 
Zubair Ibn al-Awam narrated that Prophet Mohammad (P.B.U.H) said, "There has come to you the disease of the nations before you, jealousy and hatred. This is the 'shaver' (destroyer); I do not say that it shaves hair, but that it shaves (destroys) faith”.
A jealous person is affected more than the person whom he is jealous of. Jealousy not only spoils the peace of mind but it also weaken the faith in Allah; because when a person gets jealous to another person he thinks that Allah has not fair enough with him, though he does not know what blessings Allah has given to His each slave and indeed! Allah does justice better than anybody can think of.
Allah mentioned in Surah Al-Nahl, ayah 71:“And Allah has favored some of you over others in provision. But those who were favored would not hand over their provision to those whom their right hands possess so they would be equal to them therein. Then is it the favor of Allah they reject?”
Jealousy is not only discouraged in Islam but the following Hadith states clearly that the jealousy factor burns all the good deeds of a person. 
Prophet Mohammad (P.B.U.H) said, "Beware of jealousy, for verily it destroys good deeds the way fire destroys wood." 
Jealousy can turn a good person into an evil, same as happened to Iblis. When Allah ordered angles and Iblis to prostrate Adam in the respect and honor, but Iblis directly refused the order of Allah because he was jealous of the status Allah has given to Adam. 
Iblis said to Allah, "Do You see this one whom You have honored above me? If You delay me until the Day of Resurrection, I will surely destroy his descendants, except for a few”. 
Jealousy also gives birth to so many other sins, like “back backbiting (Ghibat) and accusation (Tohmat)”. If a jealous person cannot do anything to harm that person with whom he is jealous of, then he tries to talk about him at the back, usually with the intentions to spoil his image. 
Sometimes, the intensity of jealousy gets too much high that a person does not satisfy with backbiting, then he reaches to accusation, which is no doubt a major sin considered in Islam.
Therefore, jealousy not only destroys a victim but also harms the attacker up to a greater extent. We as a Muslim should seek help from Allah to keep us away from this dangerous illness-jealousy. 
To keep ourselves protected from jealousy, we should recite the following chapter of Quran,
Surah Falaq, ayah 1-5:Say, "I seek refuge in the Master of daybreak, from the evil of that which He created, and from the evil of darkness when it settles, and from the evil of the blowers in knots, and from the evil of an envier when he envies."
0 notes
irctv · 5 years
Video
youtube
Hamal Ke Dauran Khawatin Kisi Ki Ghibat Na Karen By Adv. Faiz Syed - https://youtu.be/3NXIe0ZLEtk
0 notes
afzalshaikh2904 · 7 years
Photo
Tumblr media
Assalamu alaikum wareh matullahi wabar katuhu Mein aapse maafi chahta hu isliye k ye ramzan ka akhiri ashra he aur akhri ashrey me maghfirat ki jati he hamare nabi (s.a.w.) ne farmaya allah usey maf nhi krega jo apni maghfirat na krwa sake mene agar apki ghibat ki ho ya dil dukhaya ho to mujhe muaaf krna aur mein ek baat Allah tum sab prr rahem kare.Maine tumhe muaf kiya tum bhi meri galtiyon ko muaf kardena aur Allah hum sab ko naik taufiq de aur hamari nek tamannao ko pura kare dua ki darkhwast fee amanillah. Aameen!!
0 notes
tareequlabrar · 9 years
Text
Nasha se ijtinab aur bacho ki nigrani
Nasha se ijtinab aur bacho ki nigrani (10th May 2015) (Save As)
http://www.tareeq.info/WebSite-Content/Bayanat/HzKMNMdb/MP3/2015/20150510_Nasha_se_ijtinab_aur_bacho_ki_nigrani.mp3
Nasha se ijtinab aur bacho ki nigrani was originally published on Tareeq
1 note · View note
discoverislam · 1 year
Text
بہتان تراشی کا عذاب
Tumblr media
کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو ﷲ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے۔‘‘ (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے) (مسند احمد، سنن ابی داؤد، مشکوۃ المصابیح ) کسی آدمی میں ایسی برائی بیان کرنا جو اس کے اندر نہیں یا کسی ایسے بُرے عمل کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس نے کیا ہی نہیں ہے، افترا اور بہتان کہلاتا ہے۔ مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی پر بغیر تحقیق و ثبوت الزام یا بہتان لگاتا ہے تو شرعاً یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ 
ہمارے یہاں معاشرے کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے کا کام کرتے ہیں، اس میں ان کو ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ شیطان ان کو اس کام پر ابھارتا ہے اور لایعنی باتوں اور کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، شریعت کے نزدیک یہ عمل انتہائی بُرا، ناپسندیدہ اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوٹوک اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت کی وجہ سے کچھ ایسا کر بیٹھو جو بعد میں تمہارے لیے ندامت کا سبب بن جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بات کے پیچھے نہ پڑیں جس کا ہمیں علم نہیں، بے شک! کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہو گا، ﷲ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور ﷲ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے۔‘‘ ( ابو داؤد)
Tumblr media
تہمت کا تعلق کسی کی عزت و آبرو سے ہو تو دنیا و آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، معاشرہ میں تہمت لگانا لوگوں کے معمول کا حصہ بن گیا ہے، اس میں بدگمانی عام ہو جاتی ہے، جو خود ایک گناہ ہے، تجسس کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے، جس سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے، تہمت اور بہتان کو پھیلانے کی وجہ سے غیبت کا بھی صدور ہوتا ہے۔ جسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بُرے عمل کی وجہ سے اعتماد میں کمی آتی ہے اور لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، گویا تہمت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو بے شمار گناہوں میں مبتلا کرتی ہے، اس لیے اس سے حد درجہ بچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا لی ہے، پہلے خبروں کی ترسیل ایڈیٹر کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، وہ اس کو جانچتے، پرکھتے اور سوچ سمجھ کر شایع کرتے تھے کہ کیا بات حقیقی اور معاشرے کے لیے درست ہے اور کیا نہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لکھنے والے کو آزاد کر دیا ہے، جو چاہے لکھے اور جس پر چاہے کیچڑ اچھال دے، پھر اس پر بحث شروع ہوتی ہے اور ایسی ایسی بدکلامی اور ایسے ایسے نامناسب نکتے پوسٹ کیے جانے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’جو لوگ بدکاری کا چرچا چاہتے ہیں ایمان والوں میں سے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، ﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ (النور) شریعت میں عزت و آبرو پر تہمت کے معاملہ میں شہادت کے بھی اصول سخت ہیں۔ ابُوداؤد شریف کی روایت ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو ﷲ اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ ان آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ صرف شبہہ کی بنیاد پر کسی کو کوئی شخص طعنہ نہیں دے سکتا، اب اگر کسی شخص سے ان امور میں کوتاہی ہو رہی ہے تو اس کو سمجھایا جائے گا، مگر اسے سرِعام رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور بغیر ثبوت شرعی کے کسی کے بارے میں کوئی بات نہیں پھیلانا چاہیے۔ شریعت کی منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ثبوت شرعی کے کسی پر الزام یا تہمت نہ لگائے، اگر ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا بھی حکومت کی طرف سے ملنی چاہیے، گو یہ سزا ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے بعد دی جاسکے گی۔
کیوں کہ اصل معاملہ اس شخص کا ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے، وہ اگر تہمت لگانے والے پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا تو تہمت لگانے والا سزا سے محفوظ رہے گا۔ اﷲ رب العزت نے ہدایت دی کہ افواہ سنی سنائی باتوں کو بنا تحقیق زبان سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایسی خبروں کے سننے کے بعد مسلمانوں کا کیا رد عمل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے، کسی انسان پر بغیر کسی شرعی دلیل کے الزام لگانا بہتان ہے۔ جہاں ثبوت نہ ہو وہاں اس طرح کی بے حیائی کی خبروں کو شہرت دینا جس کا مشاہدہ آج کل سوشل میڈیا پر روزانہ ہوتا ہے، سنگین گناہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے، قرآن کریم میں بہتان سے متعلق آیات و احکام کا تعلق خاص واقعہ سے ہے، لیکن اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ عام ہیں، کیوں کہ بعض مخصوص آیتوں کو چھوڑ کر احکام شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے بل کہ حکم عام ہوتا ہے۔ اس لیے واقعہ افک کی وجہ سے جو احکام نازل ہوئے وہ بھی تہمت و بہتان کے باب میں عام ہوں گے۔ 
تہمت کے ایک جملے اور ذرا سی بات کی وجہ سے عبرت ناک انجام ہو سکتا ہے۔ کسی پر بہتان لگانا ﷲ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ اور ملائکہ مقربین کی ناراضی کا سبب ہے۔ لوگوں پر بہتان لگانے والے کو معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عبرت ناک واقعہ ان لوگوں کو نصیحت کے لیے کافی ہونا چاہیے، جو آج کل سوشل میڈیا کو علم اور ترقی کے استعمال کے بہ جائے، کسی مرد کی، کسی بھی نامحرم عورت کے ساتھ تصویریں جوڑتے ہیں، اس پر گانے لگا دیتے ہیں، دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں، آگے اسے پھیلایا جاتا ہے، اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ مفہوم: ’’اور جو شخص کوئی گناہ کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر ﷲ سے معافی مانگ لے تو وہ ﷲ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)  اس آیت کی روشنی میں، ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے، دانستہ یا نادانستہ ہم سے یہ گناہ ہو گیا ہے تو ﷲ رب العزت سے سچے دل سے معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ ایسی باتوں کو پھیلانے کا سبب نہ بننے کی کوشش کی جائے۔
عالیہ اظہر  
1 note · View note
discoverislam · 5 years
Text
حسد سے سے کیسے بچیں ؟
کسی بُرائی کو چھوٹا سمجھنا نادانی اور اسے اختیار کرنا حماقت ہے۔ برائی تو بہ ہر حال برائی ہے اور اس کے نقصانات مسلّم ہیں۔ ہر برائی نقصان دہ ہے۔ کبھی یہ نقصان دنیا ہی میں نظر آجاتا ہے اور کبھی آخرت تک موقوف ہو جاتا ہے۔ حسد یا جلن ایک ایسی ہی بیماری ہے، جس کا شکار دنیا میں ہی مختلف ذہنی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یعنی حاسد کی سزا کا عمل اس دنیا ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ حسد کے لغوی معنی کسی دوسرے کی نعمت یا خوبی کا زوال چاہنا یا اس کے نقصان کے درپے ہونا ہے۔ کسی کی ترقی سے دل میں گھٹن محسوس ہونا اور ناخوش ہونا۔ اس کے نقصان کی تمنا کرنا یا نقصان ہو جانے پر خوش ہونا حسد کہلاتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’پناہ مانگتا ہوں حسد کرنے والے سے ، جب وہ حسد کرے۔‘‘ ( الفلق)
’’ کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اﷲ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کیا۔‘‘ (النساء).
’’ پس عنقریب وہ کہیں گے، بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔‘‘ ( الفتح )
حسد کی مذمت میں نبی اکرم ﷺ سے مختلف احادیث مروی ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ کا بیان ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور حسد نہ کرو اور نہ غیبت کرو۔ اور ﷲ کے بندے بھائی بھائی ہو کے رہو۔ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ جدا رہے۔‘‘ (یعنی قطع تعلق کرے) (صحیح بخاری)
حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے۔ ‘‘ (سنن نسائی )
نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرائیت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈ دیں گی۔ بل کہ یہ دین کو مونڈ دیں گی۔‘‘
(سنن ترمذی) غصے سے کینہ اور کینے سے حسد پیدا ہونا لازمی ہے۔ اور حسد ہلاک کرنے والی بلا ہے۔ حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے۔ جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ تین چیزیں ایسی ہیں جو ہر کسی میں ہوتی ہیں۔ بدگمانی، حسد اور بُری فال۔ آپ ﷺ نے اس کا علاج تجویز فرماتے ہوئے فرمایا: ’’ اعتماد نہ کرو اور حسد پیدا ہو تو دست و زبان کو اس پر عمل کرنے سے بچاؤ۔‘‘
رسول کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’ اے مسلمانو! تم میں وہ چیز پیدا ہو گئی ہے جو تم سے پہلے متعدد قوموں کی ہلاکت کا باعث بن چکی ہے، وہ چیز حسد اور عداوت ہے۔ قسم ہے رب محمد ؐ کی تم لوگ بغیر ایمان جنّت میں نہیں جا سکتے اور ایمان کا دار و مدار ایک دوسرے کے ساتھ محبت میں ہے۔ اور میں تمہیں بتاؤں کہ محبت کا راز کس چیز میں ہے؟ ایک دوسرے کو سلام کرو اس سے محبت بڑھے گی۔‘‘
حضرت موسی ؑ نے ایک شخص کو عرش کے سائے میں دیکھا۔ انہیں اس مقام کی خواہش ہوئی پوچھا کہ اے ﷲ یہ صاحب کون ہیں؟ فرمایا کہ اس نے کبھی حسد سے کام نہیں لیا، اپنے والدین کی نافرمانی نہیں کی اور چغل خوری سے اپنے آپ کو بچایا۔ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ حاسد ہی نعمت کا دشمن ہے۔ وہ میرے حکم سے خفا ہوتا ہے اور اپنے بندوں کی جو قسمت میں نے پیدا کی ہے اسے پسند نہیں کرتا۔
حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ دو چیزوں میں حسد نہیں ایک تو یہ کہ اﷲ تعالیٰ کسی کو علم اور مال عطا فرمائے اور وہ اپنے مال کو علم کے مطابق استعمال کرے دوسرے یہ کہ کسی کو علم تو ملا ہو لیکن مال نہ ہو اور اس کی خواہش یہ ہو کہ اگر مجھے بھی اﷲ تعالیٰ مال عطا فرماتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا۔ یہ دونوں شخص ثواب کے اعتبار سے برابر ہیں۔
اور اگر کوئی شخص مال کو لغو اور گناہ کے کام میں خرچ کرے اور کوئی دوسرا کہے کہ اگر میرے پاس ہوتا تو اسی طرح اڑاتا تو یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ جس پر خشیتِ الہی کا غلبہ ہو کسی کو دوست اور دشمن نہ سمجھے بلکہ سب کو اﷲ کا بندہ سمجھ کر تمام چیزوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ لہذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے حسد جیسی بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ ﷲ تعالی ہمیں حسد جیسی بَلا سے اپنی پناہ میں رکھے، اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے تمام احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکیں۔ آمین
عظمیٰ علی   
2 notes · View notes
discoverislam · 5 years
Text
’’ ایک چُپ سو سُکھ ‘‘ : زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت
جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے. اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے گھر اور معاشرے کو آسودہ اور پُرمسرت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام میں جہاں محبت، اخوت اور احترام و عزت کے جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہو۔ محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور باہمی خون خرابہ کا آغاز ہو جائے۔ ان تمام باتوں کے نقصانات کو کتاب و سنت میں بہت صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا انسان ایمان و یقین کے اجالے میں ان کو پڑھ کر غور کرے اور ان سے اجتناب کرے تو امن و سلامتی اور عزت و عظمت کے نرالے نمونے وہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لے گا۔
قرآن و حدیث میں حفاظت زبان کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور بیہودہ گوئی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’ بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔‘‘ حضرت سفیان بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالتؐ میں عرض کیا۔ یارسول اﷲ ﷺ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو سرکار مدینہؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: اسے۔ (ترمذی) حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے۔‘‘
زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے بہت کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سیدنا حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ انسان روزانہ صبح جب بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے مخاطب ہو کر اسے تاکید کرتے ہیں کہ دن میں درستی اور صداقت پر قائم رہنا اور بیہودہ گوئی سے بچے رہنا، کیوں کہ اگر تُو درست اور ٹھیک رہے گی۔ تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تُو کج روی کے راستے پر چلے گی تو ہم بھی کج روی کے راستے پر چل پڑیں گے۔ حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں: ’’جب تم اپنے دل میں قساوت، بدن میں سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول اور لایعنی کلمے نکل گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے۔‘‘ حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ 
کیوں کہ جو شخص زبان کی نگہداشت نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت گفت گو میں مصروف رہتا ہے، تو لامحالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور غیبت اعمال صالحہ کو تباہ کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی زبان کی حفاظت اسی وقت کر سکے گا، جب خاموشی اختیار کرے گا۔ جب زبان کھلے گی ہی نہیں تو لایعنی باتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’جو خاموش رہا وہ سلامتی میں رہا۔ ‘‘ اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو اختیار کرے گا یقینا وہ کئی اعمال اس کے ذریعے کرے گا۔ خاموش رہنا تو ایک طرح سے سوچنا ہی ہے اور کائنات خداوندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ عمل ہے۔ 
سورۃ الانعام کی آیت کریمہ کی ایک آیت کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا پہچاننا مشکل ہے، تمہارے اُوپر اور نیچے، تمہارے دائیں اور بائیں میری مصنوعات اور تخلیقات کا جو بازار سجا ہوا ہے۔ اسی میں غور و فکر کرو، ہر چیز یہ پکارتی ہوئی سنائی دے گی کہ وہ اپنی نیرنگیوں سمیت خود بہ خود موجود نہیں ہو گئی بل کہ اس کا بنانے والا ہے، جو سب کچھ جاننے والا۔ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ ذرا دیکھو بیج کا دانہ شق ہو رہا ہے اس میں ایک نرم و نازک بالی نکل آئی ہے، اسے آپ کم زور نہ سمجھیے یہ تو مٹی کی کئی انچ موٹی تہہ کو چیر کر نکلی ہے۔ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، وہ بالی اب ایک ننھے سے تنے میں تبدیل ہو رہی ہے، ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کے لیے مناسب فاصلوں پر اس میں گرہیں ڈالی جارہی ہیں، اب اس کے سر پر ایک خوشہ سا نمودار ہو گیا ہے، اس کی جیبیں اب دانوں سے بھر گئی ہیں، یہ پودا جو پہلے ہرا بھرا اور نرم و نازک تھا۔ اب اپنا رنگ تبدیل کر رہا ہے۔
غور کرنے والی آنکھ خود فیصلہ کر لے کہ یہ کیا اندھے مادے کی کاری گری ہے یا علیم و خبیر پروردگار کی صناعی کا اعجاز ہے۔ پھل لگنے سے لے کر پکنے تک اس کی مقدار، اس کی خوش بُو اور اس کے ذائقے میں آہستہ آہستہ موقع بہ موقع جو تبدیلیاں رو نما ہو تی رہتی ہیں، اسی پر انسان غور کرے تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔ اسی طرح کئی ایک آیات ربانی میں مخلوقات خداوندی کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ احادیث کریمہ میں بھی رحمت عالمین ﷺ نے غور و فکر کرنے کی اپنے چاہنے والوں کو تاکید فرمائی۔ چناں چہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’ رموز کائنات میں ایک گھنٹے کا تفکر و تدبر ستّر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
ہم کائنات خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت میں کر سکتے ہیں، جب ہم فضول اور بیہودہ گوئی کے بہ جائے خاموشی کو اپنائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے، بل کہ مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے اور لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا کہ بُری بات کرنے سے چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔ جب آدمی خاموش ہوتا ہے اور مجلس میں اچھی باتیں کہی جا رہی ہیں تو گویا وہ صحیح طور پر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلام ایسے ہی افراد تیار کرتا ہے، جو سوچنے والے زیادہ ہوں اور فضول گوئی سے چُپ رہنے کو محبوب جانتے ہوں۔
اسلاف کرامؒ کی حیات پاک کا مطالعہ کرنے سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح حفظِ لسان کا خیال رکھا اور فضول و لایعنی باتوں سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کا درس دیا۔ ہمارے اسلاف نے حفاظت زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظت زبان ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا اور ’’ ایک چُپ سو سُکھ‘‘ کے مصداق رہے۔ لیکن موجودہ معاشرہ فضول گوئی و بیہودگی میں سابقہ ادوار پر بازی لے گیا۔ گندے مذاق، شغل و یاوہ گوئی معاشرے کے افراد میں خوراک کی حد تک رچ پس گئی ہے۔ جب تک ہم قرآن و سنت اور اسلاف کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر اپنی زبان کی حفاظت نہیں کریں گے تب تک ہمارے رزق میں برکت، مال کی فراوانی، عزت و مقام اور جاہ و جلال میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیںِ زبان کی حفاظت کی توفیق دے۔ آمین
علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی    
0 notes
discoverislam · 6 years
Text
دوسروں کے عیب چھپایئے
جب اللہ نے ہمارے بے شمار عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو کیا ہمیں یہ بات زیب دیتی ہے کہ ہم دوسروں کی جاسوسی کرتے پھریں۔ ان کے نقص اور عیب تلاش کریں اور پھر انہیں معاشرے میں بے عزت کریں۔ ذرا سوچئے! اگر عزت وذلت کا معاملہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھ میں دیا ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی شخص اپنے مقابل کسی کو کبھی باعزت زندگی گزارنے ہی نہ دیتا۔ اور شاید ہر شخص ذلت کی زندگی گزار رہا ہوتا۔ اس ربِ کریم کی شان ہے کہ اس نے عزت اور ذلت اپنے ہاتھ میں ہی رکھی ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کے اخلاق وعادات سے متعلق اگر کوئی بری یا غلط بات ہمیں معلوم ہوتی ہے تو ہم اسے فوراً پورے معاشرے میں پھیلا دیتے ہیں۔ 
اگر اس شخص نے کوئی غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کا پرچار کر کے ہم بھی تو گناہِ عظیم کر رہے ہیں۔ اور یہ تو ایسا عمل ہے کہ اس کا عذاب آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے اور جاسوسی کرنے سے ہماری شریعت میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ خود کے اعمال کو صحیح کرنے کی بجائے ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور دوسروں کے گریبانوں میں جھانکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ دوسروں کے عیبوں کو جان کر انہیں سامنے لانا، انہیں اچھالنا تو ایک شعوری کوشش ہوتی ہے جس کا گناہ واجب ہے اور عبرتناک سزائیں ہیں۔ مگر آج کل تو سوشل میڈیا نے غیبت، چغلی اور لوگوں کی عیب جوئی کو الگ رنگ میں ہی پیش کر دیا ہے۔ 
اب تو غیر محسوس طریقے سے وہ تمام کام ہم کر جاتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور ہمیں اس کا پتہ بھی نہیں چلتا بلکہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہم سے کتنی بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ دراصل سوشل میڈیا کی وجہ سے بے شمار غیر اہم افراد بھی اپنے آپ کوسماج کا اہم حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ رات دن سوشل میڈیا سے جڑے رہنا، ہر اہم غیر اہم بات کو پھیلانا، لوگوں کے بیچ اہم بننے کے چکر میں بلا سوچے سمجھے کچھ بھی ایک دوسرے کو میسج بھیج دینے کے عمل نے سماج میں ایک انتشار پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں تو حکم ہے کہ بلا تحقیق کسی بھی موضوع پر بات بھی نہ کریں اور کہاں یہ کہ دماغ کی بتی بجھا دی گئی ہے اور کی پیڈ پر انگلیاں چل رہی ہیں۔ کچھ سوچ سمجھ نہیں رہ گئی کہ کون سی بات پیش کرنا چاہئے یا کون سی بات آگے بڑھانا چاہئے۔
سچ ہے کہ آجکل سوشل میڈیا پر خبریں پھیلانے یا شیئر کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی بھی خبر سامنے آئے تو ہر کوئی اسے اپنے اپنے طریقے سے پیش کرنے اور جلد سے جلد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دنوں سے ایک عجیب بات اور بھی نظر آئی، بچوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے درس دینا۔ اگر بچے غلطیاں کرتے ہیں تو ہمیں انہیں اکیلے میں سمجھانا چاہئے، ان کی غلطی کا احساس دلانا چاہئے نہ کہ ان کی تصویریں ان کی غلطیاں سرعام کر کے انہیں رسوا کرتے ہوئے باغی بنا دیا جائے۔ ہم کہتے ہیں، لکھتے ہیں، سنتے ہیں کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت دینی چاہیے۔ ضرور دینی چاہئے اور ذمہ دار والدین دیتے بھی ہیں، کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو غلط راہ پر نہیں دھکیلتے یا بری تربیت نہیں دیتے۔
لیکن جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو ہر وقت ماں باپ ساتھ تو نہیں رہتے! باہر بچے دوستوں سے ملتے ہیں، ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ دوستی ہو جاتی ہے۔ یہاں بچوں کو بھی سمجھنا چاہئے حد سے زیادہ آگے نہ بڑھیں۔ بچے اپنے فرائض کو سمجھیں۔غلطیاں بچوں سے ہوتی ہیں الزام ماں باپ پر آتا ہے کہ ماں باپ نے صحیح تربیت نہیں کی۔ لوگوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ آج ہم کسی کی عزت اچھالیںگے تو کل یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ جانے انجانے میں ہم خود اپنے بچوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ والدین بھی اپنی ذمے داری نبھائیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیںا اچھے برے کی پہچان کروائیں۔ ہمارا معاشرہ، والدین، بچے اگر اپنے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دیں تو تھوڑا بہت ان مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔
سیدہ تبسم منظور
0 notes
discoverislam · 7 years
Text
بدگمانی سے خوش گمانی تک کا سفر
یہ بات ٹھیک ہے کہ معاشرے میں بدگمانی بہت عام ہے لیکن کیا کریں، دھوکہ دہی کی کثرت نے ہی تو اِسے جنم دیا ہے۔ ’’خوش گمانی‘‘ میں ذرہ بھر مبالغہ اِسے خطرناک ’’خوش فہمی‘‘ میں بدل دیتا ہے جو جلد یا بدیر منہ کے بل گرا دیتی ہے۔ پھر حدیث پاک کے مطابق کیسے مومن کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھے جائیں؟ کہیں مومن مل جائے تو پورے یقین کیساتھ اِس کے بارے میں ستر گمان اچھے رکھ لیجیے، کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن کیا اِس معاشرے میں اکثریت مومنین کی ہے؟ نہیں؟ تو پھر بدگمانی کے بارے میں بدگمان نہ ہوں بلکہ بدگمانی کو کسی حد تک احتیاط کا درجہ دے دیجئے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
صبر، شکر اور خوشی
سسکنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ماہی بے آب خشکی پر جتنا چاہے تڑپے، اُسے زندگی نہیں ملتی۔ وقت کی بانہیں تھام کر اُس کے ساتھ تو چلا جا سکتا ہے لیکن اُس کے گلے لگ کر رویا نہیں جا سکتا۔ لہذا مسکرانا سیکھیں اور زندگی کے ہر لمحے سے خوشی کشید کرکے پی جائیں​۔ زائد ہو تو دوسروں کو بھی پلائیں، یہ صدقہ جاریہ ہے۔ یہ تبھی ہوگا اگر آپ صبر اور شکر کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جبکہ شکر کرنے والے تھوڑے ہیں۔
حوصلہ
آفت کس پر نہیں پڑتی؟ مگر بچتا وہی ہے جو حوصلہ قائم رکھے ورنہ پریشانی میں کانپتے ہاتھ، لرزتا بدن اور ڈانواڈول فیصلے پریشانی کو دُگنا کر دیتے ہیں لیکن مومن کبھی حالات کے سامنے نہیں جھکتا۔ وہ اللہ کے سامنے جھکتا ہے اور حالات کے سامنے ڈٹ جاتا ہے البتہ اِس کے لیے حوصلہ چاہیئے جو انسان کی قیمتی ترین متاع ہے۔ اِس آزمائش بھری دنیا میں صرف زندہ رہنے کیلئے آسمان جتنا بلند حوصلہ چاہیئے اور اگر آپ زندہ رہنے سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو خود سوچ لیں کہ آپ کو کتنا حوصلہ درکار ہے۔ اِس یقین کے ساتھ مضبوط ہوجائیے کہ اللہ کسی کی ہمت سے زیادہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا اور ہر متلاشی کیلئے راستہ موجود ہے۔
تدبیر اور تقدیر تقدیر کا لکھا کبھی کبھار بیٹھے بٹھائے بھی مل جاتا ہے مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ اِس دارالاسباب میں تقدیر پانے کے لئے تدبیر کرنا پڑتی ہے۔ تدبیر کیا ہے؟ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو انتھک محنت سے بروئے کار لانا۔ بغیر کدال چلائے زمین کی سختی پر شکایت کناں ہونا عمل سے فرار پانے کا مقبول ترین طریقہ ہے۔ آپ اپنی تقدیر کا انتظار نہ کیجئے بلکہ جان لیں کہ تقدیر آپ تک پہنچنے کیلئے آپ کی تدبیر کی منتظر ہے۔ لہذا تن آسانی چھوڑیئے، توہم پرستی کے بُت توڑیے اور تدبیر کیجئے۔ آپ کی تقدیر آپ کے پاس ہی کہیں موجود ہے۔
اعتماد اعتماد خود پر بھی ہوتا ہے اور دوسروں پر بھی۔ دوسروں پر ہو تو دھوکے یا غلط فہمی سے ٹوٹتا ہے اور خود پر ہو تو کاہلی اور سستی سے۔ آنکھیں کھلی رکھیں، مشورہ لے کر چلیں اور عجلت میں فیصلہ کرنے سے احتراز کریں، آپ دھوکے سے بچ جائیں گے۔ مثبت انداز سے سوچیں، دوسروں کو صفائی کا موقع دیں اور تعصب سے پاک ہو کر سنیں، غلط فہمی کے انڈے سے کبھی بچہ نہیں نکلے گا۔ بغیر محنت کئے اپنی صلاحیتوں​ پر شک نہ کریں، یہ آپ کی خود اعتمادی کو نگل جائے گا۔ یاد رکھیں محنت سے پہلے سے موجود صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور نئی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں جبکہ کاہلی سے پاس موجود ہر سرمایہ غارت ہو جاتا ہے۔
سچ اور جھوٹ سچ چھپانا اور جھوٹ بولنا ہمیشہ کسی خوف کے زیرِ اثر یا کسی مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ غلطی کرنا اور جھوٹ بول کر نقصان سے بچ جانا دوبارہ غلطی کرنے کی ہمت دیتا ہے اور یوں انسان غلطیوں کا عادی ہو کر ایک غلط انسان بن جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ہمیشہ سچ بولنے والا غلطی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کیونکہ اُسے معلوم ہے کہ خود کو بچانے کیلئے وہ جھوٹ نہیں بولے گا اور یوں وہ اصلاح نفس جیسی عظیم دولت پالیتا ہے۔ خوف کے سائے میں جھوٹ بولنا اخلاقی جرات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ محض مفاد کی خاطر جھوٹ بولنے والا بد فطرت ہوتا ہے۔ دونوں کا علاج صرف اور صرف سچ بولنے میں ہے لہذا ہر حال میں سچ بولیں۔
توقعات اور خوشیاں حد سے زیادہ توقعات خوشیوں کی دشمن ہوتی ہیں اور غیر ضروری توقعات رکھنے سے تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ توقعات پوری نہ ہوں تو انسان ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حسبِ توقع مل جائے تو خوشی بھی کم ہوتی ہے، ہاں اگر توقعات کم ہوں تو خلاف توقع ملنے پر خوشی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ملتا تو مقدر سے ہے، توقعات رکھنے سے تھوڑی ملتا ہے؟ تو کیوں نہ کوشش جاری رکھی جائے، توقعات کم کرلی جائیں، اور اللہ کی نعمتوں پر دل کھول کر شکر ادا کیا جائے۔
ضمیر انسان کے اندر کلمہ حق بلند کرنا ضمیر کا کام ہے۔ اُسے سُلانا نسبتاً آسان ہے مگر مارنا بہت مشکل۔ نیند کے دوران بیمار بچے کی طرح یہ بار بار آنکھیں کھولتا اور کروٹیں بدلتا ہے لہذا اُسے تھپکیاں، جھولے اور نیند آور ادویات مسلسل دینی پڑتی ہیں۔ یہ مرتا ہے تو جہالت اور گمراہی کی گولی سے، مگر جب انسان حق کی پہچان ہی بھول جائے تو نہ رہے گی حق کی پہچان اور نہ رہے گی ضمیر کی آواز۔ یہ سویا ہو تو کبھی نہ کبھی زندگی کی گاڑی کو جھٹکا لگنے سے جاگنے کی امید باقی رہتی ہے لیکن اگر ضمیر مر جائے تو انسان جانوروں جیسا ہوجاتا ہے۔ ضمیر بکتا بھی ہے لیکن اِس کا سودا ہمیشہ خسارے کا ہوتا ہے کیونکہ ضمیر بیچ کر جو بھی جنس خریدی جائے، ضمیر سے بیش قیمت نہیں ہو سکتی۔
لہذا علم و آگہی پھیلائیے، ضمیر کو موت سے بچائیے، ضمیر فروشی پر لعنت بھیجیے، اور ہمیشہ حق بات کہیے۔
نعمان الحق  
0 notes
sufism786-blog · 2 years
Photo
Tumblr media
""" Kaash Ek Din Hamara Aisa Guzar Jaye, Phir Uss Raat Deedar E Ilahi Hojaye, Ek Din Hamara Kisi Ke Giley Shikwe Wala Na Ho, Kisi Ki Ghibat, Hasad, Jalan Se Na Guzre, Gusse, Ladayi, Jhagde Se Khali Ho, Bugz Kina Kapat, Hawas Se Paak Ho.... Kaash Ek Din Hamara Aisa Bhi Guzre.... 🙏🙏🙏 """" Share your views in comments. TAG someone 💞 ___________________ Turn on your post notification 👉@khudi.ki.pehchan 👈 ___________________ Follow ☑️ @khudi.ki.pehchan Like 👌 #nazeeri Share 👍 Spred #sufism #khudi #khudikipahchan #haqkipehchan #kamilpeer 🌹🏵️🌸💮🌼🙏 #sufi #sufisayings #sufisme #urdu #urduquotes #urduadab #urduposts #bazm_e_urdu #urdupoetry #quotes #urdushayari #quoteoftheday #bestquotes #instaurdu #punjabi #arabic #urdulovers #mh_pk #hyderabad #india (at ISHQ E Muhammed - SAW) https://www.instagram.com/p/CikIU1jDboD/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
sufism786-blog · 2 years
Photo
Tumblr media
Time to Change Yourself 🙏💐💝 Chordo Ghibat, #backbiting Chugli, Hasad, Jalan, Badla Lena. Be a good #humenbeing 👍 Share your views in comments. TAG someone 💞 ___________________ Turn on your post notification 👉@khudi.ki.pehchan 👈 ___________________ Follow ☑️ @khudi.ki.pehchan Like 👌 #nazeeri Share 👍 Spred #sufism #khudi #khudikipahchan #haqkipehchan #kamilpeer #bezubaanthoughts #urdushayri #urdushairi #mohabbat #poetrymaykhana #shairi #urduposts #shayrilover   #urdupoetrylovers #shayaris  #urdupoetry #shayer  #pehlapyar #2linespoetry  #loveshayari  #shayrilove  #hindiquotes  #urduzone (at Change your thought change your life) https://www.instagram.com/p/CiRVY0WPdfg/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
irctv · 5 years
Video
youtube
Hamela Aurat Kisi Ki Ghibat Karen To Uske Bacche Par Kya Asar Hota Hai By Adv. Faiz Syed - https://youtu.be/aXnLBa9g_-0
0 notes