Tumgik
#Kabirah Gunah
discoverislam · 4 months
Text
گناہوں پر ندامت کی فضیلت و برکات
Tumblr media
ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور جو گناہ ہو گئے ہیں یا آئندہ ہوں گے ان پر اِستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ اِستغفار کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی ﷲ تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگے۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِستغفار کا حکم دیا ہے اور اس کے اہم فوائد بھی بتلائے ہیں مفہوم: ’’پھر میں نے (ان سے) کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ یقیناً وہ بہت زیادہ معافی دینے والا ہے۔ (گناہوں سے معافی مانگنے پر وہ اتنا خوش ہو گا کہ) تم پر آسمان سے (فائدے والی) خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے اموال و اولاد میں (برکت والی) ترقی دے گا تمہارے لیے (انواع و اقسام کے) کے باغات پیدا فرما دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں بہا دے گا۔‘‘ (سورۃ نوح) حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ حدیث قدسی ارشاد فرماتے ہیں، جس میں ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں خطاب فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے (یعنی میں ظلم سے پاک ہوں) جب میں نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو اسی طرح تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
اے میرے بندو! جس کو میں (اپنی توفیق سے) ہدایت عطا فرما دوں اس کے علاوہ تم سب گم راہ ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت (کی توفیق) مانگو۔ میں ہی تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے فضل سے ) روزی دوں اس کے علاوہ تم سب بھوکے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے فضل کو طلب کرتے ہوئے) روزی کا سوال کرو میں ہی تمہیں روزی دوں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے کرم سے) لباس پہناؤں اس کے علاوہ سب ننگے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے کرم کی امید رکھتے ہوئے) لباس مانگو میں ہی تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمہارے گناہ معاف کرتا ہوں اس لیے مجھ ہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو میں ہی تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی مجھے نفع دے سکتے (یعنی تمہارے گناہوں سے مجھے نقصان نہیں اور تمہاری نیکیوں سے مجھے فائدہ نہیں بل کہ گناہ اور نیکی کا نقصان اور نفع صرف اور صرف تمہارے لیے ہے) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت پرہیز گار دل کی طرح بن جاؤ تو اس سے میری مملکت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
Tumblr media
اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت بدکار دل کی طرح بن جاؤ تب بھی میری مملکت میں کسی ادنی سی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر کسی میدان میں کھڑے ہو جائیں اور پھر مجھ سے (اپنی زبان میں اپنی ساری ضروریات) مانگیں اور میں ہر ایک کی اس کی تمام ضروریات دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی کہ سمندر میں سوئی گرنے سے پانی کے کم ہونے کی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ میں تمہارے اعمال کو یاد رکھتا ہوں اور انہیں (تمہارے حق میں اتمام حجت کے طور پر) لکھوا لیتا ہوں۔ میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا اس لیے جو شخص بھلائی پا لے اسے چاہیے کہ وہ مجھ ﷲ کی حمد و شکر ادا کرے اور جس شخص کو بھلائی کے بہ جائے برائی ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیوں کہ (بعض دفعہ) یہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (بہ حوالہ: صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کوئی مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی وجہ سے ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے اگر وہ اس گناہ سے توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کے دل سے سیاہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ توبہ کے بہ جائے مزید گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مزید بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ہرگز ایسا نہیں بل کہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان چیزوں کا جو وہ برے اعمال کرتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)  حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں، میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے آدم کی اولاد! جب تک تو مجھ سے امید رکھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر (بالفرض) تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے ان کی معافی مانگے تو میں معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر تو مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تیرے نامہ اعمال میں اتنے گناہ ہوں جن سے زمین بھر جاتی ہے تو تیری توبہ و استغفار کی وجہ سے میں بھی تجھے اتنا ثواب عطا کروں گا کہ جن سے زمین بھر جائے گی بہ شرط یہ کہ تُونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ (جامع الترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص استغفار کی عادت بنا لے ﷲ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے (حلال اور وسعت والا) رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر علماء بنی اسرائیل سے یہ پوچھنے کے لیے چل پڑا کہ اتنے بڑے گناہ یا گناہ گار کے لیے توبہ کے قبول ہونے کوئی صورت ہے؟ ایک عابد و زاہد شخص نے اس کو جواب دیا کہ نہیں توبہ کے قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ اس شخص نے اس عابد و زاہد کو بھی مار ڈالا۔ پھر باقی علماء سے پوچھنے کے لیے چل نکلا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ تم فلاں بستی میں جاؤ وہ نیک لوگوں کی بستی ہے اور وہاں فلاں عالم رہتے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو وہ تمہیں توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں ٹھیک فتویٰ دے گا۔
وہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچ پایا تھا کہ اچانک ملک الموت آ پہنچے اس کو جب مرنے کی علامات محسوس ہوئیں تو اس نے اپنا سینہ اسی بستی کی طرف جھکا کر گر پڑا۔ چناںچہ اس کی روح نکالنے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے ملک الموت سے ایک طرح کا جھگڑا کرنے لگے۔ اسی دوران ﷲ تعالیٰ نے اس بستی (جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کے قریب ہو جائے اور اس بستی (جہاں سے قتل والا گناہ کر کے آ رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس سے دور ہو جائے۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ کہ تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر وہ اس بستی کے قریب جس کی طرف وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے۔ فرشتوں نے جب پیمائش کی تو وہ اس بستی کے قریب تھا جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا وہ بہ نسبت دوسری بستی کے ایک بالشت قریب تھا چناں چہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص قابل مبارک باد ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرماتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے کہ اے ﷲ! مجھے یہ درجہ کیسے نصیب ہوا؟ (حالاں کہ میں نے تو ایسی نیکی نہیں کی) ﷲ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ تیرے لیے تیری اولاد نے استغفار کیا ہے اس لیے میں نے تیرا ایک درجہ جنت میں مزید بلند کر دیا ہے۔ (سنن ابن ماجۃ) ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اگر گناہ ہو جائیں تو ان پر استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
مولانا محمد الیاس گھمن  
0 notes
qamer · 2 years
Photo
Tumblr media
Sufi Master Younus AlGohar said on 10/03/22 Mevlana Rumi hinted towards this, for those who did not understand this what did they say? “What is the point of worship, one moment in company of a Saint is enough.” They were think ing this, these are heaven-bound people. So what was the meaning of it? “Yak Zamana sohbat e baholiya betar sad sala taat bereya” One moments company of a Saint is superior to a 100 years of worship. The meaning of that was, that if divine theophanies fall upon the Saint, sitting near him, if you are caught within the range of the divine theophanie, more Gunah E Kabirah will be burned than you will burn in 100 years of worship. It is better this way. https://www.instagram.com/p/CjSSBfoPB55/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
islamiclife · 6 years
Text
رونگٹے کھڑے کر دینے والی حدیث
0 notes
sinceresista · 6 years
Text
So many reminders through Quran and sunnah. *So many of ramadans gone by*. So many umrahs and hajjs lived through. So many good deeds spoken about. Hundreds of Islamic messages Fwded for blessings/sawaab. Some acted upon for a short time. Some forgotten. Some easy to follow- some difficult.
*لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ*
‎‫
There is no truthful God but Allah and Mohammad Sallalaahu Alaihi wa Sallam is His messenger.
*It is time we start living this kalima with all its pillars,conditions ,nullifiers.* & its not mere lip service or just murmuring inside with out knowing its tafseer (details).Learn what does this kalima say according to our Islam
‎ *سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا*
(Surah baqarah: we HEAR we obey).
BUT DO WE? Really? We all know the inner of our hearts. It's time to contemplate.
_A few changes we can TRY to bring about in these last remaking days of this blessed month. Time to SHOW practically that oh Allah you made your words reach us. We are ready to change. We are trying. help us!_
🔷 *We all know 5 times prayers are MANDATORY.* Not 3 times. Not 4 times only. Let's stop making excuses. Let's start praying. *Allah doesn't need them. We do! First question at death would be about this. Are we ready with our excuses?*
🔷 *Fasting is mandatory. It doesn't matter if we have exams, interview or etc.Fasting is ONLY excused for sick people and travellers. That TOO with the condition of being made up for afterwards. How many fasts have we left just like that? Have we tried making them up for? Period fasts HAVE to be covered as well. Same goes for fasts left during pregnancy.*
🔷 *Lying is gunah kabirah! Major sin!* Most difficult because we all like to believe we are honest but *white lies have become a part of our lives. Be it with tailors to ensure timely stitching or at work with boss for holidays.* Unfortunately they have piled up. *Tauba NEEDED. And conscious effort to leave NEEDED.*
🔷We all love quoting *"what goes around comes around"* we all like to believe we are the victims. *it's TIME we apply this on ourselves.* How many rights of Allah and people have we broken. Unconsciously. Consciously. How many times have we been rude to our spouses. Our children. Our parents. Our siblings. Our servants. Our servants. Waiters. Police on the road. Beggars on the road. *IKHLAQ is the essence of deen. We lack it.* ITS ABOUT TIME we stop at the ayats and Hadiths regarding the rights we read about and forward. *It's time to act upon. So from today onwards let's be courteous to our servants and parents.* Especially if they have irritated us or made us mad. *That's the time of our IKHLAQ test.*
🔷 *Backbiting will throw us in the hell.* We all know that. We all mention it. How many of us have actually left it. Whether it's someone's funny or weird clothing. Or hairstyle or voice. Or their walk or thier habits. We just fall prey and mention! The mention itself is backbiting. UNLESS it's done to compliment them. Simple! Everything else is backbiting. *Let's tie our tongues TODAY. for Tomorrow may never come.*
🔷 *When someone trusts you with a secret or Anything about themselves. whether they mention it or not. WE ARE ENTRUSTED TO KEEP THE TRUST/secrecy.* How often do we, without hesitation, sometimes without even meaning ill, pass on that information???? That's breaking the trust. *HYPOCRITES characteristic mentioned in quran is that they break the trust when entrusted.*
🔷Deep down we all know that allah does talk about modest dressing. But all of us like to argue saying modesty is in the heart! *While Allah’s mentioned straight up about modesty in clothing.* Forget arguing over nikab abaya hijab we have gone many steps ahead. And we all know that. Sadly we all are slaves to fashion. Unless we free ourselves from that- this command of Allah will remain the hardest. Quran and sunnah say there can’t be iman without haya (modesty). Let’s analyse our own iman.
🔷 *Do NOT say even UFF to the parents*<- a command in Quran. Are we even close to being what Allah commands us to do as children? For those whose parents are alive. We have a chance to mend things. For those who have lost this precious blessing. Make dua for them. Do good in life.
May Allah help us make changes in our selves. May Allah allow for this Ramadan be the month of several good changes in us. Ameen
-Sister Shameem Abbas
2 notes · View notes
advfaizsyed · 4 years
Video
youtube
Jo Gunah Dekhne Se Ya Sonchne Se Hote Hai To Kya Ye Saghira Gunah Hai Ya Kabirah By @Adv. Faiz Syed - https://youtu.be/h1TelOuhFrY
0 notes
discoverislam · 8 months
Text
غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم
Tumblr media
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں ا��ر اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔ گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین، گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً ’’اللہ تمہیں ہدایت دیں، اللہ تجھے نیک بخت کرے، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
Tumblr media
( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعال�� نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ 
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔ میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔ اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔ 
غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔ اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے، بہت پیٹو ہے۔ سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔
اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔ اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی  
0 notes
discoverislam · 4 years
Text
ندامت و پشیمانی
گناہ اور غلطی کا مادہ انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ وہ ذاتی مفادات اور دنیاوی مقام و مرتبے کے حصول کی خاطر غلط کام کرنے سے بھی باز نہیں آتا اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ جیسے غلطی اور نافرمانی کرنا بنی نوع انسان کی فطرت کا حصہ ہے، ویسے ہی غلطی اور گناہ کا احساس ہونے پر ﷲ رب العزت کے حضور پشیمانی کا اظہار کرنے اور معافی طلب کرنے پر ﷲ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے گناہوں کی معافی کی نوید بھی سنائی ہے۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے، چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، احساس ہونے پر فوراً ﷲ تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔ بندے کے لیے کمال درجہ ﷲ رب العزت کے سامنے عاجزی اور انکساری میں ہے، اور بندے کے لیے ذلّت و رسوائی ﷲ تعالیٰ کے سامنے تکبّر و سرکشی اور اس کے اوامر و نواہی سے سرگردانی میں ہے۔ استغفار کے لیے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے بتایا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے۔ تمام چھوٹے بڑے گناہوں پر توبہ کرنا لازم ہے۔ فرمان الہی کا مفہوم: ’’اے مومنو! سب کے سب ﷲ کے لیے توبہ کرو۔‘‘ (النور) پھر ایک اور جگہ توبہ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا گیا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! ﷲ کے لیے سچی توبہ کرو۔‘‘ (التحریم)
توبہ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ کر ﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے اور چاہے اپنے گناہوں کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، سب سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں پر شُکر ادا کرنے میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، اس پر بھی توبہ کا معمول بنائے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’لوگو! ﷲ سے توبہ کرو، اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو، میں ایک دن میں سو بار استغفار کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)
اہل علم کہتے ہیں کہ اگر گناہ ﷲ اور بندے سے متعلق ہے تو پھر توبۃ النصوح یعنی سچی توبہ کے لیے تین شرائط ہیں۔ اول: گناہ چھوڑ دے۔ دوم: گناہ پر پشیمان ہو اور سوم: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔ اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر کسی کا حق کھایا ہے تو واپس کرے، دل دکھایا ہے تو متعلقہ فرد سے معافی مانگ لے کیوں کہ ﷲ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھ�� وہ ﷲ سے بخشش طلب کرے تو ﷲ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔‘‘
ﷲ کا فضل، کرم اور سخاوت اپنے بندوں کے لیے بہت وسیع ہے۔ اس کی مخلوق دن رات اس کی نافرمانی کرتی ہے، لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ بُردباری کا معاملہ فرماتا ہے۔ فوراً انہیں سزا سے دوچار نہیں کرتا بلکہ انہیں رزق اور عافیت سے نوازتا رہتا ہے اور ان پر نعمتیں کم نہیں کرتا، انہیں سُستی اور کوتاہی پر توبہ کی محض دعوت نہیں دیتا بلکہ اس پر ان کے لیے مغفرت اور ثواب کا پیشگی وعدہ بھی کرتا ہے۔ ﷲ رب العزت بندے کی توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص ﷲ کے حضور توبہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے دنیا میں اچھی زندگی اور آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہو گا تو اس کے لیے طوبٰی (خُوش خبری) ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
خواتین کو آپ ﷺ نے خاص طور پر استغفار کی ترغیب دی اور فرمایا، مفہوم: ’’اے عورتوں کی جماعت! صدقہ دیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیوں کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری (عورتوں) دیکھی ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت حسن بصریؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے اُن سے قحط سالی کی شکایت کی تو اُنہوں نے اس سے کہا: ﷲ سے استغفار کرو، پھر ایک اور شخص نے محتاجی کا شکوہ کیا، ایک نے بے اولاد ہونے کا اور ایک نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو انہوں نے سب کو یہی کہا: استغفار کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی اشخاص آئے اور ہر ایک نے الگ الگ پریشانی بیان کی، مگر آپ نے سب کو ہی استغفار کا حکم دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جنابِ حسن بصریؒ نے جواب میں سورہ نوح کی ان آیات کی تلاوت فرمائی، مفہوم: ’’پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیوں کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر بہ کثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد دے گا، اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا۔‘‘ (بہ حوالہ تفسیر روح المعانی)
اس وقت پوری دنیا میں وبائی مرض نے دہشت پھیلائی ہوئی ہے، ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی بداعمالیوں اور نافرمانیوں پر نادم ہونے اور ﷲ رب العزت کو راضی کرنے کا وقت ہے، کیوں کہ جو قوم استغفار کرتی ہے، ﷲ تعالیٰ اُس سے عذاب کو دور کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد کا مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ ان کو اُس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے، جب تک آپؐ ان میں موجود ہیں اور ﷲ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں، جب تک وہ استغفار کرتے ہوں۔‘‘ (الانفال)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے بچاؤ کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اُٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ یعنی استغفار کو اختیار کرو۔ اس وقت سب سے بڑھ کر استغفار اور ﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی بے بسی کے اظہار کا کوئی موقع نہیں آنے والا ہے۔ آئیے! ہم سب ﷲ رب العزت کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ زندگی پر غور کر کے اس کے حضور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور نافرمانی پر استغفار کریں، سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس ذات واحد سے بخشش طلب کریں۔
ڈاکٹر شائستہ جبیں  
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
انسان کی گمراہی کی وجوہات
حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے انسان کا سیدھے راستے پر رہنا انتہائی ضروری ہے۔ ہدایت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ جس کا دنیا جہان کی کوئی نعمت مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بلاشبہ صحت‘ مال ‘جاگیر ‘ جوانی اور حسن جیسی تمام نعمتیں اپنی اپنی جگہ پر معنی خیز ہیں ‘لیکن ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بلند مقام ہدایت اور ایمان کا ہے ‘ اگر ایمان اور ہدایت کی نعمت نہ ہو تو یہ تمام نعمتیں بے معنی اور بلا مقصد ہو جاتی ہیں اور اگر ہدایت کی نعمت دولت موجود ہو تو ان ساری نعمتوں کی بھی قدر وقیمت بڑھ جاتی ہے۔ فرعون حکمران تھا‘ قارون سرمایہ دار تھا‘ شداد جاگیر دار تھا ‘ہامان ایک بڑے منصب پر فائز تھا‘ ابو لہب مکہ کا سردار اور دولت تھا‘ لیکن یہ تمام لوگ اس لیے ناکام اور نامراد ٹھہرے کہ یہ ہدایت سے محروم تھے۔ اس کے مد مقابل دنیا میں بہت سے کامیاب حکمران گزرے ‘جن میں حضرت یوسف ‘ حضرت طالوت‘ حضرت داؤد ‘ حضرت سلیمان علیہم السلام شامل ہیں‘اسی طرح خلفائے راشدین بھی اپنے عہد کے کامیاب حکمران تھے۔ 
دنیا میں بہت سے کامیاب تاجر بھی گزرے ‘جن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نام ِ نامی سرفہرست ہے‘ اسی طرح دنیا میں بہت سے ایسے لوگ بھی گزرے ‘جو مادی اعتبار سے کمزور تھے‘ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو ایمان اورہدایت کے سبب سر بلند فرما دیا۔ حضرت سمیہؓ اور حضرت بلالؓ کا نام انہی عظیم ہستیوں میں شامل ہے کہ جنہوں نے ہدایت اور ایمان کے سبب حقیقی کامیابیوں کو حاصل کر لیا۔ الغرض کہنے کا مطلب ہے کہ جہاں پر ہدایت کی نعمت انتہائی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے‘ وہیں پر گمراہی کے راستے پر چل جانا سب سے بڑی ناکامی ہے‘ لہٰذا میری نظر میں ان حقائق کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان وجوہات کو سمجھنا بھی ضروری ہے‘ جو انسان کو گمراہی کے راستے پر چلانے کا سبب بن جاتی ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان گمراہی اور ناکامی کی وجوہات کو بہت ہی اچھے انداز میں سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ گمراہی کی بعض وجوہات درج ذیل ہیں۔
آباؤاجداد کی اندھی تقلید 
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور اس کے نبیوں کے پیغام کو چھوڑ کر ہر دور میں بہت سے لوگ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کے راستے پر چلتے رہے۔ نتیجتاً وہ راہ ہدایت سے بھٹک گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جب کہا جائے‘ ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے اللہ نے (تو ) کہتے ہیں ‘ بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس کی) جو ہم نے پایا ہے‘اس پر اپنے آباؤ اجداد کو حالانکہ کیا؛ اگرچہ ہوں ان کے آباؤ اجداد نہ سمجھتے کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں۔‘‘ اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 23‘ 24 میں ارشاد ہوا: ''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا‘ مگر اس (بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے) نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو انہوں نے کہا؛ بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو انکار کرنے والے ہیں۔‘‘
اپنی مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو
بہت سے لوگ اس لیے راہ ِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں کہ وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کی ہر بات کو بغیر تحقیق کے بلاچون و چرا تسلیم کر لیتے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ کے بعد یہ مقام کسی کو بھی حاصل نہیں کہ ان کی ہر بات کو بلاچون و چرا تسلیم کیا جائے۔ علماء اور مذہبی رہنماؤں سے علم حاصل کرنا درست ہے‘ لیکن ان کی ہر بات کو بلا دلیل تسلیم کرنے کی بجائے ان کی مستند اور مثبت باتوں کو قبول کر لینا چاہیے اوران کی غیر ثابت شدہ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ کے چلن کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''انہوں نے بنا لیا ہے اپنے علما کو اور اپنے درویشوں کو (اپنا ) رب‘ اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو (بھی) حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے‘ مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی ‘ نہیں ہے کوئی معبود ‘مگر وہی پاک ہے ‘وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔‘‘ اہل اسلام کو یہود ونصاریٰ کے طرزِ عمل سے عبرت حاصل کرتے ہوئے محتاط روش کو اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مذہبی رہنماؤں کی عزت اور احترام تو ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن ان کی ہر بات کو حرف آخر نہیں سمجھنا چاہیے اور ان کی ایسی باتیں جو درست اور ثابت شدہ نہ ہوں‘ ان کو تسلیم کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی کی بات کو حرف آخر سمجھنا چاہیے۔
اپنے سرداروں اور چوہدریوں کی بات کو بلا چون وچرا تسلیم کرنا 
گمراہی کا ایک بڑ ا سبب یہ بھی ہے کہ اپنے سرداروں کی بات کی ہر بات کو بلاچون و چرا تسلیم کر لیا جائے۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا کہ وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی بات کو چھوڑ کر اپنے سرداروں کی بات کو تسلیم کرتے ہیں‘ قیامت کے دن ناکام ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 66‘ 67 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے ‘ اُن کے چہرے آگ میں وہ کہیں گے اے کاش !ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول کی۔ اور وہ کہیں گے؛ اے ہمارے رب بے شک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی تو اُنہوں نے گمراہ کر دیا ہمیں (سیدھے) راستے سے۔‘‘
بری صحبت  
انسان کی ناکامی اور تباہی کا ایک بڑا سبب بری صحبت کو بھی اختیار کرنا ہے۔ بعض لوگ نیکی کے راستے پر چلتے چلتے بری صحبت کی وجہ سے برائی کے راستے پر چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں نوجوانوں کے بگاڑ کی بھی ایک بڑی وجہ غلط صحبت بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ فرقان کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ‘ظالم اپنے ہاتھوں کو کہے اے کاش! میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس ) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس اور ہے شیطان انسان کو (عین موقعہ پر) چھوڑ جانے والا۔ (یعنی دغا دینے والا ہے) ‘‘۔
نفسانی خواہشات کی پیروی 
انسان کی نفسانی خواہشات بھی اس کی بہت بڑی دشمن ہیں اور اس کو راہ ِ ہدایت سے بھٹکا دیتی ہیں۔ بہت سے لوگ شریعت اور دین کی باتوں کو درست سمجھتے ہیں ‘ لیکن اس کے باوجود نفس کے ہاتھوں اس حدتک مغلوب ہو جاتے ہیں کہ کتاب وسنت کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 23 میں ان لوگوں کا ذکر کیا‘ جنہوں نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔ ارشاد ہوا: ''تو (بھلا) کیا آپ نے دیکھا (اسے) جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے (بھی) اسے گمراہ کر دیا (جو) علم کے باوجود (گمراہ ہو رہا ہے) اور مہر لگا دی اس کے کان اور اس کے دل پر ڈال دیا اس کی آنکھ پر پردہ پھر کون ہدایت دے سکتا ہے‘ اسے اللہ کے بعد تو (بھلا) کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
خوف اور لالچ 
 انسان کو سیدھے راستے سے بھٹکانے والے عناصر میں خوف اور لالچ بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ بااثر لوگوں کے خوف اور دباؤکی وجہ سے راہ حق پر چلنے سے قاصر ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ دنیاوی مفادات ‘ عہدے اور لالچ کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں۔ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو ہر حالت میں مقدم رکھنا چاہیے اور رزق اور زندگی کا مالک فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو سمجھنا چاہیے اور اُس کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نہ کسی ظالم کا ظلم اس کی زندگی کو کم کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی جابر کا جبر اس کے رزق کو روک سکتا ہے‘ اگر ان نکات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو انسان صراط ِمستقیم پر گامزن رہ سکتا ہے اور جہنم کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ناکامی اور گمراہی سے محفوظ فرمائے!( آمین)
علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
ریا کاری اک گناہِ عظیم
ریاکاری یعنی دکھلاوا ایک انتہائی مذموم اور قبیح عمل ہے۔ ریاکاری، گناہ اور ﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ لفظ ریا ’’ رویۃ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان نیکی کا کوئی عمل کرتے وقت یہ چاہے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے ہوئے دیکھ لیں اور اس کی تعریف کریں۔ ﷲ تعالیٰ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ’’اے پیغمبر (ﷺ) آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ ظاہری صورتِ بشری میں تو میں تم جیسا ہوں۔ البتہ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے، پس جو کوئی اپنے رب سے ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔‘‘ (سورۃ الکہف آیت 110)
٭ ریا کاری کے مختلف درجات پہلا درجہ ایمان میں ریا کاری کا ہے۔ یہ منافقانہ عمل قبیح ہے۔ اس کا انجام کافر سے بھی بدتر اور سخت ہے، کیوں کہ منافق باطن میں کافر اور ظاہر میں فریبی ہے۔
٭ دوسرا درجہ اصل عبادت میں ریاکاری ہے۔ ایک شخص لوگوں کے سامنے تو طہارت کے ساتھ نماز پڑھ لے لیکن تنہائی میں ایسا نہ کرے تو یہ بھی خطرناک ریاکاری ہے۔ جب آدمی ﷲ کے بجائے اس کی مخلوق کی نظروں میں قدر و منزلت چاہے گا جو انتہائی ناپسندیدہ ہے تو اس کا ایمان کمزور اور ضعیف ہو گا۔
٭ تیسرا درجہ ایمان اور فرائض میں تو نہیں لیکن سنن اور نوافل کو ریاکاری سے آلودہ کرنا ہے۔ مثال کے طور تہجد پڑھنا، صدقہ و خیرات کرنا، جماعت کا اہتمام، عرفہ، دو شنبہ اور پنج شنبہ کے روزے رکھنا اور ان تمام کاموں میں یہ غرض رکھنا کہ لو گ اُس کو اچھا، نیک و پرہیزگار اور متّقی سمجھیں یا اس کی تعریف ہی کرتے رہیں۔ حضور ؐ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اپنی اُمت کے معاملے میں چھوٹے شرک سے زیادہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا۔ لوگوں نے چھوٹے شرک کے متعلق پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ ریاکاری ہے۔ قیامت کے دن ﷲ تعالیٰ فرمائیں گے، مفہوم: ’’ اے ریاکارو! اُن کے پاس جاؤ جن کی خاطر تم نے عبادت کی اور اُن سے جزا مانگو۔‘‘ حضرت معاذ بن جبل ؓروتے تھے تو امیرالمومینین حضرت عمر فاروق ؓ نے رونے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا: میں نے پیغمبر ِ اسلام ﷺ سے سنا تھا کہ برائے نام ریا بھی شرک ہے۔ اور فرمایا کہ ریاکار کو قیامت کے دن ایسے بلایا جائے گا، او ریاکار! او غدّار! نابکار! تیرا عمل ضایع ہو گیا اور اجر اکارت گیا۔ اب اُس شخص سے اپنے عمل کی جزا مانگ جس کے واسطے تُونے عمل کیا تھا۔ ﷲ تعالیٰ نے ہر کام میں ایسی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں کہ ہر شخص ان حکمتوں کی رمز کو نہیں پا سکتا۔ ﷲ پاک ہم سب مسلمانوں کو ریاکاری کے بغیر عبادت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ہر عمل کو ریا سے پاک کر کے قبول و منظور فرمائے۔ آمین
عظمیٰ علی   
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
مُشکلات کے گرداب سے نجات، مگر کیسے
حالات کب بہتر ہوں گے اور ہم مشکلات کے گرداب سے کیسے نکلیں! یہ وہ سوال 
ہے جس کا جواب دینے کے لیے ہر شخص اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ کس�� کی سوچ یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر لینے سے ہم مشکلات کے گرداب سے نکل سکتے ہیں۔ کوئی عصری علوم و فنون میں ترقی کو اس کا مداوا سمجھتے ہیں۔ بعض کی رائے کے مطابق سیاست میں شراکت داری اور بین الاقوامی تعلقات سے اس گتھی کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ جب کہ کچھ مفکرین عسکری قوت اور ایٹمی طاقت کے بل بوتے یہ معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں۔ چند افراد ایسے بھی ہیں جن کے عقل کا مقتضاء کثرت زر ہے اور وہ مال و دولت کی قلت کو تنزلی کا پہلا زینہ گردانتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ تمام لوگ بالخصوص مسلم بہ زبان حال یوں کہہ رہے کہ اقوام عالم میں آگے بڑھنے کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو گا ۔۔۔۔ ؟
اس سوال کی عقدہ کشائی میں سیاست دان، سائنس دان، مبصرین، تجزیہ نگار، دانش ور، حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے والے اسکالرز، تاجر برادری اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی آراء باہم جدا ہیں۔ ان کے گورکھ دھندے نے معاملے کو مزید الجھا کر رکھ دیا ہے اور ان کے افکار کی یلغار سے معاشرے میں بڑی تبدیلیوں نے انگڑائیاں لی ہیں۔ دولت کے بے تحاشا حصول اور استعمال نے اخلاقی قدروں کو روند ڈالا ہے اور باہمی رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں۔ قوت و طاقت نے جبر و جور کے طوفان مچائے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات نے حق خود ارادیت کو سلب کیا ہے۔ محض عصری علوم و فنون نے انسانی تہذیب اور تربیت سے جداگانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔ سائنسی ایجادات سے متاثر لوگ خدائی قدرت کو بھول بیٹھے ہیں۔
ہم حقیقی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے۔ امن نہیں مل سکا۔ سکون کے لیے ہم آج تک بلک رہے ہیں۔ شاید منزل کے متعین کرنے میں ہم سے ��لطی ہوئی ہے۔ جی ہاں! ہم غلط خطوط پر زندگی کی راہیں تراشتے رہے ہیں۔ خالق کے بہ جائے ناسمجھ مخلوق سے راہ نمائی لیتے رہے ہیں۔ نتیجہ آج تک ہم مصائب و مشکلات کی چکی میں برابر پِس رہے ہیں اور ناکامی کی دلدل میں ہنوز دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ چوں کہ حضرت انسان نہایت چالاک بھی واقع ہوا ہے اس لیے اپنی نامرادیوں کا وبال بہ جائے اپنے اوپر لینے کے دوسروں کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔ بالخصوص جو بات آج زبان زد عام ہے کہ سارا کچھ حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ حکمران ظالم ہیں، جابر ہیں، بدعنوان ہیں، معاشی قاتل ہیں، اقتصادی بربادی کے ذمے دار ہیں، اقتدار کے نشے میں مست ہاتھی ہیں، عدم استحکام کے مجرم ہیں، غربت کی دہلیز پر ہمیں گھسیٹنے والے ہیں، وغیرہ۔ یہ حقائق بھی بجا ہیں، یہ باتیں فرضی نہیں واقعاتی حقائق ہیں۔ لیکن معاف کیجیے یہ سب ہمارے مسائل تو ہیں، ان کا حل نہیں۔ محض حکمرانوں کو کوسنا، سارے حالات کا صرف انہی کو ذمے دار قرار دینا، عقل و انصاف سے انحراف کے مترادف ہے۔ ہمیں خود کو بھی بدلنا ہو گا۔ اپنے مہربان رب کے دربار میں جھکنا ہوگا۔ حدیث قدسی ہے، اﷲ پاک کا ارشاد ہے۔ مفہوم: ’’ میں ﷲ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔ جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اتر آتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصے اور انتقام کے لیے متوجہ کر دیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کر دیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بد دعا میں مشغول نہ کرو، بلکہ خود کو ذکر، عجز، تضرع میں مشغول رکھو، تاکہ میں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں۔‘‘ عمر بن عبدالعزیزؒ فرماتے تھے: ’’ حجاج بن یوسف خدا کی طرف سے ایک آزمائش تھا جو بندوں پر گناہوں کے موافق آیا۔‘‘ امام اعظم ابوحنیفہؒ فرمایا کرتے تھے: ’’ جب تمہارا ظالم بادشاہ کے ساتھ واسطہ پڑ جائے اور اس کے سبب سے تمہارے دین میں نقصان پیدا ہو تو اس نقصان کا کثرت استغفار کے ساتھ تدارک کرو، اپنے لیے اور اس ظالم بادشاہ کے لیے۔‘‘ خدائی تعلیمات، نبوی معمولات اور اسلاف کی تشریحات و واقعات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے مسائل کا حل اطاعت خداوندی، اتباع نبوی ﷺ اور اسلاف کے مشن پر چلنے میں ہے۔ جب تک اس میں کمی رہے گی حالات کبھی بھی نہیں سدھریں گے۔ جب ہم من حیث القوم اپنے اس مرض کی تشخیص و علاج کی طرف توجہ کریں گے جو بہ زبان رحمت کائنات صلی ﷲ علیہ وسلم خدائی قانون میں صراحت سے مذکور ہے یعنی ﷲ کریم کی طرف رجوع، اس کا ذکر، تضرع، دعائیں اور ترقی و حفاظت کے تمام جائز اسباب کو اختیار کرنا۔ تب ہم سب کو اپنے سوال کا جواب مل جائے گا اور تب حالات بہتر ہوں گے۔
مولانا محمد الیاس گھمن  
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
’’ ایک چُپ سو سُکھ ‘‘ : زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت
جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے. اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے گھر اور معاشرے کو آسودہ اور پُرمسرت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام میں جہاں محبت، اخوت اور احترام و عزت کے جذبے دلوں میں پیدا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، وہیں مسلمانوں کو ایسی تمام باتوں سے رکنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کے باعث معاشرے کا امن و سکون برباد ہو جاتا ہو۔ محبت و پیار کے رشتے منقطع ہوجاتے ہوں اور باہمی خون خرابہ کا آغاز ہو جائے۔ ان تمام باتوں کے نقصانات کو کتاب و سنت میں بہت صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ فانی دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا انسان ایمان و یقین کے اجالے میں ان کو پڑھ کر غور کرے اور ان سے اجتناب کرے تو امن و سلامتی اور عزت و عظمت کے نرالے نمونے وہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لے گا۔
قرآن و حدیث میں حفاظت زبان کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور بیہودہ گوئی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : ’’ بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے۔‘‘ حضرت سفیان بن عبداﷲ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ دربار رسالتؐ میں عرض کیا۔ یارسول اﷲ ﷺ! آپ میرے لیے سب سے خطرناک اور نقصان دہ چیز کسے قرار دیتے ہیں؟ تو سرکار مدینہؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: اسے۔ (ترمذی) حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جتنا زبان کو قابو رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا ضروری نہیں، کیوں کہ زبان کی آفتیں بہت زیادہ ہیں۔ انسان کے سر گناہوں کا بوجھ لدھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے۔‘‘
زبان سب سے زیادہ ضرر رساں اور خطرناک ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت بہت ضروری ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے بہت کوشش و جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سیدنا حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ انسان روزانہ صبح جب بیدار ہوتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے مخاطب ہو کر اسے تاکید کرتے ہیں کہ دن میں درستی اور صداقت پر قائم رہنا اور بیہودہ گوئی سے بچے رہنا، کیوں کہ اگر تُو درست اور ٹھیک رہے گی۔ تو ہم بھی درست رہیں گے اور اگر تُو کج روی کے راستے پر چلے گی تو ہم بھی کج روی کے راستے پر چل پڑیں گے۔ حضرت مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں: ’’جب تم اپنے دل میں قساوت، بدن میں سستی اور رزق میں تنگی محسوس کرو تو سمجھ لو کہ تم سے کہیں فضول اور لایعنی کلمے نکل گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے۔‘‘ حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ 
کیوں کہ جو شخص زبان کی نگہداشت نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت گفت گو میں مصروف رہتا ہے، تو لامحالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور غیبت اعمال صالحہ کو تباہ کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی زبان کی حفاظت اسی وقت کر سکے گا، جب خاموشی اختیار کرے گا۔ جب زبان کھلے گی ہی نہیں تو لایعنی باتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو رحمت عالمؐ نے ارشاد فرمایا : ’’جو خاموش رہا وہ سلامتی میں رہا۔ ‘‘ اسلام میں خاموشی کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ خود اچھا عمل ہے تو جو اس عمل کو اختیار کرے گا یقینا وہ کئی اعمال اس کے ذریعے کرے گا۔ خاموش رہنا تو ایک طرح سے سوچنا ہی ہے اور کائنات خداوندی میں غور و فکر کرنا بھی بڑا پسندیدہ عمل ہے۔ 
سورۃ الانعام کی آیت کریمہ کی ایک آیت کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا پہچاننا مشکل ہے، تمہارے اُوپر اور نیچے، تمہارے دائیں اور بائیں میری مصنوعات اور تخلیقات کا جو بازار سجا ہوا ہے۔ اسی میں غور و فکر کرو، ہر چیز یہ پکارتی ہوئی سنائی دے گی کہ وہ اپنی نیرنگیوں سمیت خود بہ خود موجود نہیں ہو گئی بل کہ اس کا بنانے والا ہے، جو سب کچھ جاننے والا۔ ہر چیز پر قدرت والا ہے۔ ذرا دیکھو بیج کا دانہ شق ہو رہا ہے اس میں ایک نرم و نازک بالی نکل آئی ہے، اسے آپ کم زور نہ سمجھیے یہ تو مٹی کی کئی انچ موٹی تہہ کو چیر کر نکلی ہے۔ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے، وہ بالی اب ایک ننھے سے تنے میں تبدیل ہو رہی ہے، ہوا کے تھپیڑوں کو برداشت کرنے کے لیے مناسب فاصلوں پر اس میں گرہیں ڈالی جارہی ہیں، اب اس کے سر پر ایک خوشہ سا نمودار ہو گیا ہے، اس کی جیبیں اب دانوں سے بھر گئی ہیں، یہ پودا جو پہلے ہرا بھرا اور نرم و نازک تھا۔ اب اپنا رنگ تبدیل کر رہا ہے۔
غور کرنے والی آنکھ خود فیصلہ کر لے کہ یہ کیا اندھے مادے کی کاری گری ہے یا علیم و خبیر پروردگار کی صناعی کا اعجاز ہے۔ پھل لگنے سے لے کر پکنے تک اس کی مقدار، اس کی خوش بُو اور اس کے ذائقے میں آہستہ آہستہ موقع بہ موقع جو تبدیلیاں رو نما ہو تی رہتی ہیں، اسی پر انسان غور کرے تو حقیقت واضح ہوجائے گی۔ اسی طرح کئی ایک آیات ربانی میں مخلوقات خداوندی کے بارے میں بھی غور و فکر کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔ احادیث کریمہ میں بھی رحمت عالمین ﷺ نے غور و فکر کرنے کی اپنے چاہنے والوں کو تاکید فرمائی۔ چناں چہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا، مفہوم : ’’ رموز کائنات میں ایک گھنٹے کا تفکر و تدبر ستّر برس کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
ہم کائنات خداوندی میں تفکر و تدبر اسی صورت میں کر سکتے ہیں، جب ہم فضول اور بیہودہ گوئی کے بہ جائے خاموشی کو اپنائیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ چپ رہنے اور خاموشی اختیار کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بالکل نہ بولے، بل کہ مراد یہ ہے کہ انسان ضرورت کی بات کرے اور لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے۔ اسی لیے تو فرمایا گیا کہ بُری بات کرنے سے چپ رہنا سنجیدگی کی علامت ہے اور اچھی بات کہنا چپ رہنے سے بہتر ہے۔ جب آدمی خاموش ہوتا ہے اور مجلس میں اچھی باتیں کہی جا رہی ہیں تو گویا وہ صحیح طور پر ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلام ایسے ہی افراد تیار کرتا ہے، جو سوچنے والے زیادہ ہوں اور فضول گوئی سے چُپ رہنے کو محبوب جانتے ہوں۔
اسلاف کرامؒ کی حیات پاک کا مطالعہ کرنے سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ انہوں نے کس طرح حفظِ لسان کا خیال رکھا اور فضول و لایعنی باتوں سے اپنے آپ کو کس طرح بچایا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کا درس دیا۔ ہمارے اسلاف نے حفاظت زبان کے بارے میں جو مثالی نمونے پیش فرمائے ہیں وہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہوں نے فضول باتوں سے حفاظت زبان ہمیشہ اپنا شیوہ رکھا اور ’’ ایک چُپ سو سُکھ‘‘ کے مصداق رہے۔ لیکن موجودہ معاشرہ فضول گوئی و بیہودگی میں سابقہ ادوار پر بازی لے گیا۔ گندے مذاق، شغل و یاوہ گوئی معاشرے کے افراد میں خوراک کی حد تک رچ پس گئی ہے۔ جب تک ہم قرآن و سنت اور اسلاف کی پاکیزہ تعلیمات کو اپنا کر اپنی زبان کی حفاظت نہیں کریں گے تب تک ہمارے رزق میں برکت، مال کی فراوانی، عزت و مقام اور جاہ و جلال میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیںِ زبان کی حفاظت کی توفیق دے۔ آمین
علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی    
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
خود کو مفلسی سے بچائیے
کسی بھی چیز کو بناتے وقت انسان کے ذہن میں ایک مقصد ہوتا ہے۔ چھوٹی اور معمولی سی چیز بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں بنائی جاتی۔ شان دار اور مضبوط عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ اس میں رہا جا سکے، لباس بنائے جاتے ہیں تاکہ پہننے اوڑھنے کے ساتھ گرمی سردی سے بچاؤ کے کام آسکیں، برتن بنائے جاتے ہیں تاکہ کھانے پینے کے لیے استعمال ہوں، پیٹ بھرنے کے لیے کھانا بنایا جاتا ہے، اشیائے خور و نوش کے لیے کاشت کاری کی جاتی ہے۔ غرض کوئی بھی چیز بے مقصد وجود میں نہیں لائی جاتی۔ ہر شے کے پیچھے کوئی نہ کوئی ضرورت پوشیدہ ہوتی ہے۔
اسی طرح اربوں کھربوں مخلوقات بھی بے مقصد پیدا نہیں کی گئی۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اسے پیدا کرنے کے بعد دنیا میں بھیجنے کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور وہ ہے ﷲ کی عبادت۔ قرآن حکیم میں فرمان باری کا مفہوم ہے کہ میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہمارا مقصد حیات یہی ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچانیں، اس کی اطاعت کریں، اس کی رضا کو اپنی اولین ترجیح بنائیں اور اسی کی عبادت کریں۔ عبادت صرف نماز روزہ کا نام نہیں بل کہ عبادت دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک میں حقوق ﷲ داخل ہیں اور دوسری قسم حقوق العباد کو شامل ہے۔ اصل کامیابی ان دونوں کی ادائیگی میں ہے۔ کسی ایک پر چلنا اور دوسرے سے غفلت برتنا فلاح کا راستہ نہیں۔
ایک شخص اگر نماز روزے کا پابند ہے، کوئی نماز، کوئی روزہ اس سے قضا نہیں ہوتا ہر وقت ذکر الٰہی میں لگا رہتا ہے مگر اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہیں۔ اور وہ بدزبان و بداخلاق ہو تو محض ان نماز روزوں سے اس کی نجات ممکن نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص صدقے خیرات دیتا ہو مگر احسان بھی جتلاتا ہو تو اس کی یہ نیکی رائیگاں جائے گی۔ والدین و اساتذہ کی نافرمانی، ان سے زبان درازی کرنا، صلۂ رحمی سے غفلت، مسلمان بھائی سے قطع تعلقی رکھنا، کسی کو تکلیف پہنچانا یہ ساری باتیں قیامت کے روز آپ کی نماز روزہ قبول ہونے نہیں دیں گی۔ قیامت کے روز ہر چھوٹی بڑی بات کا حساب ہو گا۔ فرمان باری تعالی کا مفہوم ہے، جو کوئی ذرّہ بھر بھی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور ذرہّ بھر نیکی کا صلہ بھی دیا جائے گا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے پوچھا مفلس کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا جس کے پاس مال و دولت نہ ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز ایک شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس کے اچھے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس نے دنیا میں کوئی زیادتی کی ہو گی وہ آتے جائیں گے اور اپنے حق کے بہ قدر اس کی نیکیوں میں سے لیتے جائیں گے یہاں تک کہ اس کے تمام اعمال ختم ہو جائیں گے مگر حق دار باقی ہوں گے۔ پھر ان تمام حق داروں پر ہوئے ظلم کے بہ قدر ان کے گناہ ان سے لے کر اس شخص کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے یہاں تک کہ اس کی بداعمالیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا اور اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اصل مفلس وہ شخص ہے۔
لہٰذا اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو۔ کسی بھی گناہ کو چھوٹا مت سمجھیں۔ اپنی زبان اور اپنے تمام اعضاء کی حفاظت کریں، کسی کو آپ سے کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے، کسی کی حق تلفی نہ ہو، ناپ تول میں کمی نہ کریں، جھوٹ، دھوکا، لوٹ مار، والدین کی نافرمانی، غیبت، بہتان، بغض، حسد، کینہ، لعن طعن، منافقت ان سب عیوب و گناہوں سے خود کو بچاتے ہوئے نماز روزے و دیگر عبادات کا اہتمام کریں۔ تاکہ آپ کی نیکیاں بہ روز قیامت بھی آپ کے پاس محفوظ رہیں۔ ان پر صرف آپ کا حق ہو کوئی اور حق دار نہ نکل آئے جو آپ کا پلڑا خالی کر کے آپ کی نیکیاں لے جائے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ زندگی کی ��ور ابھی ٹوٹی نہیں۔ خود کو مفلس ہونے سے بچا لیجیے۔
بنت عطاء
0 notes
discoverislam · 5 years
Text
نیکیوں کی حفاظت کیسے کریں ؟
مسلمانوں کی اکثریت نیک کام تو کرتی ہے، مگر نیکیوں کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے اعمال ضایع ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ آج کے موضوع میں وہ اہم کام گنوائے جائیں گے، جن کے کرنے سے آپ کی نیکیاں محفوظ رہیں گی۔ حرام چھوڑ دیں، آپ سب سے بڑے عبادت گزار بن جائیں گے۔ ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑ کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اڑ جاتا ہے‘‘۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کا حال ہم سے بیان کر دیجیے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے اور رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو لیکن وہ لوگ یہ کریں گے کہ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
اللہ تعالی نے جو آپ کی قسمت میں لکھا ہے اس پر راضی ہو جائو، سب سے بڑے غنی بن جائو گے۔ کچھ لوگ دولت مند بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں، مگر افسوس اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو بھوکے بھیڑیے جن کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے، اتنا نقصان نہیں پہنچاتے، جتنا کہ انسان کی حرص، جو مال و جاہ کے لیے ہو، اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘ (ترمذی ) مطلب یہ ہے کہ انسان کی ساری جدوجہد اسی کام پر لگ جائے کہ عزت میں اور مال میں اضافہ ہو، دنیا میں میرا وقار بلند ہو جائے۔ یہ دو بڑی چیزیں انسان کو برباد کر دینے والی چیزیں ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے قسمت میں لکھ دیا ہے، اس پر راضی ہو جائیں تو دنیا کے سب سے بڑے غنی بن جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ساری ضروریات پوری کر دے گا اور تم سے بڑا دولت مند کوئی نہیں ہو گا۔ اگر مومن بننا چاہتے ہو تو پڑوسی سے حسن سلوک کرو۔ اہل محلہ اور پڑوس والوں سے حسن سلوک کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر تلقین فرمائی ہے۔ مگر آج ہمیں اپنے پڑوسیوں کے نام تک نہیں آتے، اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک نہ کرنا بھی ہمارے نیک اعمال کو ضایع کر دیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا ہمسایہ بھوکا سو جائے، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہے۔ اچھا ہمسایہ انسان کی خوش بختی کی دلیل ہے اور انسان کی بدبختی یہ ہے کہ انسان کا ہمسایہ بُرا ہو۔ آپؐ نے فرمایا: تم اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا شروع کر دو، تم مومن بن جائو گے۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا ایمان کی دلیل ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جبریلؑ میرے پاس مسلسل آتے رہے اور آ کر مجھے پڑوسی کے بارے میں اتنی نصیحت کرتے رہے کہ مجھے یہ گمان ہوا کہ جبریل علیہ السلام ہمسائے کو ہمسائے کا وارث بنا دیں گے۔ آج ہمارے معاشرے میں ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنے کی شدید کمی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ کسی نہ کسی وجہ سے ہمارا ہمسایہ ہم سے پریشان ہے۔ آج میں جائزہ لوں کہ میرا ہمسایہ کتنے عرصے سے بیمار ہے، میں کبھی اس کی بیمار پرسی کے لیے نہیں گیا۔ جو اپنے لیے پسند کرو، وہ دوسروں کے لیے پسند کرو، تو مسلمان بن جائو گے۔ مگر معاملہ آج الٹ ہو گیا، میں دوسروں کی ذلت اور اپنی عزت کرانا چاہتا ہوں۔ مسلمان تو وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہے۔ میں اپنی بھلائی کی دعا کرتا ہوں تو اپنے مسلمان بھائی کی بھلائی کی بھی دعا کروں، یہ اسلام ہے۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو معاشرے میں خیر بھر جائے۔
کثرت سے ہنسنا بند کر دو، یہ دلوں کو مردہ کر دیتا ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زیادہ ہنسنے سے ہم زیادہ خوش حال نظر آئیں گے۔ لوگ اپنے اردگرد ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ انہیں زیادہ ہنسنے کا موقع ملے۔ لوگوں کو ہنسانے کے لیے فرضی باتیں کی جاتی ہیں، حالاں کہ اس طرح کرنے سے دل مردہ ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار لعنت فرمائی، اس بندے کے لیے جو بندہ جھوٹ پر مبنی باتیں کرتا ہے، تاکہ لوگ اس پر ہنسیں۔ لوگوں کو ہنسانے سے دل مردہ ہوتے ہیں، اس سے جھوٹ بھی کثرت سے بولا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز میں دیکھ رہا ہوں اگر تم بھی دیکھنا شروع کر دو تو ہنسنا کم کر دو اور رونا کثرت سے شروع کر دو گے۔ اب تو بڑی سے بڑی چوٹ بھی دل پر اثر نہیں کرتی۔ جو زیادہ ہنستا ہے وہ اللہ کے عذاب سے غافل ہے۔
زیادہ ہنسنے سے بچو، اس دل مردہ ہوتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: لوگو تمہارے دلوں میں کوئی ایسا دل نہیں ہے، جس دل کی مثال چاند جیسی نہ ہو، چاند چمک رہا ہوتا ہے، روشنی پھیلا رہا ہوتا ہے کہ اچانک چاند کے سامنے بادل آ جاتے ہیں تو چمکتا ہوا چاند بے نُور ہو جاتا ہے۔ روشنی کھو بیٹھتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اسی طرح مثال ہے تمہارے دلوں کی جو اللہ تعالیٰ نے روشن اور چمکتے ہوئے بنائے تھے۔ لیکن اس دل پر گناہوں کے داغ دھبوں نے پردہ کر دیا ہے، جب تک یہ پردہ ہٹائو گے نہیں تمہارا دل منور نہیں ہو گا۔ ان دلوں پر بربادی ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی مجلسوں کو بابرکت بنائیں، پیارے پیغمبر ﷺ کا پیغام امت تک پہنچائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مفتی عبداللطیف   
0 notes
discoverislam · 6 years
Text
گناہ اور شریعت کی نافرمانی
ہر وہ کام جو شریعت کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف ہو، گناہ کہلاتا ہے۔ اﷲ
تعالیٰ نے جن اعمال کے کرنے سے منع کیا ہے، اس کی اصل حقیقت تو اﷲ رب العزت خود ہی جانتا ہے۔ عقلی اعتبار سے غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان اعمال کے کرنے سے کسی کا حق ضائع ہوتا ہے اور کسی کا حق ضائع کرنا، چاہے وہ اﷲتعالیٰ کا ہو یا کسی مخلوق کا ، نہایت بڑا ظلم ہے۔ یا ان اعمال کے کرنے سے انسانی زندگی کا امن متاثر ہوتا ہو اور معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنا کھلا فساد اور معصیت ہے۔ یا ان اعمال کے نہ کرنے کا حکم اﷲتعالیٰ کی طرف سے بندوں کی آزمائش وامتحان ہے، لہٰذا انسان اگر ان اعمال کو کرتا ہے تو گویا وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اﷲتعالیٰ کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر فسق اور بغاوت اور کیا ہو گی؟
٭ گناہِ کبیرہ کی تعریف
ایسی تمام نافرمانیاں جن کے کرنے پر شریعت کی طرف سے سزا مقرر کی گئی ہو، جن کے کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں لعنت کے الفاظ آئے ہوں، جن کے کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہو، جن کے کرنے پر عذاب کی وعید بیان کی گئی ہو اور جن اعمال کو کافرانہ اعمال کہا گیا ہو وغیرہ وغیرہ یہ گناہ کبیرہ کہلاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گناہ اورنافرمانیوں کو گناہ صغیرہ کہا جاتا ہے، لیکن اگران نافرمانیوں کو عادت بنا لیا جائے تو وہ بھی کبیرہ بن جاتی ہیں ۔ علمائے کرام نے قرآن مجید اور احادیثِ طیبہ کے ذخیرے سے ان اعمال کو جمع فرمایا ہے، جنہیں گناہ کبیرہ کہا گیا ہے ،ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
٭ شرک اور شرک کے علاوہ وہ عقائد اور وہ اعمال جن سے کفر لازم آتا ہے۔
٭ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا۔
٭ جادو سیکھنا، سکھانا اور کرنا، کرانا۔
٭ فرض نماز کو چھوڑنا یا وقت سے پہلے پڑھنا یا قضا کر کے پڑھنا۔
٭ زکوٰۃ بالکل نہ دینا یا پوری نہ دینا۔
٭ بغیر کسی شرعی عذر کے رمضان المبارک کا روزہ چھوڑ دینا یا روزہ رکھ کر توڑ دینا۔
٭ حج فرض ہو جانے کے باوجود نہ کرنا یہاں تک کہ انتقال ہو جائے۔
٭ والدین کو تکلیف دینا اور ان کی نافرمانی کرنا۔
٭ رشتے داروں سے قطع تعلق کرنا۔
٭ زنا کرنا اور کرانا۔
٭ بدفعلی کرنا یا کرانا۔
٭ سود لینا یا دینا یا سودی معاملے کی دستاویز لکھنا یا گواہ بننا۔
٭ ظلماً یتیم کا مال کھانا۔
٭ ﷲ تعالیٰ یا اس کے رسول ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا۔
٭ میدانِ جہاد سے بھاگنا۔
٭ حاکم کا اپنی رعایا کو دھوکہ دینا اور ان کے ساتھ خیانت کرنا۔
٭ تکبر کرنا۔
٭ جھوٹی گواہی دینا۔
٭ شراب یا کوئی نشہ والی چیز بنانا، بنوانا، بیچنا، خریدنا، لاد کر لے جانا، کھانا پینا، کھلانا پلانا وغیرہ۔
٭ جوا کھیلنا۔
٭ کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا۔
٭ مالِ غنیمت میں خیانت کرنا۔
٭چوری کرنا۔
٭ ڈاکہ ڈالنا۔
٭ جھوٹی قسم کھانا۔
٭ کسی پر ظلم کرنا خواہ کسی بھی طرح کا ظلم ہو، مثلاً مارنا، گالی دینا یا کسی کا مال لے لینا۔
٭ حرام مال کھانا، پینا، پہننا یا خرچ کرنا بیچنا، خریدنا، کسی کوتحفہ دینا، ثواب کی نیت سے صدقہ کرنا۔
٭ خودکشی کرنا یا بلا وجہ اپنا کوئی عضو کاٹ دینا۔
٭ لوگوں کے خفیہ حالات کی ٹوہ لگانا تجسس کرنا۔
٭ کاہن یا نجومی وغیرہ کی باتوں کو صحیح ماننا اور ان کی تصدیق کرنا۔
٭ شوہر کی نافرمانی کرنا۔
٭ تصویر بنانا یا گھر میں لٹکانا۔
٭ ﷲ کے کسی ولی کو تکلیف دینا۔
٭ تہہ بند یا شلوار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا۔
٭ ﷲ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو جانا۔
٭ گانے بجانے کا پیشہ اختیار کرنا۔
٭علمائے کرام اور حاملین قرآن کے حق میں بدگوئی کرنا۔
٭ کسی مسلمان کو کافر کہنا۔
٭ ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان انصاف نہ کرنا۔
٭عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔
٭ کھانے کو عیب لگانا۔
٭ کسی کے گھر میں بغیر اجازت نظر ڈالنا یا بغیر اجازت داخل ہونا۔
٭ بیوی کو طلاق بائن ومغلظہ دے دینے کے باوجود اس کے ساتھ میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنا۔
٭ عورتوں کا نامحرموں سے پردہ نہ کرنا۔
٭ مردوں کا عورتوں کی، عورتوں کا مردوں کی شباہت اختیار کرنا۔
٭ ملازم کا طے شدہ فرائض کوانجام نہ دینا۔ وغیرہ وغیرہ
قرآن کریم میں اعمال صالحہ پر کار بند رہتے ہوئے منع کردہ بڑی بڑی برائیوں سے بچنے والوں سے اﷲ تعالیٰ جو قادر مطلق بھی ہے اور مختار کل بھی، پہلا وعدہ یہ فرما رہا ہے کہ ہم تمہاری چھوٹی چھوٹی برائیوں کو معاف فرماتے رہیں گے۔ اس دنیا میں نفس و شیاطین کی دشمنیوں میں پھنسے ہوئے بندوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے زبردست حوصلہ افزائی ہے کہ وہ نفس و شیاطین کے غلبے کی وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ اگر انہوں نے بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کیا تو ہماری طرف سے چھوٹی چھوٹی برائیوں سے درگزر کیا جاتا رہے گا۔
گناہوں کے صادر ہونے کی وجوہات
٭ انسان کے اندر خیر (بھلائی) کے ساتھ ساتھ شر (برائی) کا بھی مادہ رکھا گیا ہے۔
٭ انسان کے ساتھ نفس کو بھی رکھا گیا ہے جو اکثر انسانوں کو برائی ہی کی طرف آمادہ رکھتا ہے اور بھلائی پر خود بڑی مشقت کے بعد آمادہ ہوتا ہے۔
٭ انسان پر اس کے ازلی دشمن شیطان کو ایسی فوقیت دی گئی ہے کہ وہ انسان کے اندر دوڑنے والے خون کی مانند غلبہ رکھتا ہے۔ شیطان ہر طرف سے ہر طرح حملہ آور ہو کر انسان سے گناہ کرانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ کوشش اس ڈھٹائی کے ساتھ جاری رکھتا ہے کہ انسان کے توبہ کر لینے اور ﷲ تعالیٰ کے توبہ قبول کر لینے کے بعد بھی مایوس نہیں ہوتا۔
٭ انسان کے اندر بھول کا مادہ بھی رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات وہ ﷲ تعالیٰ کے مواخذے، اس کی پکڑ، حساب اور سزا کو بھلا بیٹھتا ہے اور اس سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کے مقابلے میں انسان کو مرضی اور ارادے کی قوت دی گئی ہے، صحیح اور غلط کو سمجھنے کی عقل سلیم عطا کی گئی ہے۔ انبیا علیہم السلام کے ذریعے بھلائی اور برائی کے راستوں کو خوب واضح طور پر کھول کھول کر بتلا دیا گیا ہے۔ انسان کے اندر اگر برائی کے راستے پر چلنے کی استعداد ہے تو اسے نیکی کے راستے پر چلنے کی قوت بھی دی گئی ہے۔ ان سب ناقابلِ تردید حقیقتوں کے باوجود اس بات کے امکانات یقینی طور پر تاحیات موجود رہتے ہیں کہ (انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ) صاحب ایمان لوگوں سے گناہ صادر ہوں۔ اس پریشانی کا علاج رب غفورو رحیم نے یہ عنایت فرمایا کہ اعمالِ صالحہ پر کار بند رہو، بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے رہو ،ہم اس کے بدلے تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرماتے رہیں گے۔
گناہ اوربرائیوں کی معافی کی صورتیں ٭ ﷲ تعالیٰ محض اپنے لطف وکرم سے معاف فرما دیں۔
٭ تمام اعمال صالحہ جس میں توبہ بھی شامل ہے کی وجہ سے معاف ہو جائیں۔
٭ ذکرﷲ، تعلیم دین اور دین کی تبلیغی مجلسوں میں شرکت کی وجہ سے معاف ہو جائیں۔
حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر ایک پاکیزہ اور معصوم فطرت ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں سے نفرت کرتا ہے لیکن اگر وہ گناہوں میں مبتلا رہے تویہ فطرت ایسی متاثر ہوتی ہے کہ انسان گناہوں سے نفرت کی بجائے انہیں پسند کرنے لگ جاتا ہے۔ لہٰذا اگر انسان تمام آسانیوں اور ترغیبات کے باوجود اپنے آپ کو بڑے بڑے گناہوں سے بچانے کا پختہ عزم و ارادہ کر لے اوربچنے کی کوشش شروع کر دے تو اس کے نتیجے میں اس کی کھوئی ہوئی فطرت دوبارہ اپنی اصلی حالت پر بحال ہو جاتی ہے اور اسے گناہوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اس حالت کو گناہوں کے معاف ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
مفتی محمد نعیم
0 notes
discoverislam · 8 years
Text
نفرت گناہ سے ہے گناہ گار سے نہیں
 اگر آپ کےکسی قریبی عزیز یا دوست کے کپڑوں پر کوئی نجاست لگ جائے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہوگا؟؟؟
اسے مطلع کریں گے تاکہ وہ اس نجاست کو ہٹا دے یا کپڑے تبدیل کردے۔ 
الجھن یا گِھن نجاست سے ہوگی اور اپنے عزیز یا دوست کے خیال میں یہ تلقین کریں گے۔ 
اسی طرح گناہ بھی کپڑوں میں لگی نجاست کی طرح ہیں۔ 
الجھن یا گِھن کا باعث ہیں۔ 
اور نفرت بھی ان سے ہی ہونی چاہیے۔ 
لیکن ہم گناہ گار سے نفرت شروع کردیتے ہیں۔ 
وہ نجاست صاف بھی کرلے یعنی تائب بھی ہوجائے تو پھر بھی ہم ہتک سے اس کا ذکر کرتے ہیں۔ 
اسے کسی بھی کمزور لمحے میں طعنہ یا تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ 
یاد رکھیں کہ نفرت گناہ سے ہے گناہ گار سے نہیں۔ 
بیشک اللہ ستار العیوب ہے لیکن وہ صمد یعنی بے نیاز بھی ہے۔ 
آپ کے عیوب یا گناہ بھی دنیا کے سامنے آسکتے ہیں۔ 
اور اگر توبہ نہ کی اور دنیا میں گناہ چھپے بھی رہے تو حشر میں اعمال سب کے سامنے ہونگے۔ 
آخرت کی رسوائی تو بہت بڑی ہے اور عذاب اس سے بھی بڑا۔ 
اپنے گناہ گار بہن یا بھائی سے نفرت نہ کریں اور نہ ہی اسے حقیرسمجھیں۔ 
ہاں!پیار پیار سے اسے نجاست یعنی گناہ سے بچنے کی راہ ضرور دکھائیں۔ 
اور ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کی اصلاح کی فکر میں بھی لگے رہیں۔ 
اللہ ہمیں ہر قسم کے تکبر سے محفوظ رکھے۔ 
 آفاق احمد
0 notes
discoverislam · 9 years
Text
خلوت کے گناہ
جوانی کی حفاظت جنت کی ضمانت
آج ھمارا ایمان بالغیب انٹرنیٹ اور موبائیل کے ذریعے آزمایا گیا ھے ،جہاں ایک کلک آپ کو وہ کچھ دکھا سکتی ھے جو ھمارے باپ دادا  دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ھو گئے ،، ھم نے خفیہ گروپ بنا کر اپنے اپنے گٹر کھول رکھے ھیں ،،یستخفون من الناس ،، لوگوں سے تو چھپا لیتے ھیں” ولا یستخفون من اللہ و ھو معھم ،، ” مگر اللہ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ھے ، ھمارا لکھا اور دیکھا ھوا سب ھمارے نامہ اعمال میں محفوظ ھو رھا ھے جہاں سے صرف اسے سچی توبہ ھی مٹا سکتی ھے
یہ سب امتحان اس لئے ھیں تا کہ “لیعلم اللہ من یخافہ بالغیب۔ ” اللہ تعالی جاننا چاہتا ہے کہ کون کون اللہ تعالی سے غائبانہ ڈرتا ہے۔
یہ لکھنے والے ھاتھ اور پڑھنے والی آنکھیں ، سب ایک دن بول بول کر گواھی دیں گے ،،
: { الْيَوْم نَخْتِم عَلَى أَفْوَاههمْ وَتُكَلِّمنَا أَيْدِيهمْ وَتَشْهَد أَرْجُلهمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ )
( یاسین – 65)
” آج ہم انکے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ھم سے بات کریں گے اور ان کے پیر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘
’’ گناہ کے دوران ھمارا کوئی بیوی بچہ یہان تک کہ بلی یا ھوا کا جھونکا بھی دروازہ ھلا دے تو ھماری پوری ھستی ھل کر رہ جاتی ھے ،، کیوں ؟ رسوائی کا ڈر ،، امیج خراب ھونے کا ڈر ،، اس دن کیا ھو گا جب ھماری بیوی بچے اور والدین بھی سامنے دیکھ رھے ھونگے اور دوست و احباب بھی موجود ھونگے ،، زمانہ دیکھ رھا ھو گا اور تھرڈ ایمپائر کی طرح کلپ روک روک کر اور ریورس کر کے دکھایا جا رھا ھو گا ،، ھائے رے رسوائی ،،،،،،،،،،،،،،،،
آج بھی صرف توبہ کے چند لفظ اور آئندہ سے پرھیز کا عزم ھمارے پچھلے کیئے ھوئے کو صاف کر سکتا ھے اور ھمیں اس رسوائی سے بچا سکتا ھے ،، اللہ کے رسول دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاھر سے اچھا کر دے ،،
خلوت کے گناہ انسان کے عزم و ارادے کو متزلزل کر کے رکھ دیتے ھیں یوں ان میں خود اعتمادی اور معاملات میں شفافیت سے بھی ھاتھ دھو بیٹھتا ھے.
اِتَّقِ اللّہ......!
اللّہ تعالٰی ہم سب کی مغفرت فرمائے.
قُل آمِین...!
0 notes