Tumgik
#Backbiting
ynx1 · 3 months
Text
Don’t do loose talk Wallahi it doesn’t benefit you. If you’ve nothing to talk keep quiet , don’t pick a person and backbite them. This costs your duniya as well as Akhirah . Allah will make you to fall in the same trap to humble you. Don’t backbite don’t slander fear Allah alone.
19 notes · View notes
ilmtest · 4 months
Text
Permissible Backbiting
ʿAbd Allah b. Aḥmad b. Ḥanbal said: Abū Turāb al-Nakhshabī came to my father, so my father began to say: “fulān ḍaʿīf, fulān thiqqah (ie: so-and-so is weak, so-and-so is reliable).” وقال أحمد بن مروان الدينوري: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: جاء أبو تُراب النَّخْشبيّ إلى أبي، فجعل يقول أبي: فلان ضعيف، فلان ثقة، So Abū Turāb said: “Do not backbite al-ʿulamāʾ (ie: the scholars) O Shaykh.” فقال أبو تراب: لا تَغْتَبِ العلماء يا شيخ، So he (ie: Imām Aḥmad) turned to him and said to him: “Woe to you, this is naṣīḥah, this is not ġībah (ie: backbiting).” فالتفَت أبي إليه وقال له: ويْحك، هذا نصيحة، ليس هذا غيبة. al-Ḏahabī, Tārīkh al-Islām 5/1181 الذهبي، تاريخ الإسلام ٥/١١٨١ https://shamela.ws/book/35100/9527 @ilmtest [https://t.me/ilmtest]
7 notes · View notes
al-jadwal · 5 months
Text
Warning Against People of Innovation
ʿĀṣim al-Aḥwal said: I sat with Qatādah when ʿAmr b. ʿUbayd (ie: a caller to the beliefs of the Qadariyyah) was mentioned, so he spoke ill of him, and discredited him. وَقَالَ عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ: جَلَسْتُ إِلَى قَتَادَةَ فَذُكِرَ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ فَوَقَعَ فِيهِ، وَنَالَ مِنْهُ، So I said to him: “O Abū ʿl-Khaṭṭāb, I verily see that the scholars they speak ill of each other.” فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا الْخَطَّابِ إِنِّي أَرَى الْعُلَمَاءَ يَقَعُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ، So he said: “O Aḥwal, do you not see that a man if he invents an innovation, then it should be mentioned, so people can take heed.” فَقَالَ: يَا أَحْيُولُ، أَلَا تَرَى أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا ابْتَدَعَ بِدْعَةً فَيَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُذْكَرَ حَتَّى تَحْذَرَ. Abū ʿl-Qāsim al-Taymī Ismāʿil al-Aṣbahānī, Siyar al-Salaf al-Ṣāliḥīn 1/901 أبو القاسم التيمي إسماعيل الأصبهاني، سير السلف الصالحين ١/٩٠١ https://shamela.ws/book/21493/897 Telegram: https://t.me/aljadwal Tumblr: https://al-jadwal.tumblr.com
4 notes · View notes
uma1ra · 1 year
Text
Tumblr media
9 notes · View notes
preacherpollard · 6 months
Text
SELF-INFLICTED WOUNDS
Dale Pollard The sound of devils crying in the night reminded early colonists of Tasmania of mythical hellhounds. As terrifying as their screams sound, Tasmanian devils aren’t much of a danger to humans— but they are to each other.  Not so long ago a vicious cancer began killing these animals and the initial cause of the disease was a mystery. As scientists began studying them they discovered…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
discoverislam · 8 months
Text
غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم
Tumblr media
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں اور اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔ گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین، گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً ’’اللہ تمہیں ہدایت دیں، اللہ تجھے نیک بخت کرے، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
Tumblr media
( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا�� غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ 
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔ میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔ اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔ 
غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔ اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔
اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے، بہت پیٹو ہے۔ سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔
اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔ اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی  
0 notes
zainab123 · 9 months
Link
فقر صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو کر ذاتِ الٰہی کا قرب حاصل کرنے کا سفر ہے۔ اللہ کی صفات سے متصف ہونے کا حکم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیثِ پاک میں فرمایا ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ  ترجمہ: ’’اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔‘‘ یہاں اخلاق سے مراد اللہ کی صفات ہیں جو اس کے اسماء سے ظاہر ہیں کہ وہ رحیم ہے، کریم ہے، رؤف ہے، غفار ہے۔ انہی صفات کو اپنانے سے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔۔۔ مکمل مضمون پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو وزٹ کریں:
0 notes
majestyinfo · 1 year
Text
Tumblr media
“God humiliates the one who spreads the faults of people.” -Hazrat Muhammad Sawaw [Nehjul Fasahat]
For more beautiful quotes please visit:
0 notes
niblogging2 · 1 year
Text
Duplicity- two faced people
What personality trait in people raises a red flag with you? You would have seen many people that would pretend to be your best friend when they need you, they’ll pretend to be your caretaker, but behind your back they are your enemies, they backbite about you. Such people are called Two faced people. I don’t even like the habit of backbiting. It is wrong but backbiting about someone you are…
View On WordPress
0 notes
nangbaby · 1 year
Text
I would rather you @ me and let me respond than block me and talk about me behind my back. The latter means I can never trust anything you say because of your betrayal. The former means you're honest enough to tell me to my face.
1 note · View note
niharikaslernings · 1 year
Text
Today's learning, 01/06/23
I am back with another learning of today. Let's get into the incidence part:-
It was a incident of afternoon. My mother came to me, she was sad. I asked her "what happened?". She replied " You both are our last hope. Study well and become something". I want to know the exact reason, what was exactly inside her mind. So, I asked "tell me the real cause". Then, she told me one of her past incident. She (my mother) and her elder sister once had gone to their mother's house for offering karah. If you don't know what is karah, So let me explain you. Karah has to be offer to goddess Kali, when your wishes are fulfilled. So, when they are done with all the methods that has to be done. My mother left the place but her elder sister (my aunty) touched everyone's feet by money. Then, the one's who got money, they said (let x be my aunty's name and y be my mother's name) "x is charming and very nice women but y is selfish and miser". They had said lots more than this but this much is enough to understand the story. I realised a very important lesson from the incident.
Tumblr media
Learning:- People will say you good if you are rich, if you are good but doesn't have so much money people will say you bad. Everyone is selfish. Money can buy anyone, literally anyone.
1 note · View note
al-jadwal · 7 months
Text
The Open Sinner's Honour
al-Shaykh Taqī al-Dīn (Ibn Taymiyyah) mentioned: “Backbiting a blatant perpetrator of al-muḥarramāt (ie: forbidden deeds) is unanimously permitted by scholars.” وَذَكَرَ الشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ إنَّ الْمُظْهِرَ لِلْمُحَرَّمَاتِ تَجُوزُ غِيبَتُهُ بِلَا نِزَاعٍ بَيْنَ الْعُلَمَاءِ Ibn Mufliḥ, al-Ādāb al-Sharʿiyyah wa ʾl-Minah al-Marʿiyyah 1/255 ابن مفلح، الآداب الشرعية والمنح المرعية ١/٢٥٥ https://shamela.ws/book/21582/254 Telegram: https://t.me/aljadwal Tumblr: https://al-jadwal.tumblr.com
5 notes · View notes
fictionadventurer · 6 months
Text
John's Passion narrative has a never-ending fascination for me, because it's where you get Jesus at his most divine--knowing everything that was going to happen, making the guards fall to their faces when he speaks the name of God--while the people around him are at their most human.
There's an entire political drama going on. Pilate the Roman pagan getting dragged into this provincial Jewish religious dispute. These Jewish leaders and Jesus providing different visions of truth to a politician who doesn't care what the truth is. There's extremely sharp political back-and-forth between the Roman and the Jewish authorities--the Pharisees trying to force Pilate's hand by saying that everyone who makes himself a king opposes Caesar, then Pilate backing them into proclaiming Caesar as their king and twisting the knife of pettiness by labeling Jesus as the Jewish king in four different languages while He hangs on the cross.
Petty, personal, political human drama taking up all their attention.
And meanwhile, God is dying.
396 notes · View notes
fruggin-bitch · 8 months
Text
Yall freaking out about backbiter creating portals like that’s not literally straight from the book is so confusing to me
Tumblr media
Sure it’s not a shiny blue portal carved from a rune(?) but it’s still the sword literally ripping a tear in space so luke can go through
181 notes · View notes
phoenix--flying · 8 months
Text
i love seeing videos of the actors and turning it into a scene for the characters
58 notes · View notes
discoverislam · 1 year
Text
بہتان تراشی کا عذاب
Tumblr media
کسی پر بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔ ایک روایت کا مفہوم ہے: ’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (الزام لگایا، تہمت، یا جھوٹی بات منسوب کی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں، تو ﷲ اسے (الزام لگانے والے، تہمت لگانے والے، جھوٹی بات منسوب کرنے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا (وہ آخرت میں اِسی کا مستحق رہے گا) یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے (دنیا میں) باز آ جائے۔‘‘ (رک جائے، توبہ کر لے تو پھر نجات ممکن ہے) (مسند احمد، سنن ابی داؤد، مشکوۃ المصابیح ) کسی آدمی میں ایسی برائی بیان کرنا جو اس کے اندر نہیں یا کسی ایسے بُرے عمل کی اس کی طرف نسبت کرنا جو اس نے کیا ہی نہیں ہے، افترا اور بہتان کہلاتا ہے۔ مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے، تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔ اگر کوئی شخص کسی پر بغیر تحقیق و ثبوت الزام یا بہتان لگاتا ہے تو شرعاً یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ 
ہمارے یہاں معاشرے کا مزاج بن گیا ہے کہ وہ الزام تراشی اور بہتان کو تیزی سے پھیلانے کا کام کرتے ہیں، اس میں ان کو ایک خاص لذت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ شیطان ان کو اس کام پر ابھارتا ہے اور لایعنی باتوں اور کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، شریعت کے نزدیک یہ عمل انتہائی بُرا، ناپسندیدہ اور انسانیت سے گری ہوئی بات ہے۔ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوٹوک اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت کی وجہ سے کچھ ایسا کر بیٹھو جو بعد میں تمہارے لیے ندامت کا سبب بن جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اس بات کے پیچھے نہ پڑیں جس کا ہمیں علم نہیں، بے شک! کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’مسلمانوں کی بدگوئی نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑا کرو، جو شخص ان کے عیوب کے درپے ہو گا، ﷲ اس کے عیوب کے درپے ہوں گے، اور ﷲ جس کے عیوب کے درپے ہوں گے تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دیں گے۔‘‘ ( ابو داؤد)
Tumblr media
تہمت کا تعلق کسی کی عزت و آبرو سے ہو تو دنیا و آخرت میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، معاشرہ میں تہمت لگانا لوگوں کے معمول کا حصہ بن گیا ہے، اس میں بدگمانی عام ہو جاتی ہے، جو خود ایک گناہ ہے، تجسس کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے، جس سے قرآن کریم میں منع کیا گیا ہے، تہمت اور بہتان کو پھیلانے کی وجہ سے غیبت کا بھی صدور ہوتا ہے۔ جسے اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اس بُرے عمل کی وجہ سے اعتماد میں کمی آتی ہے اور لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں، گویا تہمت ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جو بے شمار گناہوں میں مبتلا کرتی ہے، اس لیے اس سے حد درجہ بچنے کی ضرورت ہے۔ آج کل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا نے اپنی جگہ بنا لی ہے، پہلے خبروں کی ترسیل ایڈیٹر کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، وہ اس کو جانچتے، پرکھتے اور سوچ سمجھ کر شایع کرتے تھے کہ کیا بات حقیقی اور معاشرے کے لیے درست ہے اور کیا نہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لکھنے والے کو آزاد کر دیا ہے، جو چاہے لکھے اور جس پر چاہے کیچڑ اچھال دے، پھر اس پر بحث شروع ہوتی ہے اور ایسی ایسی بدکلامی اور ایسے ایسے نامناسب نکتے پوسٹ کیے جانے لگتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’جو لوگ بدکاری کا چرچا چاہتے ہیں ایمان والوں میں سے، ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے، ﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔���‘ (النور) شریعت میں عزت و آبرو پر تہمت کے معاملہ میں شہادت کے بھی اصول سخت ہیں۔ ابُوداؤد شریف کی روایت ہے کہ جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں تو ﷲ اسے دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا۔ ان آیات و روایات کا حاصل یہ ہے کہ صرف شبہہ کی بنیاد پر کسی کو کوئی شخص طعنہ نہیں دے سکتا، اب اگر کسی شخص سے ان امور میں کوتاہی ہو رہی ہے تو اس کو سمجھایا جائے گا، مگر اسے سرِعام رسوا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، اور بغیر ثبوت شرعی کے کسی کے بارے میں کوئی بات نہیں پھیلانا چاہیے۔ شریعت کی منشاء یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر ثبوت شرعی کے کسی پر الزام یا تہمت نہ لگائے، اگر ایسا کرتا ہے تو اس کی سزا بھی حکومت کی طرف سے ملنی چاہیے، گو یہ سزا ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے بعد دی جاسکے گی۔
کیوں کہ اصل معاملہ اس شخص کا ہے جس پر تہمت لگائی گئی ہے، وہ اگر تہمت لگانے والے پر کوئی دعویٰ نہیں کرتا تو تہمت لگانے والا سزا سے محفوظ رہے گا۔ اﷲ رب العزت نے ہدایت دی کہ افواہ سنی سنائی باتوں کو بنا تحقیق زبان سے نکالنا جائز نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایسی خبروں کے سننے کے بعد مسلمانوں کا کیا رد عمل ہونا چاہیے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے بارے میں حسن ظن کی تاکید کی گئی ہے، کسی انسان پر بغیر کسی شرعی دلیل کے الزام لگانا بہتان ہے۔ جہاں ثبوت نہ ہو وہاں اس طرح کی بے حیائی کی خبروں کو شہرت دینا جس کا مشاہدہ آج کل سوشل میڈیا پر روزانہ ہوتا ہے، سنگین گناہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے، قرآن کریم میں بہتان سے متعلق آیات و احکام کا تعلق خاص واقعہ سے ہے، لیکن اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ عام ہیں، کیوں کہ بعض مخصوص آیتوں کو چھوڑ کر احکام شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے بل کہ حکم عام ہوتا ہے۔ اس لیے واقعہ افک کی وجہ سے جو احکام نازل ہوئے وہ بھی تہمت و بہتان کے باب میں عام ہوں گے۔ 
تہمت کے ایک جملے اور ذرا سی بات کی وجہ سے عبرت ناک انجام ہو سکتا ہے۔ کسی پر بہتان لگانا ﷲ تعالیٰ اس کے رسول ﷺ اور ملائکہ مقربین کی ناراضی کا سبب ہے۔ لوگوں پر بہتان لگانے والے کو معاشرے میں ناپسندیدہ اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ یہ عبرت ناک واقعہ ان لوگوں کو نصیحت کے لیے کافی ہونا چاہیے، جو آج کل سوشل میڈیا کو علم اور ترقی کے استعمال کے بہ جائے، کسی مرد کی، کسی بھی نامحرم عورت کے ساتھ تصویریں جوڑتے ہیں، اس پر گانے لگا دیتے ہیں، دیکھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں، آگے اسے پھیلایا جاتا ہے، اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں ہوتی کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ مفہوم: ’’اور جو شخص کوئی گناہ کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر ﷲ سے معافی مانگ لے تو وہ ﷲ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔‘‘ (سورۃ النساء)  اس آیت کی روشنی میں، ہم سب کو توبہ کرنی چاہیے، دانستہ یا نادانستہ ہم سے یہ گناہ ہو گیا ہے تو ﷲ رب العزت سے سچے دل سے معافی مانگنی چاہیے اور آئندہ ایسی باتوں کو پھیلانے کا سبب نہ بننے کی کوشش کی جائے۔
عالیہ اظہر  
1 note · View note